کمل ہاسن کی فلم ’وشوروپم ‘ممبئی کا مسلمان اور جنوبی ہند کی مسلم قیادت
کمل ہاسن کی فلم ’وشوروپم ‘ممبئی کا مسلمان اور جنوبی ہند کی مسلم قیادت
مجھے فلموں سے یا اس میں پیدا ہونے والے تنازعات سے کبھی بھی زیادہ دلچسپی نہیں رہی لیکن حالیہ ریلیز ہونے والی کمل ہاسن کی فلم ’’وشو روپم ‘‘ کے بارے میں سن کر پھر اس کے کچھ سین کو ٹریلر کی صورت میں دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ اس سلسلے میں بے اعتنائی اور شتر مرغ کا ریت میں سردیناایک جیسا ہے ۔فلموں کو ہماری مذہبی قیادت خلاف شرع مانتی ہے ماننے کی وجہ بھی ہے لیکن محض اتنا کہہ دینے سے بات نہیں بننے والی ۔آخر ہمارے معاشرے کا آج جوبرا حال ہے اس میں فلم کا کم وبیش اسی فیصد سے زیادہ حصہ ہے ۔مسلمانوں کے خلاف بننے والی منفی رائے عامہ بھی اسی فلم کی وجہ سے ہے ۔موجودہ فلم میں جو کچھ دکھایا گیا ہے اس پر جن لوگوں نے بھی اعتراض کیا ہے وہ با لکل درست ہے ۔لوگوں نے الزام لگایا کہ بغیر دیکھے ہی ہنگامہ مچایا گیا ۔تو کیا فلم کو ریلیز ہونے کے بعد اس پر اعتراض کیا جاتا ۔جب تک اس پر بات ہوتی فلم ہفتوں سنیما ہالوں میں لاکھوں لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کر چکی ہوتی۔آخر سات گھنٹوں کی طویل میٹنگ کے بعد کمل ہاسن کو فلم میں سے قابل اعتراض مکالموں اور سین کو ہٹانے پر سمجھوتہ کرنا ہی پڑا۔
فلم وشو روپم کا تنازعہ بہت حد تک حل ہو چکا ہے اور عنقریب یہ فلم تمل ناڈ میں ریلیز ہو جائے گی ۔اس فلمی تنازعہ میں ایک بات قابل غور ہے کہ اس میں چنئی کے مسلمانوں کو کئی خامیاں نظر آئیں جس کا اظہار انہوں نے مختلف طریقوں سے کیا ۔نتیجہ سامنے ہے کہ حکومت بھی جھکی اور کمل ہاسن جو کہ بلیک میلنگ کرنے پر اتارو تھے اور انہوں نے ملک چھوڑنے تک کی دھمکی دے ڈالی تھی ان کا بھی رویہ ڈھیلا پڑا ۔لیکن اسی فلم کو ممبئی اور مہاراشٹر کے نام نہاد مسلم لیڈروں نے دیکھ کر کلین چٹ دیدی ۔اب عوام اس تذبذب میں ہیں کہ ایک ہی فلم پورے ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے قابل اعتراض ہے لیکن وہی فلم ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلم لیڈروں کیلئے قابل قبول ۔آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ممبئی کے چند نام نہاد مسلم لیڈروں نے اسے کلین چٹ دیدی ۔ممبئی کی مسلم لیڈر شپ بے دین ہے یا زیادہ روادار یا جنوبی ہند کی مسلم لیڈر شپ زیادہ مذہبی یا غیر روادار اور دقیانوس۔ممبئی ایک عرصہ ہوا کہ مسلمانوں کے تعلق سے لا تعلق ہو چکی ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب یہاں مخلص ملی قیادت نہیں ہیں ۔جو لوگ مسلم لیڈر شپ کا بذعم خود دعویٰ کرتے ہیں ۔ان کی حقیقت کئی بار اخبارات کی زینت بن چکی ہے ۔آئے دن مسلم لیڈروں کا ڈیلیگشن وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سے ملتا ہے کچھ رسمی باتیں مسلمانوں کے تعلق سے انتہائی معذرت خواہانہ اور خوشامدانہ انداز میں چند معروضات پیش کرنا اور بس ۔چلتے وقت وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سے انہیں لیڈروں میں سے اکثر اپنے ذاتی کاموں کی لسٹ سونپ دیتا ہے ۔اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی اہمیت سیاست دانوں کی نظر میں کیا ہے ۔کھل کے کہا جائے تو اسے ایسا کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ قوم کا سہارا لیکر کانگریسی لیڈروں اور دیگر سیاست دانوں کے تلوے چاٹنے کو ہی اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔یہ تماشہ پچھلے بیس بائیس سالوں سے جاری ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ممبئی اور مہاراشٹر میں جن لوگوں نے بھی اپنی جان و مال کی قیمت پر قوم کی عزت و ناموس کی فکر کی ان شیروں کو خاموش کیا جا چکا ہے ۔اب یہاں کی مسلم سیاست پر مردہ خور گِدھوں کا قبضہ ہے جو ملت کے مردہ ہونے کا انتظام بھی کرتے ہیں اور انتظار بھی ۔اب یہاں وہ لوگ مسلم سیاست پر قابض ہیں جو شیر کی ایک دن کی زندگی نہیں گیدڑ کی سو سالہ زندگی کے خواہش مند ہیں ۔
پورے ملک میں میٹرو شہروں میں مجھے دو ہی شہر مسلمانوں کی عزت و وقار کی علامت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والے نظر آتے ہیں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر نہیں کرتے ہیں ۔ایک کلکتہ اور دوسرے حید رآباد ۔دہلی اور ممبئی کے مسلمانوں سے غیرت اور حمیت رخصت ہو چکی ہے ۔اسی لئے ان دونوں شہروں میں رشدی آتا ہے اپنی شیطانی شکل اور سوچ کے ساتھ مسلمانوں کا منھ چڑاکر چلاجاتا ہے ۔تسلیمہ جیسی بدکار اور دریدہ دہن آتی ہے پناہ لیتی ہے حکومت اسے پناہ دیتی ہے اور صرف پناہ ہی نہیں دیتی بلکہ مسلمانوں کو ان کی اوقات بتلانے کیلئے ساری سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔مسلمان محض لاچار و مجبور دیکھتا اور خاموش رہ کر اپنی ذلت و رسوائی کا تماشہ دیکھتا ہے ۔ایسا کیوں نہ ہو کہ ممبئی میں بیس سال پہلے ایک مسلم لیڈر کو قتل کر دیا گیا ۔مسلمان نہ صرف خاموش رہے بلکہ بعض میر جعفروں اور میر صادقوں نے ان کے قتل میں رول بھی ادا کیا ۔قاتل آیا قتل کرکے چلاگیا ۔بڑے آرام سے اسے کسی نے پکڑنے کی کوشش نہیں کی ۔مسلم علاقوں میں کوئی سنسنی نہیں پھیلی کچھ ملت کے بہی خواہوں نے ضرور دوڑ دھوپ اور کفن دفن میں حصہ لیا انکے خوابوں کی جگہ میں انہیں دفن کر دیا گیا ۔وہی جگہ جو آج بھی ممبئی میں مسلمانوں کی واحد منظور شدہ پاش کالونی ہے جہاں ایک شاندار مسجد بھی ہے ۔ایسی کالونی نہ اس سے پہلے مسلمانوں کی تھی نہ آگے بننے کی امید ہے ۔
دوسال قبل ایسا ایک واقعہ شاہد اعظمی کا ہوا ۔قاتل اندر تک گھس کر اس شخص کو قتل کرکے چلا گیا جس نے بغیر فیس کی پرواہ کئے بے گناہ معصوم نوجوانوں کے مقدمے کو اس کے انجام تک پہنچانے کی کوشش میں رات کی نیند اور دن کا چین گنوایا ۔وہ جس نے پیسے بچانے کیلئے ہوائی جہاز اور ٹرینوں کے فرسٹ کلاس سے سفر کرنے کی بجائے سیکنڈ کلاس میں سفر کرنا مناسب سمجھا تا کہ وہ پیسہ مظلومین کی دیگر ضرورتوں میں صرف ہو۔ایسے محسن کی قوم نے فکر نہیں کی ۔میں نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں شاہد اعظمی کی شہادت ہوئی تھی ۔جہاں کسی کا یوں آنا اور اتنی بڑی واردات کو انجام دینا مسلمانوں کیلئے سوچنے کا مقام ہے۔موت کا ایک وقت مقرر ہے وہ اپنے وقت پر اور انہیں ذرائع سے آئے گی جو اللہ نے مقدر کر رکھا ہے ۔لیکن ان شخصیات کی موت کے بعد سوالات کا اٹھنا لازمی ہے ، جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ قوم کی عزت و ناموس کی بقا کی خاطر وقف کردیا ہو۔دونوں ہی عظیم شخصیات کے قتل کے بعد قاتل جائے واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور مسلمانوں کے چہروں پر سیاہی چھوڑ گیا ۔ اب حالت یہ ہے کہ دور دور تک سناٹا ہے کوئی بھی قوم کا ہمدرد اور بیباک نمائندہ نظر نہیں آتا ۔جو ہے وہ قوم کے غم میں حکام کے ساتھ ڈنر کھانے اور رنج لیڈر کو بہت ہے آرام کے ساتھ کا مصداق ہے ۔یہ کمی کیوں ہے ؟یہ اس لئے ہے کہ عوام میں بیداری نہیں ہے ۔اسے چند مسلک اور مناظرے باز مولویوں نے بری طرح تقسیم کر رکھا ہے ۔وہ اپنی توانائی کو فضولیات اور رنگ ریلیوں میں برباد کر رہا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ اسے یہ بات ذہن نشین کرادیا گیا ہے کہ وہ بہت ہی نیک کام کررہا ہے جس کا انعام جنت ہے ۔لیکن حال یہ ہے کہ قوم دنیا میں بھی ذلیل ہو رہی ہے اور مرنے کے بعد جو انجام ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے ۔
میڈیا ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کے معاملہ میں سیکولر زم اور رواداری کا جھنڈا بلند کرنا نہیں بھولتا ۔کئی اخباروں نے شہ سرخیوں میں’’ غیر روادار ہندوستان‘‘ کے عنوان سے خبریں شائع کیں ۔یہی میڈیا یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ آخر دنیا میں جو مسلمان بھی ہتھیار اٹھائے گھوم رہا ہے یا وہ جابر اور ظالم قوتوں کے خلاف برسر پیکار ہے ۔اسے ان حالات کیلئے مجبور کس نے کیا ؟خودکش حملہ ہو یا فلسطینی مجاہدوں کا انتفاضہ سب میں کیڑے مسلمانوں میں ہی نکالے جاتے ہیں ۔اور یہ سب کچھ مولانا وحید الدین اور طاہر القادری کو ساتھ لیکر کیا جارہا ہے ۔جنہوں نے دجال کذاب کی طرح صرف ایک آنکھ سے ہی دیکنے کی کوشش کی ۔کوئی یہ نہیں پوچھ رہا ہے کہ فلسطینی اپنی مظلومیت کی داستانیں پچھلے پینسٹھ سالوں سے بھی زیادہ سے دنیا کے نام نہاد امن کے ٹھیکیدداروں کے پاس لیکر گئے کسی نے صرف ہمدردی جتائی اور کسی نے انہیں دھتکار دیا ۔کسی نے بھی اسرائیل کی غاصبانہ کارروائیوں کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ۔لیکن جبر مسلسل اور دنیا کی طرف سے نظر انداز کئے جانے کی مسلسل کوششوں کی جب کئی دہائی گزر گئیں تب کہیں جاکر کسی لیلیٰ خالد نے ہوائی جہاز اغوا کیا ۔یا اس کے بعد انہوں نے خود کش حملہ یا پھر اسرائیلی ٹینک اور مشین گنوں کے مقابل اپنے حوصلوں کا غلیل چلاکر انتفاضہ شروع کیا تو وہ دہشت گرد ہو گئے ۔اور ایسے ہی دہشت گردوں پر کمل ہاسن جیسے لوگوں نے فلمیں بنانا شروع کیں اور یوں مسلمانوں کو پوری دنیا میں دہشت گرد کے طور پر متعارف کرانا شرع کرادیا ۔لیکن کمل ہاسن ہوں یا کوئی اور ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ دنیا میں پھیل رہے سنگھی دہشت گردی یا صہیونی دہشت گردی پر کوئی فلم بنائیں ۔آخر بھگوا دہشت گردی کے نیٹ ورک کو منظر عام پر آئے بھی تو چھ سات سالوں کا عرصہ گزر چکا ہے ۔لیکن لے دے کہ معصوم و بے گناہ مسلمان ہی بچتے ہیں جنہیں ہر طرح سے تنگ کیا جاسکتا ہے ۔آخر اس بکھری ہوئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی امت کا ریاستی ملکی یا بین الاقوامی سطح پر کوئی ہے بھی نہیں نہ جو کسی کو کوئی خوف ہوگا ۔جو ہیں وہ حکومت اور اسلام مخالف ایجنسی کے دلال ہیں جو ہر لمحہ اس شک کو مزید پختہ ہی کئے دے رہے ہیں کہ ’’اس قوم کی گلہ بانی اب بھیڑیوں کے سپرد ہے ‘‘۔
قابل مبارکباد ہیں جنوبی ہند کے وہ مسلم رہنما جنہوں نے اپنا حق ادا کیا ،جنہوں نے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر کئے بغیر اپنے موقف پر اٹل رہے ۔شمالی ہند کے مسلم رہنماء اگر ہیں تو انہیں ان سے سبق لینا چاہئے اور امت کی سر بلندی کیلئے کام کرنا چاہئے اسی میں امت کے ساتھ ہی ان کی بھی سربلندی ہے ۔ورنہ امت ذلیل ہو گی اور وہ سربلند ہوں ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا ۔آخر ان میر جعفروں کی نظر تاریخ کے ان صفحات پر کیوں نہیں ہے جس میں میر جعفروں اور میر صادقوں کی فوری کامیابی کے ساتھ انکے ذلت آمیز انجام کے واقعات بھی درج ہیں۔ہر دور کے میر جعفروں اور میر صادقوں کا ایک ہی انجام ہوا ہے ذلت کی موت اور ہر دور کے سراج لدولہ اور ٹیپو سلطان کا ایک ہی انجام ہوا ہے شیر جیسی شاندار موت ۔جس کی موت نے دشمنوں کو بھی انہیں سیلوٹ مارنے پر مجبور کردیا تھا اور قیامت تک کیلئے وہ زندہ جاوید ہو گئے قوم ان کا تذکرہ عزت و احترام سے کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔یعنی ملت فروشوں کیلئے دائمی ذلت اور ملت کی سربلندی کیلئے جان دینے والوں کیلئے دائمی عزت و سرفرازی۔قدرت کا قانون ہے کبھی بدلا نہیں جاسکتا۔
نہال صغیر۔موبائل۔9987309013
مجھے فلموں سے یا اس میں پیدا ہونے والے تنازعات سے کبھی بھی زیادہ دلچسپی نہیں رہی لیکن حالیہ ریلیز ہونے والی کمل ہاسن کی فلم ’’وشو روپم ‘‘ کے بارے میں سن کر پھر اس کے کچھ سین کو ٹریلر کی صورت میں دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ اس سلسلے میں بے اعتنائی اور شتر مرغ کا ریت میں سردیناایک جیسا ہے ۔فلموں کو ہماری مذہبی قیادت خلاف شرع مانتی ہے ماننے کی وجہ بھی ہے لیکن محض اتنا کہہ دینے سے بات نہیں بننے والی ۔آخر ہمارے معاشرے کا آج جوبرا حال ہے اس میں فلم کا کم وبیش اسی فیصد سے زیادہ حصہ ہے ۔مسلمانوں کے خلاف بننے والی منفی رائے عامہ بھی اسی فلم کی وجہ سے ہے ۔موجودہ فلم میں جو کچھ دکھایا گیا ہے اس پر جن لوگوں نے بھی اعتراض کیا ہے وہ با لکل درست ہے ۔لوگوں نے الزام لگایا کہ بغیر دیکھے ہی ہنگامہ مچایا گیا ۔تو کیا فلم کو ریلیز ہونے کے بعد اس پر اعتراض کیا جاتا ۔جب تک اس پر بات ہوتی فلم ہفتوں سنیما ہالوں میں لاکھوں لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کر چکی ہوتی۔آخر سات گھنٹوں کی طویل میٹنگ کے بعد کمل ہاسن کو فلم میں سے قابل اعتراض مکالموں اور سین کو ہٹانے پر سمجھوتہ کرنا ہی پڑا۔
فلم وشو روپم کا تنازعہ بہت حد تک حل ہو چکا ہے اور عنقریب یہ فلم تمل ناڈ میں ریلیز ہو جائے گی ۔اس فلمی تنازعہ میں ایک بات قابل غور ہے کہ اس میں چنئی کے مسلمانوں کو کئی خامیاں نظر آئیں جس کا اظہار انہوں نے مختلف طریقوں سے کیا ۔نتیجہ سامنے ہے کہ حکومت بھی جھکی اور کمل ہاسن جو کہ بلیک میلنگ کرنے پر اتارو تھے اور انہوں نے ملک چھوڑنے تک کی دھمکی دے ڈالی تھی ان کا بھی رویہ ڈھیلا پڑا ۔لیکن اسی فلم کو ممبئی اور مہاراشٹر کے نام نہاد مسلم لیڈروں نے دیکھ کر کلین چٹ دیدی ۔اب عوام اس تذبذب میں ہیں کہ ایک ہی فلم پورے ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے قابل اعتراض ہے لیکن وہی فلم ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلم لیڈروں کیلئے قابل قبول ۔آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ممبئی کے چند نام نہاد مسلم لیڈروں نے اسے کلین چٹ دیدی ۔ممبئی کی مسلم لیڈر شپ بے دین ہے یا زیادہ روادار یا جنوبی ہند کی مسلم لیڈر شپ زیادہ مذہبی یا غیر روادار اور دقیانوس۔ممبئی ایک عرصہ ہوا کہ مسلمانوں کے تعلق سے لا تعلق ہو چکی ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب یہاں مخلص ملی قیادت نہیں ہیں ۔جو لوگ مسلم لیڈر شپ کا بذعم خود دعویٰ کرتے ہیں ۔ان کی حقیقت کئی بار اخبارات کی زینت بن چکی ہے ۔آئے دن مسلم لیڈروں کا ڈیلیگشن وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سے ملتا ہے کچھ رسمی باتیں مسلمانوں کے تعلق سے انتہائی معذرت خواہانہ اور خوشامدانہ انداز میں چند معروضات پیش کرنا اور بس ۔چلتے وقت وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سے انہیں لیڈروں میں سے اکثر اپنے ذاتی کاموں کی لسٹ سونپ دیتا ہے ۔اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی اہمیت سیاست دانوں کی نظر میں کیا ہے ۔کھل کے کہا جائے تو اسے ایسا کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ قوم کا سہارا لیکر کانگریسی لیڈروں اور دیگر سیاست دانوں کے تلوے چاٹنے کو ہی اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔یہ تماشہ پچھلے بیس بائیس سالوں سے جاری ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ممبئی اور مہاراشٹر میں جن لوگوں نے بھی اپنی جان و مال کی قیمت پر قوم کی عزت و ناموس کی فکر کی ان شیروں کو خاموش کیا جا چکا ہے ۔اب یہاں کی مسلم سیاست پر مردہ خور گِدھوں کا قبضہ ہے جو ملت کے مردہ ہونے کا انتظام بھی کرتے ہیں اور انتظار بھی ۔اب یہاں وہ لوگ مسلم سیاست پر قابض ہیں جو شیر کی ایک دن کی زندگی نہیں گیدڑ کی سو سالہ زندگی کے خواہش مند ہیں ۔
پورے ملک میں میٹرو شہروں میں مجھے دو ہی شہر مسلمانوں کی عزت و وقار کی علامت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والے نظر آتے ہیں وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر نہیں کرتے ہیں ۔ایک کلکتہ اور دوسرے حید رآباد ۔دہلی اور ممبئی کے مسلمانوں سے غیرت اور حمیت رخصت ہو چکی ہے ۔اسی لئے ان دونوں شہروں میں رشدی آتا ہے اپنی شیطانی شکل اور سوچ کے ساتھ مسلمانوں کا منھ چڑاکر چلاجاتا ہے ۔تسلیمہ جیسی بدکار اور دریدہ دہن آتی ہے پناہ لیتی ہے حکومت اسے پناہ دیتی ہے اور صرف پناہ ہی نہیں دیتی بلکہ مسلمانوں کو ان کی اوقات بتلانے کیلئے ساری سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔مسلمان محض لاچار و مجبور دیکھتا اور خاموش رہ کر اپنی ذلت و رسوائی کا تماشہ دیکھتا ہے ۔ایسا کیوں نہ ہو کہ ممبئی میں بیس سال پہلے ایک مسلم لیڈر کو قتل کر دیا گیا ۔مسلمان نہ صرف خاموش رہے بلکہ بعض میر جعفروں اور میر صادقوں نے ان کے قتل میں رول بھی ادا کیا ۔قاتل آیا قتل کرکے چلاگیا ۔بڑے آرام سے اسے کسی نے پکڑنے کی کوشش نہیں کی ۔مسلم علاقوں میں کوئی سنسنی نہیں پھیلی کچھ ملت کے بہی خواہوں نے ضرور دوڑ دھوپ اور کفن دفن میں حصہ لیا انکے خوابوں کی جگہ میں انہیں دفن کر دیا گیا ۔وہی جگہ جو آج بھی ممبئی میں مسلمانوں کی واحد منظور شدہ پاش کالونی ہے جہاں ایک شاندار مسجد بھی ہے ۔ایسی کالونی نہ اس سے پہلے مسلمانوں کی تھی نہ آگے بننے کی امید ہے ۔
دوسال قبل ایسا ایک واقعہ شاہد اعظمی کا ہوا ۔قاتل اندر تک گھس کر اس شخص کو قتل کرکے چلا گیا جس نے بغیر فیس کی پرواہ کئے بے گناہ معصوم نوجوانوں کے مقدمے کو اس کے انجام تک پہنچانے کی کوشش میں رات کی نیند اور دن کا چین گنوایا ۔وہ جس نے پیسے بچانے کیلئے ہوائی جہاز اور ٹرینوں کے فرسٹ کلاس سے سفر کرنے کی بجائے سیکنڈ کلاس میں سفر کرنا مناسب سمجھا تا کہ وہ پیسہ مظلومین کی دیگر ضرورتوں میں صرف ہو۔ایسے محسن کی قوم نے فکر نہیں کی ۔میں نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں شاہد اعظمی کی شہادت ہوئی تھی ۔جہاں کسی کا یوں آنا اور اتنی بڑی واردات کو انجام دینا مسلمانوں کیلئے سوچنے کا مقام ہے۔موت کا ایک وقت مقرر ہے وہ اپنے وقت پر اور انہیں ذرائع سے آئے گی جو اللہ نے مقدر کر رکھا ہے ۔لیکن ان شخصیات کی موت کے بعد سوالات کا اٹھنا لازمی ہے ، جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ قوم کی عزت و ناموس کی بقا کی خاطر وقف کردیا ہو۔دونوں ہی عظیم شخصیات کے قتل کے بعد قاتل جائے واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور مسلمانوں کے چہروں پر سیاہی چھوڑ گیا ۔ اب حالت یہ ہے کہ دور دور تک سناٹا ہے کوئی بھی قوم کا ہمدرد اور بیباک نمائندہ نظر نہیں آتا ۔جو ہے وہ قوم کے غم میں حکام کے ساتھ ڈنر کھانے اور رنج لیڈر کو بہت ہے آرام کے ساتھ کا مصداق ہے ۔یہ کمی کیوں ہے ؟یہ اس لئے ہے کہ عوام میں بیداری نہیں ہے ۔اسے چند مسلک اور مناظرے باز مولویوں نے بری طرح تقسیم کر رکھا ہے ۔وہ اپنی توانائی کو فضولیات اور رنگ ریلیوں میں برباد کر رہا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ اسے یہ بات ذہن نشین کرادیا گیا ہے کہ وہ بہت ہی نیک کام کررہا ہے جس کا انعام جنت ہے ۔لیکن حال یہ ہے کہ قوم دنیا میں بھی ذلیل ہو رہی ہے اور مرنے کے بعد جو انجام ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے ۔
میڈیا ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کے معاملہ میں سیکولر زم اور رواداری کا جھنڈا بلند کرنا نہیں بھولتا ۔کئی اخباروں نے شہ سرخیوں میں’’ غیر روادار ہندوستان‘‘ کے عنوان سے خبریں شائع کیں ۔یہی میڈیا یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ آخر دنیا میں جو مسلمان بھی ہتھیار اٹھائے گھوم رہا ہے یا وہ جابر اور ظالم قوتوں کے خلاف برسر پیکار ہے ۔اسے ان حالات کیلئے مجبور کس نے کیا ؟خودکش حملہ ہو یا فلسطینی مجاہدوں کا انتفاضہ سب میں کیڑے مسلمانوں میں ہی نکالے جاتے ہیں ۔اور یہ سب کچھ مولانا وحید الدین اور طاہر القادری کو ساتھ لیکر کیا جارہا ہے ۔جنہوں نے دجال کذاب کی طرح صرف ایک آنکھ سے ہی دیکنے کی کوشش کی ۔کوئی یہ نہیں پوچھ رہا ہے کہ فلسطینی اپنی مظلومیت کی داستانیں پچھلے پینسٹھ سالوں سے بھی زیادہ سے دنیا کے نام نہاد امن کے ٹھیکیدداروں کے پاس لیکر گئے کسی نے صرف ہمدردی جتائی اور کسی نے انہیں دھتکار دیا ۔کسی نے بھی اسرائیل کی غاصبانہ کارروائیوں کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ۔لیکن جبر مسلسل اور دنیا کی طرف سے نظر انداز کئے جانے کی مسلسل کوششوں کی جب کئی دہائی گزر گئیں تب کہیں جاکر کسی لیلیٰ خالد نے ہوائی جہاز اغوا کیا ۔یا اس کے بعد انہوں نے خود کش حملہ یا پھر اسرائیلی ٹینک اور مشین گنوں کے مقابل اپنے حوصلوں کا غلیل چلاکر انتفاضہ شروع کیا تو وہ دہشت گرد ہو گئے ۔اور ایسے ہی دہشت گردوں پر کمل ہاسن جیسے لوگوں نے فلمیں بنانا شروع کیں اور یوں مسلمانوں کو پوری دنیا میں دہشت گرد کے طور پر متعارف کرانا شرع کرادیا ۔لیکن کمل ہاسن ہوں یا کوئی اور ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ دنیا میں پھیل رہے سنگھی دہشت گردی یا صہیونی دہشت گردی پر کوئی فلم بنائیں ۔آخر بھگوا دہشت گردی کے نیٹ ورک کو منظر عام پر آئے بھی تو چھ سات سالوں کا عرصہ گزر چکا ہے ۔لیکن لے دے کہ معصوم و بے گناہ مسلمان ہی بچتے ہیں جنہیں ہر طرح سے تنگ کیا جاسکتا ہے ۔آخر اس بکھری ہوئی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی امت کا ریاستی ملکی یا بین الاقوامی سطح پر کوئی ہے بھی نہیں نہ جو کسی کو کوئی خوف ہوگا ۔جو ہیں وہ حکومت اور اسلام مخالف ایجنسی کے دلال ہیں جو ہر لمحہ اس شک کو مزید پختہ ہی کئے دے رہے ہیں کہ ’’اس قوم کی گلہ بانی اب بھیڑیوں کے سپرد ہے ‘‘۔
قابل مبارکباد ہیں جنوبی ہند کے وہ مسلم رہنما جنہوں نے اپنا حق ادا کیا ،جنہوں نے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی فکر کئے بغیر اپنے موقف پر اٹل رہے ۔شمالی ہند کے مسلم رہنماء اگر ہیں تو انہیں ان سے سبق لینا چاہئے اور امت کی سر بلندی کیلئے کام کرنا چاہئے اسی میں امت کے ساتھ ہی ان کی بھی سربلندی ہے ۔ورنہ امت ذلیل ہو گی اور وہ سربلند ہوں ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا ۔آخر ان میر جعفروں کی نظر تاریخ کے ان صفحات پر کیوں نہیں ہے جس میں میر جعفروں اور میر صادقوں کی فوری کامیابی کے ساتھ انکے ذلت آمیز انجام کے واقعات بھی درج ہیں۔ہر دور کے میر جعفروں اور میر صادقوں کا ایک ہی انجام ہوا ہے ذلت کی موت اور ہر دور کے سراج لدولہ اور ٹیپو سلطان کا ایک ہی انجام ہوا ہے شیر جیسی شاندار موت ۔جس کی موت نے دشمنوں کو بھی انہیں سیلوٹ مارنے پر مجبور کردیا تھا اور قیامت تک کیلئے وہ زندہ جاوید ہو گئے قوم ان کا تذکرہ عزت و احترام سے کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔یعنی ملت فروشوں کیلئے دائمی ذلت اور ملت کی سربلندی کیلئے جان دینے والوں کیلئے دائمی عزت و سرفرازی۔قدرت کا قانون ہے کبھی بدلا نہیں جاسکتا۔
نہال صغیر۔موبائل۔9987309013
0 comments: