ایران امل ملیشیا,حزب اللہ اور داعش تاریخ کے آںُینے میں

11:05 PM nehal sagheer 0 Comments


عمر کی فراہی

آج سے دو مہینے پہلے   سعودی عربیہ اور کویت کی شیعہ  مسجدوں  میں جو  دھماکے ہوئے اسے کس نے اور کیوں  انجام دیا اس کا خلاصہ کرنا تو بہت مشکل ہے - لیکن سعودی حکومت نے بظاہر اس کی ذمہ داری نوزائیدہ تحریک داعش پر ڈال کر دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ داعش ایک ظالم اور سفاک نوجوانوں کی جماعت ہے جو تمام عالم اسلام کیلئے خطرہ ہیں - اس طرح خلافت کی اصل دعویدار ایرانی حکومت اور قابل احترام حرمین شریفین دونوں ہی اس گناہ سے بری ہو گئے - ویسے سچ کہا جائے تو داعش کے لوگوں کو ظالم اور سفاک قرار دینے میں ایران اور سعودی حکومت دونوں کا اپنا مفاد وابستہ ہے اور یہ دونوں ہی حکومتیں  اس کوشش میں ہیں کہ مصر میں اخوانی حکومت کی طرح اگر  اس کانٹے کو بھی بہت جلد راستے سے نہیں ہٹایا گیا تو عرب نوجوانوں کی یہ آذاد ملیشیا عرب کے تمام ڈکٹیٹروں کیلئے خطرہ بن جائیں گے - مگر ان  کی اپنی خلش یہ ہے کہ انہیں داعش پر قابو پانے کیلئے السیسی کی  طرح کوئی غدار نہیں ہاتھ آرہا ہے - شاید اسی لیے عرب کے تمام شیر جو مصر میں اخوان کی پرامن جمہوری تحریک کو بزور قوت ختم کر کے جشن منا رہے تھے داعش کے فتنے کو ختم کرنے کیلئے وہی دجالی اور شیطانی حکمت عملی اپنا رہے ہیں جو پوری دنیا کی فاشسٹ ریاستیں بنام جمہوریت انجام دے رہی ہیں - یعنی روس کے شہر بیسلان میں چیچن مجاہدین کو بدنام کرنے کیلئے معصوم اسکولی بچوں کے اغوا اور قتل سے لیکر پاکستان کی لال مسجد امریکہ میں 9/11, اور ممبیُ کے 26/11 کے سانحے تک ہندوستان میں جتنے بھی دھماکے ہوئے اس میں کہیں نہ کہیں ریاستی حکومتوں کی انٹلیجنس کا ہی اہم کردار رہا ہے جو اکثر حکمرانوں کے سیاسی مفاد کیلئے عوامی مفاد کا خون کرنے میں کوئی شرم نہیں محسوس کرتیں اور اکثر میڈیا اور مادہ پرست صحافی حضرات بھی اپنے عہدے اور حکومت کی طرف سے نوبل انعام و اکرام کی لالچ میں وہی لکھتے اور بولتے ہیں جو وقت کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اپنے حق میں ہوتا ہے - ممکن ہے کہ سعودی عرب اور کویت کی مسجدوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں ایران اور حزب اللہ کی بھی سازش ہو جیسا کہ یمن میں سعودی عربیہ کی مداخلت کے بعد ایران نے دھمکی دی تھی کہ سعودی عربیہ کے اس جارحانہ اقدام سے یہ جنگ اس کی اپنی سرحدوں میں بھی داخل ہوسکتی ہے -  مگر سعودی حکومت نے بھی نہایت چالاکی سے داعش کو قصوروار ٹھہراکر ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کی کوشش کی ہے - یہ بھی ممکن ہے کہ داعش کو بدنام کرنے کیلئے دونوں حکومتوں کی اپنی انٹلیجنس کی بھی سازش رہی ہو - اور ویسے بھی جو لوگ ایک ایسی اسلامی تحریک جس کے حق پر ہونے کی تصدیق اور  حمایت عرب کے حکمراں اورعالم اسلام کے معززعلماء دین بھی کر چکے ہوں انہیں سلاخوں تک پہنچانے اور قتل کرنے کیلئے اسرائیل کی مدد لے سکتے ہیں ان کا  داعش کے  خلاف کسی نکتہ پر متحد اورمتفق ہو جانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے اور ویسے بھی جب ایک پر امن تحریک اخوان المسلمون ان دونوں ممالک کیلئے خطرہ ہو سکتی ہے تو پھر داعش کے تو مضبوط پر نکل آئے ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس نوزائیدہ تحریک نے سفارتی آداب بھی سیکھ لیے ہیں اور اپنے اسی ہنر سے انہوں نے کچھ ممالک سے باقاعدہ  فوجی تربیت اور ہتھیار بھی حاصل کرنا شروع کر دیا ہے - جیسا کہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ خود امریکہ ہی ان کی مدد کر رہا ہے جس کا اعتراف بھی امریکہ کے ایک سابق فوجی افسر نے بھی کیا ہے- ویسے یہ تو دنیا کا دستور بھی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور جنگ ایک مکاری کا نام ہے - اگر ایران اور حزب اللہ روس کی مدد لیکر شامی عوام کی پرامن تحریک کو پرتشدد تحریک میں بدل سکتے ہیں- سعودی حکومت اسرائیل کی مدد سے اخوانیوں پر شب خون مار سکتی ہے  تو پھر عرب انقلابیوں کو یہ حق کیوں نہیں پہنچتا ہے کہ وہ اپنے دفاع کیلئےکسی ملک سے ہتھیاروں کی مدد نہ لیں - ویسے ہم میں سے ہر کسی کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ ہم اپنے طورپر تجزیہ اور تبصرہ کریں مگر ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ہرمسئلے کا حل بات چیت اتحاد رواداری  دعوت و تبلیغ  اور انتخابی ڈرامے بازی میں ہی تلاش کرتے ہیں جبکہ جو لوگ شاطراور پرمغز ہوتے ہیں عوام کے اسی بھولے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے طریقے سے  اقتدار کے مالک بن جاتے ہیں - 
جزیرۃ العرب میں ایران اور حزب اللہ اسی کردار کے ایسے درخت اور پھل ہیں جن کے ظاہر اور باطن کے اسی تضاد کی وجہ سے مسلمانوں کو ہر دور میں نقصان اٹھانا پڑاہے۔ ایرانی حکمراں اور علماء اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخی کارنامے اورمساوات کی عظمت کے بر عکس فارس کی تین ہزار سالہ تاریخ پر فخر کرتے ہیں- عظمت رفتہ کے اسی جنون میں غرق ایران کے مرحوم بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے جب یہ دیکھا کہ سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے اورعربوں میں اب کوئی ایسی طاقتور ریاست نہیں رہی جو ایران کے منصوبہ کو ناکام بنا سکے اس نے امریکہ اور اسرائیل سے تعلقات بحال کرتے ہوئے بے شمار اسلحوں کے ذخیرے جمع کرنا شروع کر دیئے تاکہ وہ طاقت کے ذریعے  پورے عرب کو ایران میں شامل کرکے فارس کی عظیم سلطنت کا وقار دوبارہ بحال کرسکے۔ دوسری طرف عربوں کو مزیدکمزور کرنے کے لئے اس نے شام کے علوی  سپہ سالار ،اور مصر کے صدر جمال عبدالناصر جو عربوں کے لئے میر جعفر اور میر صادق کا کردار نبھا رہے تھے ان کے ذریعے عربوں کو اسرائیل کے خلاف جنگ میں جھونک دیا ۔ جمال عبدالناصر نے جان بوجھ کر اپنے تمام چار سو بیس لڑاکا طیاروں کو ایک ہی میدان میں کھڑا کر کے اسرائیل کے ذریعے تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا اور شامی فوج کے سپہ سالار حافظ الاسد نے بغیر کسی مزاحمت کے گولان کے سر سبز و شاداب پہاڑی علاقہ کو اسرائیل کے حوالے کر دیا ۔ 1968 کی اس جنگ میں پریشان حال فلسطینی مسلمانوں نے جب  ان مشکل حالات میں بھی اپنے عزم و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے پڑوسی ملک لبنان میں اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا تو فلسطینی مسلمانوں کے اس عزم و حوصلے سے اسرئیل کا خوفزدہ ہونا تو لازم تھا ہی ایران کی رضا شاہ پہلوی حکومت کے بھی کان کھڑے ہو گئے ۔ اس دوران حافظ الا سد جو کہ ایرانی حکومت کی خفیہ سازش کی وجہ سے شام کا صدر بن چکا تھا لبنان میں عیسائیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پھوٹ پڑنے والے فساد کا بہانہ بنا کر فلسطینیوں کے گڑھ میں اپنی فوج داخل کر دی اور ۵۲ دنوں کے بے رحم حصار کے بعد عیسائی ملیشیا کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ فلسطینیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کریں ۔ دوسری بار  1982 میں خود اسرائیلی فوج کے سپہ سالار ایریل شیرون نے شامی فوجوں کی موجودگی میں صابرہ شتیلہ کے کیمپ میں داخل ہو کر  درندگی کا وہی طریقہ اختیار کیا جسکی نظیر عیسائی ملیشیا اور حافظ الاسد نے قائم کی تھی ۔ تاریخ میں رابرٹ فسک جیسے مشہور و معروف صحافی جو اس حادثہ کے چشم دید گواہ رہے ہیں ان کی شہادت اور بیان سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اس کے باوجود یہ کہنا ہوگا کہ اسرائیلی فوج اور عیسائی ملیشیا مل کر بھی ٰ لبنان سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں ۔ ایسے میں اسرئیلی حکومت نے رضا شاہ پہلوی حکومت سے مل کر دوسرا حل ڈھونڈھا - یعنی ایرانی حکومت جو فلسطینیوں کی تھوڑی بہت مدد اسی لیے کرتی آرہی ہے کہ روٹی کے چند ٹکڑوں سے ان کا اعتماد جیتا جا سکے اس نے پریشان حال فلسطینیوں کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے ایک پیشوا خاندان کے شیعہ عالم موسیٰ الصدر کو لبنان میں شیعوں کو متحد اور مسلح کرنے کا منصوبہ بنالیا ۔ موسیٰ الصدر نے اسرائیل کے خلاف نعرہ دے کر فلسطینیوں اور اخوانیوں کو اپنے اعتماد میں لیتے ہوئے ’امل ملیشیا‘ کے نام سے وہاں کے شیعوں کو مضبوط فوجی قوت میں بدل دیا ۔ در اصل موسیٰ الصدر کا اصل مقصد ایرانی حکمت عملی کے تحت فلسطینیوں کی تنظیم جو اس وقت لبنان میں ’’رابطہ فلسطینیہ الاسلامیہ ‘‘کے نام سے طاقت ور ملیشیا کے نام سے مشہور تھی اس کا صفایا کرنا تھا تاکہ مستقبل میں ایرانی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے عرب کے اس خطہ میں شیعوں کو کسی طاقت ور ملیشیا سے مزاحمت کا خطرہ نہ رہے۔ جب موسیٰ الصدرنے لبنان میں پوری طرح زمین ہموار کرلی تو حافظ الاسد کی فوجی قوت کے سہارے شیعہ’ امل ملیشیا‘ نے تیسری بار عیسایؤں اور یہود یوں کے ہی نقشِ قدم پر فلسطینیوں کے قتل عام کی نئی تاریخ رقم کی بلکہ یوں کہا جائے کہ جو کام یہودی اور عیسائی اپنے بل پر نہیں کر سکے اسے امل ملیشیا نے کلمۂ شہادت کا نام لے کر انجام دیا ۔اٹلی کے ایک مشہور اخبار ریپبلکا (Republica )کے مطابق ایک معذور فلسطینی جو کئی دن سے چل نہیں سکتا تھا شتیلہ کیمپ میں امل ملیشیا کے درندوں کے سامنے ہاتھ اٹھا کر رحم کی بھیک مانگنے لگا ۔ جواب میں وہ گولیوں سے بھون دیا گیا۔ کویت نیوز ایجنسی کے مطابق صابرہ کیمپ میں پچیس لڑکیوں کی اجتماعی آبرو ریزی کھلے عام پورے کیمپ کے سامنے کی گئی- فرانس کا ایک صحافی بیار فردیہ جو قیامت زدہ علاقوں میں اس امید میں چکر لگا رہا تھا کہ اسے کسی طرح صابرہ شتیلہ میں گھسنے کا موقع مل جائے امل ملیشیا کے ایک اسلحہ بردار کے ساتھ اپنی گفتگو کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ فلسطینیوں کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے لئے ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے چوبیس گھنٹے کے اندر ہم خود ان کا صفایا کر دیں گے ۔ سڑک کے دوسری طرف امل ملیشیا کے ٹینک بلا تمیز گھروں کے بیچ تنگ گلیوں میں مسلسل بمباری کر رہے تھے دو دن تک تو ہم فلسطینیوں کے علاقہ میں جو ہم سے صرف سو میٹر کی دوری پر تھے گھسنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ تیسرے دن جب ہم اس علاقہ میں پہونچے تو پورا بیروت لینڈمائن بن جا چکا تھا۔امل ملیشیا نے جگہ جگہ چیک پوسٹ بنا رکھے تھے زخمیوں کو نہ صرف راستے میں روک لیا جاتا بلکہ جو کسی طرح ہاسپٹل پہنچ گئے انہیں ہاسپٹل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اسی دوران ہماری نظر کچھ بوڑھوں ،عورتوں اور بچوں پر پڑی جو اپنی گٹھریاں اٹھائے بھاگ رہے تھے ان میں سے روتی ہانپتی ایک عورت نے کہا کہ امل ملیشیا کے لوگ گھروں کے ملبہ میں لاشوں کو دبا رہے ہیں اور کچھ لاشیں جلا بھی رہے ہیں ۔ پناہ گزیں کیمپ میں غزہ ہاسپٹل کی ایک نرس کا بیا ن تھا کہ ایمرجنسی ہال میں ایک شخص اپنی چودہ سالہ بہن کے ساتھ پڑا تھا امل ملیشیا کے ایک اسلحہ بردار نے بچی سے کہا کہ اسے اٹھا کر لے جاؤ بچی نے کہا کہ وہ کیسے اٹھا سکتی ہے- دوسرے لمحے اسلحہ بردار نے دونوں بھائی ،بہن کو اپنی گولیوں سے سرد کردیا -
تحریک آزادی فلسطین کی تنظیم فتح کے ایک ممبر رائد صلاح نے 15اگست 1985 کے اخبار الیوم السابع کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہی موسیٰ الصدر ہے جو لبنان میں شیعوں کی محرومی اور لاچاری  کا رونا روتا تھاہم نے اس کا ساتھ دیا ہم نے اس کی "امل" تحریک کو تربیت دی اور مسلح کیا تاکہ اسرائیل کے خلاف یہ ہمارا ساتھ دیں گے مگر انہوں نے ہمیں جو زخم پہنچایا اسی بات کو رابطہ فلسطینیہ اسلامیہ کے ایک لیڈر نے یوں بیان کیا ہے کہ شیعوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کا نہ رکنے والا قتل عام کا سلسلہ ثابت کرتا ہے کہ شیعہ ملیشیا "امل" امت اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کے صف میں کھڑی ہے اور اس گمشدہ کڑی کو پورا کردیا جسے پورا کرنے سے یہود و نصاریٰ عاجز تھے۔ جی ہاں یہ وہی شیعہ امل ملیشیا ہے جو مرحوم آیت اللہ خمینی کے ایرانی انقلاب کے بعد جسے جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی حمایت کے بعد اسلامی انقلاب کے نام سے جانا جانے لگا اس نام نہاد اسلامی انقلاب کے بعد امل ملیشیا کو اسلامی لباس میں تبدیل کر کے حزب اللہ کا نام دے دیا گیا - اس طرح بیروت جو فلسطینی جانبازوں کا فوجی ہیڈ کوارٹر ہوا کرتا تھا ان کی لاشوں کے ڈھیر پر امل ملیشیا یعنی  حزب اللہ کا ہیڈکوارٹر قاںُم ہے اب یہ وہی ایران اور وہی حزب اللہ ہیں جو ایک بار پھر ظالم حافظ الوحشی کے بیٹے بشارالاسد کی مدد کرکے شامی مسلمانوں اور ایلان کردی جیسے ہزاروں لاکھوں عورتوں اور بچوں کو دریا برد کر رہے ہیں - ایسے میں تقریباّ چالیس پچاس سالوں سے عرب ڈکٹیٹروں کے جبروتشدد کے ردعمل میں اگر ایک آذاد سنی ملیشیا داعش کا وجود عمل میں آتا ہے تو کیا یہ گناہ ہے ؟

0 comments: