featured

یہ ایک خطرناک حالت ہے اس کی مخالفت کیجئے

12:14 PM nehal sagheer 0 Comments


ہمانشو کمار
 پوڈیم پنڈا کو میں تب سے جانتا ہوں جب ہم لوگ چھتیس گڑھ میں رہتے تھے
سکما ضلع میں جن گاؤں کو پولیس نے جلا دیا تھا ہم لوگ ان برباد ہو چکے گاؤں کو دوبارہ بسا رہے تھے، ہمارے اس کام میں اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسیف بھی ساتھ میں کام کرتا تھا ، اسی دوران میری ملاقات اکثر پنڈا بھائی سے ہوتی تھی ، پنڈا مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولنے ایک نرم خو انسان ہیں، وہ گاؤں کے سرپنچ تھے اور سی پی آئی کے کارکن تھے، ہم لوگوں کی شکایت پر سپریم کورٹ نے 2007 میں قومی حقوق انسانی کمیشن کی ٹیم کو تحقیقات کیلئے چھتیس گڑھ بھیجا گیا تھا، اس وقت پنڈا بھی اپنے علاقے سے قبائلیوں کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن کے سامنے آئے تھے، اس سے پولیس پنڈا سے چڑھ گئی، پنڈا کو ایک دن بازار سے خصوصی پولیس افسران نے اٹھا لیا، پنڈا کو دریا کنارے لے جا کر گولی مارنے کے لئے جیپ میں ڈال کر لے گئے، بازار میں موجود پنڈا کے گاؤں کے قبائلیوں نے انہیں اغوا ہوتا دیکھ لیا، وہ لوگ دوڑ کر سی پی آئی کے لیڈر منیش كنجم کے پاس گئے، منیش كنجم نے دنتے واڑہ کے ایس پی کو فون کیا، بات کھل گئی تھی اس لئے ایس پی نے ایس ایچ او کو پنڈا کو بچانے کے لئے بھیجا، پولیس کی دوسری جیپ جب ندی کنارے پہنچی تو خاص پولیس افسر پنڈا کو گاڑی سے اتار کر گولی مارنے کے لئے دریا کی طرف لے جا رہے تھے، پنڈا کی جان کسی طرح بال بال بچی، پنڈا میڈیا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو اطلاع دیتے تھے اس سے پولیس ان سے بری طرح چڑھ چکی تھی، پنڈا نے شہر آنا بند کر دیا، پولیس نے پنڈا کے اوپر فرضی کیس بنانے شروع کر دیے، پولیس نے پنڈا کے اوپر 123 کیس بنا دیے، آج کل پنڈا کی بیوی گاؤں کی سرپنچ ہیں، دس دن پہلے پنڈا گاؤں میں اپنے تالاب کی طرف جا رہے تھے، راستے میں سیکورٹی فورسز نے پنڈا کو پکڑ لیا ' پولیس نے اخبارات میں چھپوايا کہ ہم نے ایک ماؤنواز لیڈر کو پکڑا ہے جس کے اوپر 123 کیس ہیں، اب قانون کے مطابق تو پولیس کی طرف سے پنڈا کو عدالت میں پیش کر کے ان پر مقدمے چلانے چاہیے، یہی قانون ہے، لیکن پولیس نے پنڈا کو تھانے میں بند کر کے مارنا پیٹنا شروع کر دیا، پنڈا کی بیوی ہائی کورٹ میں شکایت کرنے گئی، ہائی کورٹ میں پولیس نے جواب دیا کہ ہم نے پنڈا کو گرفتار ہی نہیں کیا ہے ، انہوں نے تو ہمارے سامنے خود سپردگی کی ہے، اور پنڈا اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہے ہیں، جب پنڈا کی بیوی پنڈا سے ملنے تھانے گئی تو پولیس نے انہیں پنڈا سے ملنے نہیں دیا ، ہائی کورٹ نے اس معاملے میں سماعت کے لئے اگلی تاریخ دے دی، یہ بہت خطرناک حالت ہے، اگر کورٹ پنڈا کے معاملے میں پولیس کے اس بہانے کو مان لیتا ہے کہ ہم نے تو اسے گرفتار ہی نہیں کیا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پولیس اب کسی کو بھی تھانے میں جب تک چاہے بند کر کے رکھے گی، اور پولیس کورٹ میں کہہ دے گی کہ ہم نے اسے گرفتار نہیں کیا وہ اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہا ہے، آج کسی مرد کو بند کیا ہوا ہے، کل پولیس والے کسی لڑکی کو بھی مہینہ بھر تک تھانے میں بند کر کے رکھ سکتے ہیں، جب لڑکی کے خاندان والے کورٹ میں شکایت کریں گے تو پولیس کہہ دے گی کہ وہ تو اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہو گیا کہ پولیس تھانے کے اندر اندر ہی اپنی جیل بنوا سکتی ہے جہاں وہ جب تک چاہے جسے چاہے بند کر کے رکھے، مارے پیٹے، ستائے؟ اور کورٹ میں کہہ دے کہ یہ لوگ اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہے ہیں، اور اب کورٹ کچھ نہیں کرے گی، یہ تو آئین پر پولیس کا حملہ ہے، اس کے ساتھ ہی شہری کو آئین میں دیے گئے آزادی اور کورٹ کے سامنے انصاف حاصل کرنے کا حق ختم، اگر آج ہم پنڈا کے معاملے میں اس بات کو قبول کر لیتے ہیں، تو کل کو کسی بھی سماجی کارکن کو پولیس اٹھا کر تھانے میں بند کر دے گی اور کورٹ میں کہہ دے گی کہ یہ اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہے ہیں، پنڈا دس دن سے پولیس تھانے کے اندر ہیں انہیں کسی سے ملنے نہیں دیا گیا ہے، اور پولیس دعویٰ کر رہی ہے کہ پنڈا نے تو خود سپردگی کی ہے اور وہ اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہے ہیں ، اگر کورٹ پولیس کی اس بات کو مان لیتی ہے تو ملک میں پولیس کو جرم کرنے، مسلمانوں، دلتوں، قبائلیوں انسانی حقوق کے کارکنوں کو غیر قانونی حراست میں رکھنے اور انہیں ستانے کا حق کھلے عام مل جائے گا، یہ ایک خطرناک حالت ہے، اس کی مخالفت کیجئے، یہ پنڈا نہیں آپ اور آپ کے بچوں کی سلامتی کا مسئلہ ہے، یہ پنڈا کو بچانے کی نہیں آئین کو بچانے  کی بات ہے،

0 comments: