دہشت گردی کی سیاست اور فاشزم کا خفیہ چہرہ


    عام بول چال اور تحریروں کے ذریعے ہم فسطائیت اور فاشزم جیسے موضوعات پر بحث تو کرتے ہیں ،مگر اس عنوان کی پوری طرح وضاحت کرنا اسی طرح مشکل ہے جیسے کہ ہم ابھی تک دہشت گردی کے اصل معنی اور مفہوم کی تلاش میں ہیں۔انگلش لغات میںفاشزم کی تعبیر ایک ایسی سخت گیر حکومت اور سیاسی نظام سے کی جاتی ہے جس کے کسی بھی فیصلے کو عوامی سطح پر چیلنج کرنا مشکل ہو جائے ۔اسی طرح سیاسی مقاصد کیلئے بے قصوروں کا قتل اور تخریبی عمل کو دہشت گردی کہتے ہیں ۔دیکھنا یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کے تعلیمی نصاب میں فاشزم اور دہشت گردی کے معنی اور مفہوم کی تشریح کون کرتا ہے اور کیا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ وہ سماج کو آئینہ دکھاسکیں ؟۔
    چونکہ عام آدمی ایک روایت اور قانون کا پابند ہوتا ہے ۔اس لئے وہ معاشرے کی قیادت کرنے والے طبقہ اشرافیہ کے پروپگنڈے اور حکومتی جھوٹ کا بہت جلد شکار ہو جاتا ہے ۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جدید نسل کی تعلیم وتربیت کیلئے سرکاری نصاب کی تیاری میں بھی اب سیاستدانوں کی مرضی شامل ہوتی ہے یا ملک کے چنندہ دانشور اور پروفیسر اپنے مفاد ،لالچ اور خوف کی وجہ سے سیاستدانوں کی مرضی کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔مثال کے طور پر ایک ہی آزادی کے مجاہد محمد علی جناح کو پاکستان میں جو مقام حاصل ہے ،ہندوستان میں ان کے تعلق سے الگ نظریہ پایا جاتا ہے۔تقریباً جواہر لال نہرواور پٹیل کے تعلق سے پاکستان کے لوگ مثبت سوچ نہیں رکھتے ۔تو اس لئے عوام کے منفی اور مثبت نظریے کی تخلیق میں ان ممالک کے سرکاری میڈیا اور نصاب کا اہم کردار شامل ہوتا ہے ۔ہمارے ملک کے قبائلی علاقوں میں ایک مدت سے نکسلائٹ اور مائووادی تحریکیں سرگرم ہیں اور اکثر سرکاری اہلکار ،سرکاری دفاتر اور شخصیات پر حملہ کرکے تباہی اور قتل و خون کا منظر پیش کرتے ہیں۔یہ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں ؟کن حالات سے گزررہے ہیں ؟ ان کے مطالبات کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے کی بجائے ان کے خلاف دہشت گردی کا پروپگنڈہ کرکے صرف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔کشمیر کے مسئلہ کو بھی راجیو گاندھی کی حکومت اور سابق گورنر جگموہن نے اسی طرح الجھا کر رکھ دیا جیسے کہ پاکستان کے فوجی حکمراں پرویز مشرف نے لال مسجد پر حملہ کرکے مدرسوں کے ذریعے چلائی جارہی پر امن تحریک کو پر تشدد تحریک طالبان میں تبدیل کردیا ہے۔اور اب اس نے اپنی عسکری قوت کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ پاکستان کو انہیں ختم کرنے کیلئے امریکی ڈران میزائلوں کا سہارا لینا پڑرہا ہے ۔اسی طرح عالمی پیمانے پر جب امریکہ طاقت کے ذریعے دنیا پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش میں انصاف نہیں کرسکا تو عرب اور افغان نوجوانوں پر مشتمل تحریک القاعدہ اور طالبان کا وجود عمل میں آیا ۔چونکہ پوری دنیا مغربی اور امریکی تہذیب کی گرویدہ ہے اس لئے جب انہوں نے اپنے نصاب میں ان تنظیموں کے دہشت گرد ہونے کا باب شامل کیا تو ان کا شمار دہشت گردی کے بین الاقوامی نیٹ ورک میں ہونے لگا ۔ اب ہمیں یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ فاشزم ،جمہوریت ،جہاد اور دہشت گردی کے معنی ہر دور میں وقت ،حالات اور طاقت کے حصول کے ساتھ بدلتے رہے ہیں ۔جسے نااہل اور بدعنوان حکمرانوں نے اپنے اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا ہے ۔مثال کے طور پر پاکستان نے بھگت سنگھ کے گائوں کو یادگار بنانے کیلئے کروڑوں روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے کیا اس کا مقصد بھگت سنگھ کے کردار کو نمایاں کرنا ہے یا وہ ان کی شہرت اور شخصیت سے فائدہ اٹھا کر اپنے ملک میں سیاحوں کو راغب کرنا چاہتا ہے ؟سچ تو یہ ہے کہ اب دنیا کی کوئی بھی حکومت بھگت سنگھ کے کردار کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔اقبال نے صحیح کہا ہے کہ نام سے کچھ نہیں ہوتا ۔ یعنی 
 جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ۔جدا ہوں دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
    سیاست میں دہشت گردی ،جمہوریت ،فاشزم اور آمریت سبھی کو شمار کیا جاتا ہے ۔فرق صرف اس نظریے کا ہے جس میں خلوص ،انصاف،ایمانداری اور للٰہیت کا جذبہ ناپید ہو چکا ہو اور اسے کتنا ہی خوبصورت اور خوشنما نام کیوں نہ دے دیا جائے وہی دہشت گردی چنگیزیت اور فاشزم ہے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ہمارے ملک میں آر ایس ایس کے جو عزائم ہیں اور جو کچھ شام ،میانمار ،مصر اور اسرائیل میں مسلمانوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی شکل و صورت تو بالکل واضح ہے اور برات کی صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے ۔مگر جمہوریت کے نام پر مختلف ممالک میں جو جبر ،ظلم اور بدترین استحصال کا ننگا ناچ ہو رہا ہے جس کے سحر سے ابھی عوام کی اکثریت باہر آنے کیلئے تیار نہیں ہے تو اس لئے کہ ہم ایک ایسے دجالی فتنے میں مبتلا ہو چکے ہیں جہاں ہر شخص حاکم اور حاکم کو بدلنے کا اختیار رکھتا ہے۔ جو صحرا میں سراب اور ہلاکت سے کم نہیں ہے۔18 ؍فروری کو گواہاٹی کورٹ سے باہر آتے ہوئے تہلکہ کے ایڈیٹر ترون تیج پال نے انڈین ایکسپریس کی نامہ نگار استھا نائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ جوکچھ ملک میں ہم مشاہدہ کررہے ہیں یہ سب دائیں بازو کے فاشزم کی علامت ہے جو اپنے مخالفین کو بہت ہی خطرناک اور خفیہ طریقے سے راستے سے ہٹانے کیلئے حکومت کی ساری مشنری کا استعمال کررہے ہیںاور یہ سب کچھ ایک ایسی جماعت کے ذریعے کیاجارہا ہے جس نے ایک کثیر جہتی تہذیب پر حکومت کرنے کا عزم کیا ہے جس کا میں بھی ایک شکار ہوں ۔ یہ بات تیج پال کے تعلق سے بلاشبہ سچ ہے کہ انہوں نے فرقہ پرستوں یا فاشسٹوں کے خلاف جس طرح اپنی اور اپنے رپورٹر کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ان کے خطرناک عزائم اور بد عنوانی کا انکشاف کیا انہیں اسی کی سزا اب مل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کے ذہن میں ملک کے دیگر حالات بھی ہوں جس کا تذکرہ صرف مسلمان ہی کرسکتا ہے اور وہ ملک میں جمہوری اور سیکولر فاشزم کا بھی شکار ہیں۔
    یہ سچ ہے کہ ملک عزیز میں آر ایس ایس اور اس کی ملیٹینٹ تنظیمیں ایک زمانے سے نفرت ،بغض ،دشمنی ،فساد اور فرقہ پرستی پر مبنی نظریات کی بنیاد پر سیاسی انقلاب لانے کی جد وجہد میں مصروف رہی ہیں۔اورساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ملک میں کمیونسٹ ،مائووادی،نکسل،دلت اور کچھ مختلف مسلم تحریکیں اپنے اثر و رسوخ اور نظریاتی تبلیغ کیلئے آزاد ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ کانگریس کے پچاس سالہ دور اقتدار میں صرف چند فیصد برہمنی ذہنیت کی حامل ہندو تنظیموں کو ہی بڑھاوا کیوں ملا اور حکومت اپنے ہر ملکی اور غیر ملکی معاہدے اور فیصلے کیلئے ان کی مرضی اور نظریات کی محتاج کیوں رہی ہے ۔کانگریسی حکومتیں اگر چاہتیں تو گاندھی کے قتل کے بعد ہی آر ایس ایس کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کردیتیں اور ملک میں فسطائیت کا خاتمہ ہوجاتا اور فرقہ وارانہ فسادات سے لیکر بم دھماکوں کی سازش کے درمیان بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ پیش نہیں آتا ۔مگربابری مسجد کے تالا کھلوانے سے لے کر شیلا نیاس اور مسلم دشمن ملک اسرائیل سے دوستی کے ساتھ ہی بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری تک ملک کی جمہوری حکومتوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے پوری طرح آر ایس ایس کی مسلم دشمن حکمت عملی پر ہی عمل کیا ہے۔
    ملک کی موجودہ صورتحال میں عام آدمی پارٹی کی شہرت اور کیجریوال کی مقبولیت سے یہ اندازہ کرنا بہت مشکل نہیں رہا کہ ملک کا عام شہری فرقہ پرست نہیں ہے اور وہ آر ایس ایس کی سیاسی پارٹی بی جے پی اور کانگریس دونوں کے فاشزم سے بد ظن اور بیزار ہے ۔وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ملک میں جتنے بھی دھماکے اور دہشت گردانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ آر ایس ایس ،مرکزی حکومت اور اس کی انٹیلی جینس اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے تاکہ ان طاقتوں نے ایک گٹھ جوڑ بناکر ملک کو توڑنے اور لوٹنے کا جو منصوبہ بنا رکھا ہے ان کی اس بدعنوانی پر سے پردہ نہ ہٹنے پائے ۔اور یہ لوگ عام آدمی کو انڈین مجاہدین کے بھوت سے ڈراتے رہیں۔عام آدمی پارٹی کے روح رواں اروند کیجریوال بھی شاید اس حقیقت کو سمجھ رہے تھے اسی لئے جب انہیں بھی اس خطرے سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے بہت ہی جرات کے ساتھ ایک تاریخی جملہ ادا کیا کہ ’’اب یہ حملہ کوئی بھی کرسکتا ہے اور کہا جائیگا کہ انڈین مجاہدین کے لوگوں نے کیا ہے ‘‘۔سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت میں انڈین مجاہدین نام کی کوئی تنظیم بھی ہے؟یا ملک کی حکمراں جماعت اور اس کی مشنری کیجریوال اور مسلمانوں کو ذہنی طور پر یر غمال بنانے کیلئے نقلی نام کا استعمال کررہی ہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کو آر ایس ایس اور بی جے پی کا خوف دلا یا ہے اور آر ایس ایس نے ہندوئوں پر مسلمانوں کی دہشت طاری کی ہے ۔ دہلی پولس نے جب اروند کیجریوال کو انڈین مجاہدین کی دہشت سے آگاہ کیا تو ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ دہلی پولس پر کس کا کنٹرول ہے ؟کیا مرکز میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکومت ہے ؟عام آدمی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس تو ہندوئوں پر صرف مسلمانوں کا خوف طاری کررہی ہے ،مگر کانگریس نے پچھلے پچاس سالوں میں دونوں کو ایک دوسرے سے خوف زدہ کرنے کا وہی کام کیا ہے جو آزادی سے پہلے انگریزوں کی حکمت عملی رہی ہے۔اگر یہ فاشزم نہیں ہے تو بھی ان کی یہ سوچ ملک کی سلامتی کیلئے فاشزم اور دہشت گردی سے بھی زیادہ اس لئے خطرناک زہر ہے کیوں کہ ہم ایک ایسی جماعت کو اقتدار سونپتے آرہے ہیں جو اپنے فیصلے سے پولس ،فوج ،عدلیہ ،سماج اور ملک کے مالیاتی اداروں تک کے وقار کو مجروح کرتی رہی ہے۔  

عمر فراہی ۔ موبائل۔09699353811    umarfarrahi@gmail.com

0 comments:

ملک عزیز میں عدل اور عدالت کا مطلب


عدالت کا تعلق عدل سے ہے ۔جب کوئی لفظ عدالت اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو مخاطب کو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ یہ عدل و انصاف کی وہ جگہ ہے جہاں کسی معاملے کا تشفیہ عدل کے معیار پر ہوگا اور حق دار کو اس کا حق مل جائے گا ۔پر ملک عزیز کے عدالت کی ادا ہی نرالی ہے ۔اول تو یہاں جو عدالتوں کا معاملہ ہے وہ یہاں برسوں سے التواء میں پڑے ہوئے لاکھوں مقدمات سے پتہ چلتا ہے کہ عدالتیں اور منصف عدل کی حساسیت سے کس قدر واقف ہیں ۔18 ؍فروری کو سپریم کورٹ نے راجیو کی قتل کی سازش میں ملوث قرار دیئے گئے لوگوں کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا اور عدالت نے ریاستی حکومت کو یہ مشورہ بھی دے دیا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے اختیارات کا استعمال کرکے ان مجرموں کو رہا بھی کرسکتی ہے ،کیوں کہ عمر قید کی سزا کے مطابق 23 سال جیل میں گذار چکے ہیں۔ٹھیک دوسرے دن تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ نے اپنے کابینی فیصلہ میں اس کو منظوری دیدی کہ جنکی پھانسی کو سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کی ہے انہیں رہا کردیا جائے ۔اب وہ مرکز کو اس کی سفارش بھیجیں گی ۔اگر مرکز نے اجازت دینے میں آنا کانی کی تو وہ اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں رہا کردیں گی۔یہ ایک قانونی اور انسانی پہلو ہے اس پر نہ مجھے اعتراض ہے اور نہ کسی کو ہونا چاہئے ۔کیوں کہ جب کوئی شخص کسی فوری ہیجان سے مجبور ہو کر کوئی قدم اٹھاتا ہے تو یہ اس کا فوری اور ذاتی رد عمل ہوتا ہے ۔ موجودہ ظلم اور نا انصافی سے بھری دنیا میں یہ کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتا ہے۔اس پر ضرور غور کیا جانا چاہئے لیکن اس میں کسی خاص عینک سے معاملات نہ دیکھا جانا چاہئے۔لیکن جب بات انتہائی اقدام کی ہو جس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑنے کا خدشہ ہو تو اس کی سزا اوراس کے بارے میں تھوڑا اس نکتہ نظر سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں کہ معاشرہ اس کے منفی عمل سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے ۔اسی زمرے میں قتل اور زنا جیسی بھیانک واردات آتی ہے ۔اسلام نے قتل کی سزا قتل ہی رکھی ہے اور اس کو قوم اور معاشرے کی زندگی سے تعبیر کیا ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر معاشرے میں قتل اور خونریزی کی سزا سخت نہ ہو تو قاتلوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور وہ بات بات پر کسی کو بھی قتل کر ڈالیں گے جس سے سماج میں انارکی پھیل جائے گی ۔آج ہم ان معاشرے میں جہاں اسلام کا عمل دخل نہیں ہے اسی انارکی کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اخبارات قتل و خونریزی اور زنا بالجبر کے واقعات سے بھرے نہ ہوتے ہیں ۔راجیو گاندھی کا قتل بھی اسی انارکی اور افراتفری اور ناانصافی کے ماحول کی پیدا وار ہے ۔
بات لمبی ہو جائے گی لیکن ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں ۔راجیو گاندھی کے قاتلوں کو معافی جن کا جرم ثابت ہو گیا کہیں مقدمات میں کسی کمی یا فرضی دستاویزات پیش کرکے فرضی چارج شیٹ کا کوئی معاملہ کہیں روشنی میں نہیں آیا یعنی کہ وہ واقعی قتل کی سازش میں ملوث ہیں ۔اب سے ایک سال قبل بڑی افراتفری میں افضل گورو کو پھانسی دیدی گئی اور اس کی لاش بھی اس کے گھر والوں کو نہیں سونپی گئی ۔افضل گورو کا گناہ صرف یہ تھا کہ اول تو وہ کشمیری تھا اوردوئم وہ مسلمان بھی تھا۔اور ملک عزیزمیں یہ دونوں نام اور کردار والے لوگ معتوب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پھانسی دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی نہ کسی کو کوئی رحم آیا اور نہ ہی کسی نے اس پر احتجاج کیا ۔جنہوں نے اس پر احتجاج کیا ان کی باتوں کو ان سنا کردیا گیا اور کافی عرصے سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔اگر آپ کی بات میں دم ہے اور آپ اس کو مضبوط دلائل کی روشنی میں لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تو اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ہمارے سامنے دو مثالیں موجود ہیں ۔مثالیں تو اور ہوں گی لیکن اس پر نہ توتحقیق ہوئی اور نہ وہ منظر عام پر آئیں۔ ایک معاملہ تو یہی افضل گورو کا ہے جس کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوئی واضح ثبوت نہیں ہوتے ہوئے بھی عوام کی اجتماعی ضمیر کی تسکین کیلئے اس کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ۔اب یہ اجتماعی ضمیر ہے کیا اور اس کی تخلیق کس طرح ہوئی یہ بھی ایک دلچسپ اور عدلیہ اور انتظامیہ کی مسلمانوں کے تئیں گھناؤنے نفرت اور نسلی امتیاز کو دکھاتا ہے ۔افضل غورو کو گرفتار کرنے کے بعد اسے سخٹ اذیت دیکر اس سے ایک ویڈیو بیان لیا گیا اور اس ویڈیو بیان کو ٹی وی چینلوں پر نشر کیا گیا ۔یہ ویڈیو بیان اسے اس دھمکی کے ساتھ لیا گیا تھا اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کا انجام اس کے گھر والوں کو بھگتنا ہوگا ۔سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر مشہور مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے نے سخت احتجاج کیا لیکن اسے نظر انداز کردیا گیا۔دوسری مثال ممبئی کے26/11 دہشت گردانہ حملہ پر مہاراشٹر پولس کے سابق آئی جی ایس ایم مشرف کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات ہیں جس پر انہوں نے ایک پوری تحقیقاتی کتاب بھی لکھ ڈالی ’’ہو کلڈ کرکرے‘‘ جو کہ اردو میں ’’کرکرے کے قاتل کون‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور بھی کئی ہندوستانی زبانوں میں اسے اشاعت کا شرف حاصل ہوا ۔مشرف کی مذکورہ کتاب پر بامبے ہائی کورٹ میں ایک شخص نے پی آئی ایل بھی داخل کیا کورٹ نے حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا لیکن اس کے بعد پتہ نہیں کہ کیا ہوا ۔عوام کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اس کے ذہنوں پر کسی نئے واقعہ کی دھول جم جاتی ہے اور پچھلا واقعہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔برسوں سے یہی ہوتا آرہا ہے ۔پولس ،نام نہاد دہشت گردی مخالف دستوں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ایسے مکروہ اور ذلیل کارنامے کئی بار منظر عام پر آگئے ہیں ۔لیکن نہ تو حکومت نے بیان بازی سے ہٹ کر کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ،نہ ہی معمولی معمولی واقعات پر جن عدالتوں کا ضمیر بیدار ہوتا ہے اور وہ سو موٹو لیکر حکومت اور انتظامیہ کے کان پکڑنے والی عدالتوں نے اس پر کبھی اپنے ضمیر میں جھانکنے کی کوشش کی اور نہ ہی مسلم لیڈروں اور تنظیموں نے خوف کی نفسیات سے نکل کر اس پر کسی طرح کی ٹھوس کارروائی کی۔
راجیو گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث افراد کی سزا عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ’’جس آدمی کے سر پر پھانسی کا پھندہ لٹکتا رہے ،جس کی رحم کی درخواست پر پہلے ہی اتنی دیر ہو چکی ہے، ظاہر ہے اسے بہت تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے ۔ان حالات میں اس کی موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنا ہی درست ہے‘‘ ۔جو سپریم کورٹ ان پر اتنی مہربان ہے وہ افضل گورو کے معاملے میں وہ نرمی وہ ہمدردانہ رویہ کیوں نہیں اپنا پائی؟کیا صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھا اور ساتھ میں کشمیری بھی ۔وہ بھی تو پھانسی کی سزا کا کافی دنوں سے منتظر تھا ۔اسے بھی تو انہی اذیتوں میں زندگی گزارنی پڑی جس میں بقول سپریم کورٹ راجیو گاندھی قتل کے مجرمین نے گزاری ہے ۔جبکہ خود سپریم کورٹ کے ہی مطابق پارلیمنٹ پر حملے کی سازش میں ملوث ہونے کا کوئی واضح ثبوت بھی نہیں تھا ۔سپریم کورٹ نے دوسرا مشورہ دیتے ہوئے ریاستی حکومت کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی عمر کی مدت پوری کر چکے ہیں جبکہ یہی سپریم کورٹ ممبئی بم دھماکہ کیس میں عمر کی معیاد پوری زندگی متعین کرتا ہے ۔ اب جو لوگ جے للیتا کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں خاص طور پر کانگریسی ورکرجنہوں نے جے للیتا کے پتلے جلائے اور احتجاج کیا ،یہ ان کا حق ہے لیکن انہیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ جے للیتا نے وہی کیا جو اس وقت کا تقاضہ ہے یعنی تمل باشندوں کی ہمدردی حاصل کرنا ۔کوئی بھی سیاسی پارٹی وہی کرتی جو جے للیتا نے کیاہے۔ اصل معاملہ تو سپریم کورٹ کے اس مشورے کا ہے کہ’’ حکومت چاہے تو انہیں رہا بھی کرسکتی ہے کیوں کہ وہ اپنی عمر قید کی مدت پوری کر چکے ہیں‘‘ ۔ عدالتوں سے لیکر حکومتوں تک اور انتظامیہ سے لے کر مقننہ تک مسلمانوں کے ساتھ یہ ظلم اور نا انصافی کیا رخ لے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملک کے اتحاد اور سا لمیت کیلئے خطرناک ہے ۔اس کا تدارک کرنا اور مسلمانوں سمیت سبھی فرقوں میں یہ احساس بیدارکرانا کہ یہ ان کا اپنا ملک ہے اور اس کی ترقی اور بقا میں ہی ان کی اپنی ترقی اور بقا بھی ہے ۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ارباب اقتدار ،مسلم تنظیمیں اور مسلم لیڈران اخلاس کے ساتھ عمل کریں ۔ منافقت سے نہ ملک کا اتحاد سلامت رہے گا نہ اس کے بقا کی ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی وہ نئے عالمی منظر نامے میں اپنا منفرد مقام بنا پائے گا۔
نہال صغیر۔ایکتا نگر ۔ کاندیولی (مغرب) ممبئی 400067 موبائل :9987309013

0 comments:

عدلیہ اور حکومت کا دوہرا معیار ملک کی سا لمیت کیلئے خطرہ



سپریم کورٹ کا راجیو گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث تین مجرمین کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیئے جانے سے ملک عزیز میں انصاف اور حکومت کے دوہرے پیمانے کو ایک بار پھر عالم انسانیت کے سامنے ظاہر کیا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ملک میں جمہوریت اور انصاف کا صرف گردان ہی باقی رہ گیا ۔حقیقت میں نہ کہیں جمہوریت ہے اور نہ ہی کہیں انصاف ۔ایک سال ہی قبل افضل گرو کو بڑی سرعت اور افراتفری میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔افضل گرو کو سپریم کورٹ نے سزا سناتے ہوئے وہ بات کہی تھی جس کے بعد شاید کسی کو سپریم کورٹ سے بھی انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہئے ۔سپریم کورٹ نے صاف لکھا تھا کہ واضح طور پر کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے لیکن عوام کی اجتماعی ضمیر کی تسکین کیلئے پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ۔واہ !کیا عدالت ہے اور کیسا انصاف کہ ناکافی ثبوت ہونے کے باوجود صرف اس لئے پھانسی پر لٹکادو کیوں کہ عوام کی خواہش ہے ۔اور وہ عوام کی خواہش کیسے بنی یہ ایک لمبی داستان ہے اس کا تذکرہ پھر کبھی ۔دوسری طرف وہی سپریم کورٹ جرم ثابت ہو جانے کے باوجود محض اس وجہ سے کہ رحم کی درخواست پر ایک لمبا عرصہ گذر گیا اور یہ کسی اذیت سے کم نہیں ۔پھانسی کو عمرقید میں بدل دیتا ہے ۔عدالت یہیں پر نہیں رکی اس نے ریاستی حکومت کو اپنے اختیارات کے استعمال کرنے کا اشارہ بھی دے دیا کہ اگر وہ چاہے تو انہیں رہا بھی کر سکتی ہے کیوں کہ یہ عمر قید کی سزا 23 سال جیل میں کاٹ چکے ہیں ۔یہی سپریم کورٹ ہے جس نے ممبئی بم دھماکہ کیس میں عمر قید کی معیاد موت تک مقرر کی ہے ۔ملک عزیز میں جمہوریت سیکولرزم اور عدلیہ کی بالادستی کی دہائی دینے والوں کیلئے سبق ہے ۔جس ملک کی عدالت میں عدالتی فیصلے اب آستھا اور عوامی ضمیر کی آواز پر دیئے جارہے ہوں اس کی جمہوریت ،سیکولرزم اور عدلیہ کی انصاف پروری کی داستان کے سلسلے میں غالب کا یہ مصرعہ ہی کافی ہے ؂ دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے

نہال صغیر۔ایکتا نگر۔کاندیولی (مغرب) ممبئی 400067 موبائل: 9987309013

0 comments:

کیا اجتماعی نکاح سے جہیز کی رسم پر قابو پایا جاسکتا ہے؟


مسلم معاشرے میں دوسرے بہت سارے مسائل کے ساتھ شادی بھی ایک مسئلہ ہے ۔اس مسئلہ پر جہاں کئی سطح پر لوگ کوششیں کررہے ہیں وہیں کچھ تنظیمیں اجتماعی شادی یا نکاح کا نظم بھی کرنے لگی ہیں ۔ جو کہیں دھوم دھام اور کہیں سادگی سے ہوتا ہے ۔ایسے پروگرام کی خبریں ہم اخبار میں روزانہ پڑھتے ہیں ۔اس سلسلے میں کچھ اہم شخصیات سے گفتگو کرنے پر تقریباً سبھی کا اس بات پر اتفاق تھا کہ اس طرح کے پروگرام سے معاشرے میں کوئی نمایاں تبدیلی تو نہیں آئے گی لیکن اتنا تو ہے کہ سماج میں ایسے لوگوں کیلئے راحت کا سامان فراہم ہوجاتا ہے جو انتہائی مفلوک الحال ہیں ۔اس طرح کے نکاح یا شادی کے پروگرام میں عام طور پر ایسے افراد جو اپنی بچیوں کی شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ،ان کی بچیوں کی شادی ہو جاتی ہے ۔اس طرح کے نکاح میں عام طور پر تنظیمیں خود ہی رشتے طے کرتے ہیں ۔ مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں کہ ’’ اس طرح کے پروگرام سے کوئی بڑا انقلاب یا جہیز کی بری رسم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے لیکن یہ ان معنوں میں بہتر ہے کہ چند غریبوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر جاتی ہے جو غریب اپنی بچیوں کی شادی نہیں کرسکتے ان کی پریشانیاں کم ہو جاتی ہیں ۔ کسی نمایاں تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ سماج کی وہ شخصیات جواس کا انعقاد کرتی ہیں اگر انہی محفلوں میں اپنے بچوں کے نکاح بھی کرنے لگیں تو یقیناًتبدیلی آئے گی ۔ لیکن وہ سماج میں یہ نیک کام تو کرتے ہیں لیکن معاشرے میں تبدیلی لانا ان کا مقصد نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادی فائیو اسٹار طرز پر ہی کرتے ہیں‘‘۔
اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر زمانے میں اور ہر طبقہ کے لوگوں کی رہنمائی کیلئے ہے ۔ قرآن کا حکم ہے ’’تم میں جو لوگ بغیرنکاح کے ہوں ،اور تمہارے لونڈی ،غلاموں میں سے جو صالح ہوں ،ان کے نکاح کردو‘‘ النور 32 اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’نکاح میری سنت ہے ،پس جس نے میری سنت سے چشم پوشی کی وہ مجھ سے نہیں ہے ‘‘ ۔ یہ دو مثالیں قرآن اور حدیث سے ہیں جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اسلام نے اس کا حکم دیا ہے کہ کوئی بھی تنہا نہ رہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد ۔اسی لئے سورہ نور میں یہ حکم ہے کہ اگر تم میں کا کوئی بن نکاح کے ہو (عورت یا مرد)اور اسے کوئی اس کی پسند کا نہیں مل رہا ہو تو وہ لونڈی یا غلام جو ان کے پاس ہوں اور وہ پاکباز ہوں تو ان سے نکاح کرلیں ۔ یعنی اسلام کا معیار مال و دولت جاہ وحشم اور حسن و خوبصورتی نہیں بلکہ پاکبازی اور صالحیت ہے ۔اسی بات کو نبی ﷺ نے فتح مکہ کے بعد حجتہ الوداع کے موقع پریوں بیاں فرمایا تھا آپ ﷺ فرماتے ہیں ’’زمانہ جاہلیت کی ساری رسموں کو میں اپنے پیروں تلے روندتا ہوں ۔آج سے نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی امیر کو کسی غریب پر نہ کسی عرب کو کسی عجمی(عرب کے باہر کے لوگ)پر کوئی فوقیت ہے ۔اگر تم میں سے کسی کو کسی پر فوقیت ہے تو وہ صرف اس بنا پر کہ کون اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے ‘‘۔اس موقع پر آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھےَ ۔
نکاح انسانی زندگی کا اہم جز اور انسانی نسل کی بقا کے لئے ضروری ہے ۔اس لئے اسلام نے اس عمل کو تمام ہی طرح کے رسم و راج سے پاک کیا ۔ نبی ﷺ نے نکاح کو آسان بنانے کیلئے خود بھی نکاح انتہائی سادگی سے کی اور آپ ﷺ کے جان نثار ساتھیوں نے بھی اسی پر عمل کیا ۔ بلکہ اب تک عرب اور بہت سے مسلم ملکوں میں نکاح اسی سادگی اور بغیر کسی قباحت کے ہوتا ہے ۔ لیکن ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلمانوں نے کچھ رسمیں برادران وطن سے خود میں شامل کرلیں ۔اسی کا ایک حصہ ہے جہیز جس کی مار بر صغیر میں دیگر لوگوں کے ساتھ مسلمانوں پر بھی ہے ۔ صرف جہیز ہی نہیں بلکہ شادی میں شاہانہ خرچ اور فائیو اسٹار کلچر نے اس ضروری اور اہم فریضہ کو غریب اور درمیانہ درجہ کے والدین کیلئے مصیبت بنا دیا ہے ۔ جبکہ نبی ﷺ نکاح کے متعلق فرماتے ہیں ’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو نہایت آسانی اور بغیر تکلف کے انجام پذیر ہو‘‘۔ یہاں ہم نے تکلف برتنے کو ہی اپنا مزاج بنالیا ہے۔اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ہم اپنے نبی کے فرمان کا کھلم کھلا مذاق اڑاتے ہیں اور پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور محض نعرہ لگاکر عاشق نبی اور اسلام کا شیدائی ہونے کا دعویٰ ہے ۔ جبکہ قرآن ہمیں کہتا ہے ’’درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسول ہی ایک بہترین نمونہ ہیں ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے ‘‘ ۔(الاحزاب:21 )لیکن مسلمان کس نمونہ پر عمل کررہا ہے اور اس نمونہ نے اس کو کیا دیا ہے ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے ۔ ہم نے ظاہری چمک دمک اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی دوڑ میں خود اپنا ہی نقصان کیا کہ آج اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے تو وہ اسے ایک مصیبت سمجھنے لگتا ہے ۔اس سوچ نے کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ آبادی میں عورت اور مرد کی تعداد میں عدم توازن سے ہوتا ہے۔ہندوستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لڑکیاں بہت کم ہیں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں لڑکیاں ہیں ہی نہیں ۔
اس ماحول میں چند لوگوں یا تنظیموں کی طرف سے اجتماعی نکاح یا شادی کا پروگرام ایک مثبت قدم ہے ۔ جس سے کوئی بڑی تبدیلی نہ بھی آئے تب بھی ان لوگوں کیلئے راحت کا سامان ہے جو اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ اپنی بچیوں کی شادی کرسکیں ۔اسی کے ساتھ اس طرح کے پروگرام کرنے والے تھوڑے مخلص ہوجائیں تو سماج میں اس کا ایک مثبت پیغام بھی جائے گا ساتھ ہی اگر مسلمان اپنے نبی ﷺ کی اس حدیث پر ہی عمل کرلیں تو شادی کے مسائل سے نپٹا جاسکتا ہے۔ حدیث نبی ﷺ ہے ’’عورتوں سے چار باتوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے ۔ مال دیکھ کر،حسب و نسب دیکھ کر،خوبصورتی دیکھ کر،یا دینداری دیکھ کر ،پس تم دینداری دیکھ کر زندگی کی کامیابی حاصل کرو‘‘۔ اب یہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ وہ نبی ﷺ کی بات مان کر پرسکون زندگی گزارنا چاہتےہیں یا نبی کی باتوں کو نظر انداز کرکے مشکلات اور مصائب کی زندگی میں مبتلا رہنا۔

نہال صغیر۔ موبائل:9987309013

0 comments: