featured
اخبار میں سونو نگم کی ہرزہ سرائی نظر سے گذری ۔ اور آج (۱۹ ،اپریل)کو ہمارے ایک لیڈر کا سونو نگم کی حمایت میں بیان پڑھا۔سونو نگم کہتے ہیں۔’’خدا سب پر مہربانی کرے ،میں مسلمان نہیں ہوں اور صبح میری نیند اذان سے کھلی ۔ ملک میں کب تک مذہبی رسم و رواج کو زبردستی ڈھونا پڑے گا ‘‘یہ بیان صرف مسلمانوں پر چوٹ نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں پر چوٹ ہے ۔اسلئے سبھی کو ان سے پوچھنا چاہئے کہ پھر وہ بھجن کیوں گاتے ہیں۔اور آئندہ بھجن گوانے والوں کو بھی سونو نگم کی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے۔ویسے وہ جس پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اس میں اس قسم کی باتیں کرنا پیشے کی مجبوریوں میں شمار ہوتی ہیں۔وہ لوگ کپڑے اتارتے ہیں تو اسلئے کہ وہ خبر بن جائے اور اگر کپڑے زائد پہن لیتے ہیں تو بھی اسلئے کہ وہ بھی خبر بن جائے ۔پھر آجکل تو ان کا مارکیٹ بڑا ڈاؤن چل رہا ہے اسلئے وہ جو نہ کریں کم ہے۔ مسئلہ ہمارے لیڈر کا ہے ۔اسے کس کتے نے کاٹ لیا تھا ۔اپنے لیڈروں کے تعلق سے ہمارا احساس یہ رہاہے کہ وہ واقعتا مسلمان ہوتے بھی ہیں یا نہیں ؟یہ معاملہ مشکوک ہے !ہمارے یہ مذکورہ لیڈر جن کا نام احمد پٹیل ہے غلام نبی آزاد کی طرح برسوں سے گاندھی خاندان کی ناک کا بال بنے ہوئے ہیں۔ان کی دیرینہ کارکردگی یہ ہے کہ جب ساری دنیا کانگریس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی یہ کانگریس سے چپکے ہوئے تھے۔ یہ اپنی قوم کے کم کیا بالکل وفادار نہیں رہے ہیں ان کی ساری وفاداری گاندھی خاندان یا کانگریس کے ساتھ رہی ہے ۔اور احسان جعفری کا حشر دیکھنے کے بعد بھی اس میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔موصوف اپنی حالیہ حمایت میں کہتے ہیں ’’اذان نماز کا حصہ ضرور ہے لیکن جدید تکنیک کے دور میں لاؤڈاسپیکر کی ضرورت نہیں ہے ‘‘اگر واقعتا ان کے الفاظ یہی ہیں تو ہمیں ان کا مطلب پلے نہیں پڑا۔شاید ان کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ لاؤڈاسپیکر کو مسجد کے میناروں پر لگانے کی بجائے چھوٹے چھوٹے اسپیکر ہر اس گھر میں لگا دیئے جائیں جسے اذان سننی ہو یہ مشورہ ،اگر واقعتا اس کا یہی مطلب ہے تو بہت اچھا ہے ۔ہم صد فی صد اس سے اتفاق کرتے ہیں ۔بس شرط اتنی ہے کہ ہر گھر میں اسپیکر لگانے کا خرچ جناب احمد پٹیل صاحب برداشت کریں ۔قوم ان کا یہ احسان تا عمر نہیں بھولے گی۔
ایک بار پھر سونو نگم کی طرف لوٹتے ہیں۔خبریں یہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر کے آس پاس مسجد نہیں ہے تو کیا وہ کسی دوسرے کے گھر سو رہے تھے یہ شو بز والوں کے لئے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔تو کیا شو بز کی دنیا سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کے بیڈروم میں AC نہیں ہے اور AC ہونے کے باوجود ان کے بیڈ روم میں دنیا بھر کی آوازیں گھس سکتی ہیں ۔ہم تو شوبز والوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کے وہ ٹی وی اداکاراعجازخان کی طرح فرقہ پرستی اور ملک میں پھیلنے والی بے چینی کے خلاف آواز اٹھائیں گے یہ صرف بہادری کا کام نہیں ہے بلکہ ان کے مفادات کا بھی تقاضہ ہے ۔فنون لطیفہ ملک کے موجودہ حالات میں پھل پھول نہیں سکتے۔نریندر دابھولکر ،گووند پنسارے اور ملیشپا کلبرگی نے آخر کیوں اپنی جانیں قربان کیں۔ اسی لئے ہمیں لگتا ہے کہ سستی شہرت کی خاطر وہ بیان بازی کر بیٹھے ہیں۔دوسری طرف ہمارے لیڈر کی ان کی حمایت میں اٹھنے والی آواز سے وہ خوف جھلک رہا ہے جو بی جے پی کی یو پی میں دو تہائی سے زائد کی اکثریت سے فتح نے مسلمانوں میں پھیلا رکھا ہے۔آج وطن عزیز میں مسلمانوں میں شاید ہی کوئی قابل لحاظ دانشور ایسا ہو جو مسلمانوں اور ملک کی اس حالت کا ذمے دار کانگریس کو نہ مانتا ہو ۔ اس کے باوجود کانگریس کے ایک مسلمان لیڈر کا بیان نوٹ کرنے کے قابل ہے ۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ کانگریس نے آج بھی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ۔وہ آج بھی اپنی نرم ہندتو کی لٹیا ڈبو دینے والی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہے ۔ ہم اپنے مضامین میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں اور ایک بار پھر لکھ رہے ہیں کہ ہمیں جس قسم کے لیڈر میسر ہیں (چاہے سیاسی ہو یا مذہبی) جس طرح کی حماقتیں وہ کرتے ہیں ، فرقہ پرستی کے سامنے جس طرح وہ پسپائی اختیار کرتے ہیں ایک وقت آئے گا کہ حکومت کہے گی نماز کے لئے مسجد کی ضرورت کیا ہے۔نماز گھر میں بھی پڑھی جا سکتی ہے ۔آپ لوگ نماز کے لئے مسجد میں جمع ہو کر حکومت کے خلاف سازشیں کرتے ہو ،لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکاتے ہو تو حکومت کے اس موقف کو سب سے پہلے جو حمایتی میسر آئے گا وہ ہمارا ہی کوئی مسلمان نمالیڈر ہوگا ۔اور وہ حکومت کے اس موقف کی حمایت میں جو دلائل فراہم کرے گا اسے سن کر خودحکومت کا حال جو بھی ہو ہم مسلمان بھی عش عش کر اٹھیں گے ۔انتظار کیجئے ۔کچھ ہی دنوں میں یہ نظارہ بھی شاید دیکھنا پڑے۔ ’’شاید‘‘ہمارے اپنے لئے۔ہم عمر کے آخری پڑاؤ میں ہیں۔
انتظار کیجئے
ممتاز میر۔07697376137
اخبار میں سونو نگم کی ہرزہ سرائی نظر سے گذری ۔ اور آج (۱۹ ،اپریل)کو ہمارے ایک لیڈر کا سونو نگم کی حمایت میں بیان پڑھا۔سونو نگم کہتے ہیں۔’’خدا سب پر مہربانی کرے ،میں مسلمان نہیں ہوں اور صبح میری نیند اذان سے کھلی ۔ ملک میں کب تک مذہبی رسم و رواج کو زبردستی ڈھونا پڑے گا ‘‘یہ بیان صرف مسلمانوں پر چوٹ نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں پر چوٹ ہے ۔اسلئے سبھی کو ان سے پوچھنا چاہئے کہ پھر وہ بھجن کیوں گاتے ہیں۔اور آئندہ بھجن گوانے والوں کو بھی سونو نگم کی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے۔ویسے وہ جس پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اس میں اس قسم کی باتیں کرنا پیشے کی مجبوریوں میں شمار ہوتی ہیں۔وہ لوگ کپڑے اتارتے ہیں تو اسلئے کہ وہ خبر بن جائے اور اگر کپڑے زائد پہن لیتے ہیں تو بھی اسلئے کہ وہ بھی خبر بن جائے ۔پھر آجکل تو ان کا مارکیٹ بڑا ڈاؤن چل رہا ہے اسلئے وہ جو نہ کریں کم ہے۔ مسئلہ ہمارے لیڈر کا ہے ۔اسے کس کتے نے کاٹ لیا تھا ۔اپنے لیڈروں کے تعلق سے ہمارا احساس یہ رہاہے کہ وہ واقعتا مسلمان ہوتے بھی ہیں یا نہیں ؟یہ معاملہ مشکوک ہے !ہمارے یہ مذکورہ لیڈر جن کا نام احمد پٹیل ہے غلام نبی آزاد کی طرح برسوں سے گاندھی خاندان کی ناک کا بال بنے ہوئے ہیں۔ان کی دیرینہ کارکردگی یہ ہے کہ جب ساری دنیا کانگریس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی یہ کانگریس سے چپکے ہوئے تھے۔ یہ اپنی قوم کے کم کیا بالکل وفادار نہیں رہے ہیں ان کی ساری وفاداری گاندھی خاندان یا کانگریس کے ساتھ رہی ہے ۔اور احسان جعفری کا حشر دیکھنے کے بعد بھی اس میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔موصوف اپنی حالیہ حمایت میں کہتے ہیں ’’اذان نماز کا حصہ ضرور ہے لیکن جدید تکنیک کے دور میں لاؤڈاسپیکر کی ضرورت نہیں ہے ‘‘اگر واقعتا ان کے الفاظ یہی ہیں تو ہمیں ان کا مطلب پلے نہیں پڑا۔شاید ان کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ لاؤڈاسپیکر کو مسجد کے میناروں پر لگانے کی بجائے چھوٹے چھوٹے اسپیکر ہر اس گھر میں لگا دیئے جائیں جسے اذان سننی ہو یہ مشورہ ،اگر واقعتا اس کا یہی مطلب ہے تو بہت اچھا ہے ۔ہم صد فی صد اس سے اتفاق کرتے ہیں ۔بس شرط اتنی ہے کہ ہر گھر میں اسپیکر لگانے کا خرچ جناب احمد پٹیل صاحب برداشت کریں ۔قوم ان کا یہ احسان تا عمر نہیں بھولے گی۔
ایک بار پھر سونو نگم کی طرف لوٹتے ہیں۔خبریں یہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر کے آس پاس مسجد نہیں ہے تو کیا وہ کسی دوسرے کے گھر سو رہے تھے یہ شو بز والوں کے لئے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔تو کیا شو بز کی دنیا سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کے بیڈروم میں AC نہیں ہے اور AC ہونے کے باوجود ان کے بیڈ روم میں دنیا بھر کی آوازیں گھس سکتی ہیں ۔ہم تو شوبز والوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کے وہ ٹی وی اداکاراعجازخان کی طرح فرقہ پرستی اور ملک میں پھیلنے والی بے چینی کے خلاف آواز اٹھائیں گے یہ صرف بہادری کا کام نہیں ہے بلکہ ان کے مفادات کا بھی تقاضہ ہے ۔فنون لطیفہ ملک کے موجودہ حالات میں پھل پھول نہیں سکتے۔نریندر دابھولکر ،گووند پنسارے اور ملیشپا کلبرگی نے آخر کیوں اپنی جانیں قربان کیں۔ اسی لئے ہمیں لگتا ہے کہ سستی شہرت کی خاطر وہ بیان بازی کر بیٹھے ہیں۔دوسری طرف ہمارے لیڈر کی ان کی حمایت میں اٹھنے والی آواز سے وہ خوف جھلک رہا ہے جو بی جے پی کی یو پی میں دو تہائی سے زائد کی اکثریت سے فتح نے مسلمانوں میں پھیلا رکھا ہے۔آج وطن عزیز میں مسلمانوں میں شاید ہی کوئی قابل لحاظ دانشور ایسا ہو جو مسلمانوں اور ملک کی اس حالت کا ذمے دار کانگریس کو نہ مانتا ہو ۔ اس کے باوجود کانگریس کے ایک مسلمان لیڈر کا بیان نوٹ کرنے کے قابل ہے ۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ کانگریس نے آج بھی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ۔وہ آج بھی اپنی نرم ہندتو کی لٹیا ڈبو دینے والی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہے ۔ ہم اپنے مضامین میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں اور ایک بار پھر لکھ رہے ہیں کہ ہمیں جس قسم کے لیڈر میسر ہیں (چاہے سیاسی ہو یا مذہبی) جس طرح کی حماقتیں وہ کرتے ہیں ، فرقہ پرستی کے سامنے جس طرح وہ پسپائی اختیار کرتے ہیں ایک وقت آئے گا کہ حکومت کہے گی نماز کے لئے مسجد کی ضرورت کیا ہے۔نماز گھر میں بھی پڑھی جا سکتی ہے ۔آپ لوگ نماز کے لئے مسجد میں جمع ہو کر حکومت کے خلاف سازشیں کرتے ہو ،لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکاتے ہو تو حکومت کے اس موقف کو سب سے پہلے جو حمایتی میسر آئے گا وہ ہمارا ہی کوئی مسلمان نمالیڈر ہوگا ۔اور وہ حکومت کے اس موقف کی حمایت میں جو دلائل فراہم کرے گا اسے سن کر خودحکومت کا حال جو بھی ہو ہم مسلمان بھی عش عش کر اٹھیں گے ۔انتظار کیجئے ۔کچھ ہی دنوں میں یہ نظارہ بھی شاید دیکھنا پڑے۔ ’’شاید‘‘ہمارے اپنے لئے۔ہم عمر کے آخری پڑاؤ میں ہیں۔
0 comments: