Muslim Issues

روہنگیاکےبہانے



 
قاسم سید
  
قومی  و عالمی سطح پر ہونے والی سیاسی تبدیلیوں ،رفاقتوں اور رشتو ں کی نئی زنجیروں کی تخلیق میں دہشت گردی کی مارکیٹنگ کا سب سے کلیدی رول ہے ۔ضرورت کے حساب سے دہشت گردتنظیمیں تشکیل دی جاتی ہیں ان کا دائرہ کار طے کیا جاتا ہے اور جب ان کے قیام کا مقصد و اہداف پورے ہو جاتے ہیں تو ان کو تباہ کردیا جاتا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کہ داعش کا بیج ہیلری کلنٹن نے ڈالا تھا یعنی سابق امریکی حکومتوں کا رول بھی بین حقیقت ہے اسی طرح القاعدہ ہو یا النصرہ فرنٹ یا کوئی اور نام بوکوحرام سے لے کر شام ،یمن ،عراق وغیرہ میں سرگرم دہشت گرد تنظیمیں صرف آلہ کار ہیں یہ روبوٹ کی طرح کا م کرتی ہیں اسلام کا نام لے کر مخالفین کو تہ تیغ کرتی ہیں ورنہ جو بھی اسلام کا پیرو کار ہے وہ بے گناہ کی جان لے ہی نہیں سکتا ۔ایسی تنظیموں کے تار و پود رد عمل کے خمیر سے تیار کئے جاتے ہیں آگے بڑھ کر یہ طاقتیں ایسی تحریکوں کو بھی دہشت گردوں کے زمرہ میں شامل کر لیتی ہیں جو ان کے اشاروں پر کتھک کرنے کو تیار نہیں ہوتیں ۔انہیں بلیٹ کے ذریعہ اقتدار تک پہنچے سے روکا جاتا ہے جیسے الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ اور فلسطین میں حماس ،مصر میں اخوان ،مراکش میں النہضہ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں انہیں عوام نے ووٹوں کے ذریعہ اقتدار سونپا تو کہیں فوج نے اقتدار سنبھال لیا اور منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا یا پھر ایسی اڑچنیں ڈالی جاتی ہیں کہ عوام بدظن ہو جائیں جو اپنے ذہن و دماغ سے نہ سوچیں بلکہ جو کچھ بتایا جائے بغیر اعتراض چوں چرا کے اس پر عمل کریں ،ان کو ڈکٹیٹر ،بادشاہ عزیز ہیں کیونکہ وہ بیساکھیوں پر چلتے ہیں جمہوری حکمراں ناقابل برداشت کہ وہ اپنی راہ خود چننے پر اصرار کرتے ہیں ،نافرمانوں کو نظریاتی دہشت گرد بتا کر انہیں تعزیرات میں کس دیا جاتا ہے ۔فرضی ڈھونگی عدالتوں سے فیصلہ کرکے پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں ،اپنی سہولتوں کے مطابق مجاہدین اور ضرورتوں کے تحت دہشت گرد کا پرسکار دیا جاتا ہے ،کبھی دہشت گردوں کی لسٹ میں ڈالا جاتا ہے اور سیاسی ٹول بنانے کے لئے کبھی اس فہرست سے نکال دیتے ہیں یہ تماشے ہر جگہ ہر سطح ہر ہوتے ہیں فرضی دہشت گردتنظیمیں جن کا کہیں وجو د نہیں ہوتا کا غذوں میںبنتی ہیں ان کے سر کچھ حملے ڈال دیتے ہیں اور پھر تفتیش کے بہانے بے گناہوں کو اٹھانے کی مہم چلتی ہے ۔ ہر جمہوری یا غیر جمہوری ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی یہ سرگرمیاں کھلا راز ہیں ۔اب تو حال یہ ہے کہ لکھنے والوں کو بھی معتوبین کے درجہ سے سرفراز کرنے کی فیاضی کے مظاہرےعام ہو گئے ہیں ۔یہی نہیں اب حکومتوں کے خلاف یا ان کے حق میں مظاہرے بھی مینیج کئے جاتے ہیں گویا کواکب ہیں کچھ نظر آتےہیں کچھ یہ بازی گر کھلا دھوکہ دیتے ہیں ۔ان حالات میں بہت صبر وتحمل ،قوت برداشت اختلاف میں اتحاد کی راہیں تلاش کرنے کو ترجیح دی جانی چاہئے ۔دام ہم رنگ زمین کے مصداق یہ پتہ لگانا بہت مشکل ہو گیاہے کہ کون خیر خواہ ہے اور کون دشمن ،کون آگ پر پانی ڈال رہا ہے اور کون پٹرول چھڑک کر اسے آتش فشاں بنانا چاہتا ہے ۔کون ہمدردی کی کھال اوڑھے لوٹنے ،غلط راستے پر ڈالنے اور جذبات کو غلط سمت دے کر اندھے کنوئیں میں دھکیل دینا چاہتا ہے ۔
روہنگیا کے معاملہ میں بھی یہی دیکھا گیا خالص انسانی المیہ کو بڑی عیاری و مکاری کے ساتھ مسلمانو ں کا المیہ بنا دیا گیا ۔پھر اسے فرقہ وارانہ کھاد دی گئی تاکہ نفرتوں کی کھیتی سرسبز و شاداب رہے کہیں نہ کہیں اس جال میں الجھتے گئے ۔مسلمان مسلمان کے کھیل میں روہنگیائی شہریوںکی جان پر بن آئی جب کوئی ملک قبول کرنے کو تیار نہیں مسلم ممالک نے بھی اپنے دروازے بند کر دیئے اور دکھاوے کے لئے امداد کے کچھ کاغذ پھینک دیے تو ہندوستان جنت نشاں میں ان سیاسی قوتوں کو زبان مل گئی جو روہنگیاؤں کو ایک پل برداشت کرنے کو تیار نہیں اور انہیں دہشت گرد سمجھتے ہیں ۔میانمار کا سرکاری نظریہ یہی ہے کہ روہنگیا دہشت گردی پھیلا رہے ہیں ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں وہاں سرگرم عسکری تنظیم کی کارروائیوں نے روہنگیا کے مظلومین کا مقدمہ کمزور کیا ہے ۔عالمی برادری سے جو ہو سکتا ہے وہ کر رہی ہے اس سے زیادہ کیا کیا جاسکتا تھا مگر عام شکایت یہی ہے کہ خاص طور سے عرب ممالک گونگے کاگڑ کھا کر بیٹھے ہیں جس طرح فلسطینیوں کا صابرہ وشتیلا کیمپوں میں اجتماعی قتل عام ہوا تھا،روہنگیائی شہریوں کے ساتھ میانمار کی فوج اپنی نوبل امن یافتہ لیڈر کی حمایت و معاونت سے انجام دے رہی ہے ،اجتماعی عصمت دری ،خواتین کے پرائیوٹ پارٹ کے ساتھ وحشیانہ درندگی کے ثبوت بنگلہ دیش پہنچتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ،فرضی ویڈیو اور تصاویر آگ میں گھی ڈالتے ہیں اور نوجوان نسل یہ سب دیکھ کر پاگل ہو جاتی ہے اس کے غصہ کو صبر کے باندھ کی ضرورت ہوتی ہے ۔احتجاجی مظاہرے تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں دباؤ بنانےمیں مدد کرتے ہیں مگر حکمت عملی کے فقدان سے ہدف حاصل نہیں ہوتے ،سفارتی تعلقات منقطع کرنے تجارتی رشتے توڑنے کے غیر منطقی مطالبے ہمارے تدبر کا مذاق اڑاتے ہیں یہ گڑیا گڈے کا کھیل نہیں ہے یعنی ہمیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ ہم چاہتے کیا ہیں ۔جذباتی نعروں اور تیزابی تقریروں سے جذبوں کی طغیانی کو کنارہ ملک جاتا ہے لیکن مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ روہنگیا کے باشندے مسلمان ہیں انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے ہی ستایا جا رہا ہے ۔عالمی برادری نے دہائیوں پرانےمسئلہ کا اب تک کوئی حل تلاش نہیںکیا لیکن اس سے زیادہ یہ انسانی بحران ہے بد قسمتی سے انسانی بحران اور المیہ مسلم المیہ میں تبدیل ہوگیا ۔یہ ان عناصر کی ناآسودہ آرزوؤں کی تکمیل ہے جو مسلمانوں کی تاریخ کو اسپین میں انجام سے جوڑنے کا خواب دیکھتے ہیں اور اسے دہرانے کی خواہش میں بارود بھری جاتی ہے ۔ہندوؤں کی مبینہ اجتماعی قبریں ملنے کی میانمار کی سرکاری خبر نے ہندوستان کے ماحول میں آتش گیرمادہ اچھالنے کا کام کیا ہے۔ٹی وی ڈیبیٹ اور سرکاری کا رندوں کے بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روہنگیا کوکس طرح چارہ کے طو ر پر استعمال کرنے کی حکمت اختیار کی گئی ہے اور جب کوئی معاملہ دہشت گردی سے بھی جو ڑ دیا جائے تو پھر دوآتشہ ہو جاتا ہے ۔دہشت گردی اور مسلمان ہماری لاکھ کوششوں اور مزاحمتوں کے باوجود لازم و ملزوم بنا دیے گئے ہیں اس پر فرقہ وارانہ نفرت کا غازہ لگا دیا جائے تو ہندو تووادی طاقتوں کے لئے اسٹیج تیار ہو جاتا ہے ہم نے بھی اپنی غلطیوں سے روہنگیائی مسئلہ پر مسلم رنگ چڑھا دیااور وہ غالب آگیا۔اس طرح خالص انسانی المیہ اس غبار میں کھو گیا ۔روہنگیا کے بہانے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کو یقیناً ہر ذی شعور اچھی طرح سمجھ رہا ہوگا ۔اسکی نزاکتوں کو محسوس کر رہا ہوگا ۔
مثلا ڈوکلام میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہند-چین روہنگیا معاملہ پر ایک ساتھ کھڑے ہیں امریکہ زیادہ سرگرم اس لئے نہیں ہونا چاہتا کہ چین کے علاوہ میانمار کے چین کی گود میں جانے کا خطرہ ہے ۔ دہشت گردی سے معاملہ جڑنے کے بہانے ہندوستان میانمار کی حمایت کرنے پر مجبور ہے جب تک بین الاقوامی پیچیدگیوں پرنظر نہیں ہوگی معاملہ کی تہہ تک پہنچنا مشکل ہوگا ۔ روہنگیا کے بہانے ہر کھلاڑی اپنی بساط بچھا رہاہے ۔رہے عرب ممالک تو ان پر صرف ترس کھایا جا سکتا ہے وہ اپنے دن گن رہے ہیں انہیں ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کی مہم سے فرصت ملے تو ادھر کی فکر کریں ۔ اپنے بھائیوں پر چڑھائی اوران کے خلاف مہم جوئی کا مرحلہ ختم ہو تومیانمار کی طرف دیکھیں بس اندیشہ یہ ہے کہ حساس ترین مسائل سےصرف نظر کرنےسے وہ کہیں مسلم قیادت کا رتبہ نہ کھو دیں بھلے ہی ان کا اکرام و احترام باقی رہے ۔ ہمارا کیس کتنا ہی مضبوط ہو وکیل کی زیادہ فعالیت اور جوش سے مقدمہ ہار جاتے ہیں ۔بد قسمتی سے اس معاملے میں ریکارڈ اچھا نہیں ہے ۔اشاروں میں کہی گئی باتیں زیادہ معنی خیز ہوتی ہیں اور بات دور تک پہنچ جاتی ہے کیا یہ بات صحیح ہے ۔
qasimsyed2008@gmail.com



0 comments:

featured

امن و امان کا قیام ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے!



نہال صغیر

فی الحال ملک میں دو تین ریاستیں ہی ایسی بچی ہیں جو مودی حکومت کے ہٹلری فرمان کے آگے جھکنے کو راضی نہیں ہیں ۔ ان میں ایک مغربی بنگال بھی ہے ۔ جہاں کی وزیر اعلیٰ کو بلا شبہ آئرن لیڈی کہا جاسکتا ہے ۔ مغربی بنگال یا کولکاتا کا تازہ مسئلہ درگا پوجا اور محرم کا ایک ساتھ آنا ہے اور اس سلسلے میں ممتا کا امن و مان کی برقراری کیلئے پوجا اور محرم کیلئے گائیڈ لائین جاری کرنا فسادی فرقہ کو جس کہ بد قسمتی سے مرکز میں حکومت ہے بہت ہی ناگوار گزرا اور وہ لوگ کولکاتا ہائی کورٹ میں اس گائیڈ لائین کے خلاف پہنچ گئے ۔حالانکہ کل ہی ان کے وزیر قانون روی شنکر پرشاد نے عدلیہ کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنا کام کرے اور ہمیں اپنا کام کرنے دے ۔یہی بات کل ہی ممتا بنرجی نے بھی کہی ہے انہوں نے کہا کہ کوئی ہمیں یہ نہ بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے ۔ امن و امان کی ذمہ داری ان کی ہے وہ اس کیلئے جو مناسب ہو گا کریں گی ۔ چار پانچ دن قبل کولکاتا ہائی کورٹ نے ممتا حکومت کو پھٹکار تے ہوئے کہا کہ جب بنگال میں امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر کیوں تیوہار الگ الگ کئے جارہے ہیں اور ہندو اور مسلمانوں میں تفریق کی جارہی ہے ۔ شاید عدلیہ کے ہمارے منصف حضرات یا تو حالات سے بے خبر ہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر عامیانہ سوال کرتے ہیں اور وہ سوال جو سنگھ اور بی جے پی والے اٹھا کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں ۔یہی وہ پارٹی ہے جو کانگریس پر مسلمانوں کی منھ بھرائی کا الزام عائد کرتی ہے اور پھر مسلمانوں سے ہمدردی کا ناٹک بھی کرتی ہے ۔ اسی کے وزیر اعظم ہیں جو بات سوا ارب کی آبادی کا کرتے ہیں لیکن ان کی ساری دوڑ دھوپ مسلمانوں کی دشمنی کا اشارہ دیتے ہیں ۔کہیں وہ راست اور کہیں دوسرے ذرائع سے یہ کام کرواتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اب ان کی پارٹی اور سنگھ کولکاتا کو بھی فسادات کی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں ۔ وہ تو خیر سے بنگال کے عوام نے انہیں بار بار دھول چٹادی ہے لیکن یہ بڑے بے شرم لوگ ہیں جو گالیاں سن کر بے مزہ نہیں ہوتے ۔ اس لئے ان کی مسلسل کوشش یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح بنگال کو بھی اپنی گندگی کی آماجگاہ بنادیں ۔ یہ بات کولکاتا ہائی کورٹ کو معلوم نہ ہو ایسا نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نے جان بوجھ کر اس طبقہ کو قوت پہنچانے کیلئے حکومت مغربی بنگال سے ایسا بے تکا سوال کیا ہے ۔ بہر حال بات مغربی بنگال کی چل رہی ہے ۔میرا بچپن سے ہائی اسکول تک کا زمانہ کولکاتا میں ہی گزرا ہے اور وہاں گزرا ہے جہاں مسلم آبادی ہونے کے باوجود درگا پوجا کے پنڈال سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اس کی وجہ وہاں کے عوام کی آپسی بھائی چارہ کی خصلت ہے ۔دوسری اہم وجہ انتظامیہ کی چستی اور غیر جانبداری ہے جو اب ہندوستان میں خال خال ہی نظر آتا ہے ۔ آج کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے جب درگا پوجا یا مسلمانوں کا کوئی تہوار ایک ساتھ آیا ہو ۔ پہلے بھی ایسا ہو تا آیا ہے اور ہمیشہ انتظامیہ نے اسے خوش اسلوبی سے نپٹایا ہے اور عوام نے ان کا تعاون کیا ہے ۔ کہہ سکتے ہیں کہ امن پسندی اور مل جل کر رہنا کولکاتا اور بنگال والوں کی سرشت میں شامل ہے ۔ ہم نے وہ وقت دیکھا ہے کہ جب مسجد کے سامنے بھی درگا پوجا پنڈال سے مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوا جبکہ وسرجن والے دن بقرعید تھی ۔انتظامیہ نے درگا پوجا پنڈال کے ذمہ داروں کو ایک دن قبل شام تک کا وقت دیا تھا ۔ شاید پنڈال انتظامیہ کچھ وقت زیادہ لے لیا تو پولس اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آئی اور اس نے سب کچھ صاف کرکے مسجد کے سامنے نماز کیلئے جگہ بنائی اور پنڈال والوں کو اس کا جرمانہ بھرنا پڑا تھا ۔
ممتا سے ایک غلطی یہ ہو گئی کہ انہیں اس طرح کے فیصلے سر عام نہیں کرنے چاہئے تھے۔یہ انتظامیہ کو وارننگ دے کر ان کے حوالے کردیتیں تو معاملہ طول نہیں پکڑتا ۔لیکن کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہوتا ہے جتنا کہ ہم سمجھ لیتے ہیں ۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ حکومت کے پاس ریاستی خفیہ ایجنسی بھی ہوتی ہے جس نے کوئی ایسی خبر دی ہوگی جس کی وجہ سے ممتا کو علی الاعلان درگا وسرجن کی بات کو سر عام کہنا پڑا ۔ ممتا کے اُس اعلان پر لالو پرشاد نے اپنے ٹوئٹ میں ممتا کو متنبہ بھی کیا تھا کہ آپ سنگھ کے جال میں پھنس رہی ہیں ۔ لالو پرشاد کا کہنا تھا کہ اب یہ سنگھ والے ہندوؤں کو دبانے کی بات کا رونا رونا شروع کردیں گے اور وہی ہوا ۔ ہائی کورٹ میں معاملہ گیا اور اس نے فٹافٹ حکومت کے خلاف ریمارک پاس کردیا ۔یہ وہی کولکاتا ہائی کورٹ ہے جہاں سے 80 کی دہائی میں گؤ کشی پر اسٹے لگایا گیا تھا جس کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں تب سے زیر التوا ہے اور سپریم کورٹ کا کولکاتا ہائی کورٹ کے اسٹے پر اسٹے ہے ۔یہ وہی کولکاتا ہائی کورٹ ہے جس نے اسی 80کی دہائی میں چاندمل چوپڑہ کی قرآن کے خلاف درخواست کو سماعت کے لئے قبول کرلیا تھا ۔ ممتا کے انتظامی فیصلے جو کہ بنگال میں امن و امان کی برقراری کیلئے ہیں پر ہائی کورٹ کو کہنا چاہئے تھا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے وہ اس میں مداخلت نہیں کرسکتے لیکن یہاں تو پوری گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے ۔ عدلیہ اپنا وقار بڑی تیزی کے ساتھ کھوتی جارہی ہے ۔
وزیر اعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا ۔سنگھ اور بی جے پی کی پوری فسادی منڈلی اس ریاست کو تاکے بیٹھی ہے کہ کب موقعہ ملے اور اسے بھی اپنے خونی پنجہ کا شکار بنایا جائے ۔ ایسی صورت میں جبکہ مغربی بنگال کی مارکسی کمیونسٹ پارٹی بھی ہندو ہو گئی ہے اور انہوں نے اپنے کیڈر کو درگا پوجا میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے جبکہ ان پارٹیوں کے مسلمان رکن کو حج کی اجازت لینی پڑتی ہے وہ بلا اجازت حج کو نہیں جاسکتے ۔ ایسے حالات میں ممتا بنرجی اگر بنگال کو بچانا چاہتی ہیں تو بڑے تحمل اور بردباری سے خونی بھیڑیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ کمیونسٹ بھی سیاسی دشمنی میں کمیونسٹ سے ہندو بن رہے ہیں ۔ اس کی ایک مثال گورکھا لینڈ کی مانگ پردارجلنگ ہڑتال کی سی پی آئی کے ذریعہ حمایت بھی ہے ۔سب کو پتہ ہے کہ دارجلنگ میں گورکھا لینڈ والی تحریک کو پھر سے زندہ کرنے کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو بی جے پی والی ریاستوں میں کسانوں ، جاٹوں اور گوجروں کی تحریکوں نے ان کا ناک میں دم کردیا تھا تو انہوں نے اس خیال سے غیر بی جے پی ریاستوں میں خلفشار کو ہوا دیا کہ میڈیا اور عوام کا ذہن ادھر نہ آنے پائے کہ بی جے پی کی ریاستوں میں ہی فسادات کیوں ہے ؟ یعنی بی جے پی چاہتی ہے کہ اس کی ریاستوں میں امن نہیں تو کسی دوسری ریاستوں میں امن کیوں ؟ ان کی ریاستوں میں کسان خودکشی کررہے ہیں اور بڑے تعلیمی بدعنوانی ویاپم جیسے میں پچاس سے زیادہ لوگ چوہوں کی طرح جگہ بجگہ مرے پائے گئے تو دوسری ریاستوں کے عوام خوشحال کیوں رہیں ؟ ان کے یہاں گؤ نسل کے ذبیحہ پر پابندی سے کسان غیرب مزدور چمڑے کی صنعت تباہ ہوئے ہیں تو بنگال اور کیرالا وغیرہ میں کسان ،مزدور کیوں بدحالی کا شکار نہ ہوں اور چمڑے کی صنعت سے اس ریاست کی معیشت کو تقویت کیوں ملے ؟ کل ملا کر بی جے کی پریشانی یہ ہے کہ اس کی خراب پالیسی کے سبب ان کی حکومت والی ریاست دم کٹی بلی بن چکی ہے تو دیگر ریاستوں کا بھی یہی حال ہونا چاہئے ۔ اس لئے ممتا کو جوش نہیں ہوش سے اور جلد بازی نہیں بلکہ حکمت سے کام لینا ہوگا ۔کیوں کہ اب پورے ملک کے انصاف پسندوں کی نظریں ان کی ہی طرف ہیں ۔ہر چند کے ان کی صف میں کچھ اور ریاستیں بھی شامل ہیں جیسے دہلی اور کیرالا لیکن انہیں مرکزیت حاصل ہے۔

0 comments:

Media,

ہندوستان میں مسلم میڈیا کا مستقبل ؟



عمر فراہی  ۔  ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com‎

کسی نے تقریباً چھ مہینے پہلے اپریل کے مہینے؟میں ہمیں یہ اطلاع دی تھی کہ این ڈی ٹی وی چینل بند ہونے کے کگار پر ہے ۔میں نے پوچھا اس کی وجہ تو کہنے لگے کہ جب سے بی جے پی حکومت آئی ہے اس کے سرکاری اشتہارات کو بہت ہی کم کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے این ڈی ٹی وی کے عملہ کو تین مہینے سے تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں ۔ اس وقت چونکہ اس خبر کی دوسرے کسی معتبر ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی تھی اس لئےمضمون لکھ کر بھی ادھورا چھوڑنا پڑا لیکن جون کے مہینے میں جب ہم نے یہ خبر پڑھی کہ سی بی آئی نے این ڈی ٹی وی کے ایک ڈائریکٹر پرنے رائے کےگھر پر چھاپا مارا تو ہمارا شک یقین میں بدل گیا کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام میں اخبارات اور ٹی وی چینل کو چلانے کیلئے سیاست دانوں کی جی حضوری بھی لازمی ہے ۔ این ڈی ٹی وی کے بارے میں مشہور ہے کہ اس چینل نے اپنے انصاف پسند اور روادارانہ کردار کو قائم رکھا ہوا ہے ۔ خاص طور سے حالات حاضرہ پر رویش کمار کے بے لاگ تبصرے سے ریاستی دہشت گردی کا جو انکشاف ہوتا رہا ہے حکومت اسے کبھی برداشت نہیں کرسکتی ۔ روہت وومیلا ، کنہیا کمار، اخلاق  ، بھوپال فرضی انکاؤنٹر اور نجیب کے خلاف ناانصافی اور زیادتی کو رویش کمار نے جس بے باکی سے اٹھایا ہندوستانی میڈیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔شاید اسی جرات مندانہ قدم کی وجہ سے موجودہ حکومت نےاین ڈی ٹی وی کے ایک دن کے نشریات پر پابندی بھی لگانے کی کوشس کی تھی لیکن سرکار کو اپنے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے 1947 سے قبل جب ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کی تھی تو اس تحریک کا اصل نصب العین ہی یہ تھا کہ سرکاریں جو عوام پر ظلم کرتی ہیں عوام آزادانہ طور پر اس کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کر سکیں ۔ شروع کے دور میں ایسا محسوس بھی ہوا کہ جمہوریت کے عروج میں آنے کے بعد عوام رفتہ رفتہ اپنے اس نصب العین کو حاصل بھی کرلے گی ۔ لیکن اندرا گاندھی نے ستر کی دہائی میں ایمرجنسی نافذ کرکے جمہوریت کی دیوی پر داغ لگا دیا۔ہندوستانی جمہوریت میں ایمرجنسی کا دور ہی ایک ایسا سنگ میل ہے جس کے بعد بدعنوانی اور لاقانونیت کا دور شروع ہوگیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ 1947 اور 1980 کے دوران ہندوستان جس طرح تبدیل ہوتا رہا اس تبدیلی سے ملک کا جو نقصان ہوا اور ہورہا ہے وہ ایک الگ گفتگو کا موضوع ہے ۔ پندرہ سے بیس کروڑ مسلمان جنھوں نے آزادی کے بعد پاکستان پر ایک ہندو اکثریت والی ریاست ہندوستان کو ترجیح دی اس کا اپنامستقبل بھی دھندلا نظر آنے لگا اور اب 2017 میں ملک کا مسلمان اس پس وپیش میں ہے کہ کیااس کی آنے والی نسل اپنے ایمان اور عقیدے کو بھی محفوظ رکھ پائےگی ؟ دنیا کے حالات خاص طور سے پاکستان افغانستان اورمشرق وسطیٰ کے مسلمانوں میں جو احیاء اسلام کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ہر طرف سے گھرا ہوا ہندوستان کا مسلمان اپنا سارا وقت ان تحریکوں کی مذمت میں سرف کر رہا ہے تاکہ ملک میں وہ آرایس ایس اور اسلام مخالف لبر ل طاقتوں کے عتاب کا شکار نہ ہو ۔ مشکل یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے مذمت کرنے سے کسی علاقے کا مسلمان اپنے حق کی جدوجہد تو نہیں ختم کردےگا ، ہاں مسلمانوں کو خود آگے بڑھ کر برادران وطن میں اپنے طور پر اپنے رابطے سے بہتر اخلاق اورصالح کردار کا مظاہرہ ہی اس کا حل ہے ۔ بدقسمتی سے اخلاق و کردار اور ایمان و یقین کے جس سرمائے سے وہ برادران وطن کو متاثر کرسکتا تھا اس نے خود کو قومی دھارے کی مادی سوچ اور فکر میں شامل کرکے خود کو اسلامی غیرت اور حمیت سے بھی محروم کر لیا ہے ۔
ہم بات کر رہے تھے میڈیا کی کہ جب ایک ہندو اور سیکولر چینل حق بات کہنے کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے تو یہی بات مسلمانوں کے کسی میڈیا کی طرف سے کیسے برداشت کی جائے گی ۔پہلی بات تو  یہ کہ مسلمانوں کا کوئی الیکٹرانک چینل نہیں ہے اور اب ہو بھی نہیں سکتا ۔ آپ کہیں گے کیوں ؟ تو ہمارا جواب یہ ہے کہ چندوں کی رقومات سے مدرسے تو سنبھل نہیں رہے ہیں الیکٹرانک میڈیا نےتو اب ایک چھوٹی موٹی ریاست کا درجہ حاصل کرلیا ہے ، جسے منظم طریقے سے چلانے کیلئے ہر سال سیکڑوں کروڑ کے بجٹ کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ اور اب لیجئے این ڈی ٹی وی کے اسی فیصد شیئر دو سو کروڑ روپئےمیں  فروخت ہو گئے ہیں ۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ بہت سارے مسلم سرمایہ دار کے پاس بھی اتنی رقم تھی چاہتے تو خرید لیتے ۔ بات تو صحیح ہے خریدا جاسکتا تھا لیکن پھر تو وہی لو جہاد کا بکھیڑاہوجاتا کہ این ڈی ٹی وی کو مسلمان بنا لیا گیا ہے اور یہ ایک دہشت گرد چینل ہے ۔ پھر کون اس مسلمان میڈیا کی بات پر اعتبار کرتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک کے موجودہ ماحول میں مسلمانوں کی اصلی طاقت ہندو صحافی ہی ہیں ۔رویش کمار جب تک ہندو رہ کر آواز اٹھاتے ہیں لوگوں میں سنے جاتے رہیں گے ۔ کنہیا کمار ہندو ہے اس لیے اس کی باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے مگر اتنی ہی دلچسپی سے شہلا رشید اور عمر خالد کو نہیں سنا جاتا ۔ یہ بات کنہیاکمار نے بھی اپنی ایک تقریر میں کہی ہے کہ ملک کو اس قدر فرقہ وارانہ ماحول میں تبدیل کر دیا گیا ہے کہ وہی بات جو میں کہہ رہا ہوں خالد عمر اس لیے کہنے کی جرات نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مسلمان ہے ۔ بھائی ایس ایم مشرف کو آخر ہیمنت کرکرے پر اور کتنی جامع تحقیق پیش کرنےکی ضرورت تھی ؟ لیکن الیکٹرانک اور قومی میڈ یا میں اس کتاب کو اس لیے موضوع نہیں بنایا گیاکیونکہ مشرف مسلمان ہیں ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہےکہ ہندوستان میں مسلمان اگر ایک الیکٹرانک میڈیا قائم بھی کر لیتے ہیں تو بھی اس مسلمان میڈیا کے شور شرابے پر یقین کون کرے گا اور کیا یہ میڈیا اتنا آزاد ہوگا کہ وہ اپنی آزادانہ تحقیقی رپورٹ پیش کر سکے ۔

0 comments:

Education

سرکاری اسکولوں کی نجکاری کی سفارش:نیتی آیوگ کی بد نیتی !



نہال صغیر

اگست کے آخری دن تیس یا اکتیس تاریخ کو صرف ایک ہندی اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ حکومت سرکاری اسکولوں کو نجی زمروں کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔تعجب ہے کہ اتنی اہم خبر صرف بھوپال سماچار میں شائع ہوئی اور اسی کے حوالہ سے ایک دو نیوز پورٹل اور اخباروں نے شائع کی ہے ۔ موجودہ حکومت جس نے منصوبہ بندی کمیشن جس کو نہرو نے بنایا تھا کو نیتی آیوگ میں تبدیل کردیا تھا ۔مودی حکومت کو نام تبدیل کرنے اور پرانے منصوبوں کو نیا نام دینے کی سنک سوار ہے ۔اس کی شروعات منصوبہ بندی کمیشن کو نیتی آیوگ میں تبدیل کرنے سے ہوئی تھی ۔موجودہ مودی حکومت کو تاریخ میں کسی اچھے نام سے یاد رکھا جائے یا نہیں لیکن ناموں کی تبدیلی ،نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے غیر دانشمندانہ اور عوام مخالف کاموں اور منصوں کیلئے ضرور یاد رکھا جائے گا ۔اسی نیتی آیوگ کی بد نیتی اس وقت اجاگر ہوئی جب اس نے حکومت سے سرکاری اسکولوں کی نجکاری کی سفارش کی ۔اس کیلئے اس نے جو دلیل پیش کی ہے اس میں سب سے اہم ہے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا گرتا معیار اور بچوں کی گھٹتی تعداد۔نیتی آیوگ کے مطابق دوہزار دس سے دوہزار چودہ کے دوران سرکاری اسکولوں کی تعداد میں ساڑھے تیرہ ہزار کا اضافہ ہوا جبکہ ایک اعشاریہ تیرہ کروڑ طلبہ کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ۔نیتی آیوگ نے جو کچھ بتایا ہے وہ مجھے نہیں لگتا کسی جانکار شخص کی معلومات میں کسی اضافہ کا سبب بنے گا ۔ یہ سب کچھ ہمیں معلوم ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ سرکاری اسکولوں کی تعلیم کا معیار دن بدن کیوں گرتا جارہا ہے ۔حالت یہ ہو گئی ہے کہ کسی کے پاس تھوڑی سی بھی گنجائش ہے تو وہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں داخل کراتا ہے اور بچوں کو نئے زمانہ سے ہم آہنگ کرنے کیلئے والدین اپنا سب کچھ ان کی تعلیم پر لٹا دیتے ہیں اور اس سلسلے میں پرائیوٹ اسکول ان کی دولت کو لٹانے کی خواہش کا بڑا احترام کرتے ہیں ۔مختلف بہانوں سے ان کی جیبوں کو کاٹنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ ان کا بچہ اسکول سے نکل نہ جائے ۔سرکاری اسکولوں میں تو اب وہی بچے پڑھتے ہیں جن کے والدین کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہیں اور خیر سے ہمارے عظیم ملک میں ان خستہ حال افراد کی آبادی پچاس فیصدی سے بھی زیادہ ہے ۔یہ طبقہ اپنے بچوں کو پڑھائے یا اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھائے جس بوجھ کو مودی حکومت نے اور وزنی بنادیا ہے ۔یہی سبب ہے کہ اس حکومت کی آمد کے بعد غریب کسانوں کی خود کشی میں شرمناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔اب اگر ان سرکاری اسکولوں کو نجی ہاتھوں کے حوالے کردے گی تو یہ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ کہاں جائیں گے اور ان کے بچوں کی تعلیمی ضرورت کیا فائیو اسٹار پبلک اسکول پوری کریں گے ؟
سوال یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کے گرتے تعلیمی معیار اور گھٹتے طلبہ کی تعداد کیلئے کون ذمہ دار ہے ؟ملک کا ایک عام آدمی جسے سیاست اور اس کے طور طریقوں کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں کیوں کہ اسے اپنے خاندان کیلئے دو وقت کی روزی کمانے سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ ان بحثوں میں پڑے اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرے ۔وہ بھی کہے گا کہ اس کی راست ذمہ داری صرف حکومت کے سر ہے ۔ حکومت خواہ کانگریس کی ہو یا اب یہ مودی سرکار اس کو عام آدمی کی ضرورت سے زیادہ سروکار نہیں ہے ۔اس عام آدمی سے جو اسے ووٹ دے کر حکومت میں لاتا ہے ۔لیکن بدلے میں اسے صرف غربت و افلاس ہی ملا کرتا ہے ۔حکومت نے کبھی اس جانب توجہ ی نہیں کی کہ سرکاری اسکولوں کے معیار تعلیم کو بلند کرنے کیلئے کیا کیا جائے ۔حالانکہ یہ کوئی لاینحل مسئلہ نہیں ہے بس شرط یہ ہے کہ حکومت کو عام آدمی کی پریشانیوں کا اندازہ اور وہ اسے حل کرنے میں مخلص ہو محض ووٹ بینک ہی اس کے پیش نظر نہ ہو۔ماہر تعلیم مبارک کاپڑی کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا تعلیمی نظام پچاس سال تک ماسکو کا طواف کرتا رہا جس نے ہمارے یہاں ڈاکٹر اور انجینئروں کی بھرمار تو کردی حالانکہ آبادی کے لحاظ سے اس کی تعداد ابھی بھی کافی کم ہے لیکن اخلاقیات کاجنازہ اٹھ گیا ۔کیوں کہ ماسکو کے نظریہ میں اخلاقیات کیلئے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔اخلاقیات صرف مذہب کے ذریعہ سے آتا ہے اور وہاں مذہب نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب پچھلے بیس برسوں سے ہمارے تعلیمی نظام کا قبلہ واشنگٹن اور نیو یارک ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ کسی سفارش یا نکات بیان کرنے کے بعد یہ مثال دی جاتی ہے کہ جیسا کہ امریکہ میں ہے !اگر امریکہ پرستی کا یہی جذبہ برقرار رہا تو ہمارے بچوں کے اسکولی بستوں سے بھی ہتھیار اور کنڈوم کے پیکٹ ملنا شروع ہو جائیں گے ۔یہ مثال اس لئے پیش کی گئی ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام کی بدحالی کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔اب جو حکومت آئی ہے وہ تخٰیلاتی اور ویدک دور کو تعلیمی نظام میں شامل کرنا چاہتی ہے ۔یعنی کسی کو بھی تعلیم کی بنیاد سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ بچے موجودہ دور کے تقاضوں پر پورے اتریں اور ان کے اخلاقیات بھی درست ہوں ۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ سرکاری اسکولوں کو نجی ہاتھوں میں دے کر ملک کے پچاس فیصد سے زیادہ عوام کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے بجائے وہ اسکولوں کی حالت سدھارے اور امریکہ پرستی میں تعلیم کی سوداگری نہ کرے ۔بات تو یہ حکومت سوا ارب آبادی کی بہبودگی کی کرتی ہے لیکن فائدہ چند فیصد افراد کو پہنچانے کی پالیسی پر گامزن ہے ۔جب پرائیوٹ اسکولوں میں بچوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے ۔اس کا رکھ رکھاؤ بہتر ہو سکتا ہے تو سرکاری اسکولوں میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہے ۔مجھے نہیں معلوم کہ ابتدائی اور ثانوی تعلیمی اداروں کی بہتری کیلئے کتنی کمیشنیں بنی ہیں اور اس نے کتنی سفارشیں کی ہیں لیکن جو کچھ ہم سمجھ سکتے ہیں اور جس کا کرنا آسان بھی ہے اسے تو کیا ہی جاسکتا ہے جس سے سرکاری اسکولوں کے معیار کو بلند کی جاسکے ۔اس میں اساتذہ کو صرف تعلیمی مصروفیات میں ہی لگایا جائے ان سے حکومت دوسرے کوئی بھی کام نہ لئے جائیں ۔جیسا کہ اکثر ریاستوں میں ہوتا ہے کہ اسکول کا ٹیچر پیون اور کلرک تک کی ذمہ داری ادا کررہا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بہت سی سرکاری مہم اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اسے کولہو کے بیل کی طرح جوت دیا جاتا ہے ۔دوسرے طلبہ کی بہتر کارکردگی کو اساتذہ کے پروموشن سے بھی جوڑا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ جب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب اساتذہ کو تعلیمی مصروفیات کے علاوہ کہیں اور کوئی ذمہ داری نہ دی جائے ۔
ایک سوال اور یہ ہے کہ آخر نیتی آیوگ کی اس بد نیتی کے پیچھے مقصد کیا ہے ؟ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت آر ایس ایس کی ہے اور حکومت ہر حال میں آر ایس ایس کو خود کفیل اور زیادہ متحرک کرنا چاہتی ہے ۔ یعنی ایماندار مودی حکومت میں لاکھوں کروڑ کی بدعنوانی کا ایک اورمعاملہ قانونی طور پر سامنے آنے والا ہے۔ لاکھوں کروڑ روپیوں کی مالیت والے سرکاری اسکولوں میں سے پچاس فیصد اسکول اور اس کی زمین سنگھ کو دے دی جاتی ہے تو سوچئے سنگھ کے تو وارے نیارے ہو جائیں گے ۔اسے جہاں مالی فائدہ ہو گا وہیں اس کو ذہن سازی کیلئے بنے بنائے اسکول مل جائیں گے جس سے وہ ان طبقات کو بھی جو خود کو ہندو قومیت سے علیحدہ مانتے ہیں انہیں ہندو بنانے اور مسلمانوں ،عیسائیوں اور دیگر اقلیتی و پسماندہ طبقات کو اپنی غلامی میں لینے میں آسانی ہو جائے گی ۔جیسا کہ انہوں نے اپنے ہی ہم مذہبوں کو تین ہزار سال تک اپنا غلام بنائے رکھا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جانب توجہ دی جائے اور اس سلسلے میں بھی کوئی تحریک چلائی جائے اور عوام کو بیدار کیا جائے کہ حکومت تمہارے بچوں کے تعلیمی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے جارہی ہے ۔انہیں بتایا جایا کہ نیتی آیوگ کی سب کیلئے تعلیم جیسے دستوری ضمانت پر نیت خراب ہو چکی ہے ۔

0 comments:

Muslim Issues

منزل یہی کٹھن ہے



قاسم سید
علامہ اقبال کہہ گئے کہ غلامی میں قوموں کاضمیری نہیں بدلتا‘ان کے طور طریق ‘اندازفکر‘اہداف سب کچھ بدل جاتے ہیں۔ماضی کی شاندار تاریخ کی افیم میں مدہوش‘ حالات کے چیلنجوں سے بے خبر اور مستقبل سے لاپرواہ۔ اسے طارق بن زیادکے سمندر میں گھوڑے دوڑادینے ‘کشتیاں جلانے‘ جلال الدین خوارزم کے پہاڑ کی چوٹی سے گھوڑے سمیت دریا میں چھلانگ لگادینے‘اسپین میں سینکڑوں سال کی حکمرانی‘ دنیا کے بیشتر خطوں تک خلافت کی وسعت ہندوستان میں صدیوں اقتدار کرنے اور مٹھی بھرہونے کے باوجود اکثریت پرتسلط تاج محل‘ لال قلعہ اور قطب مینارجیسی تعمیرات کا ورد کرکے اپنی ماضی کی شان وشوکت کے قصیدے بیان کرنے میں خوب لطف آتا ہے مگراس کے پیچھے کی جدوجہد قربانیاں یاد نہیں رہتیں۔ سقوط بغداد کی عبرتناک تاریخ پر غورکرنا نہیں چاہتا۔
صرف ہندوستان کے پس منظر میں بات کی جائے تو یہ سوال جواب چاہتا ہے کہ سیکڑوں سال کی بادشاہت کا ریکارڈ رکھنے والوں کے ساتھ ایساکیا ہوا کہ وہ صرف 70سال میں ہی کسی بوسیدہ عمارت کی طرح زمیں بوس ہوگئے ۔ کیا جاہ وحشمت کی بنیادیں اتنی کمزور تھیں کہ وہ جمہوری دور حکومت کے چند جھٹکے برداشت نہیں کرسکے۔ اس کی تہدیبی‘ ثقافتی‘تعلیمی اور سماجی اقدارشدید خطرات سے دوچار ہیں اور سیاسی طور پر اتنے مختصر عرصہ میں صفر بنادیاگیا۔ اس کا ووٹ نوٹ بندی کے بعد چلن میں موجود کرنسی کے کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح بنادیاگیا ۔ دوسری طرف ہزار سالہ ’غلامی‘ کےباوجود اکثریتی فرقہ اپنی تہذیبی ولسانی شناخت کےساتھ اٹھ کھڑاہوا۔ ہندی سرکاری سرپرستی سے محروم ہونے کے باوجود سرکاری زبان بنادی گئی اور اب تہذیبی جارحیت تکلفات کے تمام پردے ہٹاکر اقلیتی تہذیبی شناخت کو اپنے میں ضم کرناچاہتی ہے۔ آخر وہ بغیر سرکاری سرپرستی اورتحفظ کے خود کو کس طرح زندہ رکھنے میں کامیاب ہوئی اور کیوں۔ صرف 70سال میں ہماری ریڑھ کا ساراپانی نکال لیاگیا اور زمین پر رینگنے والے کیڑے سے بھی زیادہ بے حیثیت بنادئیے گئے۔ گذشتہ چند سالوں میں مزاحمت کی قوت میں کمی آئی اور مصالحت کی ہوا کچھ زیادہ ہی تیز چلنے لگی۔ابھی قربانی کے موقع پر علما کے ایک طبقہ کی طرف سے فدویانہ رویہ اختیار کیاگیا ۔ وہ یہ اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید’’قربانی‘‘ کے لئے تیار رہناچاہئے۔ پولرائزیشن کی آندھی سیاست میں بڑا چیلنج بن کر ابھری ہے۔ ہر معاملہ کو ہندومسلم کی حیثیت سے دیکھنے کی سیاست اثر دار ہونے لگی اور سیکولر پارٹیاں بھی حساس مسائل پر پوزیشن لینے سے گریز کرنے لگی ہیں۔ وہ پارٹیاں جن کے لئے ہم نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ گائے کی طرح ان کے کھونٹے سے بندھے رہے‘ کبھی اس یکطرفہ غیر حقیقی پالیسی کے منفی اثرات اور مضمرات پر توجہ نہیں دی اوروہ بڑے پیار سے ہماری جڑیں کاٹتے رہے۔ سروں کی فصل بوتے رہے۔ معاشیات کو فسادات کی آڑ میں تباہ کرتے رہے جب یہ حکمت عملی بے نقاب ہوئی اور دہشت گردی کے مسئلہ نے عالمی سطح پر سراٹھایاتو انہیں اس میں بھی وار کرنے اور نوجوانوں کے حوصلے توڑنے کا راستہ نظرآیا اور تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو ٹارگٹ بناکر ان کی حب الوطنی اور شرافت کو مشتبہ بنایا۔اس کا آغاز بھی خیر سے سیکولر دوستوں کی طرف سے ہوا ۔ وہ آج ٹی وی ڈبیٹ میں فخر سے کہتے ہیں کہ اس ملک کو ٹاڈا‘ پوٹا ‘مکوکا اور یو اے پی اے جیسے ظالمانہ اور غیرانسانی قانون ہم نے دئیے۔ یعنی بہت ہی عیاری کے ساتھ ہر سطح پر مظلوم کو ظالم‘ مشتبہ شہری بنانے کی منافقانہ مہم کے سرخیل سیکولر دوست ہی رہےبعض لوگوں نے ان سے غیر مشروط وفاداری کا کلمہ پڑھ لیا ہے کیونکہ اسلاف یہ وصیت کرگئے تھے کہ بیٹا کچھ بھی ہوجائے ان کا پایہ مت چھوڑنا بھلے تمہارا مثلہ کیوں نہ بنادیں اور کسی بھی حالت میں الگ راہ مت اپنانا۔ اپنامقدر ان سے تاحیات وابستہ کر لو اور طارق بن زیادہ کی طرح تمام کشتیاں جلادو۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے کی غلطی کروگے تو پتھر کے ہوجائو گے۔ جبکہ جمہوریت میں پل پل رویے بدلتے ہیں۔ ایشوز کی ترجیحات بدلتی ہیں۔ دوست اور دشمن بدلتے ہیں۔ ہرکمیونٹی اپنے مفادات کےتحت فیصلے لیتی ہے۔ ہر الیکشن میں محاذ بنتے اور بگڑتے ہیں۔ جمودیت پر مبنی پالیسی کا جو حشر ہوتا ہے اس کے اثرات نظرآرہے ہیں تو اس کی تعبیرات وتشریحات کی جاتی ہیں۔ ہمارے تہذیبی لسانی تعلیمی قاتلوں کا دفاع کیاجاتا ہے اور ان سے یہ سوال کرنابھی توہین کے دائرے میں آتا ہے کہ حضور آپ کے اقتدار میں ایسے عناصر شوریدہ سرکیو ںہوگئے جو بہت کمزور تھے۔ انہیں کس نے دودھ پلایا۔ رہی سہی کسر علما کے اس طبقہ نے پوری کردی جو دوسروں کو جزا وسزا کے ساتھ ایمان یافتہ ہونے کی تصدیق ‘تردید اور تنسیخ کرتاہے۔ مسلک کی بنیاد پر تفریق وانتشار اس کا محبوب مشغلہ ہے ۔ دائرہ اسلام میں رہنے یا باہر کرنے کے جملہ حقوق محفوظ ہیں جوغیروں کو گلے لگانے اس کے دسترخوان کا شریک اور سماجی روابط‘قومی یک جہتی کے نام پر بڑھ چڑھ کر حصہ دار بنتا ہے لیکن دینی بھائی اتفاق سے دوسرے مسلک کا ہوتو بھنویں تن جاتی ہیں۔ منہ سے جھاگ نکلنے لگتے ہیں۔ انہوں نے اپنی الگ کا ئنات بنائی ہے۔ جنت دوزخ کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ انگشت نمائی کرنے پر اسلام سے نکال باہر کرنے کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ بقیہ علما نے ان کے لئے میدان کھلا چھوڑدیا ہے۔ مسلکی انتشار کو ہوا دینے والے نہ اسلام کے خیر خواہ ہیں نہ مسلمانوں کے وہ جانے انجانے میں ان طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں جنہوں نے تہیہ کررکھا ہے کہ اقلیتی طبقہ کو اتنے خانوں میں بانٹ دو کہ شیرازہ بکھر جائے۔ مسجدوں پر جھگڑے جماعتوں میں انتشار‘گروہ بازی‘علمائے کرام کی ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی ‘خودکو بہتر اور دوسرے کو مجموعہ خباثت بتانے کی کوشش اس کی علامتیں ہیں جن علما کرام پر سواداعظم بھروسہ کرتا ہے ۔ گوشہ عافیت میں رہناپسند کرتے ہیں ۔ خانقاہوں سے باہر نکلنا نہیں چاہتے۔ چنانچہ اس وقت امت پر اس طرح یلغار ہے جیسے کوئی بھوکا دسترخوان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ حیرت وافسوس ہے کہ شدائد کے پہاڑ بھی ایک جگہ بیٹھنے پر مجبور کرنے میں ناکام ہیں شاید مزید اذیتوں کا انتظارہے۔ حد تو یہ ہےکہ ایسے مناظر بھی گناہ گار آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ روہنگیائی باشندوں سے اظہار یک جہتی کے لئےبھی مسالک کی دیوار نہیں گرسکی۔ ایک ہی شہر میں الگ الگ مسلک کے علما ایک ساتھ نہیں آسکے اور الگ مظاہرے کئے۔ گھر گھر میں جھگڑے ہیں ۔ ایک ہی گھر میں دوجماعتیں اور 20کروڑ مسلمانوں کو متحد ہونے کی اپیلیں اس سے بڑا مذاق شاید ہی کوئی ہو اب توسوشل میڈیا پر سرگرم نوخیز نسل نے وہاں بھی کڑواہٹ گھول دی ہے ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم جا کہاں رہے ہیں۔ چاہتے کیا ہیں۔ منزل کیا ہے۔ اہداف کیا ہیں۔ کولہو کا بیل بنے آنکھوں پر پٹی باندھے گول گول گھمائے جارہے ہیں اور ہم گھوم رہے ہیں۔
موجودہ سیاست نے ہرمحاذ پر جکڑ رکھا ہے۔ مگر جینے کے طریقہ تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ داخلی کمزوریاں جیتی ہوئی جنگیں ہرادیتی ہیں اور شکست کی وجہ بن جاتی ہیں ۔ یہ باتیں سب جانتے ہیں پھر بھی سمجھنے کو تیار نہیں پتہ نہیں کس کی ڈور کہا ں سے ہلائی جارہی ہے کہ ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں۔ابھی وقت ہاتھ سے نکلا نہیں ہے۔ سنبھلنے اور سنبھالنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بارے میں سوچیں۔ اختلاف برقرار رکھ کر اس میں اتحاد نہیں تومفاہمت کی راہیں تلاش کریں۔ قوت برداشت کو جارحانہ رویوں میں جگہ دیں۔ نامرادی کے صحرائوں سے ہی کامیابی کا پانی نکلے گا ۔ انشاء اللہ۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

Muslim Issues

یہاں بے گناہ کون ہے قاتل کے سوا؟




نہال صغیر

بھوپال جیل میں مقید جبر کے ہاتھوں ممنوعہ قرار دی گئی تنظیم سیمی کے آٹھ ارکان کو جیل سے نکال کر دو رایک پہاڑی پر لے جاکر قتل کردیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ وہ لوگ جیل سے فرار ہوئے تھے جو پولس کے ساتھ تصادم میں مارے گئے ہیں ۔جیل سے فرار ہونے کی عجیب و غریب داستانیں سنائی گئیں۔یا تو ہماری پولس ، تفتیشی ایجنسی اور خفیہ محکمہ بہت اچھے اسکرپٹ رائٹر ہیں یا پھر ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے بہترین فکشن نگاروں سے انہوں نے خدمات مستعار لی ہیں ۔ لیکن فکشن تو بہر حال فکشن ہی ہوتا ہے ۔اس طرح کی کہانی میں کئی خامیاں رہتی ہیں وہ سیمی کے ان آٹھ مظلومین اور مقتولین کے لئے گھڑے گئے قصہ کہانیوں اور افسانوں میں بھی خامیاں تھیں ۔ مسلمانوں سمیت انصاف اور آزادی میں یقین رکھنے والے ہر فرد نے اس پر کئی سوالات اٹھائے ۔ ان سوالوں میں ایک سوال تویہ ہے کہ عین واقعہ کے وقت ہی سی سی ٹی وی کیمرے بند کیوں ہو جاتے ہیں ۔ کیا انہیں حیا آتی ہے کہ وہ یہ سب دیکھنا اوراسے ریکارڈ رکھنا نہیں چاہتے ۔اگر ایسا ہے تو ہماری پولس خفیہ ایجنسی اور دیگر تفتیشی اہلکاروں کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ بے جان کیمرے بھی ظلم کی داستانوں کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور ایک یہ گوشت پوست کا چلتا پھرتا انسان ہے جو کسی بے گناہ کو مارنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتا ۔شاید ان سے بہتر تو جنگل درندے ہیں ۔ بحالت مجبوری اس پر ایک یک رکنی تفتیشی کمیٹی مقرر کردی گئی جس نے قاتلوں کے گروہ یعنی اے ٹی ایس اور پولس کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ان اٹھ مظلوموں کو مجرم قرار دیدیا اور یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کا قتل عین قانون کے مطابق ہے ۔ بھوپال جیل کے باہر لے جاکر مسلم نوجوانوں کے قتل کی یہ نا ہی پہلی واردات ہے اور اگر مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے اور مسلم تنظیموں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ تعمیر کرنے کی ذہنیت سے نکل کر امت کیلئے کام نہیں کیا تو یہ آخری بھی نہیں ہوگا ۔اس کے بعد ایک کے بعد ایک ایک سلسلہ دیکھیں گے جس میں زیر سماعت مسلم نوجوانوں کو اسی طرح قتل ہوتا دیکھیں گے اور گاندھی کے دیش میں امن کے راگ الاپتے رہیں گے ۔ ہر طرح سے یہ ثابت ہوتا جارہا ہے کہ یہاں کی عدالتوں اور یہاں کی انتظامیہ سے مسلمانوں کو انصاف نہیں ملنے والا پھر پتہ نہیں کیوں بین الاقوامی عدالت کے دروزاے نہیں کھٹکھٹائے جاتے ؟ کیوں اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ یہاں کی حکومت ،یہاں کی انتظامیہ اور یہاں کی عدلیہ سے ہمیں تحفظ نہیں مل سکتا ۔تقریباًدو سال قبل ابو عاصم اعظمی نے ایک پریس کانفرنس میں یہاں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کو اقوام متحدہ میں رکھنے کی بات کی تھی لیکن اس کے بعد ان کی جانب سے اس پر کسی پیش رفت کی کوئی اطلاع نہیں ملی ۔حالیہ دنوں میں اعظم خان نے بھی اقوام متحدہ جانے کی بات کہی تھی ۔ آخر کس قیامت کا انتظار ہے ؟

اسی طرح کچھ روز قبل پہلو خان کے قاتلوں کو بھی پولس کے ذریعہ کلین چٹ دے دی گئی ۔پہلو خان شاید یہ نام ابھی تک قارئین کی سماعت میں محفوظ ہوگا ۔ ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کیوں کہ یہاں ہر روز فرضی مسائل اس تندہی کے ساتھ اٹھائے جاتے ہیں کہ اصل مسائل عوام کے ذہنوں سے دور ہو جاتے ہیں ۔وہی پہلو خان جسے رام راجیہ میں بہادر گؤ رکشکوں نے پیٹ پیٹ کر قتل کردیا تھا ۔اب پولس نے ان قاتلوں کو پاک دامن ہونے کا سرٹیفیکٹ دے دیا ہے ۔ ہمارے یہاں کی عدلیہ میں مقتول و مظلوم افراد کے آخری وقت کے بیان کو کافی اہمیت دی جاتی ہے ، ماننا یہ ہے کہ مرتے وقت کوئی انسان جھوٹ نہیں بولتا ۔ لیکن اب ملک میں ہر گواہی اور ہر جرم کیلئے اس کی ذات اور مذہب دیکھ کر اس کے مطابق الزامات طے کئے جاتے ہیں ۔ یہاں بھی پہلو خان کے آخری وقت کے بیان پر اس لئے کوئی دھیان نہیں دیا گیا کیونکہ وہ ایک مسلمان تھا اور اسے مارنے والے بہادر گؤ رکشک اور دیش بھکت ہیں ۔ پہلو خان نے بھی مرتے وقت ان چھ قاتلوں کا نام لیا تھا۔لیکن ہمارے یہاں کی پولس انتظامیہ کا حال جاننا ہو تو فسادات کے بعد کی ساری کمیشنوں کی رپورٹ دیکھ لیں ہر جگہ یہی رو سیاہ محکمہ ہی ملزم گردانا گیا جسے اپنی اس رو سیاہی پر بڑا ناز ہے ۔ یہی اب ہماری پولس فورس کی پہچان اور اس کا طرہ امتیاز ہے ۔ شاید انہوں نے بھی وہ بات سن لی ہے کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ۔ اسی بدنامی کے سہارے ہماری پولس کا پوری دنیا میں نام روشن ہے ۔ امید رکھیں کہ فی الحال جو نظام ہم پر مسلط ہے اس میں تو اس محکمہ کے سیاہ کارناموں پر شاباشی دینے والوں کی اکثریت ہی ہے ۔ ایسے میں پہلو خان کے قاتلوں کو کلین چٹ دینے سے حیرت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔جب اخلاق کے گھر سے برآمد گوشت کو بدل کر دوسرا سرٹیفیکٹ حاصل کیا جاسکتا ہے تو محکمہ پولس کی جانب سے قاتلوں کو بے گناہ قرار دینا کوئی حیرت کا باعث نہیں ہو نا چاہئے ۔ اب تو عدالتوں سے بھی زیادہ امیدیں وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہمیں تو کافی پہلے سے نہیں ہے جنہیں امیدیں ہیں وہ آنے والے وقت میں اپنی خوش فہمیوں کے نتائج دیکھ لیں گے ۔ آئے دن عدلیہ کے فیصلے انصاف و قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے ہماری نظروں کے سامنے رقص کرتے نظر آتے ہیں ۔زیادہ دور مت جائیے کیرالا کی اس بالغ لڑکی ہادیہ کا مسئلہ دیکھ لیجئے جس میں سپریم کورٹ نے اپنے سامنے اس کا بیان لینے کی بجائے این آئی آے کو تفتیش کی ذمہ داری سپرد کردی ۔
پاکستان کے خلاف پوری دنیا میں دہشت گردوں کی پشت پناہی پر واویلا مچانے والے ہمارے دیسی رہنما کیا یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ جب یہی کام پاکستان کرتا ہے تو آپ دہشت گردی اور انسانیت کی دہائی دیتے نہیں تھکتے ۔ ہر محفل اور ہر فورم پر آپ کا پسندیدہ مشغلہ پاکستان کی مذمت کرنا اس کے سیاہ کارناموں کو طشت از بام کرنا ہوتا ہے تو آپ کے ان کارناموں پر کیا دنیا غور نہیں کرے گی ؟فسادات میں مسلمانوں کی جان و مال کو دانستہ نقصان پہنچانے کے بعد اب فرضی گرفتاریوں کو کیا دنیا نہیں دیکھ رہی ہے ؟یقیناًدیکھ رہی ہے اور گاہے بگاہے اس تعلق سے رپورٹیں میڈیا میں آرہی ہیں ۔موجودہ مودی حکومت کے تین سال سے زائد کے میقات میں امریکہ سے حکومتی پیمانے پر کم از کم دو بار ہندوستان میں مسلمانوں پر حملہ کیخلاف تشویش کا اظہار کیا گیا ۔فی الحال روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ عالمی پیمانے پر انسانوں کے ضمیر پر دستک دے رہا ہے ۔ جس میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایک ہزار سے زائد روہنگیائی مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیاگیااور لاکھوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ۔لیکن کیا ہندوستان میں مسلمانوں کی صورتحال اس سے کوئی زیادہ مختلف ہے ؟ یہاں بھی ایسے واقعات بار بار دہرائے جاتے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود ہندوستان کو پر امن خطہ ہونے کا فخر حاصل ہے ۔ یہاں نمازیوں پر گولیاں چلائی گئیں ۔ ممبئی اور گجرات جیسے علاقوں میں ہزاروں مسلمانوں کو اسی طرح اجاڑ دیا جاتا ہے ۔ آسام کے نیلی میں اسی طرح شہریت کا مسئلہ معلق اور متنازعہ ہے ۔ وہاں فروری 1983 میں محض چھ گھنٹے میں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دس ہزار مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ ہماری حکومتوں کو ایسے مسلمان میسر آجاتے ہیں جو اندرون اور بیرون ملک سب خیریت ہے کا مزدہ سناتے رہتے ہیں ۔ایک شو بوائے کی خدمات انہیں حاصل رہتی ہے ۔ موجودہ حکومت جس کی سربراہی پردھان سیوک کے ہاتھوں میں ہے اور جن کی خاموش تائید و حمایت ایسے لوگوں کو حاصل ہیں جو کبھی اخلاق اور کبھی پہلو خان جیسے بے گناہ مسلمانوں کو اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اس لئے موت کی نیند سلادیتے ہیں کہ کسی طور مسلم نوجوانوں کے جذبات بھڑک جائیں اور انہیں نیلی ، گجرات ، مرادآباد ، مظفر نگر دہرانے کا بہانہ مل جائے ۔ اگر کسی کو میری باتوں سے اختلاف ہے تو اسے چاہئے کہ وہ مجھے جھوٹا ثابت کرنے کیلئے کوئی عملی ثبوت پیش کرے ۔ ایسے حالات میں کسی شاعر نے کہا تھا ؂ تیغ منصف ہوجہاں ،دار ورسن ہوں شاہد/ بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

0 comments:

featured

نہیں اقبالؔ مایوس...........



قاسم سید

کیا حالات کے شدید دبائو نے ہندوستانی مسلمانوں میں مزاحمت ‘مدافعت اور احتجاج کی قوت کو ہوادی ہے۔ کیا ڈر اور خوف کی انتہا نے ری ایکشن کے طور پر ان کےاندر پھر سے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے اور سڑکوں پر نکل کر جمہوری ذرائع کے استعمال مافی الضمیر ادا کرنے کا حوصلہ پیدا کررہا ہے‘ کیا وہ مختلف بہانوں سے پیدا کئے جانے والے ڈر سے آزاد ہو رہے ہیں۔ کیامرغیوں کی سی بے بسی اور کڑکڑانے کی حدوں سے آگے نکل رہے ہیں۔ کیا ان کے سیل جذبات کو کہیں کنارہ ملنے والا ہے۔ کیا حکمرانوں تک ان کے بدلتے تیوروں کی کھنک پہنچ رہی ہے اور کیا ہماری معزز قیادت اسے کوئی مشتعل رخ دینے اور اس تبدیلی کو جائز راستے پر لگانے کے لئے کوئی روڈ میپ تیار کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
دراصل روہنگیا میں دوسری جنگ عظیم کے بعد بدترین نسل کشی کے واقعات مناظر نے جہاں عالم انسانیت کاضمیر جھنجھوڑ دیا۔ ہندوستانی مسلمان خصوصاً نوجوانوں میں بیداری کی نئی لہر محسوس کی جارہی ہے ۔ اب تک حالات کے یک رخا پن نے ان کے مزاج میں جھنجھلاہٹ‘غصہ اور تلملاہٹ پید ا کردی تھی وہ اس سے آزاد ہوناچاہتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کو ان کی پروانہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ مذہبی جماعتیں اپنے اپنے حلقہ ارادت میں مست ہیں۔ حالانکہ وہاں بھی اضطراب بدرجہ اتم موجود ہے لیکن مصلحتوں اور عافیت کی زنجیروں نےباندھ رکھا ہے ۔ روہنگیا نے ان باندھوں کو توڑدیا۔نوجوانوں کوغم وغصہ باہر نکالنے کی راہ مل گئی جو ملک کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں اس میں فیصد کے اعتبار سے مسلم نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہےان کے لئے کسی کے پاس کوئی ایجنڈہ نہیں۔ انہیں مصروف رکھنے‘ ہدف کے حصول کے لئے سرگرم رکھنے کی روایتیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ شاید مسئلہ فلسطینیوں کے ساتھ جو جذباتی وابستگی اور لگائو دیکھاگیا تھا دہائیوں کے بعد ایسے مناظر پھر دیکھنے میں آئے ہیں۔ پورے ملک میں جس طرح کا جوش وجذبہ اورموجوں کا تلاطم ہے وہ امیدیں جگاتا ہے۔ مایوسی کے اندھیروں میں حوصلوں کے چراغ جلاتا ہے۔اقبال کو اپنی کشت ویراں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ مٹی میں نمی ہوتو اس کی زرخیزی اپنے جلوے بکھیرتی ہے بس کوئی صحیح طریقہ سے ہل چلانے اور بیج ڈالنے والا چاہئے۔
گرچہ یاران مکتب نے اس معاملہ میں بھی اختلافات کی راہیں نکال لیں اور ایک دوسرے کو کوسنے لعنت ملامت کرنے کا جواز فراہم کرلیاکسی کو یہ شکوہ ہے کہ مشرق وسطی کیوں خاموش ہے ہم تو اس کے لئے جان ودل کا نذرانہ ہتھیلی پر لئے رہتے ہیں۔ آخر ایسی کونسی مجبوریاں ہیں کہ ایک کلمہ احتجاج تک زبان سے نہیں نکلا۔ اپنے بھائیوںاور پڑوسیوں پر راشن پانی لے کر چڑھ جانے میں لمحہ بھر تاخیر نہ کرنے والے ایسی انسانیت سوز حرکتوں اور المیہ پر کیوں خاموش ہیں۔جبکہ ان کے امیر نے بھی برما کو کھری کھوٹی سنادیںتو جواب کے طور پر کہاجاتا ہے کہ جو ملک اپنے پڑوسی شام کے لئے فوج نہ بھیج سکگا وہ برما کے لئےکیسے بھیج سکتاہے۔نئے اور پرانے خلیفۃ المسلمین کے وفادار ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں کوئی کسر چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں۔ سوشل میڈیا کے مجاہدین اورفیس بکی دانشوروں کی طرف سے آگ میں خوب گھی ڈالا جارہا ہے۔ ذہنی عیاشی کے عادی اوراپنے علاوہ ہر کسی پر طعن وتشنیع کرنے والے اس کا رخیر میں لگے ہیں لیکن عام انسان کو ایسی لاف زنی سے کوئی سروکار نہیں۔ اسے روہنگیا کے خانماں برباد‘لہو لہو انسانوں کے ساتھ بری فوج کے وحشیانہ سلوک اور امن نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کے بے رحمانہ رویہ نے بے چین کردیا ہے۔ وہ نہ سوپارہا ہے نہ ٹھیک سے کوئی کام کر پارہا ہے۔ حقیقی اورفرضی ویڈیو ز اس کی روح پر ہتھوڑے چلا رہے ہیں اور جو اس کے بس میں ہے وہ کر گزررہاہے وہ اپنےغصہ کا اظہار سڑکوں پر اتر کرکر رہا ہے۔ شایداپنے رہنمائوں تک یہ پیغام پہنچاناچاہتا ہے کہ ڈر کا راستہ موت تک لے جاتا ہے۔ ہندوستان میں گئو رکشوں کے ہاتھوں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردینے‘بے گناہوں کو گئو رکشا کے بہانے پکڑ کر گوبرکھلانے اور پیشاب پلانے کے غیرانسانی مناظر کا جب وہ روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ نسل کشی کا موازنہ کرتا ہے تواسے یہ واقعات روہنگیا کا ریہرسل معلوم ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کے ہاتھوں میں زمام قیادت ہے ان کی پراسرار خاموشی اور گھروں میں دبک کر قنوت نازلہ پڑھنے سے بھی گریز کے مشورہ نے بے چینی میں اضافہ کیا ہے۔ قومی یک جہتی اورامن وایکتاکانفرنسوں نے بھی اس کے درد کو کم نہیں کیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطی کے مال غنیمت سے بھلے ہی ہماری خوشحالی میں اضافہ ہوا۔ مساجد ومدارس کاجال پھیل گیا۔ تبلیغ واشاعت کے مواقع بڑھے لیکن روحیں مردہ ہوگئیں۔ زبانوں پر تالے پڑ گئے۔ قد آور بونے ہوگئے اور بقول اقبال قہاری‘غفاری‘قدسی وجبروت جیسے عناصر اربعہ سے مسلمان کا خمیر بنتا ہے وہ کہیں گم ہوگیا اور یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ اس نے انتشار پھیلانے اور گروہ بندی کو تقویت دینے میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ہمیں اس جال سے نکلنے اور اپنے ہاتھ پیروں پر بھروسہ کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ اس موقع پر جولوگ مسلم ممالک کی بے حسی کا شکوہ کرتے ہیں ان کو اپنی خوش فہمیاں دور کرلینی چاہئیں کوئی ایسی مثال دی جائے کہ مسلم ممالک الا ماشاءاللہ نے مسلمانوں کے سنگین مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لی ہو‘کبھی وہ ایران عراق جنگ کے نام پر بٹ گئے‘ کبھی شام نے دو خیموں میں تقسیم کردیا اور اب ایک چھوٹے سے ملک کے خلاف جس طرح کی گھیرابندی ٹرمپ کے حکم نامہ پر ہوئی ہے۔اس سے کون واقف نہیں ہے۔ قارئین کے حافظہ میں ہوگا کہ جب آسام میں نیلی قتل عام ہوا جس میں معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا تھا ۔ ایک عرب ملک کا سربراہ دورہ ہند پر تھا اورایشین گیمس کے لئے اس نے خطیر رقم حکومت ہند کودی تھی۔ ہم انہیں برا بھلا کہہ کراپنا نامہ اعمال  خراب کرتے ہیں۔ان پر تو ترس کھاناچاہئے کہ مشرق وسطیٰ کے حصے بخرے کا نیا پلان زیر عمل ہے اور یہ ایک دوسرے کی نسیں کاٹنے میں توانائی جھونک رہے ہیں۔ ان کی دنیا الگ ہے۔ ان کے مقاصد جدا ہیں۔ ان کی دلچسپیاں مختلف ہیں۔ پناہ گزینوں کوسمندر میں دھکیل دینے والے بنگلہ دیش کی حمیت وغیرت تو جاگی وہ انہیں پناہ دینے کے لئے تیار ہوگیا ورنہ اس نے بھی کوئی کمی نہیں کی تھی۔ یہ عالمی رائے عامہ کے دبائو کا ہی نتیجہ تھا۔
ہندوستانی مسلم نوجوان انگڑائی لے رہا ہے۔ وہ اس دبائو کے کمبل کو اتار پھینکناچاہتا ہے جو گذشتہ تین سال سے اوڑھادیاگیا ہے۔ اسے مددچاہئے۔کوئی اس کی انگلی پکڑے اور اجتماعی قوت کو اسٹور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے بہکنانہیں چاہئے جذبات کی آندھی کہیں سمت نہ بدل دے اور بدخواہ ان کا استحصال نہ کرنے لگیں۔ ہمارے زعما کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اس طوفان کو سنبھال کر رکھیں۔ اسے راہ نجات پرلائیں۔ یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ بیداری کی اس کیفیت کی دبی ہوئی چنگاریوں کو سلیقہ عطا کرنا ہوگا ۔ یہ اس لئے بھی ہواکہ انہیں اپنے درد میں بھی روہنگیاکی بازگشت سنائی دی۔ ماضی میں جینے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ دنیا حال کی طاقت اور کیفیت دیکھ کر عزت کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے۔ ہمارا حال کتنا روشن اور خوبصورت ہے۔ ماضی سے موازنہ نہیں کیاجاتا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ماضی کی روشنی سے حال کااندھیرا دورکرنا ہوگا اوریہ ناممکن نہیں ہے۔

0 comments:

Muslim Worlds

آہ ! وہ تیرِنیم کش ...!



عمر فراہی  ۔  ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

میر سپاہ نا سزا ، لشکریاں شکستہ صف/آہ ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف۔اقبال کہتے ہیں کہ جس لشکر کا امیر نااہل اور نالائق ہو اس کی مثال اس بدبخت بے حس اور شکستہ صف فوج کی طرح ہےجس کی ساری تگ دو ایسی ہی ہے جیسے کوئی بددلی سےہوا میں تیر چلائے ،نہ کمان ہی زور سے کھینچی گئی ہو نہ ہی تیر ہی کسی نشانے پر پھینکا گیا ہو ۔
اقبال نے تقریباً اسی نوے سال پہلے جب یہ بات کہی تھی تو اس وقت مسلمانوں میں ہزاروں علمائے دین اور ذہین افراد بھی موجود تھے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ملت اپنے فکر و عمل کے فنا ہونے کا سبب اور اپنی شان وشوکت کے زوال کا حل ڈھونڈھتی لیکن ہوا یہ کہ ملت اسلامیہ اپنے درمیان سے اجتماعی دانشمندی اور دانشمند علماء اور اقبال سے بھی محروم ہوگئی۔یہ بھی سچ ہے کہ کل کی بنسبت آج مسلمان ہزاروں مدارس کالج اور یونیورسٹیوں کی تعلیم سے مستفید ہورہے ہیں پھر بھی نرگس اور بھی شدت کے ساتھ اپنی بےنوری پہ نوحہ خواں ہےاورکسی دیدہ ور کے انتظار میں ہے ۔پچھلی دہائیوں میں علماء کا ایک بہت بڑا دور مسلکی مناظرے بازی میں گذر گیا ۔یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کے علماء اور دانشوروں کی اپنی ساری جدوجہد اپنے فکری زوال کو عروج میں بدلنے کی جستجو اور تحقیقی تصنیفات میں گذرنا چاہئے تھا لیکن ایک مسلک نے دوسرے مسلک پر کیچڑ اچھالنے میں گذار دیا ۔دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی کچھ مسلمانوں کو ہر سال رمضان کے مہینے میں اس بحث میں الجھا ہوا پایا جاتا ہے کہ تراویح نفل ہے یا سنت ۔تراویح آٹھ رکعت ہے یا بیس ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ جس کو جو سمجھ میں آتا ہے اس پر عمل کرے اور اپنے مسلک کی دیگر فلاح بہبود کی مصروفیات کیلئے منصوبے تجویز کرے تاکہ اس کے اس فلاح و بہبود کے کام سے دیگر مسلک اور مذہب کے لوگ بھی مستفید ہوں ۔جیسا کہ ارشاد ربانی بھی ہے کہ’’اب دنیا  میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے دنیا میں ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے ۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘۔
لیکن ابھی بھی ہو وہی رہا ہے جو اسلام اور انسانی فطرت دونوں کے خلاف ہے۔اپنی ذات اور فرقے سے وابستگی اور دوسرے مسلک کے خلاف جھوٹ اور بہتان کے لامتناہی بحث اور عنوان سے بچوں کے ذہن میں نفرت اور تصادم کا جو ماحول پیدا ہو رہا ہے مسلمانوں کے اپنے درمیان یہ صورتحال بذات خود بھی برما فلسطین کشمیر اور چچنیا کی شورش سے کم نہیں ہے ۔یہ تو اچھا ہے کہ ہمارے ذہنوں کا یہ فساد ہند و شدت پسندوں کے خوف سے قابو میں ہے ورنہ ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کی حالت پاکستان افغانستان ایران عراق شام اور مصر سے مختلف نہ ہوتی جہاں پچھلی ایک صدی سے مسلمان آپس میں ہی متصادم ہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت نہ صرف اپنی اسلامی غیرت اور حمیت سے محروم ہے بلکہ انسانی فطرت میں جو تعمیری سوچ اور رحم کے جذبات پائے جاتے ہیں اس کا بھی فقدان ہے ۔ جس طرح ہندوستانی سیاستدانوں نے اپنی کمزوری کو چھپانے کیلئے یہاں کے باشندوں کو لسانی ، علاقائی اور مذہبی عصبیت میں الجھا رکھا ہے ہماری اپنی مسلکی عصبیت کی شدت بھی عروج پر ہے ۔ایک بار کا واقعہ ہے جب آٹھویں کلاس میں پڑھ رہی ہماری بچی سے اس کے ساتھ پڑھ رہی ایک دوسری بچی نے پوچھا کہ تم لوگ وہابی ہو ؟ بچی نے کہا کہ یہ کیا ہوتا ہے دوسری بچی نے کہا ارے پاگل چوبیس نمبر ! ہماری بچی  نے پھر کہا مجھے یہ سب سمجھ میں نہیں آتا میرے پاپا نے بتایا ہے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں ۔دوسری بچی نے پھر کہا کہ میں جب اپنے گھر کے پاس بس سے اتری تو دیکھی تیرے پاپا غیر مقلدوں کی مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہے ہیں۔بچی نے کہا کہ یہ غیر مقلد کیا ہوتا ہے دوسری بچی نے کہا تم کو نہیں معلوم یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ۔میری بچی نے کہا اچھا چھوڑ یہ سب بات میں اپنے پاپا سے پوچھونگی کہ یہ سب کیا ہے۔بچی نے گھر آکر جب یہ بات بتائی تو مجھے بالکل تعجب نہیں ہوا کہ ہمارے مسلم معاشرے میں کتنے بچپن سے بچوں کے ذہن میں مسلکی عصبیت کا زہر گھول دیا جاتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا یہی اسلام ہے؟۔ ٹھیک ہے آپ دوسروں سے اختلاف رکھیں جو انسان کی فطرت میں بھی ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اختلاف صرف نفرت اور بغض پیدا کرنے کیلئے ہی ہو۔اختلاف امن اور انصاف کے حصول اور نافذ کرنے میں بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے سامنے حضرت معاویہ ؓ اور حضرت علیؓ اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اختلاف ایک نمونہ ہے کہ کس طرح حضرت علی ؓاور عائشہ ؓ نے اور بعد میں حضرت حسنؓ اور معاویہؓنے امت کے درمیان فساد کو رفع دفع کرنے کیلئے آپس میں مصالحت اختیار کر لی۔ کیا کبھی ہم نے اپنے بچوں سے یہ پوچھا کہ اسلام کیا ہے اور آپ مسلمان کیوں ہیں؟ کیا ہم نے اپنے بچوں کو کبھی یہ بتایا کہ اسلام ایک تحریک اور دین کا نام ہے اور دین کے معنی اس نظام کے ہوتا ہے جہاں انصاف ہو ۔جیسا کہ قرآن کی یہ آیت ہم ہر نماز میں دہراتے ہیں کہ’مالک یوم الدین یعنی دین کے دن کا مالک مطلب انصاف کے دن کا مالک‘۔قرآن کی ایک دوسری آیت ہے کہ ان الدین عند اللہ الاسلام ’اللہ کے نزدیک بہترین دین اسلام ہے‘۔
قرآن میں اللہ نے یہ بات اس لئے کہی کیونکہ کہ اللہ جانتا تھا کہ انسانوں کی دنیا میں دوسرے دین اور حکمراں بھی ہونگے اور مسلمانوں کے گروہ اس نظام سیاست کی طرف بھی مائل ہوسکتے ہیں اس لیئےاللہ نے پہلے ہی آگاہ کردیا کہ اصل دین یعنی نظام سیاست اور انصاف تو اسلام اور قرآن ہی ہے۔اس پوری بحث کا مدعا یہ ہے کہ اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ لوگوں کی عبادت کا طریقہ کیا ہے اسلام یہ ہے کہ انسان ظالم اور مظلوم کے درمیان تمیز کرنا سیکھے اور دنیا میں مسلمان اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے لوگوں کے درمیان انصاف کے علمبردار ہونے کا حق ادا کرے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قونو بالقسط کے علمبردار نظام سیاست پر غالب ہوں ۔
دوسروں کو اس کی تمیز رہے یا نہ رہے لیکن ایک مسلمان کو  دنیا کے حالات پر تبصرہ کرتے وقت یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کا مذہب اور عقیدہ کیا ہے ؟بہت افسوس ہوا اس وقت جب سوشل میڈیا پر برما کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور ہمدردی کو لیکر بھی کچھ مسلم نوجوانوں نے کبڈی کبڈی کھیلا۔ کسی نے سعودی عرب کی فراخ دلی کے قصیدے گائے اور انہیں عالم اسلام کا قائد اور مسیحا قرار دیا تو کہیں ترکی کے اسلام پسند رہنما طیب اردگان کی پزیرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ۔اس بیچ میرجعفروں نے مسلکی تنازعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ افواہ بھی اڑائی کہ ترکی فوجوں نے برما پر حملہ کردیا ہے ۔اگر یہ بحث غیروں میں پڑھی اور سنی جائے تو کیا ان کے حلقوں میں مسلمانوں کی جہالت کا مذاق نھیں اڑایا جائے گا ۔ یا مسلم تنظیمیں جو ہر روز غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت اور حالات کے تعلق سے بیداری کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کے اوپر اس کے اثرات کیا ہونگے۔کوئی آپ کو بھلے ہی جواب نہ دے کہ پہلے آپ خود اسلام سے واقف اور بیدار ہوجائیں پھر ہمیں درس دینا لیکن دل ہی دل میں وہ آپ کی بیوقوفی پر اسی طرح ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا جیسے کہ اکثر کالج وغیرہ میں جب کوئی پروفیسر اپنے سبجیکٹ پر ہوم ورک کیے بغیر کسی عنوان کی تشریح کرتے ہوئے بھٹک جائے تو بچے دل ہی دل میں یا پروفیسر کی غیر حاضری میں مذاق اڑانا شروع کردیتےہیں اور پھر ایسا بھی ہوتا ہےکہ بچے ایسے پروفیسروں کے لیکچر کو بہت اہمیت نہیں دیتے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ قومی میڈیا ہمارے اداروں اور مسلم دانشوروں کی طرف سے قومی مسائل پر ہونے والے بہت اہم اجلاس اور سمپوزیم وغیرہ کو زیادہ توجہ نہیں دیتا۔
افسوس مدارس کے موجودہ نظام اورفضلا کی سوچ پر بھی ہوتا ہے کہ انہیں آج بھی نہ جانے کیسی تعلیم دی جارہی ہے کہ وہ ظلم اور ناانصافی پر مبنی عام تبصرے کو بھی مسلک مذہب اورفرقہ وارانہ نظریے سے دیکھتے ہیں جبکہ اسی ملک ہندوستان میں سگاریکا گھوش ،برکھا دت ،تیستاسیتلواد، ارون دھتی رائے ،کنہیا کمار ، ہرش مندر ،رام پنیانی ، امریکی دانشور نوم چومسکی، اپوروا نند، مہیش بھٹ اورسنجیو بھٹ جیسے بہت سارے ہندو صحافی اور دانشور بھی جب اپنا قلم اور زبان کو جنبش دیتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا مذہب مسلک اور ملک کیا ہے اور وہ مسلمانوں کے کس مسلک کی حمایت کرتے ہیں ۔کلبرگی ،پنسارے ،نریندر دابھولکر اور کرکرے کو شاید اپنی اسی انصاف پسندی کی سزا ملی ہے ۔گور ی لنکیش نے وہ کام کیا جو مسلمانوں کیلئے خاص تھا اور باالآخر شہید کر دی گئی ۔ وہ تو ہمارے خلاف ہونے والی ناانصافی کی وجہ سے ہمیں مسلمان سمجھ رہے ہیں لیکن ہم ؟ شاید اب ہمیں دوسری قوموں سے سیکھنا ہوگا کہ اسلام دنیا سے ظلم اور ناانصافی کے خاتمے کا نام ہے نہ کہ قوم اور مسلک کے نام پر اندھی تقلید کا ۔ اقبال بالکل درست کہتے ہیں کہ  ؎
آہ !وہ تیرے نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

0 comments:

featured

گوری لنکیش :رام راج کی شکار



نہال صغیر

بنگلور میں گوری لنکیش کو بھی برہمنزم یا ہندوتوا کے سیاہ چہروں کو عوام کے سامنے لانے کی سزا ددے دی گئی ۔ انہیں قتل کردیاگیا۔ان کے قتل پر پورے ملک کی صحافی برادری نے بھرپور احتجاج درج کیا ۔ لیکن کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کے بیان میں وہ سختی نہیں ملی جو کہ ایسے بزدلانہ اور دہشت گردانہ کارروائی کے بعد ہونی چاہئے ۔ انہوں نے رپورٹ منگوائی ہے اور شاید تفتیش کے بھی احکام دیئے جاچکے ہیں ۔کرناٹک میں ایسے کئی قتل کے واردات انجام دیئے جاچکے لیکن اس کی تفتیش کرکے قاتل کو یا اس گروہ کو جو اس میں ملوث ہے کو عبرتناک سزا نہیں دی گئی نتیجہ ایک اور قتل کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ گوری کے قتل بعد ہر اس صحافی کی پیٹھ میں ٹھنڈی لہر کا دوڑ جانا یقینی ہے جو ظلم کو بے نقاب کرنے اور سفید پوش بھیڑیوں کو عوام کے سامنے لانے میں مصروف کار ہیں ۔ لیکن جن لوگوں نے صحافت کو ایک مشن کے طور پر اپنایا ہے وہ کب اس کی پرواہ کرتے ہیں کہ ان کی کس تحریر کا کا بہانہ بنا کر ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا جائے ۔ مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ ایسے بزدلانہ قتل سے بھلے ہی کچھ دیر کیلئے سنسنی کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہو لیکن ہم پھر اگلے ہی لمحے اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ سچائی کو عام کرنے اور جھوٹوں کی مکاری کو سب کے سامنے لانے کے مشن سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ جسے جو کچھ کرنا ہے کرلے ۔خواہ ایسے صحافیوں کو سرکاری مشنری کے ذریعہ پریشان کیا جائے یا گوری لنکیش کی طرح خاموش کردیا جائے ،مشن تو جاری رہے گا۔
آزاد ہندوستان ،جس کے بارے میں ہمارے اکابرین سے لے کر آج کے جدید دیش بھکت تک کا یہ کہنا ہے کہ اس جیسا پرامن ملک دنیا میں کہیں نہیں ہے نیز ہم جتنا یہاں محفوظ ہیں کہیں اور نہیں ۔ممکن ہے کہ وہ لوگ ایسا کہنے میں حق بجانب ہوں ۔یا ان کے محدود تصور اور وطن پرستی کے نشے نے ان سے اس طرح کی جذباتی باتیں کہلوائی ہوں ۔لیکن یہ کوئی ایک دن کی یا ایک بار کی کہی ہوئی بات نہیں ہے ۔یہ مسلسل کہی جاتی ہے ۔لیکن یہ ان لوگوں کے ذریعہ کہی جاتی ہیں جو ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں ۔ہم جب غور کرتے ہیں تو کئی بار ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ یہ ملک کس نوعیت سے دنیا کا سب سے پرامن خطہ ہے ۔اس ملک میں بھی کئی ریاستوں میں مزاحمت اور پرتشدد تحریک جاری ہے ۔اس کے علاوہ یہاں زنا بالجبر اور قتل عام کی وارداتیں عام ہیں ۔میں نے دو سال قبل کی اقوام متحدہ کی رپورٹ دیکھی ہے جو کہ دنیا کے مختلف خطوں میں صحافیوں کی جان کو ہونے والے خطرات اور ان کی اموات کے تعلق سے تھی ۔عراق اور شام میں بھی پندرہ کے آس پاس صحافیوں نے اپنی جانیں قربان کیں کیوں کہ وہ ممالک جنگ زدہ خطہ میں شمار ہوتی ہیں اس لئے ان میں سے اکثر جنگوں کے راست رپورٹنگ کے دوران ہلاک ہوئے ۔جبکہ ہمارا ملک ہندوستان پرامن ہے لیکن یہاں اس پرامن ملک میں پندرہ صحافیوں کا قتل ہوا ۔میں نے ابھی تک یہ چیک نہیں کیا ہے کہ ان برسوں میں ہندوستان میں کتنے صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ مصروفیت کے دوران ان کے مخالفین نے قتل کیا ۔نہ ہی پارلیمنٹ میں کسی رکن نے اس تعلق سے کوئی سوال کیا کہ کتنے صحافیوں کو قتل کیا گیا ۔ہم آئے دن خبروں میں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں کسی مافیا یا کسی سیاست داں کے سیاہ کارناموں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی پاداش میں فلاں صحافی کو اپنی جان سے دھونا پڑا مطلب اسے قتل کردیا گیا ۔ دھمکیاں توروز کا معمول ہیں ۔ہمارے ایک ساتھی ہفت روزہ شودھن کے سابق مدیر نوشاد عثمان کو بھی برہمنی گروہ کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی دی جاچکی ہے ۔لیکن صحافیوں کے تحفظ اور ان کی سلامتی کے تعلق سے اب تک کسی بھی حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ۔گوری لنکیش کے بزدلانہ قتل پر ایک گروپ ایک صحافی نے لکھا کہ ’’کوئی غنڈہ کسی کو تنگ کررہا ہے تو صحافی آواز بلند کرے ،نیتا عوام کی نہیں سن رہے تو صحافی آگے آئے ،کسی محکمہ میں مافیا کی گھس پیٹھ زیادہ ہو گئی تو صحافی کا قلم حرکت میں آئے ،کسی لیڈر کو عوام میں تعارف چاہئے تو صحافی کی خدمات لی جائے ،لیکن جب صحافی پر کوئی بات آتی ہے اس کو دھمکی دی جاتی یا اس کو قتل کردیا جاتا ہے تو صرف صحافی ہی میدان میں آئے وہی آواز اٹھائے ،اس کی حمایت میں سماج کے دیگر طبقات کیوں نہیں آگے آتے ‘‘۔ اس بیچارے غریب صحافی کو شاید پتہ نہیں کہ یہاں گوری لنکیش جیسی بہادر صحافیہ کو قرل کردیئے جانے پر جو یہ کہتا ہے کہ کتیا مر گئی وہ نریندر مودی کو فالو کرتا ہے ۔اس پر معذرت پیش کرنے کی بجائے ان کے ہمنوا کہتے ہیں کہ یہ کسی کیلئے کیریکٹر کی سند نہیں ہے کہ وہ نریندر مودی کو فالو کرتا ہے ۔لیکن یہی لوگ اگر ذاکر نائک کوئی ایسا نوجوان فالو کرتا ہے جو کسی معاملہ میں ماخوذ کیا جاتا ہے تو طوفان سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔ملک میں جب تک یہ جانب داری اور حزب اقتدار کے سایہ میں غنڈہ گردی جاری رہے گی یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا خواہ دنیا میں ہم اپنے پرامن ہونے کا کتنا ہی ڈھول کیوں نہ پیٹیں ۔

0 comments: