ایران امل ملیشیا اور حزب اللہ کی حقیقت
عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی۔موبائل: 9699353811
ایران امل ملیشیا اور حزب اللہ کی حقیقت
’’ایران
اسرائیل کے نقش قدم پرِ ‘‘اس مضمون کی اشاعت کے بعد ہمیں تقریبا پندرہ سے
بیس فون موصول ہوئے ان میں سے تقریبا ہر قاری اس بات پر تو متفق ہی تھا کہ
مشرق وسطیٰ کے تعلق سے ایران کے جو وسعت پسندانہ عزائم ہیں شام کے بعد یمن
میں اس کا یہ چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایران آگے
بڑھ کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈتامگر اس کے لوگ ڈھکے چھپے لفظوں میں دھمکی دے
رہے ہیں کہ سعودی عرب کے جارحانہ اقدام سے یہ جنگ اس کی سرحدوں میں بھی
داخل ہو سکتی ہے ہمیں یہاں پر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ جب ہندوستان
سے لیکر پاکستان کے بیشتر اخبارات میں ایران کی بات ہی نہیں ہو رہی اور
تمام لکھنے والے صرف عراق اور شام میں خلافت کی شکل میں ظاہر ہونے والے ایک
نئے فتنے کا ذکر کر رہے ہیں اس کے باوجود عام قاری عام لکھنے والوں اور
دانشوروں کے بالکل برعکس کیوں سوچ رہا ہے؟
قارئین
کی اپنی سوچ اور فکر سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔اصل میں ہمارا مسئلہ
یہ ہے کہ ہم پچھلے کئی سالوں سے رواداری اور اتحاد کے جنون میں حق اور نا
حق کی تمیز کرنا بھی بھول چکے ہیں ۔یہی وہ کمزوری ہے جس کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے مسلمانوں کے وہ اتحادی جو مخلص نہیں ہیں اور مسلمانوں کے دشمنوں کے
ساتھ بھی رابطے میں ہیں اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں ۔ہر شخص وہ چاہے کسی بھی
مسلک اور فرقہ سے تعلق رکھنے والا مسلمان ہواس کا صرف ایک ہی موضوع ہے عرب
انقلابیوں نے اپنی خلافت کا اعلان کر کے فتنے اور عذاب کو دعوت دی ہے
حالانکہ ابھی تک ہم نے دنیا کے عظیم فتنوں میں صرف ایک ہی فتنہ کا نام سنا
تھااور وہ ہے فتنۂ دجال اور خلافت راشدہ کا منہدم ہو جانا۔مولانا شبلی نے
الفاروق میں لکھا ہے کہ اس فتنہ کا آغاز حضرت عمرؓکی شہادت کے بعد ہی شروع
ہو چکا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اہل فارس حضرت عمرؓ کے ذریعہ اپنی عظیم تر سلطنت
کی تباہی کا صدمہ برداشت نہیں کر سکے تھے اسی لئے انہوں نے گھات لگا کر
انہیں شہید کروادیا۔بعد کے حالات میں جب مدینے میں غیر مسلوں کی رہائش اور
داخلے پر پابندی لگادی گئی تو عبداللہ ابن سبا جیسے منافق ،اسلام اور
مسلمانوں کا حلیہ اختیار کر کے مدینہ میں داخل ہونے لگے ۔
جزیرۃ
العرب میں ایران اور حزب اللہ اسی کردار کے ایسے درخت اور پھل ہیں جن کے
ظاہر اور باطن کے اسی تضاد کی وجہ سے مسلمانوں کو ہر دور میں نقصان اٹھانا
پڑاہے۔ایرانی حکمراں اور علماء اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخی کارنامے
اورمساوات کی عظمت کے بر عکس فارس کی تین ہزار سالہ تاریخ پر فخر کرتے ہیں
عظمت رفتہ کے اسی جنون میں غرق ایران کے مرحوم بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے جب
یہ دیکھا کہ سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور عربوں میں اب کوئی
ایسی طاقت ور ریاست نہیں رہی جو ایران کے منصوبہ کو ناکام بنا سکے اس نے
امریکہ اور اسرائیل سے تعلق بحال کرتے ہوئے بے شمار اسلحوں کے ذخیرے جمع
کرنا شروع کر دیئے تاکہ وہ طاقت کے ذریعہ پورے عرب کو ایران میں شامل کرکے
فارس کی عظیم سلطنت کا وقار دوبارہ بحال کرسکے۔دوسری طرف عربوں کو
مزیدکمزور کرنے کے لئے اس نے شام کے آخری سپہ سالار ،اور مصر کے صدر جمال
عبدالناصر جو عربوں کے لئے میر جعفر اور میر صادق کا کردار نبھا رہے تھے ان
کے ذریعے عربوں کو اسرائیل کے خلاف جنگ میں جھونک دیا ۔جمال عبدالناصر نے
جان بوجھ کر اپنے تمام چار سو بیس لڑاکا طیارے کو ایک ہی میدان میں کھڑا کر
کے اسرائیل کے ذریعے تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا اورآخری سپہ سالار حافظ
الاسد نے بغیر کسی مزاحمت کے گولان کے سر سبز و شاداب پہاڑی علاقہ کو
اسرائیل کے حوالہ کر دیا ۔۱۹۶۷ ء کی اس جنگ میں پریشان حال فلسطینی
مسلمانوں نے جب اپنے آپ کو ان مشکل حالات میں بھی اپنے عزم و استقلال کا
مظاہرہ کرتے ہوئے پڑوسی ملک لبنان میں اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا تو
فلسطینی مسلمانوں کے اس عزم و حوصلے سے اسرئیل کا خوفزدہ ہونا تو لازم تھا
ہی ایران کی رضا شاہ پہلوی حکومت کے بھی کان کھڑے ہو گئے ۔اس دوران حافظ
الا سد جو کہ ایرانی حکومت کی خفیہ سازش کی وجہ سے شام کا صدر بن چکا تھا
لبنان میں عیسائیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پھوٹ پڑنے والے فساد کا بہانہ
بنا کر فلسطینیوں کے گڑھ میں اپنی فوج داخل کر دی اور ۵۲ دنوں کے بے رحم
حصار کے بعد عیسائی ملیشیا کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ فلسطینیوں کوکو بھیڑ
بکریوں کی طرح ذبح کریں ۔دوسری بار ر ۱۹۸۲ ء میں خود اسرائیلی فوج کے سپہ
سالار ایریل شیرون شامی فوجوں کی موجودگی میں صابرہ ستیلہ کے کیمپ میں داخل
ہو گیا اور درندگی کا وہی طریقہ اختیار کیا جسکی نظیر عیسائی ملیشیا اور
حافظ الاسد نے قائم کی تھی ۔ تاریخ میں رابرٹ فشق جیسے مشہور و معروف صحافی
جو اس حادثہ کے چشم دید گواہ رہے ہیں ان کی شہادت اور بیان سے ہی رونگٹے
کھڑے ہو جاتے ہیں اس کے باوجود یہ کہنا ہوگا کہ یہود و نصاریٰ لبنان سے
فلسطینیوں کو بے دخل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے
کہ لبنان میں اس وقت تک کسی حزب اللہ اور شیعہ ملیشیا کا کوئی وجود نہیں
تھا ۔ ایرنی حکومت نے پریشان حال فلسطینیوں کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
ایران کے ایک پیشوا خاندان کے شیعہ عالم موسیٰ الصدر کو لبنان میں شیعوں کو
متحد اور مسلح کرنے کا منصوبہ بنالیا ۔موسیٰ الصدر نے اسرائیل کے خلاف
نعرہ دے کر فلسطینیوں اور اخوانیوں کو اپنے اعتماد میں لیتے ہوئے ’امل
ملیشیا‘ کے نام سے وہاں کے شیعوں کو مضبوط فوجی قوت میں بدل دیا ۔در اصل
موسیٰ الصدر کا اصل مقصد ایرانی حکمت عملی کے تحت فلسطینیوں کی تنظیم جو اس
وقت لبنان میں ’’رابطہ فلسطینیہ الاسلامیہ ‘‘کے نام سے طاقت ور ملیشیا کے
نام سے مشہور تھی اس کا صفایا کرنا تھا تاکہ مستقبل میں ایرانی جارحیت کا
مقابلہ کرنے کے لئے عرب کے اس خطہ میں شیعوں کو کسی طاقت ور ملیشیا سے
مزاحمت کا خطرہ نہ رہے۔جب موسیٰ الصدرنے لبنان میں پوری طرح زمین ہموار
کرلی تو حافظ الاسد کی فوجی قوت کے سہارے شیعہ’ امل ملیشیا‘ نے تیسری بار
عیسایؤں اور یہود یوں کے ہی نقشِ قدم پر فلسطینیوں کے قتل عام کی نئی تاریخ
رقم کی بلکہ یوں کہا جائے کہ جو کام یہودی اور عیسائی اپنے بل پر نہیں کر
سکے اسے امل ملیشیا نے کلمۂ شہادت کا نام لے کر انجام دیا ۔اٹلی کے ایک
مشہور اخبار ریپبلکا (Republica )کے مطابق ایک معذور فلسطینی جو کئی دن سے
چل نہیں سکتا تھا شتیلہ کیمپ میں امل ملیشیا کے درندوں کے سامنے ہاتھ اٹھا
کر رحم کی بھیک مانگنے لگا ۔جواب میں وہ گولیوں سے بھون دیا گیا۔کویت نیوز
ایجنسی کے مطابق صابرہ کیمپ میں پچیس لڑکیوں کی اجتماعی آبرو ریزی کھلے عام
پورے کیمپ کے سامنے کی گئی ۔فرانس کا ایک صحافی بیار فردیہ جو قیامت زدہ
علاقوں میں اس امید میں چکر لگا رہا تھا کہ اسے کسی طرح صابرہ شتیلہ میں
گھسنے کا موقع مل جائے امل ملیشیا کے ایک اسلحہ بردار کے ساتھ اپنی گفتگو
کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ فلسطینیوں کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے لئے
ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے چوبیس گھنٹے کے اندر ہم خود ان کا صفایا
کر دیں گے ۔سڑک کے دوسری طرف امل ملیشیا کے ٹینک بلا تمیز گھروں کے بیچ تنگ
گلیوں میں مسلسل بمباری کر رہے تھے دو دن تک تو ہم فلسطینیوں کے علاقہ میں
جو ہم سے صرف سو میٹر کی دوری پر تھے گھسنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔تیسرے
دن جب ہم اس علاقہ میں پہونچے تو پورا بیروت لینڈمائن بن جا چکا تھا۔امل
ملیشیا نے جگہ جگہ چیک پوسٹ بنا رکھے تھے زخمیوں کو نہ صرف راستے میں روک
لیا جاتا بلکہ جو کسی طرح ہاسپٹل پہنچ گئے انہیں ہاسپٹل میں ہی موت کے گھاٹ
اتار دیا گیا۔اسی دوران ہماری نظر کچھ بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں پر پڑی جو
اپنی گٹھریاں اٹھائے بھاگ رہے تھے ان میں سے روتی ہانپتی ایک عورت نے کہا
کہ گھروں کے ملبہ میں لاشوں کو دبا رہے ہیں اور کچھ لاشیں جلا بھی رہے ہیں
۔پناہ گزیں کیمپ میں غزہ ہاسپٹل کی ایک نرس کا بیا ن تھا کہ ایمرجنسی ہال
میں ایک شخص اپنی چودہ سالہ بہن کے ساتھ پڑا تھا امل ملیشیا کے ایک اسلحہ
بردار نے بچی سے کہا کہ اسے اٹھا کر لے جاؤ بچی نے کہا کہ وہ کیسے اٹھا
سکتی ہے دوسرے لمحے اسلحہ بردار نے دونوں بھائی ،بہن کو اپنی گولیوں سے سرد
کر دیا۔ایک دوسری عورت جو ہاسپٹل کے پڑوس کے گھر میں رہتی تھی اپنی دیوار
کی شگاف میں سے دیکھا کہ فلسطینی نوجوان ایک کے پیچھے ایک بجلی کے تار سے
باندھے ہوئے ہنکائے جا رہے ہیں ۔ دفعتاً اس نے گولیوں کی آواز سنی اور
دیکھا کہ سارے نوجوان قتل کئے جا چکے ہیں ۔
تحریک
آزادی فلسطین کی تنظیم فتح کے ایک ممبر رائد صلاح نے ۵ اگست ۱۹۵۸ ء کے
اخبار الیوم السابع کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہی موسیٰ الصدر ہے جو
لبنان میں شیعوں کی محرومی اور لا چاری کا رونا روتا تھاہم نے اس کا ساتھ
دیا ہم نے اس کی امل تحریک کو تربیت دی اور مسلح کیا تاکہ اسرائیل کے خلاف
یہ ہمارا ساتھ دیں گے مگر انہوں نے ہمیں جو زخم پہنچایا اسی بات کو رابطہ
فلسطینیہ اسلامیہ کے ایک لیڈر نے یوں بیان کیا ہے کہ شیعوں کے ہاتھوں
فلسطینیوں قتل کا نہ رکنے والا سلسلہ ثابت کرتا ہے کہ شیعہ ملیشیا امل امت
اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کے صف میں کھڑی ہے اور اس گمشدہ کڑی کو پورا کردیا
جسے پورا کرنے سے یہود و نصاریٰ عاجز تھے۔جی ہاں یہ وہی شیعہ امل ملیشیا
ہے جو آیت اللہ خمینی کے نام نہاد اسلامی انقلاب کے بعد نام نہاد اسلامی
نام اختیار کرتے ہوئے حزب اللہ میں تبدیل ہوگئی ۔اس طرح بیروت جو فلسطینی
جانبازوں کا فوجی ہیڈ کوارٹر بن چکا تھا ان کی لاشوں کے ڈھیر پر امل ملیشیا
کے ذریعہ حزب اللہ کا ہیڈ کوارٹر بنادیا گیا ۔اس نئے اسلامی انقلاب سے اگر
ایک بار پھر اخوان ،حماس اور جماعت اسلامی کے لوگ دھوکہ کھا گئے تو اس میں
افسوس کی کیا بات ہے ماضی میں منافقت کی اسی دو دھاری تلوار سے امیر
المومنین حضرت عمرؓ،عثمان غنیؓ ،حضرت علیؓ اور حسین ابن علی کے ساتھ
سینکڑوں اللہ کے بندے شہید کردئیے گئے ہیں ۔مگر اس درمیان دھوکہ نہ کھانے
والے صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہدین بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔عراق و شام اور
لبنان میں اب جو بچے موسیٰ الصدر ،حافظ الاسد ،بشارالاسداور نوری المالکی
کے ظلم و تشدد کے بعد زندہ بچ گئے ہیں اب وہ اپنے دشمنوں کے عماموں کی
لمبائی کو پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کررہے ہیں۔آئیے ہم سب ایک بار پھر
متحد ہو کر اس نئی فوج اور نئے انقلاب کی مذمت کریں کیوں کہ ہم نے منافقوں
کے ایجنڈوں پر متحد ہونے کی قسم جو کھا رکھی ہے اور پھر ہمیں بار بار دھوکہ
کھانے کی روایت کو زندہ بھی رکھنا ہے !
عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی۔موبائل: 9699353811
0 comments: