featured

قیام امن کی کوشش :مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی !



نہال صغیر
امن و امان کسی بھی قوم ملک یا فرقہ کی ترقی کیلئے بنیادی ضرورت ہے ۔اس کے بغیر ترقی ناممکن ہے ۔پوری مشنری بد امنی کا شکار رہے گی تو ترقی کی جانب کون دھیان دے گا ۔میرے خیال میں وہ دیوانہ ہی ہوگا جو امن کی کسی بھی مساعی کو اہمیت نہ دے یا اس کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہ کرے ۔ فی الحال جس صدی سے ہم گزر رہے ہیں وہ اکیسویں صدی کی اطلاعاتی تکنیک کے انقلاب کی صدی بھی ہے ۔لیکن اس صدی نے انسانوں کو جتنی بد امنی کا شکار بنایا ہے ۔شاید دنیا کی تاریخ میں اتنی امن سے خالی صدی کوئی نہیں رہی ہوگی ۔اسلام کی آمد سے قبل کے عرب بد امنی اور قانون شکنی کے لئے مشہور ہیں ۔جبکہ اس زمانہ میں تو سرے سے کسی قانون کا وجود ہی نہیں تھا نہ ہی کوئی آزاد حکومت تھی جس کے سایہ میں کوئی باضابطہ نظام ہوتا ۔موجودہ دور میں تو دو سو سالہ جمہوریت اور سیکولرزم کا دور دورہ ہے ہر چہار جانب اسی کے چرچے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ یہ قانون کی حکمرانی کا زمانہ ہے اور اس کی محافظ جمہوری نظام حکومت ہے ۔جہاں ہر طرح کا شعبہ اپنا کام آزادانہ طور پر کام کررہا ہے ۔یہ باتیں ہم بڑے بڑے لیڈروں اور دانشور ٹائپ کے طبقہ اشرافیہ سے روز سنتے پڑھتے ہیں ۔لیکن فی الواقع کیا ایسا ہی ہے ؟اگر ایسا ہے تو پھر ہر جانب بد امن اور قتل و غارتگری کا ماحول کیوں ہے؟کیوں قتل ہونے والے کو پتہ نہیں ہے کہ وہ کیوں قتل کیا جارہا ہے اور نا ہی قاتل کو اس بات کا خیال ہے کہ وہ کیوں خون بہائے چلا جارہا ہے ؟ہم نے انہی دانشوروں اور اشرافیہ کے زبانی یہ بھی سنا تھا کہ قیام امن کیلئے انصاف بنیادی شرط ہے ۔یعنی بد امنی کی وجہ سیدھے طور سے یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ در اصل دنیا سے انصاف اٹھ گیا ہے ۔یہاں اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون نافذ ہے ۔لہٰذا جس کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے ۔وہ کچھ دنوں تو صبر کرتا ہے کہ شاید یہ ماحول بدل جائے ۔مقتدر لوگوں کے رجحان میں تبدیلی آجائے ۔لیکن شب غم ہے کہ کٹتی ہی نہیں ۔تشد داور ظلم و ناانصافی کا سایہ دراز ہوتا جارہا ہے ۔تب وہ فرد یا قوم علم بغاوت بلند کرتی ہے ۔یوں اب ہر طرف خونریزی اور افراتفری کا ماحول ہے اور دنیا امن کی ٹھنڈی چھاؤں کیلئے ترس رہی ہے ۔
ایسے ماحول میں بیس مئی 2017 کو ممبئی کے گورے گاؤں میں امن عالم کی خواہش اور اس کیلئے مساعی کے دعوے کے ساتھ ایک کانفرنس منعقد ہوئی ۔جس میں مصر و عراق سے بھی نمائندوں نے شرکت کی تھی ۔ اس سے ایک دن قبل پریس کے لئے جاری ایک دعوت نامہ میں مضمون کچھ اس طرح تھا ’’آئیسس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں بڑھتی کشیدگی کے سبب’ عالمی قیام امن ‘ آپ سبھی کو ایک عظیم تقریب مدعو کرتی ہے ،جہاں وہ خطہ مشرق وسطیٰ میں امن و شانتی اور چین کیلئے گفتگو کریں گے ‘‘۔اس پروگرام کا دعوت نامہ تھا جس میں دہشت گردی مخالف فرنٹ کے ایم ایس بِٹاکے علاوہ سہیل خمانی (حاجی علی درگاہ کے ٹرسٹی)،مہاراشٹر اے ٹی ایس کے چیف اتل چندر کلکرنی اور بغداد سے تشریف لائے مولانا نصرت حسن نعیمی بھی موجود تھے ۔ امن کیلئے کوشش بہت ہی مبارک کام ہے اس کیلئے انسان کو جتنا ممکن ہو سکے اپنی زندگی کو کھپا دینا چاہئے ۔آج بھی بہت سارے لوگ اس کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں ۔مقامی ،قومی اور بین الاقوامی پیمانے پر افراد سے لے کر تنظیم اور حکومتی سطح پر اس کیلئے بھرپور کوشش کی جارہی ہے ۔لیکن امن کیلئے کوشش جتنی تیز ہو رہی ہے دنیا میں بد امنی اسی قدر تیزی سے پھیل رہی ہے ۔جیسا کہاوپر بتایا گیا اس بدامنی کی بنیادی وجہ ناانصافی اور ظلم ہے ۔اسے ختم کئے بغیر اور ہر کسی کو جینے دینے کے حق کو تسلیم کئے بغیر امن کا قیام دیوانے کے خواب ہی جیسا ہے ۔صرف امن کانفرنس اور اس کے لئے قراردادیں اور کسی خاص فرقہ یا قوم کو مورود الزام ٹھہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔اب دنیا میں قیام امن کیلئے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ اخلاص کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا خاتمہ کیا جائے ۔پسماندہ اور محروم اقوام کے درد کا مداوا کیا اجائے ۔جب سب لوگ خوش ہوں گے کسی کو کسی سے کوئی شکایت ہی نہیں ہو گی ۔ایسے ماحول میں کیوں کوئی کسی کے خلاف نفرت کو دل میں لئے بھرے گا اور موقع ملتے ہی موت کا فرشتہ بن جائے گا ۔
دنیا کے ماحول کو خراب کرنے والے عناصر میں اول نمبر پر حکومت ہوتی ہے اور دوسرے نمبر پر وہ مقتدر اشخاص یا اقوام جو اپنے علاوہ کسی کو انسان تسلیم کرنے کے لئے راضی ہی نہیں ہیں ۔انہی کی ایسی انسانیت سوز سوچ کی وجہ سے ظلم کو بڑھاوا ملتا ہے ۔اس ظلم سے پسماندہ اور محروم اقوام و شخصیتیں ہر طرف سے مایوس ہو کر خود سے ہی انصاف پانے کی کوشش میں نہیں دیکھتے کہ کون سامنے ہے ۔وہ ظالم ہے یا عام انسان اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ دیر قبل تک جو مظلوم تھا وہ ظالم بن جاتا ہے ۔اس ظالم بنے شخص یا قوم کا جرم جسقدر ہے اس سے زیادہ مجرم وہ معاشرہ ،نظام یا سوسائٹی ذمہ دار ہے جس نے اسے مجبور کیا کہ وہ بھی ظالم بن جائے ۔کیوں کہ اس کے بغیر اسے انصاف ملنے والا نہیں ہے ۔ تہلکہ کے سابق ایڈیٹر اجیت ساہی کہتے ہیں کہ حکومت اور داؤد ابراہیم کی دہشت گردی وہی فرق ہے جو کسی ٹھلے والے اور امبانی کے کاروبار میں فرق ہے ۔لیکن ہو یہ رہا ہے کہ حکومت کی دہشت گردی کی جانب سے چشم پوشی کی جاتی ہے جبکہ معمولی دھماکہ کرنے والے افراد کو بھی انتہائی خطرناک اور گھناؤنا بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔مطلب ایک دو لوگوں کو مارنے والے کو بڑا مجرم اور ہزاروں لوگوں کو مارنے والوں کو عہدے پیش کئے جاتے ہیں ۔مشرق وسطیٰ میں بڑھ رہی بے چینی اور جنگ کے ماحول کیلئے پہلے القاعدہ اور اب داعش کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔اس پر بحث کرنے کا فی الحال وقت نہیں ہے کہ فی الحقیقت اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ہاں اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ یہ افراتفری کیوں ہے ؟اگر بڑی طاقتیں کسی ملک میں بیجا مداخلت نہ کریں اور زبردستی کسی پر اپنی فکر تھوپنے کی کوشش نہ کریں تو کوئی اس کے خلاف احتجاج کو بھی کیوں کھڑا ہو گا ۔مشرق وسطیٰ میں بھی موجودہ افراتفری کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔ استعماری قوتوں کو برائے نام قائم نظام خلافت بھی برداشت نہیں تھا کیوں مسلمان ان کے استعماری عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے ۔ان قوتوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے مسلم ملکوں کے حصے اپنے اپنے نام کرلئے ۔ اس کے جواب میں اخوان المسلمین نام کی جماعت ان سے مزاحم ہونے کیلئے سامنے آئی ۔اسے بھی پرامن طریقے ان قوتوں نے کام نہیں کرنے دیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں سے کچھ لوگ الگ ہو کر بیس سالوں سے القاعدہ نام کی تنظیم سے دنیا میں مسلح جد جہد کیلئے نکل پڑے ۔امریکی دعووں کے مطابق ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد القاعدہ کے خاتمہ کیبعد داعش کو دنیا کے سامنے دہشت کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔
داعش کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ اب اس کا وجود بھی خاتمہ کے قریب ہے ۔ویسے کبھی کبھی یہ بھی خبر دنیا میں پھیلائی جاتی ہے کہ داعش نے فلاں فلاں خطہ میں اپنی پکڑ مضبوط کرلی ہے ۔ہر لمحہ متضاد خبریں آتی ہیں ۔اس سے دنیا میں عوام میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ یہ معاملہ کیا ہے ۔ایک طرف پچھلے چھ ماہ سے سے زائد سے حلب اور موصل کو داعش سے آزاد کرالینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو دوسرے ہی لمحے یہ خبر آتی ہے کہ ابھی موصل یا حلب کے ایک حصہ پر داعش سے جنگ جاری ہے ۔دنیا میں جس طرح پرپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ داعش کو ختم کردیا گیا ہے تو پھر یہ پریشانی کیوں ہے کہ اس کے خلاف جگہ بجگہ کانفرنسیں کرکے امن کی اہمیت و ضرورت اور داعش کے چیلنج پر لمبی لمبی تقریریں اور دعوے پیش کئے جارہے ہیں کہ وہ امن کیلئے ایک خطرہ ہے ۔یہاں ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ کسی خفیہ اور زیر زمین تنظیم کے بارے میں وثوق سے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ۔عام طور پر انہی خفیہ اور زیر زمین تنظیموں کی مدد سے مختلف ممالک اپنے خفیہ اداروں کے اشتراک سے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں ۔یہاں بھی داعش کے معاملہ میں ایسا سب کچھ نظر آجائے گا ۔آخر صرف داعش کا ہی تذکرہ کیوں کیا جاتا ہے ؟ ملیشیا تو اور بھی ہیں ان میں نمایاں نام حزب اللہ کا ہے اس پر کوئی گفتگو کیوں نہیں ہوتی ؟بات یہ ہے کہ جس طرح وطن عزیز میں ایک مسئلہ چھیڑ کر عوام کو کسی اہم مسئلہ کیا جانب سے دوسری جانب موڑ دیا جاتا ہے ۔ٹھیک یہی معاملہ مشرق وسطیٰ کا بھی ہے کہ ایران اپنے توسیع پسندانی عزائم کی تکمیل کیلئے حزب اللہ کو استعمال کررہا ہے لیکن داعش کا پروپگنڈہ زور شور سے کرکے دنیا کی توجہ اس جانب موڑ کر خود کو امن کا حقیقی نمائندہ بننے کی کوشش کررہاہے ۔ہمیں کسی کی لے پر رقص کرنے سے پہلے حالات پر غور ضرور کرنا چاہئے ۔اور جیسا کہ معاملہ ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کے داعش میں شمولیت کی بات تو یہ بھی محض مفروضہ ہے اور یہ بات تو دگ وجئے سنگھ بھی کہہ چکے ہیں کہ خفیہ ایجنسیاں فرضی اکاؤنٹ بنا کر نوجوانوں کو پھنسا رہی ہیں ۔اس کے علاوہ بری ہونے والے نوجوانوں کی آپ بیتی سے بھی پولس اور خفیہ محکمہ کی بد کاری ظاہر ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ملکی یا بین الاقوامی سطح پر امن کیلئے کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے وہ محض ڈرامہ ہے ۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں امن کی ایک شرط ہے قیام انصاف ،انصاف قائم کیجئے بدلے میں خود بخود امن کا قیام ہوگا۔لیکن ہر طرف ناانصافی اور ظلم کا دور دورہ اس لئے دنیا میں امن قائم ہونے کی بجائے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہے

0 comments:

featured

عظمیٰ کا موت کے کنوے سے گھر واپسی کا راز!



عمر فراہی 
۔ ای میل: umarfarrahi@gmail.com

عظمیٰ موت کے کنوے سے گھر واپس آچکی ہے ۔ایسا عظمیٰ نے پاکستان سے واپسی کے بعد میڈیا کے سامنے بیان دیتے ہوئےکہا ہے ۔اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان جانا تو آسان ہے واپس لوٹنا بہت مشکل ۔ویسے یہ بات تو ہمیں 1947 سے ہی پڑھائی جارہی ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے اور یہ ریاست بہت جلد ٹکڑوں میں بٹ جائے گی ۔پاکستان کے وجود میں آتے ہی کچھ بائیس سالوں کے بعد ایسا ہوا بھی اور پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا لیکن اس کے باوجود وہ ہمارے لیئے خطرہ بنا رہا ۔اسی کی دہائی میں کشمیر اور افغانستان کی شورش کے بعد پاکستان میں ہونے والے دھماکوں کی وجہ سے اسے موت کا کنواں بھی کہا جانے لگا ۔کیا یہ بات عظمیٰ کو پتہ نہیںتھی ۔ یقیناٌ پتہ رہی ہوگی کیونکہ جس طرح پاکستانی بچوں کو ہندوستان سے نفرت کا درس دیا جاتا ہے ہمارے یہاں بھی اسکولوں میں پاکستان سے محبت کرنے کا کوئی سبق نہیں ہے اور یہاں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آئی ہیں انہوں نے اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے ہمیں پاکستان سے ڈرا کر رکھا ہے ۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی پاکستانی سیاستداں بھی کرتے ہوں کیونکہ دونوں نے سیاست کا سبق ایک ہی مکتب ،مکتب برطانیہ سے سیکھا ہے ۔لیکن کبھی کبھی دونوں ملکوں کے درمیان ایسے حالات اور واقعات بھی ہوجاتے ہیں کہ عوام جو فطری طور پر امن کی متلاشی ہے وہ ایک دوسرے کے قریب آکر ایک دوسرے کوسمجھنا چاہتی ہے۔بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ابھی ایک سال پہلے پاکستان کے ایک فلاحی ادارے ایدھی ٹرسٹ نے آٹھ سال تک گیتا کی پرورش کرکے اسے اس کے ہندو عقیدے کے ساتھ بھارت کو واپس کردیا۔اگر پاکستانی چاہتے تو ایک معصوم بچی کی ذہن سازی کرکے اس کامذہب تبدیل کروا سکتے تھے اور پاکستان میں ہی اس کی شادی ہوجاتی لیکن انہوں نے سرحد سے بھٹک کر آئی ہوئی سیتا کو رام کے دیش میں واپس بھیج دیا -مئی کے مہینے کی شروعات سے ہی اخبارات میں یہ خبر پڑھنے کو مل رہی تھی کہ بائیس سالہ دوشیزہ جس کا نام عظمیٰ ہے وہ پاکستان اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے گئی تھی اور بندوق کی نوک پر کسی شادی شدہ چار بچے کے باپ طاہر علی سے اس کی جبراًشادی کروا دی گئی ۔اب جب وہ ہندوستانی سفارتخانے اور وہاں کی عدالت کی مدد سے وطن واپس ہوئی ہے تو اس کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں ۔لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب وہ اپنے رشتہ دار سے ملنے گئی تھی تو ساتھ میں اپنی بچی کو بھی کیوں نہیں لیکر گئی۔ وہ اپنے رشتہ دار کے یہاں ہی کیوں نہیں ٹھہری اور اس کے رشتہ داروں نے طاہر سے اس کی جبراً شادی کیوں ہونے دی ۔ہم نے بھی پہلے یہی سوچا تھا کہ شاید طاہر ہی اس کا رشتہ دار رہا ہوگا اور رشتہ داروں نے اس کی شادی کروا دی ہوگی لیکن ایسا کچھ نہیں تھا عظمیٰ نے خود راون کی لنکا اور موت کے کنوے سے محبت کی تھی ۔ فیس بک پر کسی نے انڈیا ٹوڈے میں شائع عدالتی کارروائی کے دوران اس کے شوہر اور نکاح پڑھانے والے مولوی کی گواہی کے حوالے سے لکھا ہے کہ عظمیٰ اور اس کے شوہر طاہر علی کی ملاقات دو سال پہلے ملیشیا میں کسی کمپنی کیلئے کام کرنے کے دوران ہوئی تھی اور یہ دونوں پہلے سے ہی ایک دوسرے سے آشنا تھے یا یوں کہہ لیں کہ دونوں میں اسی دوران سے آشنائی چل رہی تھی ۔عظمیٰ کو پتہ تھا کہ طاہر علی شادی شدہ اور چار بچے کا باپ بھی ہے ۔اس کے باوجود وہ اس کے ساتھ شادی کیلئے رضامند ہوگئی ۔عدالت میں طاہر علی نے اپنے وہاٹس پر ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ بھی پیش کیا کہ عظمیٰ نے خود اس سے کہا تھا کہ اگر کبھی تمہارے پاس میرے بھائی کا فون آئے تو یہ مت کہنا کہ تم شادی شدہ ہو اور تعلیم کے بارے میں پوچھے تو کہنا کہ تم نے گریجویشن کیا ہے ۔عظمیٰ نے جس طرح ہندوستانی سفارتخانے میں پناہ لینے کے بعد ڈرامے بازی کی اس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ پاکستان کے لوگ کتنے اجڈ ہیں جو زبردستی بندوق کی نوک پر ہندوستانی لڑکیوں کو بھی اغوا کرنے لگے ہیں ۔لیکن عظمیٰ کے ماضی کی زندگی سے ایسا لگتا ہے کہ وہ خود بہت ہی شاطرانہ دماغ رکھتی ہے ورنہ وہ تنہا طاہر علی سے ملنے کیلئے پاکستان نہ جاتی۔تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے بھائی اور بھابھی نے ایک دشمن ملک میں ایک انجان مرد کی اسپانسرشپ پر اسے پاکستان جانے دیا ۔جیسا کہ اخباری رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کی پہلی شادی کانگریس کے کسی ایم ایل اے کے لڑکے سے ہو چکی تھی اور اس کے بعد بھی اس کی پانچ شادیاں ہوئیں اور طلاق ہوچکا ہے ۔اس کے دو طلاق شدہ شوہر نیدر لینڈ میں ہیں جن سے اس کے چار  بچے بھی ہیں ۔اس کا مطلب طاہر علی اس کا چھٹا شوہر تھا مگر طاہر علی سے صرف دو دن میں ہی ایسا کیا ہوا کہ اس نے دلی میں مقیم اپنے بھائی سے رابطہ کیا ۔بھائی نےہندوستانی سفارت خانے میں کسی عدنان نام کے شخص سے رابطہ کرنے کو کہا ۔عظمیٰ نے بہت ہی چالاکی سے اپنے شوہر طاہر علی کو یہ کہہ کر ہندوستانی سفارتخانہ چلنے کو کہا کہ ہمیں ہندوستان میں ہنی مون منانے کیلئے ہندوستانی سفارت خانہ سے ویزے کیلئے رابطہ کرنا ہوگا جہاں عدنان نامی شخص ہماری مدد کرے گا ۔سفارتخانہ پہنچنے کے بعد عدنان نے طاہر علی کو باہر انتظار کرنے کو کہا اور عظمیٰ کو اندر لے لیا ۔جب کافی دیر تک عظمیٰ باہر نہیں آئی تو طاہر علی نے عظمیٰ کے بارے میں رسپشن پر دریافت کیا تو اسے بتایا گیا کہ اندر اس نام کی کوئی لڑکی نہیں ہے۔طاہر نے عظمیٰ کو حاصل کرنے کیلئے مقامی پولس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تو مذکورہ بالا کہانی کا کلائمیکس ابھر کرسامنے آیا ۔یعنی عظمیٰ نے ہندوستانی سفارت خانہ میں اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کرکے کہانی کو نیا موڑ دے دیا اور پاکستانی عدلیہ کی ہمدردی بھی جیت لی ۔عظمیٰ خوش قسمت تھی کہ ہندوستانی سفارت خانہ نے اس کے مسئلے میں دلچسپی دکھائی ورنہ عام طور پرسفارت خانہ اتنی مستعدی نہیں دکھاتے ۔شکر ہے کہ پاکستانی عدالت نے بھی اس لڑکی سے نہیں پوچھا کہ اسلام میں محرم کے بغیر کسی بالغ عورت کو حج کی اجازت نہیں ہے اور وہ کس رشتے سے ایک ملک میں ایک انجان شخص کے گھر آنے کی جرات کر بیٹھی۔پھر بھی جس ملک کو اس نے موت کا کنواں کہا ہے اسی ملک کی عدالت نے اس لڑکی کی نادانی پر رحم کھاتے ہوئے اسے فوری اپنے وطن جانے کی اجازت دےدی ۔پاکستان ہمارا لاکھ دشمن ملک سہی لیکن جس طرح اس نے سشما سوراج اور ہندوستانی سفارتخانہ کا شکریہ ادا کیا پاکستانی عدلیہ کا بھی شکرگذار ہونا چاہئے تھا۔عظمیٰ کو شاید پتہ نہیں کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے کسی کو وقتی دھوکہ دے سکتی ہے لیکن جدید پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں حقیقت کو زیادہ دیر تک چھپانا بہت مشکل ہے- کچھ آٹھ یا نو سال پہلے بھی عظمیٰ کی طرز کا ایک حادثہ ایک ہندو مہاراشٹرین لڑکی کے ساتھ جس کا نام غالباً سنیتا پاٹل تھا پیش آچکا ہے۔ سنیتا ایک پاکستانی لڑکے سے پیار کرکے عائشہ پاٹل ہوچکی تھی اور پھر سرحد پار جاکر اس سے نکاح کرلیا ۔اس لڑکے سے اسے ایک اولاد بھی ہوئی لیکن کچھ چار سال بعد اس کا شوہر کسی حادثے کا شکار ہوکرفوت ہوگیا ۔اس کی موت کے بعد اس کے گھر والے اس پر ظلم کرنے لگے -لڑکی نے ہندوستانی سفارت خانے اور اس وقت کے مہاراشٹر کے ہوم منسٹر آرآر پاٹل سے مدد مانگی کہ وہ اس کا حق دلانے کیلئے اس کی مدد کریں مگر اسے اپنے ملک سے کوئی مدد نہیں ملی ۔بالآخر اس نے پڑوسیوں کی مدد سےاپنے گھر والوں کے خلاف پاکستانی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ۔عدلیہ سے انصاف حاصل کرنے کے بعد جب وہ ہندوستان میں اپنے والدین سے ملنے آئی تو میڈیا والوں نے سوال کیا کہ کیا اب وہ واپس پاکستان جانا چاہیں گی ۔اس نے کہا ہاں میں اپنے شوہر کے بچے کی پرورش وہیں کرنا چاہوں گی کیونکہ جب میرے اپنے وطن کے لوگوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تو میری مدد پاکستان میں میرے شوہر کے دوستوں اور پڑوسیوں نے کی اور پاکستانی عدالت نے بھی مجھے انصاف دیا ۔عظمیٰ کے ساتھ طاہر علی کا کیا معاملہ تھا پتہ نہیں لیکن عظمیٰ کو پاکستان کی عدلیہ کا شکر گذار ہونا چاہئے کہ اسے انصاف ملا اور ہندوستانی سفارت خانہ نے بھی ایک مسلم لڑکی کے ساتھ اتنی مستعدی کیوں دکھائی چلئے اسے بھی راز میں رہنے دیتے ہیں ہوسکتا ہے اس میں بھی کوئی راز ہو۔

0 comments:

featured

چین، امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی اور ہندوستان کی صورتحال



نہال صغیر

دنیا اس وقت تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر ہے ۔کسی بھی وقت کسی بھی ملک کی ذرا سی انانیت کی وجہ سے جنگ کا مہیب دیو عالم انسانیت کیلئے بھیانک تباہی لاسکتا ہے ۔جن لوگوں کے دماغوں میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے مناظر محفوظ ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ موجودہ جنگ کیا تباہی لاسکتی ہے ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم جس نے لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کو نگل لیا تھا ۔دوسری جنگ عظیم جس میں امریکہ نے اپنی درندگی تاریخ میں رقم کروالی اس نے جاپان کے دو شہروں کو موت کی وادی میں بدل دیا تھا ۔جبکہ آج اس سے بھی کئی گنا زیادہ طاقتور ایٹم بم تیار ہو چکے ہیں۔چین اور شمالی کوریا کا تنازعہ جس میں امریکہ کے غروراور توسیع پسندانہ عزائم کو بڑا دخل ہے ،علاقے میں کشیدگی کا سب سے بڑا سبب ہے ۔دوسرا چین امریکہ کے درمیان نئے سوپر پاور بننے کی دوڑ نے بھی جنگ کے امکانات میں اضافہ کیا ہے ۔اس کے علاوہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر ہندوستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے ۔ہندوستان کے کئی حصوں پر چین کی نیت خراب ہے وہ آئے دن ہندوستانی علاقوں میں دخل اندازی و در اندازی کرتا رہتا ہے ۔لیکن ہمارے سیاست داں ہیں کہ بس پاکستان میں الجھے ہوئے ہیں جس کا ہندوستان کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔ بین الاقوامی طور پر اس ہفتے کچھ اہم واقعات ہوئے ہیں جس سے تیسری جنگ عظیم کے نقارے بجتے دکھائی دیتے ہیں۔ہندوستان اور پاکستان کے بیچ خدا واسطے کا بیر ہے ۔اس دشمنی میں جہاں سرحدی اور سیاسی کشیدگی کو دخل ہے وہیں کہیں نہ کہیں اس میں مذہبی و تہذیبی تفاخر کا بھی کچھ نہ کچھ اثر ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معمولی سا واقعہ بھی بڑے تنازعے کا سبب بن جاتا ہے ۔دونوں ملکوں میں جاسوس پکڑے جاتے ہیں اور انہیں سزائیں بھی سنائی جاتی ہیں یا پھر ان کے معاملات کو التوا میں رکھا جاتا ہے ۔کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے جب عام اور بے گناہ شہری انجانے میں کسی قانون شکنی کا مرتکب ہوجاتا ہے تو اسے سخت مشکلات اور زندگی و موت کے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ایسے ایک معاملہ میں ہندوستانی شہری کلبھوشن یادو کو پاکستانی فوجی عدالت کے ذریعہ پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد ہندوستان نے اسے عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا جہاں سے کلبھوشن کی پھانسی پر چالیس دن کے امتناع کا حکم آیا ہے ۔اب یہ معاملہ دونوں ملکوں میں نزاع کا نیا سبب بن کر سامنے آیا ہے ۔ہندوستان کا کہنا ہے کہ وہ ایک عام شہری ہے جسے ایران سے پاکستانی ایجنسیوں نے اغوا کیا ہے جبکہ پاکستان کہتا ہے عام شہری کے دو پاسپورٹ دو مختلف ناموں سے نہیں ہوتے ۔ہندوستان کا الزام ہے کہ سارے الزامات فرضی اور من گھڑت ہیں ۔ویسے اتنی جلدی میں عالمی عدالت برائے انصاف میں جانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔کیوں کہ کلبھوشن کو اپیل کے لئے دو ماہ کا وقت تھا ۔ہندوستان نے شاید اس لئے جلد بازی میں عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ اس کو خدشہ تھا کہ پاکستان کبھی بھی اچانک اسے پھانسی دے سکتا ہے ۔تو کیا پاکستان اتنا جری اور وعدہ فراموش اور ناقابل اعتبار ہے کہ ہمیں یہ خدشہ ہو کہ وہ اپنی ہی قانون کی دھجیاں محض اس لئے اڑائے گا کیوں کہ اسے ہمیں تکلیف پہنچا کر سکون ملتا ہے ؟بہر حال اس لفظی جنگ کے درمیان کلبھوشن کی سزا پر وزیر خارجہ سشما سوراج کا یہ قول بھی سامنے آیا کہ کلبھوش کی پھانسی کو جنگی جرائم میں شمار کیا جائے گا ۔شاید یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ محض ایک شخص کی پھانسی کو جنگی جرم سمجھا جائے گا ،اگر کلبھوش کو پاکستان پھانسی دے دیتا ہے ۔حالانکہ نہیں لگتا کہ پاکستان بغیر کسی قانونی پیش بندیوں کے کلبھوشن کی پھانسی کی سزا پر عمل در آمد کرنے کی جرات کرے ۔اب تو یہ پاکستان کیلئے اور بھی مشکل ہو گیا ہے جبکہ معاملہ بین الاقوامی عدالت میں پہنچ گیا ہے ۔
ہند و پاک میں کشیدگی میں اضافہ پچھلے دو برسوں سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔گرچہ وزیر اعظم نریندر مودی غیر روایتی طور پر نواز شریف سے ملنے اچانک لاہور جاچکے ہیں اور دوستی کے ہاتھ بڑھا چکے ہیں ۔کشمیر وہ واحد سبب نزاع ہے جو حل ہو کر ہی نہیں دیتا ۔اس سے سیاست دانوں کو عملی سیاست کیلئے خوراک ملتی ہے ۔دو برسوں سے کشمیر میں عوامی تحریک میں اضافہ ہو گیا ہے ۔روایتی جنگجو ؤں ،مزاحمت پسند تنظیموں اور نام نہاد دہشت گردوں کے بجائے احتجاج کرتے کشمیری نوجوان اور ہتھیار بند ہندوستانی سلامتی دستوں کے سامنے چھوٹے بچے اور خواتین کا آنا ایک نئے سوال کھڑے کررہا ہے ۔وہ سوال یہ ہے کہ کیا علیحدگی پسندوں نے آزادی کشمیر کی حکمت عملی تبدیل کردی ہے ۔اس پر دو طرح کی رائے ہے ۔ہندوستانی موقف کی حمایت کرنے والے کا الزام ہے کہ حزب المجاہدین جیسی تنظیموں نے نوجوانوں کو پیسے دے کر ان سے سلامتی دستوں پر سنگ باری کا کام لے رہے ہیں ۔جبکہ صحافیوں کا ایک دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ اب جن نوجوانوں کے ہاتھوں میں پتھر ہے وہ نسل مزاحمت ،تشد داور جبر کے سائے میں پروان چڑھی ہے ۔اس نے سب کچھ دیکھا ہے ۔اس نے ناانصافی اور ظلم کی سیاہی کو سمجھا ہے ۔یہ سنگ باری کا فیصلہ اس کا خود کا ہے ۔اس میں کسی تنظیم یا کسی غیر ملکی ہاتھ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ لیکن اتنا طے ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر کو انسانی بنیادوں پر حل نہیں کیا گیا تو یہ دو نوں ملکوں کی کشیدگی کو کسی دن تباہ کن جنگ میں تبدیل کردے گا۔
ہندوستان کے شمال مشرق میں شمالی کوریا اور امریکہ کی بڑھتی کشیدگی ہمارے لئے اچھی خبر نہیں ہے ۔امریکہ نے شمالی کوریا کی جانب اپنا دوسرا بحری بیڑہ یو ایس ایس رونالڈ ریگن روانہ کیا ہے ۔اس سے علاقے میں کشیدگی میں اضافہ ہونا منطقی ہے ۔ امریکہ کے پاس بہانہ ہے کہ شمالی کوریا کو عالمی برادری کی تشویش سے آگاہ کرنے کے باوجود وہ اپنے ایٹمی تجربات کو نہیں روک رہا حال ہی میں اس نے ایک نئے میزائل کا تجربہ کیا ۔امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی شمالی کوریا کو سبق سکھانے کی دھمکی دی تھی ۔شمالی کوریا کئی بار یہ بات کہہ چکا ہے کہ اگر امریکہ نے اسے اکسانے کی کوشش کی تو وہ امریکہ پر ایٹم بم سے حملہ کردے گا ۔اگر شمالی کوریا کی یہ بات محض پروپگنڈہ نہیں کہ وہ امریکہ تک میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو تاریخ میں پہلی بار امریکہ کو اس کی خود کی ہی زمین تنگ نظر آنا یقینی ہے ۔اب تک امریکہ دوسروں کے لئے ان کی زمین تنگ کرتا آیا ہے ۔اس سے قبل ٹوئن ٹاور اور دیگر جگہوں پر خودکش طیارہ حملوں سے امریکہ کو عدم تحفظ کا احساس ہوا تھا ۔چین بھی امریکہ کو مسلسل اس کی اوقات یاد لاتا رہتا ہے ۔چھوٹی چھوٹی ضروریات کی اشیاء سے چین نے پورری دنیا میں اپنی معاشی برتری حاصل کرلی ہے ۔پچھلے ہفتہ یہ خبر بھی آئی تھی کہ چین نے مسافر بردار طیارہ بھی بنالیا ہے جس نے کامیابی سے اڑان بھر کر طیارہ تیار کرنے والے ممالک فرانس اور امریکہ کیلئے چیلنج کھڑا کردیا ہے ۔چین نے اب ایک اور بڑی جرات کا کام کیا ہے کہ اس نے مشرقی چینی سمندر کے اوپر پرواز کرنے والے امریکی طیاروں کو گھیر کر اسے راستہ بدلنے پر مجبور کیا جس پر امریکہ نے اسے غیر ذمہ دارانہ اور غیر عملی قدم قرار دیا ہے ۔امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کا طیارہ بین الاقوامی ہوائی پٹی سے پرواز کررہا تھا۔اس سے قبل بھی امریکی طیاروں کو جنوبی چین کے سمندر کے اوپر اس کے راستوں میں رخنہ اندازی کی گئی تھی ۔اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ امریکہ نے جہاں چاہا وہاں بمباری کی خواہ اس میں عام شہری ،معصوم بچے اور خواتین ہی ماری جائیں اور وہ جہاں چاہے پرواز کرے جس کے فضائی حدود کی چاہئے خلاف ورزی کرتا رہے کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا لیکن چین نے اس کو یہ یاد دلادیا کہ اب اس کی سوپر پاور کی قوت محض قصے کہانیاں ہیں ۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ نے جیسا کہ شمالی کوریا کو دھمکی دی ہے کہ اسے سبق سکھایا جائے گا اور مسلم ملکوں اور امریکہ کو ہجرت کرنے والوں کے خلاف جس نفرت کا اظہار کیا تھا اگر انہوں نے ویسا عملی اقدام کیا تو پھر یقیناًقدرت امریکہ کو چین اور شمالی کوریا کے ذریعہ سبق سکھا نے کا پختہ ارادہ کرچکی ہے !
اس دوران ہندوستان کو امریکہ سے ہووتزر توپیں دستیاب ہو گئی ہیں جس کاپوکھرن میں تجربہ کیا جائے گا اس کے بعد اسے چینی سرحد پر تعینات کئے جانے کی امید ہے ۔یعنی پہلی مرتبہ پاکستان کے بجائے ہندوستان نے جنگی نکتہ نظر اور اپنی سلامتی کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ ہلکے اور کارآمد توپوں کو ہند چین سرحد پر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔یعنی بین الاقوامی ہی نہیں قومی سطح پر بھی تبدیلی کا احساس ہو رہا ہے ۔یہ تبدیلی اچھی بھی ہے اور خطرناک بھی ۔جہاں کسی ملک کی آزادی و وقار کیلئے یہ ایک اچھی علامت ہے تو وہیں بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے جنگ کے خدشات سے عالم انسانیت کا وجود خطروں میں گھرا ہو محسوس ہوتا ہے ۔ہرلمحہ تباہ کن جنگ کی جانب بڑھتی دنیا کو اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ ہے نفرت کی فضا کو بدلا جائے ۔ دوسرے کی آزادی اور وقار کا خیال رکھا جائے ۔کسی اقلیتی گروہ خواہ وہ مذہبی ،لسانی یا علاقائی ہو اس کے ساتھ انصاف اور برابری والا رویہ برتا جائے تاکہ اس گروہ کے اندر اپنی سلامتی کے تئیں خدشات گہرے نہ ہوں۔ یہ عدم تحفظ کا احساس ہی انسانوں اور ان کے گروہوں کو اقدامات کی طرف لے جاتے ہیں ۔باہری جنگ سے ملکوں کا نکلنا تو پھر بھی آسان ہے لیکن خانہ جنگی سے کسی ملک کا نکلنا اور پھر ترقی کی شاہراہوں پر دوسری قوموں سے ہمقدم ہونا کار محال ہے ۔ہم دنیا میں ایسے کئی ممالک کے شاہد ہیں ۔بد قسمتی سے ہندوستان میں ایک گروہ کی تنگ دلی ،کوتاہ نظری اور دہشت  پسندانہ عزائم سے خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہو نے کا خطرہ بڑھ گیا ہے!

0 comments:

featured

ترے سادہ دل بندے کدھر جائیں

قاسم سید 
جب کوئی ذات کے حصار میں قید ہوجائے تو پھر صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ خودغرضیوں کے سارے پرندے ان کی منڈیر پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ انانیت کا سیلاب انکساری و عاجزی کے تمام باندھ توڑکر دوسروں کی کھیتیاں تہ و بالا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور خدانخواستہ انانیت اعلیٰ ترین مسند پر فائز ہوجائے تو تکبر اور گھمنڈ کے لات و منات تقدس مآب بن جانے میں خجالت محسوس نہیں کرتے، جس پر عقیدت مندان جانثاری و وفاداری کے گلہائے دیوانگی چڑھاتے ہیں۔ یہ دیگر انسانوں سے ہر لحاظ سے ممیز، ان کی عادات و اطوار معصوم عن الخطا، ان کے فیصلے پاک صاف، ان کے بیانات زم زم کی طرح شفاف، ان کے اقوال پتھر کی لکیر، ان کے پرستاروں، وفاداروں اور عقیدت مندوں کی فوج ایسے تمام عناصر کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے جن کی گردن کی رگیں بقول مولانا ابوالکلام آزاد زیادہ سخت ہوتی ہیں اور اطاعت و فرماں برداری کو ذہنی غلام سے دور رکھتے ہیں۔ اختلاف کے ساتھ لب کشائی کرنے والوں کی حرکات و سکنات کی نگرانی کے ساتھ ان کا منھ توڑ جواب دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رکھا جاتا ہے، خاص طور سے سوشل میڈیا پر ایسے تربیت یافتہ رنگروٹ تعینات کئے جاتے ہیں جنھیں گالی گلوچ سے بھی گریز نہیں ہوتا۔ ہر وہ مہذب گالی جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو دینے میں حددرجہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ وہ فاسق، فاجر، منافق، زندیق، قوم و ملت کا غدار، سرکاری ایجنٹ اور حکمراں جماعت کا دلال تک بنادیا جاتا ہے اور یہ تمام حرکتیں دین کے تحفظ اور ملک و ملت کی فلاح کی خاطر کی جاتی ہیں تاکہ ایسے لوگوں سے معصوم ملت کو باخبر رکھا جاسکے، ان کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا کے تمام سیاروں کی سیر کرلیجئے، اختلاف رکھنے والوں کو جس زبان و بیان سے نوازا جاتا ہے یقین نہیں ہوتا کہ یہ اس امت کا حصہ ہیں جس کے نبیؐ نے اخلاق کریمہ پر سب سے زیادہ توجہ دی۔ دلآزاری سے بچنے اور دشمنوں کا بھی احترام کرنے کی تلقین کی۔ آسمان کی رفعتوں کو چھولینے والی یہ بلند و بالا شخصیات اپنے اردگرد تقدس، عظمت و سطوت اور شہنشاہیت کا ایسا پاکیزہ ہالہ بنالیتی ہیں کہ اس کے آس پاس جانے والا اپنے پروں کو جلا بیٹھتا ہے۔ یہ دیواریں اتنی اونچی ہوتی ہیں ان سے سر ٹکرانے والے کو اس کی سنگین غلطی کا ’اچھے انداز‘ میں احساس کرادیا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے جب کوئی اپنی بلند بالا معصوم عن الخطا ذات کے حصار میں قید ہو تو وہ دوسروں کے بارے میں بھلا کیسے سوچ سکتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اکابرپرستی کی بھیانک ترین مہلک بیماری میں مبتلا ہے اور اس کا دائرہ لگاتار پھیلتا جارہا ہے اس کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ یہ جراثیم شہد کی مکھیوں کی طرح پالے جارہے ہیں۔ مریدوں کے حلقے عدم برداشت کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ اس حلقہ بندی نے گروہ بندی کی شکل لے لی ہے۔ ہر چار قدم پر موجود یہ گروہ بند حلقےمسلمانوں کی اجتماعی طاقت کا گھن بن گئے۔ بالادستی کے زعم میں شریعت کو پیچھے ڈال دیا ہے اور یہ خوف بڑھتا جارہا ہے کہ مسلکی بنیاد پر افرادی قوت بڑھانے کی دیوانگی شریعت کو بازیچہ اطفال نہ بنادے، گالیاں ذہنی افلاس اور دلائل کے دیوالیہ پن کی علامت ہوتی ہیں جن کے پاس کوئی کام نہیں وہ بغیرمحنتانہ اس میں لگادیے جاتے ہیں، اس سے ذات کے حصار میں قید شخصیات کی ذہنی تسکین کا سامان ہوتا ہے۔ لایعنی مباحث اور فقہی دلائل سے ایک دوسرے کے سر پھوڑنے کے رجحان میں اضافہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہمارے پاس وقت کی کمی نہیں ہے اور اچھے کام کرنے و مثبت تعمیری سوچ کے لئے وقت نہیں۔ اکابرپرستی کے مرض اور مسلکی انتہاپسندی نے صحیح و غلط کی لکیر مٹادی ہے۔ کوئی طبقہ، کوئی فرقہ کوئی مسلک اس بیماری سے الگ نہیں۔ تعریف و توصیف کے وقت معقولیت، اعتدال و توازن کی ہوائوں کا گزر نہیں ہوتا، یہاں صرف اندھی عقیدت کی ہوائیں چلتی ہیں۔ ذہنی ساخت اس قدر تنگ اور خودپسندی کا جال ایسا کہ قوت برداشت کی برف ذرا سی نکتہ چینی کی گرمی سے سیال بن جاتی ہے۔ یہ تصور محال ہے کہ جو ہمارا محبوب ہے، جس سے بے پناہ عقیدت ہے جن کی تحریریں حوالوں کے لئے چن لی ہیں اور زندگی کی کتاب معتبر بنالیا ہے۔ نعوذباللہ اس میں بشری کمزوری بھی ہوسکتی ہے وہ کوئی غلطی کرسکتا ہے، اس کے فیصلے نقصان دہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ مخالفت یا حمایت کی بنیاد دلائل و حقائق اور منطقی نتائج پر کم اور ذاتی پسند و ناپسند پر زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کسی کے تعلق سے بدگمانیاں ہیں وہ فرد یا جماعت ہر قسم کی معقولیت سے محروم ہے، اس کی ہر بات غلط اور گمراہ کن، وہ سماجی بائیکاٹ کے لائق، اس کا آب و دانہ بند ہوجانا چاہئے، اس کی ہر صحیح بات بھی جھوٹ، جبکہ ہر پسندیدہ شخصیت کا ہر کلمہ کلمہ حق لگتا ہے، اس کی خامیوں کے لئے معقول عذر تلاش کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس افراط و تفریط نے ہمارے ضمیر کو لہولہان کردیا ہے اور اجتماعیت کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ ایسے لوگ جس ادارے سے وابستہ ہوجائیں وہ بھی اسی تقدس اور احترام کا طالب بنادیا جاتا ہے اور وہ شخصیات و ادارے مقدس گائے کی طرح تمام جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کرالیتے ہیں۔ گائے کی دم پر مارنے والے کو بھی جس طرح گھیرکر مارا جاتا ہے اور کہیں کہیں اس کی جان بھی لے لی جاتی ہے اسی طرح کا احترام ان لوگوں کے لئے لازمی ہوگیا ہے، یعنی یہ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خالص ملک و ملت کی فلاح کے لئے کرتے ہیں، اس لئے ان کے ہر قدم اور ہر فیصلہ پر آنکھیں بند کرکے صرف آمنا و صدقنا کہنا لازمی ہے، منھ پر تالا لگانا ضرورت کا عین تقاضہ ہے۔ اگر آپ نے انگلی اٹھائی یا کوئی حرف سوال نکالا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ملت کے دشمن ہیں اور دوسروں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ جو ان پاکیزہ روحوں اور مقدس ہستیوں کے تئیں کچھ کہنے کی جسارت کے سنگین جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ اندھوں کی طرح انگلی ان کے ہاتھ میں دے دیں اور چپ چاپ بھیڑ بکریوں کی طرح ریوڑ کا حصہ بن جائیں۔ سوالات و جوابات جیسی بے وقوفیاں نہ کریں، ان کے خودکش فیصلوں پر بھی تالیاں بجائیں، بازار حسن میں یوسف کے بھائیوں کی حرکتوں کو نظرانداز کردیں، مسلمانوں کے باوقار اور نمائندہ اداروں کو یرغمال بنانے پر لب سی لیں، سیاسی طالع آزمائوں کی سرگرمیوں سے آنکھیں بند کرلیں، منصب کے نام پر جذبات کو مشتعل اور ان کا احساس کرنے والوں کی خبر نہ لیں، احتساب کی روح کو معاشرہ سے نکال دیں تو آپ بہت اچھے اور ملک و ملت کے خیرخواہ ورنہ آپ سے بڑا دشمن کوئی نہیں۔
یہ ہٹلر اور جارج بش جیسی سفاکانہ ذہنیت کیسے در آئی کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے، جو ہمارا مخالف وہ ملک و ملت کا مخالف ہے۔ جس طرح راشٹر بھکتی اور دیش بھکتی کی اصطلاحوں کے معانی و مفاہیم بدل گئے ہیں اسی طرح مسلم سماج کے اندر بھی قیادت کا ایسا گروہ حاوی ہوگیا ہے جو آمرانہ طرز عمل کے ساتھ سب کچھ اپنی مٹھی میں کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت میڈیا بھی دوطرفہ دبائو میں ہے۔ ایک طرف موجودہ سرکار اپنی مرضی و خواہش کے مطابق سب کچھ دیکھنا اور سننا چاہتی ہے جو مایاوتی، لالو یادو، ممتا بنرجی، سونیا گاندھی جیسی سیاسی شخصیات کے ساتھ قانونی ضابطوں کے حوالے سے ہورہا ہے دائیں بائیں چلنے کی صورت میں میڈیا کا گلا دبانے کے لئے کئی قانونی ذرائع ہیں اور ان کا مختلف حیلوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ معاملہ صرف کارپوریٹ کی ضرورتوں اور مجبوریوں کا نہیں ہے ان کا ایجنڈا الگ ہے۔ عام میڈیا بھی اس دبائو سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ وہیں ہتک عزت کے نام پر اخبارات کو نوٹس تھمانے کی نئی روایت شروع کردی گئی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو تنقید برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ جو خود کو ہر طرح کی تنقید و نکتہ چینی سے بالاتر سمجھتا ہے، جو صرف گردن مروڑ دینے پر ایمان رکھتا ہے، جو مقدس گائے بنا ہوا ہے، اگر اس کی حرمت پر ذرا سا بھی حرف آیا تو پھر آپ کی خیر نہیں ہے۔ یہ گلا گھونٹو ذہنیت ان ہوائوں پر بھی پہرہ لگانا چاہتی ہے جو اپنے ساتھ اختلاف رائے کی خوشبو لے کر چلتی ہیں۔ یہ تعلیم یافتہ نئی نسل کے رجحانات سے ناواقف ہیں۔ یہ اپنی تعمیرکردہ جنت میں خوش ہیں اور ایک دوزخ بنارکھی ہے جس میں اپنے مخالفین کو ہاتھ پیر پکڑکر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ جنگیں ہارنے پر بھی فتح کا جشن مناتے ہیں۔ یہ قانونی شکستوں کو کامیابی کا جامہ پہنادیتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والے مہذب گالیوں کی ڈکشنری سے نابلد ہیں مگر وہ اس سطح تک گرنا نہیں چاہتے ہیں، جہاں انسانیت خود کو برہنہ دیکھ کر شرمانے لگے اور نہ ہی وہ خوف زدہ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں۔ انھیں یہ سبق یاد ہے کہ جسے ہو جان و دل عزیز وہ اس گلی میں جائے کیوں۔ وہ صرف اس لئے صبر و ضبط اور صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں کہ شیرازہ بکھیرنے والوں میں ان کا نام شامل نہ ہو۔ جب اسپیڈ بریکر ختم کردیے جائیں، بیریکیڈ نہ لگے ہوں تو حادثات کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

featured

اب دواؤں کی تجارت پر نظر


ممتاز میر

ہم کئی بار اپنے مضامین میں یہ بات لکھ چکے ہیں کہ حکومت کرنے کا حق انھیں ہے یا وہ بہتر حکمرانی کر سکتے ہیں جودل میں خوف خدا رکھتے ہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ۔باقی لوگ تو چوری کرتے ہیں ڈاکے ڈالتے ہیں اپنی عورت کو چھوڑ کر سرکاری مشنری کی مدد سے دوسری عورت کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ساتھ میں عورت کی ہمدردی کا ڈھونگ بھی رچاتے جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے دور میں کسان اگر خودکشی کرتا ہے تو تعجب کی بات نہیں ۔کتنی حیرت انگیز ہے یہ بات اور مسلمانوں کے لئے قابل اطمینان بھی کہ پہلے ان لوگوں کو خود کشی پر مجبور کیا گیا جو سبزی یا ویجیٹبلس کی ملکی ضروریات کو پورا کر رہے تھے ۔اب گوشت یا نان ویج کی ضروریات پورا کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔تازہ ترین خبر کے مطابق اب گؤ رکھشک بھینس کے گوشت کا کاروبارکرنے والوں پر بھی حملے کر رہے ہیں۔بار بار کے واقعات کے بعد بھی حکومت کے کانوں پر جوں رینگنے کو تیار نہیں۔جبکہ چمڑے اور اس کی اشیاء کی برآمد سے حاصل ہونے والا زر مبادلہ بھارت میں دوسرے نمبر پر ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ گوشت کا کاروبار کرنے والے چونکہ ایک خدا پر بھروسہ کرتے ہیں اسلئے وہ خودکشی کرنے والے نہیں ۔
نوٹ بندی کے وقت یہ کہا گیا تھا کہ اس سے کالا دھن ختم ہوگا ۔کرپشن پر روک لگے گی اور دہشت گردی بھی ختم نہ سہی کم ہو جائے گی ۔کچھ بھی نہ ہوا بلکہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دہشت گردی تو اور بڑھ گئی۔اور یہ تعجب کی بات بھی نہیں ۔ اگر ہم بی جے پی حکومتوں کی تاریخ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی سے اسے غذا ملتی ہے ۔ہمیشہ سنکٹ کے وقت دہشت گردوں نے بی جے پی کے لئے سنکٹ موچن کا کام کیا ہے۔اسلئے ہم سمجھتے ہیں کہ بتائی گئیں تینوں وجوہات بکواس تھیں ۔مگر یہی کام ڈھنگ سے تو کیا جا سکتا تھا ۔مثال کے طور پر اگر ہم ریزرو بینک کے گورنر ہوتے توپہلے نئے نوٹ چھاپ کر ذخیرہ کر لیتے ۔نئے نوٹ پرنٹ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتے کے نوٹ صورت کے رنگ روپ کے چاہے جیسے ہوں سائز میں بالکل ویسے ہوں جیسے کے پرانے نوٹ تھے تاکہ اے ٹی ایم مشینوں میں رکھتے وقت دقّت نہ پیش آئے اور ان کی سیٹنگ نہ تبدیل کرنا پڑے۔حیرت ہے کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک کی حکومت چلانے والوں کو اتنی معمولی بات کی سمجھ نہیں تھی !خیر،پھر ہم کہتے کہ اب تمام بینکوں کو چھاپے گئے نوٹ روانہ کریں اور ساتھ ہی نوٹ بندی کا اعلان کریں ۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کی نیت صحیح نہیں تھی ۔حکومت کو چندہ دینے والوں نے بینک سے قرض لے کر جوگڑھے کئے تھے نوٹ بندی سے وہ بھرنا تھا ۔اب وہی حکومت انہی چندہ دینے والوں کی خاطر دواؤں جیسی نازک اور ٹیکنیکل چیز کے پیچھے پڑی ہے ۔وطن کا کیا ہوگا انجام۔بچالے اے مولا !
اب حکومت عوام کو دوا سپلائی کرنے والوں کو خود کشی پر مجبور کرنا چاہتی ہے ۔چند سالوں پہلے حکومت نے نہ صرف یہ فیصلہ لیا بلکہ نافذ بھی کردیا کہ جس طرح دیگر اشیا آن لائن فروخت کی جا رہی ہیں اسی طرح اب دوائیں بھی آن لائن فروخت کی جا سکتی ہیں۔ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ فون کرکے یا بذریعہء ای میل پزا ،جوتا، کپڑا یا موبائل سیٹ منگوایا جا رہا ہے ۔اب آپ انھی جدید وسائل کا استعمال کرکے ہرقسم کی دوا بھی منگوا سکتے ہیں۔یہاں تک کہ وہ دوائیں بھی جنھیں بیچتے ہوئے بازار میں بیٹھا ہوا لائسنس یافتہ کیمسٹ بھی ڈرتا ہے۔وہ کیمسٹ جو باقائدہ فارمیسی کی ڈگری رکھتا ہے۔بہت ساری ایسی دوائیں ہوتی ہیں جو مارکیٹ میں دکان رکھنے والا لائسنس یافتہ کیمسٹ چاہے ہول سیلر ہو یا ریٹیلر،آسانی سے بیچ نہیں سکتا کیونکہ اسے خریدنے اور بیچنے میں بہت ساری فارمالیٹیز پوری کرنی پڑتی ہیں ۔مگر وہی دوائیں اب ای مارکیٹنگ کے ذریعے آسانی سے بیچی یا حاصل کی جارہی ہیں۔اور یہ سب وطن عزیز کو ماڈرنائز کرنے کے نام پر ہو رہا ہے۔ مگر کیا واقعتاً ایسا ہے ۔ہم تو یہ جانتے ہیں کہ بازار میں میڈیکل اسٹورس پر کوئی بھی دوا بغیر پرسکرپشن کے نہیں ملتی۔پھر فون یا ای میل سے دوائیں کیسے مل سکتی ہیں ؟پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آپ کو پرسکرپشن اسکین کر کے بھیجنا ہوگا۔ہم نے کہا کہ اس طرح تو فارجری کے مواقع بہت زیادہ ہیں ۔ جواب ملا کہ ایسا بہت ہو رہا ہے۔قارئین کو شاید یہ جان کر اور زیادہ تعجب ہو کہ ہندوستان کی بہت ساری ریاستوں میں غیر ایلوپیتھ میڈیکل گریجویٹس کو ایلو پیتھی کی دوائیں لکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے جبکہ انھیں ان کے کورس میں ماڈرن میڈیسن کے نام سے نہ صرف ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے بلکہ باقاعدہ امتحان دے کر انھیں یہ مضمون پاس کرنا پڑتا ہے۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایم بی بی ایس میں ہربل میڈیسن پر کوئی مضمون نہ ہونے کے باوجود انھیں یعنی ایلو پیتھس کو ہربل میڈیسن لکھنے کی پوری آزادی ہے ۔ہمارے نزدیک یہ ایلوپیتھ دواؤں کو غیر معمولی اہمیت دینا اور دیسی دواؤں کی بے توقیری ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم آج بھی آزادی سے پہلے کی ذہنی فضا میں جی رہے ہیں۔اس پر ونسٹن چرچل کی کہی ہوئی بات یاد آتی ہے کہ ہندوستانی ابھی آزادی کے لائق نہیں۔گو کہ عوام تو دنیا میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑرہی ہے مگر ہمارے حکمراںآج بھی اندھیر نگری چوپٹ راج چلاتے ہیں۔
پورے دیش میں تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ کیمسٹ ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ ۵۰؍۶۰ لاکھ پیٹ اس پر پل رہے ہیں ۔حکومت سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کا کیا ہوگا؟دواؤں کی ای مارکیٹنگ سے جرائم کتنے بڑھیں گے؟کیا فارجری صرف اتنے پر رک جائے گی یا اور بھی مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گی؟ممنوعہ دواؤں پر کس طرح لگام کسی جا سکے گی ؟ایک طرف حکومت عوام تک سستی دوائیں پہونچانے کے اقدامات کرتی ہے اور دوسری طرف ای مارکیٹنگ کو نہ صرف بڑھاوا دے رہی ہے بلکہ اس پر بضد بھی ہے ۔اس سے پہلے ۱۴۔اکتوبر۲۰۱۵ کو وطن عزیز کے تمام کیمسٹوں نے اسی مسئلے پرہڑتال کی تھی اب پھر آئندہ ۳۰ مئی آن لائن دواؤں کی فروخت کے خلاف ہڑتال کرنے جا رہے ہیں۔دیکھئے حکومت کے کانوں پر جوں رینگتی ہے یا نہیں۔فی الوقت جو سیٹ اپ ہے اس میں ہول سیلر کو ۱۰ فی صد منافع ملتا ہے اور ریٹیلر کو ۲۰ فی صد۔ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ بہت لگے۔مگر بزنس کے ساتھ جو اخراجات لگے ہوئے ہیں۔پھر ایکسپائری دواؤں کا جو ڈر ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ منافع کچھ بھی نہیں ۔یہ سب آن لائن پر بھی ہوگا ۔پھر ہوم ڈیلیوری کے اخراجات الگ ہونگے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اسے کیسے برداشت کریں گے؟اب تو ایک مصیبت اور نوڈل ایجنسی کے نام سے بڑھائی جا رہی ہے ۔اس ایجنسی کو مینو فیکچرر سے لے کر ریٹیلر تک ،سب کو روزانہ بننے والی ۔دکان میں آنے اور بکنے والی دواؤں کا حساب کتاب روزانہ دینا ہوگا ،چاہے آپ کی دکان شہر میں ہو یا دیہات میںَ ۔چاہے بجلی اور کنکٹیویٹی ہو یا نہیں ۔گمان غالب یہی ہے کہ مودی جی کے آس پاس سارے لال بجھکڑ ہی ہیں۔یہ کھیل ویسا ہی ہی ہے جیسا امبانی نے جِیو کا کھیلا تھا ۔ماہرین کہتے ہیں کہ مودی جی کے دوستوں نے قرض لے کر بینکوں کو خالی کر دیا تھا ۔بینکوں کو بھرنے کے لئے نوٹ بندی کا کھیل کھیلا گیا تھا ۔آن لائن دواؤں کا کاروبار بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دیا جانے والا ہے۔کہا جاتا ہے کہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ نفع بخش فار ماسیوٹیکل انڈسٹری ہے ۔اگر مینوفیکچرنگ سے لے کر گراہک کو پہونچانے تک پر ملٹی نیشنل کمپنیاں قابض ہو جاتی ہیں تو سوچئے کیا ہوگا ؟اگر درمیان سے یہ چھوٹے چھوٹے ہول سیلر اور ریٹیلر صاف کر دیئے گئے تو یہ مگر مچھ اپنی ہر چیز منہ مانگے داموں پر بیچیں گے ۔اب تو کہیں کہیں سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ یہ بڑے بڑے کارپوریٹس گھرانے سبزی بھاجی بھی بیچ رہے ہیں۔
ہماراحکومت سے سوال یہ ہے کہ اگر ساڑھے۸ لاکھ کیمسٹوں کو قبرستان پہونچادیا گیا ،سبزی منڈیاں بند کروادی گئیں،ٹھیلے پر سامان بیچنے والوں سے سڑکوں کو نجات دلادی گئی ، پھیری والوں سے گلیوں کو پاک کردیا گیاتو ان کارپوریٹس گھرانوں کے پراڈکٹس کو خریدے گا کون؟ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کی قوت خرید ختم ہو جائے گی تو شاپنگ مالس میں جائے گا کون؟ آخری بات یہ کہ کیمسٹوں کے بعد جنرل پریکٹیشنرس کو بھی اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑیگا۔جب فون کال پر یا آن لائن دوائیں آجائیں گی تو عام ڈاکٹرس کو پوچھے گا کون ؟ہوگا یہ کہ پہلے لوگ بیماریوں کو بڑھائیں گے پھر اسپیشلسٹ کے پاس جا کر پرسکرپشن حاصل کریں گے پھردواؤں کا آن لائن آرڈر دیں گے ۔ہو سکتا ہے اس سے حکومت کی منشا یہ ہو کہ اب گاؤں دیہات میں کوئی نہ رہے ۔سب ایسے اسمارٹ سِٹیوں میں منتقل ہوجائیں جہاں آن لائن ’’سیوائیں‘‘ہمہ دم دستیاب ہیں۔وہاں رہیں جہاں لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہ ہو ۔بھلے ہی اس انتقال میں بہت سارے بھارت سے کیا دنیا سے منتقل ہوجائیں۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ خاندان چھوٹا اور خرچ بھی کم۔بچت کو شاپنگ مالس میں لٹایا جا سکتا ہے ۔شاید اسے ہی کہتے ہیں ویلفئر اسٹیٹ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137

0 comments:

featured

صاحبو! کوئی راہ عمل ہے؟


قاسم سید
   
مرکز میں برسراقتدار این ڈی اے سرکار اپنی مدت کے تین سال پورے کرنے جارہی ہے۔ سابقہ حکومتوں کے برعکس اس نے ملک کو نئی سوچ کے راستے پر ڈال دیا ہے، جس کا اظہار حکومت کے رویوں سے لے کر سڑکوں تک ہورہا ہے۔ یہ بحث الگ ہے کہ یہ فکر ملک کو نیا قالب عطا کرے گی یا اس کے حصے بخرے کرنے کی طرف دھکیلے گی، لیکن اس فکر کی جارحیت، انتہاپسندی اور یک رخاپن نے بڑے طبقہ کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، حتیٰ کہ سیکولر منافقین بھی اضطراب محسوس کررہے ہیں۔ ان کے سافٹ ہندوتو کو گرم ہندوتو اژدہا بن کر نگلنے کو بے تاب ہے تو ان کی فکر و تشویش کا تعلق اپنے وجود کی بقا کے لئے ہے۔ مسئلہ صرف شہریوں کی پسند ناپسند کا نہیں سیاسی نظام کے تحفظ کا بھی ہے، جس کو دھیرے دھیرے بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور سب ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اب صورت حال ایسی بنادی گئی ہے کہ دوسری سب سے بڑی اکثریت یا سب سے بڑی اقلیت پر غیرمحسوس طریقہ سے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ ووٹ بینک کی جابرانہ سیاست نے اسے اچھوت بنادیا ہے۔ فراخ دلی سے کام لیں تو اس میں صرف ان پارٹیوں کا ہی ہاتھ نہیں ہے جو ہمیں پونچھے کی طرح استعمال کرتی رہی ہیں، بلکہ ہمارے اپنوں کی بھی سنگین اور ناقابل معافی غلطیاں ہیں، جو آنے والے وقت کا رتی بھر احساس کو بھی تھپک کر سلانے اور غلاموں کی طرح ان پارٹیوں کے خون کرتے رہے۔ یہ غیرمشروط وفاداری کا بندھن ان لوگوں کا رہین منت رہا جنھوں نے آزادی کے بعد سے ہی کانگریس سے عہد وفا کرلیا تھا۔ اقتصادی تباہ کاری کی بھیانک سازشوں نے بھی اس رشتہ کو کمزور نہیں ہونے دیا اور جب بھی غلامانہ ذہنیت نے انگڑائی لی اس پر تصوراتی و خیالی اندیشوں کے کوڑے برساکر کھونٹے کو اور مضبوط کردیا۔ یہ لوگ کسی بھی صورت میں معافی کے قابل نہیں اور نہ ہی ان میں اتنی جرأت ہے کہ وہ اپنی تعبیراتی و حکمت عملی کی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ انھوں نے اپنے اردگرد تقدس اور عزت مآب کا اتنا طاقتور ہالہ بنادیا کہ اگر کوئی اعتراض یا تنقید کا پتھر آئے بھی تو اسے ملت مخالف، بزرگ مخالف اور فرقہ پرست قوتوں کا ایجنٹ قرار دے کر معتوب و مقہور کردیا جائے۔ بحمداللہ یہ سلسلہ آج بھی اس آن بان شان سے جاری ہے اور نئی نسل کا قیمہ بنایا جارہا ہے۔ ان کے پاس موجودہ حالات میں بھی کوئی روڈمیپ نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ ذہن مائوف یا خوف زدہ ہیں اس لئے کوئی عملی قدم اٹھانے اور لائحۂ عمل دینے میں تکلف محسوس کررہے ہیں۔ دراصل عوام اور رہبران کے درمیان وسیع خلیج ہے جو روز بروز گہری ہوتی جارہی ہے۔ جو نہیں چاہتے کہ عوام کالانعام ان کے منھ لگیں، ان کے پاس عقیدت مندوں کی تربیت یافتہ فوج ہے، جس کے حصار میں رہ کر اپنی طاقت اور اہمیت منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کانفرنسوں اور جلسوں کے ذریعہ گاہے بگاہے اس کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے، مگر حیرت ہے کہ حکومت اس کے باوجود ان سے رابطہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، جو پی ایم سے ملنا تو چاہتے ہیں مگر ان کے بلاوے پر، از خود میل کرنے میں ان کے پندار انانیت کو چوٹ پہنچتی ہے اور یہیں ان کے طرز عمل کے دہرے پن کی چادر ہٹ جاتی ہے۔ اگر وزیراعظم غلط آدمی ہے جس کی وجہ سے آپ ملنا نہیں چاہتے تو اس کے بلاوے کا انتظار اور اس پر ملاقات کا اقرار کیوں؟ بہرحال جن لوگوں کی معراج اور مقبولیت کی دلیل کی کسوٹی ہی پی ایم سے ملاقات ہو ان کی ذہنی پسماندگی کا کوئی علاج نہیں، اس انتظار میں تین سال گزر گئے، کیا پتہ اگلے دو سال میں لاٹری کھل جائے۔
دراصل وہ بھیڑیا انسانی آبادی میں گھس آیا جس کا شور مچاکر اور خوف دلاکر ووٹوں کو سمیٹا جاتا تھا، اب اس نے ان بستیوں کا رخ کرلیا ہے جن کے تحفظ کے لئے سیکولر اور جمہوری اقدار کی باڑھ لگائی گئی تھی۔ اس کی مرغوب غذا صرف اقلیتیں ہی نہیں ہیں وہ سول سوسائٹی بھی ہے جو کثرت میں وحدت کی دل سے قائل ہے اور اس کے لئے قربانیاں دیتی آئی ہے۔اس کی آواز دبائی جارہی ہے، اسے دیش کا غدار، ہندوئوں کا دشمن کہہ کر ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے۔ جے این یو اسی مزاحمت کی طاقتور علامت ہے، وہ مظلوم طبقات نشانے پر ہیں جو اس کی منواسمرتی میں فٹ نہیں بیٹھتے اور ہر وہ نظریہ جس میں زندگی کی سچائیاں اور مزاحمت کی رمق ہے، اس کے اوّلین اہداف میں شامل ہے۔ اور چونکہ مسلمان ایک نظریاتی اکائی ہیں اس لئے ان کے حوصلوں کو توڑکر خوف و دہشت کا ذہنی مریض بتایا جارہا ہے اور وہ اپنی کوششوں میں نیک نیت ہیں، اپنے ارادوں کو کانگریس و دیگر سیکولر منافقوں کی طرح چھپاکر نہیں رکھتے۔ ان کے نشانے پر گائوں کے میلوں ٹھیلوں میں گائے بھینس فروخت کرنے والے، ان کا دودھ بیچ کر گزارا کرنے والے، سڑک کنارے پنکچر جوڑکر پیٹ کی آگ بجھانے والے، گوشت کی چھوٹی دکان چلاکر خاندان پالنے والے بھی آگئے ہیں۔ گئورکشوں کے بھیس میں جنونی غنڈوں کی فوج دندناتی پھررہی ہے۔ دادری کا اخلاق بیف رکھنے کی افواہ میں مارا گیا، پہلو خان کو دن دہاڑے شارع عام پر دوڑا دوڑاکر لوہے کی راڈوں سے مارکر دم نکال دیا۔ جھارکھنڈ کے لاتیہار میں محمد مظلوم اور بارہ سالہ عنایت اللہ مارچ 2016 میں نام نہاد گئورکشکوں نے پہلے اَدھ مرا کیا، پھر پیڑ پر لٹکاکر پھانسی دے دی۔ ہریانہ میں گزشتہ سال جانور لے جانے والے مسلم لڑکوں شدھی کرن کے لئے گائے کا گوبر اور پیشاب منھ میں ٹھونسا گیا۔ جموں میں غریب پنجارا مسلم پریوار کو گئورکشکوں نے بری طرح زدوکوب کیا۔ ان کے خیمہ کو آگ لگادی، بزرگ کو لہولہان کردیا، عورتیں ہاتھ جوڑکر رحم کی بھیک مانگتی رہیں ان کو 9 سالہ معصوم بچی پر بھی ترس نہیں آیا۔ حد تو یہ ہے کہ اب بھینس لے جانے والوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔ قومی راجدھانی میں تین لڑکوں کو اس لئے مار مارکر ادھر مرا کردیا کہ وہ بھینسوں کو اس شان و توقیر اور عزت و وقار کے ساتھ نہیں لے جارہے تھے جس کی وہ مستحق تھیں اور ان کی دلآزاری ہوئی۔ یہ لوگ مرکزی وزیر مینکا گاندھی کی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے، یعنی اب جانوروں کے حقوق انسانی حقوق پر مقدم ہیں، گئورکشا کے نام پر کسی کا قتل جائز ہے، راڈوں، لاٹھیوں، ہاکیوں سے ہاتھ پیر توڑے جاسکتے ہیں۔ اس کے باوجود مسلمان گئوہتیارا، غدار، دہشت گرد اور خواتین پر ظلم کرنے والا نظر آتا ہے، اس لئے وہ واجب القتل یا مستوجب سزا ہے اور اس کا اختیار غنڈوں کو دے دیا گیا ہے۔ ریاستی حکومتیں اور حکمراں جماعت کے لیڈر ایسے واقعات کا دفاع اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
مرکز میں حکومت تبدیلی کے بعد متواتر ایسے واقعات ہورہے ہیں، انھیں گئورکشک غنڈوں سے دہشت زدہ کیا جارہا ہے۔ وہیں قانون کا سہارا لے کر روزی روٹی کمانے کے راستے بند کئے جارہے ہیں۔ بی جے پی 13 ریاستوں میں برسراقتدار ہے، وہ کھلے طور پر کہتی ہے کہ مسلمان ہمیں ووٹ نہیں دیتے پھر بھی کسی شریف مسلمان کو پریشان نہیں کیا گیا۔ دراصل وہ کہنا چاہتی ہے ہمیں آپ کے ووٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پارلیمانی الیکشن اور پھر یوپی میں عملاً کردکھایا کہ 18 فیصد آبادی کا کوئی نمائندہ یوپی سے لوک سبھا نہیں پہنچنے دیا۔ تمہاری مخالفت کے باوجود سرکاریں بنالیں، تمھیں سیاسی حاشیے پر ڈال دیا، تمہاری سیاسی حیثیت زیروکردی، اس لئے اب دامادوں والی عادت سے چھٹکارا پالیں تو بہتر ہے۔ یہ مار صرف معاشیات پر ہی نہیں چوطرفہ ہے، تعلیمی محاذ پر اے ایم یو اور جامعہ ملیہ کا اقلیتی کردار چھیننے کا پورا انتظام کرلیا گیا ہے۔ اسکولوں کے نصاب میں انقلابی تبدیلیاں ہورہی ہیں، قومی ہیروز بدلے جارہے ہیں۔ وندے ماترم اور یوگا کو لازمی بنادیا گیا ہے۔ تہذیبی شناخت مٹانے اور مذہبی وابستگی کمزور کرنے کی ہر ممکن تدابیر کو قانونی جامہ دیا جارہا ہے، حتیٰ کہ کھانے پینے کا مینو بھی سرکار طے کررہی ہے۔ صرف مزدور اور درمیانی طبقہ ہی ہدف نہیں ہے دانشور اور متحرک طبقہ بھی لطف و عنایات کی زد پر ہے۔ ذاکر نائیک کا صرف بوریہ بستر نہیں لپیٹا گیا ان کو دہشت گرد بھی ثابت کردیا جائے گا۔ نظریاتی اختلافات رکھنے والے اس پر خوش ہوسکتے ہیں اور تالیاں بھی بجاسکتے ہیں، ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں الزام لگتے ہی اسے مجرم سمجھ لیا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو خاموش ہیں یا دور کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں، خود کو مامون و محفوظ سمجھ رہے ہیں، کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا جاہ و جلال، عزت و رتبہ، ہماری جماعت، ہمارے ادارے، مدارس و مساجد محفوظ رہ جائیں گے؟ کیا آگ کے مزید بھڑکنے کا انتظار ہے کہ آنچ گھر تک نہیں پہنچی ہے۔ مغربی یوپی کے 18 سو مدارس و مساجد سیکورٹی ایجنسیوں کے راڈار پر ہیں، ان کی نقل و حرکت پر نگاہ ہے۔ مدرسوں میں آنے جانے والے ہر شخص پر نظر ہے۔ جو خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم ابھی محفوظ ہیں، کچھ پتہ نہیں کل کوئی اور نائیک تلاش کرلیا جائے، کیونکہ خاموشی حوصلہ بڑھاتی ہے۔ ہندوئوں کو مضبوط قوم بنانے اور ہندو لوگوں کے احساس کو ہوا دینے کے لئے مسلمانوں اور دیگر مظلوم طبقات سے جانوروں جیسا سلوک، آگ لگانے، مارپیٹ کے واقعات سے ہندو گورو پھلتا پھولتا ہے اور سیاسی صف بندی ہندو-مسلم کے نام پر ہوجاتی ہے۔
اب دو تین سوال ہیں، کیا تیزی سے بدلتے سیاسی محور کی سنگینی محسوس کررہے ہیں؟ کیا بی جے پی اور مسلمانوں کے سیاسی رشتوں پر غور و فکر اور نظرثانی کی ضرورت ہے؟ کیا سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے؟ یوپی میں یوگی راج پانچ سال تو رہے گا تو کیا مرکز کی طرح اترپردیش میں بھی سرکار سے گفتگو کا دروازہ بند رکھا جائے گا۔ بی جے پی کی لگاتار فاتحانہ پیش قدمی کا کوئی علاج ہے؟ سیکولر پارٹیوں نے اپنا بندوبست کرکے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ کیا تین طلاق پر ہمیں ان کا ساتھ مل سکے گا؟ کیا آنے والے طوفانوں سے نمٹنے کی کوئی تیاری ہے؟ کیا ہمارے معزز علمائے کرام اور مخلص رہنما کوئی راستہ دکھائیں گے؟ کیا اندرونی اختلافات ختم کرکے مشترکہ جدوجہد کی کوشش کریں گے؟ کیا ٹیکٹیکل ووٹنگ کے عذاب سے نجات پائیں گے؟ کوئی راہ عمل ہے؟ یا پہلو خان یوں ہی مرتا رہے گا۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

featured

ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

   پروفیسر محسن  عثمانی ندوی                     

      اردو کے اخبارات کی ورق گردانی  سے اس غم اور رنج والم کا اندازہ ہوتا ہے جس نے مسلمانوں  کے اعصاب کو شدیدطور پر متاثر کیا ہے  ہر روز جب صبح طلوع ہوتی ہے ظلم وجبر کی کوئی سوہان روح خبر ملتی ہے  ہر شام جب آفتاب غروب ہوتا ہے اپنی مظلومیت کا ماتم سنائی دیتا  ہے ۔نہ ظلم کا سلسلہ رکتا ہے  اور نہ سینہ کوبی کا دروازہ بند ہوتا ہے ۔وہ پارٹی جسے مسلمانوں سے بیر ہے اور جو مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتی ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتی ہے پرسنل لا کو ختم کرنا چاہتی ہے مشرکانہ عقید ہ کو تعلیم گاہوں میں رائج کرنا چاہتی  بر سر اقتدار آچکی ہے ۔یہ بہت بڑی چوٹ ہے جو مسلمانوں کو لگی ہے  ہندوستان کی تاریخ میں  اسی طرح  کے صدمہ سے مسلمان  اس وقت دوچار ہوئے تھے  جب ان کی حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی تھی اور انگریزوںکی مضبوط حکومت  قائم ہو گئی تھی، مسلمان اس وقت بھی شدید  نفسیاتی شکست سے دو چار ہوئے تھے۔ ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین  سرک گئی تھی اور آسمان بے رحم بن گیا تھا ،آشیاں برباد ہوگیا تھا، گلستان وطن میںخزاں آگئی تھی۔انگریز ایک چھوٹی سے اقلیت تھے لیکن اقتدار کی طاقت ان  کے ہاتھ میں آگئی تھی، اس لئے عیسائیت کی تبلیغ کاطوفان آگیا تھا اس وقت اس طوفان کو روکنے کے لئے بیدار مغز علماء میدان میں آئے تھے  ان میں مولانا رحمۃ اللہ کیرانوی ( متوفی ۱۳۰۸ھ)  جناب ڈاکٹر وزیر خان اور مولانا سید آل حسن (متوفی ۱۸۴۶ء)حضرت امداد اللہ مہاجر مکی( متوفی ۱۳۱۷ھ)حضرت مولانا قاسم نانوتوی (متوفی  ۱۲۹۷ھ) مولانا محمد علی مونگیری ( ۱۳۶۳ھ)  مولانا سید عبد الباری  ( متوفی ۱۳۰۳ھ )   وغیرہ کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ،۔  جنگ آزادی میں  ناکامی کے بعد  اور برطانوی حکومت  کے قیام کے بعد عیسائیت  سے  علمی فکری اور نظریاتی مقابلہ کا  یہ زبردست کارنامہ تھا جو مسلم علماء نے انجام دیاتھا ۔اور پھرمسلمانوں کے درمیان  عیسائیت کی تبلیغی کوششیں نا کامی سے  دوچار ہوگئیں ۔یہ کارنامہ علمی سطح پر مسلم  علماء نے انجام دیا ۔
        اس  دور کے بعد وہ دور آیا جب  ملک میںآزادی کی تحریک  کامیابی سے دوچار ہوئی لیکن ملک تقسیم ہوگیا  اور مسلم دشمنی کی گرم ہوا اور باد سموم  اس ملک میں چلنے لگی جس طرح  اس وقت گائے نے اپنی  سینگھ پر دنیا اٹھا رکھی ہے  اس وقت بھی آزادی کے کچھ برسوں کے بعدآچاریہ ونوبا بھاوے  نے گائے کی حفاظت کے لئے  قانون بنانے کی مانگ کی تھی اور حکومت پر دباو ڈالنے کے لئے  مرن برت شروع کرنے کا اعلان کردیاتھا۔  اور پھرسارے ملک میں  ہلچل  مچ گئی  تھی۔اور اس  وقت سرو ادے رہنما  ونوبا بھاوے سے ملاقات کے لئے  اور اس موضوع پر بات کرنے کے لئے مولانا عبد الکریم  پاریکھ  اور مولانا علی میاں وردھا گئیُ ۔ ونوبا بھاوے کی سماعت جواب دے چکی تھی اس لئے ساری  بات چیت  لکھ کر ہوئی  اور اس وقت  مولانا عبد الکریم باریکھ کی کتاب  ’’ گائے کا قاتل کون اور الزام کس پر ‘‘ شائع ہوئی اور بہت مقبول ہوئی ۔آج بھی یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے  اورشاید  ناگپور میں ان کے ادارہ سے مل سکتی ہے ۔  ہمارے کہنے کا  مقصد صرف یہ ہے کہ اس وقت مسلم قیادت کی صف میں  ایسی معتبر شخصیتیں  موجود تھیں جن کا وزن تھا اور جن کی بات سنی جاتی تھے ۔ونوبا بھاوے جیسی شخصیت سے مل کر گائے کے سلسلہ میں قانون بنانے کا مطالبہ رفع دفع کیا گیا ، اس وقت مسلم مشاورت بھی ایک اہم مسلم قیادت تھی  اور اس کے ابتدائی دور میں ڈاکٹر سید محمود  ،مولانا ابو الحسن علی ندوی ، مولانا مفتی عتیق الرحمن  عثمانی مولانا  ابو اللیث  مولانامحمد مسلم  جیسی بہت سی شخصیتیں تھیں  جن کا وقار بھی تھا  اعتبار بھی تھا اوراحترام بھی تھا ۔ اس وقت مسلم قیادت  میں ایسی شخصیتوں  کا خلا پایا جاتا ہے  ایسے ٍ لوگ نہیں ہیں جو حکومت اور اکثریت پر اثر انداز ہوسکیں  آج بھی جو مسلم تنظیمیں  سیکولر  ہندو اور عیسائی شخصیتوں  کے ساتھ اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے ساتھ مل کرانصاف کے لئے کام کررہی ہیں اور کانفرنس منعقد کررہی ہیں  اور کوششیں کررہی ہیں ان کی قدر کی جانی چاہئے  اور ان کا ساتھ دینا چاہئے  مثال کے طور پر ملی کونسل اور آبجکٹو اسٹدیز کا ادارہ اپنی تمام کانفرنسوں میں اور پروگراموں میں منصف مزاج  سیکولر  غیر مسلموں کو بلاتا ہے ، یہ حکمت اور بصیرت کی بات ہے ۔
        موجود حالات میں  آسمان کے ستاروں کی طرح  زمین پر بڑی تعداد میں ایسے روشن دماغ  بصیرت مند علماء درکار ہیں جنہوں نے  ہندو مذہب کا گہرا مطالعہ کیا ہو، بالکل اسی طرح  جیسے ابو ریحان بیرونی نے ہندوستان آکرہندو مذہب کا گہرا مطالعہ کیا تھأ اور  جیسے انگریزی اقتدار کے زمانہ میں  ایسے علماء سامنے آئے جنہوں نے عیسائیت کا گہراا مطالعہ کیا تھا  ،اب  اس ملک میں ایسے علماء درکار ہیں جو ’’لسان قوم‘‘ میںبات کرنا جانتے ہوں  ۔، قرآن میں ہے کہ ہم نے جتنے رسول بھیجے  وہ سب ’’لسان قوم‘‘  میں بات کرنے والے تھے ۔ یعنی جوعالم دین لسان قوم میں بات نہ کرسکے برادران وطن  کو ان کی زبان میں  مخاطب نہ کرسکے   وہ  حقیقی معنی میںنائب رسول نہیں ہوسکتا ہے  کیونکہ اللہ کے رسول  لسان قوم میں گفتگو کرتے تھے ۔ ضرورت ہے کہ ایسے علماء  ملک کے طول وعرض میں پائے جائیں  جو  ہندؤں کے پنڈتوں سے  اور  ہندوسیاسی لیڈروں  سے  وشو ہندو پریشد اور آراس اس  کے قائدین سے  ہندی میںمکالمہ کرسکیں  اور  اعلی تعلیم یافتہ ہندووں کے بڑے بڑے جلسوںکو انگریزی میںخطاب کرسکیں ۔ یہ بہت  بڑا  اسلامی مشن ہے، اس کے لئے  دینی مدارس کے نصاب میں بنیادی  انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت پیش آئے گی  پورے تعلیمی نظام  کی ’’اور ہالنگ ‘‘ کی ضرورت پیش آئے گی  مسلمانوں کے مستقبل کو اس ملک میں روشن کرنا ہے تو یہ کام کرنا ہی گا  اور ایسے علماء تیار کرنے  ہوںگے  جو  ہندووں کے مذہب سے اوران کی زبان سے  اچھی طرح واقف ہوں  ۔ہمیں  یہ سمجھنا بند کردینا ہوگا کہ ہم نے اور ہمارے  بزرگوں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے اور انہوں نے جو نصاب تعلیم تیار کیا وہ  ہر زمانہ کے لئے حرف آخر ہے ۔ جس طرح سے  تفاخر بالانساب  غلط ہے اسی طرح سے تفاخر بالاسلاف میں مبالغہ بھی غلط ہے  ۔
    ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم اب تک اپنی  غلطیوں کو نہیں سمجھ سکے ہیں  ہم نے اس ملک میں  بہت سی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں،  بہت بڑی تحریکیں برپا کی ہیں  لیکن ہم نے غلطیاں بھی کی ہیں  اور ان قابل فخر اور قابل قدر تحریکوں میں بھی  غلطیوں کا گذر ہوا ہے،  لیکن ہم ان غلطیوں کو سمجھ نہیں سکے  اور اس لئے نہیں سمجھ سکے کہ وہ غلطیان ہمارے  مزاج کا حصہ بن گئی ہیں  اور جب انسان کا مزاج ہی غلط ہوجائے  تووہ غلطی کو کیسے سمجھ سکتا ہے  ۔  غلطی یہ  ہے کہ ہمارا مزاج انوارڈ اٹی ٹیوڈ یعنی داخلیت کا مزاج  بن گیا ہے یہ وہ مزاج ہوتا ہے جس میں انسان کی سوچ  اپنے دائرہ میں محدود ہوتی ہے  اس کا عمل بھی  اس دائرہ میں محدود ہوتا ہے، اسی لئے  ہمارے سارے منصوبے  اور پروگرام مسلمانوں کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں گویا ہم خلیفہ منصور عباسی یا اورنگ زیب کے عہد میں جی رہے ہیں ۔ غیر مسلم ہمارے دائرہ کارر سے باہر ہوتے ہیں  ،ایک شخص  سیرت نبوی  کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ پیغمبرﷺ اور ان کے اصحاب کو مکہ کی زندگی میں  مشرکین  اور اہل کفر کے درمیان  کام کرتے ہوے دیکھتا ہے  اور مدینہ کی زندگی میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو   یہودیوں سے معاہدہ کرتے ہوئے  اور فرماروایان عالم کو خطوط  لکھتے ہوے  اور وفود بھیجتے ہوے پاتا ہے  ،  پیغمبرانہ کام  مسلمانوں کی اصلاح اور تزکیہ کے ساتھ  غیر مسلموں کو بھی اپنا  ہدف بنانا ہے ء یعنی داخلی اور خارجی  دونوں سطح پر کوشش  کرناہے  جو سیرت کی صحیح پیروی ہے   یعنی غیر مسلموں سے  تعلقات رکھنا  ان کی زبان سے اور ان کے مذہب سے واقف ہونا اور ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا  اور اس رابطہ باہمی اور انسانی تعلقات کو دعوت کے لئے بھی  استعمال کرنا  عین  مزاج سیرت ہے ۔ ہمارے یہاں جو تحریکیں اٹھتی ہیں وہ گرد وپیش سے آنکھ  بند کرکے اٹھتی ہیں ۔ ہندوستان  میں تمام دینی مدارس کے عالی مقام  بانیوں کو اس کا ندازہ ہی نہیں تھا کہ یہاں ہندو تو کا طوفان آنے والا ہے  اوریہ ملک بھی کبھی اسپین بننے کے خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ آج لکھنو شہر میں ہندی زبان میں جابجا  ہورڈنگ اور پوسٹر لگے ہوئے ہیں  ’’ ہندو راشٹر کی اور ‘‘ یعنی  ہندوراشٹر بنانے کی منزل کی طرف ۔اگر خدا نہ خواستہ  ان کا یہ خواب  شرمندہ تعبیر ہوگیا تو دینی مدارس کی بھی خیر نہیں ہے۔ ہماری اصلاحی  اور علمی تحریکیں مزاج سیرت کے مطابق نہیں ہوتی ہیں  ان پر داخلیت کی فضا چھائی ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر عصر حاضر کی تبلیغی تحریک نظام الدین دہلی سے شروع ہوکر ساری دنیا میں پھیل گئی  اس کے ثمرات اور برکات  سے کسی کو انکار نہیں ہے ، لیکن اس  کام کے عالی مقام بانیوں  اور رہنمائوںکا مزاج اگر سیرت طیبہ سے پورے طور پرتشکیل  پاتا  تو اس کے اصولوں میں  اکرام مسلم  کے ساتھ احترام انسانیت  یا خدمت خلق  یا نافعیت  یعنی  ہر شخص کو نفع پہونچانے  کا اصول بھی شامل ہوتا  ۔ بلا تفریق مذہب خدمت خلق کے موضوع پر بے شمارصحیح حدیثیں موجود ہیں،  لیکن تبلیغی رہنماوں کی نظر’’ اکرام مسلم ‘‘سے آگے نہیں بڑھ سکی  کیونکہ سوچ کا دائرہ داخلی  تھا  یعنی انوارڈ اٹی ٹیوڈ کا تھا ۔ دار العلوم دیوبند کی حیثیت ام المدارس کی ہے ۔ ہندوستان میں  سیکڑوں مدارس قائم ہیں  اور ہزاروں کی تعداد میں  عالم اور فاضل کی ڈگریاں لے کر طلبہ ہر سال میدان عمل میں آتے ہیں  چونکہ ان مدارس کا نصاب  ان لوگوںنے بنایاجو انوارڈ اٹی ٹیوڈ کا غیر سیرتی( خلاف سیرت   مسلمانوں  سے باہر کے کاموں کو نظر انداز کرنے کا ) مزاج رکھتے تھے  اس لئے وہ فارغ التحصیل طلبہ  سب کے سب  مسجدوں میں اور مسلمانوں کے سامنے  وعظ کہنے کے لائق بن سکے ۔ کسی کو اس بات سے انکار نہیں کہ  مسلمانوں کی اصلاح بھی بہت بڑاکام ہے اور بہت ضروری ہے   لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ  اس دائرہ  کے باہر بھی بہت سے کام ہیں  اور ہر پیغمر نے اس کام کو انجام دیا ہے اور اس ’’ باہر ‘‘ کے کام کو نہ کرنے کا  انجام یہ ہواہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان وہ کمیونیکیشن گیپ  کمیونیکیشن گیپ پیدا ہو گیا ہے جو عہد صحابہ اور عہد رسالت میں موجود نہیں تھا۔جہاں کہیں مسلمان  غیر مسلموں  کے درمیان رہتے ہوں  وہاں ان کی کوئی  اصلاحی تحریک  جو صرف مسلمانوں کے لئے ہو وہ صرف جزوی طور پر سیرت طیبہ اور پیغمبرانہ کام سے مطابقت رکھتی ہے ۔ آج اگراس ملک میں  برادران وطن سے ڈائلاگ کرنا ہے  اور اسلامی عقیدہ  ان کو سمجھانا ہے  یا ان کے اعتراضات کا جواب دینا ہے  تو ان کی زبان سے اور ان  کے مذہب سے پورے طور واقفیت حاصل کرنی پڑے گی ۔ اور ہندی اور ہندو سے واقف  علماء تیار کرنے کے لئے مدارس کے نصاب میں تبدیلی کرنی پڑے گی ۔اتحاد اورمسلمانوں کی دینی تربیت  اورنئی نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کے بعد سب سے زیادہ ضروری کام یہی ہے ۔
    ہندوستان میں عہد حاضر میں غیر مسلموں  میں کام کرنے کی ضرورت اور اہمیت  کا احساس  جماعت  اسلامی کو ہوسکا  جس نے  ہندوستان کی تمام زبانوں میں  قرآن مجید کے  ترجمے  کی  تحریک شروع کی تھی ،  اورہر زبان میں اس جماعت نے اسلامی لٹریچر تیار کروایا  اورپھر اس ضرورت اور ار اہمیت کا احساس  مولانا ابو الحسن علی ندوی کو  ہوسکا  جنہوں نے برادران  وطن کو خطاب کرنے کے لئے پیام انسانیت کی تحریک شروع کی تھی  انہوں نے مولانا عبد الکریم پاریکھ کو اپنے ساتھ لے کر پورے ملک میں  برادران وطن  کو انسانی اقدار کی طرف توجہ دلائی۔ پیام انسانیت  کا  یہ کام براہ راست دعوت  کا کام نہ تھا  لیکن دعوت کے کام کے لئے اس سے زمین  ہموار ہورہی تھی  ۔  جس شخص کا مزاج پورے طور سیرت سے تشکیل پائے گأ اس کے کار وفکار کا دائرہ ایسا ہی ہوگا  اگر اس وقت مدارس کے ذمہ داروں نے  اپنا غیر سیرتی ( خلاف سیرت ) داخلی رویہانوارڈ اٹی ٹیوڈ  نہیں تبدیل کیا  اور نصاب تعلیم کو غیر مسلموں سے برادران وطن سے خطاب کرنے کے لائق نہیں بنایا  تو اس کے نتائج  خطرناک ہوں گے  اور یہ ملک جہاں مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی ہے  اسپین کے مماثل  بن سکتا ہے  ۔
                                                                 مانو نہ  مانو  جانِ جہاں  تم  کو  اختیار 
                                                     ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

0 comments:

featured

یہ ایک خطرناک حالت ہے اس کی مخالفت کیجئے


ہمانشو کمار
 پوڈیم پنڈا کو میں تب سے جانتا ہوں جب ہم لوگ چھتیس گڑھ میں رہتے تھے
سکما ضلع میں جن گاؤں کو پولیس نے جلا دیا تھا ہم لوگ ان برباد ہو چکے گاؤں کو دوبارہ بسا رہے تھے، ہمارے اس کام میں اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسیف بھی ساتھ میں کام کرتا تھا ، اسی دوران میری ملاقات اکثر پنڈا بھائی سے ہوتی تھی ، پنڈا مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولنے ایک نرم خو انسان ہیں، وہ گاؤں کے سرپنچ تھے اور سی پی آئی کے کارکن تھے، ہم لوگوں کی شکایت پر سپریم کورٹ نے 2007 میں قومی حقوق انسانی کمیشن کی ٹیم کو تحقیقات کیلئے چھتیس گڑھ بھیجا گیا تھا، اس وقت پنڈا بھی اپنے علاقے سے قبائلیوں کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن کے سامنے آئے تھے، اس سے پولیس پنڈا سے چڑھ گئی، پنڈا کو ایک دن بازار سے خصوصی پولیس افسران نے اٹھا لیا، پنڈا کو دریا کنارے لے جا کر گولی مارنے کے لئے جیپ میں ڈال کر لے گئے، بازار میں موجود پنڈا کے گاؤں کے قبائلیوں نے انہیں اغوا ہوتا دیکھ لیا، وہ لوگ دوڑ کر سی پی آئی کے لیڈر منیش كنجم کے پاس گئے، منیش كنجم نے دنتے واڑہ کے ایس پی کو فون کیا، بات کھل گئی تھی اس لئے ایس پی نے ایس ایچ او کو پنڈا کو بچانے کے لئے بھیجا، پولیس کی دوسری جیپ جب ندی کنارے پہنچی تو خاص پولیس افسر پنڈا کو گاڑی سے اتار کر گولی مارنے کے لئے دریا کی طرف لے جا رہے تھے، پنڈا کی جان کسی طرح بال بال بچی، پنڈا میڈیا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو اطلاع دیتے تھے اس سے پولیس ان سے بری طرح چڑھ چکی تھی، پنڈا نے شہر آنا بند کر دیا، پولیس نے پنڈا کے اوپر فرضی کیس بنانے شروع کر دیے، پولیس نے پنڈا کے اوپر 123 کیس بنا دیے، آج کل پنڈا کی بیوی گاؤں کی سرپنچ ہیں، دس دن پہلے پنڈا گاؤں میں اپنے تالاب کی طرف جا رہے تھے، راستے میں سیکورٹی فورسز نے پنڈا کو پکڑ لیا ' پولیس نے اخبارات میں چھپوايا کہ ہم نے ایک ماؤنواز لیڈر کو پکڑا ہے جس کے اوپر 123 کیس ہیں، اب قانون کے مطابق تو پولیس کی طرف سے پنڈا کو عدالت میں پیش کر کے ان پر مقدمے چلانے چاہیے، یہی قانون ہے، لیکن پولیس نے پنڈا کو تھانے میں بند کر کے مارنا پیٹنا شروع کر دیا، پنڈا کی بیوی ہائی کورٹ میں شکایت کرنے گئی، ہائی کورٹ میں پولیس نے جواب دیا کہ ہم نے پنڈا کو گرفتار ہی نہیں کیا ہے ، انہوں نے تو ہمارے سامنے خود سپردگی کی ہے، اور پنڈا اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہے ہیں، جب پنڈا کی بیوی پنڈا سے ملنے تھانے گئی تو پولیس نے انہیں پنڈا سے ملنے نہیں دیا ، ہائی کورٹ نے اس معاملے میں سماعت کے لئے اگلی تاریخ دے دی، یہ بہت خطرناک حالت ہے، اگر کورٹ پنڈا کے معاملے میں پولیس کے اس بہانے کو مان لیتا ہے کہ ہم نے تو اسے گرفتار ہی نہیں کیا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پولیس اب کسی کو بھی تھانے میں جب تک چاہے بند کر کے رکھے گی، اور پولیس کورٹ میں کہہ دے گی کہ ہم نے اسے گرفتار نہیں کیا وہ اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہا ہے، آج کسی مرد کو بند کیا ہوا ہے، کل پولیس والے کسی لڑکی کو بھی مہینہ بھر تک تھانے میں بند کر کے رکھ سکتے ہیں، جب لڑکی کے خاندان والے کورٹ میں شکایت کریں گے تو پولیس کہہ دے گی کہ وہ تو اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہو گیا کہ پولیس تھانے کے اندر اندر ہی اپنی جیل بنوا سکتی ہے جہاں وہ جب تک چاہے جسے چاہے بند کر کے رکھے، مارے پیٹے، ستائے؟ اور کورٹ میں کہہ دے کہ یہ لوگ اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہے ہیں، اور اب کورٹ کچھ نہیں کرے گی، یہ تو آئین پر پولیس کا حملہ ہے، اس کے ساتھ ہی شہری کو آئین میں دیے گئے آزادی اور کورٹ کے سامنے انصاف حاصل کرنے کا حق ختم، اگر آج ہم پنڈا کے معاملے میں اس بات کو قبول کر لیتے ہیں، تو کل کو کسی بھی سماجی کارکن کو پولیس اٹھا کر تھانے میں بند کر دے گی اور کورٹ میں کہہ دے گی کہ یہ اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہے ہیں، پنڈا دس دن سے پولیس تھانے کے اندر ہیں انہیں کسی سے ملنے نہیں دیا گیا ہے، اور پولیس دعویٰ کر رہی ہے کہ پنڈا نے تو خود سپردگی کی ہے اور وہ اپنی مرضی سے تھانے میں رہ رہے ہیں ، اگر کورٹ پولیس کی اس بات کو مان لیتی ہے تو ملک میں پولیس کو جرم کرنے، مسلمانوں، دلتوں، قبائلیوں انسانی حقوق کے کارکنوں کو غیر قانونی حراست میں رکھنے اور انہیں ستانے کا حق کھلے عام مل جائے گا، یہ ایک خطرناک حالت ہے، اس کی مخالفت کیجئے، یہ پنڈا نہیں آپ اور آپ کے بچوں کی سلامتی کا مسئلہ ہے، یہ پنڈا کو بچانے کی نہیں آئین کو بچانے  کی بات ہے،

0 comments:

featured

مسلمانوں کیلئے سہارنپور کا سبق


نہال صغیر

یوں تو ہندوستان میں آزادی کے بعد سے ہی ہندوتہذیب و تمدن کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرنے والے گروہ کے نشانہ پر مسلمان اور پسماندہ طبقات رہے ہیں ۔یہ کام کانگریس کی حکومت میں بھی جاری تھا اور اب ذرا کھل کر سب کچھ ہو رہا ہے ۔کانگریس تو مصلحت پسند اور مہذب پارٹی کا چلا اوڑھ کر یہ کام کرتی تھی لیکن بی جے پی کو یہی کام کھلے عام کرنے میں کوئی آڑ نہیں ہے ۔اس لئے موجودہ حکومت کی آمد کے بعد سے ہی مسلمانوں ،دلتوں اور عیسائیوں پر حملوں میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوگیا اور سنگھ اور بی جے پی کے افراد ایسی باتیں زبان سے نکالنے لگے جس کو آج کی ترقی یافتہ دنیا میں برا مانا جاتا ہے ۔کیوں کہ آج مہذب دنیا برائی کو بھی تہذیبوں کے خوشنما پیکیٹ میں پیش کرنے پر عمل پیرا ہے ۔بقول مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے یہ لوگ ذرا گنوار ہیں تو عجلت میں یہ کام کررہے ہیں لیکن یہی کام شیروانی اور لال رومال میں ستر برسوں سے ہو رہا ہے ۔کئی سال قبل سنگھ کے چیف موہن بھاگوت بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کے کیڈر سبھی پارٹیوں میں ہیں ۔آر ایس ایس کا مسئلہ ہندو مذہب نہیں ہے بلکہ وہ نسلی برتری کی قائل ہے اور برہمنیت کو ہر حال میں نافذ دیکھنا چاہتی ہے اور اس برہمنی نظام میں جس کی بنیاد منو سمرتی ہے دیگر اقوام جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ ان کے غلام ہیں اور برہمنوں کی خدمت ہی ان کا فرض ہے ۔اسی نسلی برتری نے انہیں فرعونی غرور میں مبتلا کررکھا ہے اور خود کو ہر قانون سے آزاد مانتے ہیں ۔ان کے ایک شنکر اچاریہ کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ ہمارا قانون صرف منو سمرتی ہے ۔وہی منو سمرتی جسے ڈاکٹر امبیڈکر جلا کر اس سے برات کا اظہار کرچکے ہیں اور دلت تنظیمیں ہر سال اس تاریخ کو منو سمرتی جلانے کی رسم کی ادائیگی کرتے ہیں ۔
پانچ مئی سے سہارنپور آگ کے دہانے پر ہے ۔خبروں میں یہ مشہور کیا گیا کہ دلتوں نے ٹھاکروں کے ایک جلوس پر پتھراؤ اور کھلے عام تشدد کا ارتکاب کیا ۔پولس نے یہ کہا کہ انہوں نے فائرنگ بھی کی ۔جس میں ایک شخص کی موت بھی ہوگئی تھی ۔لیکن انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق دلتوں کا بند گھر اور ویران محلہ یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ فی الواقعہ تشد کس کی جانب سے اور کس پیمانے پر ہوا ۔ اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ پورا صوبہ اتر پردیش آتش فشاں کے دہانے پر ہے ۔سہارنپور کے بعد دیوریا میں بھی تشدد پھوٹ پڑا ۔الزام سیدھے دلتوں اور دلتوں کی تنظیموں پر لگائے جارہے ہیں ۔خبروں میں جہاں گروہ یا بھیڑ لکھے جانے کی گنجائش موجود تھی وہاں بھی سیدھے دلتوں کو ملزم قرار دیدیا گیا ۔یہ سب کچھ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ موجودہ حکومت کس سوچ کی ہے اور اس کا منشا کیا ہے ۔بہت دنوں بعد یا یوں کہہ لیں ستر سال کے بعد انہیں کھل کر کھیلنے کا موقعہ ملا ہے کہ ملک پر برہمنیت کی اجارہ داری قائم کردیں ۔ہم نے پولس افسران کے تبادلوں میں بھی یہ محسوس کیا ہے کہ دلتوں کو سبق سکھانے کیلئے کس ذہنیت کے افسران کو مقرر کیا گیا ہے ۔جیسے پہلے مسلمانوں کو سبق سکھانے کیلئے کیا جاتا تھا یا اب بھی کیا جاتا ہے ۔بہر حال فی الحال دلتوں کو سبق سکھانے کیلئے انہیں بدنام کیا جارہا ہے اور ہر طرح سے انہیں تشدد کا ذمہ دار قرار دینے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے اور اس میں بھیم سینا نام کی تنظیم کا بار بار نام لیا جارہا ہے ۔سہارنپور سے دیوریا تک یہی نام بار بار لئے جارہے ہیں ۔بغیر کسی تفتیش اور تحقیق کے انہیں ظالم اور ٹھاکروں کو مظلوم بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ موجودہ تشدد سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ موجودہ حکومت کا نشانہ صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ ان کے نشانے پر پسماندہ طبقات بھی بڑے پیمانے پر ہیں ۔جیسے مسلمانوں کو دہشت گرد اور فسادی قرار دے کر ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے اور ٹھیک اسی طرح دلتوں کے خلاف کیا جارہا ہے ۔چھتیس گڑھ اور ودربھ کے علاقوں میں اسی طرح نکسلیوں کے نام پر غریب آدی باسیوں یا ان کے حقوق کیلئے لڑنے والوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ گیارہ مئی کو سہارنپور کے تعلق سے شائع ہونے والی رپورٹ پوری طرح یکطرفہ ہے ۔اس میں ٹھاکروں کے ذریعے دلتوں کے گھروں کو آگ کی نذر کئے جانے کا کوئی ذکر نہیں لیکن دلت جو نا انصافی اور ظلم کے خلاف گاندھی پارک میں جمع ہوئے تھے انہیں الزام دیا گیا کہ ان کا منصوبہ پورے شہر کو جلادینے کا تھا ۔میں نے مسلم کش فسادات کے دور کی خبریں بھی پڑھی ہیں ان میں اس طرح خطرناک حد تک کسی فرقہ کا نام لے کر اسے تشدد کا ذمہ دار نہیں قرار دیا جاتا تھا ۔لیکن اب تو کمال ہی ہو رہا ہے کہ ٹھاکروں کی شرارت ان کی فسادی ذہنیت اور دلتوں اور پسماندہ طبقات کے تئیں ان کی نفرت کو ڈھانپنے کیلئے سیدھے بھیم سینا کی آڑ میں پوری دلت برادری کو فسادی اور قاتل ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یہ تو خیر ہے کہ منڈل کمیشن کے نفاذ کے بعد سرکاری ملازمت اور پولس فورس میں دلتوں کی قابل ذکر تعداد ہے ورنہ جس طرح مسلمانوں کے خلاف پولس کا رویہ ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح آج دلتوں کی لاشوں کے ڈھیر بھی لگادیئے جاتے ۔یہاں وشو ناتھ پرتاپ سنگھ کو مبارکباد دینے کو جی چاہتا ہے انہوں نے کس حکمت سے منڈل کمیشن کو نافذ کیا جس کی وجہ سے ایک شرارت انگیز طبقہ جس کی آبادی کا تناسب تین ساڑھے تین فیصد سے زیادہ نہیں ہے ۔اس کا دبدبہ ختم نہیں تو کم ضرور ہوا ہے ۔جو رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا اگر کانشی رام کے فارمولے ’’جس کی جتنی آبادی اس کی اتنی بھاگیداری ‘‘ پر عمل پیرا ہوا جائے ۔اس سے یقینی طور پر یہ آئے دن کے فسادات سے بھی چھٹکارا مل جائے گا ۔لیکن مقتدر طبقہ کسی بھی حال میں یہ نہیں ہونے دے گا ۔وہ تو موجودہ تحفظاتی نظام کو بھی ختم کرنے کیلئے طرح طرح کی دلیل دیئے جاتا ہے ۔
یہاں موجودہ سہارنپور اور دیوریا فسادات سے مسلمانوں کیلئے سبق ہے کہ ملک میں مظلوم صرف وہی نہیں ہیں ۔ظالموں کے نشانے پر وہ اکیلے نہیں ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ انہیں سب سے زیادہ خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ بقیہ طبقوں کو اپنے جال میں پھنسانے میں آسانی ہو ۔اب ضروری ہے کہ مسلمان اور ان کے قائدین اور تنظیمیں ’میں ‘ کو بھول کر ’ہم ‘ میں آجائیں ۔ایسا نہیں ہے کہ مسلمان اس کو نہیں سمجھتے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ عملی اقدام کی جانب اس تیزی کے ساتھ آگے نہیں بڑھاجارہا ہے جیسا کا حالات اور وقت تقاضا کررہا ہے ۔جماعت اسلامی ہند برسوں سے پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کی تعلقات استواری کے لئے کوشاں ہے ۔اس کے علاوہ ابھی تک عملی طور پر دلتوں کی کسی تنظیم سے صرف ایک مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ہی کا چہرہ دکھ رہا ہے جو برہمنزم کے خلاف وامن میشرام کی تنظیم کے ساتھ عملی طور پر وابستہ ہیں ۔ایسے چہروں کی تعداد بڑھنی چاہئے ۔رضا اکیڈمی نے بھی اس جانب قدم بڑھایا ہے ان لوگوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کے پوتے آنند راج امبیڈکرسے ملاقات کرکے موجودہ صورتحال پر گفتگو کی ۔ معلوم ہوا کہ یہ لوگ مسلمانوں کی جانب سے پیش قدمی کے منتظر ہیں ۔یہ تعداد کم صرف اس لئے ہے کہ ہم نے حالات کا صحیح ادراک آج بھی نہیں کیا ہے ۔بہتر ہو گا کہ ہم اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر صرف مسلمان کی حیثیت سے ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی کوشش کریں اور حالات پر گہری نظر رکھنے کیلئے اسٹڈی گروپ تشکیل دیں جو ہمیں ہوا کے رخ کی خبر بتاتا رہے ۔اسی کے مطابق ہم اپنا سیاسی فیصلہ کریں بجائے اس کے کہ کوئی کسی پارٹی اور کوئی کسی پارٹی کی نشاندہی کرے ہمیں مشترکہ جد و جہد کی جانب بڑھنا ہی ہوگا ۔اگر آج دلتوں کو نشانہ بنانے کی تیاری کی جارہی ہے تو مسلمانوں کو ان کے ساتھ ہر صورت میں کھڑا ہونا چاہئے ۔گجرات میں تو مسلمانوں نے ایسا کیا ہے لیکن اور دوسری جگہ اس کی مثالیں دستیاب نہیں ہیں ۔اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو یقین جانئے کہ ہندوستان میں ہم آج بھی باوقار طریقے سے رہ سکتے ہیں ۔ورنہ تو حالات دیکھ ہی رہے ہیں ۔اس ملک میں خلفشار کا ذمہ دار صرف وہی ڈھائی تین فیصد آبادی ہے جو نسلی برتری میں مبتلا ہے ۔اس کا علاج پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے اتحاد اور مشترکہ لائحہ عمل سے ہی ہو پائے گا ۔کیا ہمارے قائدین اس جانب پیش قدمی کو تیار ہیں ؟

0 comments:

featured

بولنے کی آزادی اور کتوں کے بھونکنے کا فرق .!



عمر فراہی

آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور بھونکنا کتے کی پیدائشی فطرت - جمہوریت میں انسان کو بولنے کی آزادی ہے اس لئے وہ خود کو آزاد سمجھتا ہے لیکن انسان کے بولنے اور کتوں کے بھونکنے میں کوئی فرق نہ ہو تو ایسی آزادی کا کیا مطلب..؟ مگر جو چیز انسان کو ایک حیوان نما جانور پر فوقیت اور فضلیت دیتی ہے وہ کیا ہے ؟
آپ میں سے اکثر کا جواب شاید یہ ہو کہ  انسان کا علم اسے دوسری مخلوق سے افضل اور اشرف بناتا ہے تو ہماری ناقص رائے میں جو جتنا تعلیم یافتہ اور ذہین ہے وہ اتنا ہی اچھا بولتا ہے ۔ لیکن چیخنا ، پکارنا ، آواز اٹھانا یابولنا ہی صرف کسی مسئلے کا حل ہوتا تو ہم میڈیا کو اس لئے اپنا مسیحا سمجھتے کیونکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سارے پڑھے لکھے لوگوں کے بولنے چیخنے اور چلانے کی ایک بھیڑ لگی ہوئی ہے - لیکن اگر میڈیا کے اس چیخنے اور چلانے سے اخلاق کے بعد نجیب اور پہلو خان کا قتل نہ ہوا ہوتا تو ہم سمجھتے کہ میڈیا نے کامیابی حاصل کرلی - اس کے برعکس کچھ شریف لوگوں کی یہ ذہنیت بنتی جارہی ہے کہ میڈیا ہی فساد کی اصل جڑ ہے - دوسرے لفظوں میں دیکھا جائے تو موجودہ لبرل میڈیا اور کتے کی فطرت میں ایک زبردست مماثلت پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کتے جب کسی شخص کی چال ڈھال اور لباس سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ کمزور ہے تو ہی بھونکنا شروع کرتے ہیں اور اس وقت ہی  بھونکتے ہیں جب ان کے ساتھ کتوں کا گروہ موجود ہو - مگر کتوں کی یہ ٹولی گروہ میں ہوکر بھی اس وقت کبھی نہی بھونکتا جب اس کی گلی سے کوئی ہتھیار بند سپاہی یا کوئی مسلح شخص گذر رہا ہو - میں نے دیکھا ہے کہ کتوں کے یہ گروہ اس وقت پتلی گلی سے بھاگنا شروع کردیتے ہیں جب میونسپلٹی کی گاڑی انہیں قید کرنے کیلئے آتی ہے - تازہ مثال عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال پر دو کروڑ رشوت پر میڈیا جس طرح واویلا کر رہا ہے ۔ کیا اسے نہیں پتہ کہ دلی کے دس جن پتھ کے بنگلوں میں بی جے پی اور کانگریس کے جو لیڈران رہائش پذیر ہیں ان کی قیمت دو سو کروڑ ہے اور ان میں رہنے والے اپنے اوپر اور اس مکان کی دیکھ ریکھ میں ہر مہینے لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہیں - کیا ملک کے ان لیڈران کو دو سو کروڑ کے مکانات میں رہنے کا حق ہے - کیا ان مکانات پر ماہانہ آنے والا خرچ عوام کے ٹیکس کا پیسہ نہیں ہے - کیا عوام کی اس محنت کی کمائی کو اتنی غیر ذمہ داری سے خرچ کرنا سرکاری بدعنوانی نہیں ہے ؟ لیکن میڈیا  طاقتور حکمراں طبقات کی اس بدعنوانی کو محسوس کرتے ہوئے بھی آنکھ پھیر لیتا ہے تو اس لئے کہ طاقتوروں کے خلاف آواز اٹھانے پر انہیں کتوں جیسی ان کی اوقات بتا دی جائے گی - ہم بولنے والوں کو بھی اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ جمہوری طرز سیاست میں کیا ہم واقعی بولنے کیلئے آزاد ہیں اور کیا ہمارے بولنے اور کتوں کے بھونکنے میں کوئی فرق بھی ہے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو ماحول میں بہتری کی وہ تبدیلی نظر بھی آنی چاہیے اگر نہیں تو پھر ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم کتوں کی طرح خوف اور دہشت کے ماحول کا اندازہ لگا کر تو نہیں بول رہے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیسی جمہوریت اور کیسی آزادی لیکن احترام انسانیت اور رحم کےجذبات سے ناپید جدید تعلیمی نصاب بھی جو نئی نسلوں کو اچھا بولنا تو سکھا دیتی ہے لیکن ان کے بولنے اورکتوں کے بولنے میں اگر کوئی فرق محسوس کیا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن و دماغ سے سیاسی پینترابازی بدل کر اپنا دفاع کرلیتا ہے جبکہ کتے بے موت مارے جاتے ہیں -

0 comments:

Muslim Issues

سچ کہہ دوں اے برہمن۔۔۔




قاسم سید 
مسلم پرسنل لا کے تعلق سے حکومت کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس وقت سیاسی اعتبار سے سب سے کمزور طبقہ کی نہ کسی کو ضرورت ہے اور نہ ہی ان کے دکھ درد جاننے کی۔ اپوزیشن پارٹیاں اپنے حصے بخرے سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ خود کا وجود لب دم ہے، اس لئے وہ کسی اور کے بارے میں کیوں سوچیں گی۔ ویسے بھی ہم نے سیکولر سیاست کی منافقت، دھوکہ بازی اور مکاری کے بداثرات محسوس نہیں کئے اور نہ ہی مسلم نوجوانوں میں پائی جانے والی بے چینی، اضطراب اور مایوسی کا ادراک کرسکے ہیں۔ جب گئوماتا کے نام پر کسی پہلو خاں اور لوجہاد کے بہانے غلام محمد کے بے رحمانہ قتل کی وارداتیں سامنے آتی ہیں تو دل اچھل کر حلق میں آجاتا ہے، کیونکہ ایسے سنگین واقعات کے بعد بھی سناٹا اتنا گہرا ہے کہ روم روم دھڑکنے لگتا ہے۔ ہر ایک اپنے حصار میں قید اور سرمستیوں میں اتنا ڈوبا ہے کہ گرد و پیش میں کیا قیامت برپا ہورہی ہے اسے فکر ہی نہیں۔ اللہ کارساز ہے، سوچ کر خراٹوں کی رفتار بڑھا دیتا ہے، اسے بے حسی کہیں یا بے غیرتی، خوف کہیں یا مصلحت، کوئی نام دیں، غلامی، وفاداری نبھانے کا بھی خراج دینے میں کہیں ناگواری نظر نہیں آتی بلکہ کبھی ایسا لگنے لگتا ہے کہ نگاہیں آقائوں کے چہرے پر رہتی ہیں کہ مبادا کبھی زور سے آواز نکالنے پر ’کبیدہ خاطر‘ نہ ہوگئے ہوں۔
حکومت کے ناپاک عزائم کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے اس پر اتفاق نہیں ہوسکتا۔ ایک طبقہ ممولہ کو شہباز سے لڑانے پر مصر ہے تو دوسرا عدالتی لڑائی تک معاملہ محدود رکھنے کے حق میں، حالات جوش و خروش کے ساتھ ہوش و عمل اور خوداحتسابی کے متقاضی ہیں، اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ جب مسلم خواتین کی ’مظلومیت‘ کا راگ بھیروی گایا جاتا ہے تو ہماری طرف سے ہندوستانی خواتین کی مظلومیت کے قصے سنائے جاتے ہیں۔
مٹھی بھر لوگوں کی نادانی و غیراسلامی حرکتوں سے اسلام اور مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو قصور ہمارا ہے۔ شاہ بانو کیس کے نتائج سودمند ہونے کی جگہ گھاٹے کا سودا ثابت ہوئے ۔ راجیو گاندھی سرکار نے مسلمانوں کی ملک گیر تحریک کے دبائو میں آکر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو رد کرکے مسلم خواتین بل پاس کیا تو دوسری طرف فرقہ پرستوں کو خوش کرنے کے لئے بابری مسجد پر لگا تالا کھلوادیا، جس کا انجام بابری مسجد کی شہادت پر ہوا۔ اور اب یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ تین طلاق کے معاملہ میں عدالتی لڑائی ہارنے پر جس کا امکان زیادہ ہے، کیونکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے مقدمہ کی بنیاد بہت کمزور رکھی ہے، بورڈ کے سامنے تحریک چلانے کے علاوہ بظاہر اور کوئی راستہ نہیں رہے گا تو کیا تاریخ خود کو پھر ایک بار دہرائے گی اور اس کے انجام کے طور پر کہیں ہم بابری مسجد کو تو نہیں کھودیں گے، کیونکہ سرکار کی نیت میں کھوٹ ہے۔ اس مرتبہ لڑائی کی نوعیت مختلف ہے۔ مرکز میں ایسی حکومت برسراقتدار ہے جو اس طبقہ کو سبق سکھانے کے موڈ میں ہے، جس نے اوّل روز سے اس کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔ شاہ بانو کیس کے بعد سے عقوبت خانوں کے دروازے کھل گئے تھے۔ مذکورہ بل سے مسلم مردوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، البتہ خواتین کے لئے عدالتوں کے دروازے مزید کھل گئے۔ پھر نان و نفقہ سے متعلق مقدمات کی باڑھ آگئی۔ مختلف عدالتیں ایک کے بعد ایک خلاف شریعت اور پرسنل لا کے خلاف فیصلے دیتی رہیں۔ بورڈ ہاتھ پر ہاتھ باندھے کھڑا رہا۔ اگر سائرہ بانو، تین طلاق، حلالہ اور تعدد ازدواج کے خلاف سپریم کورٹ نہ آتی تو شاید ہماری آنکھیں بھی نہ کھلتیں۔ غلطیوں کا اعتراف کرنے سے آدمی بڑا بنتا ہے، دوسروں کی طرف فوراً پتھر اچھال کر اور طعن و تشنیع کا سہارا لے کر صرف ذہنی دیوالیہ پن کا ہی اظہار ہوسکتا ہے۔ دلشاد بیگم نامی مطلقہ خاتون نے نان و نفقہ کا مقدمہ کیا۔ سیشن کورٹ نے شوہر کی اس دلیل پر کہ مسلم پرسنل لا کے تحت وہ نان و نفقہ کا مکلف نہیں، مقدمہ خارج کردیا۔ دلشاد بیگم ممبئی ہائی کورٹ پہنچیں جس نے جنوری 2007 میں اس فیصلہ کو الٹ دیا۔ جسٹس پی ایچ رپلے نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ سابق شوہر نے طلاق کے اسباب، مصالحت کے لئے ثالثوں کا تقرر اور مصالحت میں ناکامی جسے قرآنی تقاضوں کو پورا نہیں کیا اس لئے عورت نان و نفقہ کی مستحق ہے۔ اس پر کوئی احتجاج نہیں ہوا، نہ ہی چیلنج کیا گیا۔ بعض عدالتوں کی طرف سے لگاتار پرسنل لا مخالف فیصلے آتے رہے۔ ایسا ہی فیصلہ 2001 میں ممبئی ہائی کورٹ اور 2002 میں سپریم کورٹ نے دیا۔ 2جنوری 2003 کو دہلی کے ٹرائل کورٹ نے کہا کہ قرآن نے مخصوص حالت میں ایک سے زائد شادی کی اجازت دی ہے۔ 10 فروری 2015 کو سپریم کورٹ کی دونوں بینچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ تعدد ازدواج اسلام کا لازمی جزو نہیں اور قرآن میں دی گئی اجازت کو قرآن کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ نومبر 2015 میں گجرات ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ بیوی کی رضامندی کے بغیر ایک سے زائد شادی اور یکطرفہ طلاق آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔ قرآن ذاتی اغراض، جنسی تسکین کے لئے ایک سے زائد شادی کے خلاف ہے اور مسلمان اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس ناپسندیدہ غلط حرکت کے جواز میں قرآن کی غلط تعبیر و تشریح سے گریز کریں۔ وقفہ وقفہ سے عدالتی فرمودات آتے رہے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ شرعی احکامات کے تعلق سے عدالتیں فیصلے دیتی رہی ہیں جو ہمیں غور و فکر اور خوداحتسابی کی بھی دعوت دیتے ہیں۔ عدالتیں آخری امید ہوتی ہیں مگر وہ جذبات پر نہیں، مقدمہ کے دوران پیش ثبوتوں، دلیلوں اور ٹھوس دستاویز کی روشنی میں فیصلہ سناتی ہیں، گرچہ یہ تجربہ مایوس کن رہا ہے، اس میں عدالتوں کا قصور ہے یا پیروکاروں کا، یہ اہم سوال ہے، کیونکہ ہم زیادہ تر جنگیں ہارتے آئے ہیں۔ شریعت میں مداخلت کا معاملہ ہو یا بابری مسجد قضیہ کی طویل ترین لڑائی ہم قانونی و عدالتی جنگوں میں شکست کا طویل ترین ریکارڈ رکھتے ہیں۔ بہت سی باتیں صیغہ راز میں ہی اچھی رہتی ہیں ورنہ پردہ نشینوں کے نام سامنے آنے سے شرمندگی ہوتی ہے۔
دراصل جو لڑائی بورڈ کو اپنے معاشرہ میں چھیڑنی چاہیے تھی وہ اس نے حکومت کے خلاف چھیڑدی اور ماحول لگاتار ٹکرائو والا بنتا جارہا ہے۔ سرکار نے بڑی چالاکی سے طلاق ثلاثہ کو سیاسی مسئلہ بنادیا اور بورڈ اس کھیل میں جانے انجانے میں پھنس گیا۔ شاہ بانو کیس ایک تازیانہ تھا اس سے سبق نہیں لیا گیا۔ اس وقت عائلی قوانین پر توجہ دی گئی ہوتی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن پلان بنایا جاتا تو شاید یہ حالات پیش نہ آتے۔ مسلمانوں نے قرآنی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ باتیں صرف کتابیں ہوکر رہ گئی ہیں۔ علماء نے اپنی تقاریر میں عائلی قوانین کی تفہیم کی کوئی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور اب جبکہ پانی سر سے اوپر ہوکر گزر رہا ہے، تین طلاق دینے والوں کا سوشل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بورڈ کہیں نہ کہیں محسوس کررہا ہے کہ تین طلاق غیرشرعی اور شیطانی فعل ہے، جیسا کہ مولانا منت اللہ رحمانی نے اپنی ایک کتاب میں صاف طور پر کہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بورڈ از خود کوئی راستہ نکال سکتا ہے یا نہیں۔ عدالتی فیصلہ اگر خلاف آئے گا تو پھر اگلا عملی قدم کیا ہوگا۔ تحریک چلائی جائے گی، شاہ بانو کیس کی طرز پر عوامی احتجاجات کا اہتمام ہوگا اور سرکار کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ کورٹ کے فیصلہ کو پلٹ کر قانون سازی کرے، کیونکہ بورڈ نے حلف نامہ میں کہا ہے کہ قانون سازی کا اختیار عدالت کو نہیں پارلیمنٹ کو ہے۔ کیا ہم اس بات کے لئے تیار ہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ حکومت ہمارے جذبات و شریعت کی پابند رہے جبکہ اس کا موڈ اور تیور کچھ اور ہی کہتے ہیں۔ کیا کچھ لو اور دو کا کوئی فارمولہ سامنے آئے گا؟ کیا ہم ذہنی طور پر ٹکرائو کے لئے تیار ہیں؟ اس سے کس کو سیاسی فائدہ پہنچے گا اور مسلمانوں کو کیا فائدہ اور نقصان ہوگا۔ شریعت کے تحفظ کے لئے جان کی قربانی مانگی جائے گی۔ کیا ملک اور خود مسلمان اس کے لئے متحمل ہیں؟ کیا موجودہ سنگین حالات میں یہ امکان ہے کہ پارلیمنٹ اس طرز پر کوئی بل لائے۔ ایک اور پہلو ہے جس پر صاف جواب دینے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے کسی خاص مسلک کو مدنظر رکھ کر فیصلہ سنایا اور ایک ساتھ تین طلاق کو ممنوع قرار دیا تو اس فیصلہ کو خلاف شریعت مانا جائے گا یا خلاف مسلک؟ اس وقت کیسا طرز عمل ہونا چاہئے اور فی نفسہٖ طلاق دینے پر ہی پابندی لگادی گئی تب کیا طریقۂ کار اپنایا جائے گا۔ ظاہر ہے ایسے تمام سوالات مفروضات و قیاسات پر ہیں، خدا کرے ایسی صورت حال پیدا نہ ہو اور فیصلہ ہمارے حق میں آئے، لیکن نہ آنے کی صورت میں کیا ہوگا؟ اس پر پیشگی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دیگر سماج کی طرح مسلم سماج پر بھی فرد کی آزادی اور اختیارات کے بے جا استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ مسلم سماج صرف وہی نہیں ہے جو مدرسوں میں زیرتعلیم ہیں یا مدرسہ کا تعلیم یافتہ ہے، وہ لوگ جن کو دین کی ہوا چھوکر بھی نہیں گئی لیکن مسلم سماج کا حصہ ہیں۔ بین مذاہب شادیوں کا رجحان اب یہاں بھی اجنبی نہیں رہا۔ شادی بیاہ میں بے جا اسراف و شاہ خرچی اب علمائے کرام کے یہاں بھی فراخ دلی کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔ جہیز کے لین دین سے کوئی اچھوتا نہیں، اب تو جہیز میں مدرسہ دیے جانے کی خبریں آنے لگی ہیں۔ آخر ان مسائل کو کب ایڈریس کیا جائے گا، صرف حکم نامہ جاری کرنے سے کام نہیں چلنے والا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی اخلاقی حیثیت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے، کیونکہ ایسے عناصر کا غلبہ ہوگیا ہے جو سیاسی عزائم رکھتے ہیں۔
طوفان آنے سے قبل کوئی میکانزم تیار کرنے خود احتسابی پر توجہ دینے اور وسیع بنیادیوں پر کم از کم مشترکہ پروگرام کی بے حد ضرورت ہے۔ جو بھی مسلمانوں کے نمائندہ پلیٹ فارم ہیں، خواہ کوئی نام ہو، کسی ملک کے ہوں مگر ان کا اعتبار اور وقار ہے، اہم مقتدرہ شخصیات جو کسی تنظیم یا ادارہ سے وابستہ نہیں، لیکن ملک گیر اثرات رکھتی ہیں کیا اتنی گنجائش بھی نہیں کہ ملت مظلوم کی خاطر عارضی طور پر ہی سہی دو تین بنیادی ایشوز پر ایک ساتھ بیٹھ جائیں، ان کے ٹوٹے حوصلوں کو توانائی دیں اور مورال کو بلند کریں، ملک گیر دورے پر نکل کر ڈھارس بندھائیں، حالات بہت سنگین ہیں اور یہ کسی کو نہیں بخشنے والے۔ ایسا  نہ ہو کہ یہ بات سمجھنے میں بہت دیر ہوجائے۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: