featured

ہندوتو بنام ہندوتو میں ہم کہاں ہیں؟


قاسم سید 
  
سابق امریکی صدربراک اوبامہ کے اس بیان کی گہرائی کو ملک کی سیاسی پارٹیوں کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے جس میں انہوں نے تاکیدی مشورہ دیاتھا کہ ہندوستان کو اپنی مسلم آبادی کی قدر کرنی چاہئے اور ان کا دھیان رکھناچاہئے جو خود کو اس ملک سے جڑا اور ہندوستانی مانتے ہیں ہندوستان ٹائمز لیڈر شپ سمٹ میں ان کے اس تبصرہ کو زیادہ اخبارات نے اولیت کے ساتھ جگہ نہیں دی انہوں نے گفتگو کے دوران یہ بھی انکشاف کیا تھا 2015 میں ہندوستان کے آخری دورے میں وزیراعظم نریندرمودی کے ساتھ بند کمرے کی بات چیت کے دوران مذہبی رواداری اور کسی بھی مذہب کے ماننے کے حق پر زور دیاتھا۔ اس کی قدر کرنے اور مسلسل استحکام کی ضرورت ہے۔ سال 2009اور 2017کے درمیان امریکی صدر رہے اوبامہ نے اپنے سفر کے آخری دن بھی علی الاعلان اس طرح کا تبصرہ کیاتھا۔ موجودہ حکومت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کئی مرتبہ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ہندوستانی مسلما ن امن پسند ہے اس نےدہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہیںکی۔یہی وجہ ہے کہ القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس جیسی تنظیموں کو یہاں راستہ نہیں مل سکا اس کا سوفیصد کریڈیٹ مسلمانوں کو جاتا ہے۔ وزیراعظم بھی حب الوطنی کے معاملہ میں مسلمانوںکی پیٹھ تھپتھپاچکے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی مدرتنظیم آر ایس ایس اور بی جے پی کارویہ بالکل برعکس ہے۔ ملک کے اندر ماضی کا انتقام لینے اور ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو ذہنی وجسمانی اذیت پہنچانے کے لئے تمام راستے اختیار کئے جانے سے گریز نہیں کیاجارہا ہے۔ بلکہ عملاً ایسے پرجوش انتقام پسند عناصر کی سرکاری سرپرستی کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔اسے ہندوستانی مسلمانوں کا صبرو تحمل دانشمندی اور قوت برداشت کا نام دیجئے کہ وہ گذشتہ کئی سال سے اعلانیہ تشدد موب لنچنگ‘ سرعام پیٹ پیٹ کر بے گناہ نوجوانوں اور بزرگوں کے قتل کے وحشیانہ واقعات کے باوجود امن وانصاف کی رسی ہاتھ سے جانے نہیں دیناچاہتے ورنہ ردعمل کا راستہ اختیارکرتے تو کشیدگی کا بارود سماج کو تباہ کردیتا اس نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کی آس نہیں چھوڑی افسوس کہ قومی قیادت عارضی سیاسی مفادات کی خاطر اس جذبہ کی قدروقیمت سمجھنے کے لئے تیار نہیں اور اسے لگاتار مشتعل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بی جے پی نے تو مسلمانوں کے وجود کو ہی مستردکردیا ہے وہ لگاتار یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر بھی الیکشن جیتاجاسکتا ہے اور جب ایسا ہوسکتا ہے تو پھر ان کے مسائل اور بستیوں سے کوئی واسطہ کیوں رکھاجائے ۔ مسلم بستیوں میں راستے تنگ اور گندگی سے بھرے ملیں گے ان میں زیادہ تر کباڑی‘ گاڑیوں کے میکنیک‘ فرنیچر اور کھانے پینے کی دکانیں‘نالیوں سے ابلتا تعفن‘بند سیور کی وجہ سے گلیوںمیں سڑتاپانی اور جگہ جگہ کوڑے وغلاظت کے انبار ان کی شناخت ہیں۔ سڑکوں پر گریس‘ لکڑی کی چھیلن اور مرغیوں کے پنکھ ان کی بساند محسوس ہوگی۔ بے روزگار مسلم نوجوانوں کے جھنڈ نکڑوں پر مل جائیں گے جب ہاتھ میں کام نہیں توکریں کیا یہ حالت بی جے پی کی وجہ سے نہیں ہوئی اس کے لئے ساری محنت کانگریس اور اس کے شکم سے پیدا دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی دین ہے کیونکہ اقتدار پر زیادہ ترتوانہی کا قبضہ رہا ہے جنہوں نے دلتوں کو اوپر اٹھانے اور مسلمانوں کو ان کی جگہ پہنچانے میں بہت ہی عیاری‘ مکاری اور منافقت کا مظاہرہ کیا اوبامہ نے صرف بی جے پی یا مودی کو ہی مشورہ نہیں دیا انہوں نے ہندوستان کی اکثریتی قیادت کو آئینہ دکھایا ہے جس میں کانگریس سمیت تمام پارٹیاں شامل ہیں۔ کانگریس نے مسلمانوں کو جہاں لاکھڑا کیا بی جے پی نے اس حکمت عملی پر چل کر زیادہ جارحیت اور زیادہ خونخواری کا مظاہرہ کیا۔ اب اس سے یہ سوال کرنے والا کوئی نہیں کہ گجرات فساد کا رہ رہ کر زخم ہرا کرنے اور نمک چھڑکنے کا عمل گجرات الیکشن میں کیوں ترک کردیا۔ اب اسے مسلمان کیوں یاد نہیں آئے۔ وہ ان کی مظلومیت کا ڈھول کیوں نہیں بجاتی راہل گاندھی کے جینو دھاری ہندویعنی پنڈت برہمن ہونے کی خاصیت کیوں بتائی جارہی ہے۔
کانگریس کے کلمہ گو حضرات کے پاس اس کا بھی جواب ہوگا کہ مسلمانوں کا تذکرہ کرنے سے بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا سبحان اللہ۔ یعنی چھری خربوزہ پر گرے یا خربوزہ چھری پر نقصان تو خربوزہ کا ہی ہوگا۔ کانگریس سے یہ سوال کرنا بھی بی جے پی کی حمایت ماناجاسکتا ہے کہ مغربی سورت میں صرف 18ہزار مسلمان ہیں وہاں مسلم امیدواراتار دیا جبکہ مشرقی سورت میں نوے ہزار ہیں وہاں کسی اور کو ٹکٹ دے دیا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ بی جے پی ہر پارٹی کو ہندوتو کا چاب کرانے میں کامیاب نظرآرہی ہے ساری پارٹیاں مل کر اسے سیکولرازم کا چالیسا پڑھانے میں ناکام رہیں مگر اس نے ان کے ہاتھ سے سیکولرازم کا ڈھول چھین کر ہندوتو کا ترشول ضرور تھما دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کا ہر لیڈر سینہ پیٹ پیٹ کر بابری مسجد کا تالہ کھولنے سے لے کر شیلا نیاس کرانے اور اسے شہید کرانے کا کریڈیٹ لینے میں سبقت لیتا دکھائی دیتا ہے۔ ٹی وی ڈی بیٹ میں اگر اس کے نمائندے فخر سے رام مندر کا راستہ ہم نے ہموار کیا کہہ رہے ہیں اور ہائی کمان خاموش ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ گرین سگنل دیاگیا اور اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یعنی اب قومی سیاست ہندوتو بنام ہندوتو ہوگئی ہے اور یہ صرف گجرات تک محدود نہیں رہے گی ۔ 2019 میں یہ کھیل اور شباب پر ہوگا۔ بی جے پی کو مبارک باد دینی چاہئے کہ اس نے نتیش جیسے لیڈروں اور کانگریس جیسی پارٹیوں کی شیرکی اوڑھی کھال نوچ کرپھینک دی اور ان کا ہندوتو پر یم بے نقاب کردیا۔
ان حالات میں مسلمانوں کے لئے سوچنے کا مقا م ہے کہ وہ کیا کریں سیکولرازم کا کھیل پرانا ہوگیا۔ یہ ڈھونگ آنے والے دنوں میں نہیں چلے گا۔ کوئی پارٹی مسلم مسائل کا تذکرہ تو دور، ان کا نام لینے سے بھی خوف کھارہی ہے۔ گجرات کی انتخابی مہم اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ تو کیا ایسے ہی پچھ لگو بنے رہیں غلاموں کا انداز اختیار کئے رہیں گلے میں پیدائشی کانگریس کاپٹہ ڈالے گھومتے رہیں۔ جو بی جے پی کو ہرائے اس کو جِتائیں کی بوسیدہ پٹی ہوئی حکمت عملی پر عمل کرتے رہیں اس کا حشر تو دیکھ رہی رہے ہیں۔ کوئی نیا تجربہ کریں ۔ نیا راستہ تلاش کریں کیا خود کو انتخابی سیاست سے کچھ مدت کے لئے دوررکھیں۔ تاکہ مسلم منافرت پھیلانے کا موقع نہ دیا جائے۔ معاہداتی سیاست کو آزمائیں۔ زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت سمجھیں۔ خود کو تعلیم اور روزگار کی جدوجہد تک محدود رکھیں یا اترپردیش کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم عوام نے جس حکمت عملی کے ساتھ پولنگ کی ہے اس کو آگے اختیار کریں۔ دوباتیں بالکل واضح ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ تمام مسلمان متحد ہوکر کسی ایک جگہ ووٹ کریں۔ دوسرے مسلم لیڈروں کے درمیان اتحاد خواب وخیال کی باتیں ہیں۔ ان کے آپسی اختلافات اتنے گہرے اور جماعتی مفادات اتنے مختلف ہیں کہ کم از کم مشترکہ پروگرم کےتحت اکٹھا ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ وہ مسلم پرسنل لا کے علاوہ کسی اور ایشو پر ایک جگہ نہیں آسکتے۔ سب کی اپنی ترجیحات ہیں۔ کوئی کسی کی قیادت قبول کرنے یا اجتماعی قیادت کے لئے بھی راضی نہیں۔ ایک گھر کے دو لوگ بظاہر ایک نہیں ہوسکتے توپھر اتحاد کا تصور ہی بے فیض ہے۔
یہ وقت شور مچانے‘ اشتعال کا مظاہرہ کرنے اور ردعمل کے اظہار کا نہیں بلکہ خاموش اور صبروتحمل کے ساتھ دبے پائوں آگے بڑھنے کا ہے بی جے پی کے پاس پروپیگنڈہ کی طاقت ہے اس لئے یوپی کے بلدیاتی الیکشن میں اس کی پسپائی 14میئروں کی جیت میں چھپ گئی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم عوام نے برادران وطن کے ساتھ مل کر بڑی خوبی کے ساتھ پولنگ کی سیکولر پارٹیوں نے اکثریتی علاقوں میں مسلم امیدوار اتار کر بی جے پی کے لئے راستہ ہموار کردیا تھا جیسا مراد آباد وامروہہ میں ہوا اور رام پور میں لاج بچ گئی۔ مسلمانوں نے کسی ایک پارٹی سے خود کو نہیں باندھا ایم آئی ایم کے بھی حیرت انگیز طور پرکئی امیدوار جیت گئے صرف فیروز آباد میں دس کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔ مسلمانوں نے ووٹوں کے بکھرائو کو محسوس کرلیا ہے۔ انہوں نے پہلے مسلم امیدوار اس کے بعد بی جے پی کو شکست دینے والی پارٹی کو ووٹ دیا کسی مسلم پارٹی کا امیدوار جیتتا دکھائی دیا تو اسے ووٹ دینے سے دریغ نہیں کیا ،یہ حکمت عملی ہے ۔ان مسلم لیڈروں کو جواب دیناچاہئے جو کسی مسلم جماعت کا مسلم امیدوار اتارنے پر بی جے پی کا ایجنٹ بتانے میں دیرنہیںکرتے مگر جب یہی کام سیکولر پارٹیاں کرتی ہیںتو ان کی زبان کو تالا لگ جاتا ہے سب اپنا سوچتے ہیں۔ الیکشن لڑنے والی مسلم جماعتیں سیٹیں نشان زد کرکے امیدوار اتاریں تواچھا پیغام جاسکتا ہے جرأت مند حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اپنا بوجھ خود اٹھائیںنہ کہ دوسروں کا بوجھ بھی ڈھوئیں۔ ستر سال بعد بھی اگر سمت وسفر میں تبدیلی کی ضرورت نہ سمجھیں تو ہم سے بڑا بدبخت کون ہوگا اوبامہ کی نصیحت پر ہم خودہی اپنی قدر کرنا سیکھ لیں۔

0 comments:

featured

فیشن اور نسل نو کی تباہی



عفیفہ مطیع الرحمٰن

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
نوجوان نسل ملک و ملت کا ایک قیمتی سرمایہ اور مستقبل کا درخشان ستارہ ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر تحریک نوجوانوں کی جدوجہد سے ہی کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن آج نوجوانوں میں انقلابی و تحریکی کاموں کے بجائے فیشن پرستی، بے حیائی، دوسروں کی نقالی اور منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی تباہی پوری قوم کی تباہی ہے۔ موجودہ دور کے مسلم نوجوانوں کے پاس سب کچھ ہے مگر افسوس! نہیں ہے تو زندگی کا صحیح مقصد نہیں ہے اور نہ سچا ایمان ہے۔ انھیں اپنے لٹنے کا کوئی افسوس بھی نہیں بلکہ وہ اس مصرعہ کے مصداق ہیں ؂
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
لباس ہو یا طور طریقہ، چلنے کا انداز ہو یا گفتگو کا انداز، ان کی تمام حرکات قابل مذمت اور قابل افسوس ہوتے ہیں۔ لیکن ان سارے معاملات میں صرف یہ نوجوان ہی قصوروار نہیں بلکہ ان کے والدین کا بھی حصہ شامل ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اور ان کی تربیت کو قابل توجہ نہ جانا۔ گھر بچوں کی بنیادی تربیت گاہ ہوتی ہے، اس مکتب میں بچوں کے طبعی رجحانات کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔ جن بچوں کی زندگی میں والدین کی غفلت اور بے تدبیری کے سبب غلط قسم کے رجحانات راہ پا جاتے ہیں ، اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت گاہ بھی ان کے ذہنی افتاد کو نہیں بدل سکتی۔ سامنے کی بات ہے کہ ہمارے بچے اپنے دین کی اعلیٰ قدروں اور دینی روایات سے بیزار ہیں۔ ان کے اندر مذہب سے بیگانگی اور شریعت کی پابندی سے اعلانیہ بغاوت ہے۔ انھیں تفریحی مشاغل سے فراغت اور فیشن پرستی سے فرصت نہیں۔ نمو د ونمائش کے یہ دھندے ان کی جان کا آزار بن گئے ہیں۔
لڑکیوں کو لڑکے کے شانہ بشانہ ترقی کرنے کی خواہش بے قرار رکھتی ہے۔ وہ ہر کام میں مردوں کی نقالی کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی نسوانیت کھوتی جارہی ہیں۔ اسی طرح لڑکے لڑکیوں میں مقبول ہونے کے لئے ان کے نظریات کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ ان کے انداز گفتگو، ان کے فکرونظر میں مردانہ وجاہت باقی نہیں رہتی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ دونوں اپنے اپنے فطری مقام سے گرگئے۔ بقول شاعر ؂
چلنا تھا جس کو دین کی پاکیزہ راہ پر
وہ قوم بے حیائی کے رستے پر چل پڑی
فیشن کا خاصہ ہے کہ وہ انسانی رویوں کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ اب تو اس فیشن کی وجہ سے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ لڑکیاں جینس، ٹی شرٹ میں ملبوس مکمل لڑکوں والا حلیہ بنائے خود پر فخر محسوس کرتی ہیں تو لڑکے ہاتھوں میں کنگن ڈالے، بالوں کی پونی بنائے، کانوں میں بالیاں سجائے صنف نازک کو مات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ آپؐ نے فرمایا:
’’لعنت ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر بھی جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں‘‘ (بخاری)
مردوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی ہے کہ فرد اور سماج کی تشکیل میں عورتوں کو اس کا صحیح مقام نہیں دیا، اس لئے سماج میں اس کا مقام اب بھی زیر غور ہے۔ پہلے عورت کو ایک قابل احترام شئے مان کر اسے کسی مذہبی آثار کی طرح درونِ خانہ رکھ دیاگیا تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہو، پھر خیال آیا کہ اسے اس قدر مجبور نہ بنانا چاہئے، اسے بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے لذت آشنا ہونے کا موقع دیا جائے۔ اس لئے اسے اس قدر آزادی دے دی گئی کہ وہ گھر سے نکل کر بازاروں میں جا بیٹھی اور مردوں کی عیش پرستی بہترین ذریعہ بن گئی۔ مردوں کی اس لذت آشنائی نے انھیں اس قدر اندھا کر دیا کہ قدیم یونان و روم میں طوائفوں اور بازاری عورتوں کے ہاتھوں میں تہذیب و تمدن کی عنان دے دی گئی اور انھیں زندگی کے اعلیٰ منصب پر فائز کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تہذیب و تمدن کی دھجیاں اُڑ گئیں اور ان کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔
سوشلزم اور جمہوریت کی غلط تعبیر نے عورتوں کے حقوق کی آزادی کے نام پر انھیں غلامی کی ایک اور زنجیر میں جکڑ دیا۔ مثلاً انھیں مردوں کے برابر کارخانوں، دفتروں اور دنیا کے دوسرے کاروبار میں کام کرنے کی آزادی تو دے دی گئی لیکن بچوں کی پرورش اور گھریلو ذمہ داریاں ان سے واپس نہیں لی گئیں۔ اس طرح مردوں کے مقابلے میں ان کی ذمہ داری دوہری ہوگئی ۔ عورت نے اپنی ذمہ داریوں کو کم کرنے کے لئے ان طبی طریقوں کو جو نسل انسانی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ایجاد کئے گئے تھے غلط طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔
عورتوں کو معیشت کی ذمہ داری میں جب مردوں کے برابر شریک کیا گیا تو وہ اپنا سب کچھ کیوں نہ بیچیں ، جبکہ مردوں نے اپنی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنا ایمان بیچ کر جھوٹ ، دغابازی، چوری، رشوت اور دوسرے جرائم کو روا رکھا۔ یہاں تک کہ ہم جنسی اختلاط کو بھی آزادی کا نام رکھ کر ایک جائز عمل قرار دیا ۔ مردوں نے عورتوں کو یا تو ضرورت سے زیادہ حقوق دئے یا ضرورت سے کم ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تہذیب و تمدن کی کوئی شکل نہ بن سکی اور فحاشی کی بنیاد گہری ہوتی گئی۔ آرائش و زیبائش کی جدید ترین مصنوعات کو سرمایہ داروں نے اس قدر فروغ دیا کہ اب وہ گھر کے بجٹ کا لازمی جزو بن گیا۔ اس سے عورتوں کی دلنوازی اور کشش غیر فطری حد تک بڑھی اور سوسائٹی میں ایک عورت کو دوسری سے زیادہ پرکشش بننے کا شوق ہوا جس نے مردوں کے جذبات میں اس قدر ہیجان برپا کیا کہ انھوں نے اپنے لذت کی حصولیابی کے لئے عورتوں کو ہوٹلوں ، کلبوں ، رقص گاہوں اور فن کے نام پر ممتاز جگہ دی اور ان سارے حجابات کو اٹھاکر رکھ دیا جو عورت اور مرد کے درمیان پاکیزگی ، احترام اور تقدس کا درجہ رکھتے تھے۔
آج کے مسلم نوجوانوں کو یہ حقیقت معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کا وجود اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہش کی امانت ہے۔ لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا ، اسیش اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق استعمال کرنااور اس سے وہ کام لینا جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی ہے، یہی ان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔ مسلمانوں میں پھیلنے والی فحاشی اور بے حیائی میں جتنا اہم کردار فیشن نے ادکیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ کیونکہ اسلام نے تو وضع قطع اور طرز زندگی اپنانے میں جو حدود و قیود مقرر کی ہیں ایک مسلمان ان حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی زندگی سنوار سکتا ہے۔ جبکہ فیشن ہر حدود وقیود سے آزاد ہوتا ہے۔ پہلے جن چیزوں کو لوگ اپنانے سے ہچکچاتے تھے ، فیشن کے نام پر ان کو بلاتکلف اختیار کرلیا جاتا ہے۔ اگر فیشن پرستی کی پٹی آنکھوں سے اتار کر دیکھیں تو واضح ہوجائے گا کہ اس فیشن کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کے اندر سے شرم وحیا کو ختم کرکے بے حیائی کو فروغ دیا جائے۔ بقول اقبال ؂
وہ حیا جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نور
لے اُڑی اس نکہتِ گل کا یہ تہذیب فرنگ
انسان نے ظاہری جسم کے نقصان کو تو پہچان لیا مگر اس نے روح کی بیماریوں سے نگاہیں پھیر لیں۔ وہ نماز یں ترک کرتا ہے، روزہ چھوڑتا ہے، سگریٹ پیتا ہے، جام چھلکاتا ہے، جھوٹ بولتا ہے اور مختلف برائیوں میں ملوث ہوکر اسلامی احکامات توڑتا ہے اور نہ جانے کیا کیا اسلام مخالف کام کرتا ہے۔ دن بھر کی مصروفیات سے تھک کر سکون تلاش کرتا ہے ٹی وی، انٹرنیٹ میں ، لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ حقیقی سکون اگر ہے تو صرف اللہ کی یاد میں ۔ ان کا جو حلقۂ احباب ہوتا ہے وہ اکثر غیرمسلم، بداخلاق، بدکردار دوستوں کا ہوتا ہے اور انہی کے زیر اثر ہمارے یہ مسلم نوجوان ہوتے ہیں۔ نبی کریمؐ سے کسی نے پوچھا کہ بہترین ساتھی کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
’’ وہ شخص جو تمھیں نیک کام کرتے ہوئے دیکھے تو تمھاری مدد کرے اور برا کام کرتے ہوئے دیکھے تو تمہیں تنبیہہ کرے‘‘۔
نوجوان نسل خود اپنی فطرت کے حدود کو پھاند جانے کی وجہ سے تباہ و برباد ہورہی ہے۔ ان پر مغربی تہذیب کا غلبہ اس قدر ہے کہ خاندانی نظام کے ساتھ وہ سارے رشتے بھی بے معنی ہوگئے ہیں جن رشتوں کے سہارے ہمیں اپنے دکھ سکھ میں بہترین رفیق مل جاتے ہیں جو بے ضرر، غمخوار ار بے غرض دوست ہوتے ہیں۔ خاندانی نظام کے ختم ہوتے ہی ان رشتوں کی رفاقت و محبت سے انسان محروم ہوجاتا ہے۔
مغرب کی اس تباہ کاری کے نتیجہ میں شرم وحیا، ہمدردی، محبت، ادب، غم گساری، شفقت ان سب اخلاقی قدروں کو زبردست نقصان پہنچا اور آدمی انسانیت کے مقام سے کافی نیچے گر گیا۔ خاندانی نظام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور یہ بہت سی اخلاقی قدروں کا ازخود محافظ ہے۔ چنانچہ جن جن ملکوں میں مغربی تہذیب کے زیر اثر خاندانی نظام کو درہم برہم کیا گیا وہاں انسانی نسلیں سخت مشکلات میں مبتلا ہوگئیں اور بچے گھروں کی پُر محبت فضا سے محروم ہوگئے، جہاں ان کے اندر سے انسانی صفات کم سے کم تر ہوتی جاتی ہیں وہ ذرا بڑے ہوتے ہیں تو آوارہ جانوروں کی طرح گلیوں اور بازاروں میں پھرتے ہیں اور جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غرض جن ملکوں اور قوموں کا جائزہ لینا ہو وہاں کی گھریلو زندگی کو دیکھ لینا کافی ہے۔جو حالت گھر کی ہوگی وہی حالت ملک کی بھی ہوگی۔ جو افراد اپنی گھریلو زندگی میں ایک دوسرے کے وفادار نہ ہوسکیں اور ایک دوسرے کے لئے ایثار کرنا نہ سیکھیں گے وہ ملک و قوم کے مصائب کے لمحات میں کس طرح مشقت اور قربانی برداشت کرسکیں گے۔ گھریلوزندگی کسی قوم کی زندگی کا صحیح پیمانہ ہے۔ گھر اگر انتشار کا شکار ہوگا تو نسلیں لازماً تباہ وبرباد ہوں گی۔ پھر اس گھریلو زندگی کی اخلاق سے عاری ادب نے خاص کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مدد سے اقدار کو بدلا گیا اور اخلاق کو تباہ کرنے کے لئے حیوانی فلسفوں کو پھیلایا گیا۔ ضبط ولادت کی تحریکیں چلیں، امراض خبیثہ کی کثرت ہوئی، بدکاری روزمرہ کا معمول بن گئی اور بدکاروں کے لئے سوسائٹی میں کوئی رکاوٹ نہ رہی بلکہ اسے وسیع النظری، فیشن اور جدیدیت قرار دیا جانے لگا۔
انگریزوں کو اپنی ڈیڑھ سو سالہ دور میں کبھی اتنی جرأت نہ ہوئی کہ اس ملک کے باشندوں کی معاشرت میں براہ راست دخل دے سکیں ، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے جو لوگوں کی غیرت وحمیت کو بھڑکا دینے والا ہے۔ اس لئے انھوں نے مسلم معاشرہ میں ہر جگہ مخلوط تعلیم میں اضافہ کیا۔ ہر جگہ رقص و سرود کی محفلیں کثرت سے منعقد کرائیں۔ اندرون ملک ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعہ بے حیائی کو عام کیا۔ہر ملک میں آرٹ کو نسلوں کے نام سے ناچنے گانے کے ادارے قائم کئے گئے جن کے سر پرست سرکاری حکام تک بن گئے۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ پر کچھ صرف کرنے کے بجائے بھاری رقوم آرٹ کو نسلوں جیسے اسلامی تہذیب کے منافی اداروں پر کی جانے لگی۔ معصوم لڑکیوں اور لڑکوں کو ہر جگہ ناچ گانے کی تعلیم دی جانے لگی اور موقع بے موقع ڈراموں کے ذریعہ لڑکوں اور لڑکیوں کو ایسے کاموں کی تعلیم و ترغیب دی جانے لگی جو حیا سوز بھی تھے اور اخلاق سوز بھی۔ انتہا یہ کہ جابجا تعلیمی نصاب کو بھی اس طرح مرتب کیا گیا کہ اس میں ناچ گانے اور ثقافتی سرگرمیوں کی گنجائش رکھی گئی تاکہ اگر موقع مل جائے اور یہ قوم اگر ان سرگرمیوں کو برداشت کرلے تو پھر آہستہ آہستہ انھیں پوری طرح سے شرم وحیا اور اخلاق و آداب اور اسلامی جذبات و حسیات سے عاری کردیا جائے۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں مسلم معاشرے میں ہر جگہ غنڈہ گردی، بداخلاقی، فحش کاری اور طلاق کے واقعات بڑھ گئے اور محسوس ہونے لگا کہ مسلمانوں کے بڑے لوگوں نے حکومت کی قوت ، دولت اور اثر ورسوخ کو جن کاموں پر صرف کیا تھا اب اس کے نتائج برآمد ہونے لگے ہیں۔
عورتوں کے لئے اسلام نے جس کردار کی تصویر کشی کی ہے اور جس قسم کا مطلوبہ کردار حضور اکرمؐ نے اس وقت اسلامی سوسائٹی میں تیار کرکے عملاً دکھایا تھا وہ اس سے قطعی مختلف ہے جو مغربی تہذیب پیدا کرتی ہے۔ یہ تہذیب عورتوں کو ذلیل و خوار کرتی ہے۔ عورت کے لئے اسلام کے دائرہ کار کی تخصیص اس آیت سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور زمانۂ جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘۔ (سورہ الاحزاب ۔۳۳)
یہ ایک ہی آیت عورت کے میدان کو واضح طور پر متعین کردیتی ہے۔ یہ آیت گویا اس کی تفسیر حیات اور میدان جدوجہد کا ایک خوبصورت عنوان ہے، جس نے عورت اور مرد کی حدودِکار کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کے مختار اور ذمہ دار ہیں۔ دونوں کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک خارجی معاملات کا ذمہ دار ہے تو دوسرا داخلی معاملات کا اورعورت کے لئے داخلیت کو ہی پسندیدہ قرار دیا گیاہے۔ یہ وہ ساری روایات ہیں جو اسلامی سوسائٹی کے اندر عورت کے لئے موجود ہیں ۔ یہ گویا ایک سانحہ ہے جس کے اندر اسلامی خاتون کا مجسمہ ڈھلتا ہے اور وہ محض ’’ایک عورت‘‘ سے ’’ایک مؤمنہ‘‘ بنتی ہے۔
غرض کہ ایک مؤمنہ خاتون کے کردار کا بہترین خاکہ اسلام میں موجود ہے۔ عورت بیوی کی حیثیت سے سلیقہ شعار خاتون ہوتی ہے جو اپنے گھر کو دولت سے نہیں بلکہ اپنے سلیقہ سے سجاتی ہے اور ایمان کی دولت سے مالامال کرتی ہے۔ وہ مشکل میں صبر کرتی ہے اور فراخی مین شیخی و تکبر کرنے کے بجائے اپنے مالک کا شکر ادا کرتی ہے۔ ایک مؤمنہ بیوی کی حیثیت سے جہاں اس کے فرائض بے شمار ہیں تو اس کا مقام بھی نہایت معزز ہے۔ اب تک ہما ری تہذیب اور گھریلو ماحول میں تھوڑی بہت اسلامی یا نیم اسلامی اثرات محفوظ ہیں اسے کلی طور پر جاہلی اور غیراسلامی ہونے سے خواتین ہی نے بچایا ہے۔ہماری بہنیں جو آنے والی نسلوں کی معمار ہیں، ہماری تہذیب کی جڑ ہیں اگر وہی اسلامی تعلیمات سے دور ہوکر فیشن کے دلدل میں پھنس جائیں گی تو آنے والی نسلوں کی کس طرح سے تربیت کرسکتی ہیں۔ یاد رکھئے ! اولاد دولت سے زیادہ ہمارے لئے قیمتی ہے لہٰذا ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے، کیونکہ جس راستے میں سب سے کم خطرہ ہے وہ ہمارے گھر کا راستہ ہے۔ اس لئے اپنے گھر کو خوشی و مسرت کا گہوارہ بنانے کی کوشش کریں اور ایسی ہر عادت جو ہماری اولاد کو بگاڑنے کا ذریعہ بن سکتی ہے اس کو چھوڑ دیں۔ یہ یاد رہے کہ تربیت کے بیج تلخ ہوتے ہیں مگر ان کے پھل ہمیشہ شیریں ہوتے ہیں ۔ ایک مسلمان خاتون اگر اپنا یہ فرض احسن طریقے سے انجام دے اور اولاد کی تربیت کا حق ادا کردے تو اسلامی معاشرہ پھر سے مضبوط و مستحکم بن جائے گا۔ نسلوں کو مضبوط اور امانتدار بنانے کے لئے صحیح اسلامی تربیت کی شدید ضرورت ہے۔ اسی میں ساری دنیا کی بھلائی ہے تاکہ وہ پاکیزہ کردار کے مالک بنیں ،کیونکہ قوم کی خوش حالی اور ترقی کا راز مضبوط اور پاکیزہ اخلاق میں پوشیدہ ہے۔
زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جائے گا نوجوانوں کی حیثیت اور اہمیت بھی بڑھتی جائے گی۔ تحریکوں کو کام یابی سے ہم کنار کرنے کے لئے ہمیشہ نوجوانوں نے ہی نمایاں کردار ادا کیاہے۔ ان کے اندر بے پناہ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔وہ میدان کارزار میں شکست کو فتح میں بدلنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو ہر تحریک کے لئے امید کی واحد کرن ہوتے ہیں۔ اسی کرن کے سہارے تحریکیں آگے بڑھتی ہیں اور اہداف کے مختلف منازل طے کرتی ہیں۔ یہ طبقہ تبھی قوم و ملت کے لئے کارگر ثابت ہوسکتا ہے جب ان کی آبیاری بہتر طریقے سے کی جائے اور ان پر خصوصی تو جہ مرکوز کی جائے تو یہ ملت کے لئے سایہ دار اور ثمرآور درخت بن سکتا ہے۔ جب ملت کا ہر طبقہ تربیت و اصلاح کے لےئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے کا تہیہ کر لے تو نوجوان نسلوں کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں آجائے گا اور وہ اپنی زندگی کو یوں برباد کرنے کے بجائے دین و ملت پر قربان کرنا زیادہ پسند کریں گے۔
اس لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کو فیشن کے دلدل سے نکالنے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔ان کے سامنے فیشن پرستی کے نقصانات کا ذکر کیا جائے ، سنت نبویؐ پر عمل کرنے کا ثواب اور اس کے مثبت اثرات سے انھیں واقف کرایا جائے ۔ فضول خرچی اور اسراف کے سلسلے میں ش اور اس کے رسولؐ کی بیان کردہ وعیدیں سنائی جائیں ۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو خود ہی غور کرنا چاہئے کہ اگر وہ اسی طرح گناہوں کے دلدل میں خوار ہوتے رہے اور گناہوں کا انبار لے کر اندھیری قبر میں اتر گئے تو یاد رکھئے شدید ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
خواتین بھی فیشن کی ریس میں آگے نکلنے کے بجائے خود بھی بچیں اور اپنی ساتھی خواتین کو بھی بچائیں ۔ رشک کرنے کی چیز لباس اور زیور نہیں بلکہ اخلاق اور اعمال صالح ہیں اور خراب نہ ہونے والی سب سے چمکدار اور معطر چیز اخلاق و اعمال ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ تہذیبوں کا تصادم ہے اس میں مسلم خواتین کو اپنا تاریخی فرض ادا کرنا ہوگا۔ اس کے لئے محنتیں ،مشقتیں، اوقات، مال اور جانیں لگانی ہونگی، اس کے لئے ہمیں راستہ ہموار کرنا ہوگا۔ بقول شاعر ؂
نہ آئے گی ، نہ آئے گی نظر صورت ترقی کی
نہ ہونگے ہم جو میدان عمل میں رونما بہنو!
ش سے دعا ہے کہ ہمارا کردار اور اخلاق و عمل ان خواتین کے کردار و عمل کا نمونہ بن جائے اور ہمیں بھی اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اولاد کی صحیح تربیت اور دین کی خدمت کا جذبہ عطا فرمائے ۔ آمین
!

عفیفہ مطیع الرحمٰن
ساکی ناکہ (ممبئی)

0 comments:

Muslim Issues

پردھان سیوک جی درندگی پر کیوں خاموش ہیں؟



نہال صغیر

ہمارے پردھان سیوک جو ملک کے سب سے قابل احترام عہدہ پر فائز ہو کر یہ بھول گئے ہیں کہ انہیں اس عہدہ پر آکر سوا ارب سے زائد ہندوستانی عوام کو دنیا میں باوقار مقام دلانا تھا ۔اس کے برعکس وہ ہندو مسلمان کرنے میں مصروف ہیں اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہندو مذہب کے شنکر اچاریہ بننے کی پریکٹس کررہے ہوں ۔ان کی اسی بات سے متاثر ہو کر کسی نے ٹوئٹر پر کہا تھا جناب آپ وزیر اعظم ہیں مذہبی مبلغ نہیں ،آپ کو ملک کے عوام کی خواہشات اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کیلئے اور ان کی ترقی کیلئے منصوبہ بنا کر کام کرنے کیلئے یہ عہدہ سونپا گیا ہے ۔ جس کے بارے میں وہ اکثر کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ستر برسوں میں کچھ نہیں ہوا ۔مجھے اس بحث سے کوئی لینا دینا نہیں کہ ستر برسوں میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا۔ہم تو ان سے صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں ہزاروں میل دور کسی سانحہ پر آپ کی انسانیت جاگ جاتی ہے فوراً ایک عدد ٹوئٹ کرکے اپنی انسانیت دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے وہاں کے لوگوں سے ہمدردی جتاتے ہیں ۔لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اندرون ملک خواہ قیامت ہی گزر جائے آپ کی انسان دوستی ٹوئٹر پر کہیں نظر نہیں آتی ۔یہ دورخا پن اور دوہرا رویہ کیوں ؟کیا اس ملک کے باشندے اس قابل نہیں کہ ان سے ہمدردی کی جائے انہیں ظلم سے بچایا جائے ۔ان کے خلاف کسی ظالمانہ کارروائی پر فوراً حرکت میں آیا جائے ۔ راجستھان کے راجسمند میں درندگی کے واقعہ پر آپ نے کچھ کہا اور نہ ہی آپ کی پارٹی کے ترجمان کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اس مظلوم مسلمان مزدور کے قتل کے خلاف مذمتی بیان دیتے اور اس کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ۔اس کے برعکس ہم نے یہ دیکھا ہے کہ چند ماہ قبل جب پہلو خان کو راجستھان میں گائے کے نام پر قتل کردیا گیا تھا تو آپ کے لوگوں نے پہلو خان کو ہی مجرم گردانا اور بعد میں پولس نے بھی پہلو خان کے قاتلوں کو بے گناہی کا سرٹیفیکٹ دیدیا ۔جنید کے معاملہ میں بھی ہم نے سنگھ کے لوگوں کو دیکھا کہ جنید کو مجرم گرداننے اور اس کے قاتلوں کا دفاع کرنے میں ساری قوت صرف کررہے تھے ۔ دادری کے اخلاق کے قتل پر آپ نے پندرہ دن کے بعد کہا تھا کہ اس میں مرکزی حکومت کا کیا قصور ؟ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد کس طرح اخلاق کو ہی مجرم قرار دینے کیلئے کیسی کیسی جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں ۔ آپ کہتے ہیں کہ اب دنیا میں بھارت کے تئیں احترام میں بہتری آئی ہے ۔مجھے یا د آتا ہے کہ اخلاق کے قتل پر یونان میں مقیم ایک ہندوستانی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ آج ہمارے دوستوں نے کہا کہ اچھا تم اُس ملک کے باشندہ ہو جہاں جانوروں کیلئے انسان کو قتل کیا جاتا ہے ۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اس میں کون سی ملک کی قدر و منزلت کا معاملہ ہے ۔کوئی کسی پر بھپتیاں کسے اور وہ احمق یہ سمجھے کے لوگ اس کی تعریف کررہے ہیں تو پھر ہنسنے والوں میں ایک اور کے اضافہ کو نہیں روکا جاسکتا ہے ۔
پردھان سیوک جی آج ہم نے اخبار میں شاہی امام کا بیان پڑھا کہ انہوں نے کہا کہ ’ اب اور ہمارے صبر کا امتحان نہیں لیا جائے ،ہم نے بہت صبر کرلیا ‘۔مجھے پتہ نہیں وہ صبر نہیں کریں گے تو کیا کریں لیکن اتنا معلوم ہے کہ اس سے مسلم نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اور آپ کے پیارے بھگوا دھاری غنڈے اور دہشت گرد مسلم نوجوانوں کو اشتعال دلا رہے ہیں ۔ذار غور کریں اگر ایک فیصد بھی مسلم نوجوان اس اشتعال کا شکار ہو گیا اور اس کے دل و دماغ میں انتقام کا جذبہ پیدا ہو گیا تو ملک کا کیا ہوگا ۔آپ کو اندازہ ہے کے نہیں پتہ نہیں کہ آ پ کے ان پیاروں کے سبب ملک میں خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے اور خانہ جنگی کے کسی ملک پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے آپ بھی واقف ہوں گے ۔میں نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ آپ کو ناشتہ پر خفیہ محکمہ ملک کے حالات سے باخبر کرتا ہے اور ہم نے یہ بھی اخبار میں ہی دیکھا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ملک کے حالات بگڑنے کی بات خفیہ محکمہ نے بتائی بھی ہے ۔ اتنا سب کچھ ہوجانے اور خفیہ محکمہ کی وارننگ کے باوجود آپ کی طرف سے ہندو دہشت گردوں کیلئے کوئی سخت پیغام نہیں ہے ۔اونا میں دلتوں کے ساتھ ہوئے سانحہ کے بعد آپ نے’ من کی بات‘ میں کہا تھا کہ مجھے مارو میرے دلت بھائیوں کو مت مارو ۔میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ملک کے سب سے طاقتور عہدہ پر بیٹھا شخص مجرموں اور غنڈوں سے اپیل کیوں کررہا ہے ۔اسے تو فوری ایسی کارروائی کرنی چاہئے تھا کہ پھر کسی دوسرے کو ایسی حرکت انجام دینے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ابھی میں آپ کے ٹوئٹر اکائنٹ دیکھ رہا تھا تو اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آپ ملک کے وزیر اعظم نہیں بلکہ بی جے پی کیلئے انتخابی تشہیر کے سربراہ ہیں ۔دو دن پہلے کہ ٹوئٹ میں البتہ ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق سے آپ کے دو تین دعوے ہیں ۔ایک ٹوئٹ میں آپ لکھتے ہیں کہ ’آیئے بابا صاحب کے سپنوں کو پورا کرنے کا ہم عہد کریں ‘۔ دوسرے ٹوئٹ میں آپ نے لکھا ’ہماری سرکار کے منصوبے سماجی جمہوریت کو مضبوط کرنے والی رہی ہیں ‘۔ اس ٹوئٹ میں ’ہماری سرکار‘ سے آپ کی مراد کیا ہے ؟آپ کی حکومت یا آزادی کے بعد کی ساری حکومتوں کے منصوبے کی بات کررہے ہیں ۔ویسے ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق سے آپ نے جو ٹوئٹ کیا اور اس میں جو تصویریں شامل ہیں اس سے بھی یہی اندازہ لگتا ہے کہ آپ محض خود کی مارکیٹنگ کررہے ہیں ۔آپ سماجی انصاف اور مساوات کی کوئی بات نہیں کررہے ہیں ۔اگر آپ ایسا کررہے ہوتے تو آپ کی حکومت میں یوں فساد اور خوف کا ماحول نہیں پیدا ہوتا ۔
آپ کی خاموشی سے ملک کے عوام ہی نہیں دنیا کے انصاف پسندوں کو بھی منفی پیغام جارہا ہے کہ ان سب کے پیچھے آپ کی منشا شامل ہے ۔یہ ٹھیک نہیں ہے ۔جو طبقہ اس کی زد میں آئے گا اس کا نوجوان اگر ملک میں رائج نظام سے مایوس ہو گیا تو ممکن ہے کہ شاہی امام کی بات سچ ثابت ہو جائے جس میں ’اب اور صبر نہیں ‘کا پیغام ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ ملک کے نظام عدل اور پولس کے نظام کو آزاد کیا جائے ۔نہ پولس پر کسی سیاسی ،سماجی ، لسانی یامذہبی گروہ کا دباؤ ہو اور نا ہی عدالت میں کسی جج کو کسی فیصلہ کیلئے مجبور کرنے کیلئے سو کروڑ اور ممبئی کے پاش علاقہ میں فلیٹ کی پیشکش ہو ۔جب تک انصاف سستا اور سہل نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ امن ومان قائم ہو جائے ۔بے چینی بڑھتی رہے گی اور کسی روز یہ ناگا ساکی اور ہیروشیما کے ایٹم بم کی طرح پھٹ جائے گااس کے بعد کی جو تباہی ہے اس کا تصور کیا جاسکتا ہے ۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے ۔مسلمانوں کو چونکہ صبر کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے اور وہ ہندوستان کو تباہی سے بچانے کیلئے پہلے بھی صبر کرتا رہا ہے اور آج بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑ رہا ہے لیکن اس کی گارنٹی نہیں کہ یہ صبر کا دورانیہ کتنا طویل ہوگا۔مسلم نوجوان فی الحال اپنے لیڈروں اور شاید یہاں کے نظام سے کلی طور پر مایوس نہیں ہوئے ہیں اور یہی وقت ہے جب حکومت کو سنبھل جانا چاہئے اور نظام انصاف کو چست و درست کرکے عظیم تباہی سے اسے بچالینا چاہئے ۔

0 comments:

featured

ان کو آئینہ دکھایا تو برا مان گئے ۔۔۔!


نہال صغیر

گجرات انتخاب میں مودی کی دیگر گوں حالت کے سبب ان کی کمپنی کو کچھ سوجھ نہیں رہا ہے کہ کیا کریں اور کیانہ کریں ۔بائیس سال میں انہوں نے گجرات ماڈل کا گردان کرکے عوام کو گمراہ کیا ۔ گجرات ماڈل کیا ہے یہ لوگوں کو اس وقت معلوم ہوا جب وہاں سے تغذیہ کی کمی سے بچوں کے مرنے اور ان کی نشونما پر پڑنے والے اثرات کی خبریں آنے لگیں تو لوگوں کو گجرات ماڈل کی حقیقت کا پتہ چلا کہ یہاں تو صرف اڈانیوں اور امبانیوں کا ہی وکاس ہوا ہے ۔ان کی ٹیم نے یہ سوچا تھا کہ شاید دہلی کا قلعہ فتح کرنے کے بعد اور اتر پردیش میں اپنے مخالفین کو دھول چٹاکر گجرات تو یونہی پلیٹ میں سج کر مل جائے گا ۔اس کے بعد ووٹنگ مشینوں کا بھی سہارا ہے ۔لیکن انہیں جب گجرات میں دو نوجوان لیڈر جگنیش میوانی اور ہاردک پٹیل سے مقابلہ درپیش ہوا تو دن میں تارے نظر آنے لگے ۔اس صورتحال میں ان کے لئے یہ ایک صورت بچ گئی تھی کہ کسی بھی طرح کوئی ایسا بیان مخالفین کی جانب سے دے دیا جائے جسے کیش کرکے یہ دو ہزار چودہ کے ’چائے والا‘بیان کی طرح گجرات کو بھی جیت لیں ۔یہ موقعہ منی شنکر ایئر نے مودی جی کو نیچ کہہ کر دے دیا ۔حالانکہ ان کے اگلے جملہ میں اس کی وضاحت بھی ہے ۔لیکن پورا میڈیا مسٹر پردھان سیوک کا غلام بنا ہوا ہے ۔اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور مودی جی کو مظلوم بنا کر گجراتی عوام کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا ۔پردھان سیوک صاحب نے بھی ایک عدد بیان دے ہی ڈلا کہ یہ گجرات کے عوام کی توہین ہے ۔وہ اس معاملہ میں کافی ہوشیار ثابت ہوئے ہیں ۔دو ہزار چودہ کے الیکشن میں بھی اور اس سے قبل گجرات فسادات کے وقت کسی بھی معاملہ کو جس کا تعلق ان کی ذات سے ہوتا تھا لیکن وہ اس کو گجرات کے عوام سے جوڑ دیتے تھے کہ وہ گجرات کے سپوت ہیں اور اس طرح کی باتیں گجرات کے عوام کی توہین ہے ۔ایک طرف گجرات میں مودی جی کی انتخابی مہم ہے جہاں ترقی کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں جبکہ بائیس سال سے وہ حکومت میں ہیں ۔اس دوران ترقی کے کوئی کارنامے نہیں جسے وہ عوام کے سامنے پیش کرسکیں ۔دوسری جانب کیجریوال جنہوں نے سیاست کونئے طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے صرف اپنے 49 دنوں کے کارناموں کی بنا پر عوام سے ترقی کیلئے ووٹ کی بات کرتے ہیں اور تاریخ ساز فتح حاصل کرتے ہیں ۔ کیا مودی جی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ کیجریوال کی طرح گجرات میں ترقی کی بنیاد پر ووٹ مانگ سکیں ؟اس کے برعکس پردھان سیوک اپنے عہدہ کے وقار کے مغائر ہندو مسلم کی باتیں کرکے اور عوام میں خلیج کو گہرا کرکے ارتکاز ووٹ کی کوشش کررہے ہیں ۔
بہار الیکشن مہم کے دوران پردھان سیوک نے نتیش کمار کے ڈی این اے میں خرابی کی بات کی تھی ۔اس وقت انہیں کیوں یاد نہیں رہا کہ وہ کیا بول گئے ؟انہیں کسی بات کی اہمیت یا اس کی شر انگیزی کا خیال اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ صرف انتخابی سیاست تک محدود ہیں ۔انہیں ہر حال میں انتخاب جیتنا ہے خواہ سیاست اور جمہوری اقدار کا جنازہ ہی نکل جائے ۔میں منی شنکر ایئر کی اس بات سے متفق نہیں جو انہوں نے پردھان سیوک کے تعلق سے کہی ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا ؟اس پر کون غور کرے گا ۔خود کو مہذب بنائے رکھنا اور اپنے ہمنواؤں کو کسی بھی مخالف کے پیچھے لگا دینا کہ وہ اس کی زندگی دوبھر کردے کہاں کی انسانیت اور کون سے ہندوتوا کا حصہ ہے ۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مودی جی کے بھکت کس طرح مخالفین کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں ۔سونیا گاندھی اور راہل گاندھی یا دیگر کانگریسی رہنماؤں کے علاوہ دیگر علاقائی پارٹی کے لیڈروں کو کس طرح نشانہ بناتے ہیں ۔دو سال قبل جب ان کے بھکتوں کی بیہودگی کی شروعات ہوئی تھی تب رویش کمار کو کیسی کیسی گالیاں دی جاتی تھیں جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔اس وقت پردھان سیوک کا ایک ٹوئٹ نظروں کے سامنے گزرا تھا جس میں انہوں نے رویش کمار کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر افسوس کا اظہار تو کیا لیکن انہوں نے ایسا کرنے والوں کو کوئی سخت پیغام نہیں دیا ۔اسی طرح ملک میں جاری ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر بھی ان کی زبان نہیں کھلتی لیکن دعویٰ یہ ہے کہ ان کے دور میں ملک کی تکریم میں اضافہ ہوا ہے ۔ملک کی تکریم میں کتنا اضافہ ہوا ہے وہ اوبامہ کی نصیحت کہ ’ہندوستان کو یہاں کی مسلم آبادی کی قدر کرنی چاہئے ‘۔کوئی یونہی نہیں آپ کو نصیحت کرتا جب تک کہ وہ آپ میں کوئی خامی محسوس نہ کرے ۔یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اب کوئی جرائم کا ارتکاب کرکے اس کا ویڈیو بناتا ہے اور اسے اپنے لئے قابل فخر کارنامہ سمجھ کر وائرل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔یہ معاملہ بین الاقوامی طور پر دیکھا اور پرکھا جارہا ہے ۔یہی سبب ہے کہ امریکی حقوق انسانی کے اداروں کی جانب سے بھی انتباہ جاری کیا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کی آمد کے بعد سے اقلیتوں خصوصا مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس میں حکومت کی خاموش حمایت شامل ہے ۔

0 comments:

featured,

جمہوری فاشزم یاحقیقی آزادی


سمیع اللہ ملک
 جس تیزی کے ساتھ ہم دنیاوی اورمادی ترقی کے زینے پھلانگتے جارہے ہیں،کیاہم اس کے نقصانات سے بھی آگاہ ہیں؟ کیاہمیں اس بات کاعلم ہے کہ آج کے جدیدترقی یافتہ جمہوری نظام میں شخصی آزادی کواندرون خانہ سلب کیاجارہاہے اورہم بخوشی نہ صرف اس کاشکارہوتے جا رہے ہیں بلکہ جمہوری نظام کے اس دھوکے سے نکلنے کی بجائے اس فاشزم میں روز بروزدھنستے جارہے ہیں۔ایسا کوئی بھی دعویٰ کہ ہم فی زمانہ ایک اورطرح کے فاشزم (ڈیجیٹل فاشزم) سے نبرد آزما ہیں بہت جلد یہ کہتے ہوئے نظر انداز اور مسترد کردیا جائے گا کہ اس معاملے کو ضرورت سے زیادہ پیش کیا جارہا ہے۔ حیرت کی کوئی بات نہیں کہ دنیابھرمیں ایسے بڑے کاروباری ادارے موجود ہیں جوہرسال اربوں ڈالر محض یہ راگ الاپتے ہوئے کماتے ہیں کہ فردکی حیثیت سے بالخصوص اورجمہوری معاشرہ ہونے کے ناطے بالعموم ہماری زندگی میں بہت سی آسانیاں بڑے پیمانے پرمواد اورمصنوعی ذہانت کی مرہون منت ہیں اوریہ کہ ان کے بغیرہمارے لیے ڈھنگ سے جینا آسان نہ ہوگا۔
اس وقت ایک بڑاسوال یہ ہے کہ جمہوریت، جیسی کہ ہمارے سامنے ہے، معلومات کے سیلاب اور مصنوعی ذہانت کے سامنے اپنی بقاء یقینی بنانے کی اہلیت کاجودعویٰ کرتی ہے، اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اسی جمہوریت میں نہ چاہتے ہوئے بھی غیرمرئی اندازمیں سوچ، طرزِ فکر و عمل پر خطرناک حد تک اثر انداز ہونے والے مختلف طریقے مستعمل اور نتیجہ خیز ہیں۔
ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، آج کی خفیہ ایجنسیوں اور بگ ڈیٹا کمپنیوں کے پاس ہمارے بارے میں اس سے کہیں زیادہ معلومات ہیں جو ماضی میں مطلق العنان حکومتوں کو درکار ہوا کرتی تھیں۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ان معلومات کو کسی نہ کسی مرحلے میں ہمارے خلاف بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ میں نے ڈیجیٹل فاشزم کی بات کی ہے۔ میرے اس دعوے کو اگر کوئی شک کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے آج کے جمہوری اورڈیجیٹل معاشروں کی درج ذیل خصوصیات پر غور کرنا چاہیے۔
بڑے پیمانے پر نگرانی ،انسانوں پر غیر اخلاقی نوعیت کے تجربات،سوشل انجینئرنگ،عوام کو ایک سانچے میں ڈھالنے کاعمل،سنسر شپ اورپروپیگنڈا ،’’فلاحی‘‘ آمریت،غیر معمولی حد تک متوقع پولیسنگ،لوگوں کی الگ الگ قدر و قیمت کا تعین،صورتِ حال کے مطابق انسانی حقوق کا بدلتا تصور،اور’’قتل بر بنائے رحم‘‘کے نام پریہ گھنائوناکاروبارجاری وساری اوراسے جمہوری معاشرتی ترقی کانام دیکرعوام سے دادبھی وصول کی جارہی ہے۔
ہم نے ڈیجیٹل معاشروں کی جن خصوصیات کاذکرکیاہے وہ سب کی سب ماضی کے مطلق العنان حکمرانوں کے خوابوں کے سواکچھ نہ تھیں۔ وہ ایسی ہی ’’آئیڈیل‘‘صورتِ حال کواپنا اقتدارمضبوط کرنے کیلئےعمدگی سے بروئے کار لاتے تھے۔ طریقے تبدیل ہوگئے ہیں۔ اب جبراورتلخی سے کام لینے کی بجائے نرمی اورمٹھاس کاسہارا لیاجاتاہے اورہمیں اندازہ ہی نہیں ہوپاتاکہ ہم نئی،ڈیجیٹل مطلق العنانیت سے دوچار ہیں۔
ماضی میں چند ممالک کے مخصوص حالات مطلق العنان حکمرانی کی راہ ہموار کیاکرتے تھے۔ فی زمانہ ڈیجیٹل انقلاب کے ہاتھوں وہ حالات پوری دنیاپرمحیط ہیں۔ اگر ہم جمہوریت، انسانی حقوق اور انسان کے بحیثیت انسان احترام کو بچانا چاہتے ہیں تو ایمرجنسی آپریشن لازم ہے۔ ڈیجیٹل فاشزم کیلئےجواز پیدا کرنے کی غرض سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی، سائبر حملوں کی دھمکیوں اور ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ہمیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی مدد سے غیر معمولی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں شہری آزادیوں پر قدغن لگ رہی ہے۔ عوام کے اختیارات میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا میں خصوصی قوانین وضع کیے گئے۔ جن کا بنیادی مقصد نگرانی تھا تاہم ان قوانین کی مدد سے لوگوں کے حقوق کو محدود کردیا گیا ہے۔ ان کی بہت سی آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں۔ آج امریکا میں سیکیورٹی اور نگرانی کے نام پر نافذ کیے گئے قوانین کی مدد سے عوام کو بہت سےمعاملات میں غیر معمولی حد بندی کا سامنا ہے۔ اور معاملہ امریکا تک محدود نہیں رہا۔ آج دنیا بھر میں اربوں انسانوں کی شدید نگرانی کا نظام رو بہ عمل ہے۔
بیشتر افراد کو اب تک یہ اندازہ ہی نہیں کہ یہ سب کچھ کس حد تک پھیلا ہوا ہے اور مستقبل قریب میں ان کی زندگی پر اس کے کتنے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ کمپیوٹرز ، اسمارٹ فونز ، اسمارٹ ٹی وی اور اسمارٹ کارز کو ہیک کرنے کیلئےخفیہ اداروں کو اربوں ڈالر کے فنڈز جاری کیے جارہے ہیں ۔ دنیا بھر سے روزانہ لاکھوں گیگا بائٹس کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے ۔ جمہوری حکومتیں بھی یہ سب کچھ کر رہی ہیں اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کیا جاسکے۔ ڈیجیٹل ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی پسند و ناپسند پراثراندازہواجارہاہے۔ اب ہم’’فلاحی‘‘آمریت کیلئےمحض ایک آلے میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ ریاستی مشینری اور بڑے کاروباری ادارے مل کر طے کرتے ہیں کہ ہمارےلئےاچھا اوربراکیاہے۔
شہریوں کوہدف بنایاجارہاہے ، ان کاڈیٹاجمع کیاجارہاہے اوراس ڈیٹاکے تجزیے کی بنیادپرطے کیاجارہاہے کہ معاشرے اورمعیشت کوکیارخ اوررنگ دیناہے ۔ ہر شخص کاایک مکمل پروفائل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لوگوں کے مزاج اورعادات کی بنیادپرطے کیاجارہاہے کہ انہیں کیاکھاناپینا چاہیے،کیاپہنناچاہیے ، کیاپڑھنا چاہیے، کس طوراپنافارغ وقت گزارناچاہیے اورزندگی کے بارے میں ان کی مجموعی سوچ کیاہونی چاہیے ۔ ہرپروفائل میں ہزاروں خصوصی نکات شامل کیے جاسکتے ہیں ۔ کمپیوٹرزاوراسمارٹ فونزہیکنگ کے ذریعے ہماراجوڈیٹالیا جا رہاہے اس کے تجزیے کی بنیاد پرہماری شخصیت کی تشکیل نوکا مرحلہ شروع کیاجاچکاہے ۔ ہمارے ورچوئل سیلف پرمختلف تجربات کے ذریعے یہ طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمیں کیاسوچناچاہیے، ہماراطرزِعمل کیا ہوناچاہیے اورہمیں کیسے ماحول میں زندگی بسرکرنی چاہیے ۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ big nudging یا neuro-marketing کہلانے والی تکنیک کے ذریعے ہمارا ذاتی مواد کسٹمائزڈ انفارمیشن کی تیاری کیلئےاستعمال کیاجارہاہے تاکہ کسی بھی معاملے میں ہمارے ارتکاز،جذبات،خیالات،فیصلوں اورطرزِعمل کواس حدتک طے کردیاجائے کہ ہمارااپنے ہی وجودپراختیاربرائے نام رہ جائے ۔ ایک طرف توصارف کی حیثیت سے کسی بھی شخص کی پسندو ناپسند پراثراندازہونے کی کوشش کی جارہی ہے اوردوسری طرف ووٹرزکی حیثیت سے پائی جانے والی سوچ پربھی اثرات مرتب کیے جارہے ہیں ۔ اس کا بنیادی مقصدانتخابات میں ووٹرزکی مجموعی رائے پراثر اندازہوکرمقتدرقوتوں کی پسندکے انتخابی نتائج حاصل کرناہے۔عوام کی نگرانی کانظام اگرغلط ہاتھوں میں چلاجائے اورمعاشرے کی عمومی فلاح کامقصدپس پشت ڈال کرصرف مذموم مقاصدکوذہن نشین رکھاجائے تو معاشرے پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ اعلانیہ یا ڈھکی چھپی مطلق العنان حکمرانی والی ریاست میں یہ ڈیٹا شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے اور ان کی سوچ کوخطرناک حد تک تبدیل کرنے کیلئے آزادانہ استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ جو لوگ ریاستی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں ان کی سوچ کوبدلنے میں بھی نگرانی کا یہ نظام اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایسے میں جمہوری حقوق کے باضابطہ استعمال سےقبل ہی شہریوں پر متعددپابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، انہیں بہت سی باتوں کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔
برطانوی خفیہ ادارہ Karma Police کے زیرعنوان ایک   Surveillance Programپروگرام چلاتا ہے جو دراصل یہ بتاتا ہے کہ معاشرہ کس طرف جارہا ہے ۔ اس پروگرام کا تجربہ اس وقت چین میں بھی کیا جارہا ہے ۔ یہ پروگرام ایک مکمل مطلق العنان معاشرے یا پولیس اسٹیٹ کی تشکیل کیلئےبھی عمدگی سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔
Karma Police کے تحت The Citizen Score یہ طے کرے گا کہ اشیاء و خدمات اور بنیادی سہولتوں تک عوام کی رسائی کی سطح کیا ہے۔ عوام کو ان کے مجموعی رویے کی بنیاد پر انعام یا سزا ملے گی ۔ حکومت پر تنقید سے متعلق خبریں ، تجزیے اور مضامین پڑھنے یا غلط سماجی تعلقات کی بنیاد پر آپ کو منفی مارکس ملیں گے ۔
معاشرے کو مکمل ڈیجیٹل مطلق العنانیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئےہمیں چند باتیں یقینی بنانا ہوں گی ۔ مثلاً
٭ طاقتور سائبر انفرا اسٹرکچر کو ڈھنگ سے استعمال کرنے کیلئےایک جامع آزاد فریم ورک
٭ نظم و ضبط سے متعلق ٹیمیں بناکر مختلف النوع پس منظر کا علمی انداز سے معیاری استعمال
٭ شفافیت، انسانی حقوق اور انسانی احترام یقینی بنانے سے متعلق اخلاقی اصولوں کا جامع اور کارگر بنیادی ڈھانچہ
٭ سائبر سکیورٹی (عدم ارتکاز کے ذریعے)
٭ معلومات کی سطح پر حق خود ارادیت (پرسنل ڈیٹا اسٹور کی مدد سے)
اگر ہم فوری طور پر متوجہ نہ ہوئے تو ڈیجیٹل انقلاب کی مدد سے عالمگیر سطح پر فاشزم کو پنپنے اور ہماری زندگیاں کنٹرول کرنے کا موقع مل جائے گا ۔ اس معاملے میں ہم جس قدر تاخیر کے مرتکب ہوں گے ، معاملات کو درست کرنا ہمارے لیے اسی قدر دشوار ہو جائے گا ۔ یومیہ بنیادی ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے ۔ جدید ترین طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی پسند و ناپسند اور مختلف امور میں ان کی رائے کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہماری طرزِ فکر و عمل پر اثر انداز ہونے کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہیں اس کا مدار اس بات پر ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔
ٹیکنالوجیکل مطلق العنانیت بڑھتی جارہی ہے ۔ ایسے میں دنیا بھر کے عوام کو سوچناہوگااوراپنی سوچ کومقدم رکھتے ہوئےاپنی پسندوناپسند کاسانچاتیارکرناہوگا ۔ یادرکھیے ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے تمام جغرافیائی سرحدوں کوعملاًختم کردیاہے ۔ اب پوری دنیاکوکسی ایک مقام پربیٹھ کربھی کنٹرول کرنے کامرحلہ آچکاہے اورامریکا اپنے دشمنوں کے خلاف ہزاروں میل دوربیٹھ کرڈرون میزائل حملوں کیلئے اسی ٹیکنالوجی کواپنے استعمال میں لارہاہے کیونکہ مطلق العنانیت کیلئےاس ٹیکنالوجی کاماحول انتہائی سازگار ہے ۔
دنیا بھر میں رونما ہونے والے متعدد واقعات انتہائی پریشان کن ہیں ۔ حالیہ جرمن انتخاب میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت کا ابھرنا انتہائی حیرت انگیز امر تھا ۔ ووٹرزکی رائے پراثرانداز ہونے کی بھرپوراور کامیاب کوشش کی گئی ۔ اسپین ، ہنگری اورپولینڈ بہت حدتک مطلق العنانیت کی راہ پرگامزن ہیں ۔ فرانس ، برطانیہ ، امریکا ، جاپان ، آسٹریا ، سوئٹزرلینڈاورنیدرلینڈز(ہالینڈ)پرغیرمعمولی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان ممالک کے چند سیاست دانوں نے انسانی حقوق کی آڑمیں سوال کرنا شروع کردیئےہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے حقوق اور اختیارات زیادہ سے زیادہ محدود کردیے جائیں اس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد جوتہذیبی ڈھانچا کھڑا کیاگیاہے وہ خطرے میں ہے ۔ پورے کے پورے معاشرے پٹڑی سے اترنے کے خطرے سے دوچارہیں ۔ شخصی آزادی کاتصور دھندلاتا جا رہا ہے ۔ ایسے میں فردکواپنے حقوق کیلئےاٹھناپڑے گا کہ عمل کاوقت آگیا ہے ۔
ہمیں مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ ہوناپڑے گا اورپرانی سوچ کوترک کرتے ہوئے آگے بڑھناہوگا ۔ عوام کوزیادہ سے زیادہ باشعورکرنے کیلئےانہیں اظہار رائے کی تحریک دیناپڑے گی اورمستقبل کے حوالے سے مثبت تصورات پیدا کرناہوں گے ۔ پرانی قوتوں کافرض ہے کہ تبدیلی کوواقع ہونے دیں ۔ معاشرے کو نئے سرے سے دریافت یاایجاد کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہمیں اس جمہوریت کے نعم البدل نظام کی ضرورت ہے جہاں حاکم وقت خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اپنے ایک ساتھی کوتنبیہ کرتے ہیں کہ تم نے کب سے انسان کوغلام بنارکھاہے جبکہ ہربچہ فطری اصول کے مطابق آزادپیدا ہوتاہے ۔ ہمیں ایک بات طے کرنی ہے کہ شخصی آزادی کوسلب کرنے والے اس فاشزم کو ہمیشہ کیلئےخیرباد کہنے کیلئے اب قرآن سے رجوع کرناازحدضروری ہوگیاہے ۔

0 comments:

featured,

’رنگ دے مجھے بھی گیروا‘



قاسم سید 
گجرات کا الیکشن کئی معنوں میں بہت اہم ہے اس لئے بی جے پی اور کانگریس نے اپنا سب کچھ دائو پر لگادیا ہے ۔ اخلاقی معیارات کا تو پہلے ہی جنازہ نکل چکا ہے عہدوں کا وقار بھی ملیامیٹ ہو رہا ہے ۔ سیاست کی نئی تعبیر یں سامنے آرہی ہیں ۔ سافٹ ہندو تو کا چولا بھی رنگ دے مجھے گیروا کا نعرہ مستانہ لگاتا نظرآرہا ہے ۔ اب دھیرے دھیرے سیاست جس موڑ پر پہنچ گئی ہے وہ بہت خطرناک رجحانات کا اشارہ ہی نہیں وارننگ دے رہی ہے ۔ قورمہ بریانی کے نشہ میں مدمست لوگ اپنے بال نوچنے ‘ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے اور تہذیبی شرافتوں کے نئے رویوں سے خود کو آشناکرنے میں مصروف ہیں ۔ انہیں رفع یدین ‘ وسلام ونیاز جلوس وجلسوں کے جواز عدم جواز سے فرصت ملے تو ادھر دیکھیں کہ زمانہ کتنی قیامتوں کی چال میں الجھا ہوا ہے ۔ خود کچھ نہ کرکے سب کچھ اللہ پر چھوڑدینے کے مرض نےذہنی کوڑھی ہی نہیں لولا لنگڑا بنادیا ہے ۔ ہر مصیبتوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینے کے فریب نے جدوجہد اور عمل پیہم کی شاندار روایات کو اجنبی بنادیا ہے ۔ پدرم سلطان بود کانشہ ابھی اترا نہیں ہے ۔ سمندرمیں گھوڑے دوڑادینے کی گردان سر بلند کرنے کے لئے کافی ہے ۔ لیکن یہ نہیں سوچاجاتا کہ آنے والی نسلیں ہمارے بارے میں کیاپڑھ کر فخر کریں گی ۔
اترپردیش کے الیکشن نے ایک تازیانہ لگایا تھا پہلے پارلیمانی انتخابات میں ایک بھی مسلم نمائندہ کسی پارٹی کا لوک سبھا نہیں پہنچ سکا پھر اسمبلی انتخابات نے رہی سہی کسرپوری کردی ۔ پارٹی وہپ کے غلاموں کی تعداد گھٹنے یا بڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن انتظامیہ پر دبائو ضروربنتا ہے ۔ ابھی بلدیاتی انتخابات میں مختلف شہروں سے جس طرح کی دھمکیاں دی گئیں حق میں ووٹ نہ دینے پر حکمراں پارٹی کی صفوں سے سنگین نتائج بھگتنے کی باتیں کہی گئیں وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ اگر ہوش وخرد کے ناخن لے کر مسائل کی گتھی سلجھانے پر غور نہیں کیا گیا تو یہ دھمکیاں عملی شکل میں بھی سامنے آسکتی ہیں ۔ گجرات الیکشن دھیرے دھیرے وکاس کی پٹری سے اتر کر جذباتی ایشوز کے جنگل کی طرف جارہا ہے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کی جگہ رام مندر ‘ حافظ سعید ‘ کانگریس نائب صدر کے ہندوہونے یا نہ ہونے‘ قد آور لیڈروں کو گالی دینے‘ پدماوتی کو راشٹر ماتا بنانے کے ایشوز حاوی ہوگئے ہیں ۔ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پوراالیکشن کون بڑا ہندو‘ راشٹر بھکت اورہندوتو کا حامی ہے ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے ۔
ظاہر ہے الیکشن آتے جاتے رہتے ہیں لیکن وہ قومی حرارت اور سمت سفر کا پتہ ضرور دے جاتے ہیں ۔ اب تک صرف بی جے پی ہندوتو اور ہندو بھکت ہونے کے حقوق اپنے نام محفوظ سمجھتی تھی اب کانگریس بھی اس پیٹنٹ پر اپنادعویٰ کر رہی ہے اس کی نقل وحرکت ‘زبان وبیان اور سرگرمیوں کا ایک رخا پن یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ سافٹ ہندوتو کے تکلفات کے تمام باریک پردوں کو نوچ پھینکناچاہتی ہے اور سب سے بڑا ہندوتوعلمبردار‘ہندو بھکت‘ راشٹر بھکت ثابت کرنے پر تلی ہے ۔ اگر حالیہ دنوں کی ٹی وی ڈبیٹ پر غور کیا جائے کانگریس ترجمانوں کے مباحث کا تجزیہ کریں تو بہت ہی خطرناک الارم بجتا سنائی دے گا۔ متنازع جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کی بحث کےد وان میری قمیض تیری قمیض سے زیادہ اجلی ہے بتانے کے لئے خم ٹھونک کرکہتے ہیں کہ رام مندر(غور کریں بابری مسجد کہنابہت پہلے بھول گئے ہیں) کا تالہ ہم نے کھلوایا ۔ اس سے قبل جس جگہ نماز ہوتی تھی اس پر تالہ ہماری سرکار کے دوران لگا ‘ اس طرح شیلا نیاس راجیو گاندھی کے دور حکومت میں ہوا ۔ متنازع ڈھانچہ ہماری پارٹی کی سرکار میں گرایاگیا ۔ وہاں علامتی مندر نرسمہا رائو سرکار نے بننے دیا ۔ پھر ساری زمین ایکوائر کرائی یعنی جن باتوں کے تذکرے سے کانگریس گھبراتی تھی موضوعات بدلنے کی کوشش کرتی تھی‘ ان پر کبھی کبھار نجی مجلسوں میں ہی سہی اظہار شرمندگی کرتی تھی ۔ نرسمہارائو نے شرما حضوری میں اس مقام پر مسجد بنوانے کا اعلان کیا تھا‘ یہ بات کسی پروگرام میں نہیں بلکہ دوردرشن پر قوم سے خطاب کے دوران وعدہ کیا تھا ۔ انہدام کے سبب کانگریس کو مسلمانوں کی ناراضگی جھیلنی پڑی ۔ اترپردیش میں اس کا سیاسی بنواس ہوگیا ۔ مرکز بھی ہاتھ سے چلاگیا ۔ یوپی میں دوبارہ اقتدار کی رونمائی نصیب نہیں ہوئی ۔ اب انہی کارناموں پر فخر کرتےہوئے اسے ذراسی شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ راہل بھی مودی سے بڑا تلک لگواکر جلسوں میں جاتے ہیں ۔ عوام سے روبرو ہو رہے ہیں یہ محض گجرات کا دبائو ہے یا کانگریس کا کایاپلٹ نظریاتی طور پر بی جے پی کے سامنے سپراندازی ہے یا حالات کی مجبوری ہے‘ دکھاوا ہے یا قبلہ کی تبدیلی ۔ انٹونی کی رپورٹ کا سائیڈ افیکٹ ہے یا واقعی وہ بھی ہندوتو کو بطور فلسفہ اور سیاسی نظریہ قبول کرچکی ہے ۔ اس پر ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کانگریس کی راہل کے مندروں کے طوفانی دوروں اور سوم ناتھ مندر میں درشن کے وقت غیر ہندو رجسٹر میں نام کے اندراج پر یہ وضاحت کہ راہل گاندھی شوبھکت ہیں‘ پکے اور جینودھاری ہندو ہیں اس موقف کی حمایت میں پرانی تصویروں کا اجرا جس میں وہ جینو دھارن کئے ہوئے ہیں کیا بتاتا ہے۔ کیا یہ صرف ہندوتو کی دوڑ میں خود کو زیادہ سچا ‘ اچھا اور بڑاہندو ثابت کرنے کی کوشش ہے‘ کیا بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی ہے کہ ملک کی سابق سب سے بڑی پارٹی کو گیروا میں رنگ دیا اور اس کا سیکولر ازم کا نشہ ہواہوگیا ۔ مسلمانوں کے بغیر سرکاروں کی تشکیل کا تجربہ کانگریس کو بھاگیا ؟ اس نے گجرات میں مسلم ایشوز کو چمٹے سے چھونے کی بھی ہمت نہیں دکھائی ۔ مسلم امیدواروں کی تعداد 2012سے بھی کم کردی ۔ راہل مندر جانے میں نہیں شرماتے ان کے جلسوں اور روڈ شو میں ٹوپی‘ داڑھی والے غائب ہیں یا کردئیے گئے ہیں حتیٰ کہ احمد پٹیل کا بھی کھل کر استعمال نہیں ہو رہاہے ۔
اس بات کو سیاسی حلقوں نے نوٹ کیا ہے کہ مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے میں کانگریس بی جے پی کی گرو ہے ۔ دونوں کے نظریات میں باریک لکیر کا فرق بھی مٹ گیا ہے ۔ مسلمان صرف پنچنگ بیگ کی طرح استعمال ہوتا رہا ہے جب فسطائیت انگڑائی لیتی ہے تواکثریتی جارحیت کے پنجوں میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کاگلا آجاتا ہے ہٹلر نے اقتصادی بدحالی تلے دبی جرمنی قوم کو یہودی مسئلہ اور آریائی برتری کا کھلونا تھما دیا ۔ مسولینی نے اقتدار کو طول دینے کے لئے بحالی عظمت رومتہ الکبریٰ کی نشیلی بوتل اطالیوں کو پکڑادی اور بقول کسی کے اتنی زور سے آواز آئی کہ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی اس کے چکر میں آگئے ۔ نتیجہ کیا ہوا مسولینی اور ہٹلر کا حشر کیا ہوا تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں جب بھی فسطائیت کو محسوس ہوگا کہ اس کا نشہ کم ہو رہا ہے ‘ کبھی گائے ‘ کبھی گنگا ‘ کبھی گئو رکشا ‘ کبھی تاج محل ‘ کبھی پدماوتی ‘ کبھی تاریخی لیٹرے کبھی دیش دروہی کام میں لائے جاتے رہیں گے تاکہ نشہ ہرن نہ ہو ۔ اس وقت ہندوئوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کا واحد راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور کمزور طبقات کو قدم قدم پر اہانت وذلت کا احساس کرایا جائے ۔ انہیں سیاسی غلام بن جانے اور تنہا ہونے کا یقین دلاکر خوف وہراس پیداکیاجائے ۔ مبینہ گئو رکشک نامی غنڈوں کے ہاتھوں پیش آنے والے واقعات اس منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں ۔ جن سیکولر قوتوں کے لئے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑدیا ‘ دشمنیاں مول لیں وہ اجنبی بن گئی ہیں ۔ ملائم ہوں یا نتیش اپنا کام نکال کر چورا ہے پر چھوڑ جاتے ہیں ۔ ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں اور ہم پنچنگ بیگ کی طرح استعمال ہونے میں ہی لذت محسوس کرتے ہیں ۔
آنے والے دن اور خطرناک صورت حال کو جنم دیں گے یہ تحریر ڈرانے کے لئے نہیں آئینہ دکھانے کے لئے ہے ۔ سیاسی جلاوطنی کا عذاب اور سخت اور طویل ہوگا اس میں کوئی شک نہیں گجرات یوپی کے بعد 2019کی فلم کا دوسرا ٹریلر ہے جو حضرات کانگریس کی واپسی کے لئے مصلی بچھاکر دعاگوہیں ‘ منتیں مانگے بیٹھے ہیں انہیں کانگریس کی قبلہ تبدیلی اور قلبی کیفیات میں تبدیلی کا ادراک ضرور ہوناچاہئے ۔ زیادہ خوش فہمیاں سادہ لوحی کا پرتوہیں سیاسی وسماجی رتبہ طے کرنے میں انتخابات کا اہم رول ہوتا ہے اور ہم نے انتخابی سیاست کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا پنچنگ بیگ بنے رہے یہ حالات اچانک پیدا نہیں ہوئے ستر سال کی محنتوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہیں اس میں کانگریس کا بڑا حصہ ہے ۔ ہمارے بزرگ اور دانشور حالات کی تبدیلی کے مدنظر حکمت عملی میں تبدیلی پر سنجیدگی سے غور کریں ۔ باہمی اختلافات ومسلکی عداوت کے جن کو مفاہمت کی بوتل میں تبدیل کرکے ہم جیسے نادانوں کو راستہ دکھائیں ۔ نوجوانوں کو اعتماد میں لیں اور ’رنگ دے مجھے بھی گیروا‘ کی مہم کے مضرات کو سامنے رکھ کر مختصر اور طویل مدتی حکمت عملی بنائیں ۔

0 comments:

featured

استناد کی جنگ !


عمر فراہی  ۔  ای میل
  :  umarfarrahi@gmail.com
دنیا میں اگر نبوی تحریک کا تصور نہ ہوتا اور لوگ اللہ اور اس کی وحدانیت سے آشنا نہ ہوتے تو طاقتور انسانوں کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ کا نتیجہ تباہی اور فساد کے سوا اور کیا ہوتا ؟ پچھلی صدی کے سائنسی اور مادی انقلاب کے سبب دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کی شکل میں جو فساد اور قتل عام ہو چکا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ استعماری طاقتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئےتنہا اس پوری دنیا کی مالک و مختار بن جانا چاہتی تھیں ۔ انسان کا رشتہ جب خدا سے کمزور پڑتا ہے تو اس کے اندر دولت شہرت اور نام ونمود کی لالچ پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف و توصیف کریں اور اس کے احترام میں سر خم کردیں ۔ وقت کے فرعون ونمرود اور قارون وشداد کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں آچکا ہے جنھوں نےانبیاء کرام کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے جنت وجہنم اور موت وزندگی کے مالک و مختار ہونے کا دعویٰ کیا اور انہیں اپنے دربار میں اپنی رعایا سے اپنی حمد و ثناکروانے میں لطف آتا تھا ۔ اسلام کی سب سے افضل عبادت نماز میں سورہ فاتحہ کو لازم قرار دیا گیا ہے جس کی شروعات ہی الحمد اللہ رب العالمین سے ہوتی ہے ۔ جس کا مفہوم ہے کہ تعریف صرف اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا ما لک ہے۔ لیکن مخلوق میں شہرت نام ونمود تکبر اور تعریف وتکریم کے اس فلسفے کی ایجادابلیس کے ذہن کی اختراع ہے ۔ حالانکہ ابلیس کسی سلطنت اور حکومت کا مالک نہیں تھالیکن اللہ نے زمین وآسمان کی اس وقت کی مخلوقات میں اسے جو مقام عطا کیا تھا وہ ایک عظیم الشان سلطنت سے بھی افضل اور برتر تھا ۔ ایک مدت سے اپنی محنت مشقت اور ریاضت سے اللہ کی قربت اورفرشتوں کی جماعت میں اپنا استناد اور اعتماد حاصل کرنےکے بعد وہ اپنی شہرت ، تعریف ، پزیرائی اور نام ونمود کے نشے میں یہ بھول گیا کہ وہ ایک فرد اور مخلوق ہے اور اللہ قادر ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کے درجات میں کمی اور زیادتی کئے بغیر کسی اور مخلوق کو بھی بلند مقام عطا کردے ۔ بیشک یہی مشیت ایزدی ہے اور اللہ کا نیک بندہ وہی ہے جو اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ کا خطاب دیا تھاجب ان کے بارے میں لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ ان کی قیادت میں اسلامی فوجیں شکست نہیں کھا سکتیں اور تاریخ میں آتا ہے کہ وہ لڑائی سے اس قدر بے خوف ہوچکے تھے کہ ایک بار انہوں نے حضرت عمر ؓکے  سامنے رومی فوجوں سے تنہا مقابلہ آرائی کرتے ہوئے شہید ہوجانے کے اپنےعزم کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اس بہادر سپاہی کی شہرت کے عروج کے دوران ہی جب امیر المومنین حضرت عمر ؓنے انہیں معزول کرکے اسلامی فوج کی سپہ سالاری ایک دوسرے صحابی رسول ﷺ کو سونپ دی تو انہوں نے بغیر کسی تامل  کے امیر کے فیصلے کے آگے سر تسلیم کردیا ۔اسلامی تاریخ کے عروج کے دوران محمد بن قاسمؒ اور طارق ؒبن زیاد جیسے بہادر جانبازوں کی طاعت اور فرمانبرداری کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جسے مورخین نے سنہرے الفاظ میں لکھے ہیں اور یہی وہ سنہرا دور تھا جب اسلامی سلطنتیں سیلاب کی طرح وسیع ہوتی چلی گئیں ۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ابلیس کو جب اپنی شہرت اور نام ونمود کی بنیاد پر قائم استناد کی عمارت منہدم ہوتے ہوئے نظر آئی تو وہ اپنے مالک کی نافرمانی کر بیٹھا ۔ یعنی ابھی تک اللہ کی عبادت کے ذریعے اسے جو خلافت میسر تھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک دوسری مخلوق اس کا یہ استناد چھین لے اور اس نے آدم کو یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کردیا کہ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم مٹی سے ۔ اس کا کہنے کا مفہوم یہ تھا کہ آگ مٹی سے زیادہ طاقتور ہےاس لئے وہ آدم کو سجدہ کرکے اس کی خلافت کیسے قبول کرسکتا ہے؟ اس طویل بحث اورتمہید کو یہاں پیش کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ اپنی تحریک ، اپنی تحقیق ، اپنی جدوجہد اور دعوت میں مخلص ہیں تو کوئی آپ کی تحریک وتحریر اور تقریر کو چھین کر یاچرا کر آپ کے استناد اور اعتبار کو کبھی نہیں چھین سکتا ،اور آپ کا یہ استناد خالد بن ولید محمد بن قاسمؒ اور طارق بن زیادؒ کی طرح دنیا اور آخرت دونوں میں روشن رہے گا۔چونکہ اب عمر ، خالد اور قاسم کا کردار قلمی جہاد میں تبدیل ہوچکا ہے اور ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح بحث و مباحثہ کے عادی ہوچکے ہیں اس لئے اب بہت سے مصنفین کی تحریر و تصنیف اور تحقیق بھی فتنہ اختیار کر چکی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اسی تحریر و تصنیف اور تقریر و تحقیق سے کسی شخص یا تحریک کو استناد و اسناد حاصل ہو جائے جو اہل حق سے نہ ہوکر باطل کیلئے استعمال ہورہا ہو اور اسے لوگوں میں مربی اور استاد کی سند بھی حاصل ہوجائےتو ایسے لوگوں کا استناد امت کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے ۔ ماضی میں سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو کی شکست کی وجہ میر جعفر اور میر صادق کا استناد تھا جسے وقت کے یہ دونوں حکمراں سمجھ نہیں سکے ۔ عرب میں لارینس آف عربیہ کے مشتبہ کردار کو جو استناد حاصل ہوچکا تھا اس نے عربوں میں عجمی اور عربی کا انتشار پیدا کرکے سلطنت عثمانیہ کی طاقت کو پارہ پارہ کردیا ۔ میڈیا میں ایسے مشتبہ کردار آج بھی مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں جو ہمارے لئے مربی اور استاد کا درجہ رکھتے ہیں لیکن وہ اپنی تحریروں اور تقریروں سے کمال چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو ہمارے دل کو بھی چھو لیتی ہیں لیکن اس کے منفی اثرات کا اندازہ بھی وہی لوگ لگا پاتے ہیں جو بین السطور کو پڑھنے کے ماہر ہیں ۔بدقسمتی سے نہ ہم ایسے میر جعفروں کے استناد کو بے نقاب کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایسی تحریکوں پر انگلی اٹھانے کی جرات ہے جو انہیں استناد عطا کرنے کی مجرم ہیں ۔ کیونکہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو پھر وہی استناد کی جنگ کے چھڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ابھی حال ہی میں ایک بزرگ صحافی نے ایسی ہی ایک مشہورشخصیت کا نام لیکر اس کی معتبریت پر حملہ کیا تو انہیں فون سے دھمکی دی گئی کی زندہ رہنا چاہتے ہو یا نہیں ؟ سچ کہا جائے تو اس پرفتن دجالی دور میںجہاں اہل حق کو مٹانے کیلئے مسلح جدوجہد جاری ہے اکثر و  بیشتر پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ماضی اور حال کی مستند شخصیات اور قیادت کی معتبریت کو مسلسل مشتبہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تاکہ اہل حق کسی خاص جہاندیدہ قیادت اور نظریے کو اختیار کر کے متحد نہ ہو جائیں ۔بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر غیر سنجیدہ خود ساختہ دانشوروں کی بھیڑ نے ابلیس کا کام اور بھی آسان کردیا ہے جہاں کسی کے تعلق سے خواہ وہ مومن ہی کیوں نہ ہو پھیلائی گئی افواہ بھی بہت ہی تیزی کے ساتھ مشتہر کردی جاتی ہے ۔یا لوگوں کو ایسا کرنے میں مزہ آتا ہے ۔ شاید سرسید اور مدن موہن مالویہ کی تعلیمی تحریک نے ہمیں علم اور ٹکنالوجی کے اہم  مقام پر تو پہنچا دیا ہے ، لیکن بہت ہی تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہوتا ہوا ہمارامعاشرہ اب اس امر کا بھی متقاضی ہے کہ اللہ ہمیں کسی مستند متقی اور نبی صفت قیادت سے منضبط کردے ۔
  

0 comments:

featured

رفیعہ ناز کے بہانے یوگا کی باسی کڑھی میں پھر ابال



نہال صغیر

ملک کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کاروبار معطل ہیں ۔ شرح نمو کی رفتار دھیمی ہو گئی ہے ۔ مہنگائی نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے ۔جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ۔ چھوٹے تاجر پریشان ہیں ۔ مسٹر پردھان سیوک نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ صرف کارپوریٹ گروپ کے وزیر اعظم ہیں ۔ ساری پالیسیاں انہی کے مفاد کی نگرانی کیلئے ہیں ۔ تاجروں کے سخت احتجاج اور گجرات الیکشن کے مد نظر حکومت کی ساری اکڑ نکال دی ہے اور مجبوراً مرتا کیا نہ کرتا ایک سو ستہتر اشیاء پر جی ایس ٹی میں تخفیف کردی گئی ہے ۔موجودہ حکومت میں اول جلول فیصلوں اور پالیسیوں کے نفاذ کا خاص رجحان پایا جاتا ہے ۔ کرنسی منسوخی میں بھی انہوں نے ہر روز دو چار تبدیلیاں کیں اور اب جی ایس ٹی جو موجودہ حکومت کی گلے کی ہڈی بن چکی ہے میں بھی مسلسل تبدیلیاں اور قانونی سختی میں نرمی برت رہی ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اس پالیسی پر عمل پیرا ہوں جس کے تحت پہلے کسی کو بھوکوں ماردیا جائے اور پھر اسے وقفے وقفے سے تھوڑی تھوڑی غذا دی جائے تاکہ بھوکا انسان بھوک کا عادی بھی ہو جائے اور اس میں اس کی سختی کا احساس بھی کم ہو جائے ۔ اسی طرح انہوں نے پہلے جی ایس ٹی کو ایسا بنا کر پیش کیا کہ عوام بلبانے لگے اور پھر ہوا کا رخ دیکھ کر دھیرے دھیرے اس میں کچھ راحت رسانی کا کام کررہے ہیں تاکہ عوام کو یہ کہنے کے لائق رہیں کہ دیکھو ہم نے تمہاری تکلیف کو محسوس کیا اور اسے کم کرنے کی کوشش کی ۔لیکن یہ بہت معمولی نسخہ ہے ۔ اس سے بھی بڑا نسخہ ان کے پاس ہے عوام کے ذہنوں کو دوسرے بے فیض مسائل میں الجھانا ۔ اس میں ان کا ساتھی ملک کا غدار میڈیا بنا ہوا ہے ۔
حالیہ حکومت جس نے اپنی میقات کے ساڑھے تین قیمتی سال خواہ مخواہ گنوادیئے ہیں نے پہلے سال میں یوگا کا ہنگامہ کھڑا کیا ۔یوگا ڈے منایا گیا اور زبردستی اسے سب پر لاگو کرنے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن زبردست عوامی احتجاج کے بعد اس کو اختیاری تو کیا گیا پر شوشے چھوڑے جاتے رہے کہ یہ نماز کی طرح ہے ۔ یا اس میں سے سوریہ نمسکار والا حصہ نکال دیا جائے تو مسلمانوں کو اس سے کوئی اعتراض نہیں ۔ایسے اور نہ جانے کتنے نکات لائے جاتے رہے ۔ یہ سب کچھ نام نہاد مولویوں اور مسلمانوں کے درمیان بکاؤ دانشور کے ذریعہ پھیلایا گیا ۔جبکہ مسلمانوں کا دو ٹوک جواب تھا ہے اور رہے گا کہ ’یوگا ہندو کلچر کا حصہ ہے ، اس لئے مسلمان اسے کسی طور بھی نہیں کرے گا ‘۔ ادھر کافی عرصہ سے یوگا پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی تھی ایسا لگ رہا تھا لوگ یوگا کو بھول جائیں گے ۔ معاشی بدحالی نے ان کے روز مرہ کے اخراجات کو پورا کرنے میں مشکلات پیدا کردیا تھا تو کون یہ یوگا وغیرہ کے چکر میں پڑے ۔ سادہ لوح عوام کو یہاں بیوقوف بنانا بہت آسان ہے انہیں مذہب کے نام پر من گھڑنت قصے کہانیوں اور دیو مالائی قیاسات میں الجھا دیا جائے تو وہ سب بھول بھال کر اسی میں لگ جاتے ہیں ۔رام مندر کے چراغ کا سارا تیل جل چکا ہے ۔ گائے بھی کوئی خاص کرامات دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پارہی ہے ۔ ایک یوگا ہی ہے جسے صحت کے نام پر عوام کے ذہنوں پر تھوپا جاسکتا ہے ۔ اس میں مذہب کے ساتھ ہی صحت کا عنصر جان بوجھ کر شامل کیا گیا ہے ۔
رانچی کی رفیعہ ناز کو اس کام کیلئے منتخب کرلیا گیا ۔بقیہ کام تو الیکٹرانک میڈیا کرہی ڈالتا ہے ۔ آخر اسے بھی تو سنسنی پھیلانے کیلئے کوئی ایسی خبر ملنی چاہئے جس میں خواتین کی آزادی یا مسلمانوں کی جانب سے دیگر مذاہب کا احترام نہ کرنے جیسی کوئی بات ہو ۔سنا ہے کہ رفیعہ کسی یوگ کلاس میں یوگا سکھانے جاتی ہے ۔ ہم نے آج تک نہیں سنا تاوقتیکہ اس کے تعلق سے یہ خبر میڈیا کی زینت نہیں بنی کہ ’رفیعہ کے یوگا سے ڈر گئے مولانا ‘۔ سوچئے اس خبر کی سرخی میں کتنا گھٹیا پن ہے ۔ یہی گھٹیا پن اب ہندوستانی میڈیا کی پہچان ہے ۔ کسی کے یوگا کرنے سے کیوں کوئی مولانا ڈر جائیں گے اور اس سے مسلمانوں کو کیا لینا دینا ۔مسلمانوں نے اپنا موقف پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ وہ ہندو کلچر پر عمل نہیں کریں گے ۔ انہیں یہاں اسلامی تہذیب پر عمل پیرا رہنے کی دستوری آزادی حاصل ہے ۔ میڈیا نے رفیعہ کے بہانے پھر وہی کہانی دہرانے کی کوشش کی جو وہ ہمیشہ کرتا ہے ۔ رفیعہ کو آج تک کے نیوز روم میں روتے ہوئے بھی دکھا دیا گیا ۔ یہی نہیں یہ خبر بھی چلادی گئی کہ اس کے گھر کے باہر شدت پسند جمع ہیں اور انہوں نے اس کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا ہے ۔ اچھی بات یہ رہی کہ ادارہ شریعہ رانچی کے سربراہ نے اس کی تردید کی اور یہ کہا کہ کوئی بھی ذاتی طور پر کسی بھی قسم کا طریقہ کار اپنانے کیلئے آزاد ہے ۔ رفیعہ کو کوئی کیوں روکے گا ۔ ہاں نصیحت کے طور پر کسی نے کچھ کہا ہو تو اس میں کیا حرج ہے کہ ہم اپنی قوم کے کسی فرد کو بتائیں کہ اس کیلئے کسی غیر مذہب کے عقیدے اور تہذیب پر عمل کرنا کیسا ہے ۔ یہاں جب سب کو آزادی ہے کہ وہ جو عقیدہ چاہے اپنائے تو اسے یہ بھی آزادی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرے اور اپنی قوم کو اس تہذیب سے آشنا بھی کرے ۔ تعجب ہے کہ جب رفیعہ جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو فرد کی آزادی کا مخالف طبقہ بھی اسی آزادی کی دہائی دینے لگتا ہے جس کی مخالفت کرنا اس کے نظریہ میں شامل ہے ۔
رفیعہ جیسے کردار ہمارے دشمنوں کو ہمیشہ حاصل رہے ہیں ۔ ان سے گفتگو کرنے جو لوگ ٹی وی چینلوں کو جاتے ہیں انہیں ایسے لوگوں سے نمٹنے کا طریقہ کار معلوم نہیں ہوتا ۔ وہ ٹی وی چینلوں کے لائق نہیں ہوتے وہ اپنی بھی سبکی کرواتے ہیں اور اسلام کو غلط طریقہ سے پیش کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔ جیسے کہ ٹی وی چینل نے جب یہ پوچھا کہ کیا اسلام میں یوگا کرنا حرام ہے تو عالی جناب خاموش ہو گئے ۔ یہ خاموشی ان کی اس وجہ سے ہے کہ وہ خوف کی نفسیات میں مبتلا ہیں ۔ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ حرام اور حلال کو جانے دو یہ کہو کہ یہ جب ہندو کلچر کا حصہ ہے تو مسلمان اسے کیوں کریں ۔ تم اپنی صحت کا خیال رکھا مسلمانوں کی صحت کی فکر مت کرو ۔ اللہ نے مسلمانوں کو ایسا نظام دیا ہے جس کا مقابلہ قیامت تک کوئی دوسرا نظام نہیں کرسکتا ۔ یہاں پھر ایک بات کہنا چاہوں گا کہ مسلم تنظیمیں اور قائدین جو جیسے بھی ہیں وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس طرح کی افواہ طرازی کے جواب کیلئے کچھ منصوبہ بندی کریں ۔ آر ایس ایس جس کی بنیاد ہی فتنہ و فساد پر ہے اس نے الگ سے ایک قانونی چارہ جوئی شعبہ بنا یا ہے جس کے تحت وہ اپنے خلاف بولنے اور لکھنے والوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کررہے ہیں ۔ ہمارے یہاں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں اس کے باوجود ہم آپس کے سر پھٹول سے وقت ہی نہیں نکالتے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف افسانہ تراشنے والوں کو قانونی چارہ جوئی کرکے ان پر جھوٹ بولنا مشکل کردیں ۔

0 comments:

featured

تعلیم کے ساتھ اخلاقیات پر بھی دھیان دیں


نہال صغیر

ریان اسکول کے نو عمر طالبعلم پردیومن کے قتل کے الزام میں سی بی آئی نے اسی اسکول کے گیارہویں کے طالبعلم کو گرفتار کیا ہے ۔ مذکورہ ملزم طالبعلم اس دن چاقو لے کر اسکول آیا تھا یعنی اس نے قتل دانستہ کیا ۔ کسی فوری واقعہ کے ردعمل میں یہ قتل نہیں ہوا ۔ اسے کسی نہ کسی کو قتل کرنا ہی تھا ۔ سی بی آئی کی تفتیش میں اس نے قبول کیا کہ اس نے پردیومن کو قتل کیا ہے ۔ قتل کرنے کی وجہ امتحان کو ملتوی کرانا بتایا جاتا ہے ۔ خبروں میں چونکہ یہ بات آئی ہے کہ ملزم چاقو لے کر قتل کے ارادہ سے ہی آیا تھا ۔ اس کے اس رویہ کو دیکھتے ہوئے امریکی اسکولوں میں آئے دن بچوں کے ذریعہ ہی اپنے ہم جماعت کے قتل کی یاد آجاتی ہے ۔جو ہونا تھا وہ ہو گیا ۔اب پردیومن کبھی اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون نہیں بن پائے گا ۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ آخر ایسا ہوا کیوں اور آئندہ ایسا نہ ہو اس کیلئے کیا لائحہ عمل بنایا جائے ؟ لیکن اس پر کوئی بھی غور نہیں کرتا ۔ ایسی حرکتیں کیوں کر وقوع پذیر ہو تی ہیں اگر اس پر غور نہیں کیا گیا تو اس بات کیلئے تیار رہئے کہ آنے وقت میں ایسے مزید واقعات ہوں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بچوں کی تعلیم کے نام پر پیسہ کمانے والی مشین بنا رہے ہیں ۔ بچوں کو اخلاقیات کا سبق نہیں پڑھا رہے ہیں ۔ انہیں جو کچھ ہم سکھا رہے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ انہیں آگے جا کر یہ اور یہ جاب کرنا ہے اور بہت سارے روپئے کمانے ہیں اور ایک شاندار لگژری لائف کا لطف لینا ہے ۔ اب جب زندگی میں تعلیم کا مقصد ہی صرف یہ مادہ پرستانہ سوچ ہو تو اسکولوں اور کالجوں میں یہی سب کچھ ہونا ہے ۔ اگر ہماری حکومت ،انتظامیہ اور اہل علم حضرات اس واقعہ سے یا اور اس طرح کے دوسرے واقعات سے رنجیدہ ہیں تو انہیں چاہئے کہ احتساب کریں اور تعلیمی نصاب میں اخلاقیات کے اسباق کو بھی شامل کریں ۔اس کے لئے یک طرفہ عقیدہ تھوپنے کے بجائے ۔ جو جس عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے اس کو اسی مذہب سے اخلاقی تعلیم دی جائے ۔ اسکول کالجوں کی انتظامیہ کو بھی اس جانب انفرادی طور پر ہی سہی لیکن قدم اٹھانا پڑے گا ۔ گھروں میں والدین بھی اسمارٹ فون میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں پر بھی دھیان دیں کہ وہ کیا سیکھ رہے ہیں ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ذرا ساس بہو اور سازش جیسی سیریل پر بھی غور کیا جائے کہ اس سے بچے ذہنی طور پر کس حد تک متاثر ہو رہے ہیں ۔ آجکل ٹی وی پر کرائم پیٹرول اور سنسنی جیسی حقیقی واقعات پر مبنی سیریل نے بھی بچوں اور نوخیز لڑکوں کو ذہنی طور پر بگاڑنے میں اہم کردار اپنایا ہے ۔ ان پر جب تک ہم غور نہیں کریں گے اور پھر اس پر قابو پانے کی ترکیب عمل میں نہیں لائیں گے ایسے واقعات کو نہیں روکا جاسکتا ۔
ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اس طرح کے واقعات مسلم ملکوں خصوصا عربوں میں کیوں نہیں ہوتے ؟ یا پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ اور بقول میڈیا کے ناکام اور دہشت گرد ملکوں میں بھی اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ یقینی طور پر اس کے پیچھے اسلام کا وہ آفاقی پیغام ہے جس نے عرب کے بدؤوں کو ساری دنیا کا حکمراں بنادیا تھا ۔ پاکستان سمیت مسلم ملکوں میں اس طرح کے واقعات اس لئے نہیں ہوتے یا انتہائی کم ہوتے ہیں تو اس کے وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے کانوں میں کہیں نہ کہیں سے اخلاقی تعلیمات کا کوئی نہ کوئی سبق پہنچتا رہتا ہے اور یہ باتیں غیر محسوس طریقہ سے ہی انسانی ذہن میں سرایت کرجاتی ہیں ، خواہ ہم اس پر سنجیدہ ہوں یا نہ ہوں ۔ اگر مسلم معاشرے کا کوئی فرد کسی دینی اجلاس میں نہ بھی شامل ہو تو وہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد ضرور جاتا ہے اور اسے وہاں منبرو محراب سے دین کی جو باتیں بتائی جاتی ہیں اس کو مسلمانوں کا ذہن غیر محسوس طریقہ سے قبول کرتا جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس بری حالت میں بھی جسے دور فتنہ کہا جاتا ہے مسلم معاشرہ دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے اخلاقی طور پر زیادہ بہتر ہے ۔ کچھ ہفتہ قبل ہم نے مبارک کاپڑی سے تعلیم کے عنوان پر کچھ سوالات کئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ آزادی کے بعد سے جو حکومت رہی اس نے اپنے تعلیمی نصاب کی رہنمائی ماسکو سے لی تو موجودہ حکومت پانچ ہزار پرانی دیو مالائی کہانیوں کو اخلاقی تعلیم کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے ۔ میرے خیال میں یہ دونوں ہی طریقہ کار غلط ہے ۔ ہم چونکہ ایک کثیر تہذیبی ملک کے باشندے ہیں تو ہمیں تعلیمی نصاب میں اخلاقی اسباق کی شمولیت کے وقت اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ جو کچھ وضع کریں وہ سب کیلئے قابل قبول ہو یا پھر سب کے عقیدے کی مناسبت سے الگ الگ نصاب طے ہو ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ نئی نسل کو گمراہی اور مادہ پرستی کے اس طوفان سے نکالنے کیلئے انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ انسان ہیں اور انہیں انسانوں کی بستی میں انسانی قانون کے مطابق ہی زندگی گزارنی ہے ۔

0 comments:

featured

فرقہ بندی اور منافقت



بہترین انسان کیلئے یہ ایک عمدہ مثال بن سکتی ہے کہ وہ کسی کے احسانوں کا بدلہ احسان سے چکائے ۔ لیکن جو ذلیل اور ڈھونگی انسان ہوتا ہے وہ احسان کا بدلہ احسان فراموشی ، عصبیت اور منافقت سے دیتا ہے ۔ مسلمانوں کا ایک گروہ اپنی جہالت ، کذب بیانی ، عصبیت اور افترا پردازی میں دنیا کی بد ترین قوم یہودیوں سے بھی دو قدم آگے ہے ۔اس کی نظر میں صرف وہی مسلمان ہیں باقی سب کے سب کافر ، مرتد اور بد مذہب ہیں ۔ ان کے فتویٰ کے مطابق اس گروہ کے علاوہ مسلمانوں کے کسی دوسرے گروہ کو سلام کرنا ، اس سے معانقہ کرنا اس کی خبر گری کرنا ،اس کے جنازے میں شامل ہونا اور اس کے نکاح میں شامل ہونا سب حرام اور ناجائز ہیں ۔ ان کا یہ فتویٰ ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرتا رہا ۔لیکن جب سے تعلیم عام ہوئی اور مسلم نوجوانوں میں دین کے تئیں بیداری آئی اور انہوں نے کسی مولوی کے فتویٰ کی بجائے خود بھی تحقیق کرنے کی طرف قدم بڑھایا تو ایسے فتویٰ بازوں کی دوکان بند ہونا شروع ہو گئی ۔ ان کے ان فضول فتووں کی دوکانیں بند ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ عوام کا باشعور طبقہ خصوصی طور سے نوجوانوں نے ان کے دوہرے اور دوغلے معیار پر غور کرنا شروع کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہ لوگ عوام کو گمراہ کرتے ہوئے ہمیں آپس میں لڑاتے ہیں لیکن اپنے مفاد کی خاطر یہ لوگ ان لوگوں سے نہ صرف سلام و کلام کرتے ہیں بلکہ بغلگیر تک ہوتے اور طعام و قیام بھی کرتے ہیں ۔ ان کے اس دوہرے معیار نے خود انہی کے فتوے ان پر پلٹ دیئے اور نوجوانوں نے خود سے دین کی راہوں کا تعین کیا ۔ 

یہ چند لائنیں لکھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ابھی گذشتہ ماہ رضا اکیڈمی کے روح رواں الحاج سعید نوری کی دختر کی شادی کی تقریب مجگاؤں کے ایلی کدوری ہال میں تھی ۔ یہ ہال یہودیوں کی ہے ۔واضح ہو کہ دنیا میں مسلم امہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے اور ان کی آزاری کے درپہ رہنے والی قوم یہود ہی ہے ۔سعید نوری کی دختر کے عقد مسنونہ کی تقریب کے دعوت نامے مہنگے دعوتی کارڈ کے طور پر شہر کی معزز ہستیوں کو دیئے گئے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے اس کارڈ پر دو رنگا اور دوہرا معیار اپناتے ہوئے کچھ کارڈس پر دائیں جانب کونے میں ایک اسٹیکر چپکایا ہوا تھا جس کی تحریر کچھ اس طرح تھی’’ان شاء اللہ تعالیٰ یہ تقریب سعید بد مذہبوں کی شرکت سے پاک و محفوظ ہوگی اسی لئے کسی وہابی ،دیوبندی،رافضی ،اہل حدیث ،قادیانی وغیرہ فرقہائے باطلہ کو دعوت نہیں دی گئی ہے ‘‘۔ یہ چند الفاظ جہاں شر انگیز اور منافقانہ ہیں وہیں یہ احمقانہ بھی ہیں ۔ احمقانہ ان باتوں میں کہ ان میں جن فرقوں کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ ان بد مذہبوں کو دعوت نہیں دی گئی ہے اس میں سوائے میری معلومات میں ابھی تک اہل حدیث کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے کہ ان میں سے کسی نے شرکت کی ہے کہ نہیں لیکن رافضی اور دیوبندیوں میں سے تو بہت سے لوگوں نے شرکت کی ہے ۔میرا سعید نوری سے سوال ہے کہ امین پٹیل اور خلیل زاہد کیا سنی بریلوی ہیں جو انہیں نہ صرف دعوت دی گئی بلکہ والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا گیا ۔خلیل زاہد کے دعوت نامہ پر تو وہ احمقانہ اور قابل اعتراض اسٹیکر نہیں لگا تھا ۔ لیکن اردو ٹائمز کے صحافی فاروق انصاری کے دعوت نامہ پر مذکورہ اسٹیکر چسپاں ہے ۔کیا فاروق انصاری بھی بریلوی سنی ہیں ؟
اب ہم آتے ہیں آزادمیدان کے چھ سال پہلے ہوئے اس سانحہ کی طرف جہاں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور جس میں دو مسلم نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا ۔ اس احتجاجی ریلی کے ذمہ داروں میں جو سب سے اوپر نام ہے وہ رضا اکیڈمی اور اس کے سربراہ سعید نوری ہی ہیں ۔بقیہ لوگ تو ضمنی حیثیت رکھنے والے ہیں ۔ اس فساد اور اور اس کے بعد کے پولس ایکشن پر آنجناب کدھر تھے پتہ ہی نہیں چلا ۔ میں خود ایک جماعت کے وفد کے ساتھ پولس اسٹیشن اور اسپتالوں کے چکر لگارہا تھا ۔زخمیوں کی عیادت جس میں اپنے نوجوانوں کے ساتھ پولس والے بھی شامل تھے ۔ وہاں میں نے کچھ لاپتہ نوجوانوں کے سرپرستوں کو در در بھٹکتے ہوئے دیکھا لیکن رضا اکیڈمی کے کسی کارندے کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں تھا ۔ دوسرے یا تیسرے دن انہی فرقہ ہائے باطلہ جس کا ذکر سعید نوری کے دعوت نامہ میں حقارت آمیز طریقہ سے لیا گیا ہے کی جماعت کے وکیلوں نے گرفتار مسلم نوجوانوں کی جانب سے عدالت میں خود کو پیش کیا ۔ وہ جماعت تھی جمعیتہ العلما جس کے وکلاء نے عدالت میں شروع دن مسلم نوجوانوں کی پیروی کی ۔ دوسرے دن اسپتالوں اور پولس اسٹیشنوں میں جس جماعت کے لوگ خبر گری میں مصروف تھے وہ جماعت تھی جماعت اسلامی ہند کی مہاراشٹر شاخ کے اراکین و کارکنان جن کے ساتھ راقم بھی تھا اور اس کے بعد دہلی وغیر سے وکلاء کو بلا کر اور سیاسی دباؤ ڈال کر جس نے گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کو آسان بنایا وہ بھی ایک دیوبندی صحافی خلیل زاہد ہیں ۔میں خود سنی بریلوی خاندان کا فرد ہوں لیکن مجھے کسی کے احسان کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنا آتا ہے نیز موجودہ دور میں ہندوستان کے سیاسی حالات جو کسی حد تک مسلمانوں کے خلاف ہیں اس میں ایسے فسادیوں اور شرارت پسندوں کو جو امت میں فساد کے بیج بوئے کو مسلمانوں کا دشمن تصور کرتا ہوں اور ایسے ڈھونگیوں سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے ۔لیکن یہ ان ملت فروشوں کو سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ۔ ان کی دوکان فساد اور تخریب سے ہی چلتی ہے ۔یہ اپنی دوکانیں چلاتے رہیں لیکن میں ملت کے جوانوں کو آواز دیتا ہوں کہ وہ غیر جانب دار ہو کر تجزیہ کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ کون ملت کا ہمدرد ہے ۔جماعتوں کے کام کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور ملت میں تخریب کے بیج بونے والوں اور ملت کے لئے حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والوں کو پہچانیں۔میں نہیں کہتا کہ مسلک کو چھوڑ دیں آپ اپنی تحقیق کے مطابق جس مسلک کو چاہیں اپنائیں لیکن خدارا آنکھیں کھولیں اور جو طوفان چلا آرہا ہے اس میں امت کی تباہی سے قبل ہوشیار ہو جائیں ۔ مسلک کو اپنے گھروں میں رکھیں اور باہر نکلیں تو صرف مسلمان بن کر نکلیں ۔ یہی نجات کی واحد راہ ہے ۔
سید بشارت حلیم رضوی

0 comments:

featured

دِین ، دِینا ، جناح اور پاکستان



عمر فراہی  ۔  ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

بانی پاکستان محمد علی جناح کی اکلوتی اولاد دینا ۲ ؍نومبر کو تقریباً سو سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں ۔ اردو میڈیا نے اس خبر کو اتنی اہمیت تو نہيں دی لیکن اس نام کے ساتھ بر صغیر کی ایک اہم تاریخ ساز شخصیت کا نام جڑا ہے جسے شاید ہندوستان اور پاکستان کا مسلمان اپنے وجود تک نہ بھلا پائے ۔ہند پاک بٹوارے کے تعلق سے محمد علی جناح کے بارےمیں مسلمانوں میں مختلف رائے پائی جاتی ہے ۔ محمد علی جناح کا شمار تحریک آزادی کی نمائندہ تنظیم کانگریس میں صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے ۔جناح کانگریس کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ میں کیوں شامل ہوئے اور وہ کیا حالات تھے جس کی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ کیا گیا ہند و پاک کے مورخ مسلسل اس پر بحث کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔دِینا نے اپنے والد محمد علی جناح کی دُنیا سے کیوں بغاوت کی دُنیا میں نفرت و محبت اور بغاوت و عزیمت کے اس طرح  کے بے شمار واقعات میں انسانوں کی عبرت کیلئے کئی سبق آموز کہانیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔ محمد علی جناح کی دوسری بیوی رتن بائی ایک دولت مند پارسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جنہوں نے جناح سے شادی کرنے کیلئے اسلام قبول کرکے اپنا نام مریم رکھ لیا تھا ۔ بدقسمتی سے جذباتی طورپر کیا گیا دونوں کا یہ رشتہ اور فیصلہ زیادہ دن تک قائم نہیں رہ سکا اور انتیس سال کی عمر میں ۱۹۲۹میں رتن بائی کا انتقال ہو گیا ۔ اس وقت دِینا کی عمر دس سال کی تھی اور وہ لندن میں مقیم اپنی ماں رتن بائی کی سرپرستی میںزیر تربیت زیر تعلیم تھی ۔محمد علی جناح چونکہ تحریک آزادی کی سرگرم جدوجہد کی وجہ سے بہت مصروف تھے اس لیے انہوں نے دینا کو اپنی بہن فاطمہ کی سرپرستی میں دے دیا تاکہ وہ ان کی تعلیم و تربیت کی نگرانی کرسکیں ۔ لیکن خود دِینا جو اپنی ماں کی وجہ سے اپنے نانیھال سے زیادہ قریب ہو چکی تھیں ان کا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرتا ۔ رفتہ رفتہ دِینا بچپن کی دہلیز سے جوانی کی دنیا میں داخل ہوگئی لیکن محمد علی جناح جو آزادی کی تحریک میں اس قدر مصروف تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ ان کی بیٹی جوان ہو چکی ہے ۔ اس بات کا احساس انہیں اس وقت ہوا جب دِینا نے انہیں اطلاع دی کہ وہ اپنے نانیھال کے واڈیا خاندان کے نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔ حالانکہ یہ خاندان بھی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک تھا اور خود محمد علی جناح کی اپنی پرورش بھی جس آزاد خیال مسلم معاشرے میں ہوئی تھی اور ان کی زندگی کا  بیشتر حصہ برطانیہ کے آزاد ماحول میں ہی گزرا تھا ، چاہتے تو اپنی اکلوتی اولاد کی خوشی کیلئے اس رشتے کو خاموشی کے ساتھ قبول کر لیتے لیکن یہاں پر جناح نے اپنی اسلامی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے بیٹی کو جواب دیا کہ کیا تمہیں پورے ہندوستان میں کوئی مسلم لڑکا نہیں ملا جو تم نے ایک غیرمسلم نوجوان سے شادی کا فیصلہ کرلیا ؟ محمد علی جناح کی اپنی بات بھی تو درست تھی دِینا جو کہ خود بھی خوبصورت تھی اور جناح کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے بھی دِینا سے شادی کرنے کیلئے سینکڑوں تعلیم یافتہ مسلم لڑکے تیار ہوجاتے لیکن خود جناح یہ نہیں سمجھ سکے کہ دین یا تو ایک معاشرے کی تشکیل سے عمل میں آتا ہے یا چند انسان اپنے علم اور مطالعے سے اس راہ پر چل پڑتے ہیں مگر اسے کسی بالغ انسان پر تھوپا نہیں جاسکتا ، خواہ وہ اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو ۔دِینا نے جس آزاد معاشرے میں پرورش پائی تھی وہاں مذہب کا کوئی تصور ہی نہیں تھا یا تھا بھی تو اس ماحول میں عقیدے کی اہمیت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ لوگ اپنی قومی شناخت کیلئے چند مذہبی رسم و رواج پر عمل کرتے رہیں ۔ دِینا کی دنیا بدل چکی تھی لیکن چونکہ تعلیم یافتہ تھی اور اس کی رگوں میں ایک کامیاب ماہر قانون اور سیاستداں کا خون دوڑ رہا تھا اس لیے اسے اپنے باپ کے ہی طرزپر اسی انداز میں ہی جواب دینا مناسب تھا ۔ اس نے کہا کہ آپ نے بھی تو وہی کیا تھا ۔ کیا آپ کو پورے ہندوستان میں کوئی مسلم لڑکی نہیں ملی جو آپ نے میری ماں سے شادی کی ۔ دِینا کا جواب بھی معقول تھا لیکن باپ کے دوبارہ جواب دینے پر وہ لاجواب ہوگئے ۔ جناح نے کہاکہ میں نے تمہاری ماں کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی شادی کی تھی تم بھی اس نوجوان سے کہو کہ وہ اسلام قبول کرلے مجھے تمہاری اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے ۔ دِینا نے اپنی ضد کے آگے باپ کی مرضی کو ٹھکرا کر اپنی ماں کی طرح سترہ سال کی عمر میں نول واڈیا کے ساتھ شادی کر لی ۔ یہ بھی ایک اتفاق کہہ لیں کہ جس طرح رتن بائی اور جناح کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوگئی ایک وقفے کے بعد دینا نے بھی اپنے شوہر سے طلاق لیکر نیویارک میں سکونت اختیار کر لیا ۔ خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ جناح نے دینا کی نول واڈیا سے شادی کے بعد اپنی بیٹی سے تقریباً رشتہ توڑ لیا لیکن دینا نے اس کے بعد بھی اپنے والد سے رابطہ نہیں توڑا مگر جناح کیلئے اب وہ دینا نہیں مسز واڈیا ہوچکی تھی ۔ وہ جب بھی ا پنے والد سے بات کرنے کی کوشس کرتی تو جناح اسے بیٹی نہ کہہ کر مسز واڈیا کہہ کر ہی پکارتے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جناح نے اس کے بعد اپنی بیٹی سے کبھی ملاقات کرنے کی دلچسپی نہیں ظاہر کی ۔ ملتے بھی کیسے انہیں پاکستان کی شکل میں ایک دوسرا بیٹا مل چکا تھا اور پاکستان کو ایک وفادار باپ ۔ شاید جناح کو اس بات کا شدید افسوس تھا کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر انہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا ان کی اکلوتی اولاد نے ہی اس فلسفے کو رد کردیا ۔ دنیا میں اکثر لوگ دولت  اور اولاد کیلئے اپنے ملک اور قوم سے بھی بغاوت کر جاتےہیں لیکن جناح نے اپنی قوم اور ملک کیلئے اپنی اکلوتی اولاد سے رشتہ توڑ لیا ۔ہند پاک کا بٹوارہ چاہے کتنا ہی غلط فیصلہ رہا ہو جناح اپنے نظریے میں مخلص تھے ۔ ہاں یہ الگ بات ہےکہ پاکستان کا بٹوارہ جس نظریے کی بنیاد پر ہوا تھا وہاں ایک طبقے کی قومی شناخت کوتو بنیاد بنایا گیا لیکن وہ قوم جو اسلام کی بنیاد پر مسلمان تھی اس کے جوش ولولے اور نعروں میں نظام سیاست کی تشکیل کیلئے اسلامی شریعت کا ذکر اور تصور بھی نہیں تھا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب پاکستانی آئین کو تشکیل دینے کیلئے مسلم لیگ نےمولانا مودودیؒ کو دعوت دی تو انہوں نے یہ کہہ کر اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا کہ جب محمد علی جناح اور مسلم لیگ کی طرف سے پاکستان کو ایک سیکولر ملک میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو باقی کے فیصلے بھی مسلم لیگ کو ہی کرلینا چاہیے ۔ مولانا مودودیؒ کا اپنا نظریہ بالکل درست تھا ۔ اقبال اگر زندہ ہوتے تو ان کاکیا کردار ہوتا کہا نہیں جاسکتا ۔لیکن محمد علی جناح کی پرورش جس آزاد خیال معاشرے میں ہوئی تھی وہ اپنی قومی شناخت کے تئیں تو جذباتی تھے لیکن قوموں اور خاندانوں کی تربیت کے ساتھ سیاست اور ریاست میں جو دین کا واضح تصور مودودیؒ اور اقبالؒ کے ذہن میں تھا شاید محمد علی جناح پاکستان کو جدید ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا اور سرسید کی نظر سے دیکھنا چاہتے تھے اور بعد میں ہوا بھی وہی ۔ پاکستان کے فوجی جنرل ترکی کی طرح پاکستانی آئین کے خودساختہ محافظ بن گئے ۔ بعد کے حالات میں ترکی کے اسلام پسند رہنما نجم الدین اربکان اور طیب اردگان کی سیاسی تحریک نے ثا بت بھی کیا کہ اگر پاکستانی سیاستدانوں نے پاکستان کے وجود کے بعد اقبالؒ اور مودودیؒ کی صالح فکر کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل اور تربیت کی ہوتی تو آج ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان بدعنوانی سے جوجھ رہے ہندوستان کیلئے بھی مشعل راہ ہوتا ۔ افسوس مادہ پرست مغربی تعلیم اور نظام سیاست نے نہ صرف پاکستان کو تباہ کردیا ہندوستان بھی اسی دوراہے پر کھڑا ہے ۔ جب میں آج کے پاکستان اور جناح کے نظریات کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا کہ دینا ایک مسلمان باپ کی بیٹی ضرور تھی اور پاکستان بھی ایک مسلمان قوم کی جدوجہد کا نتیجہ تھا لیکن جس طرح محمد علی جناح ایک آزاد معاشرے میں پرورش پانے والی سترہ سال کی اپنی بیٹی کا نام صرف دین اور دینا رکھ کر اس کی دینی غیرت کا مظاہرہ چاہتے تھے اسی طرح کیا کسی مسلم ریاست کا نام پاکستان رکھ دینے سے ان کے لوگوں سے اسلامی غیرت و حمیت کے مظاہرے کی امید کی جاسکتی  ہے ؟

0 comments:

featured,

ورلڈ بینک کی رینکنگ میں بہتری سے عوام کو کیا ملے گا ؟



نہال صغیر

فی الحال نریندر مودی کیلئے راحت والی خبر نے انہیں واقعی پہلی بار کسی طرح کی خوشی سے ہمکنار کیا ہے لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس طرح کی خبروں سے عوام کو کیا ملنا ہے یا ساڑھے تین سال میں عوام جس اذیت سے گزرے ہیں اور جس کا سلسلہ ہنوز جاری اس کا مداوا کس طرح ہو سکتا ہے ۔ وزیر اعظم تو اس راحت اور خوشی میں حسب روایت کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شمار ہو گئے ہیں ۔ وہ خود خواہ کتنا ہی خوش فہمی کا شکار ہوں لیکن اگر وہ بحیثیت وزیر اعظم اس میں ملک کو بھی مبتلا کردیتے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ جیسا کہ انہوں نے ساڑھے تین سال میں کیا ہے ۔ ورلڈ بینک نے اپنی ’ایز آف ڈوئنگ بزنیس‘ میں بھارت کو تیس پوائنٹ کا فائدہ دیتے ہوئے اس کی حالت میں سدھار کا دعویٰ کیا ہے ۔ لیکن ورلڈ بینک وہ ادارہ ہے جس کی اپنی کچھ شرائط ہیں اور وہ شرائط بہر حال ترقی یافتہ ممالک کی مرضی اور ان کے مفاد کے عین مطابق ہوتا ہے ۔ خبروں کے مطابق بھارت کی موجودہ مودی حکومت نے ورلڈ بینک کے دس نکات میں سے آٹھ پر عمل کیا ہے جس کی بنیاد پر اس نے اس کی کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کو یہ حیثیت دی گئی ہے ۔ جوش اور سطحی سوچ کے معاملے میں نریندر مودی کا کوئی ہاتھ نہیں پکڑ سکتا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اسی سوچ کا ثبوت دیتے ہوئے ایک معمولی سی رینکنگ جس سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہونا ہے اس پر خوش فہمی کا شکار ہو کر کہا ’بھارت اس پوزیشن پر پہنچ گیا ہے ، جہاں سے وہ آگے ہی بڑھے گا ۔ اس کی کوششوں کو اب رفتار ملنی شروع ہو گئی ہے ‘۔ یہاں تک تو خوش فہمی کچھ حد تک اس قابل ہے کہ نظر انداز کردیا جائے لیکن اس سے آگے انہوں نے اپنے پیش رو منموہن سنگھ کا نام لئے بغیر ان پر تنقید کی اور ڈینگیں مارنی جیسی باتیں کی جو کسی بھی طرح وزیر اعظم جیسے کسی اہم عہدہ پر براجمان شخص کیلئے موزوں نہیں ہے ۔ جیسے انہوں نے کہا کہ ’ہم تیزی سے سدھار کر رہے ہیں ۔ ہم پر تنقید کرنے والے بھی ہماری تیزی سے ہو رہی سدھار کو پچا نہیں پا رہے ہیں ۔ جی ایس ٹی کی دقتوں کو دور کیا ہے ۔ جی ایس ٹی کی وجہ سے ہی ایز آف بزنیس کی سطح میں بہتری آئی ہے‘۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور اس کی وجہ سے رینکنگ میں بہتری کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر کسی پارٹی یا نظریاتی طور پر کسی کی بیجا تنقید کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی میں نے آج تک کسی کواس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ لیکن وزیر اعظم کا ایک معمولی سدھار سے بے قابو ہو کر جی ایس ٹی کی مدح سرائی کرنا کہ اسی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے جیسا دعویٰ کرناکس طرح کی شخصیت کی علامت ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ورلڈ بینک سے کسی غریب ملک کے عوام کو فائدہ نہیں ہے ۔ دیگر اداروں سے تو کچھ تحفظات کے ساتھ عوام اور خصوصی طور سے غریبوں کا کچھ بھلا ہو بھی سکتا ہے ۔ جیسے اقوام متحدہ کے کچھ امدادی کارنامے جیسے اس کے بچوں اور خواتین کی بہتری کیلئے پروگرام اور اس میں تعاون وغیرہ ۔ ’ایز آف ڈوئنگ بزنیس کو لے ہندوستان کی رینکنگ میں سدھار کے بعد بھی سونے کا من نہیں کرتا ہے ‘ انہوں نے ایسی ہی جذباتی باتیں کرکے ملک کے سادہ لوح اور جسٹس کاٹجو کے بقول مورکھ عوام کو خالی پیلی متاثر کرناشروع کردیا ہے وہ اس معاملہ میں ماہر ہیں ۔ اس پر میری رائے ہے کہ قوم کا مخلص قائد اس طرح کے سطحی دعوے نہیں کرتا ، وہ صرف کام کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا جس کے فوائد اس کے ہم وطن برسوں اور کبھی صدیوں حاصل کرتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے بے بنیاد دعووں میں کہا ’اور کیا کام ہے میرے پاس ، بس ایک ہی کام ہے کہ اس ملک کی خدمت ، سو کروڑ لوگ اور ان کی زندگی میں تبدیلی لانا ‘۔حالانکہ اب ملک کی آبادی سوا ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن وزیر اعظم صرف سو کروڑ کی تعداد بتاتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ان کے سب کا ساتھ سب کا وکاس میں ملک کے مسلمان اور عیسائی شامل نہ ہوں اس لئے انہوں نے دانستہ یا نا دانستہ ان کی تعداد کو الگ کرکے ملک کی آبادی بتائی ۔ ہمارے وزیر اعظم ہمیشہ اپنی تقریروں میں اپنی کم علمی اور کج فہمی کا ثبوت دیتے رہے ہیں ۔ جس کا وقت وقت پر لوگوں نے جواب بھی دیا ہے ۔ یہاں بھی انہوں نے اس کا ثبوت دیا جس کا تذکرہ کیا جاچکا ہے ۔ جس میں جی ایس ٹی کے سبب رینکنگ میں بہتری اور ملک کی آبادی کوکم بتانا شامل ہے اس کے باوجود وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’ہم بھارت کو نالج بیسڈ اکانومی بنانا چاہتے ہیں ‘ ۔ جب تک لوگ انا کے گھیرے میں رہتے ہیں تب تک وہ کچھ نہیں کرسکتے ہاں جھوٹ بول کر خواہ کوئی بھی دعویٰ کرلیں ۔ وزیر اعظم بھی اسی انا کی بیماری میں مبتلا ہیں اور اسی کے سہارے عوام کو گمراہ کررہے ہیں ۔
پچھلے دنوں جھاڑ کھنڈ سے جب یہ خبر ملی کہ بھوک کی وجہ سے ایک معصوم بچی مر گئی اور اس کے بعد کئی اور لوگوں کے مرنے کی خبریں آئیں تو مجھے ٹھیک سے نیند نہیں آئی ۔ ایسی کسی بھی خبر پر مجھے بیچینی ہوتی ہے ۔ پتہ نہیں ہمارے وزیر اعظم جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی خدمت لئے سب کچھ قربان کرچکے ہیں کو نیند آتی ہے یا نہیں ؟ ان کیلئے بھی ملک کے کسی بھی حصہ میں کسی فرد کا بھوک کے سبب مرنا بے چینی کا سبب بنتا ہے کہ نہیں اور اگر بنتا ہے تو معمولی واقعہ پر ٹوئٹ ٹھونکنے والے وزیر اعظم عوام کے سامنے اس بے چینی کا اظہار کیوں نہیں کرتے ؟ کس نے انہیں روکا ہے ؟ کیایہاں بھی انہیں ایک کمزور اور نحیف و نزار مخالفین کا ڈر ستاتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ دل کی حقیقی کیفیت اور اداکاری میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ جب کسی کا دل صاف ہو اور وہ اپنی رعیت کیلئے مخلص ہو تو اسے کسی دعوے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے دور میں بس یہ ہوتا کہ کسی غریب کو راشن کے لئے آدھار سمیت کسی بھی طرح کی پہچان کی کوئی ضرورت نہیں اس کی پہچان یہی کافی ہوتی ہے کہ وہ اس کا حقیقی مستحق ہے اور اسے سرکاری گو داموں سے اناج دستیاب کرایا جائے ۔ ورلڈ بینک کی رینکنگ پر خوشیاں منانے اور تالیاں پیٹنے والوں کو بھوکوں کی فہرست پر بھی نظر ڈالنی چاہئے جس کی حالت مسٹر پردھان سیوک یا چوکیدار کی آمد کے بعد مزید خراب ہوئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ بھارت نوجوانوں کا ملک ہے اور نوکری پیدا کرنا یہاں مواقع بھی ہیں اور چیلنج بھی ‘۔ لیکن وہ اپنے ساڑھے تین سال کا حساب دیں کہ انہوں نے کتنے نوجوان ہاتھوں کو کام دیئے ہیں اور اس چلینج کو کس طرح قبول کیا ہے ۔ ان کی نوٹ بندی یا اب جی ایس ٹی نے تو افرا تفری کا موحول پید اکرکے روزگار چھین لئے ہیں اور چھوٹے تاجروں کا مستقبل ہی تاریک کردیا ہے ۔ ایسی حالت میں وہ اس طرح کے دعوے کرتے ہیں تو زیادہ خوشی نہیں ہوتی ۔ ہم بھی ان کے بھکت نہیں کہ تکلیف کے باجود ان کی جئے جئے کریں گے اور نہ ہی جئے جئے کار کسی مسئلہ کا حل ہے اورنا ہی اس طرح کے فعل نے اب تک کی معلوم تاریخ میں کسی ملک نے کوئی بڑا انقلاب لانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ ملک کو تو حقیقی اور زمینی سطح پر کام کرنے اور اس کے چیلنجوں پر محض دعووں کی بجائے عملی طور پر قبول کرتے ہوئے کچھ کرنے سے ترقی حاصل ہو سکتی ہے ۔ گورکھپور اور احمد آباد کے سرکاری اسپتالوں میں مرنے والے شیر خوار بچوں کے والدین کو ورلڈ بینک کی رینکنگ سے کیا حاصل ہو سکتا ہے ۔ یہی باتیں ہم وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو سمجھانا چاہتے ہیں ۔ کیا وہ میری باتیں سمجھنے کی کوشش کریں گے ؟

0 comments: