featured
مشاورت ،اجتماعیت،مشارکت
دوٹوک..................................قاسم
سید
اترپردیش میں بی جے پی کابرسراقتدار آنا اوریوگی آدتیہ ناتھ کا وزیراعلیٰ
بننا سیاسی عمل کا روایتی حصہ ہے اس کے مستقبل کی قومی سیاست پر گہرے اثرات مرتب
ہوں گے اور پوت کے پائوں پالنے میں نظرآنے لگے ہیں۔ اب بی جے پی کے پاس قانونی وآئینی
اختیارات والے دو یوگی ہوگئے۔ ایک کے ہاتھ میں پورے ملک کی قیادت ہے تو دوسرا ملک
کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ ممبرپارلیمنٹ دینے والی ریاست کی باگ ڈور سنبھال رہا
ہے ۔ دونوں کرم یوگی ہیں اور زمین سے جڑے لیڈر ہیں ۔ سخت تپسیا اور زبردست جدوجہد
کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں۔ دونوں سخت گیرہندوتو کے علمبردار ہیں ۔ آر ایس ایس کے
تربیت یافتہ ہیں جس کا قیام 1925 میں ہوا جب ملک جنگ آزادی کی لڑائی میں مصروف
تھا۔ آر ایس ایس نےاپنے نظریات وفلسفہ کو چھپاکر نہیں رکھا ۔ اس پر شرمندگی یا
تاسف کااظہار نہیں کیا بلکہ خاموشی کے ساتھ سماجی زندگی کے ہر شعبہ میں سرگرمیاںانجام
دیتا رہاہے اور آج لاکھوں رضا کار وں پر مشتمل فوج پوری توانائی کے ساتھ ہندوستانی
سیاست کی شہ رگ پر قابض ہے اورکوئی بھی پتہ اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔وزرائے اعلیٰ
اور کابینہ کے انتخاب میں اس کا مکمل عمل دخل ہے حتیٰ کہ سرکار کے ساتھ تال میل کے
لیے رابطہ کمیٹی ہے۔ اس نے یہ مقام گھر بیٹھے حاصل نہیںکیابلاشبہ اس کے کارکنوں
اور رضاکاروں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ شادیاںنہیں کیں،مجردرہنا گوار کیا اور تن
من دھن سے نظریاتی آبیاری میں لگے اور 1925میں لگایاپوداتناور درخت میں تبدیل ہوگیا
اور وہ منزل وہ ہدف جو کبھی دیوانے کا خواب لگتا تھا آج حقیقت بنتا نظر آرہا ہے۔
یعنی ہندو راشٹر کا قیام یا کم از کم ہندوتو کے مطابق ملک کی سیاست کو چلانے کی
باتیں اب گالیاں نہیں سمجھی جاتیں اور نہ ہی کسی میں گلا پکڑنے کی ہمت ہے بلکہ جو
پارٹیاں خود کو سیکولر کہلاتی ہیں وہ بھی’ سجدہ ‘سہو کرنے کے لیے تیارہیںاور اقلیت
نوازسیاست کو خیرباد کہنے میں ہی عافیت سمجھ رہی ہیں جیساکہ کانگریس کی صفوں سے رہ
رہ کر ایسی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ اگرآنے والے وقت میں اقلیتوں کے لیے نشستیں
مخصوص کردی جائیں ،ان کے انتخاب میں حصہ لینے اور ووٹنگ پر پابندی لگادی جائے تو
کسی کو تعجب نہیں ہوگا کیونکہ آرایس ایس کے نظریہ سازوں کے احکامات وفرامین یہی ہیں
ملک کی سیاست جس طرح کروٹیں بدل رہی ہے اور ہم نان وقلیہ کی حدوں سے باہر آنے پرآمادہ
نہیں ہیں اس میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ میٹ کاروبار کے خلاف اچانک جس طرح کے اندیشوں
نے جکڑلیا ہے کیا اتنی سختی اور مستعدی کے بارے میں تصور بھی تھا ۔ گئورکشکوں کے
ہاتھوں سرعام جس شقاوت قلبی اور درندگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے کیا ایسے واقعات اب
عام نہیں ہوتے جارہے ہیں ۔ وزیراعظم کی سخت تنبیہ اور گئورکشکوں کی اکثریت کو سماج
دشمن غنڈوں سے تشبیہ دینے اور ان پرکارروائی کی ہدایت کے باوجود ریاستی حکومتوں نے
تحفظ فراہم کیا اور ان کی قانون شکن حرکتوں کا دفاع کیاجارہاہے ۔ کچھ عرصہ قبل ایسا
سوچا جاسکتا تھا۔ اخلاق کے بہیمانہ قتل پر سول سوسائٹی ہی نہیں اپوزیشن نے بھی سخت
احتجاج کیا اب پہلوخان کے گائے کے نام پر سرعام بے رحمانہ قتل پر اتنی آوازیں اٹھیں
شاید نہیں! یہ بے حسی نہیں احتیاط ہے یہ صبروتحمل نہیں مصلحت پسندی ہے۔ یہ بزدلی
نہیں حالات سے سمجھوتہ ہے۔ سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں نے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے
ہیں ان میںکئی پارٹیاں یہ مان چکی ہیں کہ عوام مودی سرکار کو ایک اور موقع دیں گے
اس لیے زیادہ ہاتھ پیر چلانے کی ضرورت نہیں۔
2025میں آر ایس ایس اپنے قیام کا
سوسالہ جشن منائے گا اس کا ہدف ہندو راشٹر کی تعمیر ہے اگر 2019 میں مرکز اور
2022میں اترپردیش پر اس کاقبضہ برقرار رہتا ہے تو 2025تک یہ اعلان شدہ ہندوتو
راشٹر بن جائے گا غیر اعلان شدہ تو کانگریس کے دوراقتدار سے ہی ہے اور اب سب کچھ
ہاتھ میں ہے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دوردرشن کے دیے گئےحالیہ انٹرویو
میں بے باکی سے کہا ہے کہ وہ یہ بات صفائی سے کہناچاہتے ہیں کہ ہندو تو راشٹر کا
تصور غلط نہیںہے اور ہندوتو اس کا راستہ ہے جس کی وکالت سپریم کورٹ نے کی ہے ۔ شاید ہی کسی آئینی عہدہ پر بیٹھے شخص نے اتنی
جرأت کے ساتھ ہندوراشٹر کے خواب کاتذکرہ کیاہو اور سیکولر ملک نے اس کا کوئی نوٹس
نہیںلیا ۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ غیر قانونی ذبیحہ خانوں پر تالہ بندی
اوراینٹی رومیواسکواڈ کے قیام کو
اولین ترجیحات میں کیوں شامل کیاگیا۔ کیوں میڈیا کا رویہ اورطریقہ بدل گیا۔ کیوں
یوگی کو آسمانی مخلوق قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے کیوں ایسے اقدامات جن پر الٰہ
آباد ہائی کورٹ میں سوال اٹھتارہا ہے سماجی منظوری کا درجہ حاصل کررہے ہیں کیوں
گائے کے تقدس اور سنسکرتی کے تحفظ کو انقلابی اقدامات کہہ کر سندقبولیت عطا کی
جارہی ہے اسکولوں میں یوگ کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ واہ واہی لوٹ رہا
ہے ۔ دراصل ہندوگوروکے لبادہ میں ہر وہ قدم دادوتحسین کے ساتھ قبول کیاجائے گا جس
کو مہذب سماج عام صور ت میں قبول نہیں کرسکتا ۔ دراصل سیکولر پارٹیوں کا رویہ شروع
سے ہی منافقانہ وعیارانہ تھا البتہ سول سوسائٹی دل سے سیکولر اقدار کے لیے قربانیاں
دیتی رہی ہے اور یہی سول سوسائٹی ہے جو اکثریتی فاشزم سے لوہا لے رہی ہے اور حکومت
کے خاص نشانہ پر ہے۔ یوگی کاہندو راشٹر سے متعلق بیان ان کے عزائم ارادوں اور طریقہ
کار کو سمجھنے میں معاون ہے اور ان کے حالیہ اقدامات کی توجیہہ تلاش کرنے میں مدد
کرنے والا ہے ۔ ہمیں نہیںپتہ کہ سیکولر پارٹیاں سول سوسائٹی اور مسلم قیادت اسے کس
زاویہ سے دیکھناچاہے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی یہ سمجھنے کے لیے تیار ہیں کہ آنے والا وقت خطروں
اور چیلنجوں سے بھرا ہے اگر ایسانہیں ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیںہے۔راوی عیش لکھے
گا ۔ اگر ہمیں لگتا ہے کہ حالات لگاتار غیر موافق ہوتے جارہے ہیں اور راہیں دشوار
تو پھر اس پر غور کرناپڑے گا کہ کرناکیا چاہئے۔
جہاں تک مسلم قیادت کا تعلق ہے اس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے پہلے جب
بھی کوئی آزمائشی لمحہ آتا تو سارے زعماایک ساتھ بیٹھ کر سرجوڑ کر اس کا حل نکال
لیتے تھے۔ کوئی کسی کے گھر جانے میں تکلف نہیں برتتاتھا اور نہ ہی ذاتی تحفظات کی
دیوار یں اتنی اونچی تھیں کہ آواز بھی سنائی نہ دے ۔ قدم قدم پر مسلمانوں کو
حوصلہ دیتے ہمت بندھاتے ضرورت ہوتی تو ملک گیر دورے کرتے اور اتحاد کا احساس کرانے
بدقسمتی سے رشتوں میں خیرسگالی اور مواخاۃ کا تصور کمزور ہوتا گیا ہے اور اب حالت یہ
ہے کہ سب اپنے خول میں بند ہوگئے۔ اپنی مسجد اپنی اذاں نے اجتماعیت کے تصور کو زخمی کردیا،حیرت ہوتی ہے کہ قرآن
وحدیث کا سوتے جاگتے ورد کرنے والے بھی اسلام کے تصور اجتماعیت کوکتابوں سے باہر
نہیں آنے دیتے ۔ بہرحال باہمی مشاورت سے بہتر اورکوئی راستہ نہیں ہے ۔ جماعتی
دائروں اور ذاتی تحفظات سے بالاتر ہوکر ایک جگہ مل بیٹھنے میں ہی فلاح ہے۔ اشتراک
عمل کی گنجائش نکالی جائیں اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ،مشترکہ لائحہ عمل
بنایاجائے ۔ مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لا بورڈ جیسے اجتماعی اداروں کی ذمہ
داری زیادہ ہے ۔ ہمیں ان پر اعتماد کرناہوگا۔ مسلم قیادت اور عام مسلمان میں عدم
اعتماد کی خلیج بڑھتی جارہی ہے کیونکہ دونوں میں باہم کوئی رابطہ نہیں ۔ وہیں
سرکار وںکے ساتھ اپنے رویہ پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے فائدے اور
نقصانات کی وضاحت کی جائے ۔ کیامودی سرکار کی طرح یوگی سرکار سے بھی ڈائیلاگ کا
دروازہ بند رہے گا ۔ ان کے دعوت دینے کا انتظار کیا جائے گا کیونکہ یہ موقف کلی
طور پر ناقابل فہم ہے کہ آپ اپنے ملک کی سرکاروں سے رابطوں کی تمام زنجیروں کو
کاٹ دیں اور اجنبی کی طرح ملک میں رہنے پر مجبور کئے جائیں۔ موجودہ حالات میں
اشتراک عمل اور مسائل پر سرکار وں سے ڈائیلاگ کے علاوہ او رکوئی راہ عمل ہو تو
براہ کرم اس سے آگاہ کیاجائے ۔ عنداللہ ماجور ہوںگے ۔
0 comments: