تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۵)


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
تعلیم کی اہمیت اور اس کی افادیت پر پچھلے کالموں میں جہاں بہت ساری باتیں سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے وہیں ایسی باتیں بھی در آئی ہیں جو مدارس کے قیام اور عصری تعلیمی اداروں کی تشکیل میں رکاوٹ کا بڑا سبب لوگوں کے نجی مفادات اور خود غرضی رہی ہے جس کی وجہ سے مسلم علاقوں میں بچے دینی و عصری تعلیمات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 
دہلی جو نہ صرف ملک کی راجدھانی ہی ہے بلکہ ملک کی تمام سیاسی، سماجی اور دینی جماعتوں کے مراکز بھی ہیں، یہاں کا ایک معروف علاقہ ہے اوکھلا، جہاں مسلمانوں کی دینی سماجی و سیاسی جماعتوں کے علاوہ تعلیمی مراکز بھی ہیں۔ مسلمانو ں کا یہ علاقہ بھی آبادی کے لحاظ سے بڑا علاقہ ہے جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے بھی خاصے ادارے قائم ہیں، لیکن افسوس کہ ان اداروں کی انتظامیہ کی بھی وہی کاروباری سوچ کام کر رہی ہے جس کا مقصد محض پیسہ حاصل کرنا ہے۔ وہاں کا غریب طبقہ اس عظیم نعمت سے محروم رہ جاتا ہے جسے اللہ نے بلا امتیاز سبھی کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ ان تعلیمی اداروں میں غریب بچوں کے لیے خصوصی رعایت کے ساتھ توجہ دی جاتی۔ 
اسی طرح مسلمانوں کی دوسری بڑی آبادی جمناپار کی ہے جو جمنا کے کنارے سے غازی آباد تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کے چند علاقوں میں تو تعلیم کی طرف توجہ ہے جہاں دینی و عصری تعلیم کا اہتمام و انتظام ہے جیسے کہ نیوجعفرآباد، موج پور اور گھونڈہ وغیرہ۔ لیکن ان علاقوں کے عصری اداروں میں بھی تجارتی سوچ پائی جارہی ہے جس کی وجہ سے غریب مسلمانوں کے بچے اچھی تعلیم و تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ میرے ایک ساتھی نے ایک انگلش میڈیم اسکول کی بھاری فیس اور عدم سہولتوں کی شکایت کی اور کہا کہ متوسط طبقے کے بچے بھی اس اسکول میں بہتر تعلیم سے محروم ہیں تو نچلے طبقے کے بچے بھلا کیسے اچھی تعلیم سے فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ جبکہ اس وقت غریب بچوں کی طرف ہی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے علاقہ کے ہمدرد اور ملی و دینی اور اجتماعی مفاد کا جذبہ رکھنے والے لوگ گھر گھر بیداری کی مہم اگر چلاتے ہیں تو ایک بڑا کام ہوگا۔ 
ہاں بعض علاقوں میں اپنوں میں ہی کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ذات سے آگے کی سوچ ہی نہیں رکھتے۔ جن کی وجہ سے ملت کا اجتماعی نقصان ہوتا رہا ہے یہ لوگ کسی بھی اجتماعی ملی کام میں نہ صرف رخنہ ہی بنتے رہے ہیں بلکہ ملت کو شدید حالات سے دوچار بھی کرتے رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ راقم سطور کے ساتھ بھی ہوا ہے، جب راقم 1982 میں کلیان و اس سے جوشی محلہ منڈاولی، فضل پور بغرض رہائش منتقل ہوا تویہاں محدود تعداد میں ہمارے ہم وطنوں کے گھر موجود تھے۔ میرے ساتھ میرے دو ساتھی بھی تھے جو اپنی ذات اور ضرورتوں سے آگے کی سوچ ہی نہیں رکھتے تھے۔ اسی دوران مسلمانوں کے چند گھر اور بھی آباد ہوگئے جو دینی اور معاشرتی طور سے بہت پچھڑے لوگ تھے۔ یہاں تک کہ ان کے نام بھی دو دو تھے جو حسب حال یعنی مسلمانوں میں مسلم نام اور غیر مسلموں میں غیر مسلم نام استعمال کرتے تھے۔ ایسے حالات میں ہم جیسوں کے لیے کسی ملی یا اجتماعی کام کی انجام دہی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور تھی۔ اس بے آب و گیاہ بستی میں جہاں پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں تھا وہاں کسی فلاحی یا تعلیمی ادارے کا تصور کسی دیوانے کے خواب سے کم نہ تھا۔ لیکن اس بنجر اور اوبڑ کھابڑ سوکھی زمین کو اپنے خونِ جگر سے سیراب کرنے کی کوششیں جاری رہیں، لوگوں کو پینے کا پانی بھی ملا اور زندگی کی ضروری سہولتیں بھی ملیں لیکن علم و ہنر کے لیے یہ سرزمین سوکھی کی سوکھی ہی رہی۔ 
ایک روز جب میں اپنے چھوٹے بیٹے ذیشان احمد کے داخلے کے لیے نرسری اسکول کی تلاش میں منڈاولی گاؤں کی طرف جارہا تھا کہ نالندہ پبلک اسکول جو اپنی بستی سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا نظر آیا۔ وہاں پہنچ کر اسکول کی ایک ٹیچر سے معلوم کیا کہ اسکول کے مالک یا پرنسپل کون ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ اندر کلاس روم میں بچوں کو پڑھا رہے ہیں، آپ اندر جاکر مل لیں۔ اتنے میں پرنسپل صاحب تشریف لائے اور گویا ہوئے کہ کیا کام ہے؟ راقم نے عرض کی کہ کیا آپ کے اسکول میں اردو پڑھانے کا انتظام ہے؟ پرنسپل صاحب نے کہا نہیں، فی الحال نہیں ہے۔ اور میں خاموش ہوگیا۔ اتنے میں دیکھا کہ پرنسپل کا چہرہ آنسوؤں سے بھرا پڑا ہے۔ راقم کو بڑی حیرت ہوئی، وجہ دریافت کی تو حکم ہوا کہ تم بولتے رہو۔ یہ زبان جو تم بول رہے ہو ملک کے بٹوارے کے بعد جب سے میں پاکستان سے ہندوستان آیا ہوں پہلی بار سن رہا ہوں او ریہ زبان سن کر میں اپنے ماضی میں کھو گیا تھا اور اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی زبان سن کر میرا دل روپڑا تھا۔ تو ہاں، ابھی تک تو اردو کا یہاں کوئی نظم نہیں تھا لیکن اگر تم 10 بچے لادو تو میں ایک اردو ٹیچر رکھ لوں گا اور اگر کوئی ٹیچر نہیں ملا تو میں خود پڑھاؤں گا۔ راقم اس وعدے کے ساتھ کہ ایک ہفتے کے اندر اندر 10 بچوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا، وہاں سے گھر لوٹ آیا۔ 
یہاں یعنی بستی میں جتنے مسلم گھر تھے ہر ایک کے یہاں دستک دی اور بچوں کو اردو تعلیم دلانے اور اس کی اہمیت و ضرورت بتانے کی کوشش کی۔ لوگوں نے اپنے بچوں کواردو پڑھانے کے لیے داخلے کے زبانی وعدے بھی کیے مگر عملاً مایوسیوں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ اور جب میں پندرہ بیس روز گزر گئے تو ایک روز اُسی راستے سے منہ چھپائے اپنے دفتر جارہا تھا کہ نالندہ اسکول کے پرنسپل صاحب کی عبقری نگاہیں مجھ پر پڑگئیں اور چپراسی کو بھیج کر اپنی عدالت میں مجھے طلب کرلیا۔ اور پوچھا کہ کیا ہوا تم تو ایک ہفتے میں 10 بچے لا رہے تھے؟ میں نے کہا کہ حضرت میں شرمندہ ہوں، میرے بچے کے علاوہ اور کوئی بچہ نہیں جو اردو پڑھنے کے لیے تیار ہو۔ ان کے والدین خود اس نعمت سے محروم ہیں تو وہ اپنے بچوں کو کیسے اردو کی تعلیم دلائیں گے! 
تو اب سنیے، پرنسپل صاحب فرماتے ہیں کہ کیا تم نے خوریجی کی جو نئی نئی مسجد تعمیر ہوئی ہے، دیکھی ہے؟ (یہ 1982 کی بات ہے) میں نے عرض کیا جی ہاں۔ وہاں کیا کیا دیکھا؟ وہاں مسجد کے علاوہ اور کیا ہے! شرماجی نے کہا۔ کیا تم نے اس کا فلک بوس مینارہ بھی دیکھا؟ میں نے کہا جی ہاں! شرماجی نے پھر فرمایا کہ مسجد میں تم نے اور کچھ بھی دیکھا؟ میں نے عرض کیا وہاں مسجد کے علاوہ اور کچھ تو نظر نہیں آیا۔ شرماجی نے مسکراتے ہوئے کہا تم ابھی کچے صحافی ہو۔ کیا تمہیں وہاں ایک چھپر نظر نہیں آئی؟ جس میں ایک مولانا صاحب چند بچوں کو قاعدہ، سیپارہ پڑھا رہے ہیں، اور وہ چھپر ایسی ہے کہ جس پر اوپر سے دس بوندیں پڑیں تو نو نیچے آجائیں اور ایک اوپر ٹکی رہ جائے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شرماجی نے کہا۔ ’’میاں، تمہاری یہ قوم زوال پذیر قوم ہے۔ اسی طرح جس طرح پہاڑ سے پانی گرتا ہے جسے آبشار کہتے ہیں۔ تم اگر اس کے نیچے آگئے تو بہہ جاؤگے۔ تم سوچو ذرا، جہاں سے دنیا و آخرت کے لیے علم و آگہی حاصل ہوتی ہے وہاں تو ایک سڑی چھپر ہے اور جہاں صرف نماز کے لیے ایک پرسکون جگہ چاہیے وہاں لاکھوں روپے صرف کیے گئے ہیں، یہ زوال پذیری کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟ تم ملت کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے سوچو، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔‘‘ 
میں شرما جی کی باتیں سن کر حیرت میں پڑگیا اور سوچنے لگا کہ دوسرے ہمارے بارے میں کتنی گہری نظر رکھتے ہیں اور ہم ہیں کہ ہمیں اپنی ہی خبر نہیں۔ ہم کہاں جا پڑے ہیں۔ اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ راقم نے جوشی کالونی میں آنے کے دو برس بعد ہی یہ سوچ کر کہ آج ہم چند گھر ہیں، کل سینکڑوں میں ہوں گے تو لوگوں کو دینی و معاشرتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مسجد، مدرسہ اور اسکول کے علاوہ قبرستان کی بھی ضرورت لازمی ہوگی، اپنے ہم وطنوں کے تعاون سے یہ تمام چیزیں حاصل کیں اور اپنے لوگوں کے حوالے کردیں۔ جس کے نتیجے میں مسجد تو اللہ کے فضل سے اب تک قائم ہے مگر مدرسہ اسکول اور قبرستان کی زمینیں ملت کے بدخواہوں کی نذر ہوگئیں۔ 
جوشی کالونی کی کہانی ایک طویل کہانی ہے جسے اخبار کے کالموں میں اس وقت سمیٹنا مشکل ہے۔ البتہ ایک واقعہ کا ذکر جو مدرسہ سے تعلق رکھتا ہے، کرنا ضروری ہے۔ دو مولوی جس میں ایک سیاسی مولوی تھا، مدرسہ کی زمین کے لیے اس علاقہ میں سرگرداں تھے۔ کالونی کے کسی شخص نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ خاکسار راقم سے مل کر مدرسہ کی زمین جو ابھی تک خالی پڑی ہے دے دیں، ہم مدرسہ کی زمین کے لیے ہی ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ میں نے سیاسی مولوی کے نام پر جب منع کردیا تو پھر خالص مولوی کو میرے پاس بھیجا گیا جو یقیناًدین دار تھے، ان کی ذات سے متاثر ہوکر میں نے رضامندی ظاہر کردی اور پھر ان لوگوں نے اس زمین کو مدرسہ کے نام سے پاور آف اٹارنی بنوائی اور تقریباً دو برس تک مدرسہ میں تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا او رپھر نہ معلوم کب مدرسہ کی زمین اپنے نام منتقل کرلی۔ اس طرح ڈیڑھ ہزار گز زمین مین روڈ کی دنیا پرست مولویوں کے شکم سیری اور عیش پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی اور اب نہ کوئی زمین ہے نہ مدرسہ اسکول۔ مسلمانوں کے بچے ایک ایسے اسکول میں تعلیم پا رہے ہیں جہاں استاد کے پاؤں چھونے، بندے ماترم پڑھنے پر مجبور ہیں۔ شرمناک بات تو یہ ہے کہ یہاں کے ’رئیس زادوں‘ کو ذرا بھی اس کی پروا نہیں، یہاں ایسے بہت سے دولت مند ہیں جو مال و دولت اور زمین و جائداد کے مالک بنے بیٹھے ہیں جن کی کہانی بیان کرنا خود کو شرمندہ کرنا ہے۔ (باقی آئندہ) 

0 comments:

دشمن کے وار سے پہلے جلدی کیجئے

ممتاز میر ،برہانپور
اب نبیرہء اعلیٰ حضرت حضرت مولاناتوقیر رضا خان صاحب کے دیوبند کے سفر کو ایک ہفتہ ہو چکا ہے اور یہ کہنا بجا ہوگاکہ ان کے اس قدم کا ملت کے ۹۹ فی صد نے تہہ دل سے استقبال کیا ہے ۔ابھی تک اس تعلق سے مضامین آرہے ہیں۔ہمارے مطالعے میں اب تک جو مضامین آئے ہیں صد فی صد میں ان کے اس قدم کو سراہا گیا ہے ۔اسے ہندوستانی ملت کا نیا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔دعائیں مانگی جا رہی ہیں کہ خدا اس کوشش کو نظر بد سے بچائے۔کیونکہ امت مسلمہ کے اب تمام ہی لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے دشمن ہم سے زیادہ طاقتورباخبر اور ہوشیار و چالاک ہیں۔انھوں نے اپنے لاکھوں ایجنٹوں کو ہمارے درمیان داخل کر رکھا ہے۔پھر ملت میں بھی کمزور اور تھڑ دلے افراد کی کمی نہیں ۔وہ پہاڑ جیسی قوت ارادی کے ساتھ اٹھائے گئے مولانا توقیر رضا کے اس قدم کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔سازشیں شروع ہو چکی ہونگی۔اللہ ہمیں بھی نہلے پہ دہلے کے لئے تیار کرے۔آمین
ہم نے ۸؍۱۰ سال پہلے بمبئی میں اپنے قیام کے دوران اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان صاحب پر ایک مضمون اور ایک مراسلہ لکھا تھاکہ اعلیٰ حضرت جتنے وسیع العلم تھے ۔ علم کی جن جن شاخوں پرانھیں دسترس حاصل تھی ۔دنیا میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔ہم نے ان کے متبعین سے یہ شکایت بھی کی تھی کہ جس طرح مولانا مودودی کے شاگردوں اور ان کے متبعین نے ان کی فکر کو مولانا کے کام کو آگے بڑھایا ہے ایسا امام احمد رضا خان صاحب کے ساتھ نہ ہو سکا۔اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہو کہ ان کی فکرکوعام کرنے کی بجائے چھپایا گیا ۔فتاویٰ رضویہ جلد اول یا شاید دوم میں مولانا مودودی کے سیکریٹر ی ملک غلام علی کا پورے صفحے کا ایک تصدیق نامہ دیا گیا ہے جس میں ملک صاحب نے کہا ہے کہ امام محترم کے ۹۰ فی صد فتاویٰ وہی ہیں جو ہمارے عقائد سے مطابقت رکھتے ہیں جنھیں ہم قبول کرتے ہیں اور جو دس فی صد اختلاف ہے وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔ایسے اختلافات صحابہء کرامؓ کے درمیان بھی موجود تھے۔
ہم نے فتاویٰء رضویہ جلد چہارم تک کا مطالعہ کر رکھا ہے ۔اس میں ایک سائل نے حضورﷺ کے نام پر انگوٹھے چومنے کے تعلق سے سوال کیا تھا۔امام محترم نے اپنے فتوے میں کہا ہے کہ جو چومے وہ بھی سنی جو نہ چومے وہ بھی سنی کیونکہ اس تعلق سے جو احادیث ملتی ہیں وہ درجہ استناد کو نہیں پہونچتی ۔افسوسناک بات یہ کہ اس مسئلے پر بمبئی میں مساجد میں قتل ہو چکے ہیں۔کیا یہ ظلم بالکل ویسا ظلم نہیں ہے جیسا دادری میں محمد اخلاق کے ساتھ ہوا ۔وہ جن کے پاس ایمان نہیں ہے ان سے شکایت کیسی؟ہم نے بھی تو ایمان والوں کو اتنا ہی عدم روادار بنا دیا ہے۔
بمبئی میں ایک ڈاکٹر صاحب ہیں ۔کٹر بریلوی۔ہمارے برادر خورد کے دوست۔ہم نے مذکورہ فتوے کا ان سے ذکر کیا۔انھیں یقین نہ آیاہم نے جلد چہارم انھیں لے جا کر دی۔انھوں نے اسے پڑھنے میں ۳؍۴ ماہ لگا دئے۔مگر پڑھ کر کہنے لگے ۔بھائی اب میں اگر اپنے لوگوں میں بات کروں گا تو کہیں گے کہ کیا ڈاکٹر صاحب آپ بھی بدل گئے۔ایسے ہی ایک جگہ اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں کہ بازار کی مساجد میں دوسری جماعت بنائی جا سکتی ہے۔شرط یہ ہے کہ پہلے امام کے مصلے پر نہ ہواس معاملے میں دیوبندی حضرات بھی جہالت ہی کا مظاہرہ کرتے ہیں بس بریلوی حضرات کی طرح بات پولس اورکورٹ کچہری تک نہیں پہونچاتے ۔ہمارا جتنا مطالعہ ہے اس کے مطابق ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ۹۰ فی صد مسائل میں بریلوی اوردیوبندی مسائل میں ہم آہنگی ہے مگر اعلیٰ حضرت کے بعد آنے والوں نے اپنے متبعین میں بالکل ویسی ہی عدم برداشت اور عدم رواداری بھردی ہے جیسی کہ آج وطن عزیز میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔اگر وہ غلط ہے تو اپنے ضمیر سے خدا کو حاضر و ناظر جان کر پوچھئے کہ آپ نے اپنے متبعین کے دماغوں میں دوسرے مسالک کے تعلق سے جو بھر رکھا ہے وہ کیا صحیح ہے؟
ایک اور مسئلہ جس کا بریلویوں اور دیوبندیوں کے مناقشے میں اہم کردار رہا ہے وہ مولانا اشرف علی تھانوی کا نماز کے دوران حضور ﷺکا خیال آجانے پر فتویٰ ہے ۔پہلے پہل جب ہم نے اس فتوے کو پڑھا تھا ہم کو بھی مولانا پر بہت غصہ آیا تھا مگر جب اس کی تشریح سامنے آئی تو انگشت بدنداں رہ گئے۔کیوں کہ ہمارا خود نماز کے دوران وہی رویہ تھا جس کی طرف مولانا اشرف علی تھانوی نے اشارہ کیا ہے ۔اس فتوے اور اس کی تفصیلات پڑھنے کے بعد ہم نماز میں حضور ﷺکا خیال پالنے کی بجائے نکالنے لگے۔ہر انسان کی نماز میں بہتیری خامیاں ہوتی ہیں درست رویہ یہ ہے کہ ہر لحظہ اسے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔خیر ہمیں کہنا صرف یہ ہے کہ اب پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ فریقین اپنے ماننے والوں کے دماغوں سے عدم برداشت اور عدم رواداری کو کھرچ کھرچ کر نکالیں۔اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔جتنا عرصہ ذہنیت بننے میں لگا ہے اس سے زیادہ عرصہ اسے درست ہونے میں لگے گااس دوران ہمارے دشمنوں کی کوششیں اور سازشیں بھی جاری رہیں گی۔مگر ہمیں اپنی ملت کو بنیان مرصوص بنانا ہے ۔ہر لمحہ دل میں یہ خیال جا گزیں رہے کہ بہترین منصوبہ ساز اللہ ہے۔حضرت مولانا توقیر رضا خان صاحب نے جو پہل کی ہے جو تاریخ بنائی ہے دیوبندیوں کا کام ہے کہ اس کا جواب اس سے بڑھ کر دیا جائے۔سوچ بچار میں وقت ضائع کر کے دشمن کو وار کرنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔
ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اب مسلمانوں میں منافقوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے۔سارے دانشور مسلم ہوں یا غیر مسلم اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو اس وقت تک نقصان پہونچانا ممکن نہیں جب تک سیندھ اندر سے نہ لگائی جائے اسی لئے ہمارے دشمنوں نے جی بھر کے ہم میں منافق پیدا کردئے ہیں۔خلافت عثمانیہ کا خاتمہ صرف دو منافقوں کے بل پر ممکن ہوا تھا۔ہم اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ بریلوی اور کسی حد تک اہلحدیث بھائیوں کے نزدیک سب سے بڑا سنی یا سلفی وہ ہے جو اپنے سوا تمام فرقوں کو کافر کہے۔تبلیغیوں کے نزدیک سب سے بڑا مسلمان وہ جو چلے لگائے۔جماعت اسلامی کے بارے میں کیا کہیں وہ تو Chosen people of God ہیں ان کے یہاں منافق گھس ہی نہیں سکتا!حالانکہ کے اب جماعت اپنی تاسیس کے مقابلے میں بہت زیادہ زوال یافتہ ہو چکی ہے۔ناقدین کو جماعت سے باہر کا راستہ دکھلایا جا رہا ہے ۔آج کل ماضی کو بھلانے کی باتیں بھی خوب ہو رہی ہیں ماضی دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو بھلا دیا جانا چاہئے اور دوسرا وہ جس سے سبق حاصل کرکے غور وفکر کرکے مستقبل کی راہیں طے کی جانی چاہئے ۔
ہماری حتمی درخواست اکابرین ملت سے صرف اتنی ہے کہ پہاڑجیسی قوت ارادی کے ساتھ مولانا توقیر رضا صاحب نے جو قدم اٹھایا ہے اپنے اور بیگانوں کی جو مخالفت مول لی ہے اسے رائگاں نہ جانے دیجئے ۔دشمن تاک میں ہے آپ کی مومنانہ فراست اسے ناکام کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137 

0 comments:

ترکش مارا خدنگ آخریں

ممتاز میر ۔ برہانپور

۵معلوم نہیں انسانوں کو یہ و ہم کیوں ہو جا تا ہے کہ ان کے بغیر اس دنیا کا کاروبار بطریق احسن چل ہی نہیں سکتا ۔اس دنیا مین ازل سے ابدتک کا سب سے اچھا حکمراں حضرت عمر فاروقؓ تھے جس کادور حکومت مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی دیکھنے کے متمنی ہیں۔لیکن ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھوں نے بھی کاروبار حکومت اپنے ساتھیوں کے مشورے سے ہی چلایاصرف ایک واقعہ تاریخ میں عراق کی زمینوں کا ایسا ملتا ہے جس میں وہ ایک طرف اور تمام صحابہء کرامؓدوسری طرف تھے دونوں ہی قرآن کی آیات سے اپنی بات ثابت کرتے تھے۔یہ بحث تین دن تک چلی۔بالآخر صحابہء کرامؓ نے حضرت عمر کی دلیل کو تسلیم کر لیا۔مگر ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردگان دلیل نہیں حکم دیتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے قریب ترین ساتھی جناب احمد داؤد اوغلو جنھیں ترکی کی خارجہ پالیسی کا معمار سمجھا جاتا ہے پچھلے دنوں ترکی کی وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو چکے ہیں۔جناب احمد داؤد اوغلو رجب طیب اردگان اور اور عبداللہ گل کے ساتھ AKP کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ہیں۔جناب عبداللہ گل ترکی کے سابق صدر تھے۔اس کے علاوہ انھوں نے اس وقت ترکی کی وزارت عظمیٰ اور پارٹی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھایا جب رجب طیب اردگان جیل میں تھے۔رجب طیب اردگان جب جیل سے باہر آئے تو عبداللہ گل نے ان کے لئے ترکی کا تخت خالی کیا۔اردگان وزیر اعظم بنے اور گل کو صدر بنایا گیا ۔مگر پھر گل کی خیر خواہانہ تنقید اردگان کی پیشانی پر بل ڈالنے لگی۔ان کی معیاد صدارت ختم ہوتے ہی انھیںnowhere کر دیا گیا۔آج پھر معمولی اختلافات اور خیر خواہانہ تنقید کی بنا پر اوغلو کو nowhere کیاجا رہا ہے۔ہم اس سے پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ Power Corrupts. Absolute Power curropts absolutly جناب رجب طیب اردگان Absolute Power کی تلاش میں ہیں اور اسی لئے صدارتی طرز حکومت کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔حیرت ہے کہ ان جیسا غیر معمولی دانشور کیا ہٹلر کے انجام سے بے خبر ہے۔سراب کے پیچھے اس دوڑ میں ان کا جو بھی انجام ہو ہمیں اس سے دلچسپی نہیں۔ہم ترکی کے انجام سے ڈرتے ہیں۔ہمارے لئے ترکی فی الوقت ’’ترکش مارا خدنگ آخریں‘‘ہے۔کل تک اسی جگہ ایران تھا۔مگر وہ تو دن بدن طاقتور ہو رہا ہے اور امت مسلمہ دن بدن کمزور۔عالم اسلام میں موجود ہم جیسے لوگ ہر ابھرنے والے سورج کو بڑی امید سے دیکھتے ہیں اور جب وہ سورج غروب ہوتا ہے تو اپنے آپ کو یتیم محسوس کرتے ہیں۔ہم گذشتہ ایک دہائی سے رجب طیب اردگان کے بڑے مداح ہیں۔مگر گذشتہ تین چار سالوں کے دوران ان کے خلاف کئی مضامین لکھ چکے ہیں ۔ہم نہیں چاہتے کہ ان کا سورج بھی غروب ہو جائے۔صحابہء کرام نے تو حضرت ابو بکر صدیقؓ و حضرت عمرؓ کو تلوار سے سیدھا رکھنے کا عندیہ دیا تھا ۔آج کے زمانے کے مطابق ہم اپنے ممدوح کو قلم سے سیدھا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم اکثر و بیشتر ترکی کے اخبارات پڑھتے ہیں۔ذیل میں ہم وہ باتیں درج کر رہے ہیں جو رجب طیب اردگان اور احمد داؤد اوغلو میں اختلافات کا سبب بنیں۔
(۱)وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو چاہتے تھے کہ دسمبر ۲۰۱۳ میں جن وزراء پر کرپشن کے الزامات آئے تھے وہ سپریم کورٹ میں جا کر اپنی بریت ثابت کریں۔مگر اردگان کے نزدیک اس کی کوئی ضرورت نہیں۔کیا اس سے یہ شبہ نہیں ہوتا کہ دال میں کچھ کالا ہے؟(۲)نیشنل انٹیلی جنس آرگنائزیشنMITکے سربراہ حاکن فدان نے جون ۲۰۱۵ میں احمد داؤد اوغلو کی اجازت سے انتخاب لڑنے کے لئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔یہ بات اردگان کو پسند نہ آئی اور انھیں جبراً اپنے عہدے پر واپس جانے کے لئے مجبور کردیا گیا ۔ہمارے نزدیک بھی یہی مناسب تھا ۔حاکن اپنی فیلڈ میں حد درجہ پیشہ ور ہیں۔(۳)گزشتہ انتخابات جون ۱۵ اور نومبر ۱۵ میں فہرست امیدواران بھی تنازعے کا سبب بنی اور بالآخر سب کواردگان کی پسند کے سامنے سر جھکانا پڑا۔(۴)بنالی یلدرم،جو کہ اردگان کے قریب ہیں ان کی وجہ سے بھی انتخابات میں فہرست امیدواران کا تنازعہ کھڑا ہوا تھا کیونکہ اردگان اوغلو کی جگہ یلدرم کو اہمیت دے رہے تھے۔(۵)داؤد اوغلو جون ۱۵ کے الیکشن کے بعد coalition گورنمنٹ بنانا چاہ رہے تھے مگر اردگان نئے انتخابات کے حق میں تھے اب اوغلو کے استعفے کے بعد سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار ایک بار پھرنئے انتخابات کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں ۔ایک سال وقفے میں تین انتخابات ترکی جیسے ملک کی معیشت کے لئے کیا اچھی بات ہے؟(۶)بنالی یلدرم اور بیرات البیرک[اردگان کا داماد]ان دونوں کو اردگان کی خواہش کے خلاف نئی کابینہ میں گھسایا گیا ۔(۷)سابق ڈپٹی پرائم منسٹر بلند ارنک کی اوغلو سے قربت اوغلو اور اردگان کے مشیران کے درمیان رسہ کشی کی وجہ بن گئی۔(۸)یہ بھی خیال کیا جا رہا تھا کہ داؤد اوغلو صدارتی طرز حکومت کی مناسب طریقے پر اشاعت نہیں کر رہے ہیں ۔مبصرین نے ان کے تعلق سے یہ تک کہا کہ اگر انھوں نے صدارتی طرز حکومت کی حمایت کی تو وہ خود کی نفی کر رہے ہونگے۔(۹)داؤد اوغلو نیا دستور جلد سے جلدتیار کر لینا چاہتے تھے مگر اردگان کی مداخلت پر اس عمل کو دھیما کرنا پڑا(۱۰)اردگان نے اوغلو کی اس تحریک پر سخت رد عمل کا اظہار کیا کہ سیاستدانوں جائداد اور انتخابی اخراجات کو شفافTransparent ہونا چاہئے(۱۱)داؤد اوغلو نے طویل عرصے تکHDPممبران پارلیمنٹ سے تحفظImmunity ہٹانے کے لئے کوئی اقدام نہ کیا جبکہ اردگان اس مسئلے پر بیانات پر بیانات دے رہے تھے۔(۱۲) غیر قانونی کردستان ورکرس پارٹیPKK کے تعلق سے اوغلو کا موقف تھا کہ اگر پارٹی مئی ۲۰۱۳کے اپنے موقف پر واپس آجاتی ہے تو پھر اس سے ہر مسئلے پر مذاکرات ممکن ہے مگر اردگان کے نزدیک کردش مسئلے کا حل صرف فوج ہی ہے۔(۱۳)بنیادی طور پر اوغلو ان زیر حراست معلمین کے خلاف کیس چلانے کے خلاف تھے جنھوں نے ملک کے جنوب مشرق میں فوجی کاروائیوں کے خلاف ایک پٹیشن پر دستخط کئے تھے جبکہ اردگان ان کے خلاف سخت بیانات دے رہے تھے۔(۱۴) انتخابات کے بعداوغلو نے ایک سرکیولر جاری کیا تھا جسمیں ایسے نازک معاملات کو ٹھنڈے بستے میں ڈالا گیا تھا جس میں معاشی افسران اور گورنرس ملوث ہوں مگر یہ حکم بھی اردگان کی مداخلت پر واپس لینا پڑا۔(۱۵)کم حریت اخبار کے دو صحافی دنڈر اور گل کی رہائی بھی اوغلو اور اردگان کے درمیان وجہ اختلاف بنی(۱۶)احمد داؤد اوغلو کی امریکی صدر اوبامہ اور نائب صدر جو بائڈن سے ہونے والی ملاقات بھی اسلئے ملتوی کر دی گئی کہ اس کی وجہ سے ترکی کے صدارتی محل کو کچھ پریشانی تھی۔(۱۷)ترکی کی حکمراں پارٹی کے انتظامی بورڈ نے ۲۹۔اپریل کوداؤد اوغلو کا ضلعی اور ریاستی سربراہ مقرر کرنے کا اختیار ختم کردیا تھا اور یہ رجب طیب اردگان کے ایماء پر ہوا تھا ۔اور شاید یہی بات اوغلو کی وزارت عظمیٰ کے لئے آخری کیل ثابت ہوئی۔
اب ان تمام وجوہات کو دیکھ جائیے کیا یہ ایسی ہیں جن پر افہام و تفہیم نا ممکن تھی۔کیا ان کے لئے احمد داؤد اوغلو کو استعفیٰ دینا چاہئے تھا۔مگر رجب طیب اردگان کی بلا شرکت غیرے اقتدار کا مزہ لوٹنے کی خواہش absolute Powerحاصل کرنے کے غلبے نے پہلے عبداللہ گل اور اب احمد داؤد اوغلو کو ان سے دور کروایا۔انہی لوگوں کے ساتھ مل کر انھوں نے AKP کی بنیاد رکھی تھی ۔ایسا لگتا ہے کہ ان کے نزدیک AKPاب ناقابل تسخیر بن چکی ہے۔اب انھیں ان ساتھیوں کی ضرورت نہیں جو سیدھا راستہ دکھائیں ۔اب انھیں ان کی شہنشاہیت کے گن گان کرنے والے چمچوں کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردگان کی انٹیلیجنس لیول ،قوت فیصلہ ،عالمی حالات کا فہم بہادری و بیباکی نہایت غیر معمولی ہے۔مگر ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ازل سے ابد تک کا کامل ترین انسانﷺبھی اپنے ساتھیوں سے مشورے کرتے تھے اور کبھی کبھی اپنی ذاتی رائے کے خلاف ان کے مشورے قبول بھی کرتے تھے ۔
07697376137 

0 comments:

تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۴)


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ شمارے میں مشرقی اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے معروف قصبہ چاندپٹی کے اسکول مولانا محمد علی جوہر انٹرکالج کا ذکر کیا گیا ہے جو بعض خود غرضوں اور علم دشمنوں کی وجہ سے موت و حیات کی کشمکش سے گزر کر اب پھر نئے عزم و حوصلہ، نئے اسباب و وسائل کے ساتھ نئے لوگوں کے ممکنہ تعاون سے نئی زندگی کا ثبوت پیش کرنے لگا ہے۔ اسکول کی نئی منتظمہ کمیٹی علاقہ کے چند ہونہار اور پُرعزم نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے خطرناک چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا جوش و جذبہ بھی ہے اور ایسے حالات میں علم و ہنر کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے کی اہلیت و صلاحیت بھی ہے۔ 
علم کیا ہے؟ انسان کے لیے اللہ رب العالمین کی طرف سے نایاب تحفہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل علم کے بارے میں فرمایا ہے: روئے زمین پر ان کی مثال ستاروں کے مانند ہے جن سے بحر و بر کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ اگر یہ ستارے روپوش ہوجائیں تو راستہ پانے والوں کے بھٹک جانے کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ گھٹاٹوپ تاریکیوں میں اس کی مثال نور کے مانند ہے۔ یہ خدا کا نور ہے۔ اسی لیے اس کا حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
علم ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس کا سیکھنا ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ یہ عبارت ہے عمل پیہم اور جہد مسلسل سے۔ یہ ایک اتھاہ سمندر ہے۔ غواص جتنی گہرائی میں جائے گا اتنے ہی جواہرات لے کر نکلے گا۔ یہ سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ گود سے گور تک انسان کی حیثیت طالب علم ہی کی رہتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی، ایک طالب علم کی، دوسرا طالب دنیا کی۔ حصول علم کا یہ ہمہ گیر اور جامع تصور صرف ہمارے مذہب اسلام کا ہی شانِ امتیاز ہے، اسلامی تصور علم کے مطابق انسانی زندگی کا بنیادی جوہر ہے۔ ایک مثالی سوسائٹی یا معاشرہ کی تشکیل کے لیے ہر فرد انسانی کا اس جوہر اساسی سے آراستہ ہونا نہ صرف ضروری ہی ہے بلکہ فرض قرار پایا ہے۔ 
مولانا محمد علی جوہر انٹرکالج ہو یا ملک کے دوسرے اسکول و کالج ہر ایک کا مقصد تعلیم نئی نسل کی ذہنی و فکری تربیت کرنا ہے۔ ماہرین تعلیم کا قول ہے کہ جس طرح کا معاشرہ بنانا مقصود ہو اسی کے حسب حال نظامِ تعلیم کو ڈھال دو، نئی نسل کا ذہنی و فکری رجحان خود بخود بدل جائے گا۔ اس تبدیلی سے طلبا کا طرز فکر، عقائد و نظریات، کردار کا معیار و مزاج اور تہذیبی مراسم میں تبدیلی یقیناًواقع ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ مذہب کے معاملے میں بھی نقطۂ نظر بدل جائے گا۔ اسی کے ساتھ اگر نئی نسل سے اس کی زبان چھین لی جائے جس میں اس کا ماضی محفوظ ہے تو پھر تو نئے حالات میں یہ نئی نسل نئی اقدار کے ساتھ ابھرے گی اور ماضی سے اپنا رشتہ بالکل ہی منقطع کرلے گی، اور غالب تہذیب کے سانچوں میں اپنے آپ کو ڈھالنے میں فخر محسوس کرے گی۔ اس لیے زندہ قومیں اپنی مذہبی و تہذیبی روایات اپنی نئی نسل کو منتقل کرنے کے لیے سب سے زیادہ زور نظامِ تعلیم پر دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی انفرادیت صرف اس کے مذہبی عقائد، تہذیبی روایات اور زبان پر منحصر ہے۔ اگر نئی نسل کا رشتہ ان چیزوں سے کٹ جائے یا کاٹ دیا جائے تو وہ قوم خود بخود مرجاتی ہے۔ 
حیرت کی بات ہے کہ جس قوم کی ابتدا ہی لفظ اقرا ء سے ہو وہی قوم آج سب سے پیچھے ہو، اس کے بچے ایسی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں جہاں وہ دوسروں کے عقائد و تہذیب و روایات سیکھنے اور حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ہمارے پاس وسائل و ذرائع ہونے کے باوجود بھی ایسے ادارے قائم نہیں کر پا رہے ہیں جہاں ہمارے بچے دینی و عصری تعلیمات سے بہرہ ور ہوں اور تمام تر ترقیوں کی دوڑ میں دوسروں کے شانہ بشانہ دوڑ سکیں۔ جبکہ ہمیں قدرتی طور سے مدارس و مساجد کا ایک ایسا نیٹ ورک حاصل ہے جس کے ذریعہ ہم تعلیمی دنیا میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔ مدارس اور مساجد کے کردار کے تعلق سے گزشتہ سطور میں بہت سی باتیں واضح کردی گئیں ہے کہ اگر چاہیں تو اس نیٹ ورک کے ذریعے ملک گیر مشترکہ تعلیمی نظام بھی قائم کرسکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ مدرسوں اور مسجدوں پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جو ذاتی مفاد اور خود غرضی سے آگے کچھ سوچتے ہی نہیں۔ بعض بعض جگہوں میں تو یہ ادارے ہمارے لیے نزاع اور تفرقے کا سبب بھی بنے ہوئے ہیں۔ ظا ہر ہے جب کسی قوم کا زوال ہوتا ہے تو اسے ایسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اسے ترقیوں کے بجائے تنزلیوں کے گھنے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ملتا۔ جو قوم علم کے اصل مقصد سے انحراف کرتی ہے اس کا حشر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا آج مسلمانوں کا ہے۔ جہاں کہیں کچھ لوگ معیاری دینی و عصری تعلیمی ادارے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ لوگ اسے محض اس لیے ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں منتظمہ کمیٹی کا صدر، سکریٹری یا خزانچی کا عہدہ نہیں دیا گیا اور یہ لوگ عموماً وہ ہوتے ہیں جن کا علم و ہنر سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ جہالت میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ دوسرا وہ مہذب گروپ جن کا پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ ہمارے اکثر مدارس و مساجد پر وہ علما قابض ہیں جو اپنے پاؤں وہاں جمائے رکھنے کے لیے محلہ یا علاقہ کے لوگوں میں دو گروپ بنادیتے ہیں، انہیں نہ علاقے کے لوگوں میں تعلیمی و اخلاقی زوال کی فکر ہوتی ہے نہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی۔ کیونکہ یہ زبان سے تو ضرور اللہ کو رازق، خالق و مالک مانتے ہیں لیکن دل سے نہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن سے پوری ملت جوجھ رہی ہے۔ 
آج سارے عالم میں مسلمانوں کی بربادی اور ذلت و خواری کی وجہ یہی ہے کہ علم و کردار دونوں سے ہی بے بہرہ ہوچکے ہیں اور اس کے اصل ذمہ دار ہمارے یہی نام نہاد علما ہیں۔ مسلمانوں میں جتنی جماعتیں کام کر رہی ہیں خواہ وہ سیاسی ہوں یا دینی، سب کی سب (معدودے چند افراد سے قطع نظر) مرض نفاق یعنی تضاد قول و فعل میں مبتلا ہیں۔ ان کی زبان و دل میں ادنیٰ درجہ کی بھی مطابقت نہیں ہے۔ 
ان حالات میں اب بھلا ملت کے سرمائے کا حساب کتاب کون کرے! دنیا کو دونو ں ہاتھوں سے سمیٹنے میں ہمارے یہ قائدین ملت عام دنیا پرستوں سے بھی دوقدم آگے ہیں۔ دینی ادارے اور جماعتیں ان کی آبائی جاگیریں بنتی جارہی ہیں، کسی مسلمان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان سے آمد و خرچ کے گوشوارے کی اشاعت کا مطالبہ کرے۔ ابھی حال ہی میں ملک کے معروف دینی ادارہ مدرسہ مظاہرالعلوم کا تعارفی نمبر ایک کارپوریٹ گھرانے کے اخبار نے شائع کیا جس پر لاکھوں روپے محض تشہیر میں خرچ کردیے گئے جسے ملت نے دینی تعلیم کے فروغ کی مد میں ادارے کو دیے تھے، اب ان بزرگوں سے کون پوچھے کہ امانت میں خیانت کسے کہتے ہے۔ اس طرح کا عمل صرف مدرسہ مظاہرالعلوم تک ہی محدود نہیں بلکہ دوسرے مدرسوں کا بھی ہے جو تشہیر کے سمندر میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنے مقاصد و مناصب اور غرض و غایت ہی نہیں بلکہ وحی الٰہی ’اقراء‘ کی روح کے مسخ ہوجانے کی بھی کوئی فکر نہیں رہی۔ ایسے ہی موقع پر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ: 
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات
پیڑ جس طرح اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح ایک عالم دین کی پہچان اس کے اعمال ہیں۔ وہ اپنے اچھے یا برے عمل سے ہی عوام الناس میں جانا پہچانا جائے گا اور یہ بات تو ہمارے یہ علما بھی جانتے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے ملت کے مدارس و مساجد پر قابض ہیں۔ (باقی آئندہ) 

0 comments:

اتحاد امت کے لئے توقیررضا کا دورہ دیوبند ، روشن مستقبل کی جانب ایک قدم


ہندوستان کی تاریخ میں 8 ؍مئی 2016 ایک یادگار دن مانا جائے گا۔اس لئے نہیں کہ اس دن کوئی تاریخی ہستی پیدا ہو ئی یا کوئی فتح نصیب ہوئی ۔بلکہ یہ دن اس لئے یاد رکھا جائے گا کہ اس دن ایک ’’کرامت ‘‘ ظہور پذیر ہوئی ۔وہ ’’کرامت ‘‘ہے مولانا توقیر رضا خاں صاحب کا دیوبندکا دورہ ۔یقیناًیہ ایک کرامت ہی ہے ۔یہ کرامت مئی کے دوسرے ہفتہ کے اول روز ہوئی۔ایک لمبے عرصہ سے بر صغیر میں مسلمانوں کے دو گروپ جس شدت کے ساتھ ایک دوسرے سیباہم دست و گریبان رہے ہیں ،اور جس طرح ایک فرقہ دوسرے فرقہ کے لوگوں سے سلام تک کرنے کے خلاف فتوے صادر کرتا رہا ہے۔اس تناظر میں تو اس کو کرامت ہی کہا جاسکتا ہے۔جس کافائدہ دشمنوں نے خوب اٹھایا ہے ۔لیکن مئی کا یہ تاریخی دن یقینی طور پر دشمنان اسلام و مسلمانوں کے لئے کربناک دن تھا۔باہم متحارب گروپوں میں سے ایک قدرے نظریاتی طور پرشدت پسند گروپ نے دوسرے کے دکھ میں شامل ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے اختلافات سے دشمنوں کو کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ان کا یہ کہنا کہ اب اتحاد کا وقت آگیا ہے یا یہ کہ ہمیں مسلک کی بنیاد پر کوئی لڑا نہیں سکتا۔محض ایک بیان نہیں بلکہ ایک تاریخی جملہ ہے جو تاریخ نے اپنے اوراق میں محفوظ کرلیا ہے۔یہاں ہم تھوڑا تاریخی طور پر ساڑھے تیرہ سو سال قبل پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں ۔ جب روم کی سلطنت نے حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت علیؓ کی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھانا چاہا اور امیر معاوریہؓ کو پیغام بھیجا کہ ہم علیؓ کے خلاف تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہیں ۔لیکن وہ دور قرن اول کا تھا ۔امیر معاویہ نے انتہائی سخت جملہ یعنی رومی کتے کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تونے ہماری آپسی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر علیؓ کے خلاف پیش قدمی کی تو علیؓ کی حمایت میں جو سب سے پہلے تلوار اٹھے گی وہ میری ہو گی ۔یہ ایک ایسا واضح پیغام تھا کہ پھر کئی صدیوں تک کسی کافر کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے کسی معاملہ میں کسی ایک فریق کا طرف دار بن کر مسلمانوں کو نقصان پہنچائے ۔آج بھی کم و بیش مسلم امہ کی ملکی و بین الاقوامی حالت وہی ہے کہ دشمن ان کے مسلکی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر امت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتا ہے ۔ایسے حالات میں جب کہ دہلی کے تالکٹورہ اسٹیڈیم سے وہی آواز آئی تھی اور بلند تر لہجہ میں آئی تھی کہ ’’دہشت گردی کو فروغ دینے میں وہابی اور دیوبندی پیش پیش ہیں‘‘۔جس کے بعد ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں نے کچھ زیادہ ہی متحرک رول اپنانا شروع کیا ۔جب مالیگاؤں کے مظلومین نوجوانوں کو عدلیہ نے بری کیا تو خفیہ ایجنسیوں نے تیرہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے اس گنتی کو پورا کرنا چاہا ۔اس وقت اتحاد کی بات نہیں کی جائے گی تو کب ہوگی اتحاد کی بات ۔لہٰذا مولانا توقیر رضا نے بالکل بروقت اقدام کرتے ہوئے دیوبند پہنچ کر ملت کی گھات میں بیٹھے ہوئے اس کے دشمنوں کو وہ واضح پیغام دے دیا ہے جس کی ضرورت پچھلی کئی دہائیوں سے محسوس کی جارہی تھی ۔
توقع کے عین مطابق ہی مولانا توقیر رضا کی اس پیش قدمی کو بہ اخلاص امت میں جو عزت اور توقیر بخشی گئی اور جس شان سے اس کا استقبال کیا گیا ،اس پر کسی تعجب کی کوئی گنجائش نہیں ۔کیوں کہ تقریباً ایک صدی سے بٹی اور باہم دست و گریبان امت کے دو فرقوں کو اکٹھا ہونے کا سنہری موقعہ تھا۔میں نے اس واقعہ کو ’’کرامت ‘‘کا نام دیا ہے یہ نام دراصل دہلی کے ایک صحافی ودود ساجد نے دیا ہے اور بالکل درست نام دیا ہے ۔کیوں کہ جس شدت کے ساتھ کفر کے فتوے جارے ہوتے رہے ہیں اور جس انداز سے جمعہ کے خطبہ تک میں ایک گروہ دوسرے گروہ کو مطعون کرتا رہا ہے ۔اس سے اتحاد کی صورت مضمحل ہو چلی تھی ۔ایسی صورت میں اتحاد اس وقت پیدا نہیں ہو سکتا جب تک کسی ایک گروہ کی طرف سے اخلاص کے ساتھ پیش قدمی نہ ہو ۔اور وہ پیش قدمی مولانا توقیر رضا کی ،اور بازی مار لے گئے اللہ ان کی کوشش کو کامیاب کرے،آمین۔یہ یقیناًہماری نظر میں کرامت ہے تو ہمارے دشمنوں کے لئے یہ صدمہ عظیم ہے ۔یہ دن ان کی مایوسی اور اپنی انگلیوں کے کاٹنے کا دن ہے ۔جب ان کی برسوں کی محنت اوراربوں کا سرمایہ اللہ کی ایک ہدایت سے تہس نہس ہو گیا ۔یہاں اللہ کی اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ ’’وہ اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی تدبیر کرتا ہے اور یقناً اللہ کی تدبیر کی کامیاب ہونے والی ہے ‘‘۔حالانکہ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان تو پہلے سے ہی اس پر ہے کہ اللہ کی تدبیر ہی کامیاب ہونے والی ہے ۔لیکن ایسے واقعات ہمارے ایمان میں مزید اضافہ کا سبب بنتے ہیں ۔مسلمانوں کو اس پراللہ کا جتنا شکریہ اور حمد کریں کم ہے ۔ہر زمانے میں امت کے لئے یہی واضح خطوط ہیں جن پر چل کر وہ کامیاب ہو ئی ہے ۔وہ ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا اور انتشار سے بچنا ۔
اگرچہ پچھلی دو صدیوں سے امت ایسے بحران سے گزری ہے کہ اب بہار کا کوئی جھونکا بھی اسے کسی طوفان کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے ۔وہ اپنی کسی کامیابی کو بھی دشمن کا کوئی حربہ تصور کرکے اس سے خوفزدہ ہونے لگتا ہے ۔اس کا ایمان اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہی تلاش کرتا رہتا ہے ۔یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ دشمن اس کی کامیابی کو بھی اپنے نادیدہ ہاتھوں کی کارستانی بتاکر اس کے حوصلوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔بیسویں صدی کے آخر میں اس امت کے جانثاروں نے ایک سوپر پاور کی سرخ فوج کو ایسا سرنگوں کیا کہ اس کے تار پود بکھر کر رہ گئے ۔لیکن دشمن اسے یہ باور کراتا رہا کہ ارے یہ تمہارا کارنامہ نہیں یہ تو امریکی ہتھیار اور اس کے لوجسٹک کی مدد کی وجہ سے تم نے یہ جنگ جیتی ہے گویا یہ تمہاری نہیں بلکہ امریکہ کی فتح ہے ۔لیکن اکیسویں صدی کے ابتدائی ایام میں اس نے اس دوسرے سوپر پاور کے بھی کس بل نکال دئیے کہ اس کہ صدر کو مسلم ملکوں سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے لئے مجبور ہونا پڑا ۔لیکن اب تک نہ تو امت کے دشمنوں نے اسے اتنی مہلت دی ہے کہ وہ اپنی فتح کا اعلان کرے اور نہ ہی اس کو ذہنی طور پر اتنی آزادی دی کے وہ اس جانب غور کرے کہ اس نحیف و لاغر حالت میں بھی اس سے تیس سال کے عرصہ میں دو سوپر پاور ٹکرا کر پاش پاش ہوگئے ۔شاہنواز فاروقی کہتے ہیں کہ اگر یہ کسی مغربی ملکوں نے حاصل کیا ہوتا تو اب تک اس پر کم از کم پانچ ہزاروں کتابیں شائع ہو چکی ہوتیں ۔لیکن آج ہم اتنی زیادہ ذہنی پستی کا شکار ہو گئے ہیں کہ اپنی کامرانی کو بھی تسلیم کرنے کو راضی نہیں ہیں ۔یہ دراصل دشمن کا دوسرا حربہ ہے جس کی مدد سے اس حاصل شدہ فتح کو بھی ہمارے ذہنوں سے دور کردیا ہے ۔وہ اور اس کے ایجنٹ جو ہماری صفوں میں گھسے بیٹھے ہیں وہ ہمیں یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ تم جیسے لاغر اور موجودہ سائنسی ایجادات و اختراعات سے دور قوم بھلا یہ کیسے کرسکتی ہے ۔یہ تمہارا کام ہی نہیں بلکہ یہ تو تمہارے دشمنوں کا کارنامہ ہے کہ اس نے تمہارے کاندھوں کو اپنے دشمنوں کے خاتمہ کے لئے استعمال کیا ۔ یہ دراصل ہماری ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔یہ ایمان کی کمزوری کی بھی دلیل ہے کہ ہم ہر معاملہ میں اپنے دشمنوں کو ہی ہاتھ تلاش کرتے ہیں ۔گویا کہ اللہ تعالیٰ نئے کائنات کا نظام انہی لوگوں کے سپرد کردیا ہے اور وہ اپنے کائنات کو منکرین حق کے حوالہ کرکے آرام کررہا ہے (نعوذ باللہ )۔
اوپر کے یہ پیراگراف میں یہ تمہید اس لئے باندھنے کی ضرورت پڑی ہے کہ موجودہ توقیر رضا کے دیوبند جا کر اظہار یکجہتی کو بھی کچھ لوگوں نے شک و شبہ کی نظر سے دیکھا اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ محض ان کی اپنے لئے جگہ کی تلا ش ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے کہ یہ ایسا ہی ہو جیسا کہ بعض احباب اس کے متعلق اظہار کررہے ہیں ۔لیکن یہ ویسا بھی تو ہو سکتا ہے جیسا کہ ہم جیسے لوگ سوچ اور سمجھ رہے ہیں ۔وہ تو دلوں کے حالات بدلنے پر بھی قادر ہے ۔تاریخ میں ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں ۔تاریخ اسلام کے اوائل کا ہی واقعہ لے لیجئے ۔حضرت عمر فاروقؓ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ یاد کرلیجئے اللہ نے ان کے دل کو پھیر کر اسلام کی تقویت کا ذریعہ نہیں بنایا ؟اس کے بھی عہد وسطیٰ میں اللہ نے تاتاریوں کے دلوں کو اسلام کی طرف نہیں موڑا ؟اور وہی لوگ جو کل تک مسلمانوں کے درپے آزار تھے آچانک وہ اس کے محافظ بن کر اٹھے اور ایک بار پھر مسلمانوں عالمی قوت بنادیا ۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ نے ملت اسلامیہ ہند کے دو سو سالہ زوال کو اتحاد امت کے ذریعہ پھر عروج میں بدلنے کا ارادہ کرلیا ہو ۔اور کون ہے جو اللہ کے ارادوں کی راہوں میں کوئی رخنہ ڈال سکے ۔جیسا کہ بعض احباب نے اسے کرامت کہا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر اللہ نے امت کی شیرازہ بندی کا ارادہا کرلیا ہے تو ہمیں مزید ایسے حیرت انگیز واقعات سننے کے لئے تیار رہنا چاہئے جو یقیناًہماری شادمانی کی وجہ بنیں گے۔ 
ہم اس کے باوجود خوش گمان ہیں کہ مولانا توقیر رضا کی مخالفت اور ان سے توبہ کا مطالبہ شروع ہو چکا ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ کوئی نیک کام یونہی نہیں شروع ہو جاتا اور نہ ہی اس کو اس وقت تک کامیابی ملتی ہے جب تک کہ اس کی مخالفت نہیں کی جائے ۔اس کے نقیب کو پریشان نہ کیا جائے ۔عوامی طور پر اس کا ناطقہ بند نہ کیا جائے ۔کیوں کہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے دشمن اس کی تشہیر میں مدد کرتا ہے ۔ اس کی جتنی زیادہ مخالفت ہو گی توقیر رضا کی کاوش کو اتنی ہی مقبولیت ملے گی ۔اس لئے ہمیں اس سے گھبرا نے اور خوفزدہ ہونے کے بجائے اللہ سے دعا ہو نا چاہئے کہ وہ امت کی گرتی ہوئی ساکھ کو اس تحاد کے ذریعہ بحال کردے جس کی تڑپ ہر اس دل میں ہے جو امت کی درماندگی سے آزردہ خاطر رہتا ہے ۔
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں 

نہال صغیر۔ بلاد آدم ۔ ضلع ویشالی ۔ بہار:843105۔ موبائل :9987309013 

0 comments:

نسلوں کی تربیت اور کامیابی میں زبان اور تاریخ کا کردار

عمر فراہی

روسی مصنف حمزہ رسول کی کتاب " میرا داغستان" کے حوالے سے کسی نے بہت خوبصورت تبصرہ پیش کیا ہے کہ ایک بار حمزہ رسول ایک گاؤں سے گذر رہے تھے تو دیکھا کہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والی دو قبائیلی عورتیں آپس میں جھگڑااور تکرار کر رہی ہیں - اسی تکرار کے دوران ایک عورت نے دوسری عورت کو بد دعا دیا کہ جا "اللہ تیرے بچوں کو اس انسان سے محروم کر دے جو انہیں ان کی زبان سکھانے والا ہے‘‘
اس کے بعد دوسری عورت کا بھی غصہ کافور ہو گیا اور پھر اس نے بھی وہی بد دعا دوسرے طریقے سے لوٹایا اور کہا کہ 
’’اللہ کرے تیرے یہاں ایک آدمی بھی ایسا نہ بچے جو تیرے بچوں کو ان کی زبان سکھا سکے‘‘ 
اپنی زبان اور تہذیب سے محبت اور اہمیت  کی یہ وہ علامت ہے جس کی جھلک غیرت مند اور خوددار قوموں کے آپسی جھگڑے اور تکرار میں بھی دکھائی دیتی ہے -ہو سکتا ہے اس واقعے کو ہم  پہاڑی اور قبائلی علاقوں کی قدیم زمانہ  تہذیب کہہ کر نظر انداز کر دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کی زبان اور تہذیب اختیار کر کے ایک قوم اصل قوم کی غلام یا اس کا مکمل حصہ  تو بن سکتی ہے لیکن اپنی ظاہری شناخت کے ساتھ اس ترقی یافتہ قوم  کا درجہ کبھی نہیں حاصل کر سکتی- لیکن خطہ ہند و پاک  میں بسنے والی مسلمان قوم تقریباً ایک صدی سے اسی مفروضے میں قید ہے کہ اس کی ترقی اور کامیابی مغربی تہذیب  اور ان کی زبان اختیار کرنے میں ہے-اس طرح اس خطے کے مسلمانوں کو یہ بھی احساس نہیں رہا کہ اس نے مغرب کی جس غیر فطری ترقی اور کامیابی کی دوڑ میں ان کی زبان و تہذیب کو اختیار کیا ہے اس کا اثر ان کی اپنی اولادوں کی سوچ اور فکر پر بھی ہوا ہے -نئی نسل یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ جب اسے سب کچھ مغرب سے عطا ہو رہا ہے تو ہمیں مصر شام اور فلسطین کی تاریخ سے کیا مطلب اور اس بات کا تذکرہ کرنے سے کیا حاصل کہ اس خطے میں کبھی اس کی اپنی سیاسی, معاشی اور معاشرتی شناخت رہی ہے -مگر جنھیں یاد ہے  وہ اپنے اسلاف  کے اس ملی و قومی تہذیبی اثاثے کو اس امید کے ساتھ ایک بوجھ کی طرح ڈھو رہے ہیں کہ شاید اس راستے سے کوئی قافلہ گذرے اور کنویں میں دم توڑتے ہوےُ یوسف کو بادشاہ کے محل تک  پہنچا دے - مغرب کے لئے پھر بھی ان کی اپنی تہذیب اس لئے  بھی وقتی طورپر سودمند ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی اپنی سوچ اور زبان میں یکسانیت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے جبکہ خود مغرب کی اپنی مادہ پرستانہ تہذیب بھی دم توڑ رہی ہے -شاید وہ اپنا راستہ تلاش بھی کر لیں جیسا کہ تمام دہشت گردی کے منفی پروپگنڈے کے باوجود  مغرب میں اسلام تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا ہے - مگر جس فکر اور سوچ کے ساتھ ہم نے ان کی زبان اور لباس کو اختیار کیا ہے اس میں ایک نقص ہے اور اسی نقص کی وجہ سے ہم ذہنی اور مادی طورپر ان کی غلامی کے اہل تو ہو سکتے ہیں ان کی قیادت کبھی نہیں کرسکتے-اگر ہم روئے  زمین پر کچھ ممالک کی ترقی اور کامیابی کا موازنہ کریں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان جیسا ملک جو کبھی عروج کی طرف گیا بھی تو وہ مسلمانوں کا دور تھا اور  مسلم حکمراں اپنی اسلامی تاریخ کے پابند رہے ہیں-جن قوموں کی اپنی تاریخ ہوتی ہے اور جو اپنی اس تاریخ کو یاد رکھتی ہیں ان کا اپنا نصب العین ہوتا ہےاور پھر یہی نصب العین ہی قوموں کے عروج کا سبب بنتا ہے -مگر اپنی زبان اور تہذیب کو بھلا دینے والے اپنی تاریخ اور نصب العین سے بھی محروم ہو جاتے ہیں-اب آذادی کے بعد ایک بار پھر ہندوستانی قومیں اپنے عروج سے زوال کی طرف مائل ہیں تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ مسلم اور انگریزی دور حکومت  کے بعد ہندوستان کے لوگوں کی کوئی خالص قومی اور تہذیبی شناخت نہیں رہی جو انہیں ان کے نصب العین کی طرف مائل کرے -شاید یہی وجہ ہے کہ اب یہاں ہر شخص اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے مغرب کے مادی فتنے کا غلام بن چکا ہے-آر ایس ایس نے آذادی کے بعد رام مندر کے نام پر ہندوؤں کو اپنی قدیم تاریخ یاد دلا کر ایک نصب العین دینے کی کوشس تو ضرور کی ہے لیکن جب اس خطے میں ایک اللہ کی عبادت کرنے والا مسلمان مغرب کے  مادی فتنے کی زد سے نہیں بچ سکا تو سیکڑوں خداؤں کی پوجا کرنے والوں کو تو حق ہے کہ وہ مغرب  کی ترقی کو لکشمی کا جدید اوتار تسلیم کرلیں - اس کے بر عکس امریکہ جو تقریباً پندرہویں صدی میں چند ملاحوں کی کھوج کی وجہ سے وجود میں آیا اور صرف تین سو سالوں میں تاریخ کے بلند مقام پر پہنچا تو اس کی ترقی بھی یورپ کی ان  مہاجر قوموں کی وجہ سے ہو سکی جو ایک قدیم تاریخ اور تہذیب کی پابند رہی ہیں اور انہوں نے برسہا برس سے پسماندہ مقامی سیاہ فام قوموں کی تقدیر بدل دی-اسی طرح اسراںُیل 1947 میں قائم ہوتا ہے جسے قاںُم کرنے میں برطانیہ نے اہم کردار اداکیا ہے -یہ بات بھی ساری دنیا کو پتہ ہے کہ یہودی دنیا کی ایک ذہین قوم ہے-انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو رہی ہے اور اس گاؤں میں مغربی زبان و تہذیب کو ہی فوقیت حاصل ہونا ہے- وہ چاہتے تو عالمی طاقت برطانیہ اور امریکہ کو خوش کرنے کیلئے اسی طرح انگریزی کو  اسراںُیلی ریاست کی زبان قرار دے سکتے تھے جیسا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں ہوا- اور ہندوستان میں ہندی  قومی زبان کا درجہ حاصل کرکے بھی انگریزی کی غلام ہی رہی  مگر اقبال کی جو بات جاوید اقبال نہیں سمجھ سکے کہ 
خودی نہ بیچ فقیری میں نام پیدا کر
میراطریق امیری نہیں فقیری ہے 
یہودیوں نے اپنی قومی اور تہذیبی خودداری کو برقرار رکھتے ہوئے  ایک نصب العین کے تحت اپنی دو ہزار سالہ قدیم زبان عبرانی کو ہی رائج کیا اور یورپ کے سر سبز شاداب علاقوں سے ہجرت کرکے فلسطین کے ریگستانوں سے محبت ظاہر کی تو اس لئے کہ ان کے عقیدے اور کتابوں کی پیشن گوئی  کے مطابق یہ ان کے نبی اور پرکھوں کی سر زمین ہے اور پھر آرماگیڈون کے ذریعے  دنیا پر غالب ہونے کا ان کا جو عزم اور عقیدہ ہے یہ اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب یہودی دوبارہ دنیا کے ہر خطے سے ہجرت کرکے فلسطین میں آباد ہوں -بات صرف امریکہ اور اسراںُیل کی نہیں بلکہ یہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر وہ قوم اور ملک جس کا کہ دوسری قوموں پر غلبہ رہا ہے جیسے کہ روم فارس یونان اور عرب کے بعد ایک بار پھر روس فرانس برطانیہ اور چین وغیرہ نے اپنے عروج کا مرحلہ طے کیا تو اس میں ان قوموں کی اپنی زبان اور تاریخ کا اہم کردار رہا ہے - حمزہ رسول کے اس اقتباس سے زبان کے ساتھ ایک سبق اور بھی ملتا ہے کہ قوموں کی ترقی میں نسلوں کی تربیت بھی بہت اہم ہوتی ہے اور اس تربیت میں بچے کی ماں اور اس کی سوچ کا جو کردار ہوتا ہے اس کا  اثر بھی پوری قوم پر پڑتا ہے -اقبال جو کہ شروع کے حالات میں مغرب سے بہت زیادہ مرعوب تھے جب انہوں نے مغرب کو بہت قریب سے دیکھا تو انہیں یہ احساس ہوا کہ  مغربی ماؤں نے اپنی جس زبان اور تہذیب کی وجہ سے مغرب کو عروج کا راستہ دکھایا تھا بعد کی نسلوں نے اپنی انہیں بیٹیوں کو جو کل اپنے بچے کی ماں بن سکتی تھیں انہیں بازار کی زینت بنانا شروع کر دیا ہے  اور پھر انہوں نے برجستہ کہا کہ 
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی 
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار  ہوگا -
9/11 کے بعد اب یہ بات مغربی مفکرین نے بھی لکھنا اور سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ Why the west is loosing war against terror
یعنی" مغرب دہشت گردی کے خلاف جنگ کیوں ہار رہا ہے"  دوسرے لفظوں میں مغربی ماؤں کی اپنی کوکھ کا غیر محفوظ رہنا بھی ان کے مستقبل کے خاندانی ورثہ کو  تباہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا - خاندان کی تباہی قوموں کی تباہی ہے قوموں کی تباہی تہذیبوں کی تباہی ہے -تہذیبیں تباہ ہوتی ہیں تو اس قوم کی تاریخ کبھی محفوظ نہیں رہتیں اور پھر ایسی قوموں کی جدوجہد کا نصب العین اس کے سوا اور کچھ نہیں رہ جاتا کہ وہ مادی ضروریات کی تکمیل کے لئے  زمین پر فساد برپا کرے -مغرب اس وقت اسی مادی اور تہذیبی بحران سے گذر رہا ہے اور مغربی ماؤں کے پاس اپنے بچوں کو بتانے کے لئے اس کا کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے کہ عرب دنیا ان کی دشمن کیوں ہے اور ہم کیوں ان کی بستیوں کو تباہ کر رہے ہیں جبکہ عربوں کی نئی نسل کو سمجھانے کیلئے ان کی ماؤں کے پاس افغانستان سے لیکر ایران عراق لیبیا سومالیہ اور فلسطین جیسی سیکڑوں ظلم کی داستانیں ہیں - سچ تو یہ ہے کہ جب کسی قوم کی بیٹیاں بیدار ہوتی ہیں اور ان کی عصمتیں محفوظ ہوتی ہیں تو ایسی ماؤں کی کوکھ سے صلاح الدین ایوبی جیسے جانباز پیدا ہوتے ہیں -کہتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کے والد نجم الدین ایوبی نے جب اپنی شادی میں تاخیر کی تو ان کے استاد نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں امیر سلطنت کی دختر سے تمہارے نکاح کی بات کروں -نجم الدین نے کہا وہ میرے لائق نہیں ہے -میں ایک ایسی لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں جس کی کوکھ سے ایک سپہ سالار پیدا ہو اور وہ بیت المقدس کو آذاد کرائے  -اسی دوران استاد کے گھر کی چوکھٹ پر کسی نے دستک دی وہ ایک نوجوان دوشیزہ تھی-اس نے کچھ کہا تو استاد نے جواب دیا کہ میں نے تمہارے لئے ایک رشتہ بھیجا تھا تم نے اسے کیوں ٹھکرا دیا- لڑکی نے کہا وہ میرے لائق نہیں تھا- مجھے تو ایک ایسا نوجوان چاہیے جس کی اولاد کو میں تربیت دوں اور بڑا ہوکر وہ بیت المقدس کو آذاد کرائے  - نجم الدین نے دروازے کی آڑ سے یہ بات سن لی -جب وہ لڑکی رخصت ہوگئی تو نجم الدین نے استاد سے کہا مجھے یہ لڑکی پسند ہے استاد نے کہا یہ بہت ہی غریب ہے نجم الدین نے کہا لیکن اس لڑکی میں میری بیوی ہونے کی ساری صفات موجود ہے- 2012 میں مصر اور شام کی بیٹیوں نے اپنے ہاتھوں میں  ہتھکڑیاں پہن کر دنیا کو بتا دیا ہے کہ ان کا نصب العین کیا ہے - حمزہ رسول نے اپنی اسی کتاب میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ پیرس کے سفر میں وہ ایک مصور نام کے اپنے ایک ہم وطن سے ملا جس کے بارے میں اس کے خاندان کو یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے-واپسی پر جب اس نے مصور کے عزیزوں کو تلاش کیا اور مصور کی ماں سے ملا تو اسے  حیرت ہوئی کہ اس کا بیٹا زندہ ہے، مصور کے عزیز افسردہ چہروں کے ساتھ گاؤں کے ایک مکان میں اس کے اردگرد جمع اپنے اس سپوت کی کہانی سننے کے لئے جمع ہوئے  جس نے ہمیشہ کے لئے اپنا وطن چھوڑ دیا تھا ۔ مصور کے رشتہ داروں نے اس کے وطن عزیز چھوڑنے کا قصور تو معاف کر دیا تھا لیکن انہیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ ان کا کھویا ہوا بیٹا ابھی زندہ ہے۔ اچانک اس کی ماں نے حمزہ رسول سے سوال کیا کہ  ’’اس نے تم سے بات چیت تو اپنی زبان میں کی ہو گی نا‘‘  حمزہ رسول نے کہا نہیں۔ ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔ میں روسی بول رہا تھا اور آپ کا بیٹا فرانسیسی زبان میں- ماں نے یہ سنتے ہی اسی طرح اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیا جیسے کہ پہاڑی علاقوں میں مائیں اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر اپنے چہروں کو ڈھک لیتی ہیں ۔ ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا ’’ رسول تم سے غلطی ہوئی ہے میرے بیٹے کو مرے ہوئے ایک مدت بیت گئی جس سے تم ملے میرا بیٹا نہ رہا ہو گا کیونکہ میرا بیٹا اس زبان کو کبھی بھلا نہیں سکتا جو میں نے اسے سکھائی تھی"۔ذرا سوچئے  کہ ایک ماں کیلئے اپنے بیٹے کے  زندہ رہنے کی خبر خوشخبری کا باعث نہ بنی مگر جب اس نے یہ سنا کہ اس کے بیٹے نے اپنی مادری زبان کو ترک کر دیا ہے یہ خبر اس کے لئے حادثے کا سبب بن گئُی -سوال یہ ہے کہ اگر یہی واقعہ  ہندوپاک کے خطے میں مسلمان ماؤں کے ساتھ  پیش آجائے  تو کیا اس کا بھی ردعمل ایسا ہی ہوتا -شاید وہ خوش ہوکر اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرتی کہ اللہ تو بڑا مہربان اور کریم ہے کہ  تو نے میری دعا قبول کر لی اور میرا بیٹا امریکن انگلش بولنے لگا ہے-یہ حقیقت ہے اور یہی ہماری ماؤں اور بیٹیوں کی ترجیحات اور کامیابی کا تصور بن چکا ہے  جنھیں یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کیا ہیں ,ان کا نصب العین کیا ہے اور انہیں اپنی اولادوں کو کیا بنانا ہے. ...!!!

0 comments:

تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۳)


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
مضمون کا بالائی حصہ عموماً ملک کے مختلف صوبوں خصوصاً مغربی اترپردیش اور بہار کے مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کے تعلق سے تھا۔ صوبہ بہار میں تو اردو اور دینی تعلیم کے ادارے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر قائم ہیں او رکسی حد تک کام بھی کر رہے ہیں، مگر اترپردیش کا مغربی حصہ اردو زبان سے بالکل ہی محروم ہے جب کہ یہاں دارالعلوم دیوبند جیسے کئی دینی ادارے موجود ہیں۔ مغربی اترپردیش کے بعض اضلاع کے دیہی علاقوں میں خاصے مسلمان آباد ہیں لیکن افسوس کہ ان علاقوں میں ابھی تک نہ صحیح طو رپر دین ہی پہنچا اور نہ ہی اردو زبان۔ اکثر علاقوں کے مسلمانوں میں دو دو نام پائے جاتے ہیں جو حسب حال استعمال ہوتے ہیں یعنی بقول علامہ اقبال کے ’با مسلماں اللہ اللہ۔ با بر ہمن رام رام۔‘ اس صورت حال کے ذمہ دار کون ہیں، آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ 
مغربی اترپردیش سے متصل راجدھانی دہلی ہے، یہاں بھی کئی دینی و عصری تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن دہلی میں بڑھتی مسلمانوں کی آبادی خصوصاً نوآباد کالونیوں میں عصری تعلیمی اداروں کا فقدان ہے، جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں ہاں مساجد ہیں اور مساجد میں زیادہ ترناظرہ قرآن کی تعلیم ہوتی ہے۔ بہت سے علاقوں میں بڑی اور کشادہ مساجد بھی ہیں جہاں دینی و عصری تعلیمات کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ ایسی جگہوں پر اگر ہماری دینی و ملّی جماعتیں دلچسپی لیں اور وہاں کے لوگوں میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت کی ترغیب و ترہیب دیں تو انشاء اللہ یہ ایک بڑا کام ہوگا۔ مسلمانوں میں اللہ کے فضل سے کسی چیز کی کمی نہیں، اگر کمی ہے تو صرف مخلص مسلم قیادت اور نیک و صالح علما کی۔ ملت کے ہر مرض کے معالج یہی لوگ ہیں۔ ان کی حیثیت اس طبیب کی سی ہے جس کو مریض کے مرض کا پتہ ہوتا ہے۔ انہیں پتہ ہے قوم جہالت کے مرض میں مبتلا ہے، بے علم ہے، کس طرح اسے جہالت کے مرض سے اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لایا جائے۔ ہمارے مدارس او رمساجد کے علماء و ائمہ اگر صدق دل سے چاہیں تو وہ پیام اقراء کو بخوبی عام کرسکتے ہیں او راس کے حقیقی معنی و مفہوم اور اس کے تقاضوں کو عوام میں بروئے کار لاسکتے ہیں، جسے اُمت مسلمہ چودہ سو سالوں سے بھلائے بیٹھی ہے اور جس کے سبب ہی پوری دنیا میں رسوا و ذلیل ہے۔ رسوائیوں کی اس دلدل سے ہماری یہی مخلص اور محترم شخصیات ہی نکال سکیں گے، انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ قوم کا میاب و سرخرو اسی وقت ہوسکتی ہے جب وہ زیورتعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہوگی۔ آج تعلیم و تعلّم کا جو کچھ بھی شعور ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے انہی بزرگوں کی کوششوں اور محنتوں کے نتیجہ میں ہی مل رہا ہے۔ ان بزرگوں کے برعکس آج علماء کا ایک طائفہ بھی سرگرم ہے جو علم کے نام پر دین و ملت کے نام پر مسلمانوں کو ٹھگ رہا ہے۔ یہ لوگ مدارس اور مساجد کی انتظامیہ میں بھی پائے جاتے ہیں اور دینی، ملّی، سماجی اور سیاسی اداروں میں بھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے لیے گمراہی کا ہمیشہ ہی سبب بھی بنتے رہے ہیں اور ہمہ قسم کا نقصان بھی پہنچاتے رہے ہیں۔ جھوٹ اور منافقت ان کی خاص پہچان ہے۔ یہ اپنے مفاد کے لیے پوری ملت کو ایک ایسے اندھیرے میں ڈھکیل دیتے ہیں جہاں سے نکل پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ 
مدارس او رمساجد اسلام کے قلعے ہیں، یہ امت مسلمہ کے لیے روشنیوں کے ایسے ٹاور ہیں جہاں سے مسلمانان عالم زندگی کے ہر موڑ پر روشنی حاصل کرتے ہیں اور یہیں سے اپنی زندگی کے رموز اور تخلیق کائنات کے اسرار سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہ ربط باہم کے عالمی میڈیا ہیں، یہیں سے ایک دوسرے کو تسبیح کے دانے کی طرح پرونے کی ترغیب ملتی ہے۔ یہ وہ میڈیا ہیں جو دنیا کے کسی دوسری قوم کو میسر نہیں، مگر افسوس کہ ہم نے اللہ کی اس بخشی ہوئی نعمت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کے بجائے اس کی بے قدری کی انتہا ہی کرڈالی ہے۔ مسلمانوں کے محلے محلے میں یہ ٹاور موجود ہیں لیکن ان کی روشنیاں دن بہ دن نہ صرف مدھم ہی ہو رہی ہیں بلکہ جابجا بجھتی سی جارہی ہیں۔ ان علم کے چراغوں میں جب سے ہمارے مفادات اور بھانت بھانت کے اختلافات کے تیل جلنے لگے ہیں، نہ صرف آنکھوں میں جلن پیدا ہونے لگی ہے بلکہ دلوں میں کڑواہٹ اور دماغوں میں نفرت کا دھواں اٹھنے لگا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ ہمارے مدارس کے وہ ذمہ دار ہیں جن کا علم سے تو کوئی رشتہ نہیں ہوتا لیکن کسی بھی ذریعے سے دولت حاصل کرلی ہے تو وہ محض اپنی مالداری کی بنا پر مدرسہ کے کلیدی عہدہ پر قابض ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مساجد کے اکثر ائمہ کرام اپنا قدم جمائے رکھنے کے لیے محلہ یا علاقہ کے لوگو ں میں دو گروپ پیدا کرتے ہیں، اس طرح کے ائمہ اپنا حقیقی فرض نبھانے کے بجائے فروعی کاموں میں لگ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں مساجد جو مسلمانوں میں اتحاد اور اخوت باہمی کا منبع ہوا کرتی تھیں انتشار و افتراق کا سبب بننے لگی ہیں۔ اس طرح کے حالات مسلمانوں کے مختلف علاقوں میں راقم نے خود دیکھے ہیں اور شاید ایسے ہی حالات میں اور ایسے ہی امامو ں کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے کہ: 
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا جانے یہ بیچارے دو رکعت کے امام
مگر حقیقی امام ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے منصب و مقام اور ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ قیادت و سیادت اور نیابت پیغمبرانہ مقام ہے۔ یہ منبر و محراب کا امین ہے، اس کے قول و عمل میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ وہ صرف گفتار کا نہیں کردار کا غازی ہوتا ہے۔ یہ دنیا کے مادی اور پیشہ ورانہ خدمات کی طرح امامت کو محض ذریعہ معاش نہیں بلکہ اصلاح اُمت کی عظیم ذمہ داری نبھاتا ہے۔ اس کی نگہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز ہوتی ہے اور ایسے ہی کو میر کارواں بننا زیب دیتا ہے اور اب ایسے امام خال خال ہی ملیں گے، ہمیں تو نہیں لگتا کہ آج کے مادہ پرست دور میں ایسے نیک دل لوگ مل سکیں۔ لیکن ضرورت تو ہمیں ایسے ہی لوگوں کی ہے۔ تو یہ لوگ کہاں ملیں گے کیسے ملیں گے؟ ظاہر ہے یہ جاننے کے لیے علم کی ضرورت پڑے گی اور یہ علم ہمیں اپنے منبع علم و حکمت مدارس و مساجد سے ہی مل سکے گا۔ اگر آپ کے علاقے میں کوئی مدرسہ یا اسکول نہیں تو فوراً حکم اقراء پر عمل کرتے ہوئے فریضۂ مرد و زن ادا کیجیے۔ اسی صورت میں ہماری دنیا و آخرت دونوں میں بھلائی ہے۔ 
یہ بھی یاد رکھیں کہ نوجوان نسل کی اسلامی نہج پر تعلیم و تربیت ایک جامع منصوبہ کے تحت اگر ملک کے کونے کونے میں نرسری سے اعلیٰ تعلیم تک کے مسلم بچوں کے لیے تعلیمی و تدریسی سہولت فراہم کی جائے تویقیناًایک صالح انقلاب کی راہ ہموار ہوسکے گی اور امت مسلمہ کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکے گی۔ راجدھانی میں فصیل بند شہر کے علاوہ مسلمان اطراف کے علاقوں میں بڑی تعداد میں پھیل گئے ہیں، لیکن ان علاقوں میں اوکھلا کے علاوہ کوئی بڑا مرکزی تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ مشرقی دہلی (جمناپار) میں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے۔ غریب، امیر اور متوسط طبقے کے خاصے مسلمان آباد ہیں، یہاں لاتعداد مسجدیں ہیں اور ہر مسجد میں ناظرہ قرآن اور جزوی دینی تعلیم کا بندوبست ہے۔ مساجد سے الگ مدرسے بھی ہیں، مگر ان مدارس و مساجد میں بھی وہی لوگ قابض ہیں جن کے نجی مفادات ہیں۔ کوئی اجتماعی منصوبہ اور دور رس حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے عام مسلمانوں کا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر ملّی تنظیمیں آگے بڑھ کر کوئی دینی و ملّی تعلیمی مرکز قائم کرکے تمام پھیلے ہوئے مدارس کا اس سے الحاق کردیں تو یہ پورے جمناپار کے مسلمانوں پر عظیم احسان ہوگا۔ آج کے مادہ پرستی اور مفاد پرستی کے دور میں یہ کام تو بہت مشکل ہے لیکن کوشش تو کرنی ہی چاہیے۔ 
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ دینی و عصری تعلیم الگ الگ ہونے کی وجہ سے ہمارا بڑا نقصان ہوا ہے اس لیے ہمیں ہر جگہ دونوں تعلیم ایک ساتھ دینے کا انتظام کریں، اس طرح ہمارے بچوں پر بے ضرورت بھار بھی نہیں پڑے گا اور والدین بھی بھاری فیس کے بوجھ سے بچ جائیں گے۔ لیکن ہے یہ کام بہت مشکل۔ مگر ارادوں میں خلوص و نیک نیتی ہو، عزم پیہم ہو اور عمل مسلسل ہو تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ ہاں ایسے موقعوں اور ایسے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے والوں میں اپنے نما بہت نظر آنے لگتے ہیں، انہیں پہچاننے اور ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ انہی لوگوں کی دخل اندازیوں سے ہمارے بہتیرے ادارے بند پڑے ہیں۔ 
ملک کے معروف ماہر تعلیم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مرحوم سیّد حامد صاحب نے ایک دفعہ اپنے ایک مضمون میں ضلع اعظم گڑھ کے کسی گاؤں کے اسکول کا ذکر کیا تھا کہ وہاں کے لوگوں نے اسکول کے قیام کے لیے بڑے ہی جوش و جذبہ کا اظہار کیا اور اسکول کے ابتدائی مراحل تک اس کی انتظامیہ میں خاصی بڑی دلچسپی رہی، لیکن جیسے جیسے اسکول ترقیوں کے منازل طے کرتا رہا اور اس کی مالی امداد میں بھی اضافہ ہونے لگا تو علاقہ کے لوگوں میں انتظامیہ کے کلیدی عہدہ پر قبضہ کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی اور نتیجتاً اسکول بندہوگیا۔ 
حامد صاحب نے اپنے مضمون میں اسکول اور علاقے کا نام نہیں لکھا تھا، لیکن ر اقم اپنے ہی گاؤں چاند پٹی کے دو اسکولوں کے حال سے بخوبی واقف ہے۔ ایک مدرسہ جو درس گاہ اسلامی کے نام سے معروف ہے، برسوں تک ایک مثالی درس گاہ کے طور پر پورے علاقہ میں معروف تھا اور برسوں تک اسے نیک نامی بھی حاصل رہی۔ اسے انتہائی نیک اور مخلص استاذ حافظ و مولوی شفیق احمد مدظلہ اور حد درجہ نیک و صالح مولانا قمرالزماں اصلاحیؒ جیسی عظیم شخصیات کی خدمات بھی حاصل رہیں، لیکن یہ بے مثل ادارہ بھی علم دشمنوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسی طرح ایک دوسرا ادارہ چاندپٹی کے شاہراہ اور مین بازار مہراں میں مولانا محمد علی جوہر انٹرکالج کے نام سے قائم ہے۔ یہ ادارہ بھی لوگوں کی خود غرضی کے نتیجہ میں کئی بار موت و حیات کے دور سے گزر کر ایک بار پھر زندہ ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ علاقہ کے چند ہونہار نوجوانوں نے اسکول کو اس کے بانیان کے مقاصد کی تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیے ہوئے ہیں اور وہ اس کے لیے ہر ممکن کوشش میں بھی ہیں۔ نوجوانوں کی اس ٹیم کے روح رواں محترم ماسٹر عالمگیر صاحب ہیں، ماسٹر صاحب بڑے سرگرم اور پرعزم آدمی ہیں، وہ اپنے وطن سے دور رہ کر بھی ادارے کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں، اگر ان جیسے دوچار لوگ اس ملّی فریضہ کے انجام دہی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو مولانا محمد علی جوہر انٹرکالج ملک کے مایہ ناز سپوت مولانا محمد علی جوہر ہی کی طرح پورے ملک میں نمایاں مقام حاصل کرلے گا۔ او ریہ کام کوئی مشکل اس لیے نہیں کیوں کہ انتظامیہ کے لوگ مخلص ہیں، ان کے دل صاف ہیں اور یہی اوصاف اس عمارت کی بنیاد ہیں اور اسی بنیاد پر اونچی سے اونچی یہ عمارت تعمیر ہوتی رہے گی۔ اللہ ان نوجوانوں کے حوصلوں میں اضافہ کرے۔ شاید ایسے ہی نوجوانوں کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے کہ: 
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقہ کے متمول، ہمدرد اور اہل خیر حضرات کی توجہ اس طرف دلائی جائے اور عوامی طور پر بھی تحریک چلاکر اس کی اہمیت اور افادیت بتائی جائے۔ خصوصاً اللہ کا یہ حکم بھی سنایا جائے کہ ’’اے نبی! کہہ دیجیے کہ علم والے اور بے علم دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل وا لے ہی قبول کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ الزمر) 
جس وقت بھی عوام میں علم کی اہمیت اور اس کی افادیت کے تئیں بیداری پیدا ہوئی، اسکولوں کو ترقیوں کی منزلیں طے کرنے سے کوئی بھی رو نہیں سکتا۔ (باقی آئندہ) 

0 comments:

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا


ایڈوکیٹ نازیہ الہیٰ خان*

دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندستان میں مذہبی رواداری اورعدم برداشت کے حوالے سے امریکی ادارہ کی رپورٹ نے پوری دنیا کے سامنے ہمارا ننگ اجاگر کردیا ہے لیکن ہماری حکومت اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔
 امریکی کانگریس کے بااختیار امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی  کی ہندستان میں عدم برداشت میں اضافہ کی رپورٹ کو حکومت ہند نے مسترد کردیاہے حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں اس قسم کی کوئی صورتحال نہیں ہے اور اقلیتی طبقہ کے لوگ ہندستان میں محفوظ ہیں۔ہماری وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی کمیشن فار انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم ایک بار پھر ہندستان ‘ اس کے آئین اور معاشرے کو سمجھنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ ہندستان کا آئین تمام شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، جس میں مذہبی آزادی کا حق بھی شامل ہے۔
امریکی کمیشن کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 2015 میں اقلیتی فرقوں کو خوف، ظلم و ستم اور تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ ان ظلم و ستم کے پیچھے ہندو قوم پرست تنظیموں کا ہاتھ تھا پولیس کے تعصب اور عدالتی خامیوں کی وجہ سے اقلیتی برادری ہندستان میں میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگی ہے ۔ 
یہ اتنی بڑی صداقت ہے کہ اس سے ذی ہوش انکار نہیں کرسکتا مگر ہماری وزارت خارجہ کا ترجمان اسے امریکہ کی ہندستانی سماج ‘ معاشرت اورآئین سے ناواقفیت قرار دے رہاہے ۔
2014میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ملک میں وقتاً فوقتاًایسے کئی واقعات پیش آئے جن میں عدم رواداری اور تشدد کا پہلو صاف جھلکتا ہے۔ 2015میں یہ موضوع اس لیے بھی زبان زد عام ہوگیا کہ اسی کی وجہ سے ملک کے کئی ادیبوں اور فلمی شخصیات نے اپنے انعامات اور اعزازات واپس کردیئے اور اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ میڈیا اپنی تمام تر ’مودی دوستی‘ کے باجود ان واقعات کی رپورٹنگ سے خود کو نہیں روک سکا اور عالمی سطح پر ہماری جگ ہنسائی کا سامان کرگیا ۔ امریکی کانگریس کی یہ رپورٹ 2015میں ہوئے ان ہی واقعات کے منظر ‘ پس منظر اور پیش منظر کے حوالے سے ہمیں آئینہ دیکھارہی ہے کجایہ کہ ہم اس آئینہ میں دیکھ کر اپنی صورت گری کریں‘ جمہوریت کی قبا پر عدم برداشت ‘ اور مسلم دشمنی کے واقعات کا داغ دیکھیں ‘اپنے دامن تار تار کو رفو کریں ‘ہماری حکومت رپورٹ کو ہی جھٹلارہی ہے ۔ 
حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے 2014کے بعد سے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس میں خوف و ہراس ‘ تناﺅ ‘ تشدد اور بدامنی کا بول بالا ہے اور ان ہی واقعات پر مبنی ہے امریکی کانگریس کے بااختیار امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی سالانہ رپورٹ ۔ 
امریکی رپورٹ میں ہر واقعہ کا احاطہ کیاگیا ہے ‘دادری سے لے کر سنجے لیلا بھنسالی کی فلم باجی راﺅ مستانی کے خلاف ہونے والے احتجاج اور کنٹر ادیب ایم ایل گلبرگی کے قتل سے لے کر ایم بی اے گریجویٹ ذیشان علی خان کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ملازمت کا نہ ملنا ‘شیواجی کو ہندوو ¿ں کے قائد کے طور پرنہ پیش کرنے والے مہاراشٹر کے کمیونسٹ لیڈر‘ سماجی کارکن اور مصنف گووند پانسرے کا قتل ‘ہم کن کن واقعات کو جھٹلائیں گے ۔ 
کیا ہماری حکومت یہ بھی جھٹلاسکتی ہے کہ 200 افراد کے ہجوم نے ایک مسلمان خاندان کو 28 ستمبر 2015رات کو نوئیڈا کے دادری میں واقعہ بسارا گاو ںمیں حملے کا نشانہ بنایااور52 سالہ محمد اخلاق سیفی کا قتل کیا اور ان کے 22 سالہ بیٹے دانش کو بری طرح زخمی کردیا۔ اس حملے کے لیے ہجوم کو اکسانے کا کام مقامی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن کے بیٹے نے کیا تھا۔ اس مسلم خاندان پر گاو کشی کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا۔ کیا ہم اس سے بھی انکار کرسکتے ہیں کہ حیدرآباد یونیورسٹی ‘ جواہرلعل نہرویونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا ۔
کیا ہماری وزارت خارجہ اس واقعہ سے بھی انکاری ہے کہ نومبر 2015میں قومی راجدھانی نئی دہلی میں تقسیم انعامات کے ایک جلسہ میں عامر خان نے ’بڑھتی عدم رواداری‘ کا تذکرہ کیا اور کہا کہ انہوں نے اس کا احساس پچھلے چھ سے آٹھ مہینے میں یہ زیادہ محسوس کیا۔ اس کے جواب میں کچھ عناصر نے عامر خان کے خلاف تھپڑ مارنے کی مہم شروع اور حقیقی دنیا میں اس کی عدم تکمیل دیکھتے ہوئے ایک ویب سائٹ کی تخلیق کی گئی جہاں لوگ اپنی نفرت کے اظہار یا تفریح کےلئے عامر خان کو آن لائن تھپڑ مارسکتے ہیں۔
کیا مودی حکومت بالی ووڈ کے مشہور اداکار شاہ رخ خان کی جانب سے ملک میں بڑھتی عدم رواداری پر تشویش کا اظہار کرنے کے بعدا ن کے خلاف بننے والی مسموم فضا اور ہونے والے تشدد کے واقعات کو بھی جھٹلاسکتی ہے ۔
جس ملک میں شراب، تمباکو پر پابندی عائد کرنی ضروری ہے وہاں مذہبی رواداری کو پیروں تلے روند کر بیف پر پابندی کو ہی اپنی کارکردگی کا طرہ امتیاز سمجھا گیا ہو‘ مختلف ریاستوں میں اس کے خلاف قانون بنائے گئے ہو‘ جہاں گائے نہ بیچ پانے والے غریب کسان کو روٹی کیلئے اپنی بیٹی بیچنی پڑرہی ہو وہاں ایسے ہی ہولناک واقعات جنم لیں گے جس سے عالمی برادری میں ہمارا سر شرم سے جھک جائے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت آئین میں دی گئی شخصی مذہبی آزادی اور حقوق کی ضمانت ہندستان کے ہرشہری کو مہیا کرائیں ۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا 
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا 


*ایڈوکیٹ کلکتہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف انڈیا
چیئرپرسن 
فورم فارآرٹی آئی ایکٹ اینڈ انٹی کرپشن 
0موبائل:-9831187939
ای میل :forumforrti@gmail.com

0 comments:

تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۲)


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
 
(گزشتہ سے پیوستہ)
مضمون کے پہلے حصے میں نام نہاد دینی مدارس اور سرکاری و پرائیویٹ ہندی و انگلش میڈیم اسکولوں کے بارے میں مختصراً اظہار خیال کیا گیا ہے۔ یہ تعلیمی ادارے اب تقریباً سبھی، ملک کی سب سے بڑی فاشسٹ تنظیم آرایس ایس کے زیراثر آچکے ہیں، جہاں عموماً راشٹریہ سیویم سیوک کے فکر و نظریات کی تبلیغ و تعلیم ہونے لگی ہے۔ خود آرایس ایس کے تعلیمی اداروں کا ملک بھر میں جال بچھا ہوا ہے، مختلف تنظیموں اور اداروں کے ناموں سے یہ ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں میں جو خاص چیزیں پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں وہ ودیابھارتی کی سنسکرت، گیان ورک بک، سنسکار، جیسے کہ پرارتھنا، بندے ماترم، سوریہ نمسکار، والدین کے پاؤں چھونا وغیرہ سکھایا جاتا ہے۔ اب اگر ان اسکولوں میں مسلم بچے تعلیم حاصل کریں گے تو ظاہر ہے ان کا ایمان و عقیدہ جاتا رہے گا اور وہ نام کے تو مسلمان ہوں گے لیکن اپنی فکر و خیال میں آرایس ایس کے پیدا کردہ شردھالو ہی ہوں گے۔ 
سوچئے ذرا، جب ہمارے بچے ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے تو کیا چند ہی برسوں میں ان کے دل و دماغ میں توحید و شرک، پیغمبر و اوتار، عقیدہ و آخرت اور عقیدہ تناسخ کا فرق قائم رہ سکے گا؟ انہیں ہندو تہواروں، جینتیاں، دیوس اور ان کی تقریبات اور رسم و رواج کے بارے میں تو ضرور جانکاری ہوگی مگر اپنے مقدس دنوں اور پُرنور راتوں کا کوئی علم نہ ہوگا۔ انہیں برہما، وشنو، مہیش اور گنیش کی مہیما، کئی کئی دیومالی کہانیاں تو ازبر ہوں گی مگر صحابہ کرام کے مجاہدانہ کارناموں کا علم تو خیر کیا ہوگا ان کے ناموں تک کا بھی پتہ نہ ہوگا۔ بندے ماترم جیسے مشرکانہ گیت کے بول تو ان کے ذہن میں ہوں گے مگر کسی حمد و نعت کا ایک لفظ عرصہ تک کبھی ان کے لبوں پر نہ آیا ہوگا، آئے بھی تو کیسے، نہ گھروں میں ماحول، نہ بستی میں فضا، ملت کی ریڑھ کی ہڈی ابتدائی دینی تعلیم ہے۔ اپنا اسکول نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں بیسک تعلیم میں پوجا سکھائی جاتی ہے، تو یہیں سے ہمارے عقیدے اور ایمان کی نسل کشی شروع ہوجاتی ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ ہندوتوا اور مغربی تہذیبوں کی لعنت سے بچنے کے لیے کیا ہم اپنے بچوں کو پڑھانا ہی چھوڑ دیں؟ کیا انہیں جاہل ہی رہنے دیں؟ جبکہ جہالت تو خود ایک بڑی لعنت ہے۔ ضرورت ہے جہاں جہاں مسلمانوں کے دینی و عصری تعلیمی ادارے قائم ہیں انہی کی طرح اپنے علاقوں میں بھی دینی و عصری اداروں کا قیام عمل میں لے آئیں، جہاں کے نصاب میں ہر بچہ کے لیے قرآن و دینیات اور اردو لازمی سبجیکٹ ہو، تاکہ ان اسکولوں سے جب ہمارے بچے فارغ ہوکر نکلیں تو وہ آج کے زمانے کے جدید تقاضوں کے ساتھ دین کے تقاضوں کو بھی سمجھنے اور انہیں پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں۔ 
بچوں کے لیے دینی تعلیم کس قدر ضروری ہے اسے پروفیسر وصی احمد صدیقی کی زبان سے سنیے: 
’’بچوں کی دینی تعلیم تو ان کی زندگی کے لیے اور ان کی زندگی کی عمارت کے لیے ’خشتِ اول‘ ہوتی ہے۔ اس وقت مزاج بنتا ہے۔ پھر تو ساری عمر فکر معاش میں گزرتی ہے۔ نہ معلوم کتنے ایسے ہوتے ہیں جن کو بعد میں نہ عصری تعلیم ملتی ہے نہ دینی۔ بچپن میں جو سیکھ گئے سیکھ گئے، جو پاگئے پاگئے۔ ہمارے قدیم نظام تعلیم سے انسانیت کی خدمت، معاشرے کی اصلاح، شرافت، ایثار اور خدا سے تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جدید مغربی نظام تعلیم سے پیسے کی ہوس، فحاشی، عریانیت اور خود غرضی کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں آج کل جو خوف ہے خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اس کی زیادہ تر ذمہ داری جدید مغربی نظام تعلیم پر ہے۔‘‘ (مقصود انور، کلکتہ کے مضمون اصلاح معاشرہ کا نقطۂ آغاز ’اقرا‘ سے ماخوذ) 
بے شک ہمارے دینی مدارس ہماری تاریخ کا روشن باب اور ہمارا نہایت قیمتی تہذیبی ورثہ ہیں، بلکہ انہوں نے اسلام کے ابدی پیغام کو زندہ رکھنے اور ملت کا باہمی، روحانی و فکری رابطہ و تعلق کو برقرار رکھنے میں بھی ایک کلیدی کردار انجام دیا ہے۔ آج عقیدہ و فکر اور تہذیب و اخلاق کے میدانوں میں جو کچھ اسلامی اثرات نظر آتے ہیں انہیں کی بدولت ہیں او راس حقیقت کا انکار کوئی مخالف بھی نہیں کرسکتا۔ 
کچھ پیچھے کی طرف لوٹ کر جائزہ لیجیے تو یہ صاف نظر آجائے گا۔ تقریباً چھ صدیوں سے اسلامی تہذیب و علم اپنے اثرات کا دائرہ سمیٹتے جارہے ہیں اور اگرچہ ابھی زمانہ قریب تک مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود قائم رہا ہے لیکن ان کی تہذیبی اقدامیت بہت پہلے کند ہوچکی تھی، ایسے حالات میں یہ دینی مدارس ہی تھے جنہوں نے ملت کا رشتہ اپنے دین و علم اور اپنی تہذیب و ثقافت سے برقرار رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ 
آج ضرورت ہے ان دینی اداروں کو مستحکم اور فعال ہونے کی، کیوں کہ علم دین بہت بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کسی کسی کو سرفراز کرتا ہے۔ لیکن اس علم کی جتنی ناقدری خود علماء کے ہاتھوں ہو رہی ہے وہ بہت ہی افسوس ناک اور شرمناک ہے۔ کچھ قدیم اور مشہور دینی درس گاہیں تو پہلے سے قائم تھیں اور بہت سی نئی درس گاہیں کھل گئی ہیں۔ قدیم مشہور درس گاہوں میں پہلے قلیل تعداد میں طلبا کو نہایت محنت و عرق ریزی سے تعلیم و تربیت دی جاتی تھی جس کے نتیجے میں ان میں پاکیزہ کردار، ژرف نگاہی، کشادہ ذہنی اور گہرا علم و شعور پیدا ہوتا تھا اور وہ وہاں سے نکل کر پختہ کردار، غیرت مندی اور بالغ نظری کے ساتھ دین و علم دین کی روشنی پھیلاتے تھے۔ اب سارا دھیان کوالٹی کے بجائے کوانٹیٹی پر یعنی طلبا کی تعداد پر ہے۔ ہزارہا طلبا کی بھیڑ ہو یا قلیل تعداد، دونوں صورتوں میں مدرسہ کے حاضری رجسٹر میں ان کا وجود ہونا چاہیے۔ اس صورت میں نہ ان کی ڈھنگ سے تعلیم ہوتی ہے اور نہ ہی تربیت۔ پھر انہیں ناپختہ کاروں کو بڑی فیاضی سے ڈگریاں دے دی جاتی ہیں اور وہ جب میدان عمل میں قدم رکھتے ہیں تو بیشتر اپنی بے مائیگی، علمی بے بضاعتی، تنگ نظری، کج فہمی اور کردار کی ناپختگی کی وجہ سے علم دین کی روشنی پھیلانے کے بجائے نمونۂ عبرت بن جاتے ہیں۔ صحیح معنوں میں نہ انہیں دین کا علم ہوتا ہے نہ دنیا کا۔ اس لیے وہ کوئی مفید کام کر ہی نہیں سکتے۔ زیادہ سے زیادہ انہیں یہی نظر آتا ہے کہ کوئی نیا مدرسہ کھول لیں اور وقت کے تقاضوں اور کثیر اخراجات کی فراہمی کے لیے ہر جگہ دوڑ دھوپ کرلیں۔ (اس میں بہتیرے صرف رسید ہی سے کام لیتے ہیں مدرسہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا)۔ اس طرح وہ خود بھی اور علم دین کو بھی صاحب خیر کے آگے سرنگوں کرتے رہتے ہیں کیوں کہ ان کی خوشامد کے بغیر فنڈ کی فراہمی ممکن ہی نہیں۔ بہرحال اس تعلق سے ایک سبق آموز واقعہ پیش خدمت ہے کہ حضرت حسن بصری ؒ ایک مرتبہ کوفہ کے گورنر ابن ہبیرہ کے دروازے کے سامنے سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ علماء دروازے پر موجود ہیں۔ آپ نے فرمایا: 
’’یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟ خدا کی قسم تمہاری یہ مجلس نیکوکاروں کی مجلس نہیں ہے۔ یہاں سے منتشر ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ تمہاری روحوں اور جسموں کو منتشر کرے، تم نے اپنے احساسات کو پامال کرلیا ہے، تم نے علماء کو رسوا کردیا ہے، خدا تمہیں رسوا کرے، خدا کی قسم اگر تم ان لوگوں کے مال و دولت سے بے نیازی اختیار کرتے تو انہیں تمہارے علم و دین میں کشش محسوس ہوتی، لیکن تمہیں تو ان کے مال و دولت میں کشش محسوس ہو رہی ہے، اس لیے انہیں تمہارے علم دین میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ 
مذکورہ بالا واقعہ یقیناًہم سب کے لیے باعث عبرت ہے کیوں کہ زکوٰۃ و خیرات و صدقات کی وصولیابی کی ذمہ داری صرف علماء و سفرائے مدارس کی ہی نہیں ہے، ملت کے اصحاب خیر کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دینی اداروں کی مدد کے لیے کوئی باعزت طریقہ اپنائیں او راپنا فریضہ سمجھ کر خود اپنے ذرائع سے انہیں مدد پہنچائیں۔ آخر زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کے لیے کیا یہی ایک صورت ہے کہ مدرسوں کے سفرا، لائن لگاتے پھریں۔ خود ادا کرنے والوں کی کوئی ذمہ د اری نہیں بنتی؟ اہل خیر حضرات کے خود بڑھ کر اس امدادی کام میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے ہی آج سارے نام نہاد ادارے قائم ہوگئے ہیں، جس کے نتیجے میں ملت کی بہت بڑی رقم غلط جگہ پہنچ جاتی ہے اور مستحق ادارے وافراد محروم رہ جاتے ہیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ علاقائی طور پر جس طرح قربانی کی کھالیں ایک اجتماعی نظم کے تحت جمع کی جاتی ہیں اور کسی مستحق ادارے تک پہنچادی جاتی ہیں، اسی طرح خیرات و زکوٰۃ کی رقوم کا بھی اہتمام ہوتا۔ (باقی آئندہ) 

0 comments:

سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے آج میدیا کے نام مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے۔

پریس ریلیز
سرینگر ؍۳ مئی ۲۰۱۶ء ؁
سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے آج میدیا کے نام مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے۔
کشمیر سول سوسائٹی (Civil Society) عوامی خدمت کیلئے اہم رول ادا کر سکتی ہے: سوز
’’جرمن سفیر مارٹن نیے(Martin Ney) نے کل شام میری رہائش گاہ پر مجھ سے ایک مختصر مگر جامع ملاقات کی ۔ملاقات کے دوران جو باتیں ہوئی ان سے میرا یہ احساس پھر سے میرے ذہن میں اجاگر کیا کہ کشمیر سول سوسائٹی معاشرے کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمت سے ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
خیالات کا تبادلہ کرتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسائل کے ساتھ بہتر طریقے سے نمٹنے کے لئے مدد کر سکتے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ عام حالات میں ہمیں ہر ایک چیزکیلئے حکومت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔میں مثال کے طور پر صرف دو شعبوں پر سول سوسائٹی کی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔
مسٹر مارٹن نیے (Martin Ney )اپنے آپ میں ماہر تو نہیں ہیں مگر ان کو یقین ہے کہ باغبانی میں جرمن تجربے سے کشمیر کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً جرمن سیب بڑے ، رنگین اور رسیلے ہوتے ہیں اور فی ایکر پیداوار بھی وہاں بہت زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے سیب چھوٹے ، کم رنگ والے اور کم رسیلے ہیں۔ پھر ہمارے یہاں گریڈنگ نہیں ہے جس سے میوہ صنعت کو نقصان ہی ہوتا ہے۔
ہمارا ہارٹیکلچر شعبہ جرمنی سے کافی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں جگہ جگہ جرمنی اپیل کلینک (Apple Clinic) قائم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ جہاں ہارٹیکلچر صنعت سے وابستہ لوگ میوے کے درخت لگانے ، انکی نشونما، دوا پاشی کے استعمال کی پوری جانکاری حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں ،میں یہ کہنا چاہوں گا کہ سول سوسائٹی کو اس امر پر غور کرنا چاہئے کہ اگر ہم پڑھے لکھے ، کم سے کم پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں جرمنی بھیجیں اور وہ ہارٹیکلچر کی صنعت میں موجودہ زمانے کی پیش رفت کا تجربہ کریں تو وہ ہارٹیکلچر صنعت کو کشمیر میں خاصا بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ اس طرح ہم پڑے لکھے مگر بے روزگار نوجوانوں میں اس صنعت سے وابستہ ہونے کی تحریک پیدا کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت یہ حالت ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نوجوان ہارٹیکلچر صنعت کے ساتھ وابستہ نہیں ہونا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ بے کار بیٹھے ہیں۔ وہ ہر حالت میں یاتو سرکاری نوکری چاہتے ہیں ، جو دستیاب نہیں ہے یا کسی ایسی نوکری کو پانا چاہتے ہیں جس میں اُن کو کرسی ملے اور وہ قلم کا استعمال کریں۔ اگر سول سوسائٹی متوجہ ہوتی ہے تو ہم مستقبل قریب میں نوجوانوں کو ہارٹیکلچر صنعت سے وابستہ کر کے میوے اگانے، باغات میں میوہ چننے ، گریڈنگ اور پیکنگ سے متعلق نوجوانوں کو جانکاری دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اس طرح میوے کی صنعت کو بھی فائدہ ہوگا اور نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم ہوگا۔
اس سلسلے میں ، میں سول سوسائٹی سے مودبانہ درخواست کروں گا کہ وہ اپنا دائرہ بڑھائیں اور صحافیوں کو بھی اپنے ساتھ ملائیں اور میری تجویز پر بھی غور کریں۔
میرا خیال ہے کہ یہ کام ہوسکتا ہے اور ہم کو ایسا کرنا چاہئے۔ یہ خاکسار بھی کچھ تعاون دے سکتا ہے۔ ‘‘
بلال نذرہ انچارج پبلسٹی

0 comments:

ابابیلوں کا انتظار کیوں؟

وحید الظفر خان 
Masood Mahal, Diggi Road, Civil Lines, Aligarh - 202002
Tel.: 09258130100
---------------------------------


تقریباً پندرہ سو سال گزرے جب قرآن پاک نے سب سے پہلے واضح طور پر سورۂ فیل میں فائٹر پلین اور مزائیل کا Concept اس دنیا کو دیا تھا۔ کچھ قوموں نے اس واقعہ کو معجزہ سمجھا اور کچھ قوموں نے آسمانی ہدایت کی عملی تلقین کی تحریک۔
المیہ یہ ہے کہ جو قوم قرآن پاک کو کتاب ہدایت کہتی رہی ہے مگر ہدایت کے حصول کے لے جس شعور و ادراک کے استعمال کی ضرورت ہے اس سے آج تک محروم ہے۔ ایسی قوم کسی طرح ہدایت پر عمل پیرا ہوکر استفادہ کرتی جو ہدایت کو معجزہ کہہ کر اس کی افادیت سے کنارہ کش ہوچکی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قرآن پاک کسی مخصوص قوم کے لیے ہدایت کا منبع نہیں بلکہ تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لیے سرچشمۂ بصیرت و ہدایت ہے۔ ساری کائنات ، ساری مخلوقات اور ساری انسانیت اللہ کی ہے۔ اس نے وضاحت کردی ہے کہ دنیا میں جس عقل و شعور سے انسانی اختیارات کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے وہ پوری طرح ودیعت کردی گئی ہے۔ جو قوم ان ہدایات سے استفادہ کرتی ہے اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرسکتی ہے۔ اس ضمن میں سورۂ فیل میں ابابیلوں کے ذریعہ طاغوتی طاقت کو تہس نہس کردینے کی تفصیل کسی تعارف کی محتاج نہیں، لیکن جس قوم کو اس واقعہ سے سبق لے کر کبرونخوت کا سرکچلنا تھا اسی قوم نے خود کو عاجز سمجھا اور پورے واقعہ کو معجزہ سمجھ کر خود کو لاتعلق کرلیا۔ قرآن پاک مستقل طور پر مطالبہ ہی نہیں تقاضا کرتا ہے کہ اس کی علامات پر غور و فکر کیا جائے۔ کیوں کیا جائے تاکہ سمجھا جائے۔ کیوں سمجھا جائے تاکہ عمل کی تحریک پیدا ہو۔ قرآن پاک استعارات و علائم کی زبان میں بات کرتا ہے اور دعوت فکر و عمل دیتا ہے۔ غور و فکر کا مقصد عمل کے لیے حکمت عملی طے کرنا اور طریقۂ کار کا تعین کرنا ہے۔ 
سورۂ فیل مستقل طور پر قرآن پاک کا ایک اہم جزو ہے۔ جو واقعہ اس سورہ میں موجود ہے اس کی اہمیت اور حیثیت بھی دائمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کو قرآن پاک میں کیوں شامل کیا گیا ہے۔ صرف ایک تاریخی واقعہ کی حیثیت سے یا کسی معجزہ کی حیثیت سے جیسا کہ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے، اگر اس واقعہ کو آسمانی معجزہ سے منسوب کیا جائے اس بنیاد پر تاکہ قادر مطلق کی ذات میں اس کے بندوں کا یقین و ایمان مستحکم ہو تو زلزلہ، آندھی ، طوفان ، سیلاب ، آتش فشاں منجملہ کائنات ہی ایک معجزہ ہے۔ بالفرض اگر اس سورہ کو قرآن پاک میں شامل نہ بھی کیا گیا ہوتا تو کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے استناد میں کوئی کمی واقع ہوتی، ہرگز نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بے حد اہم تحریک کا حامل ہے۔ اس کا معجزہ سمجھنا مقصد خداوندی کی حکمت و ہدایت سے صریحاً بغاوت ہے اور ساتھ ہی زندگی کے پُرآشوب حالات میں اس ہدایت سے برگشتگی کی وجہ سے اس کی افادیت سے محروم اور ایک طرح سے حکم خداوندی کی نافرمانی ہے۔ اس کے برعکس جس قوم نے اس سورہ کے مفہوم کو سمجھا، عمل کیا، گویا پیرویِ رب کی اور فرماں برداری کے صلہ میں جو کامرانیاں اور کامیابیاں حاصل کیں وہ قوم ہماری نظروں سے پوشیدہ نہیں ۔ اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس سورہ کا تفصیلی جائزہ لینا ناگزیر ہے۔ 
اَلَم تَر ’’ کیا نہیں دیکھا تو نے ‘ ‘ اس سورہ کی ابتداء ہی ڈرامائی انداز سے ہوتی ہے۔ یعنی انگریزی میں (Dramatic Opening) ہے۔ جس کے تخاطب میں دیکھنے پر اصرار موجود ہے۔ گویا یہ ایک ایسا اہم واقعہ ہے جس کو نہ دیکھنا ممکن ہی نہیں۔ یہ تخاطب ہر دور کے ہر فرد ہر قوم سے براہِ راست ہے۔ ’’دیکھنا‘‘ ایک ایسا عمل ہے جو انسانی ذہن کو علم الیقین فراہم کرتا ہے 'Seeing' Seeing is believing کا Perception-Process سے گزرتا ہوا understanding تک پہنچتا ہے۔ یعنی بصارت کا عمل شعور کی وادیوں سے گزرتا ہوا فہم تک رسائی کرتا ہے۔ یہ تخاطب بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عراق پر امریکہ نے حملہ کردیا ہے۔ یا تمہیں نہیں معلوم کہ پاکستان کا ایک حصہ بنگلہ دیش بن گیا ہے۔ یعنی کسی اہم واقعہ کی اہمیت کو جتانا اور اسی پر شہادت طلب کرنا۔ قرآن پاک کے اسلوب میں عموماً نفی سے اثبات کو استحکام دیا گیاہے۔ گویا تو نے بہت غور اور توجہ سے observe کیا ہوگا کہ تیرے رب نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا تدابیر، کیا لائحہ عمل اور کیا طریق کار اپنائے۔ کیفَ فعالَ رُبّک میں ہی وہ دعوت عملی موجود ہے جو ایک تحریک پیدا کرتی ہے۔ جیسے ایک کوچ (Coach) اپنے شاگرد سے کہتا ہے ک جو میں کررہا ہوں اور جس طرح کررہا ہوں تو بھی بعینہہ اس کی تقلید کر۔ یہاں کیفَ فعال ہی سب اہم پیغام ہدایت ہے۔ غور سے دیکھ اور عمل کر، کی تحریک اپنی پوری توانائی کے ساتھ ’’کیف فعل‘‘ میں مضمر ہے۔ یعنی اصحاب فیل کی سرکشی کو کچلنے کے لیے تیرے رب نے کون سی Strategy کو اپنایا۔ اس فعل کی تدبیر کو غور سے دیکھ اور اس سے علم حاصل کر۔ وگرنہ ’’اَلَم تَر‘‘ کے ساتھ ’’کیفَ فعالَ‘‘ کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ 
یہاں اس فعل کے طریق کار کو نہ صرف غور سے دیکھنا مراد ہے بلکہ واضح طور پر اس طریق کار کو سکھانے کے لیے مخاطبہ ہے جو اصحاب فیل کی رعونت کی سرکوبی کے لیے بروئے کار لایا گیا۔ 
’’اصحاب فیل‘‘ سے مراد صرف ابرہہ یا اس کی ہاتھیوں سے مسجع طاقت ور فوج ہی نہیں یا صرف تاریخی حوالہ ہی نہیں بلکہ یہ ایک جامع علامت ہے ایک Symbolہے، نخوت و تمکنت اقتدار و حشمت ، جاہ وثروت اور تکبر و رعونت کی جس کو کچھ ڈالنا اللہ کی سنت ہے کیونکہ یہ آسمانی مشن سے بغاوت ہے۔ 
اسی طرح اس سورہ کی دوسری آیت میں بھی متوجہ کرکے غور کرنے کا مطالبہ ہے۔ ’’الم یجعل کیَدہُم فی تضلیل‘‘ کہ ہم نے کس طریقہ کار سے کس حکمت عملی کو اپنا کر اصحابِ فیل کی شاطرانہ چالوں اور شیطانی منصوبوں کی بیخ کنی کی۔ قرآن پاک کی یہی وہ معجز نگاری ہے جس میں مؤثر طریقہ پر تفصیلات کو مقید کردیا گیا ہے۔ اس لائحہ عمل کو ایک Modelیا مثال کے طور پر Emphasise کیا گیا ہے تاکہ انسان آگاہ ہوسکے کہ ایسے سنگین حالات میں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ ورنہ کیوں ضروری ہو کہ اللہ اپنے طریقِ کار کی طرف انسان کی توجہ اس قدر اصرار کے ساتھ مبذول کرے۔ 
’’کیف فعالَ‘‘ اور ’’یجعل‘‘ کا فاعل ’’رَبُّکَ‘‘ یعنی تیرا رب ہے جو اس سورہ میں اپنے سیاق و سباق اور معنی کی وسعت میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔رب صرف آب و ہوا اور غذا کی فراہمی تک محدود نہ ہوکر انسانی زندگی کی ہمہ گیر جہالت کا احاطہ کرتا ہے جس میں انسانی عقل و فراست، شعور و ادراک ، فہم و ذکاء ، امتیاز نیک و بد، تعمیر و تخریب کی صلاحیت اور تفکر و تصور کے عناصر کو سرشت کا ایک حصہ بنا کر خمیر میں شامل کردیاگیا ہے اور اس کی نگہہ داشت کی ذمہ داری بھی لی ہے۔ اس ضمن میں فرمانِ الٰہی خود توثیق کرتا ہے۔ ’’وتِلَک الامثال نضر بہا للناس لعلہم یتفکرون‘‘ انسانوں کے لیے علامات اور امثال کے ذریعہ تفکر و سوجھ بوجھ کا سا
مان مہیا کردیا گیا ہے۔ سوجھ بوجھ اور سوچ کا مادہ اس لیے دیا گیا ہے کہ انسان اپنی ہستی کی بقاء کے لے سامانِ خیر اور امن و سکون مہیا کرے جو اس میں میں فراہم کردیے گئے ہیں اور اسی طرح اپنے دفاع کے لیے اپنے دماغ سے کام لے کر ظلم و جبر کو نیست و نابود کرے۔ اسی لیے ’’کیف فعال‘‘ اور ’’یجعل‘‘ دونوں الفاظ ان تدابیر کی وضاحت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی ماہیت کو بذریعہ علم سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوا جائے۔ کیونکہ اسی طرح کی طاغوتی سرکشی کے واقعات دنیا میں پیدا ہوتے رہیں گے اور ہوتے رہتے ہیں جن سے نبردآزما ہونے کے لیے سنتِ الٰہی کی پیروی ضروری ہے۔ ابرہہ ہر دور میں زندہ رہتا ہے اور کسی نہ کسی روپ میں معصوم انسانیت کہ تہہ و بالا کرنے اور حق کو مٹانے پر آمادہ رہتا ہے۔ یہاں یعنی اس سورہ میں یہ بات زیادہ قابل غور ہے کہ اس مادی دنیا میں تکبر کی سرکوبی کے لیے مادی وسائل کا ہی سہارا لیا گیا ہے جس سے اس سورہ کی افادیت اور مقصد کا عقدہ کھلتا ہے۔ 
اگر اس واقعہ کے تذکرہ سے مراد معجزہ کا اظہار ہوتا تو قدرتِ خداوندی ابرہہ کی فوج کے تمام سپاہیوں اور ہاتھیوں کو سنگی مجسموں میں تبدیل کردیتی تاکہ ہر عہد میں لوگ عبرت حاصل کرنے کے لیے اس مقام کا مشاہدہ زندہ آنکھوں سے کرتے رہیں یا پوری فوج کو ہوا میں تحلیل کردیتی یا سب فوجی پانی بن کر زمین میں جذب ہوجاتے۔ جو انسانیت طاقت و قوت کے دائرہ عمل سے باہر ہوتا۔ یہاں جو کچھ بھی کیا گیا اس کی تقلید کے لیے انسانی ذہن کو اختیار و قدرت بھی عطا کی گئی ہے اگر وہ اس علامت کی رمز کو Decodeکرسکے تو Divine Strategy کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جس کی مزید تفصیل اس آیت میں موجود ہے۔ 
’’فارسل علیہم طیراً ابابیل‘‘ ہم نے ان کی مکارانہ چالوں کو برباد کرنے کے لیے ابابیل پرندوں کو فضا میں اڑتے ہوئے وہاں بھیجا۔ یہ منظر ہوبہو اسی طرح ہے جیسے دشمن کی فوج کو مسمار کرنے کے لیے جنگی ہوائی جہازوں کو بھیجا جاتا ہے۔ لیکن جہاز خالی نہیں جاتے بلکہ ان میں میزائیلوں اور بموں کا ذخیرہ بھی موجود رہتا ہے۔ اسی طرح ابابیلوں کے پاس بھی سجیل پتھر موجود تھے تاکہ وہ ان پتھروں کو غنیم کے لشکر پر پھینکیں۔ ’’ترمیہم بججارۃِ من سجّیل‘‘ ایک ایسے منظر کی تصویر کشی ہے جہاں دور حاضر میں فائٹر پلین کے ذریعہ بموں اور میزائلوں سے دشمن کو Strikeکیا جاتا ہو۔ یہاں ’’بججارۃِ من سجّیل‘‘بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ یہ پتھر صرف معمولی اور عام پتھر نہیں تھے بلکہ آگ میں پکے اور تپے ہوئے پتھر تھے۔ جن کی ضرب ہلاکت خیز تھی۔ جس کا واضح اشارہ انسان کی صنعت و حرفت سے ہے۔ آگ میں تپانا ایک ٹیکنالوجی (Technology) ہے جو اس مادی دنیا میں انسان کے لیے اہم ضرورت ہے۔ 
میزائل اور بم دونوں میں آگ موجود ہے اور دونوں آگ میں ہی تپا کر بنائے جاتے ہیں۔ اور غالباً آگ میں تپانے کا استعارہ ان ہی بموں اور میزائل دونوں کا انسان کے ذریعہ وجود میں آنا ہے۔ وگرنہ ’’من سجیل‘‘ کی اس آیت میں وضاحت کی ضرورت ہی نہ تھی صرف ’’حجارۃ‘‘ یعنی پتھر سے بھی مقصد پورا ہوسکتا تھا۔ ’’من سجیل‘‘ انسان کی سوچ اور شعور کو انتہائی احتیاط کے ساتھ اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہر صرف علم واقف ہے کہ لوہا زمین سے برآمد ہوتا ہے۔ جو Iron ore کہلاتا ہے جس کو بھٹیوں میں پگھلا کر آگ میں تپا کر مختلف Process سے گزارا جاتا ہے اور پھر حسب ضرورت شکلوں میں ڈھال لیا جاتا ہے۔ میزائل ، بم، کارٹریج اور دیگر آلات حرب و ضرب اسی زمین سے نکلے ہوئے اور آگ میں تپی ہوئی شکلیں ہیں۔ 
اس آیت میں ’’ترمیہم‘‘ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ یہ جواب ہے اس سوال کا جو ’’کیف فعل‘‘ میں متحرک ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ کی روح اسی لفظ میں موجود ہے اگر اس لفظ کو سورۃ سے خارج کردیا جائے تو پوری سورۃ بے معنی ہوجائے گی۔ ’’ترمیہم‘‘ ایک ایسا actionہے جس میں Speed Striking force اور Target بیک وقت موجود ہے۔ جس کے لیے ہوا یا فضا کو راستہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حج کے ارکان میں سے ایک رکن ’’رمی‘‘ کے نام سے سنتِ ابراہیم کی تقلید میں آج بھی جاری ہے۔ ’’ترمیہم ‘‘ اور ’’رمی‘‘ دونوں کا مادہ ایک ہے ۔ رمی کا مقصد بھی شیطانی طاقت کو پتھروں کی ضرب سے مضروب کرنا ہے۔ لاکھوں فرزندان توحید ہر سال اس فعل کو بڑی تن دہی کے ساتھ انجام دیتے ہیں، لیکن مقصد وہیں چھوڑ آتے ہیں۔ ابابیلوں کے ذریعہ دشمنان اسلام کی تباہی بھی ایک مستقل اشاریہ ہے کہ فضا سے بھی دشمنوں کو نیسب و نابود کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اس علامتی اشارہ کو سمجھ کر زندہ قوموں نے لوہے کی ابابیلیں اور سجیل کی میزائل اور بم بنالیے ہیں اور دنیا پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہیں۔ 
سورۂ فیل میں ’’الم تر‘‘ کا مخاطب کون ہے؟ کیا مسلم قوم نہیں اور اگر ہے تو کیا یہ تحریک اور رہنمائی نہیں کہ دنیا میں اسباب و علل کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی سے طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا جائے۔ (قرآنی تراجم میں ’’الم تر‘‘ کا مخاطب عموماً رسول کو بنایا گیا ہے۔ حالاں کہ رسول کی بعثت اس واقعہ کے بعد ہوئی ہے۔ حقیقتاً قرآن رسول کے لیے نہیں بلکہ رسول کے ذریعہ انسانوں کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ 
اس سورہ کی پہلی آیت میں تہدیدی انداز اختیار کرتے ہوئے رب نے دفاع کے طریقِ کار پر غور و فکر کرنے پر بندوں کی توجہ مبذول کی ہے جس کو Thinking Process سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ 
دوسری آیت میں طاغوتی منصوبوں کو تاراج کرنے کے لیے جس حکمت عملی کو اختیار کیا گیا ہے اس کی وضاحت موجود ہے جس کو Planning کہا جاتا ہے۔
تیسری آیت میں جس جنگی حکمت عملی کی صراحت کی گئی تھی۔ اس پر عملی اقدام کیا گیا ہے جسے جنگی اصطلاح میں Action کہتے ہیں۔ یہاں Striking Force کو ابابیلوں اور Lethal Magazine کو حجارۃ من سجیل کے ذریعہ نمایاں کیا گیا ہے۔ 
آخری اور چوتھی آیت میں کبرو نخوت کے نشہ میں خدائی طاقت سے مبارزت طلب کرنے کے نتائج کو واضح کیا گیا ہے۔ جو مکمل تباہی کے سوا کچھ بھی نہی۔ 
علامہ اقبال نے اس سورہ کی روح کو اس شعر میں نمایاں کیا ہے۔ 
دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
دین ملانی سبیل اللہ فساد
یہ سورہ انسان کو فکر یعنی غورو خوض، اس کے بعد تدبیر یعنی حکمت عملی تیار کرنا اور جہاد یعنی پوری کوشش اور توانائی کے ساتھ عمل کرنے کا پورا طریق کار سکھاتی ہے۔ اقبال کے شعر کا مصرعہ اولیٰ اس کی تفسیر ہے۔ دورِ حاضر کی تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ جو دین مسلم ہونا چاہیے تھا اور جو اللہ کی سنت بھی ہے اس کو کافر نے اپنا دین یعنی محکم عقیدہ سمجھا اور اس پر عمل پیرا ہوکر سرفراز ہے۔ برعکس جو دین کا دعویٰ کرتے ہیں وہ فکر، تدبیر اور جہاد کی برکتوں سے محروم ہے۔ سنت ابراہیمی کی طرح سورۂ فیل اک عملی تمثیل کے روپ میں سنت الٰہی بن کر ابھرتی ہے اور ’’کیف فعل‘‘ کی تقلید پر پورے اصرار کے ساتھ آمادہ کرتی ہے۔ تاکہ انسان خود مکتفی ہوسکے اور ابابیلوں کا انتظار نہ کرے۔ 
Attachments area

0 comments:

امین کھنڈوانی مرحوم:جن کی پوری زندگی قوم کی خدمت سے عبارت ہے

آج کی تکنیکی انقلاب کی دنیا میں آپ کو کسی بھی جانکاری کی ضرورت ہو تو سیدھے انٹر نیٹ پر گوگل کے سرچ انجن کا سہارا لیتے ہیں ۔امین کھنڈوانی کے انتقال کے بعد ان کے لئے سمیع قریشی کے ذریعہ لکھے گئے ایک فیچر کے لئے مرحوم کے فوٹو کی ضرورت تھی ۔میں نے گوگل کی مدد لینے کی کوشش کی لیکن بڑی مشکل سے اس نے مجھے صرف تین تصاویر دکھائیں جس میں سے ایک کسی تقریب کی ہے جہاں وہ ربن کاٹ کر اس کا افتتاح کررہے تھے ۔دوسری تصویر شاید ان کے گھر کی تھی جس میں چند لوگ ان کے گرد بیٹھے تھے اور وہ خود کسی گہری سوچ میں گردن جھکائے بیٹھے تھے ۔شاید کسی قومی معاملہ میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش میں تھے ۔یہ دیکھ کر سمیع قریشی کی تحریر کا وہ جملہ یاد آگیا جس میں سمیع قریشی نے لکھا ہے کہ ممبئی فساد پر پولس نے ان پر بھی اقدام قتل اور فساد پھیلانے کا مقدمہ بنایا تھا اور وہ آخری وقت تک کورٹ کے چکر لگاتے رہے۔بقول سمیع قریشی انہوں نے کہا کہ آپ اس وقت مقتدر ہیں سیاسی دباؤ کا استعمال کرکے خود کو مقدمہ سے الگ کروالیں ۔اس پر انہوں نے کہا کہ ہاں بھائی میں ایسا کرسکتا ہوں لیکن میری قوم کے جو لوگ مقدمات کا سامنا کررہے ہیں ان کا کیا ہوگا ۔میں مقدمہ لڑوں گا اور پولس والوں کو عدالت سے قصور وار ٹھہراؤں گا ،افسوس کہ وہ آزاد ہندوستان کی اس کڑوی سچائی کو دل میں لئے چلے گئے کہ اب یہاں انصاف نہیں ہوتا بلکہ آستھا اور اجتماعی ضمیر کی بنیاد پر فیصلے تھوپے جاتے ہیں۔امین کھنڈوانی کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ایماندار تھے ایماندار آدمی بیباک بھی ہوتا ہے ۔اس لئے انہوں نے کبھی اس سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔وہ خواہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے موقعہ پر سنگینوں کے سائے میں مسلمانوں کی دادرسی ہو یا مسلمانوں پرفائرنگ کے لئے پولس کے اٹھے ہاتھ کو نیچے کرکے اسے فائرنگ سے باز رکھنا یا میئر کی کی کرسی کی قربانی دے کر ’’وندے ماترم ‘‘ کی مخالفت کرنا ہو ۔یہ ان ہی کا حصہ تھا اور ان ہی کے ساتھ ختم بھی ہو گیا ۔شاید اسی لئے وہ ایک خاص امیج کے ساتھ ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلمانوں کے دلوں میں خوشبو کی طرح بسے رہیں گے۔جس کا تذکرہ کئی لوگوں نے ان کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
؂ میں فضاؤں میں بکھر جاؤں گا خوشبو بن کر رنگ ہوگا نہ بدن ہوگا نہ چہرا ہوگا
عام طور پر شخصیات پر نہیں لکھا کرتا لیکن امین کھنڈوانی مرحوم کے بارے میں نہیں لکھنا خیانت ہوگی۔میری عادت ہے کہ نہ کسی کے کہنے پر میں کسی کو اچھا اور نہ ہی کسی کے کہنے پر اسے برا مان لیتا ہوں ۔بلکہ اللہ نے عقل و دماغ عطا کیا ہے جو رب کریم کا بہت بڑا احسان ہے ۔اس سے تحقیق کرتا ہوں ۔پھر فیصلہ کرتا ہوں ۔ایسا ہی میں نے امین کھنڈوانی کے بارے میں کیا ۔ایک شخص کے سوا کسی نے ان کے بارے میں کسی شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا ۔اس ایک شخص نے جس نے شبہ کا اظہار کیا تھاوہ کیوں کیا تھا اس کا تذکرہ بھی آگے آئے گا ۔ایک شخص جو کہ ایک اردو ہفتہ روزہ کا مالک و مدیر ہے کے بارے میں ممبئی میں دسیوں لوگ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ وہ بلیک میلر ہے ۔وہ لوگوں کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں لکھ کر ان سے رقم اینٹھتا ہے ۔یہ سن سن کر میں بور ہو چکا تھا ۔ایک دن اسی طرح بات چلی مجھے بہت غصہ آیا کہ چلو آج اس کی تحقیق کرکے اس کا قصہ ہی پاک کردیتے ہیں ۔اس کے لئے میں نے کم از کم بیس لوگوں سے فون پر دریافت کیا کہ ذرا بتائیں کہ فلاں شخص کیا بلیک میلر ہے ۔اگر ہے تو آپ سے اس نے کتنے پیسے لئے یا کبھی پیسے کا مطالبہ کیا ؟لیکن ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو یہ کہتا کہ ہاں اس نے مجھ سے رقم مانگے یا میں نے اسے اتنی رقم دی ۔سب افواہ اور سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانے کا کام کررہے تھے ۔اور اس کو بدنام کرنے میں لوگوں کی دلچسپی اس لئے تھی کہ وہ شخص کسی مروت کے بغیر قوم میں جعلی قیادت اور مذہبی ٹھیکے داروں کے خلاف اعلان جہاد کئے ہوئے تھا بلکہ اب بھی ہے ۔اور ایسے لوگوں کو ٹھکانے لگانے کا اس سے بہتر اور کیا حربہ ہو سکتا ہے کہ اسے بدنام کرو تاکہ اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہ دے ۔ایک مشہور روزنامہ کے منیجنگ ایڈیٹر سے بھی میں نے ہفتہ روزہ کے مالک و مدیر کے تعلق سے تفتیش کی انہوں نے کھلے لفظوں میں اور صاف صاف بتایا کہ اردو اخباروں کی اگر کسی نے لاج بچائی ہے تو وہ صرف وہی ہے جو کسی ڈر خوف اور لالچ کے بغیر لکھتا ہے ۔
بہر حال ہفتہ روزہ کے مدیر و مالک کی باتیں تو برسبیل تذکرہ آگئی تھیں۔اسی طرح میں نے امین کھنڈوانی کے تعلق سے معلومات حاصل کیں ۔چونکہ میں ممبئی میں نو وارد ہوں ۔اور یہاں آتے ہی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ مایوس کیا وہ ہے یہاں کے مسلمانوں کی زبوں حالی بظاہر تو یہاں کا مسلمان ہندوستان میں سب سے زیادہ معاشی طور پر مضبوط ہے ۔لیکن سیاسی اور معاشرتی طور پر بہت پسماندہ ہے ۔اس کی وجہ مجھے قدم قدم پر جعلی سیاسی اور مذہبی قیادت کی لائن میں نظر آئی ۔ایسے میں امین کھنڈوانی جو ایک عرصہ سے صاحب فراش تھے اور قوم نے اس کو یوں فراموش کردیا جیسے انہیں جیتے جی ہی مردہ سمجھ لیا حالانکہ سمیع قریشی کے مطابق وہ ضعیفی میں بھی اتنے ہی متحرک تھے جتنے جوانی میں ۔کوئی بھی کسی بھی وقت ان سے مل سکتا تھا اور اپنے مسائل کے بارے میں گفتگو کرسکتا تھا ۔وہ بنفس نفیس اس میں دلچسپی لیتے تھے ۔میں زیادہ نہیں لکھوں گا کیوں کہ سمیع قریشی نے اس کا حق ادا کردیا ہے ۔اردو اخباروں نے بھی ان کے انتقال کی خبر کو کوریج دیا اور بہتر انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ان میں روزنامہ سہا را اور روز نامہ صحافت میں سب سے بہتر کوریج تھا ۔سہارا نے ذرا تفصیل سے ان کی خدمات اور کارنامے کو کور کیا ۔جبکہ روزنامہ ہندوستان جو غالبا ہندوستان کا سب سے پرانا اخبار ہے اس نے صرف ابو عاصم اعظمی کے بیان کو شائع کرنے تک ہی محدود رکھا ۔روزنامہ انقلاب نے اندرونی صفحات میں جگہ دی لیکن اس نے ایک سابق ایم ایل اے کا مضمون شائع کرکے اس کمی کو پورا کردیا ۔
جیسا کہ شروع میں بیان کیا کہ لوگوں سے امین کھنڈوانی کے بارے میں معلومات لیتے ہوئے ایک مشہور شخصیت نے کہا کہ وہ آدمی تو بھلے تھے لیکن ان کی تعریف فلاں سابق ایم ایل اے نے کی جو ٹھیک نہیں اس لئے وہ مشکوک ہیں ۔لیکن ان سے سوال کرنے پر کہ کیا کسی برے آدمی کا اچھے انسان کی تعریف کردینا اس کو مشکوک بنادیتا ہے ؟انہوں نے اپنی بات واپس لے لی اور کہا کہ نہیں میں تو مذاق کررہا تھا ۔بہرحال اس قحط الرجال میں جبکہ ملت میں مخلصین ڈھونڈے نہیں ملتے امین کھنڈوانی کا انتقال امت کا حقیقی خسارہ ہے ۔یقین جانئے بقیہ سیاسی لیڈر اور بعض سیاسی عالم کے کے انتقال پر لوگوں کا افسوس عام طور پر منافقانہ ہوتا ہے ۔لیکن امین کھنڈوانی جیسے لوگوں کے بارے میں لوگ حقیقی محبت سے مغلوب ہو کر ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی اس دارفانی سے کوچ کرگیا ۔آخر ایساکیوں نہ ہو کہ ایسے دور میں جبکہ مسلم لیڈر شپ مسلمانوں کے نام پر کروڑ پتی اور ارب پتی بن رہے ہیں اور بے چاری قوم دلتوں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی۔لیکن اسی دور میں امین کھنڈوانی جیسا صاف ستھرے شبیہ کا شخص بھی آتا ہے جو اپنی سیاست کو قوم و ملک کی خدمت کا ذریعہ بناتا ہے ۔وہ حقیقی معنوں میں کسی پارٹی کا نمائندہ نہ ہو کر پارٹی میں رہ کر قوم کا نمائندہ بنتا ہے ۔مرحوم امین کھنڈوانی کی زندگی میں سبق بھی ہے ان مسلم لیڈروں کے لئے جو اپنے آپ کو قوم کا نمائندہ تو قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی پارٹی کے چشم و ابرو پر نظر رکھتے ہیں اور وہی کام کرتے ہیں جو ان کی پارٹی کی پسند ہو یا اس کے مفاد میں ہو ۔جس کی انہیں قیمت بھی ادا کی جاتی ہے ۔اور مسلمانوں کا مفاد تو کہیں دور چھوٹ جاتا ہے۔ابھی حال ہی میں کسی نے سوشل میڈیا پرکسی کا ایک مختصر قول نقل کیا ہے۔جو ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کے حقیقی کردار کی طرف اشارہ کرتا ہے ’’سیاسی بریانی میں مسلمانوں کا کردار کسی گرم مسالے کا ہو تا ہے ،جو پکاتے وقت تو بہت ضروری ہوتا ہے،لیکن کھاتے وقت نکال کر پھینک دیا جاتا ہے ‘‘۔یاد آیا اس پر مبارک کاپڑی نے بھی ایک ڈرامہ لکھا تھا جو بہت مناسب تھا ۔
اوپر میں نے گوگل پر مرحوم امین کھنڈوانی کی تصویر کے بارے میں لکھا تھا ۔ان کی صرف تین تصویر ملی وہ بھی دھندلی ۔لیکن ان کی شخصیت اتنی صاف و شفاف رہی کہ وہ بھلائے نہیں جاسکیں گے۔لیکن ان کے ہی آس پاس ایسے لیڈروں کی تصویر سیاسی ایوانوں میں سلامی داغتے ہوئے سینکڑوں مل جائیں گی ۔جو ہمارے اردو اخبارات کی دین ہیں جنہوں نے ان کے ان کہے بیانات اور نادیدہ مطالبات پر ان کے فرضی بیانات شائع کرکے قوم کے سر پر بٹھا دیا ۔آج کے یہ جعلی قیادت کی تصویریں تو گوگل پر محفوظ ضرور ہو جائیں گی جس کی مدد سے ان کے چیلے چانٹے برسی اور سالگرہ منا کر ان کی یاد کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے لیکن میرا دعویٰ ہے کہ وہ کسی کے دل میں کسی کی دعائے نیم شب میں کبھی نہیں رہیں گے ۔انہوں نے دنیا کمانے کی حرص میں سیاست کے ایوانوں میں قدم رکھا تھا۔سو دنیا ان کو مل گئی لیکن آخرت میں شاید انہیں کوئی حصہ نہ ملے ۔دوسری طرف امین کھنڈوانی جیسی عبقری شخصیت کو گرچہ اردو صحافت یا عوام میں وہ جگہ نہ ملے پھر بھی جن لوگوں کے دلوں میں وہ رہیں گے وہ ان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے رہیں ۔یہی انسان کا مرنے کے بعد سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے کہ لوگ جانے انجانے میں اس کے لئے دعا گو رہیں ۔کوئی ان کو یاد کرے تو اس سے پہلے یہ کہے کہ اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے ۔ مجھے تاریخ اسلام سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔یہ دور فاروقی تھا جب ایران فتح ہو اتھا ۔اور اسی کے ساتھ یہ طے ہو گیا تھا کہ صرف عرب ہی نہیں اب دنیا کا مستقبل صرف مسلمان ہی طے کریں گے ۔فتح کی خبر لے ایک قاصد مدینہ دربار خلافت میں خوش خبری سنانے آرہا تھا ۔حضرت عمرؓ اس دوران کافی فکر مند تھے کئی دنوں سے محاذ جنگ سے کوئی خبر نہیں آئی تھی ۔وہ بے چینی کے عالم میں مدینہ سے باہر نکل جاتے اور قاصد کا انتظار کرتے ایک دن ایک قاصد آتا ہو انظر آیا ۔وہ سواری پر ہی رہا اور حضرت عمرؓ اس سے فتح کی خوش خبری سننے کے بعد محاذ جنگ کی ایک ایک تفصیل معلوم کرتے جاتے تھے ۔انہوں نے نام لے لے کر پوچھا ۔قاصد نے کسی کے شہادت کی خبر دی اور کسی کے زخمی ہونے کی اور پھر قاصد نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ ان میں بعض ایسے بھی تھے جنہیں نہ آپ جانتے ہیں اور نہ ہم لیکن انہیں وہ بخوبی جانتا ہے جس کے لئے انہوں نے اپنی جان دی ہے ۔قوموں کی تاریخ میں سنہرے ابواب کا اضافہ ایسے ہی لوگوں سے ہوتا ہے جو قوم کی عمارت کے بنیاد کی اینٹ بن کر اس کی مضبوطی کا سبب بنتے ہیں ۔اب دور تک کھنڈوانی صاحب جیسا خادم قوم تنہائی پسند اور نام و نمود سے کوسوں دور کہیں نظر نہیں آتا ۔
آخر میں اس روزنامہ میں چھپے سابق ایم ایل اے کا امین کھنڈوانی پر مضمون کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔بلا شبہ انہوں نے کھنڈوانی صاحب کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔انہوں نے بھی وہی کچھ بیان کیا ہے جو اپنے مضمون میں سمیع قریشی نے پیش کیا ہے ۔انہوں نے سیاسی لیڈروں اور نوجوانوں کے لئے امین کھنڈوانی کو بہترین مثال کے طور پر پیش کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’ان کی زندگی کے چند اصولوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے اور میں ان کا گرویدہ بن کر رہ گیا ہوں ۔سب سے اہم بات یہ کہ وہ جس عہد پر فائز رہے انہوں نے ہمیشہ اس عہدے کے وقار کو قائم رکھا ‘‘۔کسی کے کسی شخصیت سے متاثر ہونے کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے اصولوں کو اپنی زندگی میں اتارے ۔یہ صاحب ان سے متاثر بھی ہیں ان کے گرویدہ بھی لیکن ان کے اصولوں کا ان کی زندگی میں کہیں عمل دخل نظر نہیں آتا ۔بھلا یہ کیسی گرویدگی ہے ؟ لیکن بہر حال مضمون نگار نے حوصلے سے کام لیتے ہوئے کم از کم سچائی بیان کرنے کی تو کوشش کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں ’’میں بڑے وثوق اور پوری ذمے داری سے کہہ سکتا ہوں کہ مرحوم امین کھنڈوانی جیسا ایماندار ،مخلص ،دیانتدار،پاک و صاف اور بے داغ شبیہ کا شخص اب موجودہ سیاست میں ملنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے‘‘۔کتنا سچ لکھا ہے لیکن کاش کہ وہ بھی سچائی کا ادراک کرپاتے اور اپنے آپ کو انہی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے صرف تقریر و تحریر سے قوموں کی تقدیر نہیں بدلا کرتی ! اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے خلوص و ایثار کے ساتھ سچے جذبہ کی جو ہم میں اکثر لوگوں میں نہیں ہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور قوم کو ا ن سے بہتر ،مخلص اور ایماندار رہنما عطا کرے ،آمین ۔شاید ایسے لوگوں کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا کہ
؂ ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں بہت چراغ جلاؤگے روشنی کے لئے ۔
نہال صغیر۔

0 comments: