مسلمان کب تک دوسروں کی ڈولی ڈھوتے رہیں گے؟
مسلمان کب تک دوسروں کی ڈولی ڈھوتے رہیں گے؟
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
ہندوستانی مسلمان تقریباً پون صدی سے اپنوں اور غیروں کی بسائی ہوئی خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ 1947 سے آج تک وہ اس طرح محو خواب رہے ہیں کہ ان کا ہر خواب ایک نئے خوف کی تعبیر بن کر سامنے آتا رہا ہے۔ دلچسپ اور فکر انگیز بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی خوابوں کی اس خوفناک دنیا سے باہر آنے کی کوشش کی ہے انہیں دھکیل کر پھر وہیں پہنچا دینے والوں میں غیروں سے کہیں زیادہ اپنوں کا رول رہا ہے۔ یہ صورتِ حال اس وقت قابل دید ہوتی ہے جب الیکشن قریب ہوتا ہے اور مسلمانوں کے سوداگر گھر گھر پہنچ کر اپنے پسند کی خواب گاہوں یا باڑوں میں پہنچانے کی جی توڑ کوشش کرتے ہیں۔ یہ مفاد پرست سیاست داں ایک طرف اپنے طے کردہ باڑے میں ہی مسلمانوں کو پہنچنے کی ترغیب دیتے ہیں، تو دوسری طرف ان کے سروں کا سودا بھی کیے ہوئے ہوتے ہیں، اس طرح ان کا یہ کاروبار ملک کی آزادی کے ساتھ طلوع ہونے والے سورج کی روشنیوں کی طرح پھیلتا ہی گیا۔ یوں ہی بے غیرت لوگ دن بہ دن مالا مال ہوتے رہے ہیں اور عام مسلمان کنگال اور بے حال ہوتے گئے۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ مسلمانوں کو دوسروں کے اقتدار کی ڈولی ڈھونے کے لیے کہار بننے پر بھی مجبور کردیا، تو سیاسی پارٹیوں کے نزدیک اب ان کا مصرف صرف یہی رہ گیا کہ وہ کسی بھی سیکولر پارٹی کی ڈولی کو ڈھوکر اسے ایوانِ اقتدار تک پہنچاتے رہیں اور خود کہار کے کہار ہی بنے رہیں۔ ظاہر ہے ان کی حیثیت ایسی اس لیے بنی کہ آزادی کے فوراً بعد سے ہی ان کے قائدین نے، ان کی اپنی جماعتوں نے، ان کے ارباب عقل و دانش نے ان سے یہی اور صرف یہی کہا کہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں اور کس پارٹی کو نہ دیں اور اس کے لیے بھی انہوں نے بنیاد اس بات کو بنایا کہ فلاں پارٹی ان کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے اور فلاں پارٹی ان کا جینا دوبھر کردے گی۔ اس کے صلے میں انہیں بھیک کے ٹکڑے کے طور پر کچھ ملتا بھی رہا اور وہ اس کے لیے اسی فکر میں ہمیشہ رہے کہ کس کے در پر جبین نیاز جھکائی جائے اور کسے اپنا حاجت روا قرار دے کر اپنے مطالبات کی پوٹ اس کے قدموں میں ڈال دی جائے۔ ان کے نزدیک غیرت نام کی کوئی چیز نہیں رہی اس لیے انہوں نے ایک باغیرت قوم کے طور پر اقتدار میں شرکت کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
سوال یہ ہے کہ مسلمان آخر کب تک اپنوں اور غیروں کی سیاست کا مہرہ بنے رہیں گے؟ کیا ان کی حیثیت صرف ایک ووٹ بینک کی ہے؟ کیا اب وہ اس مقام پر واقعتاً پہنچ گئے ہیں کہ جہاں کوئی بھی انہیں جس باڑے میں چاہے ہانک کر پہنچادے۔ اس سوال کا جواب اثبات میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو ان کے قائدین نے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں ان کی حیثیت صرف ایک سیاسی مہرہ سے زیادہ رہ ہی نہیں گئی ہے۔ ان کا مصرف اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ کسی ملائم سنگھ، کسی لالویادو، کسی مایاوتی، کسی دیوگوڑا، کسی جے للتا، کسی ممتا یا کسی پوار کی پالکی ڈھوکر انہیں ایوان اقتدار تک پہنچاتے رہیں۔
یہ کتنی تلخ اور کتنی عبرت انگیز حقیقت ہے کہ ملک کے تقریباً 20 کروڑ مسلمانوں کو اپنے سیاسی رویہ کے تعین کے لیے کوئی ایجابی اور تعمیری بنیاد مہیا کرنے کے بجائے ان سے صرف یہ کہا گیا کہ دیکھو فلاں پارٹی یا فلاں جماعت تمہیں ہضم کرلے گی۔ تمہیں اچھوت بنادے گی، تمہاری تہذیب تمہاری ثقافت اور تمہاری زبان چھین لے گی، اس لیے اس کے خلاف متحد ہوجاؤ اور ان امیدواروں کو ہی ووٹ دو جو اسے شکست دے سکیں۔ ان کے اندر جان بوجھ کر ایک منصوبہ بند طریقے سے خوف کی نفسیات کو پروان چڑھایا گیا اور اس سے جی بھر کر ان لوگوں نے بھی فائدہ اٹھایا جو اقتدار کے خواہاں تھے اور ان لوگوں نے بھی جو اپنے حقیر مفادات کے حصول کے لیے ان کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان میں خود غرض سیاست داں بھی تھے، صاحبانِ جبہ و دستار بھی تھے اور وہ لوگ بھی جنہوں نے بزعم خود دین کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ مسلمان یہ طے نہیں کرلیں گے کہ انہیں بچولیوں سے دامن چھڑاکر اپنی سیاست خود اپنے لیے کرنی ہے۔ انہیں کسی اور کے پلڑے کی زینت بننے کے بجائے اپنا باڑہ بنانا ہے اور اپنے خوابوں کی بستی خود تعمیر کرنی ہے۔
مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کرلینی چاہیے کہ ان کے مسائل و مصائب کا حل خود ان کے سوا کوئی اور تلاش نہیں کرسکتا۔ زندگی کی رزم گاہ میں جو لوگ بیساکھیوں کے سہارے داخل ہوتے ہیں اور دوسروں کی انگلی پکڑ کر چلتے رہنے کو ہی سیاسی تدبر کی معراج قرار دے لیتے ہیں وہ کبھی بھی کامیابی و کامرانی کی منزل مراد سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ ہوتا یہ ہے کہ گریہ وزاری اور سینہ کوبی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جسے جو بھی چاہے آسانی سے پڑھ سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلمان اسے پڑھنے سے ہمیشہ گریزاں رہے ہیں۔ وہ ان بازیگروں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے ہیں جو انہیں بھیڑ بکروں کی طرح ہانک کر کبھی اس باڑے میں تو کبھی اس باڑے میں پہنچاتے رہے ہیں۔
یاد رکھیے! آپ اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔ آپ کو بھی اپنی سیاست آپ کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ اگر اس ملک میں یادؤں کی سیاست، کرمیوں کی سیاست، جاٹوں کی سیاست، لودھوں کی سیاست، ہریجنوں کی سیاست اور دیگر پسماندہ طبقات کی سیاست کی جاسکتی ہے تو آخر مسلمانوں کی سیاست کیوں نہیں کی جاسکتی ہے؟ مسلمان ایک سیکولر گروہ کی حیثیت سے اپنے آپ کو منظم کرسکتے ہیں اور ایک منظم جماعت، ایک منظم گروہ کی حیثیت سے وہ دوسری سیکولر طاقتوں سے معاہدہ بھی کرسکتے ہیں اور اقتدار میں اپنا حصہ بھی طلب کرسکتے ہیں۔ اس کے بغیر انہیں بھیک تو مل سکتی ہے ان کا حق نہیں مل سکتا۔ اور جو لوگ یا جو قومیں بھیک پر گذر بسر کو ہی اپنا وطیرہ بنالیتی ہیں انہیں ظاہر ہے باعزت زندگی کی نہ خواہش کرنی چاہیے نہ اپنے خوابوں کی مثبت تعبیر کی امید ہی رکھنی چاہیے۔ ایسے میں انہیں ایک مہرے کے طور پر، ایک ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کیا جائے گا اور اس کے سوا اور کوئی مقام انہیں نہیں ملے گا۔ مسلمان مجبور بھی ہیں اور مظلوم بھی، لیکن وہ اس پوزیشن میں بہرحال ہیں کہ اپنے آپ کو منظم کرکے اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرسکیں۔ انہیں اس سلسلے میں بھی اب سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ عزت و وقار کی زندگی انہیں کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کردیں اور کسی جمہوری ملک میں کسی گروہ کے اندر بہ حیثیت اس صورت میں ہی پیدا ہوسکتی ہے جب وہ بیساکھیوں کی تلاش کا سلسلہ ختم کردے اور خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لے۔
مسلمانوں کو ملک کے سیاسی منظر پر رونما ہونے والی نت نئی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ طوفان باد و باراں انہیں پوری طرح گھیر لے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے چھان چھپر درست کرلیں اور اپنے آپ کو اس پوزیشن میں لے آئیں کہ سیکولر اورجمہوریت پسند قوتوں کے ساتھ مل کر وہ اس ملک کو بدترین قسم کی آمریت اور برہنہ فاشزم کی ہلاکت خیز بھنور میں گرفتار ہونے سے بچانے میں اپنے شایان شان رول ادا کرسکیں۔
0 comments: