ایران اسرائیل کے نقشِ قدم پر

عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی ۔موبائل: 9699353811
ایران اسرائیل کے نقشِ قدم پر
جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سکریڑی عبدالغفار نے اپنے ایک ویڈیو ریکارڈنگ بیان میں یمن کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پورے فساد کا ذمہ دار یمن کا سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح اور اس کی وفادارملیشیا ہے۔جو ایک بار پھر یمن کے حوثی قبیلے کے شیعہ باغیوں سے مل کر اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے اور انہوں نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر کے سعودی عربیہ کو بھی دھمکی دینا شروع کر دیا تھا۔سعودی حکومت نے یمن کے صدر کی درخواست اور سرحد پر موجود باغیوں کے اسی خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے سخت کاروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ علی عبداللہ صالح کا باغیوں کے ساتھ مل کر بغاوت اور سعودی عربیہ کے درمیان کھڑا ہوا یہاں پر ایران کا نام کیوں لیا جا رہاہے۔عبد الغفار عزیز کے اس بیان پر اس لئے بھی ہنسی آتی ہے جیسے کہ دنیا کے سارے مسلمان بیوقوف ہیں اور وہ انہیں بچوں کی طرح بہلا رہے ہیں۔ انہیں پتا ہونا چاہئے کہ جماعت اسلامی خود پچاس سال سے اپنے لاکھوں افراد کے باوجود سرمائے کی قلت سے دو چار ہے اور اسی قلت کی وجہ سے وہ فلاح و بہبود کے اتنے بھی مراکز نہیں قائم کرسکی ہے کہ کم سے کم بڑے شہروں میں ہی اس کی کوئی شناخت باقی ہو۔کیا علی عبد اللہ صالح بغیر کسی ملک کی حمایت اور امداد کے لاکھوں کروڑوں روپئے کے ہتھیار اور فوجوں کی تنخواہ کا نظم کرسکتا ہے؟ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اسی بیان میں انہوں نے بشار الاسد کی سفاکیت اور درندگی کا تذکرہ تو کیا مگر جس گناہ کو قبول کرنے میں خود ایران اور اس کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو شرم نہیں آتی ،آخر جماعت اسلامی کے ذمہ داران بار بار ایران کا دفاع کیوں کررہے ہیں؟جیسا کہ تقریبا ایک سال پہلے جماعت اسلامی ہند کے ترجمان اخبار دعوت بھی اپنے تبصرے میں ایران کا دفاع کرتے ہوئے لکھ چکا ہے کہ ’’اگر سعودی عربیہ کو شام میں مداخلت کا حق ہے تو ایران کو کیوں نہیں ‘‘؟ ایران کہاں تک بے قصور ہے اور اسے کہاں تک اپنا دفاع کرنے کا حق ہے اور کیا وہ اس تعلق سے کسی تنظیم اور اخبار کی حمایت کا محتاج ہے اس تعلق سے علی میاں ؒ نے اپنی تصنیف انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کے اثرات ،میں لکھا ہے کہ ’’مغلیہ سلطنت کے بعد مشرق میں ایران کی صفوی حکومت جو ایک بڑی متمدن اور ترقی یافتہ سلطنت تھی لیکن شیعیت کے غلو اور ترکی حکومت سے نبر د آزمائی نے اس کو کسی اور کام کی فرصت نہ دی اور وہ بہترین زمانہ (جو یوروپ کی تعمیر و تنظیم کا تھا)بھی ترکی حکومت کے حد ود پر حملہ کرنے اور کبھی اپنی حفاظت اور مدافعت میں گذر گیا ۔علی میاں ؒ آگے لکھتے ہیں کہ اس دور خزاں میں بھی ٹیپو سلطان اور حضرت سید احمد شہید جیسے صاحب عزیمت مجاہد پیدا ہوئے اور ممکن تھا کہ وہ خلافت راشدہ کے اصول و منہج کی یاد تازہ کردیتے لیکن قومی انحطاط اجتماعی پراگندگی ،بے نظمی اور سیاسی بے شعوری اس درجہ کو پہنچ چکی تھی کہ ایسی عظیم المرتبت اور طاقتور شخصیتیں بھی مسلمانوں کے حالات اور ان کے تنزل و انحطاط کی رفتار میں کوئی بڑی تبدیلی نہ پیدا کرسکیں ‘‘۔اس کا مطلب صاف ہے کہ ٹیپو سلطان،سید احمد شہید اور سراج الدولہ سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے آخری جانباز خلیفہ عبد الحمید ثانی جیسے غیرتمند اور بہادر سپاہیوں کی ناکامی اور شکست کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ بزدل نااہل یا جاہل تھے ۔بلکہ تاریخ کے اوراق کو پلٹنے کے بعد جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان جانبازوں نے ہمیشہ اپنی صفوں میں شامل میر جعفروں اور میر صادقوں سے دھوکہ کھایا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت بھی اکثر آستین کے ان سانپوں کو اپنا مسیحا اور ہمدرد سمجھتی رہی ہے۔شاہ فیصل مرحوم ،ضیا ء الحق اور صدام حسین کی شہادت میں یہی کردار کام کررہے تھے۔حال میں اخوان اور ڈاکٹر مرسی کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ وہ عبد الفتاح السیسی کے منافقانہ کردار کو سمجھ نہیں سکے اور خطے کے وہ ممالک جو بظاہر اخوانی حکومت سے اپنی حمایت اور ہمدردی کا اظہار کررہے تھے ،انہوں نے بھی ایک ملک کی حیثیت سے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کیا ۔یمن کی موجودہ صورتحال بیشک یمن کے سابق ڈاکٹر علی عبد اللہ صالح کی منافقت کی وجہ سے خراب ہوئی ہے مگر اس فساد سے ایرانی حکومت کو بری الزمہ قرار دینا ایران سے مسلسل دھوکہ کھانے کے مترادف ہے۔جو ایک زمانے سے عظیم تر اسرائیل کے نقش قدم پر عظیم تر ایران کا خواب دیکھ رہا ہے ۔فرق اتنا ہے کہ اسرائیل مسیح و دجال کا منتظر ہے ایران منجملہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کی طرح مہدویت کے منتظر ہونے کا دعویدار ہے ۔اب یہ فیصلہ تو مہدی کے ظہور کے بعد ہی ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے کس گروہ اور عقیدے کی نمائندگی کرتے ہیں۔یہ بات سچ بھی ہے کہ امام مہدی کا ظہور عراق اور شام کے ہی علاقوں میں ہونا ہے اور وہ وقت بھی عنقریب ہو سکتا ہے ایسے میں مسلمانوں کے تمام بہتر فرقے ایک دوسرے کی مذمت اور لعنت ہی کرتے رہ جائیں گے مگر جو لوگ مشرق وسطیٰ یا جزیرۃ العرب کی صورتحال کو بدلنے کے لئے سرگرم ہیں ،کہیں نہ کہیں ان میں کے ہی کسی گروہ کو مہدی کے ساتھ ہونے کی توفیق اور سعادت حاصل ہو گی۔عرب کے موجودہ انقلابی اپنی خلافت قائم کرکے یہ دعویٰ پیش بھی کر چکے ہیں ۔اسرائیل دجال کا منتظر ہے اس بات پر مسلمانوں کے تمام علماء متفق ہیں ۔ایران اپنے اسی مقصد کے لئے شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے ذریعے بشار الاسد کی کھلے عام مدد کررہا ہے اور بشار الاسد سنی مسلمانوں کو کافر سمجھ کر ذبح کرنے پر اتارو ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عربیہ کے حکمراں دودھ کے دھلے نہیں ہیں مگر سعودی حکومت نے ایران کی طرح مسلکی عصبیت اور مذہبی جنون میں مبتلا ہو کر اپنی سرحدوں کو وسعت دینے کا خواب کبھی نہیں دیکھا اور جس طرح وہ چند مسلم ممالک سے بھاڑے کی فوج لے کر حکومت کررہے ہیں انہیں صرف اپنا اقتدار عزیز ہے اور وہ اس مدد کی فوج سے کسی ملک پر قبضہ کرنا تو دور کی بات ہے اپنا دفاع کرنے کے بھی اہل نہیں ہیں۔شاید اسی لئے یہ بحث بھی کی جارہی ہے کہ اگر سعودی حکومت کو مستقبل میں کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان اس کی مدد کرے گا ۔یہ بھی سچ ہے کہ اگر وہ مسلکی عصبیت میں مبتلا ہوتا جیسا کہ ان پر وہابی سلفی ہونے اور ان کی مدد کا الزام لگایا جاتا ہے تو وہ اپنے مسلک سے وابستہ سنی سیاسی تحریک اخوانی حکومت جسکی وہ ماضی میں مدد اور حمایت بھی کر چکے ہیں ۔السیسی سے مل کر معزول نہ کرواتے اور ان سے مل کر ایران کی خبر لیتا ۔اور دوسرا ثبوت سنی تحریک داعش کے خلاف اس کی فوجی کارروائی ہے۔اس کے بر خلاف ایران اور حزب اللہ کے لیڈران جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں اور جیسے کہ ان کے عزائم ہیں یہ محسوس کیا جاسکتا ہے ،ایران اسلام سے بھی پہلے کی مملکت فارس کی شکل میں عظمت رفتہ کے جنون میں مبتلا ہے ۔اور امریکہ کو بار بار یہ لوگ اس لئے لعنت ملامت کرتے ہیں کیوں کہ یہ رومی اور عیسائی نسل سے ہیں جنہوں نے کبھی فارس کی سلطنت کا خاتمہ کردیا تھا۔سوال یہ ہے کہ ایران کی طرح اگر سعودی عربیہ اور دیگر سنی ممالک بھی اخوان اور داعش کی شکل میں اپنے ماضی کو تلاش کرنے لگیں اور منافقت کی روش اختیار کرنے لگیں تو کیا ایران کا اپنا وجود بھی قائم رہ سکے گا ؟ کم سے کم سعودی حکمرانوں کی اس اچھائی کا اعتراف تو کرنا ہی چاہئے کہ وہ منافق نہیں ہیں اور انہوں نے ماضی میں صدام حسین کے خلاف جو کچھ بھی کیا وہ خواہ امریکہ کی مدد ہی کیوں نہ لینی پڑی ہو ان کا چہرہ واضح تھا۔انہوں نے مصر اور شام میں بھی اپنی مداخلت کو واضح طور پر سامنے رکھا جبکہ ایران جو کہ شروع میں شام کی مددسے انکار کرتا رہا ہے بعد میں کھل کر سامنے آگیا اور اب یمن میں بھی اپنی مداخلت سے انکار کرتے ہوئے غیر اعلان شد ہ جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ یہ بھی دیکھئے کہ اس کے لوگ پوری دنیا کے سامنے مگر مچھی آنسو بہارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم معصوم اور مظلوم ہیں۔تین لاکھ لوگوں کو ذبح کرنے کے بعد بھی اگر یہ معصوم ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی یہ اور خون کے پیاسے ہیں ۔دنیا کے ان بد معاش ملکوں کی مکاری عیاری اور معصومیت پر سے نقاب اٹھاتے ہوئے دی گارجین لندن کے کالم نگار Owen Jones اوون جونس لکھتے ہیں کہ ’’طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سے زمین پر گرائے جارہے بیرل بموں کی تباہی کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے ہی مگر جس بلندی سے یہ بم گرائے جارہے ہیں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ اپنے اصلی نشانے کو نہ پہنچ کر معصوموں اور بے گناہوں کے قتل کا سبب بھی بن جاتے ہیں ۔شام کا صدر انہیں ہتھیاروں کا استعمال کررہا ہے جس کی زد میں آکر تقریباً چھ ہزار لوگ ہر سال موت کا شکار ہو جاتے ہیں مگر بشار الاسد کی اس درندگی اور سفاکیت کی نہ تو کوئی ویڈیو جاری کی جاتی ہے اور نہ ہی وہ خود پروپگنڈے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ اپنی معصومیت ثابت کرنے کے لئے انہوں نے بھی افسوس اور ندامت کے اظہار کا وہی طریقہ اختیار کررکھا ہے جو عراق اور افغانستان وغیرہ میں ناٹو کی فوج کی حکمت عملی رہی ہے ۔اس کے بر عکس عراق اور شام میں داعش کا اپنا چہرہ بالکل واضح ہے اور وہ اپنے ذریعے ہوئے قتل عام کوخفیہ بھی رکھنا نہیں چاہتے ۔مگر جس انداز سے ہم ان کے عزائم کو شدت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں ،ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ نازی ازم کے بعد یوروپ نے بھی عہد کیا تھا کہ اب یوروپ کی طرف سے ایسا گناہ کبھی نہیں ہوگا ۔مگر اس کے بعد صرف 1960 میں انڈونیشیا کے اندر دس لاکھ انسانوں کا خون بہایا گیا اور پھر کانگو ،ویتنام ،صومالیہ ،کمبوڈیا اور عراق وغیرہ میں امریکی طیاروں سے گرائے گئے کارپیٹ بموں سے ساٹھ لاکھ کے قریب انسانوں کاخون بہایا گیا۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ افغانستان میں ہمیں نے جہاد کی شروعات کی تھی اور اب ہماری ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے ہی داعش جیسی تنظیموں کو عروج حاصل ہوا ہے۔انہیں برا کہنے سے پہلے ہمیں اپنے منافقانہ کردار پر بھی غور کرنا چاہئے ‘‘ہندوستان ٹائمز 7 ؍مارچ 2015 ۔یہ سبق دنیا کے مسلم حکمرانوں کے لئے بھی ہے کہ وہ اپنی منافقانہ روش سے باز آجائیں اور عوام کو جمہوری طور پر اپنے حکمراں منتخب کرنے کا حق دیں ورنہ حالات تو بہر حال بدلیں گے اور بدل رہے ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لوگ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی گنوا بیٹھو ۔خود مسلم تنظیموں کے ذمہ داران اور علماء دین کو بھی حق کی ترجمانی کرنی چاہئے چاہے یہ بات ان پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے۔
عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی ۔موبائل: 9699353811

0 comments:

حرمین کا پیغام خادم الحرمین کے نام


پروفیسر محسن عثمانی ندوی
حرمین کا پیغام خادم الحرمین کے نام 
سیاست کی راہ بھی بڑی عجیب وغریب ہوتی ہے ، کبھی گلزار کبھی خارزار، کبھی آسان کبھی دشوار، کبھی شاخ گل کبھی تلوار ، ہم حرم مکی ہیں اور ہم حرم مدنی ہیں، ہم صرف دین محمدی کے ترجمان اور شریعت کے پاسبان ہیں ،ہمارے مینارے پورے عالم اسلام پر نظر رکھتے ہیں، ہم سیاست کے نشیب وفراز سے واقف ہیں اور حالات کی کروٹوں پر نظر رکھتے ہیں۔جوبھی اسلام اور مسلمانوں کیلئے صحیح کام کرتا ہے ہم اس کے لئے دل سے دعا گو ہوتے ہیں اور جو بھی غلط کام کرتا ہے چاہے وہ اسی سرزمین کا فرماں رواہی کیوں نہ ہوہماری روح اس کو ماننے سے ابا کرتی ہے۔ کسی حکومت سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ ہم سے محبت کرنے والے ایک ہندوستانی شاعر نے اپنے بارے میں جو کہا تھا وہی شعر مجھ پر صادق آتا ہے 
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن 
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
ہمارے ہی میناروں نے کل سعودی حکومت کی عبد الفتاح سیسی نوازی پر اور اخوان دشمنی پرخون کے آنسو بہائے تھے ،آج ہمارے ہی مینارے آپ کی ، خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز کی، حوثیوں کی یورش کو کچلنے کی کوشش پراور سیاست میں صحیح روش اختیار کرنے پرتعریف کرنے پر مجبور ہیں، یمن میں یہ اقدام دین اسلام کا عین تقاضہ ہے اور اسلام کی حفاظت کے لئے ایک صحیح اور ضروری قدم ہے ، 
خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز ، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کی عزت ہمارے نام سے ہے ، ساری دنیا میں آپ کا نام محترم ہی اسی لئے ہے کہ اس میں ہماری طرف یعنی حرمین نسبت کی گئی ہے ، ساری دنیا میں مسلمانوں کے طائرٍ روح کا نشیمن حرمین کی سرزمین ہے وہ اس کے لئے اپنی جانیں قربان کرسکتے ہیں اور اپنا سب کچھ نثار کرسکتے ہیں، چونکہ آپ کی نسبت حرمین کی طرف ہے اس لئے آپ کے صحیح اقدام سے تمام مسلمانوں کو خوشی ہوتی ہے ، اس وقت آپ نے یمن میں جواقدام کیا ہے وہ درست بھی ہے اور بروقت بھی ہے ، علی عبد اللہ صالح نے شیعہ حوثیوں سے مل کر اور ایران کے تعاون سے ہادی منصور کی جائز حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی، ہمارے میناروں نے اسلحہ سے بھرے ہوئے پانی کے جہاز دیکھے ہیں جو ایران سے بھیجے گئے تھے تاکہ ملک کے اندر خلفشار پیدا کیا جائے اور شیعیت کے قدم جمائے جائیں اور حرمین کی سرزمین کو شہ مات دی جائے ۔ اس طرح یمن میں ایرانی سرگرمیوں نے سعودی عرب کے لئے داخلی سلامتی کا مألہ پیدا کردیا تھا اس لئیے سعودی عرب کو اس کا نوٹس لینا ہی تھا ، جب ملک کے پایہ تخت صنعاء پر حوثیوں نے جارحانہ کارر وائی کے ذریعہ قبضہ کرلیا تھا ا ور قصر صدارت کو زیر نگین کرلیاتھا اور ہادی منصورکو جو یمن کے جائز اور دستوری فرمانرواں ہیں اور دنیا کے تمام ملک ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں بیرون ملک پناہ لینی پڑی تھی اس وقت یمن کے فرمانرواں منصور ہادی نے حوثیوں کی جارحیت کے خلاف سعودی عرب سے مدد طلب کی تھی دنیا کے ہر قانون کے تحت یمنی صدر کی مدد کے لئے سعودی عرب کا یہ اقدام درست ہے اس پر ایران کو اور اخبارات میں ایران کی لابی کو واویلا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔آج ایرانی لابی اخبارات میں اس خبر کو اس طرح پیش کررہی ہے جیسے سعودی عرب نے کسی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے ۔ شام اور عراق میں ایران کی کھلی ہوئی جارحیت پریہ اخبارات خاموش رہتے ہیں ۔شام میں جو ناقابل بیان ظلم ہوا ہے چشم فلک نے اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں دیکھی ہے ۔
خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز ، آج کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ آپ کی حکومت نے ایرانی جہاز کو ہوائی اڈے پر اترنے نہیں دیا اس میں عازمین عمرہ سوار تھے ، اور یہ اس وجہ سے کہ پہلے سے جہاز کی روانگی کی کوئی اطلاع تھی اور نہ سعودی عرب میں اترنے کا اجازت نامہ۔ بظاہر تو یہ بات مشہور کی جائیگی کہ عازمین عمرہ کو عمرہ سے روکا گیا لیکن اس غلطی کی تو بہر حال سزا ملنی ہی چاہئے تھی کہ پہلے سے اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور نہ سعودی عرب میں جہاز کے اترنے کی اجازت حاصل کی گئی تھی ۔ میری آنکھوں نے اپنی دور بین نگاہوں سے شام میں ایرانی حکومت کی اور حزب اللہ کی سفاکانہ غارت گری دیکھی ہے۔تین لاکھ معصوم جانیں شام میں ہلاک ہو چکی ہیں اور بیس لا کھ پناہ گزین ہیں اگر چہ بظاہر یہ کارروائی بشار الاسد کی ہے لیکن اگر بشار کی حمایت میں ایران کا پنجہ سفاک اوردست غارت گر نہ ہوتا تو بشار کو بہت پہلے ملک چھوڑ دینا پڑتا۔لاکھوں معصوم بچوں عورتوں اور مردوں کے قتل کے خون کے دھبے ایران کے دامن پر ہیں۔اگر اس کی پاداش میں سعودی عرب ایران کے تمام عازمین حج وعمرہ کو اس وقت تک کے لئے حج اور عمرہ سے روک دے جب تک ایران شام وعراق میں ظلم وسفاکی سے دست کش اوردامن کش نہیں ہوجاتا ہے تو سعودی عرب کا یہ اقدام غلط نہیں ہوگا۔ آخر شام کے لاکھوں مظلوموں کی داد رسی کیسے ہوگی، اور ملک شام کی سیاہ رات کب ختم ہوگی؟ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم بہت خطر ناک ہیں، شام پر اس کا قبضہ، عراق پر اس کا قبضہ ، لبنان پر اس کا قبضہ ، یمن اور بحرین اس کے نرغے میں، آخر وہ وقت کب آئیگا کہ ایران کے بے پناہ ظلم وستم کے خلاف اسلامی ملک حرکت میں آئیں گے۔ اسلام اور عالم اسلام کو سب سے بڑ ا خطرہ ایران سے ہے، کسی کو غلط فہمی نہ ہو ،ہم شیعہ اور سنی کی بات نہیں کرتے ہیں ،شیعیت تو یزید کے مقابلہ میں حق کا اور امام حسین کے ساتھ دینے کا ایک تاریخی حوالہ ہے، کیا ایران کو شیعیت یہی سکھاتی ہے کہ وہ یزید سے زیادہ بدکردار بشار کی حمایت کرے جس کی حکومت کا کوئی جواز موجود نہیں اور ان اسلام پسند جماعتوں سے لڑے جو شام میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم خادم الحرمین سے یہ نہیں کہتے کہ وہ شیعہ مسلک کے لوگو ں کو حج اور عمرے سے روک دیں، لیکن اگر وہ ایران سے حج اور عمرہ پر آنے والوں پر روک لگا دیں تو یہ اقدام پورے طور پر قرین انصاف ہوگا۔ایران کی موجودہ حکومت حسینیت کی نہیں یزیدیت کی نمائندگی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں ہزاروں ہزار شیعہ ہیں اور ان میں بعض مرجعیت کا درجہ رکھتے ہیں جو شام کے سلسلہ میں اپنی حکومت کی پالیسی سے ناراض ہیں اور اس پالیسی کو شیعہ مخالف پالیسی سمجھتے ہیں ۔اور عرب چینلس پر ان کے انٹرویو نشر ہوچکے ہیں ۔
عالی مرتبت جناب خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز!آپ کی عالی مقامی ہمارے دم سے ہے ، ہمارے مینارے جو باتیں گوش گذار کررہے ہیں انہیں غور سے سنئے ، دنیا کے تمام مسلمانوں نے آپ کی ذات سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، آپ نے اقتدار سنبھالتے ہی فوراً خالد التویجری کو بڑے بھائی کی تدفین سے پہلے ہی معزول کردیا، آپکو شاید اندازہ نہ ہو کہ عالم اسلام میں ہر گھر میں اس خبر کے چرچے تھے کیونکہ گذشتہ عہد میں آپ کے بڑے بھائی کی بیماری اور معذوری کا فائدہ اٹھا کرکے سارے غلط فیصلے اسی شخص نے کرائے تھے، لوگوں کا خیال ہے کہ عالم اسلام کی مسلم اور محترم دینی جماعت الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے میں بھی اسی تویجری کا ہاتھ تھا۔اور پھراخوان کی جمہور ی اور دستوری حکومت کو ختم کرکے عبد الفتاح سیسی جیسے فاسد اور مفسد شخص کی حمایت اور مالی مدد بھی اسی تویجری کے ایماء اور اشارے پر ہوئی تھی، آج ہزاروں مظلوم اور بے کس اور بے سہارا لوگ مصر کی جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں اور سینکڑوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ آپ کے اقتدار کے تخت پر جلوہ افروز ہونے سے ان مظلوموں کے لئے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ آپ حصار ظلم وستم کو گرائیں گے وہاں اندھیری رات ختم ہوگی اور نیا سورج طلوع ہوگا۔ مسلمانوں کو مایوس مت کیجئے ، آپ مصر پر دباو ڈالئے، بے قصور لوگوں کو رہا کروائیے۔جب لوگوں کو صحیح یا غلط یہ خبر ملی تھی کہ عبد الفتاح سیسی جب آپ سے تعزیت کے لئے ملنے آئے تو آپ نے ان سے ملنا پسند نہیں کیا، آپکو اندازہ نہیں ہوگا ہزاروں لاکھوں مسلمان گھروں میں کیسی خوشی اور مسرت کی لہراس خبر سے دوڑ گئی تھی، دنیا کے مسلمان آپ سے یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ آپ اپنے پیش رو کی غلطیوں کو بہ تدریج ٹھیک کریں گے اور سعودی عرب کے وقار کو پورے طور پر بحال کریں گے۔
محترم المقام خادم الحرمین الشریفین! میری دور بین آنکھوں نے عالم اسلام کی دینی کانفرنسوں کو دیکھا ہے اور علماء مشائخ اور اہل دین کی آوازیں میرے کانوں تک پہونچی ہیں۔میرے کانوں کو دنیا کے بہت سے ملکوں اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں تقریرں کے سننے کا موقع ملا ہے۔عبد الفتاح سیسی جیسے مجرم کی مدد نے سعودی عرب کی شہرت کو داغدار کیا تھا،میں اگرچہ حرم کا مینار ہوں لیکن اللہ کے فضل سے میری قوت مشاہدہ بہت تیز ہے اور میری قوت سماعت حیرت انگیز ہے، آپ یقین کیجئے کہ میں نے جو کچھ اس وقت آپ سے کہا ہے یہ پورے عالم اسلام کی آواز کی صدائے باز گشت ہے ہمیں نہیں معلوم کہ یہ آواز آپ کے کانوں تک پہنچی یا نہیں پہنچی ہے۔ ساری دنیا میں آپ کے جو سفارت خانے ہیں ان کا کام ہے کہ عالم اسلام کے جذبات کو آپ تک پہنچائیں اس لئے کہ عالم اسلام آپ سے جتنی مجت کرتا ہے اور کسی سے نہیں کرتا اور یہ آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ عالم اسلام کو اعتماد میں لیکر وہ قدم اٹھائیں جس سے اسلام سرسبز وسر بلند ہو۔اس وقت شام کے معصوم باشندوں کی داد رسی کرنا اور ان کو ظلم سے بچانا اور ایران کو کیفر کردار تک پہنچانا آپ کی منصبی ذمہ داری ہے ۔
میری جانب نسبت کرنے والے معززومکرم خادم الحرمین ، میں نے جو باتیں آپ کے گوش گذار کی ہیں وہ آپ کے التفات کی مستحق ہیں ، میں مینارہ حرم ہوں لیکن خدا نے مجھے زبان دی ہے ( انطقنا الذی انطق کل شي )
آپ نہ صرف یمن کا بلکہ ایران کی ریشہ دوانیوں کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیجئے ۔یمن میں اس وقت آپ کا اقدام سو فی صد درست ہے ، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اخبارات میں بھی ایرانی لابی اتنی طاقتورہوگئی ہے کہ اس میں حق بات کو سامنے آنے نہیں دیا جاتا ہے ۔ کوئی ایران پر تنقید کرے یا عراق کے حکمراں پر تو وہ بیان شائع نہیں ہوسکتا ہے ، شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والوں کی مذمت میں بیان شائع ہوگا لیکن بشار اور ایران کی مذمت میں کوئی بیان یا مضمون شائع نہیں ہوسکے گا اور یمن میں سعودی حکومت کے جائز اقدامات کی کوئی حمایت کرے تو اخبارات میں یہ خبر تشنہ طباعت رہ جائے گی ، کوئی ایسی خبر زیور طبع سے آراستہ نہ ہوسکے گی جس میں سعودی حکومت کی حمایت ہو اور ایران موضوع تنقید ہو۔ ابھی کچھ دن پہلے ہندوستان میں عربی زبان کے اساتذہ کی طرف سے سعودی عرب کی حمایت میں بیان جاری کیا گیا تھا انہیں اخبارات میں عام طور جگہ نہیں مل سکی۔ ان چیزوں کا نوٹس لینا اور مناسب اقدام کرناآپ کے سفارت کاروں کا کام ہے ۔یہ سفارت کاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جانیں کہ وہ کون سے اخبارات ہیں جو سعودی عرب کو طاقتور اور معزز دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ کون سے اہل قلم ہیں جو سعودی عرب سے محبت کرتے ہیں اور کبھی تنقید بھی کرتے ہیں تو بربنائے اخلاص اور ایک دینی فریضہ کے طور پر۔آنکھ بند کرکے ہر اقدام کی حمایت کرنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں ہے کیونکہ قلم ان کے ضمیر کی ایک امانت ہے اور عدل کی میزان ہے،انہیں نہ حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ ۔

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

0 comments:

مسلمان کب تک دوسروں کی ڈولی ڈھوتے رہیں گے؟

مسلمان کب تک دوسروں کی ڈولی ڈھوتے رہیں گے؟
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

ہندوستانی مسلمان تقریباً پون صدی سے اپنوں اور غیروں کی بسائی ہوئی خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ 1947 سے آج تک وہ اس طرح محو خواب رہے ہیں کہ ان کا ہر خواب ایک نئے خوف کی تعبیر بن کر سامنے آتا رہا ہے۔ دلچسپ اور فکر انگیز بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی خوابوں کی اس خوفناک دنیا سے باہر آنے کی کوشش کی ہے انہیں دھکیل کر پھر وہیں پہنچا دینے والوں میں غیروں سے کہیں زیادہ اپنوں کا رول رہا ہے۔ یہ صورتِ حال اس وقت قابل دید ہوتی ہے جب الیکشن قریب ہوتا ہے اور مسلمانوں کے سوداگر گھر گھر پہنچ کر اپنے پسند کی خواب گاہوں یا باڑوں میں پہنچانے کی جی توڑ کوشش کرتے ہیں۔ یہ مفاد پرست سیاست داں ایک طرف اپنے طے کردہ باڑے میں ہی مسلمانوں کو پہنچنے کی ترغیب دیتے ہیں، تو دوسری طرف ان کے سروں کا سودا بھی کیے ہوئے ہوتے ہیں، اس طرح ان کا یہ کاروبار ملک کی آزادی کے ساتھ طلوع ہونے والے سورج کی روشنیوں کی طرح پھیلتا ہی گیا۔ یوں ہی بے غیرت لوگ دن بہ دن مالا مال ہوتے رہے ہیں اور عام مسلمان کنگال اور بے حال ہوتے گئے۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ مسلمانوں کو دوسروں کے اقتدار کی ڈولی ڈھونے کے لیے کہار بننے پر بھی مجبور کردیا، تو سیاسی پارٹیوں کے نزدیک اب ان کا مصرف صرف یہی رہ گیا کہ وہ کسی بھی سیکولر پارٹی کی ڈولی کو ڈھوکر اسے ایوانِ اقتدار تک پہنچاتے رہیں اور خود کہار کے کہار ہی بنے رہیں۔ ظاہر ہے ان کی حیثیت ایسی اس لیے بنی کہ آزادی کے فوراً بعد سے ہی ان کے قائدین نے، ان کی اپنی جماعتوں نے، ان کے ارباب عقل و دانش نے ان سے یہی اور صرف یہی کہا کہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں اور کس پارٹی کو نہ دیں اور اس کے لیے بھی انہوں نے بنیاد اس بات کو بنایا کہ فلاں پارٹی ان کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے اور فلاں پارٹی ان کا جینا دوبھر کردے گی۔ اس کے صلے میں انہیں بھیک کے ٹکڑے کے طور پر کچھ ملتا بھی رہا اور وہ اس کے لیے اسی فکر میں ہمیشہ رہے کہ کس کے در پر جبین نیاز جھکائی جائے اور کسے اپنا حاجت روا قرار دے کر اپنے مطالبات کی پوٹ اس کے قدموں میں ڈال دی جائے۔ ان کے نزدیک غیرت نام کی کوئی چیز نہیں رہی اس لیے انہوں نے ایک باغیرت قوم کے طور پر اقتدار میں شرکت کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ 
سوال یہ ہے کہ مسلمان آخر کب تک اپنوں اور غیروں کی سیاست کا مہرہ بنے رہیں گے؟ کیا ان کی حیثیت صرف ایک ووٹ بینک کی ہے؟ کیا اب وہ اس مقام پر واقعتاً پہنچ گئے ہیں کہ جہاں کوئی بھی انہیں جس باڑے میں چاہے ہانک کر پہنچادے۔ اس سوال کا جواب اثبات میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کو ان کے قائدین نے اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں ان کی حیثیت صرف ایک سیاسی مہرہ سے زیادہ رہ ہی نہیں گئی ہے۔ ان کا مصرف اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ کسی ملائم سنگھ، کسی لالویادو، کسی مایاوتی، کسی دیوگوڑا، کسی جے للتا، کسی ممتا یا کسی پوار کی پالکی ڈھوکر انہیں ایوان اقتدار تک پہنچاتے رہیں۔ 
یہ کتنی تلخ اور کتنی عبرت انگیز حقیقت ہے کہ ملک کے تقریباً 20 کروڑ مسلمانوں کو اپنے سیاسی رویہ کے تعین کے لیے کوئی ایجابی اور تعمیری بنیاد مہیا کرنے کے بجائے ان سے صرف یہ کہا گیا کہ دیکھو فلاں پارٹی یا فلاں جماعت تمہیں ہضم کرلے گی۔ تمہیں اچھوت بنادے گی، تمہاری تہذیب تمہاری ثقافت اور تمہاری زبان چھین لے گی، اس لیے اس کے خلاف متحد ہوجاؤ اور ان امیدواروں کو ہی ووٹ دو جو اسے شکست دے سکیں۔ ان کے اندر جان بوجھ کر ایک منصوبہ بند طریقے سے خوف کی نفسیات کو پروان چڑھایا گیا اور اس سے جی بھر کر ان لوگوں نے بھی فائدہ اٹھایا جو اقتدار کے خواہاں تھے اور ان لوگوں نے بھی جو اپنے حقیر مفادات کے حصول کے لیے ان کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان میں خود غرض سیاست داں بھی تھے، صاحبانِ جبہ و دستار بھی تھے اور وہ لوگ بھی جنہوں نے بزعم خود دین کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ مسلمان یہ طے نہیں کرلیں گے کہ انہیں بچولیوں سے دامن چھڑاکر اپنی سیاست خود اپنے لیے کرنی ہے۔ انہیں کسی اور کے پلڑے کی زینت بننے کے بجائے اپنا باڑہ بنانا ہے اور اپنے خوابوں کی بستی خود تعمیر کرنی ہے۔ 
مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کرلینی چاہیے کہ ان کے مسائل و مصائب کا حل خود ان کے سوا کوئی اور تلاش نہیں کرسکتا۔ زندگی کی رزم گاہ میں جو لوگ بیساکھیوں کے سہارے داخل ہوتے ہیں اور دوسروں کی انگلی پکڑ کر چلتے رہنے کو ہی سیاسی تدبر کی معراج قرار دے لیتے ہیں وہ کبھی بھی کامیابی و کامرانی کی منزل مراد سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ ہوتا یہ ہے کہ گریہ وزاری اور سینہ کوبی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جسے جو بھی چاہے آسانی سے پڑھ سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلمان اسے پڑھنے سے ہمیشہ گریزاں رہے ہیں۔ وہ ان بازیگروں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے ہیں جو انہیں بھیڑ بکروں کی طرح ہانک کر کبھی اس باڑے میں تو کبھی اس باڑے میں پہنچاتے رہے ہیں۔ 
یاد رکھیے! آپ اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔ آپ کو بھی اپنی سیاست آپ کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ اگر اس ملک میں یادؤں کی سیاست، کرمیوں کی سیاست، جاٹوں کی سیاست، لودھوں کی سیاست، ہریجنوں کی سیاست اور دیگر پسماندہ طبقات کی سیاست کی جاسکتی ہے تو آخر مسلمانوں کی سیاست کیوں نہیں کی جاسکتی ہے؟ مسلمان ایک سیکولر گروہ کی حیثیت سے اپنے آپ کو منظم کرسکتے ہیں اور ایک منظم جماعت، ایک منظم گروہ کی حیثیت سے وہ دوسری سیکولر طاقتوں سے معاہدہ بھی کرسکتے ہیں اور اقتدار میں اپنا حصہ بھی طلب کرسکتے ہیں۔ اس کے بغیر انہیں بھیک تو مل سکتی ہے ان کا حق نہیں مل سکتا۔ اور جو لوگ یا جو قومیں بھیک پر گذر بسر کو ہی اپنا وطیرہ بنالیتی ہیں انہیں ظاہر ہے باعزت زندگی کی نہ خواہش کرنی چاہیے نہ اپنے خوابوں کی مثبت تعبیر کی امید ہی رکھنی چاہیے۔ ایسے میں انہیں ایک مہرے کے طور پر، ایک ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کیا جائے گا اور اس کے سوا اور کوئی مقام انہیں نہیں ملے گا۔ مسلمان مجبور بھی ہیں اور مظلوم بھی، لیکن وہ اس پوزیشن میں بہرحال ہیں کہ اپنے آپ کو منظم کرکے اقتدار میں اپنا حصہ حاصل کرسکیں۔ انہیں اس سلسلے میں بھی اب سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ عزت و وقار کی زندگی انہیں کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کردیں اور کسی جمہوری ملک میں کسی گروہ کے اندر بہ حیثیت اس صورت میں ہی پیدا ہوسکتی ہے جب وہ بیساکھیوں کی تلاش کا سلسلہ ختم کردے اور خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لے۔ 
مسلمانوں کو ملک کے سیاسی منظر پر رونما ہونے والی نت نئی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ طوفان باد و باراں انہیں پوری طرح گھیر لے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے چھان چھپر درست کرلیں اور اپنے آپ کو اس پوزیشن میں لے آئیں کہ سیکولر اورجمہوریت پسند قوتوں کے ساتھ مل کر وہ اس ملک کو بدترین قسم کی آمریت اور برہنہ فاشزم کی ہلاکت خیز بھنور میں گرفتار ہونے سے بچانے میں اپنے شایان شان رول ادا کرسکیں۔

0 comments:

فری ٹو ایئرآئی پلس فیملی ٹی وی چینل کی ممبئی میں لانچنگ

فری ٹو ایئرآئی پلس فیملی ٹی وی چینل کی ممبئی میں لانچنگ
مذکورہ ٹی وی چینل معاشرے میں اخلاقی اقدار کے فروغ اور ملک کی سلامتی و بقا کے لئے کام کرےگا :زید خالد پٹیل

    ممبئی (9 اپریل 2015): آج ممبئی سی ایس ٹی میں واقع مراٹھی پتر کار سنگھ میں آئی پلس ٹیلي ميڈيا پرائیویٹ لمیٹڈ، نے فری ٹو ایئر فیملی ٹی وی چینل، آئی پلس ٹی وی لانچ کرنے کا اعلان کیا۔جسے 10 اپریل جمعہ، کو ممبئی میں لانچ کیا جانا ہے۔ آئی پلس ٹی وی اردو اور ہندی بولنے والے کمیونٹی کے شائقین کے لئے سماجی و ثقافتی، تفریحی، تعلیمی اور اسلامی پروگراموں کو نشر کرے گا.
    آئی پلس ٹی وی کےصدر اور منیجنگ ڈائریکٹر زید خالدپٹیل نے آج کے پریس کانفرنس میںصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی "بہتر زندگی" کے پیش نظر ایسی صحت مند اور مفید معلوماتی مواد، جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ انسان کو فائدہ دے سکے، اپنے ناظرین کو فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہی ہے، انہوں نے کہاکہ ہمارا مقصد معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ناظرین کو ایک ذمہ دار شہری بننے کے لئے حوصلہ افزائی کرنا ہےاور ان کے لئے رہنما ئی فراہم کرنا ہے، جو صحت مند معاشرے کی تعمیر میں تخلیقی شراکت فراہم کر سکے۔
    انہوں نے یہ بھی کہا کہ، آئی پلس ٹی وی مباحثہ، سیمینار، لیکچر، ورکشاپ، ڈائیلاگ، تربیتی کیمپوں، اور سیمینار وغیرہ کے ذریعے تمام کمیونٹیز کے درمیان مذاہب کی بنیاد پر پھیلی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے سہولت فراہم کرے گی۔ آئی پلس ٹی وی کو پوری طرح ایک فیملی چینل بنانے کے لئے خصوصی انتظامات کئے جا رہے ہیں اور ہمارا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ، آئی پلس ٹی وی پر اس طرح کے مواد ہوں جو معاشرے کے ہر طبقہ کے لوگوں کو پسند آئےنیز وہ معاشرے کی تعمیر میں مثبت رول بھی ادا کرسکے اور شدت پسندی، تعصب، نسل پرستی، نفرت، فحاشی، تشدد، توہین یا کسی کی دل آزاری کرنے یا دوسری صورت میں قابل اعتراض مواد کو اس چینل پر کبھی بھی نشر نہیں کرنے کے لئے ہم پابند عہد ہیں۔
    اسلامی تعلیمات کے علاوہ ہم نےمعاشرتی برائی بھیک مانگنے، خاندانی منصوبہ بندی، کسانوں کی خودکشی، منشیات، بدعنوانی، خواتین کے خلاف جرائم جیسی مختلف سماجی مسائل پر بھی باقاعدگی سے مواد نشر کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔آئی پلس ٹی وی پروگرامنگ کے لئے بالکل مختلف طریقہ کار استعمال کرے گا۔ لیکچر کے علاوہ، انٹرویو، مذاکرات، ذاتی اور اجتماعی مباحثہ اور دستاویزی فلم وغیرہ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ہم انٹرایکٹو پروگراموں کا بھی انعقاد کریں گے جس میں ناظرین بھی حصہ لے سکیں گے۔آئی پلس ٹی وی کے پاس حکومت ہند کی طرف سے نشریات کے لئے ضروری اجازت اور لائسنس موجودہے۔آئی پلس ٹی وی کے پاس پوری طرح وقف اور تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کی ایک ٹیم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ جدید بنیادی ڈھانچے سے بھی لیس ہے۔انہوں نے مزید وضاحت سے صحافیوں کو بتایا کہ ہمارا کسی سے مقابلہ نہیں ہے ۔عام طور پر جو لگ مذہب سے جڑے ہوتے ہیں وہ معاشرے سے کوئی لگائو نہیں رکھتے اور جو معاشرے کی فلاح کے لئے وقف ہوتے ہیں ان کو مذہبی اقدار سے کوئی لگائو نہیں ہوتا ۔ہم کوشش کی ہے کہ ہم مذہب کو معاشرے کی بھلائی میں کیا رول ہے اسے اجاگر کریں ۔اس لئے ہم نے مذہبی و معاشرتی چینل کا اراداہ کیا جو آپ کے سامنے ہے ۔ہماری خواہش ہے کہ آپ بھی ہمارے اس مشن میں جڑیں اورمعاشرے کی مثبت پیش رفت میں ہما را ساتھ دیں۔
    انہوں نے بتا یا ،چونکہ آئی پلس ٹی وی حکومت ہند کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، اس لئے اس کو ملک کے کونے کونے میں تمام ڈي ٹی ایچ اور کیبل آپریٹرز کے ذریعے نشر کیا جا سکتا ہے۔ آئی پلس ٹی وی پوری طرح مفت نشریات پیش کرنے والا چینل ہے، اس لئے ناظرین سے کسی بھی قسم کی رکنیت کی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
    


تکنیکی معلومات:
• Satellite: Insat 4A at 83.0 ° E    
• Downlink Frequency: 4133 Mhz H

0 comments:

گاندھی کا قاتل کون؟

عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی۔ موبائل:9699353811 
گاندھی کا قاتل کون؟
جسٹس کاٹجو نے مہاتما گاندھی اور سبھاش چندر بوس کو برطانیہ اور جاپان کا ایجنٹ قرار دے کر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے یہ بات تو وہی بتاسکتے ہیں کہ کہیں وہ خود بھی تو کہیں وہی کردار ادا نہیں کررہے ہیں؟خود ان کا نام بھی اخبارات کے صفحات پر ان کے ایک متنازعہ فیصلے کے بعد روشن ہوا جب انہوں نے عدالتی شنوائی کے دوران ایک مسلم نوجوان کی داڑھی پر تنقید کرتے ہوئے اس کے اس عمل کو طالبان سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی تھی۔مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کرنے کے بعد انہوں نے معافی تو مانگ لی مگر اس عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے جس طرح اپنا سیکولر کردار پیش کیا ،مسلمانوں کے حق میں بیانات بھی دئیے ،سیکولر عوام اور خود مسلمانوں کے ہمدرد بھی شمار ہونے لگے۔لیکن جس طرح انہوں نے مسلمانوں کی داڑھی کو طالبان سے جوڑ کر دیکھا کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہ صرف اسلام کی مکمل معلومات نہیں رکھتے بلکہ اپنی ذہنیت سے مذہب بیزار بھی نظر آتے ہیں۔ان کے نزدیک مہاتما گاندھی اس لئے برطانیہ کے ایجنٹ ٹھہرے ہیں کیوں کہ انہوں نے تحریک آزادی کے دوران مذہب کو سیاست میں داخل کرکے دو قومی نظریہ کو تقویت بخشی ہے مگر سبھاش چندر بوس کو جاپان کا ایجنٹ کیونکرقراردیا جاسکتا ہے؟انکی طرف سے کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کی گئی ۔انہیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ آخر جنگ آزادی کے ان دونوں مجاہدین نے اپنے اس گناہ یا برے کردار سے کیا حاصل کیا یا ان کی اولادوں کو بھی کیا کوئی سیاسی فائدہ پہنچا۔جبکہ سبھاش چندر بوس خود بھارت رتن کے اعزاز سے محروم ہیں اور ہندوستان کے اصل گاندھی ہونے کا اعزاز اور خطابات ہمارے معزز وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے خاندان کے حق میں چلا گیا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہماری دنیا کا یہ ایک فیشن اور چلن رہا ہے کہ جب کوئی شخص کسی وجہ سے شہرت پاچکا ہوتا ہے اور اپنی شہرت کھوتا ہوا نظر آتا ہے تو وہ کسی مرحوم اور معزز شخصیت کے خلاف مغلظات بکنا شروع کردیتا ہے ۔یا اکثر اخبارات اور صحافی حضرات جنہیں اپنی تصنیفات کے لئے شہرت حاصل کرنا ہوتی ہے تو کوئی ایسا متنازعہ شوشہ چھوڑ دیتے ہیں جس سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔صحافیوں اور مصنفوں میں سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین اور وی ایس نائپال اسریٰ نعمانی جیسے نئے تخلیق کار جو اپنی سنجیدہ تخلیقات سے لوگوں کو متاثر نہیں کرسکے وہ اپنے متنازعہ کردار اور بیانات سے مشہور ہوگئے اور اکثر اسلام دشمن تنظیمیں اور ادارے ان کو معاشی اور اخلاقی مدد اور تعاون کے لئے بھی تیار رہتے ہیں۔موجودہ صورتحال میں اگر آپ عالمی اور ملکی سرکاری ایجنسیوں اور لبرل طبقات کی خوشنودی حاصل کرکے اخبارات میں چھپنا اور شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو طالبان ،ملا عمر ،القاعدہ ،اسامہ بن لادن،دولت اسلامیہ اور البغدادی کو امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے اسی فہرست میں آر ایس ایس اور مودی کو بھی کھڑا کرکے لفظوں کی کنکریاں مارنا شروع کردیجئے توثواب کے ساتھ ساتھ واہ واہی ملتی رہے گی ۔مہاتما گاندھی نے اگر اپنے آپ کو سناتنی دھرم سے منسلک ہونے کا اعتراف کیاتو اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے اور نہ ہونا چاہئے ۔سچ تو یہ ہے کہ آدھی صدی پہلے کے ان تحریکی لوگوں میں وہ چاہے ہندوؤں کے ہی رہنما ہوں کیوں نہ ہوں مسلم رہنما کی طرح ان کی اخلاقی قدریں بھی زندہ تھیں اور انہوں نے اگر اپنے اصول و عہد پر کسی حد تک قائم رہنے کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کی وجہ ان کا مذہب سے وابستہ ہونا بھی ہے ۔جہاں تک مہاتما گاندھی گائے ذبیحہ کئے جانے کے خلاف تھے تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے خود مسلم حکمراں بابر نے بھی ملک کے ہندوؤں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ہمایوں کو ایسا نہ کرنے کی نصیحت کی تھی یہ بھی ہماری تحریک آزادی اور وطن عزیز کا ایک المیہ ہے کہ کچھ لوگوں کو مہاتما گاندھی کی یہ مذہبی رواداری پسند نہیں جیسا کہ وہ کہتے تھے کہ میرا خدا صرف گیتا اور رامائن میں ہی نہیں رہتا میں اسے قرآن بائبل اور توریت میں بھی تلاش کرتا ہوں۔ایسے شخص کو شدت پسند مذہبی تنظیم کے ایک رکن ناتھو رام گوڈسے نے ایک مذہبی تقریب کے دوران بھگوان کی چھتر چھایا میں ہی قتل کرڈالا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جب انہوں نے رام راجیہ کے ساتھ ساتھ حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کی خلافت اور ان کی سادگی پر مبنی حکومت کی بات کا تذکرہ کیا تو لوگوں نے پوچھا کہ آپ اسلامی قوانین نافذ کریں گے جہاں آنکھ کے بدلے آنکھ اور قتل کے بدلے قتل کیا جاتا ہے تو گاندھی جی نے اس کے برعکس جواب دیا اور اکثر مورخین ان کی طرف سے شک و شبہات کے بیانات کو لے کر انہیں اسلام مخالف مانتے ہیں جبکہ یہ سچ نہیں ہے ۔اختلافات تو خود مسلمانوں کے اپنے علماء میں بھی رہے ہیں اور خاص طور سے مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد تو ہمارے بہت سے علماء دین کو لبرل جمہوری نظام اور سیاست میں اسلام کا گمشدہ خزانہ نظر آنے لگا اور اب ان کی دوسری اور تیسری نسل تو صراط مستقیم کے لئے اسی تالاب میں غوطہ لگارہی ہے ۔ مگر ابھی تک کوئی امید کی کرن بھی دکھائی نہیں دیتی کہ بھولے بھٹکے ہوئے لوگوں کو صحیح سمت دی جاسکے۔ایسے میں مہاتما گاندھی کی جرات کو سلام کیا جانا چاہئے کہ اگر وہ چند اسلامی نظریات کے مخالف بھی رہے ہیں تو یہ ان کا علم تھا اور اس سے بھی زیادہ وہ جس ماحول سے آئے تھے وہاں ہزاروں خداؤں کی پوجا کی جاتی تھی اور اگر وہ بغاوت بھی کرتے تو کہاں جاتے،مسلمانوں نے گھر واپسی کے لئے غیروں کے لئے کوئی ٹھکانہ بھی تو نہیں بنایا تھا۔بقول اقبال کہ یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو ،تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو۔اس کے باوجود گاندھی کو فرقہ پرست نہیں کہا جاسکتا شاید اپنی اسی اصول کی بنیاد پر انہوں نے نہ صرف ملکی پارلیمنٹ اور اپنے قریبی ساتھیوں کی مخالفت کا سامنا کیابلکہ ہندو تنظیموں کی نظر میں بھی دشمن قرار پائے ۔عام طور پر گاندھی کے قتل کی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ ہندو تنظیموں نے پاکستان کے بٹوارے کی وجہ سے ان کا قتل کیا جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے خو دابولکلام آزاد نے اپنی کتاب میں اس کا ذمہ دار نہرواور پٹیل کو ٹھہرایاہے۔دوسری وجہ پچیس کروڑ کی بقایا رقم تھی جسے ہماری پارلیمنٹ نے پاکستان کے ذریعہ کشمیر میں بغاوت کرانے کی وجہ سے نہ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا مگر مہاتما گاندھی کی ضد اور بھوک ہڑتال کی وجہ سے یہ رقم پاکستان کو دے دی گئی ۔سواال یہ ہے کہ پاکستان کا بٹوارہ بھی ہوچکاتھا اور ہندوؤں کے سارے لیڈران اس بٹوارے سے خوش تھے اور بقایا رقم بھی پاکستان کو دیدی گئی ۔پھر اس کے بعد ایک بوڑھے شخص کے قتل کئے جانے کاکیا مطلب جو اگر زندہ بھی رہتا تو ایک دو سال میں ہی اٹل بہاری واجپئی کی طرح کوئی فیصلہ لینے کے بھی قابل نہیں رہتا ۔اکثر مورخین نے لکھا ہے کہ ۱۹۳۴ کے بعد سے گاندھی پر تین حملے ہوچکے تھے جبکہ اس وقت پاکستان اور پاکستان کوبقایا رقم دینے جیسا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ایسے میں کوئی ایسا سنگین راز ضرور ہے جس پر سے پردہ اٹھنا چاہئے تھا اور جسے حاصل کرنے کے لئے گاندھی کے قاتل گاندھی کو فطری موت مرنے کا بھی موقع دینا نہیں چاہتے تھے ۔عدالت میں ناتھو رام گوڈسے کی پوری تقریر سننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل نہیں ہے کہ گاندھی کے قتل میں صرف ناتھو رام گوڈسے اور آر ایس ایس ہی شریک نہیں تھی اور نہ ہی ناتھو رام گوڈسے کی طرف سے یہ کوئی غصہ اور جذبات میں اٹھایا گیا قدم تھا۔بلکہ گاندھی اور سبھاش چندر بوس دونوں کا قتل ایک سوچی سمجھی اور منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے۔اب دیکھئے گوڈ سے کی طویل تقریر کا ایک معمولی حصہ وہ کہتا ہے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ اگر میں نے گاندھی کو قتل کردیا تو مجھے تاریخ میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔مجھ پر لعنت بھیجی جائے گی ۔اس سے بھی زیادہ میں اپنی زندگی سے ہی ہار جاؤں گا ۔اس کے باوجود میں نے یہ فیصلہ لیا کہ مجھے ملک کے مفاد میں گاندھی کا قتل کرنا ہی ہوگا۔کیوں کہ ہندوستانی سیاست کو گاندھی کی غیر موجودگی میں ہی مضبوط اور مستحکم بنایا جاسکتا ہے ۔اس طرح ہماری فوجی اور عسکری قوت کا استعمال بھی بہتر طریقے سے ہو سکتا ہے ‘‘۔سوال یہ ہے کہ مرکزمیں حکومت کانگریس کی تھی یا آرایس ایس کی اور گوڈسے کو صرف گاندھی سے دشمنی کیوں تھی،کیا باقی کے کانگریسی لیڈران آر ایس ایس کی مرضی سے کام کررہے تھے؟یہ بات کسی تحریر میں تو نہیں آئی کہ گوڈسے کے بیانات کو اسی طرح منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا جیسا کہ قصاب کے سرکاری وکیل نے قصاب کے تعلق سے جھوٹ بولنے کا اعتراف کیا ہے اور کرکرے کے قتل کا معمہ بھی ہنوز حل طلب ہے ۔مگر بعد کے حالات میں جس طرح صرف ایک سال کے اندر سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت میں ہماری فوجوں نے جارحانہ رخ اختیار کیا اور ہزاروں لوگوں کا قتل عام کرکے نظام حیدرآباد کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی،یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر گاندھی زندہ ہوتے تو ہمارے سیاست دانوں کوایسا کرنے میں اڑچن ضرور آتی۔دیگر صورت میں گاندھی خوددیکھ لیتے کہ اہنسا اور رواداری پر مبنی ان کے نظریات کا کس طرح ان کی زندگی میں ہی قتل کردیاگیا۔اروندھتی رائے جنہوں نے گورکھ پور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پر الزام لگایا کہ آزادی کی تحریک میں گاندھی کی تنظیم سرمایہ داروں کی حمایت اور مدد کی وجہ سے پروان چڑھی دوسرے لفظوں میں گاندھی کو سرمایہ داروں کا حمایتی قرار دیا ۔جبکہ گاندھی نے جس طرح سادگی اور چرخے کی صنعت کو فروغ دینے کی مہم شروع کی تھی یہ نظریہ بذات خود سرمایہ داروں کے برخلاف تھااس کے برعکس ارون دھتی رائے کو اوارڈ دیاگیا اور جو انعام دیا جاتا ہے اسکی خطیر رقم سرمایہ داروں کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ گاندھی کا قتل اصل میں سرمایہ دارانہ مخالف نظریہ کا ہی سبب بنا ہے ۔جیسا کہ آر ایس ایس کی بنیاد بنیوں اور سرمایہ داروں کی حمایت سے قائم کی گئی تھی اور خودنہرو پٹیل کی حکومتی پالیسی میں سرمایہ داروں کو اولیت کا درجہ حاصل رہا ہے۔اب ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ صرف اکیلے ناتھو رام گوڈسے ہی گاندھی کا قاتل تھا ۔کہیں نہ کہیں اس وقت کی مرکزی حکومت کو بھی قصوروار قرار دیا جاسکتاہے جیسے گاندھی پر متعدد مرتبہ حملہ ہونے کے بعد بھی ان کی حفاظت میں کوتاہی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا۔اسی طرح آسانی کے ساتھ قتل ہوجانے دیا جیسے کہ ہیمنت کرکرے کا قتل ابھی بھی معمہ ہے۔ 
عمر فراہی ،جوگیشوری،ممبئی۔ موبائل:9699353811

0 comments:

ایک دانشور کا فرسٹریشن

ایک دانشور کا فرسٹریشن 
ممتاز میر
انسان بڑی عجیب و غریب چیز ہے۔دنیا کابڑے سے بڑا ماہراس کے تعلق سے یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ کہ وہ کب کیا کرے گا کب کیا کہے گا اور کب کیا لکھے گا۔اگر مسلمان دانشور انسانوں کے کارناموں سے متاثر ہو کراس کا رتبہ نبیوں سے بڑھا سکتے ہیں تو پھر ہندو انسان کو بھگوان بنا دیتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں ۔قرآن تو بار بارصبر کی تلقین کرتا ہے ۔یہ اسلئے کہ ہم جوش میں ہوش کا دامن نہ چھوڑ دیں۔اپنی حدود سے تجاوز نہ کر جا ئیں مگر اچھے اچھوں کے ہاتھوں سے صبر کا دامن چھوٹ جاتا ہے اوروہ سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ کیا لکھ رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک مضمون پاکستانی صحافی جناب جاوید چودھری کا ابھی چند دنوں پہلے نظر سے گذرا۔جناب جاوید چودھری خود ہمارے نزدیک پاکستان کے ایک بڑے اور معتبر صحافی ہیں۔ہم ان جیسے دانشور اور صحافی سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ اپنے ممدوح کی قصیدہ خوانی میں وہ بھی عام لوگوں کی طرح آپے سے باہر ہو جائیں گے ۔ایسا عموماً ہوتا ہے مگر ان کے ساتھ جو سیاستدانوں کی چاپلوسی میں غرق ہوتے ہیں۔ابھی کل کی بات ہے کہ ملائم سنگھ یادو کے ایک چمچے نے کہا (کون؟مولانا ملائم نہیں پہلوان ملائم سنگھ)کو صرف سبھاش چندر بوس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔بالکل ایسے ہی ذہنی افلاس کا مظاہرہ جناب جاوید چودھری نے اپنے مضمون’’کیلا بھی سوچنے کے عمل کو تیز کرتا ہے‘‘میں کیا ہے۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں’’کابینہ کے لئے احتساب کا ایک کڑانظام تشکیل دیا گیا ،اس نظام سے کوئی شخص مبرا نہیں تھا ‘‘کیا اس سے بہتر مثالیں مسلمانوں کو خلافت راشدہ میں میسر نہیں۔کابینی ارکان کی بات تو بہت دور کی ہے ،کیا خود خلفائے راشدین نے اپنے آپ کو نظام انصاف کے سامنے پیش نہیں کیا؟چلئے خلفائے راشدین کی بات جانے دیجئے وہ بہت اونچے لوگ تھے۔کٹکھنی بادشاہت کے دور میں بھی کیا ہماری تاریخ میں ایسے بادشاہ نہیں ملتے جنھوں نے عام لوگوں کی طرح ہی اپنے آپ کونظام انصاف کے سامنے پیش کیااور خود اپنے آپ پر سزائیں نافذ کروائیں۔کیا جاوید چودھری جیسے صحافی کو معلوم نہیں کہ چور کی قطع ید والی سزا کو، قتل کے مجرم کی سزائے موت کواور زانی کے سنگسار جیسی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں کہہ کر اسلام کو صدیوں بدنام کیا جارہا ہے۔اب اگر(پاکستانی حالات کے مد نظر)عوامی جگہوں پر گالیاں لکھنے کی سزا موت قرار دیدی جائے تو سوچئے کیا ہوگا؟اور آپ نہ سہی آپ کی برادری کے لوگ کیسا طوفان اٹھائیں گے؟ہم چونکہ انسان کی سیرت و کردار کی بہترین نہج پر تعمیر کے موید ہیں اسلئے نہ سنگاپور کے اس قانون کے مخالف ہیں نہ آپ کے ملک میں ایسے کسی قانون کے بننے پر مخالفت کریں گے مگر عوامی مقامات پر گالیاں لکھنے والوں کو سزائے موت دینے کی حمایت کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ڈیڑھ ارب انسانوں کے اپنی جان سے پیارے،والدین اور آل اولاد سے پیارے ہادی و رہبر کو گالیاں دینے والوں کی سزا کیا ہوی چاہئے؟ہمارے نزدیک تو پھر ایسے شخص کو چوراہے پر چیر پھاڑ ڈالنا چاہئے۔مگرایسی باتیں کوئی دانشور کہاں کر سکتا ہے۔اگر کرے تو لات مار کر حلقہء دانشوری سے باہر نکال دیا جائے۔
مضمون کا سب سے خراب حصہ وہ ہے جسمیں انھوں نے اپنے ملک کے وزیر اعظم جناب نواز شریف اور لی کوان یو کی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔جناب نواز شریف جب سنگاپور گئے تو انھوں نے سنگاپور کے بانی وزیر اعظم لی کوان یو سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ کیا پاکستان کبھی سنگاپور بن سکے گا؟ظاہر ہے ایسے سوالات وہی مسلمان کر سکتے ہیں جو اپنے دین اور اپنی قوم کے تعلق سے احسا س کمتری میں مبتلا رہتے ہوں۔بہرحال لی کوان یو کا جواب جاوید چودھری کے الفاظ میں پڑھئے۔’’آپ کا خیال ہے کہ آپ کی اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی چنانچہ آپ لوگ اس عارضی دنیا پر توجہ نہیں دیتے۔آپ سڑک عمارت سیوریج سسٹم ٹریفک اور قانون کو سنجیدگی سے نہیں لیتے،جبکہ ہم لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ہم لوگ اس دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنا رہے ہیں۔وہ رکے اور زرا دیر بعد بولے آپ خود فیصلہ کیجئے
جو لوگ اس دنیا پر یقین نہ رکھتے ہوں وہ اسے خوبصورت کیوں بنائیں گے۔دوسری وجہ آپ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اپروچ درست نہیں۔میں پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں۔ہندوستان کی تقسیم سے پہلے میں اس علاقے میں پریکٹس کرتا تھا۔میرے موکل کلکتہ سے کراچی تک ہوتے تھے میں نے ان دنوں ہندو اور مسلمانوں کی نفسیات کو بڑے قریب سے دیکھا۔میرے پاس جب کوئی ہندو کلائنٹ آتا تھا اور جب میں کیس کے جائزے کے بعد اسے بتاتا تھا کہ تمھارے کیس میں جان نہیں۔تو وہ میرا شکریہ ادا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا کہ آپ مہربانی فرما کر دوسری پارٹی سے صلح کروادیں۔اس کے مقابلے میں مسلمان کلائنٹ کا جواب بڑا دلچسپ ہوتا تھا۔وہ کہتا تھا کہ وکیل صاحب آپ کیس دائر کریں میں پوری زندگی مقدمہ لڑوں گا ۔میرا تجربہ ہے جو قومیں اپنی نسلوں کو ورثہ میں مقدمے اور مسئلے دیتی ہوں وہ ترقی نہیں کر سکتیں۔اور تیسری اور آخری وجہ آمریت ہے۔آپ کے ملک میں فوج مضبوط اور سیاستداں کمزور ہیں اور مجھے پوری دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ملا جس نے فوجی آمریت میں رہ کر ترقی کی ہو‘‘۔
ایسا لگتا ہے کہ جناب جاوید چودھری کو اس واقعے کو quoteکرنے کی غلطی کا احساس تھا اسلئے انھوں نے اس پورے واقعے کو نقل کرنے کے بعد یہ کہہ کر اس سے پلہ جھاڑ لئے کہ یہ لی کوان یو کاوژن تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر انھوں نے یہ پورا واقعہ لکھا ہی کیوں؟شاید ان کے لاشعور میں لی کوان یو کی کامیابی نے ان کی عظمت اسلام سے بھی بڑھادی ہے ۔کیا دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی تباہی اور پھر چند دہائیوں میں اس کا معاشی سپر پاور نمبر ۱ یک بن جاناسنگاپور سے بڑی کامیابی نہیں ہے۔کس کس کو گنائیں دنیا میں ایسی کامیابیاں بہت ہیں۔بھائی !بینظیر، زرداری اور نواز شریف جیسے حکمراں لی کوان یو جیسوں کے سامنے چپ ہی رہ سکتے ہیں جواب نہیں دے سکتے مگر آپ کیوں بھول گئے۔اگر اسلام دنیا کو اہمیت نہ دیتا تو پھر قرآن کے نزول کی ضرورت ہی کیا تھی ۔دین صرف اسلام ہے اور دین کا مطلب کیا ہوتا ہے۔یہ بھی غلط ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کو خوبصورت نہیں بنایا ہے بلکہ جیسا خوبصورت مسلمانوں نے بنایا ہے ایسا کسی اور نے نہیں بنایا۔آج تو معاملہ اس حدیث کی مانند ہو گیا ہے جسمیں مسلمانوں کو مال کے فتنے سے خبردار کیا گیا تھا ۔کیا یہ دنیا کی محبت کے بغیر ممکن ہے۔دراصل معاملہ بالکل برعکس ہے۔
اب آئیے دوسری وجہ کی طرف جو وکیل اور کلائنٹ کے تعلق سے ہے۔یہی واقعہ ہم گاندھی جی کی خود نوشت میں بالکل انہی الفاظ میں پڑھ چکے ہیں۔اب ہم شک میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ یہ حقیقت ہے یا افسانہ۔مگر مسلمانوں کی یہ ذہنیت ،فطرت ،عادت بہرحال ایک حقیقت ہے۔آج سے تقریباً ۱۸ سال پہلے ممبئی میں ایک مسلمان پولس آفیسرنے ہم سے کہا تھا کہ پورا پولس ڈپارٹمنٹ یہ سمجھتا ہے کہ دوران فساد مسلمانوں پر فائرنگ کرو تو وہ بھاگتے نہیں بلکہ پولس سے مقابلے پر اتارو ہو جاتے ہیں اور غیر مسلم بھیڑ اسوقت حملہ کرتی ہے جب پولس اپنی جگہ سے ہٹ جائے یا ان کی حمایت پر کمر بستہ ہو جائے۔آخر میں ہم اپنی مثال دیتے ہیں۔۲۱ سال پہلے ہم بھی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ٹاڈا کے تحت سنت یوسفی سے سرفراز ہو چکے ہیں۔جب ہم نے جیل میں قدم رکھا تو جیل میں موجود ٹاڈا کے ماہرین نے ہمیں صلاح دی کہ اب سال ڈیڑھ سال تک جیل میں چپ چاپ پڑے رہو، پھر ڈیڑھ سال بعد اس کی ضمانت کی عرضی عدالت میں داخل کرنا جس پر پولس سب سے کمزور چارج لگائے۔باہر بالکل یہی حال ہمارے وکلاء کا بھی تھا مگر ہمارے والدنے کہا کہ وکیل صاحب آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ۔آپ کو تو ہر بار ضمانت کے لئے لڑنے کی فیس ملے گی۔چارو ناچار وکیل نے ضمانت رکھی اور اللہ کا کرنا کہ ہم سب کے سب۴ ماہ میں جیل سے باہر آگئے۔اب مسلمانوں کی یہ ذہنیت اچھی ہے یا بری اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں۔لی کوان یو کی بتائی ہوئی تیسری وجہ کے تعلق سے ہم کیا کہیں یہ تو آفاقی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہر حالت میں حکمراں فوج ہی ہوتی ہے چاہے وردی میں رہے یا بغیر وردی کے۔چاہے مارشل لاء لگائے یا فرنٹ مین کسی سیاستداں کو بنائے رکھے۔اور یہ بات تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ وجہ حکمرانی بھی آپ کے بھائی بند ہی ڈھونڈ کر دیتے ہیں اور اس کی حکمرانی کوآگے بھی بڑھاتے ہیں۔گو کہ یہ بات آپ بھی جانتے ہونگے کہ ابھی ایک دہائی پہلے تک داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر سب سے طاقتور فوج ترکی کی ہوا کرتی تھی۔آپ کے یہاں تو سیاستدانوں کو جیل میں یاجلا وطن کردیا گیا ۔اس سے زیادہ آپ کی فوج کی اوقات نہیں تھی ۔مگر ترکی میں وزیر اعظم کو دار تک چڑھا دیا گیا ۔آپ کی فوج خارجی معاملات میں ہمیشہ پھسڈی ثابت ہوئی ہے پھر بھی پاکستان کے کسی سیاستداں کی مجال نہیں کہ جرنیلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے جبکہ ترکی ایک دہائی سے زیادہ ہوگئے سیاستدانوں نے فوج کو بیرکوں میں واپس بھیج دیا ہے۔تمام پاکستانیوں کو غور کرنا چاہئے کہ وہاں ایسا کیوں ہوا اور آپ کے یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
چودھری صاحب!مسلمانوں کو سدھارنے کے لئے نہ باہر سے کسی شخصیت کو درآمد کر نے کی ضرورت ہے نہ آئیڈیالوجی کی ۔اگر نبیﷺ کے صفائی کو نصف ایمان قرار دینے کے باوجودکوئی گندہ رہنا پسند کرے توکوئی اور ایسے کو کیسے سدھار سکتا ہے۔ایسے لوگوں کے لئے ہی تو اسلام نے سخت سزائیں رکھی ہیں۔چونکہ اسلام کی ہیں اسلئے وحشیانہ ہیں ورنہ کوئی کچھ بھی کرتا پھرے۔پیٹریاٹ لاء بنا کر شہریوں کے بنیادی حقوق غصب کرلے ،مجال ہے کسی کی کہ چوں بھی کردے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب ہم میں کا ہر شخص اپنی پسند کا اسلام چاہتا ہے،چاہے اس کے نتائج کیسے ہی نکلیں۔اور ا سی لئے کبھی بے نظیر (مرحوم) تو کبھی زرداری تو کبھی نواز شریف کوتخت پیش کئے جاتے ہیں۔ادخلوا فی السلم کافۃ کی بات کرنے والوں کو مسند اقتدار سے دور رکھنے کے لئے غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی ہر قسم کے ہتھکنڈے اپنانے کو تیار رہتے ہیں۔اسیلئے گذشتہ ۶۸ سالوں میں پاکستان کو اچھی حکمرانی کا ایک دن بھی میسر نہ آسکا۔چلتے چلتے علامہ اقبالؒ کا یہ شعر چودھری صاحب کی خدمت میں پیش ہے ۔غور فرمائیے۔ اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر ۔خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ممتاز میر۔ 07697376137

0 comments: