featured

مشعل کا فتنہ



عمر فراہی ۔ umarfarrahi@gmail.com

چودہ اپریل 2016 کوپاکستان میں مردان یونیورسٹی کے طالب علم اور سوشل میڈیا جرنلسٹ مشعل خان کو انہی کے ساتھیوں نے بہت ہی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا - مشعل پر الزام تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا - وہ عقیدے سے قادیانی تھا - خیر جو بھی تھا انسان تھا - اس کے فیس بک پوسٹ سے یہ اندازہ ہوتا ہےکہ وہ مذہب بیزار لبرل ذہنیت کا نوجوان تھا - بدقسمتی سے ہمارے دور کاایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو مذہب بیزار ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو انسانیت دوست کہتا ہے ، جو اسلام دشمن ہوتے ہیں وہ خود کو لبرل اور مغرب نواز کہتے ہیں - مشعل کے قتل کی خبر بھی ہمیں سب سے پہلے ایک وہاٹس اپ گروپ پر مشعل کے قبیلے کے ہی ایک سوشل لبرل جرنلسٹ کی پوسٹ سےملی - اسلام بیزار اور اسلام پسندوں کے اس گروپ کو ایک ڈیڑھ سال پہلے اردو کےایک معروف صحافی نے تشکیل دیا تھا بعد میں وہ خود تو لیفٹ ہو کر باہر ہو گئےلیکن گروپ پر کچھ سوشل میڈیا ایران اور مغرب نواز لبرل جرنلسٹ مسلسل فتنہ پھیلاتے رہتے ہیں اور ان میں سے اکثر مشعل کی طرز کے سوشل جرنلسٹ اپنے اسلام مخالف نظریات سے دوسرے اسلام پسند صحافیوں کو مشتعل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے- اسی گروپ پر مشعل کی طرز کا ایک فتنہ پرور پچھلے کئی دنوں سے مشعل کے سر عام قتل پر پاکستانی طالب علموں کی اس طرح مذمت اور اس طرح کی تحریریں پوسٹ کر رہا تھا جیسے کہ مشعل کے قتل کے ذمہ دار پاکستانی طالب علم نہیں بلکہ اسلام اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات ہیں - یوں کہا جائے کہ شریر اور بدمعاش قسم کے یہ لوگ مسلسل تحریکی شکل میں اسلامی تعلیمات کے خلاف ایسی گمراہ کن تحریریں اور ویڈیو پوسٹ کرتے رہتے ہیں کہ ہم جیسے باشعور کالم نگاروں کے تن بدن میں بھی آگ لگ جاتی ہے - مگر جب یہی معاملہ کالج اور یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کے ساتھ پیش آجائے تو بات خون خرابے تک پہنچنا بھی لازمی ہے- مشعل کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے جس کا ذمہ دار خود یہ نوجوان بھی ہے - اسلام بہرحال جاہلوں سے الجھنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن کیا کیا جائے کہ ہر کسی کی قوت برداشت یکساں نہیں ہوتی - ہمارے  گروپ کے دو ساتھی جو اردو اخبار سے منسلک بھی ہیں وہ مشعل کے قتل کے ردعمل میں پوسٹ کی گئی نازیبا تحریر پر گروپ کے ایک ایران نواز سوشل جرنلسٹ سے الجھ گئے اور تقریباً ایک گھنٹے تک بات تو تو میں میں تک پہچ گئی - بحث کے دوران وہ یہ تاثر بھی دیتا رہا ہے کہ اگر پاکستان ہوتا تو آپ لوگ قلم کی بجائے میرے اوپر شمشیر لے کر چڑھ آتے - آپ کی جانکاری کیلئے بتادیں کہ اکثر شریر منافق اور دہریے قسم کے سوشل جرنلسٹوں کی یہ خصلت ہوتی ہے کہ وہ خود بدتمیزی گستاخی اور بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور الزام اپنے مخالف پر تھوپ دیتے ہیں - ایسے میں جو اپنی بحث اور عقیدے میں مخلص ہے اس کا جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو کرمشتعل ہوجانا بھی لازمی ہے - شاید وقت کے رشدی اور طارق فتح بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ مشتعل کرکے تخریب پر آمادہ کریں - ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخریہ ان لوگوں کو ایسا کرنے میں مزہ کیوں آتا ہے ؟ اس کا جواب اس کے سوااور کیا ہوسکتا ہے کہ باطل نے ہر دور میں جہاں حق کے خلاف بزور شمشیر محاذ آرائی کی ہے اسی دور میں حق کے علمبرداروں کے خلاف ایسے بدزبان شعراء اور تبرا بازوں کا بھی استعمال کیا ہے جو اہل ایمان کا مذاق اڑا کر اس کی قیمت اصولتے تھے - ایسے بے غیرت مقرر اور مصنف آج بھی فروخت ہورہے ہیں - سلمان رشدی تسلیمہ نسرین اسریٰ نعمانی اور وی ایس نائیپال جیسے بدمعاش اورسطحی سوچ کے مصنفین کے ساتھ ساتھ ایسے الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات  بھی ہیں جو اپنی مطلوبہ قیمت میں فروخت ہو رہے ہیں - خوش قسمتی سے سوشل میڈیا کے دور میں تو فیس بک اور وہاٹس اپ میڈیا پر ایسے سوشل میڈیا جرنلسٹوں کی بھرمار ہو چکی ہے جو پیشہ وارانہ طور پر کسی گروہ کیلئے کام کر رہے ہیں یا فروخت ہونے کیلئے تجربات کے مراحل سے گذر رہے ہیں - مشعل خان بھی ممکنہ طور پر کسی اسلام دشمن تحریک کیلئے ہی استعمال ہورہا تھا - شاید اسی لیئے بہت ہی بے باکی کے ساتھ ادبی انداز میں اسی طرح اسلامی تعلیمات کی تضحیک اور مسلم نوجوانوں کی دل آزاری میں مصروف تھا جیسے کہ پاکستان میں مشعل اور طارق فتح کی ذہنیت کی ایک پوری بھیڑ سرگرم ہے اور بہت ہی منظم طریقے سے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں اور محفوظ بھی ہیں - مشعل کا قتل اچانک ظہور پذیر ہونے والا حادثہ یا ردعمل نہیں ہے بلکہ جس طرح نشے کے عادی افراد اپنی عادتوں سے مجبور ہوتے ہیں ہمارے سماج میں مشعل جیسے بہت سارے لبرل نوجوانوں نے مسلمانوں کی دل آزاری کو اپنی ذہنی عیاشی کا مشغلہ بنایا ہوا ہے - غالباً مشعل کو بہت پہلے سےدھمکیاں مل رہی تھیں لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ حقیقت میں اس کے ساتھ ایسا ہوجائے گا - اس دھمکی کو بھی  اس نے مذاق میں لیتے ہوئے اپنی فیس بک کی چوبیس مارچ کی پوسٹ میں ایک نظم  پوسٹ کی تھی جس میں اس نے اپنے اغوا اور قتل کر دیئے جانے کا خیالی منظر پیش کرتے ہوئے اپنے ہی قاتلوں کے خلاف پولس میں شکایت درج کرنے کی بات کی ہے -

میں لاپتا ہوگیا ہوں
کئی ہفتے ہوئے
پولیس کو رپورٹ لکھوائے
تب سے روز تھانے جاتا ہوں
حوالدار سے پوچھتا ہوں
میرا کچھ پتا چلا؟
ہمدرد پولیس افسر مایوسی سے سر ہلاتا ہے
پھنسی پھنسی آواز میں کہتا ہے
ابھی تک تمھارا کچھ سراغ نہیں ملا
پھر وہ تسلی دیتا ہے
کسی نہ کسی دن
تم مل ہی جاؤ گے
بے ہوش
کسی سڑک کے کنارے
یا بری طرح زخمی
کسی اسپتال میں
یا لاش کی صورت
کسی ندی میں
میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں
میں بازار چلا جاتا ہوں
اپنا استقبال کرنے کے لیے
گل فروش سے پھول خریدتا ہوں
اپنے زخموں کے لیے
کیمسٹ سے
مرہم پٹی کا سامان
تھوڑی روئی
اور درد کشا گولیاں
اپنی آخری رسومات کے لیے
مسجد کی دکان سے ایک کفن
اور اپنی یاد منانے کے لیے
کئی موم بتیاں
کچھ لوگ کہتے ہیں
کسی کے مرنے پر
موم بتی نہیں جلانی چاہیے
لیکن وہ یہ نہیں بتاتے
کہ آنکھ کا تارہ لاپتا ہوجائے
تو روشنی کہاں سے لائیں؟
گھر کا چراغ بجھ جائے
تو پھر کیا جلائیں؟
سوشل میڈیا پر مشعل کے اس قتل پر بہرحال ہر طبقے کی طرف سے مذمت ہورہی ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سلمان تاثیر اور مشعل کسی ممتاز قادری یا مشتعل بھیڑ کی شرارت کا شکار ہوتے ہیں تو ہم مسلمانوں میں سے ہی جو مفتی نہیں ہوتے وہ بھی مفتی ہوکر یہ فتویٰ دینا شروع کردیتے ہیں کہ اسلام قانون کو ہاتھ میں لینےکی اجازت نہیں دیتایا اس طرح کی حرکتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کےمنافی ہےاور اہل حق میں سے بھی کچھ لوگ یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ " ممتاز قادری جیسے لوگ خارجیت کا مظہر ہیں، تکفیر اور انتہاء پسندی کا جو رخ ہمارے معاشرہ میں ہے اس میں ایسے افراد کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے"بیشک ایسا نہی ہونا چاہیے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اخلاق ، نجیب اور پہلو خان جیسے مسلمان ہندو دہشت گردوں کے ذریعے قتل ہوتے ہیں تو کوئی ہندو پنڈت یا دانشور اپنے ہندو مذہب کی دہائی کیوں نہیں دیتا ؟ شام میں ایرانی پانچ لاکھ لوگوں کو قتل کردیتے ہیں پھر بھی خارجی اور تکفیری کے دائرے سے باہر ہیں - امریکہ افغانستان میں اب تک کے سب سے وزنی بارودی حملے کے باوجود امن کا علمبردار ہے تو اس لیئے کہ ہم نے اس بمباری سے شہید ہونے والوں کو دہشت گرد تسلیم کرلیا ہے - اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ باطل کی آواز میں طاقت ہے اور ہم اپنے اختلاف اور خوف کی وجہ سےان کی آواز میں آواز ملاکر ان کے موقف کی تائید کردیتے ہیں - سچ تو یہ ہے کہ مسلمان یا مسلمانوں کے علماء کبھی کسی مذہب اور ان کے اکابرین کی توہین نہیں کرتے بلکہ رشدی تسلیمہ نسرین ، طارق فتح اور مشعل جیسے لوگ خود بلا جواز آگے بڑھ کر مسلم نوجوانوں کو مشتعل کرتے رہےہیں اور کررہےہیں - یہ بات بھی درست ہے کہ ایسے گستاخوں کی بدتمیزی اور گستاخی پر مسلمانوں کو مشتعل نہ ہوکرقانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے لیکن جس معاشرے سے انصاف اور قانون کی حکمرانی کا تصور ہی ختم ہو چکا ہو وہاں ممتاز قادری یا پاکستانی یونیورسٹی کے طالب علموں کی ایک قلیل بھیڑ کو مشتعل ہوجانے سے بھی کیسے روکا جاسکتاہے ؟
بیشک اس کا ذمہ دار بھی موجودہ دنیا کا لبرل جمہوری نظام ہی ہے جس نے طارق فتح اورمشعل جیسے اسلام دشمن شرپسندوں کو پناہ دے کراسلام اور مسلمانوں کی شان میں گستاخی کیلئے آزاد چھوڑ رکھاہے- اب آپ اندازہ لگائیں کہ جہاں ابلیسیت اور دجالیت غالب ہواور للہٰیت اورربّانیت پابند سلاسل اور خطرناک بارودی بموں کے حصار میں جکڑ دی گئی ہو ، جہاں ارباب اقتدار نے خود غنڈے بدمعاشوں کو پناہ دے رکھا ہو اور یہ لوگ اپنی بدعنوانی اور خرافات پھیلانے کیلئے آزاد ہوں تو پھر ایسے میں زمین پر کسی بھی طرز کے فساد اور فتنےکو کیسے روکا جاسکتا ہے...؟

0 comments:

featured

انتظار کیجئے


ممتاز میر۔07697376137

اخبار میں سونو نگم کی ہرزہ سرائی نظر سے گذری ۔ اور آج (۱۹ ،اپریل)کو ہمارے ایک لیڈر کا سونو نگم کی حمایت میں بیان پڑھا۔سونو نگم کہتے ہیں۔’’خدا سب پر مہربانی کرے ،میں مسلمان نہیں ہوں اور صبح میری نیند اذان سے کھلی ۔ ملک میں کب تک مذہبی رسم و رواج کو زبردستی ڈھونا پڑے گا ‘‘یہ بیان صرف مسلمانوں پر چوٹ نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں پر چوٹ ہے ۔اسلئے سبھی کو ان سے پوچھنا چاہئے کہ پھر وہ بھجن کیوں گاتے ہیں۔اور آئندہ بھجن گوانے والوں کو بھی سونو نگم کی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے۔ویسے وہ جس پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اس میں اس قسم کی باتیں کرنا پیشے کی مجبوریوں میں شمار ہوتی ہیں۔وہ لوگ کپڑے اتارتے ہیں تو اسلئے کہ وہ خبر بن جائے اور اگر کپڑے زائد پہن لیتے ہیں تو بھی اسلئے کہ وہ بھی خبر بن جائے ۔پھر آجکل تو ان کا مارکیٹ بڑا ڈاؤن چل رہا ہے اسلئے وہ جو نہ کریں کم ہے۔ مسئلہ ہمارے لیڈر کا ہے ۔اسے کس کتے نے کاٹ لیا تھا ۔اپنے لیڈروں کے تعلق سے ہمارا احساس یہ رہاہے کہ وہ واقعتا مسلمان ہوتے بھی ہیں یا نہیں ؟یہ معاملہ مشکوک ہے !ہمارے یہ مذکورہ لیڈر جن کا نام احمد پٹیل ہے غلام نبی آزاد کی طرح برسوں سے گاندھی خاندان کی ناک کا بال بنے ہوئے ہیں۔ان کی دیرینہ کارکردگی یہ ہے کہ جب ساری دنیا کانگریس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی یہ کانگریس سے چپکے ہوئے تھے۔ یہ اپنی قوم کے کم کیا بالکل وفادار نہیں رہے ہیں ان کی ساری وفاداری گاندھی خاندان یا کانگریس کے ساتھ رہی ہے ۔اور احسان جعفری کا حشر دیکھنے کے بعد بھی اس میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔موصوف اپنی حالیہ حمایت میں کہتے ہیں ’’اذان نماز کا حصہ ضرور ہے لیکن جدید تکنیک کے دور میں لاؤڈاسپیکر کی ضرورت نہیں ہے ‘‘اگر واقعتا ان کے الفاظ یہی ہیں تو ہمیں ان کا مطلب پلے نہیں پڑا۔شاید ان کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ لاؤڈاسپیکر کو مسجد کے میناروں پر لگانے کی بجائے چھوٹے چھوٹے اسپیکر ہر اس گھر میں لگا دیئے جائیں جسے اذان سننی ہو یہ مشورہ ،اگر واقعتا اس کا یہی مطلب ہے تو بہت اچھا ہے ۔ہم صد فی صد اس سے اتفاق کرتے ہیں ۔بس شرط اتنی ہے کہ ہر گھر میں اسپیکر لگانے کا خرچ جناب احمد پٹیل صاحب برداشت کریں ۔قوم ان کا یہ احسان تا عمر نہیں بھولے گی۔
ایک بار پھر سونو نگم کی طرف لوٹتے ہیں۔خبریں یہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر کے آس پاس مسجد نہیں ہے تو کیا وہ کسی دوسرے کے گھر سو رہے تھے یہ شو بز والوں کے لئے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔تو کیا شو بز کی دنیا سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کے بیڈروم میں AC نہیں ہے اور AC ہونے کے باوجود ان کے بیڈ روم میں دنیا بھر کی آوازیں گھس سکتی ہیں ۔ہم تو شوبز والوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کے وہ ٹی وی اداکاراعجازخان کی طرح فرقہ پرستی اور ملک میں پھیلنے والی بے چینی کے خلاف آواز اٹھائیں گے یہ صرف بہادری کا کام نہیں ہے بلکہ ان کے مفادات کا بھی تقاضہ ہے ۔فنون لطیفہ ملک کے موجودہ حالات میں پھل پھول نہیں سکتے۔نریندر دابھولکر ،گووند پنسارے اور ملیشپا کلبرگی نے آخر کیوں اپنی جانیں قربان کیں۔ اسی لئے ہمیں لگتا ہے کہ سستی شہرت کی خاطر وہ بیان بازی کر بیٹھے ہیں۔دوسری طرف ہمارے لیڈر کی ان کی حمایت میں اٹھنے والی آواز سے وہ خوف جھلک رہا ہے جو بی جے پی کی یو پی میں دو تہائی سے زائد کی اکثریت سے فتح نے مسلمانوں میں پھیلا رکھا ہے۔آج وطن عزیز میں مسلمانوں میں شاید ہی کوئی قابل لحاظ دانشور ایسا ہو جو مسلمانوں اور ملک کی اس حالت کا ذمے دار کانگریس کو نہ مانتا ہو ۔ اس کے باوجود کانگریس کے ایک مسلمان لیڈر کا بیان نوٹ کرنے کے قابل ہے ۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ کانگریس نے آج بھی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ۔وہ آج بھی اپنی نرم ہندتو کی لٹیا ڈبو دینے والی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہے ۔ ہم اپنے مضامین میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں اور ایک بار پھر لکھ رہے ہیں کہ ہمیں جس قسم کے لیڈر میسر ہیں (چاہے سیاسی ہو یا مذہبی) جس طرح کی حماقتیں وہ کرتے ہیں ، فرقہ پرستی کے سامنے جس طرح وہ پسپائی اختیار کرتے ہیں ایک وقت آئے گا کہ حکومت کہے گی نماز کے لئے مسجد کی ضرورت کیا ہے۔نماز گھر میں بھی پڑھی جا سکتی ہے ۔آپ لوگ نماز کے لئے مسجد میں جمع ہو کر حکومت کے خلاف سازشیں کرتے ہو ،لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکاتے ہو تو حکومت کے اس موقف کو سب سے پہلے جو حمایتی میسر آئے گا وہ ہمارا ہی کوئی مسلمان نمالیڈر ہوگا ۔اور وہ حکومت کے اس موقف کی حمایت میں جو دلائل فراہم کرے گا اسے سن کر خودحکومت کا حال جو بھی ہو ہم مسلمان بھی عش عش کر اٹھیں گے ۔انتظار کیجئے ۔کچھ ہی دنوں میں یہ نظارہ بھی شاید دیکھنا پڑے۔ ’’شاید‘‘ہمارے اپنے لئے۔ہم عمر کے آخری پڑاؤ میں ہیں۔

0 comments:

featured

زوال یافتہ پارلیمانی اقدار اور ملک پر منڈلاتے خطرات


نہال صغیر


یوں تو پارلیمانی جمہوری نظام میں اکثر ملکوں کی پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب مخالف کے درمیان ایسی تو تو میں میں ہوتی رہی ہیں جس کو غیر پارلیمانی کہا جاتا ہے ۔ایک ویڈیو میں ایسے کئی ممالک کی پارلیمنٹ کی انہی فوٹیج کو اکٹھا کردیا گیا تھاجس میں صرف تو تو میں میں ہی نہیں ایک دوسرے پر خطرناک حد تک حملہ کیاگیا تھا ۔لیکن دیگر ممالک میں یہ شاذ و نادر ہونے والے واقعات ہیں ۔وہ اپنے وقار اور اپنے عوام کی خواہشات کا احترام کرنے والے لوگ ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ان سے لاکھ اختلاف کے باوجود ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان کے اسی نظم وضبط نے انہیں ترقی یافتہ بنایا ہے جہاں لیڈر سے لیکر عام آدمی تک تعلیم یافتہ اور سمجھ بوجھ رکھنے والے ہیں ۔ان ممالک میں گھوم کر آجائیں آپ محسوس کریں گے جیسے یہ ممالک اس دنیا میں نہیں کسی اور سیارے پر آباد ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اسی سیارے پر آباد ہیں اور ہمارے جیسے ہی شکل و صورت والے انسان ہیں ۔بس ان کی اور ہماری سوچ میں فرق ہے ۔انہیں کوئی کہہ دے کہ ’کو اکان لے جارہا ہے ‘تو کوا کے پیچھے پڑنے کی بجائے اپنے کان دیکھتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں کان دیکھنے کا رواج نہیں ہے بس کوا کے پیچھے بھاگ کر خود کو ہلکان کرنے کی روایت عام ہے ۔دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی سنسکرتی (تہذیب)ہزاروں سال پرانی ہے ۔شاید یہ سچ بھی ہو اسی لئے لوگ نئی تہذیب و تمدن اور اس کے تقاضے سے نا آشنا ہیں۔دنیا میں نئے دور کا آغاز ہے نئی نئی کھوج اور تلاش کا کام جاری ہے لیکن یہ برہمنوں کی غلام قوم اب بھی ہزاروں سال کے پرانے افسانوی دور کی باتیں کرتی ہے اسی میں مگن ہے ۔اس شخص کے جھانسے میں آتی جارہی ہے جو انہیں جھوٹ موٹ کی باتوں میں اسے الجھا کر موجودہ دور کے تقاضوں اور بنیادی انسانی ضروریات کی عدم موجودگی و عدم فراہمی کے کرب سے اس کا ذہن دوسری جانب پھیر دینا چاہتی ہے اور یہ جاہل اور گنوار اسی بھول بھلیوں میں مگن رہنا چاہتے ہیں ۔ہمارے یہاں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں پہلے تو میز کرسیاں اور مائیک پھینک کر ایک دوسرے کو مارنے کا رواج تھا ۔لیکن بعد کے زمانے میں جب انہیں فِکس کردیا گیا تو مجبوراًً ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنے اور ضروری کاغذات پھاڑنے تک ہی معاملہ سمٹ گیا ہے ۔لیکن جو لوگ یہ ساری حرکتیں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں کرکے ملک کا نام روشن کیا کرتے تھے اب وہ اپنے عزائم کی تکمیل عوام مقامات پر سرکاری یا دیگر عملہ کے ساتھ مار پیٹ کرکے کررہے ہیں ۔حال ہی میں شیو سینا کے ایک رکن پارلیمان رویندر گائیکواڑ نے ایئر انڈیا کے ایک عملہ کے ساتھ مار پیٹ کی اور اپنی اس بہادری والے کارنامے کو فخر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اس ملازم کو 25 بار چپلوں سے مارا۔شیو سینا نے تو خیر کبھی بھی خود کو مہذب اور اخلاقی اقدار والی پارٹی قرار نہیں دیا ۔اس نے کھلی غنڈہ گردی کی اور اس کا کھل کر اظہاربھی کیا ۔لیکن وہ جس کے سایہ میں مرکز میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے یعنی بی جے پی نے اقدار پر مبنی سیاست کرنے والی پارٹی کہنے میں کبھی عار محسوس نہیں کیا ۔ہمارے نئے نویلے پردھان سیوک جی یہ کہہ کر بھی آئے تھے کہ وہ سیاست دانوں کے مقدمات کا فاسٹ ٹریک عدالت میں جلد از جلد نپٹا را کریں گے ۔لیکن انہوں نے کسی اور وعدوں کو پورا کیا ہے جو اس کو بھی پورا کریں گے اور پورا بھی کیوں کریں جب یہاں کے احمق لوگ اس کے بغیر ہی چند جذباتی نعروں میں بہل کر مسلم دشمنی کے نشہ میں انہیں تھوک کے حساب سے ووٹ دے رہے ہوں ۔وزیر اعظم مودی کے ساتھ جو ارکنان پارلیمان ہیں ان میں خود تیس فیصد کے قریب ارکان پر مجرمانہ معاملات درج ہیں ۔خود وہ بھی کیا ہیں دنیا اسے جانتی ہے ۔اس پرطرہ یہ کہ جن کو اتر پردیش کی کمان دی گئی ہے وہ شخص بھی ایسے کئی مجرمانہ معاملات میں ملوث ہے ۔
آج کی مہذب دنیا ہو،یا عہد وسطیٰ کی غیر مہذب اور سائنسی تحقیق سے دور دنیا میں کسی ملک کی پہچان ان کے باشندوں کی اجتماعی سوچ سے ہوا کرتی ہے ۔خود سے کچھ بھی کہتے رہیں اس سے دنیا کو کچھ لینا دینا نہیں ۔ دنیا آپ کے عمل کو دیکھے گی آپ کے بلند و بانگ دعووں اور زعم باطل سے کچھ نہیں ۔ایک بات اور جو قابل توجہ ہے کہ اگر کوئی کسی زعم میں ہے ،اس میں کچھ خوبیاں ہیں تو اس کے زعم کو نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے برعکس کسی میں کوئی خوبی ،کوئی اچھائی نہیں ہو، صرف اپنی آبادی کی بنیاد پر جھوٹے دعووں پر دنیا کوئی توجہ نہیں دیتی یا کہہ دینے سے کہ آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں جبکہ حالت یہ ہو کہ یہاں کوئی آپ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرے تو آپ اسے بدنام کریں اس کی تکذیب کریں اور اس کو ملک دشمن قرار دیں یعنی آپ کی حب الوطنی کا معیار آپ کے خیالات سے ہم آہنگ ہونا طے پایا ہے ۔بھلا ایسی صورت میں ملک کی ترقی کیوں کر ممکن ہے ؟سارے آزاد ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ پردھان سیوک کے احمقانہ فیصلوں سے ملکی معیشت کو جو چوٹ پہنچی ہے اس کی تلافی اگلی کئی دہائیوں تک میں ممکن نہیں ہے ۔ لیکن حکومت اور ان کے بھکت اس بات کو ماننے کو راضی ہی نہیں ۔اس پر مرے پر سو درے کے مصداق یوگی جیسے لوگوں کی حکومت میں مزید بیروزگاری میں اضافہ ملکی معیشت کی کمر توڑنے کیلئے ہی کافی ہے ۔وعدہ تو دو کروڑ روزگار پیدا کرنے کا تھا لیکن اناڑی پن اور وعدوں کے پورا کرنے کی جوابدہی سے بچنے کیلئے ایسی پالیسی اپنائی جارہی ہے جس سے وہ دوکروڑ تو روزگار کیا ملے گا مزید کروڑوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے ۔چھوٹے تاجر وں کا دھندا ختم ہو رہا ہے ۔ جو اس ملک میں روزگار مہیا کرانے اور معیشت کو مہمیز دینے میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں ۔ایم اعداد شمار کے مطابق یہ لوگ ملک میں روزگار مہیا کرانے نوے فیصدی سے زائد کے شراکت دار ہیں۔اسی طرح جی ڈی پی میں وہ سب سے آگے ہیں ۔
مودی حکومت ہی ملک کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھی کہ اس نے ایک اور خوفناک فیصلہ لے لیا کہ اتر پردیش میں یوگی کو سربراہ بنادیا ۔اس طرح کے فیصلوں اور ان کے کام کرنے کے طریقوں سے ملک میں چھوٹے روزگار ختم ہوتے جائیں گے ۔بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔کسانوں کی خود کشی کے تناسب میں اضافہ ہونا بھی طے ہے ۔اس سے افراتفری اور بے چینی میں اضافہ ہوگا ۔جب لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہوں گے اور ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے انہیں اناج مہیا نہیں ہوگا تو اس کیلئے لوٹ مار میں اضافہ ہوگا ۔ایک اور بات جو قابل غور ہے کہ بی جے پی جس طرح اپنے پیر پسا رہی ہے اور بیشتر ریاستوں میں اس کی حکومت بنتی جارہی ہے اور اس کیلئے اس نے جس طرح کھلے عام منافرت کو فروغ دینا شروع کیا ہے اس سے شروع میں جہاں اقلیتوں کے تئیں منافرت میں اضافہ ہو گا اور یہ خانہ جنگی کی جانب ملک کو دھکیل دے گا وہیں علاقائی اور لسانی دوریوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہا تو اس سے آگے ریاستوں کی علیحدگی کی بات بھی آسکتی ہے ۔حالانکہ بی جے پی نے ابھی تک غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں راست مداخلت سے پرہیز کیا ہے ۔یہ کام کانگریس نے اپنے دور حکومت میں خوب کیا ریاستی حکومتوں کو برخواست کرنے کا کام اس کے دور حکومت میں ہوا ۔کشمیر میں بھی کسی حکومت کو کانگریس نے مستحکم نہیں ہونے دیا ۔ لیکن بی جے پی دوسرے راستوں سے ریاستوں میں مداخلت کررہی ہے ۔اس میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جن ریاستوں میں اسے عوامی مینڈیٹ نہیں ملا وہاں بھی اس نے سازش کرکے حکومت بنالی یہ بھی اسی کا ایک حصہ ہے ۔ابھی تک تو وطن عزیز کی ریاستی یکجہتی کو پاکستان اور مسلمانوں کو ایک مشترکہ دشمن کے طور پر پیش کرکے قائم رکھا گیا ہے۔یہ کام کانگریس بھی کرتی رہی ہے اور اب بی جے پی بھی انہی راہوں کی مسافر ہے ۔ حالانکہ نہ تو مسلمان اس ملک کے دشمن ہیں اور نا ہی ہندوستان جیسے بڑے ملک کیلئے پاکستان کوئی چیلنج کی صورت رکھتا ہے ۔ جبکہ چین کو نظر انداز کردیا گیا جو کہ ملک کیلئے حقیقی خطرہ ہے۔چین کا خطرہ ثابت شدہ بھی ہے اور آئے دن اس کی در اندازی اس کے عزائم کو سمجھانے کیلئے کافی ہے ۔جبکہ پاکستان کی ہندوستان میں در اندازی یا پراکسی وار محض اسے پریشان کرنے یا الجھانے کے سوا کچھ نہیں لیکن چین کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے وہ ہندوستان کو الجھانے یا پریشان کرنے کیلئے در اندازی نہیں کرتا بلکہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی مطلوبہ ریاست ہندوستان سے چھین لے گا ۔اس کے باوجود ہمارے ارباب اقتدار نے مسلم دشمنی میں کبھی اس جانب توجہ نہیں کی ان کے سامنے ہمیشہ پاکستان ہی رہا ۔اگر چین کو سامنے رکھ کر ہندوستان نے دفاعی اور معاشی میدان میں کوشش کی ہوتی تو آج چین کی جرات نہ ہوتی کہ وہ ہمیں آنکھیں دکھائے اور ہماری اوقات بتائے۔دیکھنا یہ ہے کہ اکثریت کو متحد رکھنے کے مقصد سے مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ دشمن نمبر ون کی صورت کب تک برقرار رکھی جاتی ہے ؟

0 comments:

featured

عوامی رائے کا قتل!

جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

جمہوریت اظہار رائے کی آزادی کا نام ہے۔ پوری دنیا میں جو انتہائی پسندیدہ نظام ہے اسے رائے کی آزادی کے حوالے سے جمہوریت ہی کہا جاتا ہے۔ جمہوریت سے محروم ملک ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا ملک اس نعمت سے مالا مال ہے۔ 1947 سے اب تک جمہوری حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں، ہمارا آئین او رہماری عدلیہ سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں۔ ہر الیکشن کے بعد کامیاب ہونے والے افراد ہوں یا سیاسی جماعتیں، سبھی اپنے سیکولر آئین پر حلف لیتی ہیں۔ ہمارے آئین نے جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی ہے ان میں اظہار خیال کی آزادی کے حق میں یا اس کے حق کو بلاخوف تردید غیر معمولی اہمیت کا حامل اور فرد و ریاست کے باہمی تعلقات کی میزان قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی بھی کچھ حدیں ہیں، کچھ بندشیں ہیں جنہیں کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس آئین میں آزادی اظہار رائے اور تحریر و تقریر کی آزادی دی گئی ہے اسی میں ریاست کی سلامتی، امن عامہ و اخلاقیات، توہین عدالت جیسے عنوانات کے تحت اس کے گرد ایک ایسا حصار بھی قائم کردیا گیا ہے جس کے احترام کی صورت میں ہی یہ آزادی عملاً بامعنیٰ بن سکتی ہے اور ریاست کے ساتھ ٹکرائو سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ معاملہ اگر مذہبی عقائد کا، مذہبی شخصیتوں اور مذہبی روایات کا ہو تو یہ بات اور بھی ضروری ہوجاتی ہے کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پا ئے۔ صحت مند تنقید اور اشتعال انگیز تنقیص کے فرق کو نظر انداز نہ کیا جائے اور زبان و بیان دونوں ہی کے معاملے میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ شہریوں کے کسی بھی گروہ، فرقے یا طبقے کے جذبات و احساسات مجروح نہ ہوں۔ یہی ہونا چاہیے مگر افسوس کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر زبان و قلم کے ذریعے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی رِدا کو تار تار کردینے اور فضا کو نفرت کے انگاروں سے بھر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی  غرض نہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، کر رہے ہیں ملک و سماج پر، لوگوں کی سوچ پر اس کے کتنے مضر اور منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح انتخابات کے موقعوں پر جو لوگ اظہار رائے کا احترم نہیں کرتے وہ گھاٹے کا سودا کرتے ہیں کیونکہ حقوق پر ڈاکے کی بدترین شکل بھی ہے کہ لوگوں کی زباں بندی کردی جائے یا ان کی رائے کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ مصنوعی طریقوں اور جعل سازی کے بل پر حاصل کیا گیا اقتدار ریت کی بودی دیوار کی مانند ہوتا ہے جو ہوا کا ایک تیز جھونکا بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ ماضی میں ملک کے عوام نے اندرا گاندھی کے دور حکومت میں دیکھا تھا کہ انتخابی دھاندلی کے نتیجے میں انہیں ایک دن کی جیل یاترا بھی کرنی پڑی تھی۔ ہمارے سیکولر ملک کی اور سیکولر آئین کی یہ زریں مثال ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے سیاست دانوں کو تاریخ سے سبق لینے کی توفیق کم ہی ہوتی ہے۔
پچھلے انتخابات کی طرح ہی اس بار بھی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی ناقابل یقین کامیابی پر تمام سیکولر پارٹیاں شکوک و شبہات کا اظہار بھی کر رہی ہیں او راس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی بھی کر رہی ہیں اور عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی دے دیا ہے۔ کتنی حقیقت کتنا فسانہ ہے یہ آنے والے وقتوں میں ظاہر ہوجائے گا۔ ہاں اگر ہاری ہوئی پارٹیوں کے دعوے میں سچائی ثابت ہوگئی تو یہ ملک کے آئین اور سیکولرزم کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوگی۔ اس لیے بھی کہ اس وقت جو لوگ ملک کے اقتدار پر قابض ہیں وہ سیکولرزم کے برعکس اپنا مخصوص نظریہ رکھتے ہیں جو کسی بھی حال میں اقتدار سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ایسے حالات میں سیکولر آئین اور عوام کی حق را ئے دہی دونوں کی روح مجروح ہوگی۔
آج ہمارے جو لوگ عوام کی رائے کا جائزہ لینے کے لیے الیکشن کا کھیل کھیلتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایسے انتخابات جن میں جعلی ووٹنگ، دھاندلی اور جبر سے نتائج کی تبدیلی کے ذریعے عوام کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کیا جاتا ہے کیا ان کا یہ عمل کسی سیکولر ملک کے لیے مفید ہے؟
کروڑوں روپوں کا خرچ، قوم کا وقت، صلاحیتیں اور سرمایہ ضائع کرکے اگر اپنی مرضی کے مطابق ہی نتائج حاصل کرنا مقصود ہے تو پھر انتخابی ڈرامہ رچانے کی ایسی کیا مصیبت پڑتی ہے اور قوم کی مایوسیوں میں مزید اضافہ کی ضرورت کیا ہے؟ برسوں سے عوام بھی تماشہ دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے بھاری مینڈیٹ کو پیروں تلے روندا جاتا رہا ہے اور اقتدار پر قبضہ کے لیے نت نئے حربے استعمال ہوتے رہتے ہیں اور ایسے غاصبانہ حکومتوں کے دور میں عوام مصائب و مشکلات کے پہاڑ تلے دبتے رہے ہیں۔ عوام کو طرح طرح کے مسائل اور دال روٹی کے چکر میں تو کبھی مندر/ مسجد کے قضیے میں بری طرح الجھا دیا گیا۔ حالات اتنے سنگین ہوتے گئے کہ عوام کی قوت مدافعت کمزور سے کمزور ہوتی گئی۔
اس طرح ہر الیکشن اب عوام کے لیے راحت کے بجائے عذاب بنتا جارہا ہے۔ اکثر خبریں سننے میں آتی رہی ہیں کہ فلاں حلقے میں دھونس، دھمکی اور اسلحہ کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح عوام کو بے بس کردیا جاتا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کو اپنا ووٹ دینے پر مجبو رہوجاتے ہیں۔ ای وی ایم مشینو ںسے چھیڑ چھاڑ کی شکایت بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔
الیکشن کے موقع پر ہمارے میڈیا کی بھاری ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ حقائق کو سامنے پیش کرتا رہے لیکن یہ بھی بعض حالات میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرپاتا۔ کہیں لالچ تو کہیں دھمکی کے سامنے یہ بھی خود کو بے بس پاتا ہے جس کی وجہ سے سیاست دانوں کے پیدا کردہ اس مصنوعی کھیل کے اصل حقائق کو یہ پیش کرنے سے بھی معذور ہیں۔ یوں تو سوشل میڈیا وغیرہ اب اتنے آگے ہیں کہ کوئی بھی چیز اس دور میں چھپ نہیں سکتی لیکن بہت سی وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے ان لوگوں کو دن کو بھی رات ہی کہنا پڑتا ہے۔ اس طرح ہمارا میڈیا بھی سیاست دانوں کی طرح ہر الیکشن کو ’صاف و شفاف‘ کہنے پر مجبور ہے۔
غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام عمل سیکولرزم کے نام پر ہو رہے ہیں، جہاں عوامی رائے کا قتل سرے عام، جہاں پریذائڈنگ افسر رائے دہندگان کی انتخابی پرچی چھین کر خود حق رائے دہی انجام دیتا ہے اور جب کوئی اس طرح کی حرکت کرتے پکڑا جاتا ہے تو ذمہ داران اپنی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ یوں تو الیکشن کمیشن کا بھرپور عملہ بھی ہوتا ہے لیکن وہ بھی سیاست دانوں کی طرح ہی یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ الیکشن صاف و ستھرا اور شفاش ہوئے ہیں۔ مگر وہ کہاں ہیں الیکشن کمیشن جو دیگ کا ایک دانہ دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ دیگ کچی ہے یا پکی؟
موجودہ حالات ملک کے سیکولر کردار کے لیے انتہائی سنگین ہیں۔ اگر اس صور تحال پر قابو نہیں پایا گیا تو عین ممکن ہے لوگوں کا ہمارے الیکشنی عمل سے بھروسہ ہی ختم ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کے لیے قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ خاص طور سے ملک کی اقلیتوں کے لیے جان لیوا مسائل جنم لینے لگیں گے۔ ہندوستان میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ ان کے دکھوں کے مداوا اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے معقول و مناسب قدم اٹھانے کے وعدے کو انتہائی فراخ دلی کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ خاص کر انتخابات کے موسم میں۔ لیکن رات گئی بات گئی کے مصداق چنائو کے بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ وعدوں کی کشت زاویے حسی کی آگ برساتی ہوائوں میں جھلس کر رہ جاتی ہے تو امیدوں، آرزوئوں اور تمنائوں کی نرم رو آب جو وعدہ فراموشی، طوطا چشمی اور بے ضمیری کے ریگ زاروں میں سر پٹک پٹک کر دم توڑ دیتی ہے۔
انتخابات ہی ملک کے غریبوں، مظلوموں اور اقلیتو ںکے دکھوں کا مداوا ہیں بشرطیکہ ان کے حق رائے دہی کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ناانصافی حق تلفی کے نتیجے میں ہی آج انتخابی نتائج شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں اور جو ملک کے سیکولر آئین و قانون کے لیے بھی اور جمہوری قدروں کے مستقبل کے تئیں بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ یا جو سیاسی پارٹیاں سیکولر ہونے کا دم بھرتی ہیں وہ خود کو اور ملک کے سیکولر کردار کو بچانے کے لیے صدق دل سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورت بر نہیں آتی۔

0 comments:

featured

مشاورت ،اجتماعیت،مشارکت



دوٹوک..................................قاسم سید

اترپردیش میں بی جے پی کابرسراقتدار آنا اوریوگی آدتیہ ناتھ کا وزیراعلیٰ بننا سیاسی عمل کا روایتی حصہ ہے اس کے مستقبل کی قومی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور پوت کے پائوں پالنے میں نظرآنے لگے ہیں۔ اب بی جے پی کے پاس قانونی وآئینی اختیارات والے دو یوگی ہوگئے۔ ایک کے ہاتھ میں پورے ملک کی قیادت ہے تو دوسرا ملک کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ ممبرپارلیمنٹ دینے والی ریاست کی باگ ڈور سنبھال رہا ہے ۔ دونوں کرم یوگی ہیں اور زمین سے جڑے لیڈر ہیں ۔ سخت تپسیا اور زبردست جدوجہد کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں۔ دونوں سخت گیرہندوتو کے علمبردار ہیں ۔ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ہیں جس کا قیام 1925 میں ہوا جب ملک جنگ آزادی کی لڑائی میں مصروف تھا۔ آر ایس ایس نےاپنے نظریات وفلسفہ کو چھپاکر نہیں رکھا ۔ اس پر شرمندگی یا تاسف کااظہار نہیں کیا بلکہ خاموشی کے ساتھ سماجی زندگی کے ہر شعبہ میں سرگرمیاںانجام دیتا رہاہے اور آج لاکھوں رضا کار وں پر مشتمل فوج پوری توانائی کے ساتھ ہندوستانی سیاست کی شہ رگ پر قابض ہے اورکوئی بھی پتہ اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔وزرائے اعلیٰ اور کابینہ کے انتخاب میں اس کا مکمل عمل دخل ہے حتیٰ کہ سرکار کے ساتھ تال میل کے لیے رابطہ کمیٹی ہے۔ اس نے یہ مقام گھر بیٹھے حاصل نہیںکیابلاشبہ اس کے کارکنوں اور رضاکاروں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ شادیاںنہیں کیں،مجردرہنا گوار کیا اور تن من دھن سے نظریاتی آبیاری میں لگے اور 1925میں لگایاپوداتناور درخت میں تبدیل ہوگیا اور وہ منزل وہ ہدف جو کبھی دیوانے کا خواب لگتا تھا آج حقیقت بنتا نظر آرہا ہے۔ یعنی ہندو راشٹر کا قیام یا کم از کم ہندوتو کے مطابق ملک کی سیاست کو چلانے کی باتیں اب گالیاں نہیں سمجھی جاتیں اور نہ ہی کسی میں گلا پکڑنے کی ہمت ہے بلکہ جو پارٹیاں خود کو سیکولر کہلاتی ہیں وہ بھی’ سجدہ ‘سہو کرنے کے لیے تیارہیںاور اقلیت نوازسیاست کو خیرباد کہنے میں ہی عافیت سمجھ رہی ہیں جیساکہ کانگریس کی صفوں سے رہ رہ کر ایسی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ اگرآنے والے وقت میں اقلیتوں کے لیے نشستیں مخصوص کردی جائیں ،ان کے انتخاب میں حصہ لینے اور ووٹنگ پر پابندی لگادی جائے تو کسی کو تعجب نہیں ہوگا کیونکہ آرایس ایس کے نظریہ سازوں کے احکامات وفرامین یہی ہیں ملک کی سیاست جس طرح کروٹیں بدل رہی ہے اور ہم نان وقلیہ کی حدوں سے باہر آنے پرآمادہ نہیں ہیں اس میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ میٹ کاروبار کے خلاف اچانک جس طرح کے اندیشوں نے جکڑلیا ہے کیا اتنی سختی اور مستعدی کے بارے میں تصور بھی تھا ۔ گئورکشکوں کے ہاتھوں سرعام جس شقاوت قلبی اور درندگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے کیا ایسے واقعات اب عام نہیں ہوتے جارہے ہیں ۔ وزیراعظم کی سخت تنبیہ اور گئورکشکوں کی اکثریت کو سماج دشمن غنڈوں سے تشبیہ دینے اور ان پرکارروائی کی ہدایت کے باوجود ریاستی حکومتوں نے تحفظ فراہم کیا اور ان کی قانون شکن حرکتوں کا دفاع کیاجارہاہے ۔ کچھ عرصہ قبل ایسا سوچا جاسکتا تھا۔ اخلاق کے بہیمانہ قتل پر سول سوسائٹی ہی نہیں اپوزیشن نے بھی سخت احتجاج کیا اب پہلوخان کے گائے کے نام پر سرعام بے رحمانہ قتل پر اتنی آوازیں اٹھیں شاید نہیں! یہ بے حسی نہیں احتیاط ہے یہ صبروتحمل نہیں مصلحت پسندی ہے۔ یہ بزدلی نہیں حالات سے سمجھوتہ ہے۔ سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں نے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے ہیں ان میںکئی پارٹیاں یہ مان چکی ہیں کہ عوام مودی سرکار کو ایک اور موقع دیں گے اس لیے زیادہ ہاتھ پیر چلانے کی ضرورت نہیں۔
2025میں آر ایس ایس اپنے قیام کا سوسالہ جشن منائے گا اس کا ہدف ہندو راشٹر کی تعمیر ہے اگر 2019 میں مرکز اور 2022میں اترپردیش پر اس کاقبضہ برقرار رہتا ہے تو 2025تک یہ اعلان شدہ ہندوتو راشٹر بن جائے گا غیر اعلان شدہ تو کانگریس کے دوراقتدار سے ہی ہے اور اب سب کچھ ہاتھ میں ہے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دوردرشن کے دیے گئےحالیہ انٹرویو میں بے باکی سے کہا ہے کہ وہ یہ بات صفائی سے کہناچاہتے ہیں کہ ہندو تو راشٹر کا تصور غلط نہیںہے اور ہندوتو اس کا راستہ ہے جس کی وکالت سپریم کورٹ نے کی ہے ۔  شاید ہی کسی آئینی عہدہ پر بیٹھے شخص نے اتنی جرأت کے ساتھ ہندوراشٹر کے خواب کاتذکرہ کیاہو اور سیکولر ملک نے اس کا کوئی نوٹس نہیںلیا ۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ غیر قانونی ذبیحہ خانوں پر تالہ بندی اوراینٹی رومیواسکواڈ کے قیام کو
اولین ترجیحات میں کیوں شامل کیاگیا۔ کیوں میڈیا کا رویہ اورطریقہ بدل گیا۔ کیوں یوگی کو آسمانی مخلوق قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے کیوں ایسے اقدامات جن پر الٰہ آباد ہائی کورٹ میں سوال اٹھتارہا ہے سماجی منظوری کا درجہ حاصل کررہے ہیں کیوں گائے کے تقدس اور سنسکرتی کے تحفظ کو انقلابی اقدامات کہہ کر سندقبولیت عطا کی جارہی ہے اسکولوں میں یوگ کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ واہ واہی لوٹ رہا ہے ۔ دراصل ہندوگوروکے لبادہ میں ہر وہ قدم دادوتحسین کے ساتھ قبول کیاجائے گا جس کو مہذب سماج عام صور ت میں قبول نہیں کرسکتا ۔ دراصل سیکولر پارٹیوں کا رویہ شروع سے ہی منافقانہ وعیارانہ تھا البتہ سول سوسائٹی دل سے سیکولر اقدار کے لیے قربانیاں دیتی رہی ہے اور یہی سول سوسائٹی ہے جو اکثریتی فاشزم سے لوہا لے رہی ہے اور حکومت کے خاص نشانہ پر ہے۔ یوگی کاہندو راشٹر سے متعلق بیان ان کے عزائم ارادوں اور طریقہ کار کو سمجھنے میں معاون ہے اور ان کے حالیہ اقدامات کی توجیہہ تلاش کرنے میں مدد کرنے والا ہے ۔ ہمیں نہیںپتہ کہ سیکولر پارٹیاں سول سوسائٹی اور مسلم قیادت اسے کس زاویہ سے دیکھناچاہے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی یہ سمجھنے کے لیے تیار ہیں کہ آنے والا وقت خطروں اور چیلنجوں سے بھرا ہے اگر ایسانہیں ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیںہے۔راوی عیش لکھے گا ۔ اگر ہمیں لگتا ہے کہ حالات لگاتار غیر موافق ہوتے جارہے ہیں اور راہیں دشوار تو پھر اس پر غور کرناپڑے گا کہ کرناکیا چاہئے۔
جہاں تک مسلم قیادت کا تعلق ہے اس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے پہلے جب بھی کوئی آزمائشی لمحہ آتا تو سارے زعماایک ساتھ بیٹھ کر سرجوڑ کر اس کا حل نکال لیتے تھے۔ کوئی کسی کے گھر جانے میں تکلف نہیں برتتاتھا اور نہ ہی ذاتی تحفظات کی دیوار یں اتنی اونچی تھیں کہ آواز بھی سنائی نہ دے ۔ قدم قدم پر مسلمانوں کو حوصلہ دیتے ہمت بندھاتے ضرورت ہوتی تو ملک گیر دورے کرتے اور اتحاد کا احساس کرانے بدقسمتی سے رشتوں میں خیرسگالی اور مواخاۃ کا تصور کمزور ہوتا گیا ہے اور اب حالت یہ ہے کہ سب اپنے خول میں بند ہوگئے۔ اپنی مسجد اپنی اذاں نے اجتماعیت  کے تصور کو زخمی کردیا،حیرت ہوتی ہے کہ قرآن وحدیث کا سوتے جاگتے ورد کرنے والے بھی اسلام کے تصور اجتماعیت کوکتابوں سے باہر نہیں آنے دیتے ۔ بہرحال باہمی مشاورت سے بہتر اورکوئی راستہ نہیں ہے ۔ جماعتی دائروں اور ذاتی تحفظات سے بالاتر ہوکر ایک جگہ مل بیٹھنے میں ہی فلاح ہے۔ اشتراک عمل کی گنجائش نکالی جائیں اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ،مشترکہ لائحہ عمل بنایاجائے ۔ مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لا بورڈ جیسے اجتماعی اداروں کی ذمہ داری زیادہ ہے ۔ ہمیں ان پر اعتماد کرناہوگا۔ مسلم قیادت اور عام مسلمان میں عدم اعتماد کی خلیج بڑھتی جارہی ہے کیونکہ دونوں میں باہم کوئی رابطہ نہیں ۔ وہیں سرکار وںکے ساتھ اپنے رویہ پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے فائدے اور نقصانات کی وضاحت کی جائے ۔ کیامودی سرکار کی طرح یوگی سرکار سے بھی ڈائیلاگ کا دروازہ بند رہے گا ۔ ان کے دعوت دینے کا انتظار کیا جائے گا کیونکہ یہ موقف کلی طور پر ناقابل فہم ہے کہ آپ اپنے ملک کی سرکاروں سے رابطوں کی تمام زنجیروں کو کاٹ دیں اور اجنبی کی طرح ملک میں رہنے پر مجبور کئے جائیں۔ موجودہ حالات میں اشتراک عمل اور مسائل پر سرکار وں سے ڈائیلاگ کے علاوہ او رکوئی راہ عمل ہو تو براہ کرم اس سے آگاہ کیاجائے ۔ عنداللہ ماجور ہوںگے ۔

0 comments: