کسانوں کے برے دن تو بی جے پی حکومت کے۔۔۔۔۔۔
کسانوں کے برے دن تو بی جے پی حکومت کے۔۔۔۔۔۔
وال اسٹریٹ جرنل کے بلاگ نے اپنے ایک مضمون ہندوستان میں خود کشی کرنے والے کسانوں کے مسائل کا حل میں ۲۰۰۰ سے ۲۰۱۳ یعنی تیرہ سال میں کسانوں کی خود کشی کی تعداد ۲۲۵۰۰۰ بتائی ہے ۔جبکہ وزارت ذرعی امور حکومت مہاراشٹر کی جانب سےدئے گئے اعداد شمار کے مطابق ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۴ تک کے تین برسوں میں مہاراشٹر میں فصلوں کی بربادی اور قرض میں ڈوب جانے کی وجہ سے ۳۳۱۳ کسانوں نے موت کو گلے لگالیا ۔ایک ٹی وی نیوز چینل پر اس بات کو بار بار دوہرایا جا رہا تھا کہ ۱۹۹۵ سے اب تک تین لاکھ کسان خود کشی کر چکے ہیں۔بہت ساری موتیں تو میں سمجھتا ہوں کہ رجسٹر ڈ ہی نہیں ہوتی ہوں گی ۔ان کسانوں نے آخر زندگی جیسی عزیز شئے کو ختم کرنے اور اپنے اہل خانہ کو بے یارو مدد گار چھوڑ دینے کے لئے اپنے آپ کو اتنا مجبور کیوں پایا ؟آخر ملک کا وہ طبقہ جس نے سبز انقلاب کے ذریعہ ملک کو غذائی اجناس کے معاملے میں خود کفیل بنایا تھا،اتنا مجبور کیوں ہو گیا ؟حد تو یہ کہ بہادری جفا کشی اور بلند حوصلگی میں اپنی مثال آپ رکھنے والا پنجاب کا کسان بھی اب خود کشی کی جانب گامزن ہو رہا ہے ۔ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ اگر کسانوں کی خود کشی کا یہی حال رہا تو ملک کی معیشت کا کیا ہو گا کیوں کہ ملک کی معیشت آج بھی فصل پر منحصر ہے آج بھی یہاں کا سب بڑ اذریعہ آمدنی کھیتی ہے ۔ لیکن کسانوں کو ہونے والے اس طرح کے نقصانات اور اسے کے سبب قرض کے بوجھ کے خوف سے جب کسان اسی طرح خود کشی کرتا رہے گا تو دیگر لوگوں کا حوصلہ بھی ٹوٹے گا تو غذائی اجناس میں جو ہم خوف کفیل ہوئے ہیںاور یہ جس کی محنت اور جفا کشی کی بد ولت یہ ہوا ہے ،ہم آج سینہ بھلا کر دنیا کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جب کسان کھیتی کرنا چھوڑ دینگے اس سے گائوں سے شہروں کی جانب ہجرت بڑھ جائے گی گائوں ویران اور شہر آباد ہوں گے تب کئی مسائل اور منھ پھاڑے کھڑے ہوں گے جس سے نپٹنا ہمارے بس کا نہیں رہے گا ۔موجودہ مسئلہ ہی جب ہم حل نہیں کر پاتے ہیں تو مزید مسائل کا سامنا ہم کیسے کر پائیں گے ؟
اچھے دنوں کے وعدوں پر آنے والی مودی حکومت میں کسانوں کی خود کشی کا سیلاب آگیا ہے اور یہ بیماری مہاراشٹر کی سرحد سے نکل کر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسانوں کی خود کشی کی خبر نہیں آتی ہو ۔اس پرمزید یہ کہ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش سمیت کئی بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں گائے اور اس کی نسل کے ذبیحہ پر عائد کی جانے والی پابندی نے ان سے آخری سہارا بھی چھین لیا ہے ۔دہلی میں عام آدمی پارٹی کی جنتر منتر پر ریلی کے دوران راجستھان دوسہ کے باشندہ گجیندر سنگھ کی خود کشی کے بعد محسوس یہ ہو رہاتھا کہ ملک عزیز کے سیاستدانوں کا ضمیر جاگنے لگا ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ میری خوش فہمی ہو کیوں کہ ابھی بھی گیارہ ماہ پرانی حکومت کے وزیر اعظم مودی پارلیمنٹ میں صرف یہ بیان دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معاملہ کافی سنجیدہ ہے اس لئے اس پر آپ لوگ اپنی تجاویز دیں اس پر غور کیا جائیگا۔مطلب صاف ہے کہ سنجیدگی کااحساس محض سراب ہے یا ہم جیسے صحافیوں کی سادہ لوحی ہے کہ ہم لوگ محض پارلیمنٹ میں شور غل دیکھ اور سن کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سیاستداں مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ ہیں ۔ لیکن ہمارے ارکان پارلیمان اور حکومتی کارندوں کی سنجیدگی اور ان کی نظر میں انسانی جان کی کیا قیمت ہو سکتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب گجیندر کی خود کشی پر راج ناتھ سنگھ پارلیمنٹ میں کچھ بیان دے رہے تھے اسی وقت ان کے پشت میں بیٹھے ان کی ہی پارٹی کے رکن ہنس رہے ہیں۔یہ اس پارٹی کے رکن کی اخلاقی حالت ہے جو اپنے آپ کو اخلاقیات کا پابند بتاتی ہے۔جبکہ حال یہ ہے کہ ہر تیس منٹ میں ایک کسان خود کشی کر لیتا ہے ۔اس سے قبل اخبارات میں نتن گڈکری کا بیان کہ کسان بھگوان اور سرکار پر بھروسہ نہ کریں ۔اس کے علاوہ ان کے ایک اور وزیر کہتے ہیں کسان مرتا ہے تو مرنے دو اسی طرح کی اور بھی غیر ذمہ دارانہ بیان ان کی کسانوں کے تئیں حساسیت کو ظاہر کرتا ہے ۔
کسانوں کی خود کشی کا مسئلہ لاینحل نہیں ہے لیکن اس کو حل کرنے کے لئے ضرورت ہے سیاسی عزم اور حوصلے کی جو کسی بھی سیاسی پارٹیوں میں نہیں ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ کسانوں کی خود کشی کا معاملہ جو کہ مہاراشٹر تک محدود تھا اب ملک کے طول و ارض میں پھیل گیا ہے ۔اب یہ خبریں اتر پردیش سے بھی آرہی ہیں مدھیہ پردیش اور آندھرا پردیش سے بھی کسانوں کی خود کشی کی مسلسل آرہی خبریں ہمارے ۵۶ انچ کے سینہ کا راز دنیا والوں کے سامنےکھول رہی ہیں ۔افسوسناک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں انسانی ضمیر اور اخلاق کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔کسی کی موت فساد یا بم دھماکوں میں صرف سیاست کی جاتی ہے اس کے تدارک کی طرف کوئی نہیں جاتا۔اگر کوئی جاتا ہے تو اس کو مسلسل بد نام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ موجودہ گلے سڑے سیاسی نظام میں ایک نیا تجربہ عام آدمی کی صورت میں ہوا ۔عوام نے بھی اس کا والہانہ استقبال کیا ۔ دہلی میں عام آدمی کی حکومت تشکیل پا چکی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ایسا برتائو کیا جارہا ہے جس کے بارے میں کہا جائے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے ۔ملک دو سیاسی پارٹیاں جو اس ملک کو امریکہ اور انگلینڈ کی طرح دو سیاسی پارٹی نظام میں ہی لانا چاہتی ہیںکی کوشش یہ ہے کہ وہ کسی نئی سیاسی پارٹی کو ابھرنے نہ دیں ۔شاید دونوں ہی ایسے معاملے میں اکٹھی ہو جاتی ہیں ۔دہلی میں گجیندر کی خو د کشی میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ مرنے والا مر گیا لیکن یہ دو نوںسیاسی پارٹیاں اس کی چتا پر اپنی سیاسی دوکان چمکانا چاہتی ہیں ۔جبکہ دو نوں نے ہی کسانوں کے لئے کچھ نہیں کیا ۔اخبارات اور نیوز چینل میں آنے والے ویڈیو اور تصاویر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی ریلی کے مقام پر بھاری پولس فورس ہوتے ہوئے بھی گجیندر کو اتارنے کی کوشش میں پولس کا ایک بھی سپاہی کہیں نظر نہیں آتا ہے ۔عام آدمی کے کنوینر اروند کیجریوال نے تو بلا تاخیر اپنی تقریر جاری رکھنے کے لئے معافی بھی مانگ لی ہے کچھ بھی ہو نئی سیاسی پارٹی اور ان لوگوں میں اتنی اخلاقی جرات تو ہے کہ وہ معافی مانگنے میں دیر نہیں کرتے۔
منموہن سنگھ نے مہاراشٹر میں ہو رہے کسانوں کی خود کشی کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے کئی ہزار کروڑ کا پیکیج دیا لیکن اس کے بعد بھی کسانوں کی خود کشی رکی نہیں اس کا مطلب صاف ہے کہ پیکیج کی وہ رقم سیاست داں اور کرپٹ بیورو کریسی کی نظر ہو گئی ۔راجیو گاندھی شاید وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے یہ قبول کیا تھا کہ مرکز سے عوام کی فلاح کے لئے جو رقم جاتی ہے اس کا صرف پندرہ فیصد ہی ان تک پہنچ پاتا ہے باقی سب درمیان میں غائب ہو جاتا ہے ۔اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ پندرہ فیصد بھی عوام تک نہیں پہنچ پارہا ہے اسی لئے کاغذات پر تو کسانوں کی مدد نظر آتی ہے لیکن اس کی زمینی حقیقت ان کی خود کشی سے سمجھی جاسکتی ہے ۔ موت بڑی کڑوی حقیقت ہے اور اس سے ہر آدمی بچنا چاہتا ہے ۔زندگی انسان ہی نہیں ہر ذی روح کو پیاری ہوتی ہے ۔لیکن اتنی کڑوی چیز کو گلے لگانے کا مطلب کہ اس کی آغوش میں سو جانے والا پو ری طرح ناامید اور مایوس ہو چکا ہے ۔ مودی حکومت نے تو کسانوں کو ناامیدی اور مایوسی کے گہرے غار میں دفن کردینے کا ہی منصوبہ بنا رکھا ہے ۔تحویل اراضی بل اس کی پہلی کڑی ہے ۔یہی سبب ہے کہ عوام اس کو سمجھ کر اس کی زور دار مخالفت کررہے ہیں ۔میں نے کئی نیوز چینل پر مباحثہ دیکھا اس میں مجھے بی جے پی کی جانب سے ان کے ترجمان کے پاس اول تو سوال کرنے والوں کا کو ئی جواب ہی نہیں ہوا کرتا ہے اور اگر ٹوٹے پھوٹے اور بودے جواب دیتے بھی ہیں تو اس ظاہر سی بات ہے کہ عوام کی تسلی ہونے والی نہیں ہے ۔یہی سبب ہے کہ کانگریس کے یو راج راہل گاندھی لمبی چھٹی کے بعد جب پارلیمنٹ میں گرجے تو بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔اصل میں مودی جی سمجھ رہے ہیں کہ صرف لچھے دار بھاشنوں اور اوبامہ کے تھینک یو اور کیم چھو کہ دینے سے یا ان کی تعریف میں پورا ایک مضمون ٹائم میگزین میں لکھ دینے سے ہی وہ دنیا کے قابل ترین اور مشہور ترین لیڈر ہو جائیں گے یہ ان کی یہ سوچ غلط ہی لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ وہ مشہور ترین لیڈر بن جائیں لیکن مقبول ترین لیڈر نہیں بن سکتے عام انسان یا کوئی رہنما صرف اپنے کام سے جانا جاتا ہے باتوں سے نہیں ۔باتیں تو آج نہ تو کل بھلادی جائیں گی لیکن کام ہمیشہ یاد رہتا ہے ۔پر مشکل یہ ہے کہ انہوں نے الیکشن جس طرح جیتا ہے اس کے بعد یہ عوام کے لئے کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں انہوں نے جس کی دولت کے سہارے الیکشن جیتا ہے فائدہ تو بہر حال اسی کا کریں گے یہی سبب ہے کہ ٹاٹا بولتے ہیں کہ یہ ایک بہتر لیڈر ثابت ہوسکتے ہیں انہیں موقع دی اجان اچاہئے ظاہر سی بات ہے کہ کون بول رہا ہے اور کس کے لئے بول رہا ہے یہ اہمیت رکھتا ہے ۔ایک صحافی دوست کا خیال ہے خواہ کیچھ بھی ہو جائے مودی حکومت اس کسان مخالف بل کو واپس نہیں لے گی ۔مجھے بھی مودی کے آمرانہ طرز سے یہی اندازہ ہو تا ہے ۔حالانکہ اس بل کو انہیں واپس لینے میں ہی عافیت ہے بصورت دیگر بدترین سیاسی موت ان کی منتظر ہے ۔لیکن کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی جانب بھاگتا ہے اور بی جے پی کی سیاسی موت آئی ہے تو وہ کسانوں کے لئے موت کا پیغام لے کر آئی ہے جو دراصل ان کی سیاسی موت ثابت ہو گی کیوں اب کے گئے پھر کبھی نہیں آپائیں گے یہ حالات بتا رہے ہیں۔
نہال صغیر،کاندیولی،ممبئی۔موبائل: 9987309013
0 comments: