हिंदी

'मैं मुसलमान हूं, बदला लेना हमें नहीं सिखाया गया'

 बुधवार, 11 जून, 2014 को 07:43 IST तक के समाचार

हैदराबाद की मक्का मस्जिद धमाके के सिलसिले में फर्जी मुकदमे में गिरफ्तार  इब्राहिम अली जुनैद
यूनानी दवाइयों के डॉक्टर इब्राहिम अली जुनैद 29 वर्ष के हैं और पिछले छह सालों से अपने ऊपर लगी टेरर टैग की 'बीमारी' का ख़ुद इलाज कर रहे हैं.
हैदराबाद की मक्का मस्जिद में 18 मई 2007 के दिन ज़ोरदार बम धमाके हुए थे, जिसके बाद 25 युवाओं को गिरफ़्तार किया गया था.
इब्राहिम अली जुनैद उनमें से एक थे. इन सभी मुस्लिम युवाओं के ख़िलाफ़ पुलिस ने फ़र्ज़ी मुक़दमे किए थे जिन्हें बाद में अदालत ने बाइज़्ज़त बरी कर दिया. इसके बाद सीबीआई ने स्वामी असीमानंद को 2010 में गिरफ़्तार किया और उनके बयान से ये स्पष्ट हुआ कि मक्का मस्जिद विस्फोट में हाथ किसका था.
राज्य सरकार ने जुनैद को मुआवज़े के तौर पर तीन लाख रुपए दिए और 'सॉरी' के अंदाज़ में एक 'कैरेक्टर सर्टिफ़िकेट' भी दिया. लेकिन इन युवाओं का तब तक काफ़ी नुक़सान हो चुका था.
किसी की शादी नहीं हो सकी, कोई नौकरी हासिल न कर सका और कोई पढ़ाई पूरी नहीं कर सका. सभी को किसी न किसी रूप में सामाजिक बहिष्कार का सामना करना पड़ा.

'जारी है उत्पीड़न'

हैदराबाद की मक्का मस्जिद धमाके के सिलसिले में फर्जी मुकदमे में गिरफ्तार  इब्राहिम अली जुनैद
हैदराबाद के एक मुस्लिम इलाक़े में 'अल-शिफ़ा क्लिनिक' चलाने वाले डॉक्टर इब्राहिम का कहना है कि सरकार से 'सर्टिफ़िकेट' मिलने और स्वामी असीमानंद की गिरफ़्तारी के बावजूद भी स्थानीय पुलिस उन्हें तंग करती है.
वो अपने नाम के आगे लगे 'टेरर टैग' को हटाने में विफल रहे हैं. उनके मुताबिक़, "आज भी अगर कोई बम धमाका या आतंकी हमला होता है तो पुलिस हमें तंग करती है."
डॉक्टर इब्राहिम की कहानी के कई दूसरे युवाओं की कहानी है. इन युवाओं को बम धमाकों के बाद पुलिस के उत्पीड़न का सामना करना पड़ता है.
पुलिसिया कार्रवाई का स्वरुप एक जैसा है. इल्ज़ाम मिलते जुलते हैं और अंजाम एक ही है.
लेकिन एक उचित सवाल ये है कि पुलिस ने शहर के लाखों मुस्लिम लड़कों को छोड़कर इन्हीं युवाओं को फ़र्ज़ी मुक़दमे में क्यों फंसाया?
डॉक्टर इब्राहिम अली जुनैद से मैंने यही सवाल किया. उनका जवाब था, "असली मुजरिम अब पकड़े गए हैं लेकिन उस वक़्त स्थानीय पुलिस मुस्लिम बच्चों को धमाकों के केस में क्यों फंसाना चाहती थी, ये आज तक हमें समझ में नहीं आया."

दोहरापन

हैदराबाद में बम विस्फोट
वो कहते हैं कि पुलिस मुस्लिम विरोधी है, सांप्रदायिक है. वो आगे कहते हैं, "देखिए पुलिस का दोहरापन. हमें गिरफ़्तार करके मीडिया के सामने आतंकवादी कहा लेकिन अदालत में मुक़दमा आतंक के लिए नहीं किया बल्कि सीडी वग़ैरह बांटने के इल्ज़ाम लगाए."
लेकिन ये भी अपनी जगह सही है कि डॉक्टर साहब जब डॉक्टरी की पढ़ाई कर रहे थे तो वो वक़्फ़ की ज़मीन पर कथित रूप से एक गणेश मूर्ति लगाए जाने के ख़िलाफ़ प्रदर्शन करने के दौरान पुलिस की नज़रों में आए थे. बाद में उन्हें गिरफ़्तार भी किया गया था.
लेकिन इस मुक़दमे से बरी हुए एक और मुस्लिम युवा सैयद इमरान ख़ान का मक्का मस्जिद बम धमाकों से पहले कोई पुलिस रिकॉर्ड नहीं था. इसके बावजूद उन्हें इस केस का मास्टरमाइंड कहा गया.
वो इस सवाल के जवाब में कहते हैं, "ये सवाल वाजिब है. पड़ोसियों को छोड़िए, हमारे रिश्तेदार भी हमें शक की निगाहों से देखने लगे. उनकी निगाहें कहती थीं कि कहीं सच में हम चरमपंथी तो नहीं. पुलिस मुसलमानों के ख़िलाफ़ है. ख़ैर, इतना है कि अदालत अब भी निष्पक्ष है, जिससे हमें इंसाफ़ की अब भी उम्मीद है."

बदले की भावना?

हैदराबाद की चार मीनार मस्जिद
सैयद इमरान ख़ान आगे कहते हैं, "पुलिस ये साबित करना चाहती थी कि में मुसलमान शामिल थे. पुलिस मुसलमान बच्चों को नीचा दिखाना और हमारा भविष्य ख़राब करना चाहती थी. मैं बीटेक का छात्र था लेकिन अब मुझे नौकरी कौन देगा?"
इमरान ख़ान कहते हैं कि उनके अंदर बदले की भावना नहीं है. वो बताते हैं, "मैं मुसलमान हूं. बदला लेना हमें नहीं सिखाया गया है."
डॉक्टर इब्राहिम कहते हैं कि अब वक़्त आगे देखने का है. वो प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी से अपील करते हैं कि वो मुस्लिम बच्चों को पुलिस की ज़्यादतियों से बचाएं. वो कांग्रेस की सरकार से परेशान थे. अब उन्हें मोदी सरकार से उम्मीद है कि उनके साथ इंसाफ़ होगा.

0 comments:

کیجریوال کی 49 دن کی سرکار کے اہم کارنامے

 دسمبر 28 کو جب اروند کیجریوال نے دہلی کے وزیر اعلی کا حلف اٹھا لیا تھا اس وقت سینئر لیڈران ان کی خوب كھللي اڑا رہے تھے کی کیجریوال کو سیاست میں آئے ہوئے ہی دن ہی کتنے ہے حکومت چلنے کے لئے تجربہ ہے نہیں وغیرہ وغیرہ ، لیکن صرف 49 دنوں میں کیجریوال حکومت نے اپنے ورودھيو کی بولتی بند کر دی اور انہیں بھی اپنا مرید بنا لیا ، شاید یہ بھارت کی تاریخ میں پہلا موقع ہوگا جب صرف اخلاقیات کی وجہ سے خود ستتادھين پارٹی نے اپنی حکومت شہید ہو ، ان 49 دنوں میں کیجریوال حکومت نے دہلی کے علامت کے لئے جو بھی کچھ کیا اس کا دن - ب - دن کی تفصیل ہم نیچے دے رہے ہے   اروند کیجریوال نے 28 دسمبر رام لیلا میدان میں دہلی کے وزیر اعلی کے لئے حلف Dec 29 : دہلی کے جل بورڈ کے چیف کا ٹرانسپھر کر دیا گیاDec 30 : باقاعد ہ کنکشن صارف کو 700 لیٹر مفت پانی حاصل کرنے کی اعلان کیا گیاDec 31 :  یونٹ400  سے زیادہ والے بجلی صارف کو 50 ٪ سبسڈی دی گئیJan 1 : الیکٹرک بورڈ کی جانچ کے لئے کیگ آڈ ٹ کی ہدایت دیJan 2 : آپ حکومت نے ' ٹرسٹ ووٹ ' جیتاJan 3 : آپ MLA ایم ایس دھير کو اسمبلی اسپیکر بنایا گیاJan 4 : دہلی یونیورسٹی میں دہلی کے طلبہ کے لئے کوٹہ دینے کی سفارش ، کیجریوال نے سیکورٹی اور ڈپلكس گھر لینے سے انکار کر دیاJan 5 : آپ کے کارکنان نے دہلی کے تمام سرکاری اسپتالوں کا سروے کرنا شروع کیا اور سدھار سے متعلق رپورٹ تیار کیJan 6 :  دہلی جل بورڈ کے 800 ملازمین کا ٹرانسفر .Jan 7 : نرسری میں داخلے کے لئے ہیلپ لائن نمبر کی خدمت شروعJan 8 : سرکاری اسکول کے لئے انپھراسٹكچر آڈٹ قائمJan 8 : بدعنوانی مخالف ہیلپ لائن نمبر کا شبھارمبھJan 10 : بجلی کی کٹوتی کے لے ہیلپ لائن نمبر کی خدمت شروعJan 10 : ودھت بل کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کے لئے بجلی کی درو میں معافیJan 11 : کیجریوال کا عوام دربار شروعJan 16 : سومناتھ بھارتی اور راکھی بڑلا کا دیر رات چھاپا مہم شوروJan 18 : کیجریوال کے متريو طرف سے رات میں نگرانیJan 19 : راکھی بڑلا اور سمرتھكو نے کھڑکی توسیع میں غیر اخلاقی کام کے لئے چھاپہ مارا ، جو بعد میں صحیح ثابت ہواJan 20 : دہلی پولیس کے تعاون نہ کرنے کی وجہ سے کیجریوال ریل بھون میں دھرنے پر بیٹھےJan 26 : بنني کو آپ مخالف مهيم کے سبب باہر کا راستہ دکھایا گیاJan 31 : حکومت نے جانچ میں مدد نہ کرنے والی كپنيو کا لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکی دیFeb 3 : DERC نے لائسنس کو منسوخ کرنے کے لئے حکومت سے سفارش کی asked to cancel licences of discoms .Feb 6 : دولت مشترکہ کھیلوں کے ' سٹریٹ لائٹ منصوبے میں نئے سرے سے تفتیش .Feb 7 : سليمگڑھ بائی پاس کی تعمیر میں مالی بدعنوانی کی جانچ .Feb 8 : کیجریوال نے ' جن لوک پال بل کو اپنی منظوری کے بعد بھی مرکز کو نہ بھیجنے پر اعتراض کیا.Feb 10 : دہلی جل بورڈ میں 3 گھوٹالو چیکFeb 11 : بھارت میں پیدا قدرتی گیس کی قیمت بڑھانے کے لئے مکیش امبانی ، ویرپا موئلی اور ملند دیوڑا کے خلاف کیجریوال نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا |تو یہ تھی فہرست جو کی صرف 49 دن میں آپ کی حکومت نے علامت کو دی لیکن اس میں کچھ ایسی باتوں کا ذکر نہیں جو آپ کے اقتدار میں رہتے ہوئی جیسے کی
36000 عہدوں کو باقاعدہ کیا گیا ، جس انیدوست ڈرائیور ، كڈےكٹر ، اساتذہ، اور ٹھیکیدار شامل تھے ان عہدوں کو آپ کی حکومت نے باقاعدہ کرنے کی سفارش کی تھی اور اس کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جو کی عام آدمی پارٹی کے بعد عمل میں آئی ، اسی طرح نرسری اسکول میں داكھلو کو لے کر آپ حکومت کی طرف سے چلی گئی مهيم بھی آب رنگ لا رہی ہے اور آپ کارکنان نے تقریبا 400 بچوں کے لئے درخواست دے دیا ہے نیچے لنک پر جا کر یہ دونوں خبر پڑھیںکیجریوال کو دہلی والو کو تحفہ -36 ہزار کے عہدے ہوں گے باقاعدہدہلی میں آپ کارکنان نے 400 غریب بچوں کو نرسری اسکول میں درخواست کرایا

0 comments:

فلسطینیوں کی جد و جہد تاریخ کے مشکل دور میں


ابھی دو سال پہلے تک مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری اور بہار عرب کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے بارے میں تھامس فرائیڈ مین جیسے مغربی دانشوروں نے پیشن گوئی کرنا شروع کردیا تھا کہ اسرائیل اور یہود تاریخ کے مشکل دور سے گذر رہے ہیں ۔خود اسرائیل کو بھی یقین ہو چکا تھا کہ جس طرح یکے بعد دیگرے عرب ڈکٹیٹروں کی سلطنتوں کے منہدم ہوجانے سے اقتدار پر اسلام پسندوں کو غلبہ حاصل ہو رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اسرائیل کیلئے اس کا اپنا وجود بھی قائم رکھنا مشکل ہو جائے۔خاص طور سے مصر اور شام کی صورتحال اسرائیل کیلئے اس لئے بھی تشویش میں مبتلا کردینے والی تھی کیوں کہ ان دونوں مسلم ممالک سے اس کی سرحدیں لگی ہوئی ہیں ۔ماضی میں دو مرتبہ مصر کی فوجوں کے ساتھ اس کا تصادم بھی ہو چکا ہے اور مستقبل میں بھی اگر کسی ملک سے کوئی خطرہ ہے لاحق ہو سکتا ہے تو یہ شام اور مصر کا تاریخی علاقہ ہے اور ترکی جسکے ساتھ اس وقت اسرائیل کے تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں واحد ایسا طاقت ور ملک ہے جس نے کھل کر اس خطے میں عوامی بیداری کا ساتھ دیا ہے مزید تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔اسرائیل نے اپنی اسی تشویش کو دور کرنے کیلئے اپنے ماضی کے دشمن بشار الاسد اور اس کی علوی قوم کو گولان کی پہاڑیوں میں پناہ دینے کا منصوبہ بنالیا تھا تاکہ شام اور مصر میں اسلام پسندوں کی طرف سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے میر جعفروں کی مدد لی جاسکے۔اسرائیل ابھی اس خلش میں مبتلا ہی تھا کہ آیت اللہ اور حز ب اللہ کے ذریعے بشارلاسد کی مدد نے اسرائیل کی بن مانگی مراد پوری کردی ۔اس طرح اسرائیل نے شام کی طرف سے اٹھ رہے طوفان پر تو قابو پالیا مگر مصر میں تحریک اخوان المسلمون جس کا وجود ہی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف عمل میں آیا تھا اچانک ان کا اقتدار پر غالب آجانا ان کیلئے فعال نیک نہیں تھا ۔اسرائیل نے یہ مرحلہ بھی خادم حرمین شریفین کی خدمت سے جلد حل کرلیا ۔سعودی عرب نے دجال السیسی کی مدد کرکے نہ صرف اسرائیل کے دشمنوں کو پابند سلاسل کروادیا بلکہ فاشسٹ حکومت کے زیر اثر مصری عدالت نے ہزاروں کی تعداد میں اخوانی قیادت کو پھانسی کی سزا بھی سنا دی ہے۔السیسی نے سعودی حکومت اور اپنے صہیونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر وہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو مصر سے اخوانیوں کا خاتمہ کردیں گے ۔غالباً جس طرح دجالی شام اور مصر کے اس خطے میں امام مہدی اور حضرت عیسیٰ ٗ کے نزول سے خوفزدہ ہے اسرائیل کے ساتھ ساتھ آیت اللہ ،عبد اللہ اور حز ب اللہ بھی نہیں چاہتے کہ یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہو ۔دیکھنا یہ ہے کہ حسنؓ و حسینؓ کے یہ دشمن دجال کے سفیر السیسی اور بشار الاسد کی مدد کرکے دجال کی معاون صہیونی ریاست کو کہاں تک تحفظ فراہم کرسکتے ہیں اور اس پوری صورتحال سے جس قوم کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اللہ تعالیٰ کہاں تک فلسطینی مسلمانوں کے صبر و استقلال اور ایمانی غیرت کا امتحان لیتا ہے ۔مگر جس طرح سے انہوں نے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے یہ اندازہ کرنا بہت مشکل نہیں ہے کہ وہ اللہ کی نصرت اور مدد سے زرہ برابر بھی مایوس نہیں ہیں اور ہر وہ تدبیر اختیار کررہے ہیں جو ان کے اور قبلہ اول کی آزادی کے حق میں بہتر ہے۔یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ ان کا نصب العین زمین کا ایک ٹکڑا اور قبلہ اول کی آزادی ہی نہیں بلکہ اسرائیل جس آرماگیڈون یعنی تیسری عالمی جنگ کی تیاری میں مصروف ہے اس کے مقابلے کیلئے فولاد سے زیادہ سخت انسانوں کی جماعت کا تیار ہو بھی ضروری ہے۔عرب کی موجودہ صورتحال یہ کہہ رہی ہے کہ ٹینکوں میزائلوں اور بارودوں کے ڈھیر پر پیدا ہونے والی ان کی نسل بہت ہی باہمت اور باحوصلہ اور اپنے آپ میں نیو کلیئر ہوگی جنہیں جدید نیو کلیئر ہیڈ سے بھی خوفزدہ نہیں کیا جاسکتا ۔جیسا کہ سعودی حکومت نے ایک مشق کے دوران نیر کلیئر ہیڈ کا مظاہرہ کیا ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ اس نے ایران اور اسرائیل کو خوفزدہ کرنے کیلئے کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور قبلہ اول کے نام پر یہ ساری طاقتیں اپنے اپنے اقتدار کی بھوکی ہیں اور آپس میں ایک سمجھوتے کے تحت متحد ہیں۔
عرب کی اس موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ لوگ اس بحث میں بھی الجھے ہوئے ہیں کہ جس طرح حماس اور الفتح کے لیڈران آپسی رضامندی سے فلسطین کی مشترکہ حکومت بنانے کیلئے رضامند ہوئے ہیں مستقبل میں فلسطین کی مکمل آزادی کیلئے ان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے ۔ایک طبقے کا خیال ہے کہ فلسطینی عوام جس حصے پر قابض ہیں انہیں اتنے ہی پر اتفاق کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر قبول کرلینا چاہئے ۔ایک دوسرے طبقے کی رائے یہ بھی ہے کہ انہیں ماضی کی طرح ایک دوسرے انتفاضہ کی شروعات کردینی چاہئے۔ایک تیسرے غیر مسلم اور مغرب نواز دانشوروں کا ماننا یہ ہے کہ آزادی فلسطینیوں کا اپنا حق ہے مگر اسے تشدد کی بجائے گاندھی ،منڈیلا،دلائی لامہ اور مارٹن لوتھر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تحریک کو جاری رکھنا چاہئے ۔ہو سکتا ہے کہ تقدیر کو ان پر رحم آجائے ۔اگر فلسطین کے مسلمان طبقہ اول کی بات مانتے ہوئے رضامند ہو جاتے ہیں تو نہ صرف انہیں قبلہ اول سے محروم ہونا پڑے گا بلکہ پچاس فیصد سے زیادہ فلسطینیوں کی جو آبادی دیگر عرب ممالک مین رفیوجی کی زندگی بسر کررہی ہے وہ شہریت سے محروم ہو جائیں گے اور بہت سے مسلم ممالک جو قبلہ اول کی وجہ سے ان کی مدد کررہے ہیں وہ اپنا ہاتھ روک لیں گے ۔جبکہ فلسطینیوں کی اپنی اکثریت بھی اس معاہدے پر کبھی رضامند نہیں ہوگی۔جہاں تک دوسرے انتفاضہ کی شروعات کاسوال ہے کم سے کم ایک ایسے وقت میں جبکہ عالم اسلام میں ترکی اور قطر کے علاوہ کوئی مسلم ملک فلسطینی مسلمانوں کا حمایتی نہیں رہا وہ اس حکمت عملی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔دوسری طرف امریکہ اور یوروپ جو کہ روس کی مداخلت کی وجہ سے یوکرین اور شام کے مقابلے میں بے بس نظر آرہے ہیں اسرائیل کو قابو کرنے سے قاصر ہیں ۔اسی لئے ایک طبقے کا خیال ہے کہ پر امن تحریک کی وجہ سے یوروپ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں جو تحریک زور پکر رہی ہے ممکن ہے کہ باقاعدہ انتفاضہ کی شروعات سے ان کے دوستوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جائے ۔ایسا ممکن ضرور ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1980 کے بعد حماس کے ذریعے انتفاضہ تحریک کی شروعات کے بعد ہی یوروپ نے فلسطینیوں کی جد وجہد پر توجہ مرکوز کی اور اسرائیل اوسلو معاہدہ کیلئے رضامند ہوا۔ویسے بھی فلسطینیوں کی طرف سے کسی بھی پر تشدد مزاحمت کو بھی اس لئے جائز قراردیا جائے گا کیوں کہ اسرائیل ایک حملہ آور اور ناجائز طریقے سے عمل میں آنے والی ریاست ہے اور اس نے مسلسل فلسطینی مسلمانوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ان کیلئے بہتر ہے کہ ان میں سے ایک طبقہ گاندھی اور نہرو کی شکل میں مفاہمت کا طریقہ اختیار کرے مگر دوسرے طبقے کو سبھاش چندر بوس ، بھگت سنگھ اور اشفاق اللہ خان کا بھی کردار ادا کرتے رہنا چاہئے ۔دنیا کے ہر مسئلے کی سچائی بھی یہی ہے کہ وہ اپنے دو پہلو کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ نہرو اور گاندھی نے بالآخر آزادی حاصل کرلی مگر تاریخ کے دوسرے صفحے پر سبھاش چندربوس اور جلیا نوالہ کے سبق کو بھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ دلائی لامہ پر امن تحریک کے ذریعے نہ صرف تبت کے علاقے کو حاصل کرنے سے قاصر ہیں بلکہ دنیا میں تبت کی آزادی کے تعلق سے کوئی شور شرابہ بھی نظر نہیں آتا ۔جبکہ فلسطین کی آزادی کا مسئلہ اگر زندہ ہے اور اکثر و بیشتر عالمی طاقتوں کی مداخلت سے گفت و شنید کی شکل اختیار کرتے ہوئے نظر آتا ہے تو اس لئے کہ فلسطینی مسلمانوں نے گفتگو کے ساتھ ساتھ لہو گرم رکھنے کا طریقہ بھی اختیار کررکھا ہے۔اسرائیل اور فلسطین کے رہنماؤں کے درمیان 29 ؍اپریل کو جو گفتگو ہونے والی تھی اس کا حشر بھی ہنسی مذاق اور کھیل کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ۔اس سے پہلے کہ اسرائیل اور کچھ عالمی طاقتیں ایک بار پھر فلسطینیوں کو مذاق بنا کر پیش کرتیں محمود عباس کی تنظیم الفتح نے حماس کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرکے نہ صرف اسرائیل کے منھ پر طمانچہ مارا ہے بلکہ شاہان عرب کی غیرت کو بھی للکارا ہے کہ تم اپنے اقتدار کیلئے یہود و مشرکین کے ساتھ اپنے ایمان کا سودا کرو ہماری مدد کیلئے اللہ کسی اور قوم اور مخلوق کو بھیجنے پر قادر ہے ۔انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ایسا ہوچکا ہے اور ایسانہ ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔
عمر فراہی۔ موبائل۔09699353811  ای میل   umarfarrahi@gmail.com

0 comments:

ہماری ترجیحات نے موجودہ سیاست کا رخ بدل دیا


    دنیاکے کسی بھی ملک کے الیکشن اور سیاسی پارٹیوں کی حمایت یا مخالفت میں وہاں کی مذہبی تحریکوں اور ان کے رہنمائوں کا عمل دخل بہت کم ہی پایا جاتا ہے ،یا مذہب کے دخل کو برداشت نہیں کیا جاتا ۔خاص طور سے امریکہ ،یوروپ اور کمیونسٹ ممالک میں جہاں سے جدید لبرل جمہوری سیاست کی روایت شروع ہوئی۔ یہاں پر تمام سیاسی پارٹیاں وہاں کے تعلیمی اداروں ،صنعت کاروں اور زیادہ سے زیادہ غیر سرکاری فلاحی اداروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔اسی لئے موجودہ لبرل سیاست کو سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں ۔یعنی اس معاشرے اور سماج کے لوگ اپنے سیاست دانوں سے انصاف مانگنے کی بجائے روٹی کپڑا اور مکان کو ترجیح دیتے ہیں ۔تقریباً یہی صورتحال مغرب نواز ہندوستانیوں کی بھی ہے جو اپنے سیاست دانوں سے روزی روزگار ،سڑک اور سڑک پر چلنے والی آسانی اور سستی سواریوں کی سہولیات مہیا کروانے کی فہرست پیش کرتے ہیں تاکہ انہیں تعلیم اور تجارت کے بہتر مواقع حاصل ہو سکیں ۔کم سے کم یوروپ ،چین امریکہ اور بہت سارے مغرب نواز ممالک کے حکمرانوں نے عوام کی سوچ کے مطابق ان کی خواہشات کو پورا بھی کیا ہے ۔ انہوں نے صنعت و ٹکنالوجی کو عروج دے کر ہزاروں میل کے سفر کو گھنٹوں اور منٹوں میں تبدیل کردیا ہے کہ اب اسے دن ہفتہ اور مہینے کے گزرنے کا بھی خیال نہیں ہوتا ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ عمر کے دس سال گزرجانے کے بعد بھی وہ خود کو دس سال چھوٹا ہی سمجھ رہا ہوتا ہے اور خود سے دس سال چھوٹے آدمی کو بھی چاچا اور بابا پکارتا ہوا نظر آتا ہے ۔یعنی ترقی اور مسابقت کے جنون میں وہ اس تیز رفتار ی سے آگے آچکا ہوتا ہے کہ اسے اپنے سوا ہر شخص بوڑھا نظر آتا ہے ۔اس طرح نہ صرف وہ اپنی پہچان کھوچکا ہے بلکہ وہ اپنے اصل نصب العین اور دنیا کی حقیقت سے ناواقف اور انجان ہے ۔اسے یہ جاننے کی فرصت بھی کہاں ہے کہ اس دنیا اور کائنات کا خالق کون ہے اور اس کی تخلیق کا راز کیا ہے ۔
    قرآن کہتا ہے زمین اور آسمان بغیر ستون کے پیدا کئے گئے ہیں ،پھر بھی وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں ۔یہ اس وجہ سے کہ ان کے آپس میں میزان قائم ہے ۔ذرا غور کیجئے کہ جس طرح سے لاتعداد ستارے اور سیارے خلاء میں تیر رہے ہیں اگر ان کے آپس میں ذرہ برابر بھی خلل پڑ جائے تو ہم زمین والوں کا کیا ہوگا ۔ہماری ساری ترقی اور ٹکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ سپر پاور طاقتیں ہر سال آنے والے طوفان ،زلزلے اور سونامی کے آگے کس طرح بے بس اور مجبور نظر آتے ہیں اور سیٹیلائٹ ٹکنالوجی سے بھی چین کا سفر کرنے والے ملیشیا کے طیارے کو سمندر نے کہاں اپنی آغوش میں چھپالیا مستقبل کا سپر پاور چین جو اپنی بے پناہ فوج اور ٹکنالوجی کے ذریعے امریکہ کو آنکھ دکھارہا ہے ،جاپان اور ہندوستان کے علاقوں کو چھین کر اپنی سرحدوں کو وسیع کرلینے کی تاک میں ہے ایک طیارے کو ڈھونڈ لینے سے بھی قاصر ہے ۔مگر اسے کون سمجھائے کہ ماضی کے قیصر و کسریٰ ،یونان،مصر اور ترکی اور آج کے برطانیہ ،فرانس ،امریکہ ،روس ،جرمنی اور جاپان اپنے اسی ناپاک عزائم اور ناانصافی کی وجہ سے سمٹ گئے تو چین کی اپنی اوقات کیا ہے ۔مگر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ انسان اپنی ترقی میں اپنی حقیقت اور پہچان کھو چکا ہے اور وہ غفلت میں مبتلا ہو کر یہ بھول بیٹھا ہے کہ اس کا قد وہیں سے چھوٹا ہونے لگتا جب وہ اپنے بڑے ہونے کا اعلان کرنا شروع کردے ۔جبکہ انسان کا لڑکپن اور اس کے بڑے ہونے کا راز اس کے رحم دل اور انصاف پسند ہونے میں ہے اور یہی صفت اس کائنات کے مالک کی بھی ہے جو نہ صرف اپنے عظیم ہونے کا اعلان کرتا ہے بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ رحمن اور رحیم بھی ہے ۔
    ہم تاریخ کے حوالے سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ دنیا میں جن قوموں ،قبیلوں اور مذہب کے لوگوں نے حکومت کی اگر وہ زیادہ دنوں تک عوام پر حکومت کرسکے تو اس لئے نہیں کہ انہیں صرف تعلیم ٹکنالوجی اور معیشت میں ہی فوقیت حاصل تھی بلکہ اس لئے کہ انہوں نے عوام کے ساتھ رحم اور انصاف کا معاملہ فرمایا ۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چند مسلم قبیلوں نے عرب ممالک سے آکر پوری دنیا پر منجملہ ایک ہزار سال تک حکومت کی تو اس لئے کہ انہوں نے اسلام کے فلسفہ انصاف کو حکومت اور سیاست کا نصب العین اور اسی عدل و انصاف کی وجہ سے عوام کی اپنی معیشت اور تعلیم و تحقیق میں بھی ترقی ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ یہ اسی دور کی تعلیمی و تحقیقی مواد ہیں جسے ہم مشینوں کی شکل میں استعمال کررہے ہیں جسکے امام اسی مسلم دور حکومت کے مسلم سائنسداں رہے ہیں ۔مگر اپنی تمام تر تعلیم ،ٹکنالوجی اور معاشی ترقی کے باوجود اسپین اور ہندوستان کے عرب اور مغل حکمرانوں کو زوال کا منھ دیکھنا پڑا تو اس لئے کہ انہوں نے مادی ترقی کو اپنی اصلی طاقت تصور کرلیا اور انصاف پر روٹی کپڑا مکان اور عیش و عشرت کی زندگی نے غلبہ حاصل کرلیا ۔انسان پر جب دنیا کی محبت اور لالچ غالب آجائے اور وہ تصنع اور ریا کاری کو اپنی اصل طاقت سمجھ لے تو پھر اس کے اندر وہن کی کیفیت کا طاری ہونا بھی لازمی ہے ۔اس طرح اسپین بخارا اور ہندوستان کی تعلیم یافتہ اور متمدن قوم در بدر بھٹکنے والی قدامت پرست عیسائی قوم سے اپنے عالیشان مکانات خوبصورت مساجد خانقاہیں تعلیمی ادارے تعلیمی ترقی لائبریریاں ٹکنالوجی اور ہتھیار سب کچھ ہار گئے ۔آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم بھی اپنے سیاست دانوں سے اس بات کیلئے کبھی اصرار ہی نہیں کیا کہ ہمیں انصاف چاہئے ۔اس کے برعکس ہماری خواہشات اور ترجیحات میں وہی تمام چیزیں شامل ہیں جسکی وجہ سے سماج اور معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ پورا کرہ ارض جس دھماکہ خیز صورتحال سے دو چار ہے تو اس کے ذمہ دار صرف عیاش اور بد عنوان سیاست داں اور حکمراں ہی نہیں ہم سب بھی ہیں جنہیں انصاف نہیں روٹی چاہئے ۔جبکہ ہماری ترجیحات اور مطالبات میں اگر انصاف کو فوقیت حاصل ہو جائے تو ہماری تمام ضروریات جو ہم دوسروں کا چھین کر اور اپنے دن اور رات تباہ کرکے حاصل کررہے ہیں امن و سکون کے ساتھ میسر ہونے لگے ۔پھر بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انیسویں صدی عیسوی تک سیاست کے ساتھ انصاف کا تھوڑا بہت تصور ضرور قائم رہا ہے ۔مگر انیسویں اور بیسویں صدی میں سیاست میں انصاف کی جگہ بھوک نے لے لیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس مختصر سے وقفے میں دو عظیم عالمی جنگ میں کروڑوں انسان ہلاک اور تباہ ہو گئے اور آج بھی پوری دنیا میں اسی سیاسی بھوک کی آگ میں ہزاروں انسان ہر روز تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں یا انسانوں کے ساتھ مختلف بہانے سے ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔  

عمر فراہی۔موبائل۔09699353811  ای میل  umarfarrahi@gmail.com

0 comments:

بدایوں کا واقعہ اور پولس کا مورل


اتر پردیش ان دنوں میڈیا کی خبروں کا اہم ہدف بنا ہوا ہے ۔وجہ ہے بدایوں میں دو کمسن دلت لڑکیوں کی عصمت دری کے بعد قتل کا دلدوز واقعہ۔یہ واقعہ انسانیت کو شرمشار کرنے والا ہے ۔حالیہ واقعہ اور اس سے قبل بھی کئی اور جگہ عصمت دری نیز جنسی دست درازی کے کئی واقعات ظہور پذیر ہوئے ۔یوں تو ملک عزیز کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہاں عورتوں کے خلاف جرائم کی رفتار تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔حالانکہ یہاں عورت کو دیوی کے طور پر پوجا جاتا ہے ۔ابھی دسمبر ۲۰۱۲ میں ہی دہلی میں ایک میڈیکل طالبہ کے ساتھ کیاکچھ ہوا وہ ہماری نظروں کے سامنے اور یادداشت میں محفوظ ہے ۔اس کے مجرمین کو سزائے موت بھی سنائی جاچکی ہے ۔ بدایوں جیسے واقعات ملک میں تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں اور اس طرح کے بھیانک اور انسانیت سوز واقعات زیادہ تر پسماندہ طبقات کے خلاف ہو رہے ہیں ۔ الیکشن کے موقع پر ہی ہریانہ میں دلتوں کے خلاف تشدد آمیز واقعات ہوئے جس کے بعد خوف اور دہشت سے انہوں نے گائوں خالی کردیا تھا ۔حالانکہ دلتوں کے خلاف اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے خاص قانون بھی موجود ہے ۔لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف قانون ہی مسئلے کا واحد حل ہے ؟حالات اور ہر دن ظہور پذیر ہونے والے واقعات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ صرف قانون بنانے سے مسئلہ کا حل ناممکن ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اصلاح کی کوشش بھی کی جائے ۔معاشرے کی اصلاح کے بغیر اورلوگوں کے ذہنوں کو بیدار کئے بغیر اس طرح کے واقعات نہیں روکے جاسکتے ۔اس شرمناک واقعہ میں جو بات سب سے زیادہ کھل کر اور سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ ہے پولس کا انتہائی ظالمانہ رول جسے ہر بار نظر انداز کردیا جاتا ہے۔فسادات کے تعلق سے جب بھی کسی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی تو اس میں انہوں نے پولس کے رول پر بھی سوالات اٹھائے یا پھر انہیں ہی پوری طرح فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔لیکن پولس کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی ہوئی اور نہ ہی پولس سسٹم میں سدھار کی کوئی کوشش کی گئی۔حد تو یہ ہے کہ جب جب پولس کے خلاف کارروائی کی بات کی جاتی ہے تو مرکزی یا ریاستی وزیر داخلہ کا ایک ہی قول سامنے آتا ہے کہ اس سے پولس کا مورل ڈائون ہو گا ۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ بدایوں جیسے واقعات یا گجرات جیسے حالات سے پولس کا مورل ڈائون ہوتا ہے یا ان کے خلاف کسی تادیبی کارروائی سے ۔ ہمیں دہلی کا وہ واقعہ بھی یاد آتا ہے کہ جب دہلی کی ۴۹ دن والی عام آدمی پارٹی کی حکومت کے وزیر قانون سوم ناتھ بھارتی نے عوامی اطلاعات کی بنا پر دہلی پولس سے ایک گھر میں چھاپہ ڈالنے کیلئے کہا تو پولس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔ حالانکہ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ وہاں واقعی جسم فروشی کا کاروبار ہو رہاتھا ۔لیکن میڈیا نے عام آدمی پارٹی کے وزیر قانون کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ۔یہاں اس واقعہ پولس کی خود سری اور باغیانہ تیور بتانا مقصود ہے ۔لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پولس یوں ہی خودسر ہو جاتی ہے ۔بلکہ سیاست دانوں کی حرکتیں انہیں خودسر بناتی ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ جس کی حکومت ہوتی ہے وہ بجائے پولس کو عوامی مفادات اور ان کے تحفظ کیلئے استعمال کرنے کے اپنے ڈنڈے کے طور کرتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوا کہ پولس کا اصل کام عوامی تحفظ اور معاشرے میں امن مان بحال کرنا تھا وہ اس سے بھٹک کر سیاستدانوں کی نوکری کرنے لگی ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ ایک شریف آدمی کے پولس کا نام سن کر ہی پسینے چھوٹ جاتے ہیں جبکہ مجرم اور سماج دشمن عناصر پولس کو اپنا محافظ اور محسن تصور کرتے ہیں ۔
حالیہ واقعات اتر پردیش حکومت کیلئے ایک الارمنگ پوزیشن ہے کہ وہ نیند سے بیدار ہو اور پولس اور انتظامیہ کو چست درست کرے نیز کسی طرح کی غفلت پر ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے ۔کیوں کہ سیاسی حالات اب وہ نہیں رہے جو چند ماہ پیشتر تھے ۔ہر چند کہ بدایوں کا حالیہ واقعہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے لیکن اس کو میڈیا جس طرح اچھال رہا ہے اس سے اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پولس والوں کو فوراً گرفتار کیا جاتا اور دیگر مجرموں کو بھی گرفتار کرکے قانون کے حوالے کئے جانے کی ضرورت تھی لیکن ہر واقعے کی طرح یہاں بھی تساہلی دیکھنے کو ملی اسی کا انجام ہے کہ دووسرے لوگوں نے اسے سیاسی رنگ دیکر حالات سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اکھیلیش حکومت جسے شاید بھاری اکثریت سے جیتنے پر کچھ گھمنڈ سا ہو چلا تھا اسے اب ریاست کی امن و امان کی صورت حال کی طرف تندہی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نہ تو مجرمانہ ذہن رکھنے والے معاشرے میں خوف اور بے چینی پھیلاسکیں اور نہ ہی کسی کو سیاسی روٹی سینکنے کا موقع مل سکے ۔لیکن یہ جب ہی ہو سکے گا جب سیاسی حوصلہ مندی کاثبوت دیا جائے۔اسی طرح دیگر سیاسی لیڈروں کو بھی چاہئے کہ کسی کی مجبوری کو سیاسی ایشو بنانےکی بجائے اصل ایشو کی طرف دھیان دیں اور مجرموں کو ریاست سے باہر کا راستہ دکھانے میں انتظامیہ کی مدد بھی کریں اور اس پر اپنا دبائو بھی بنائیں۔
نہال صغیر ۔  موبائل 9987309013

0 comments:

مصر پر جمہوریت نما آمریت کی شروعات


    موجودہ دور کو جمہوریت ،سیکولرزم اور انسانی حقوق کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔لیکن اس جمہوری دور میں انسانیت جتنی شرمشار ہوئی ہے ،حقوق انسانی کی جتنی پامالی لبرل سیکولرزم کے نام پر ہوئی ہے اور انسانیت جس کرب بے چینی اور افراتفری کے دور سے گذر رہی ہے ۔شہنشاہیت کے دور میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن پھر مغربی جمہوریت کی اس نیلم پری سے لوگوں کی والہانہ وابستگی کم ہو کر ہی نہیں دیتی۔جب ہم حالات کا صحیح تجزیہ کریں تو ہم پائیں گے کہ موجودہ جمہوری نظام سے عوام کا ایک بڑا طبقہ دور ہے اور اس کی تعداد پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔اکثر جگہ جمہوری حکومت کے قیام کیلئے انتخابی عمل کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو کہیں پچاس کہیں ساٹھ اور کہیں اس سے بھی زیادہ تعداد کو اس عمل سے لاتعلق پاتے ہیں ۔ایک شورش زدہ ریاست میں جب انتخاب ہوا تو وہاں کی عوام نے صرف پچیس فیصد ہی حق رائے دہی کا استعمال کیا لیکن اس کے باوجود جمہوری حکومت قائم ہو گئی ۔تعجب ہوتا ہے کہ جس نظام کو یا جس طریق حکومت یا جس پارٹی یا جس شخص کو عوام کی اکثریت نظر انداز کردیتی ہے اسے ہی کیوں عوامی طور پر منتخب حکومت کا درجہ مل جاتا ہے ۔ایسا ہی ابھی مصر میں ہوا جبکہ وہاں انتخابی عمل کیلئے دو دن کا وقت تھا لیکن دو روز میں جب عوام کی نوے فیصد سے زیادہ تعداد نے ووٹنگ کرنے سے احتراز کیا تو حکومت نے ایک روز اور ایکسٹینشن دیا لیکن تین روز میں بھی عوام کی 7.5% سے زیادہ تعداد گھروں سے باہر نہیں آئی ۔ چوتھے دن اچانک خبر آجاتی ہے کہ تقریبا 39% لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔بتائیے یہ اچانک تیس فیصد سے زیادہ عوام کی تعداد کہاں سے آگئی ۔یقینایہ کھلی بے ایمانی اور چوری کا معاملہ نظر آتا ہے ۔اس میں بھی سیسی کو 97% سے زیادہ سے کامیابی ملی ۔یہ وہی جنرل السیسی ہیں جنہوں نے عوامی طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرکے بڑی بے شرمی سے معزول کردیا یہ وہی سیسی ہیںجو کہ صہیونیت کے پروردہ اور اسکے منظور نظر ہیں اور جن کو مصر کے سلفیوں کی جماعت النور کی بھی حمایت حاصل ہے ۔اور خلیج کے اکثر ڈکٹیٹر بھی ان کی حمایت کرتے ہیں کیوں کہ ان عیش پسند حکمرانوں کیلئے جنرل السیسی اسرائیل سے انہیں امان دلانے والے واحد عبد اللہ ابن ابی کا کردار ادا کرنے والے ہیں جس میں ہمارے خادمین حرمین شریفین (جنہیں خادمین یہودین و امریکین کہنا زیادہ مناسب ہوگا)بھی شامل ہیں ۔
    اوپر سعودی فرماں روا شاہ عبد اللہ اور دیگر خلیجی ریاستوں کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے کچھ خاص لوگوں کو شکایت ہو سکتی ہے ۔لیکن کیا کیا جائے کہ رات کے اندھیرے کو دیکھ کر بھی صبح کے اجالے کی گواہی نہیں دی جاسکتی ۔ان حکمرانوں کے کرتوت آن ریکارڈ ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔امریکہ تک کو یہ ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ خلیج میں چلنے والی بہار عرب کی تحریک کی مخالفت کرتا بلکہ اس نے عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے اس تحریک کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ نے مرسی حکومت کی معزولی پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور مصر ی فوج کو ملنے والی امداد جو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ ہے بند کردی ۔اس پر شاہوں کے ماتھے پر پسینے نظر آئے اور انہوں نے بڑے غرور اور گھمنڈ سے کہا تھا کہ اگر امریکہ مصری فوجیوں کی امداد روک دیتا ہے تو ہم اس کی مدد کریں گے ۔لیکن یہ مدد کس کے لئے، اسرائیل کے خلاف نہیں صہیونیت سے نبرد آزما فلسطین کے معصوم بچوں کیلئے، انہیں اسلحہ سے لیس کرنے کیلئے نہیں ۔ان کی غذائی امداد کیلئے نہیں بلکہ عرب عوام کی حقیقی آزادی کیلئے لڑنے والے اخوانیوں کے خلاف ۔السیسی نے دکھایا بھی کہ وہ اخوانیوں کو وہ نقصاد پہنچا سکتا ہے اور صہیونیت کی وہ خدمت کرسکتا ہے جس کے بارے میں اسرائیل نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا اور اس نے کیا اس نے مصر کی سڑکیں اسلام پسندوں اور ملک اور پورے عالم میں اسلام کی سربلندی کیلئے جہد مسلسل کرنے والوں کے خون سے لال کردیں ۔ان کی لاشوں سے سڑکوں گلیوں اور مسجدوں کو بھردیا۔مسجدوں کو آگ کے حوالے کیا نمازیوں پر بموں اور ہیوی مشین گنوں سے فائرنگ کی ہزاروں معصوموں کا خون بہا کر بھی سیسی اور اسکے صہیونی پارٹنر عرب شیوخ مصر کے اسلام پسندوں کا حوصلہ نہیں توڑ سکے اور دنیا نے دیکھا کہ جب الیکشن کا ڈرامہ رچایا گیا تو صرف ساڑھے سات فیصد عوام نے ہی اس میں حصہ لیا اور اس میں سے ستانوے فیصد نے سیسی کی درندگی کے خلاف الیکشن میں حصہ نہ لے کر دنیا کو یہ بتادیا کہ وہ کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر ظالم کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔مصر کی 93 فیصد عوام آج بھی سیسی اور اس کے حواریوں کی ڈرامے بازی سے دور ہے ۔یعنی اگر سیسی صدر بن بھی گئے تو بھی وہ عوامی نمائندہ کہلانے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں نیز انہوں نے مصر کو ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کے باوجود وہیں پہنچا دیا ہے جہاں وہ تین سال قبل حسنی مبارک دور میں تھا ۔اور یہ مغربی جمہوریت سیکولرسٹوں اور نا نہاد حقوق انسانی کے علمبرداروں کے منھ پر طمانچہ ہے ۔کیا مصر کے اس جمہوری ڈرامے کے بعد بھی دنیا میں جمہوری اقدار کی بات کرنے والے سیکولرزم کا دم بھرنے والے اور حقوق انسانی کی مالا جپنے والے لوگ اسلام پسندوں کے آگے اپنے بونے ہونے کا اعتراف کرنے کی جرات کریں گے ؟ ہر گز نہیں مجھے کہہ لینے دیجئے کہ وہ اس جرات مندی سے یکسر خالی ہیں ۔ جو ظرف کے خالی ہے صدا دیتا ہے والی بات ان پر ہی صادق آتی ہے۔
نہال صغیر۔موبائل : 9987309013

0 comments: