یہ سحر بھی ڈھلتے ڈھلتے۔۔۔۔
یہ سحر بھی ڈھلتے ڈھلتے۔۔۔۔
ممتاز میر
امت مسلمہ صدیوں سے مایوسیوں اور محرومیوں کا شکار ہے۔مگر پچھلی صدی میں علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ’’مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘‘اسلئے ہر ابھرتے ہوئے سورج کو بڑے شوق بڑ ی امید سے دیکھتی ہے اور غروب ہو جانے کے بعد بھی شفق کو دیکھ کر خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہے اور کوئی اسے اس حالت سے باہر نکالنے کے لئے اگر یہ کہہ دے کے صاحب یہ سورج بھی غروب ہو گیا تو جھگڑتی ہے ۔اور امت کا یہ رویہ پچھلی صدی سے ہے ۔کبھی مصطفیٰ کمال پاشا کو نجات دہندہ سمجھا جا تا ہے تو کبھی صدام حسین جیسے امریکی ایجنٹ کو مجاہد بنا دیا جاتا ہے۔اور یہ حالت عوام تک محدود رہتی تو غنیمت تھا مسئلہ اس وقت بڑا ہو جاتا ہے جب خواص بھی اس قسم کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
یہ ملت اسلامیہ کی بڑی بد قسمتی ہے کہ کبھی اس کے سورج خود اپنی حماقتوں سے غروب ہوتے ہیں اور کبھی غیروں کی سازشوں سے ۔پچھلی صدی میں سب سے پہلی امید کی کرن افغانستان سے طلوع ہوئی تھی مگر ۵ سال کی بہترین انداز حکمرانی دے کر غیروں کی جارحیت اور اپنوں کی بزدلی سے غروب کر دی گئی اور ملت ٹک تک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی رہی۔آج مشرق وسطیٰ میں جو تباہی و بربادی مچی ہے،سعودی عرب کے شاہوں کے زیرجامے گیلے و پیلے ہو رہے ہیں اس کی تمہید طالبان کی تباہی ہی تھی ۔
کبھی بہت سارے کمزور ملکر طاقتور بن جاتے ہیں اور کبھی ہر کمزور کی تباہی پر قطار میں لگے دوسرے کمزور کو یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ اس کا نمبر نہیں آئے گا مگر ایسی خواہشات پوری نہیں ہوتی۔طالبان کے بعد صدام کا نمبر آیا تب شام سے لے کرسعودی عرب تک سب تماشہ بھی دیکھ رہے تھے اور تبصرے بھی کر رہے تھے۔اب صاحب سعودی عرب کا بھی نمبر آ چکا ہے اسمیں حیرت انگیز بات کیا ہے ۔ انھیں خادم الحرمین شریفین ہونے کا زعم ہے اور کچھ برخود غلط حضرات انھیں خادم الحرمین سمجھتے بھی ہیں مگراللہ کے نزدیک ان کا statusیقیناً ایک عام آدمی سے بھی کم ہوگا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جو جدید ترین اور طاقتور ترین امریکی فوج ڈھائی تین دہائیوں سے سعودی عرب کی حفاظت کے نام پر وہاں قیام پذیر ہے اس کے رہتے پاکستان سے کیوں مدد مانگی جا رہی ہے اور اگر وہ ایسے وقت میں کام نہیں آسکتی تو پھر اسے پالنے کی ضرورت کیا ہے۔اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ غلام ابن غلام اماراتی وزیر پاکستان کو تو دھمکا رہا ہے مگر اس کی ہمت نہیں ۲۵ سالوں سے سعودی عرب میں پلنے والی امریکی فوج کے خلاف لب کشائی کر سکے۔بہرحال کس کس کا رونا روئیں ۔خدا جانے امت کو کیا ہو گیا ہے۔صدیاں بیت گئیں کوئی مخلص بے لوث دیانتدارقائد میسر نہیں آتا۔شاید آتا بھی ہو اور ہم خود اسے بگاڑ دیتے ہوں۔پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی کے آخر میں ایران میں ’’اسلامی انقلاب ‘‘ آیا تھا۔سبھی بڑے خوش ہوئے تھے ۔ حالانکہ کچھ علماء کرام نے اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا مگر عموماً اس کا استقبال کیا گیا تھا۔یہاں تک کہ انھوں نے اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کے لئے خانہء کعبہ کو یرغمال بنا لیا تھاپھر بھی عوام ان سے ناراض نہ تھی۔دراصل انھوں نے اپنے انقلاب کی حفاظت کے لئے غیر معمولی قربانیاں دی تھیں۔ایران میں جگہ جگہ بم دھماکے کروائے گئے تھے۔پوری پارلیمنٹ کو بم سے اڑا دیا گیا تھا۔اور یہ سب چونکہ امریکہ کر رہا تھا اسلئے اسے دہشت گردی کا نام بھی نہیں دیا گیا۔اپنے خلاف ہونے والے ہر ظلم پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایرانی قوم نے اپنے انقلاب کو آگے ہی بڑھایااور دنیا کا ہر مسلمان سنی ہونے کے باوجود ان کے ساتھ رہایہاں تک کہ احمدی نژاد مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے۔وہ حزب اللہ کے حسن نصر اللہ،حماس کے اسمعیٰل ہانیہ اور ترکی کے رجب طیب اردگا ن کسی وقت عالم اسلام کے گنے چنے لیڈر تھے۔مگر اپنے دور صدارت کے آخری وقت میں جناب احمدی نژاد نے شام کے ظالم ڈکٹیٹر بشار الاسد کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔وہ ایران جو کبھی اپنے ’’اسلامی انقلاب‘‘ کو برآمد کرنے لئے اتاؤلا ہوا کرتا تھا اس کے انقلاب نے شام تک آتے آتے دم توڑ دیا۔کیا اسلئے کہ شام کا حکمراں طبقہ علوی شیعہ ہے؟ہمیں اس میں شک ہے۔کیونکہ خود ایرن کے جید علماء کرام انھیں کافر کہتے ہیں۔
ہمارے کچھ احباب کہتے ہیں کہ یہ ایران کی سیاسی یاstrategic مصلحتیں ہیں۔ہم ایسی ہر مصلحت کو ناقابل اعتناء سمجھتے ہیں جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہویا پھر آپ یہ اعلان کردیں کہ ہم مذہبی لوگ نہیں۔اور اب ایران اور حزب اللہ مشرق وسطیٰ میں جو کچھ کر رہے ہیں اس سے ہمیں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ اب تک جو کچھ یہ لوگ کر رہے تھے وہ’’تقیہّ ‘‘ تھا۔عالم اسلام کو بے وقوف بنانے کا ایک طریقہ تھا۔اب ہم یہ بھی سمجھتے ہیں ایران ایٹم بم بھی بنا رہا ہے (اسے اس کا صد فی صد حق ہے مگر جھوٹ بولنے کا نہیں)اس طرح ۳۶ سال پہلے جو سورج طلوع ہوا تھا کم سے کم ہمارے لئے تو غروب ہو چکا ہے۔ اس درمیان سوڈان سے بھی کچھ توقعات اس وقت وابستہ ہوئی تھیں جب جنرل عمر البشیر اور حسن ترابی ایک دوسرے کے ساتھ آگئے تھے ۔مگر پھر دسمبر ۹۹ میں دونوں کے درمیان اختلافات شروع ہوئے اور حسن ترابی کو جو کہ سوڈان کی تحریک اسلامی کے سربراہ ہیں حکومت اور پارٹی کے تمام عہدوں سے ہٹا دیا گیا ۔اختلافات اتنے شدید ہوئے کہ ۲۰۰۱ میں انھیں حوالہء زنداں کر دیا گیا۔۲۰۰۵ میں وہ جیل سے رہا ہوئے اب پھر کچھ دنوں سے یہ خبریں آرہی کہ جنرل عمر البشیر اور حسن ترابی ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ہم جیسے صرف دعا ہی کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں کہ سچ مچ ایسا ہو۔
۱۳ سال پہلے مشرق اور مغرب کی سرحدوں پر واقع اسلامی ملک ترکی میں بھی ایک سورج طلوع ہوا تھا ۔رجب طیب اردگان کی سربراہی میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے ترکی کے عام انتخابات میں تقریباً ۲ تہائی اکثیریت سے فتح حاصل کی تھی ۔جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اسلام پسندی کا چہرہ رکھتی ہے۔اور ترکی کی اسٹبلشمنٹ سیکولرہونے کی دعویدار ہی نہیں اپنے کو اس کا محافظ بھی کہلاتی تھی۔مگر ان کا سیکولرزم بڑا ہی عجیب و غریب تھا۔انھیں ہر دھرم اور ازم گوارہ تھا سوائے اسلام کے۔انھیں ہر ملک پیارا تھا سوائے مسلم ممالک کے،بلکہ اسرائیل سے تو ان کے خصوصی تعلقات تھے۔سوچئے یہ کتنی بڑی چھلانگ تھی جس کے مین کھلاڑی رجب طیب اردگان تھے۔غالباً یہ فتح بھی اس وقت حاصل ہوئی تھی جب اردگان جیل میں تھے۔اسلئے جب حکومت بنانے کی نوبت آئی تو پہلے چند ماہ عبداللہ گل وزیر اعظم رہے تھے۔اس کے بعد سے آج تک اردگان ۳ عام انتخابات میں اور ۲ بار ریفرنڈم میں فتح حاصل کر چکے ہیں۔جس میں سے ایک تبدیلیء دستور کے متعلق تھا۔رجب طیب اردگان ترکی فوج کوجو کہ مصطفیٰ کمال پاشا کی ذریت تھی بیرکوں میں نہ صرف واپس بھیج چکے ہیں بلکہ سول حکومت کے خلاف ان کی ہر سازش کو ناکام بنا کرانھیں سلاخوں کے پیچھے بھی پہونچا چکے ہیں۔اب ظاہر ہے کہ وہاں جہاں وزیر اعظم کو جیل میں ڈالا گیا ہو کسی کو پھانسی دی گئی ہو اگر کوئی سیاستداں اتنی کامیابی حاصل کر لیتا ہے تو اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہونچ جانا ’’واجب‘‘ ہے۔ہم بھلے ہی اس خوش فہمی میں مبتلا رہیں کہ اسلام پسندوں کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔فی زمانہ دین پسندوں کی بھی یہ ذہنیت بن چکی ہے کہ دین بیزاروں کی طرح ہم فکروں کے سو خون معاف کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
اب ۲۰۱۴ میں رجب طیب اردگان وزیر اعظم کی دو ٹرم پوری کرکے ترکی کے صدر بن چکے ہیں ۔انھوں نے پہلے ہی ہلّے میں۵۲ فی صدی ووٹ حاصل کیا ہے ۔اسلئے صدر بنتے ہی انھوں نے ترکی میں صدارتی نظام کی وکالت شروع کر دی ہے گو کہ اب بھی ترکی کی وزارت عظمیٰ پر ان کا اپنا ہی آدمی براجمان ہے۔اب ان کے ہر بیان اور ہر قدم سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ڈکٹیٹرشپ یا totaliterianism کی طرف جا رہے ہیں۔ہم نہ صرف اپنا بلکہ ہر دین پسند ادیب صحافی و دانشور کا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ رجب طیب اردگان کو روکے بصورت دیگر یہ عالم اسلام کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔ذیل میں ہم کچھ اور نکات پیش کر رہے ہیں جس سے ہمارے موقف کو تقویت ملتی ہے[۱]فی الوقت وہ جس محل میں قیام پذیر ہیں وہ دنیا کا سب سے بڑا صدارتی محل ہے جسے انھوں نے خود اپنے دور وزارت عظمیٰ میں بنایا ہے وہ بھی ناجائز زمین پر۔مذکورہ صدارتی محل محفوظ جنگلاتی زمینprotected forest land پر بنایا گیا ہے۔اگر وہ سچے اسلام پسند ہیں تو انھیں ایسے اور اتنے بڑے صدارتی محل میں نہیں رہنا چاہئے۔[۲]دسمبر ۲۰۱۳ میں ان کے اور ان کے وزراء کے خلاف ایک بڑا کرپشن اسکینڈل اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔اب جنھوں نے وہ الزامات لگائے تھے اور گرفتاریاں کی تھیں انھیں جیل بھیجا جا رہا ہے۔ہم آج بھی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ سچائی کیا تھی ۔ہم نے اس سے پہلے بھی لکھا تھااب پھر لکھ رہے ہیں کہ فتح اللہ گولن کو ترکی آکرمذاکرات کی میز پر اپنے اختلافات طے کرنا چاہئے۔بصورت دیگر یہ ترکی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انھیں امریکیوں کے قبضہ سے رہا کروائے۔ہمیں نہیں لگتا کہ ان جیسا دانشور جسکی اسلام پر غیر معمولی کتابیں ہوں مسائل کے حل کے لئے غیر اسلامی راستہ اختیار کرے گا۔[۳]کرپشن اسکنڈل کے بعد سے اردگان پر میڈیا کو دبانے کے الزامات لگ رہے ہیں انھوں نے You tube & Twitter پر پابندی عائد کر دی تھی۔اور بہت احتیاط کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ الزامات میں سچائی ہے [۴]Gezi park میں کسی زمانے میں قدیم عثمانی فوجیوں کی بیرکس تھیں جسے ۱۹۴۰ میں منہدم کرکے عوامی تفریحی مقام بنا دیا گیا تھا شہر میں یہ واحد تفریحی اور ہری بھری جگہ تھی ۔جناب اردگان یہ چاہتے تھے کہ اس تفریحی مقام کو مٹا کر دوبارہ عثمانی فوجیوں کی بیرکس بطور یادگارتعمیر کی جائے۔مگر عوام نے ان کی مخالفت کی اور ۲۸ مئی ۲۰۱۳سے احتجاج شروع کیا جسے Gezi park protest کا نام دیا گیا جناب اردگان نے اس سے ڈکٹیٹرانہ انداز سے نپٹا۔اس میں ۱۱ افراد ہلاک اور ۸۰۰زخمی ہو گئے مگر انھوں نے اردگان کو اپنے مقصد میں ناکام کر دیا ۔فی الوقت عدالت میں یہ کیس جاری ہے ۔متاثرین کی جانب سے یہ کیس ایک وکیل محمد سلیم کراز لڑ رہا تھا۔اس وکیل کو چند ہفتے پہلے دو لوگوں نے اغواء کر لیا ۔پولس کی کمانڈو کاروائی میں اغوا کرنے والو ں کے ساتھ ساتھ مغوی سلیم کراز بھی ہلاک ہو گیا۔اب زبان خلق کہتی ہے کہ یہ اس وکیل سلیم کراز کو ہلاک کرنے کا ڈرامہ تھا۔کیونکہ محترم جناب رجب طیب اردگان نے اس پوری کاروائی کے بعد کہا’’آپریشن کامیاب رہا ‘‘[۵]استنبول یونیورسٹی کے ریکٹر کے انتخاب میں محمود اے کے نامی اردگان کے خاص آدمی پہلے نہیں دوسرے نمبر پر رہے اس کے باوجودریکٹر شپ سے انھیں ہی نوازا گیا۔[۶]ترکی کی سب سے زیادہ طاقتور جاسوسی ایجنسی MIT کے سربراہ حکن فدان نے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کے مشورے سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جو جناب اردگان کوبجا طور پر ناگوار گذرا۔ترکی میں ۷ جون کو عام انتخابات ہیں اور فی الوقت وہاں بیوروکریٹس کے استعفوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے سب حکمراں پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں مگر اردگان فدان کو بطور جاسوسی سربراہ ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔اسلئے حکن فدان کو استعفیٰ واپس لے کر اپنے عہدے پر واپس جانا پڑا۔اب اگر اپوزیشن اسے خلاف قانون قرار دے کر شور مچا رہی ہے تو وہ بھی غلط نہیں ہے۔
یہ بہت معمولی معمولی باتیں ہیں مگر یہ ترکی کے مستقبل کے اشارے ہیں۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہم صرف دعا کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں کہ ہمارے بدترین خدشات غلط ثابت ہوں ورنہ اس لنگڑی لولی زمانے کی ستائی ہوئی امت مسلمہ کو ایک اور چرکہ نصیب ہوگا۔ابھی وقت ہے اگر ذرائع ابلاغ ان کے پیچھے پڑ گئے تو انھیں روکا جا سکتا ہے۔۷ جون کے انتخابات کے نتائج بھی ان کے مزاج کی سمت طے کرنے میں اہم رول ادا کریں گے ۔ہم دعاگو ہیں کہ اللہ ایک غیر معمولی شخص کو فرعونیت سے بچائے۔آمین
ممتاز میر
07697376137
0 comments: