featured
عوامی رائے کا قتل!
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
جمہوریت اظہار رائے کی آزادی کا نام ہے۔ پوری دنیا میں جو انتہائی پسندیدہ نظام ہے اسے رائے کی آزادی کے حوالے سے جمہوریت ہی کہا جاتا ہے۔ جمہوریت سے محروم ملک ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا ملک اس نعمت سے مالا مال ہے۔ 1947 سے اب تک جمہوری حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں، ہمارا آئین او رہماری عدلیہ سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں۔ ہر الیکشن کے بعد کامیاب ہونے والے افراد ہوں یا سیاسی جماعتیں، سبھی اپنے سیکولر آئین پر حلف لیتی ہیں۔ ہمارے آئین نے جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی ہے ان میں اظہار خیال کی آزادی کے حق میں یا اس کے حق کو بلاخوف تردید غیر معمولی اہمیت کا حامل اور فرد و ریاست کے باہمی تعلقات کی میزان قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی بھی کچھ حدیں ہیں، کچھ بندشیں ہیں جنہیں کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس آئین میں آزادی اظہار رائے اور تحریر و تقریر کی آزادی دی گئی ہے اسی میں ریاست کی سلامتی، امن عامہ و اخلاقیات، توہین عدالت جیسے عنوانات کے تحت اس کے گرد ایک ایسا حصار بھی قائم کردیا گیا ہے جس کے احترام کی صورت میں ہی یہ آزادی عملاً بامعنیٰ بن سکتی ہے اور ریاست کے ساتھ ٹکرائو سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ معاملہ اگر مذہبی عقائد کا، مذہبی شخصیتوں اور مذہبی روایات کا ہو تو یہ بات اور بھی ضروری ہوجاتی ہے کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پا ئے۔ صحت مند تنقید اور اشتعال انگیز تنقیص کے فرق کو نظر انداز نہ کیا جائے اور زبان و بیان دونوں ہی کے معاملے میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ شہریوں کے کسی بھی گروہ، فرقے یا طبقے کے جذبات و احساسات مجروح نہ ہوں۔ یہی ہونا چاہیے مگر افسوس کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر زبان و قلم کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی رِدا کو تار تار کردینے اور فضا کو نفرت کے انگاروں سے بھر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، کر رہے ہیں ملک و سماج پر، لوگوں کی سوچ پر اس کے کتنے مضر اور منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح انتخابات کے موقعوں پر جو لوگ اظہار رائے کا احترم نہیں کرتے وہ گھاٹے کا سودا کرتے ہیں کیونکہ حقوق پر ڈاکے کی بدترین شکل بھی ہے کہ لوگوں کی زباں بندی کردی جائے یا ان کی رائے کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ مصنوعی طریقوں اور جعل سازی کے بل پر حاصل کیا گیا اقتدار ریت کی بودی دیوار کی مانند ہوتا ہے جو ہوا کا ایک تیز جھونکا بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ ماضی میں ملک کے عوام نے اندرا گاندھی کے دور حکومت میں دیکھا تھا کہ انتخابی دھاندلی کے نتیجے میں انہیں ایک دن کی جیل یاترا بھی کرنی پڑی تھی۔ ہمارے سیکولر ملک کی اور سیکولر آئین کی یہ زریں مثال ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے سیاست دانوں کو تاریخ سے سبق لینے کی توفیق کم ہی ہوتی ہے۔
پچھلے انتخابات کی طرح ہی اس بار بھی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی ناقابل یقین کامیابی پر تمام سیکولر پارٹیاں شکوک و شبہات کا اظہار بھی کر رہی ہیں او راس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی بھی کر رہی ہیں اور عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی دے دیا ہے۔ کتنی حقیقت کتنا فسانہ ہے یہ آنے والے وقتوں میں ظاہر ہوجائے گا۔ ہاں اگر ہاری ہوئی پارٹیوں کے دعوے میں سچائی ثابت ہوگئی تو یہ ملک کے آئین اور سیکولرزم کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوگی۔ اس لیے بھی کہ اس وقت جو لوگ ملک کے اقتدار پر قابض ہیں وہ سیکولرزم کے برعکس اپنا مخصوص نظریہ رکھتے ہیں جو کسی بھی حال میں اقتدار سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ایسے حالات میں سیکولر آئین اور عوام کی حق را ئے دہی دونوں کی روح مجروح ہوگی۔
آج ہمارے جو لوگ عوام کی رائے کا جائزہ لینے کے لیے الیکشن کا کھیل کھیلتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایسے انتخابات جن میں جعلی ووٹنگ، دھاندلی اور جبر سے نتائج کی تبدیلی کے ذریعے عوام کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کیا جاتا ہے کیا ان کا یہ عمل کسی سیکولر ملک کے لیے مفید ہے؟
کروڑوں روپوں کا خرچ، قوم کا وقت، صلاحیتیں اور سرمایہ ضائع کرکے اگر اپنی مرضی کے مطابق ہی نتائج حاصل کرنا مقصود ہے تو پھر انتخابی ڈرامہ رچانے کی ایسی کیا مصیبت پڑتی ہے اور قوم کی مایوسیوں میں مزید اضافہ کی ضرورت کیا ہے؟ برسوں سے عوام بھی تماشہ دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے بھاری مینڈیٹ کو پیروں تلے روندا جاتا رہا ہے اور اقتدار پر قبضہ کے لیے نت نئے حربے استعمال ہوتے رہتے ہیں اور ایسے غاصبانہ حکومتوں کے دور میں عوام مصائب و مشکلات کے پہاڑ تلے دبتے رہے ہیں۔ عوام کو طرح طرح کے مسائل اور دال روٹی کے چکر میں تو کبھی مندر/ مسجد کے قضیے میں بری طرح الجھا دیا گیا۔ حالات اتنے سنگین ہوتے گئے کہ عوام کی قوت مدافعت کمزور سے کمزور ہوتی گئی۔
اس طرح ہر الیکشن اب عوام کے لیے راحت کے بجائے عذاب بنتا جارہا ہے۔ اکثر خبریں سننے میں آتی رہی ہیں کہ فلاں حلقے میں دھونس، دھمکی اور اسلحہ کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح عوام کو بے بس کردیا جاتا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کو اپنا ووٹ دینے پر مجبو رہوجاتے ہیں۔ ای وی ایم مشینو ںسے چھیڑ چھاڑ کی شکایت بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔
الیکشن کے موقع پر ہمارے میڈیا کی بھاری ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ حقائق کو سامنے پیش کرتا رہے لیکن یہ بھی بعض حالات میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرپاتا۔ کہیں لالچ تو کہیں دھمکی کے سامنے یہ بھی خود کو بے بس پاتا ہے جس کی وجہ سے سیاست دانوں کے پیدا کردہ اس مصنوعی کھیل کے اصل حقائق کو یہ پیش کرنے سے بھی معذور ہیں۔ یوں تو سوشل میڈیا وغیرہ اب اتنے آگے ہیں کہ کوئی بھی چیز اس دور میں چھپ نہیں سکتی لیکن بہت سی وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے ان لوگوں کو دن کو بھی رات ہی کہنا پڑتا ہے۔ اس طرح ہمارا میڈیا بھی سیاست دانوں کی طرح ہر الیکشن کو ’صاف و شفاف‘ کہنے پر مجبور ہے۔
غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام عمل سیکولرزم کے نام پر ہو رہے ہیں، جہاں عوامی رائے کا قتل سرے عام، جہاں پریذائڈنگ افسر رائے دہندگان کی انتخابی پرچی چھین کر خود حق رائے دہی انجام دیتا ہے اور جب کوئی اس طرح کی حرکت کرتے پکڑا جاتا ہے تو ذمہ داران اپنی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ یوں تو الیکشن کمیشن کا بھرپور عملہ بھی ہوتا ہے لیکن وہ بھی سیاست دانوں کی طرح ہی یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ الیکشن صاف و ستھرا اور شفاش ہوئے ہیں۔ مگر وہ کہاں ہیں الیکشن کمیشن جو دیگ کا ایک دانہ دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ دیگ کچی ہے یا پکی؟
موجودہ حالات ملک کے سیکولر کردار کے لیے انتہائی سنگین ہیں۔ اگر اس صور تحال پر قابو نہیں پایا گیا تو عین ممکن ہے لوگوں کا ہمارے الیکشنی عمل سے بھروسہ ہی ختم ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کے لیے قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ خاص طور سے ملک کی اقلیتوں کے لیے جان لیوا مسائل جنم لینے لگیں گے۔ ہندوستان میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ ان کے دکھوں کے مداوا اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے معقول و مناسب قدم اٹھانے کے وعدے کو انتہائی فراخ دلی کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ خاص کر انتخابات کے موسم میں۔ لیکن رات گئی بات گئی کے مصداق چنائو کے بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ وعدوں کی کشت زاویے حسی کی آگ برساتی ہوائوں میں جھلس کر رہ جاتی ہے تو امیدوں، آرزوئوں اور تمنائوں کی نرم رو آب جو وعدہ فراموشی، طوطا چشمی اور بے ضمیری کے ریگ زاروں میں سر پٹک پٹک کر دم توڑ دیتی ہے۔
انتخابات ہی ملک کے غریبوں، مظلوموں اور اقلیتو ںکے دکھوں کا مداوا ہیں بشرطیکہ ان کے حق رائے دہی کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ناانصافی حق تلفی کے نتیجے میں ہی آج انتخابی نتائج شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں اور جو ملک کے سیکولر آئین و قانون کے لیے بھی اور جمہوری قدروں کے مستقبل کے تئیں بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ یا جو سیاسی پارٹیاں سیکولر ہونے کا دم بھرتی ہیں وہ خود کو اور ملک کے سیکولر کردار کو بچانے کے لیے صدق دل سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورت بر نہیں آتی۔
موبائل نمبر: 09868360472
جمہوریت اظہار رائے کی آزادی کا نام ہے۔ پوری دنیا میں جو انتہائی پسندیدہ نظام ہے اسے رائے کی آزادی کے حوالے سے جمہوریت ہی کہا جاتا ہے۔ جمہوریت سے محروم ملک ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا ملک اس نعمت سے مالا مال ہے۔ 1947 سے اب تک جمہوری حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں، ہمارا آئین او رہماری عدلیہ سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں۔ ہر الیکشن کے بعد کامیاب ہونے والے افراد ہوں یا سیاسی جماعتیں، سبھی اپنے سیکولر آئین پر حلف لیتی ہیں۔ ہمارے آئین نے جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی ہے ان میں اظہار خیال کی آزادی کے حق میں یا اس کے حق کو بلاخوف تردید غیر معمولی اہمیت کا حامل اور فرد و ریاست کے باہمی تعلقات کی میزان قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی بھی کچھ حدیں ہیں، کچھ بندشیں ہیں جنہیں کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس آئین میں آزادی اظہار رائے اور تحریر و تقریر کی آزادی دی گئی ہے اسی میں ریاست کی سلامتی، امن عامہ و اخلاقیات، توہین عدالت جیسے عنوانات کے تحت اس کے گرد ایک ایسا حصار بھی قائم کردیا گیا ہے جس کے احترام کی صورت میں ہی یہ آزادی عملاً بامعنیٰ بن سکتی ہے اور ریاست کے ساتھ ٹکرائو سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ معاملہ اگر مذہبی عقائد کا، مذہبی شخصیتوں اور مذہبی روایات کا ہو تو یہ بات اور بھی ضروری ہوجاتی ہے کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پا ئے۔ صحت مند تنقید اور اشتعال انگیز تنقیص کے فرق کو نظر انداز نہ کیا جائے اور زبان و بیان دونوں ہی کے معاملے میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ شہریوں کے کسی بھی گروہ، فرقے یا طبقے کے جذبات و احساسات مجروح نہ ہوں۔ یہی ہونا چاہیے مگر افسوس کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر زبان و قلم کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی رِدا کو تار تار کردینے اور فضا کو نفرت کے انگاروں سے بھر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، کر رہے ہیں ملک و سماج پر، لوگوں کی سوچ پر اس کے کتنے مضر اور منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح انتخابات کے موقعوں پر جو لوگ اظہار رائے کا احترم نہیں کرتے وہ گھاٹے کا سودا کرتے ہیں کیونکہ حقوق پر ڈاکے کی بدترین شکل بھی ہے کہ لوگوں کی زباں بندی کردی جائے یا ان کی رائے کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ مصنوعی طریقوں اور جعل سازی کے بل پر حاصل کیا گیا اقتدار ریت کی بودی دیوار کی مانند ہوتا ہے جو ہوا کا ایک تیز جھونکا بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ ماضی میں ملک کے عوام نے اندرا گاندھی کے دور حکومت میں دیکھا تھا کہ انتخابی دھاندلی کے نتیجے میں انہیں ایک دن کی جیل یاترا بھی کرنی پڑی تھی۔ ہمارے سیکولر ملک کی اور سیکولر آئین کی یہ زریں مثال ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے سیاست دانوں کو تاریخ سے سبق لینے کی توفیق کم ہی ہوتی ہے۔
پچھلے انتخابات کی طرح ہی اس بار بھی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی ناقابل یقین کامیابی پر تمام سیکولر پارٹیاں شکوک و شبہات کا اظہار بھی کر رہی ہیں او راس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی بھی کر رہی ہیں اور عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی دے دیا ہے۔ کتنی حقیقت کتنا فسانہ ہے یہ آنے والے وقتوں میں ظاہر ہوجائے گا۔ ہاں اگر ہاری ہوئی پارٹیوں کے دعوے میں سچائی ثابت ہوگئی تو یہ ملک کے آئین اور سیکولرزم کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوگی۔ اس لیے بھی کہ اس وقت جو لوگ ملک کے اقتدار پر قابض ہیں وہ سیکولرزم کے برعکس اپنا مخصوص نظریہ رکھتے ہیں جو کسی بھی حال میں اقتدار سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ایسے حالات میں سیکولر آئین اور عوام کی حق را ئے دہی دونوں کی روح مجروح ہوگی۔
آج ہمارے جو لوگ عوام کی رائے کا جائزہ لینے کے لیے الیکشن کا کھیل کھیلتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایسے انتخابات جن میں جعلی ووٹنگ، دھاندلی اور جبر سے نتائج کی تبدیلی کے ذریعے عوام کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کیا جاتا ہے کیا ان کا یہ عمل کسی سیکولر ملک کے لیے مفید ہے؟
کروڑوں روپوں کا خرچ، قوم کا وقت، صلاحیتیں اور سرمایہ ضائع کرکے اگر اپنی مرضی کے مطابق ہی نتائج حاصل کرنا مقصود ہے تو پھر انتخابی ڈرامہ رچانے کی ایسی کیا مصیبت پڑتی ہے اور قوم کی مایوسیوں میں مزید اضافہ کی ضرورت کیا ہے؟ برسوں سے عوام بھی تماشہ دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے بھاری مینڈیٹ کو پیروں تلے روندا جاتا رہا ہے اور اقتدار پر قبضہ کے لیے نت نئے حربے استعمال ہوتے رہتے ہیں اور ایسے غاصبانہ حکومتوں کے دور میں عوام مصائب و مشکلات کے پہاڑ تلے دبتے رہے ہیں۔ عوام کو طرح طرح کے مسائل اور دال روٹی کے چکر میں تو کبھی مندر/ مسجد کے قضیے میں بری طرح الجھا دیا گیا۔ حالات اتنے سنگین ہوتے گئے کہ عوام کی قوت مدافعت کمزور سے کمزور ہوتی گئی۔
اس طرح ہر الیکشن اب عوام کے لیے راحت کے بجائے عذاب بنتا جارہا ہے۔ اکثر خبریں سننے میں آتی رہی ہیں کہ فلاں حلقے میں دھونس، دھمکی اور اسلحہ کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح عوام کو بے بس کردیا جاتا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کو اپنا ووٹ دینے پر مجبو رہوجاتے ہیں۔ ای وی ایم مشینو ںسے چھیڑ چھاڑ کی شکایت بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔
الیکشن کے موقع پر ہمارے میڈیا کی بھاری ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ حقائق کو سامنے پیش کرتا رہے لیکن یہ بھی بعض حالات میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرپاتا۔ کہیں لالچ تو کہیں دھمکی کے سامنے یہ بھی خود کو بے بس پاتا ہے جس کی وجہ سے سیاست دانوں کے پیدا کردہ اس مصنوعی کھیل کے اصل حقائق کو یہ پیش کرنے سے بھی معذور ہیں۔ یوں تو سوشل میڈیا وغیرہ اب اتنے آگے ہیں کہ کوئی بھی چیز اس دور میں چھپ نہیں سکتی لیکن بہت سی وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے ان لوگوں کو دن کو بھی رات ہی کہنا پڑتا ہے۔ اس طرح ہمارا میڈیا بھی سیاست دانوں کی طرح ہر الیکشن کو ’صاف و شفاف‘ کہنے پر مجبور ہے۔
غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام عمل سیکولرزم کے نام پر ہو رہے ہیں، جہاں عوامی رائے کا قتل سرے عام، جہاں پریذائڈنگ افسر رائے دہندگان کی انتخابی پرچی چھین کر خود حق رائے دہی انجام دیتا ہے اور جب کوئی اس طرح کی حرکت کرتے پکڑا جاتا ہے تو ذمہ داران اپنی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ یوں تو الیکشن کمیشن کا بھرپور عملہ بھی ہوتا ہے لیکن وہ بھی سیاست دانوں کی طرح ہی یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ الیکشن صاف و ستھرا اور شفاش ہوئے ہیں۔ مگر وہ کہاں ہیں الیکشن کمیشن جو دیگ کا ایک دانہ دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ دیگ کچی ہے یا پکی؟
موجودہ حالات ملک کے سیکولر کردار کے لیے انتہائی سنگین ہیں۔ اگر اس صور تحال پر قابو نہیں پایا گیا تو عین ممکن ہے لوگوں کا ہمارے الیکشنی عمل سے بھروسہ ہی ختم ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کے لیے قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ خاص طور سے ملک کی اقلیتوں کے لیے جان لیوا مسائل جنم لینے لگیں گے۔ ہندوستان میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ ان کے دکھوں کے مداوا اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے معقول و مناسب قدم اٹھانے کے وعدے کو انتہائی فراخ دلی کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ خاص کر انتخابات کے موسم میں۔ لیکن رات گئی بات گئی کے مصداق چنائو کے بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ وعدوں کی کشت زاویے حسی کی آگ برساتی ہوائوں میں جھلس کر رہ جاتی ہے تو امیدوں، آرزوئوں اور تمنائوں کی نرم رو آب جو وعدہ فراموشی، طوطا چشمی اور بے ضمیری کے ریگ زاروں میں سر پٹک پٹک کر دم توڑ دیتی ہے۔
انتخابات ہی ملک کے غریبوں، مظلوموں اور اقلیتو ںکے دکھوں کا مداوا ہیں بشرطیکہ ان کے حق رائے دہی کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ناانصافی حق تلفی کے نتیجے میں ہی آج انتخابی نتائج شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں اور جو ملک کے سیکولر آئین و قانون کے لیے بھی اور جمہوری قدروں کے مستقبل کے تئیں بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ یا جو سیاسی پارٹیاں سیکولر ہونے کا دم بھرتی ہیں وہ خود کو اور ملک کے سیکولر کردار کو بچانے کے لیے صدق دل سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورت بر نہیں آتی۔
0 comments: