انقلاب مسلمانوں کا ترجمان ہے یا آر ایس ایس کا ..... ؟

3:02 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر۔معرفت ،رحمانی میڈیکل ۔سلفی گلی نمبر 3 ۔کاندیولی(مغرب)ممبئی 400067 موبائل۔9987309013 ۔ای میلsagheernehal@gmail.com 

بر صغیر میں اردو صحافت کی تاریخ بڑی تابناک رہی ہے ۔جب یہ خطہ انگریزوں سے آزادی کی لڑائی میں مصروف کار تھا تو صرف اور صرف اردو اخبارات اور اردو کے صحافی ہی نے اس کی قیادت کی تھی باقی نام نہاد مین اسٹریم میڈیا انگریزوں کا قصیدہ خواں تھا ۔دو اخبارات آج بھی موجود ہیں جن میں سے ایک کو 175 سال اور دوسرے کو 88 سال ہونے کو ہے ۔یوں تو یہ دونوں ہی اخبارات انگریزی کے قدیم اخبارات میں سے ہیں اور اب تک ان کا وجود اور ٹھاٹھ باٹ کے ساتھ ہے ۔لیکن ایسے کسی اخبار کا جنگ آزادی ہند کی لڑائی میں کوئی رول تو نہیں رہا ،ہاں انگریزوں کی ہاں میں ہاں ملانا انکی پالیسی کے لئے فضا سازگار کرنے کی کوشش کرنا یہی ان کا کام تھا ۔لیکن اس سخت دور میں جب کہ انگریزوں کی ملک مخالف سرگرمیوں پر نظر رکھنا اس پر انگشت نمائی کرنا دوپہر کی تیز دھوپ میں سخت گرمی میں صحارا کے ریگستان میں چلنے کے برابر تھا لیکن اردو اخبارات کے یہ مجاہد جو دیوانگی کی حد تک حب وطن سے سرشار تھے نے انگریزوں کی پالیسیوں پر نہ صرف یہ کہ تنقید کی بلکہ عوام کو ان کے خلاف ابھارا ۔1857 کی پہلی جنگ آزادی کے موقع پراسی جرم میں ہفتہ روزہ دہلی اردو اخبار کے مالک مدیر مولوی باقر علی کو سزائے موت دی گئی تھی یہ اردو صحافت کی تاریخ کا پہلا شہید تھا جس کو سچ بولنے اور لوگوں کو سچ کا ساتھ دینے کی ترغیب کے جرم میں توپ سے اڑادیا گیا تھا۔ اس کے بعد دسیوں ایسے اردو کے اخبارات اور سینکڑوں صحافیوں کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے انگریزوں کی ہر چال بازیوں اور ان کے ہر ظلم کا دندان شکن اور مدلل جواب دیکر انگریزی سرکار کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کردیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کے مسائل کو سمجھنے جاننے کیلئے کانگریس کا قیام عمل لایا گیا۔
جب ہم اردو اخبارات اور اردو کے صحافیوں کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے اس کارواں کے ایسے ایسے سرخیل نظر آتے ہیں جن کو رہتی دنیا تک کیلئے اردو صحافت کا امام ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ان راہوں کے قندیلوں میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا آزاد،عبدلماجد دریاآبادی،مولانا مودودی، آغا حشر کاشمیری،محمد مسلم ،مولانا عثمان فارقلیط وغیرہ اردو صحافت کے وہ روشن مینارے ہیں جن سے آج کی اردو صحافت منور و تاباں ہے۔اسی طرح اردو اخبارات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ہمدر،الہلال و البلاغ،صدق جدید،چٹان،الجمعیتہ ،مسلم،وغیرہ جیسے نام آج بھی ہمارے حوصلے اور استقامت کیلئے راہ نما کی حیثیت رکھتے ہیں ۔یہ چند نام ہیں لیکن اگر تفصیل سے اس پر نظر ڈالیں تو اس کے بعد پورے کا پورا سیل رواں ملے گا ۔لیکن میری بحث کا موضوع ہماری اردو صحافت کی شاندار تاریخ نہیں ہے۔
جب آزادی کی جنگ زوروں پر تھی اور انگریزوں کے خلاف عوامی ابال نقطہ عروج پر تھا اس زمانے میں 1938 میں عبد الحمید انصاری نے ممبئی سے روزنامہ انقلاب کا اجراء کیاجس نے بعد کے دنوں میں ایک تاریخ رقم کی ۔انکی اولاد نے انقلاب سے کمائی ہوئی عزت شہرت اور دولت کو خود انقلاب کو ہی مٹانے کیلئے استعمال کیا اور مڈ ڈے ملٹی میڈیا قائم کر دیا ۔جس کے بارے میں اردو دنیا کم ہی کم واقف تھی کہ یہ انقلاب کی دین ہے اور کوئی ایسا اخبار اردو کا بھی ہے جس نے ایک ادنیٰ غریب مجاہد آزادی کی اولاد کو بہت بڑا سرمایہ دار بنادیا۔انقلاب کی بد قسمتی تو اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب اسے مڈڈے ملٹی میڈیا کے تحت کر دیا گیا تھا لیکن اس کی بد قسمتی کا نقطہ عروج تو اس وقت تھا جب دو سال قبل اسے ایک سنگھی اخبار کے گروپ کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔
اب انقلاب کی ڈور انسانیت کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنا مفاد حاصل کرنے والے گروہ کے ہاتھوں میں ہے ،جنہیں انسانی اقدار سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ مذکورہ اخبارات کے اسٹاف کی طرف سے بار بار یقین دہانی کرائے جانے کے باوجود کہ انقلاب کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی،باخبر اور باشعور قارئین اس بات کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکے کہ بڑی چابکدستی اورغیر محسوس طور پر انقلاب کی پالسی پر برہمنی ذہنیت اور منووادی کی پروردہ آر ایس ایس کا غلبہ ہوتا جارہا ہے ۔آر ایس ایس اور بی جے پی کی خبروں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔معمولی سا بی جے پی کے اقلیتی شعبہ کے ذمہ دار کی خبروں کو اہمیت دیا جانا ،اے ٹی ایس کی خبر کے نام پر افواہ کو اہمیت دیا جانا وغیرہ کس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ابھی دو روز قبل ہی اے ٹی ایس نے اردو اخباروں کے ذمہ داران کی ایک میٹنگ بلا کر انہیں نام نہاد انڈین مجاہدین کے اے ٹی ایس کے فرضی مفرور ملزمین کی لسٹ فوٹو کے ساتھ دی گئی کہ اسے اپنے اخبار میں شائع کریں جسے اکثر اردو اخباروں نے نظر انداز کر دیا اگر کسی نے اس خبر (اے ٹی ایس کی طرف سے پھیلائی گئی ہر خبر افواہ ہی ہوتی ہے) کو جگہ بھی دی تواندر کے صفحہ پر ،لیکن انقلاب نے اس خبر کو نمایاں بلکہ پہلی خبر بناڈالا ،اس سے کیا مطلب نکالا جائے ۔افضل گرو کی متنازعہ پھانسی (بلکہ ظالمانہ زیادہ مناسب ہے)کو انقلاب نے اپنے اداریہ میں صحیح ٹھہرایا ۔جبکہ افضل گرو کی پھانسی پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے ہندوستانی حکومت کو سوالات کے ایسے گھیرے میں لیا ہے جس سے حکومت ہند پیچھا نہیں چھڑا پارہی ہے ۔لیکن انقلاب لکھتا ہے ’’اس سزا سے عدلیہ کا وقار ،حکومت کا اقبال ،اور آئین و قانون پر یقین رکھنے والی ہندوستانی قوم کا سر بلند ہوا ہے ۔یہی نہیں اس سے وطن عزیز کی غیر جانبداری بھی ثابت ہوئی ہے ‘‘۔جبکہ افضل گرو کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے ملک عزیز کی غیر جانبداری اور انصاف پسندی کا پوری دنیا میں ایسا چرچا ہے کہ ملک کو دوسری بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔پہلی بار الہٰ آباد ہائی کورٹ کا بابری مسجد سے متعلق دیا گیا فیصلہ اور اب یہ فیصلہ اور اس پر عمل درآمد ۔ایک سینئر وکیل کی بات میں نے افضل گرو کے تعلق سے سنی جو کہ ویڈیو کی صورت میں ہے ’’اس نے کہا تھا کہ افضل گرو کے خلاف جو ثبوت ہیں وہ اس کا اعترافی بیان جو کہ پولس کے سامنے ویڈیو شوٹنگ میں لیا گیا اور اسے نیوز چینلوں پر ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس سے قوم کے ضمیر کی تعمیر ہوئی اور اسی قومی ضمیر کی تسکین کے لئے سپریم کورٹ نے مذکور بالا فیصلہ دیا ۔ اگر ہم سچ نہیں بول سکتے تو کم سے کم خاموش تو رہ ہی سکتے ہیں ،لیکن یہ کیا کہ ہم ظالموں کی حمایت ہی کرنے لگ جائیں ۔یوں تو انقلاب کے11 ؍فروری کاپورا اداریہ ہی قابل اعتراض ہے ۔اس پورے اداریہ کو پڑھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی آر ایس ایس کے اخبار کا ہی اداریہ ہے قارئین اس کے اداریہ کو پڑھ کر خود ہی اندازہ قائم کرسکتے ہیں۔اس مضمون میں اس پورے اداریہ پر بحث ممکن نہیں ہے ۔
انقلاب جب تک مسلم منیجمنٹ میں تھا تب تک کچھ غنیمت تھا لیکن اب تو اس میں شراب اور جوا کے ایڈ بھی آنے لگے ہیں ۔جس کے بارے میں کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کے ذریعہ اس پر پابندی لگائے جانے کے بعد مسلم معاشرہ اس سے کتنی نفرت کرتا ہے اور انقلاب کو بہر حال صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں پھر اس طرح کے ایڈ کس لئے اس ایڈ کو دیکھنے کیلئے آپ 30 ؍ دسمبر 2012 کے انقلاب کو دیکھ سکتے ہیں۔دوسری بات رشدی کی مڈ ڈے ملٹی میڈیا کے آفس میں آنا ۔واضح ہو کے انقلاب اسی ملٹی میڈیا کا حصہ ہے اور اس کا دفتر بھی اسی میں ہے ۔بعدمیں ہماری قوم کے چند نام نہاد قائد گئے ،مڈڈے ملٹی میڈیا کے ذمہ داران کی جانب سے ہمارے قائدین کو مطمئن کر دیا گیا کہ وہ ملعون ان کے دفتر میں نہیں آیا تھا اور یہ نام نہاد ہمارے لیڈر مطمئن ہو گئے۔جبکہ انقلاب کے دفتر کے ملازمین نے ہمیں یہ بتایا کہ رشدی یہیں آیا تھا ۔یہ چند باتیں بطور ثبوت پیش کئے گئے ہیں ورنہ انقلاب کا روزانہ بغور مطالعہ کیجئے اور خود ہی اندازہ کیجئے۔ہمارے جاننے والے کئی احباب نے کسی بھی قابل اعتراض مواد یا خبروں پر کٹنگ کے ساتھ انقلاب کے دفتر کو شکایات روانہ کیں لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں کی گئی ۔اس سلسلے میں ہمارے ایک دیرینہ دوست نے انقلاب کے ایک اہم اسٹاف سے اس بابت استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ میجمنٹ کی طرف سے یہ بات صاف کی گئی ہے کہ ہر حال میں اشتہار چھپے گا خواہ وہ کیسا بھی ہو کسی بھی چیز کا ہو،انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہاں انہیں اس بات سے کوئی تعرض نہیں ہوگا کہ آپ مضامین اور اداریہ کس سلسلے میں لکھ رہے ہیں ،لیکن اوپر جو حوالہ جات دئے گئے ہیں وہ اس بات کو صاف کر رہے ہیں کہ ایڈیٹوریل پالیسی اور خبروں کے انتخاب پر بھی ان کی نظر ہے ۔نہ صرف نظر ہے بلکہ اس کو سنگھی پالیسی کے حساب سے ڈھالنے کی بھی کوشش جاری ہے اور اسی پر باشعور اور باخبر قارئین کو اعتراض ،اور مجھے تشویش ہے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ جو اخبارات غیر مسلم مینیجمنٹ میں جانے سے بچے ہوئے ہیں اس کو جانے سے روکیں ان کی سر پرستی کریں ورنہ ٹوٹی پھوٹی جو بھی آواز ان کی ہے وہ دبادی جائے گی اور پھر کوئی ان کی آواز بلند کرنے والا نہیں بچے گا۔
نہال صغیر۔موبائل۔9987309013
 

0 comments: