حید رآباد دھماکہ : شک کی سوئی پھرماضی کی طرح نام نہاد دہشت گردوں کی طرف پھرانے کی کوشش!
نہال صغیر۔معرفت ،رحمانی میڈیکل ۔سلفی گلی نمبر 3 ۔کاندیولی(مغرب)ممبئی 400067 موبائل۔9987309013 ۔ای میلsagheernehal@gmail.com
لیجئے صاحب پھر بم دھماکہ ہوگیا ۔دھماکہ کے بعد مرکزی حکومت نے کہا کہ اس
کے متعلق پہلے ہی ریاستی سرکاروں کو متنبہ کیا جاچکا تھا ۔لوک سبھا میں بی
جے پی کی شعلہ بیان مقرر سشما سوراج بھی حکومت کی خبر لیتے ہوئے وزیر داخلہ
سشیل کمار شندے پر برس پڑیں کہ آخر پہلے سے معلوم ہونے پر بھی اس پر
کنٹرول کیوں نہیں کیا جا سکا ؟دھماکہ پر سشیل کمار نے ایمرجنسی بیان کے بعد
آج 22؍فروری کو لوک سبھا میں روایتی بیان دیا اس میں نئی کوئی بات نہیں
تھی اس بیان کو حکومت کی طرف سے معلوماتی بیان بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس طرح کے
بیان کے پیچھے شندے کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے اور دو دن پہلے معافی مانگنے
کا اثر بھی ۔اس دھماکہ نے موجودہ اہم خبر کو دبا دیا وہ خبر گجرات سے تھی
جہاں مودی کی حکومت ہے اور جو بی جے پی کے 2014 کے متوقع وزیر اعظم کے امید
وار ہیں ۔خبر تھی کہ مظلوم اور معصوم عشرت جہاں کے فرضی انکاؤنٹر کے سلسلے
میں سی بی آئی نے گجرات کے آئی پی ایس افسر جی ایل سنگھل کو گرفتار کیا ہے
۔عشرت جہاں کے انکاؤنٹر کے سلسلے میں یہ پہلی باضابطہ گرفتاری بتائی جارہی
ہے ۔ویسے اس سے پہلے کئی اعلیٰ افسران داخل زندان ہیں جن پر سہراب الدین
،کوثر بی اور پرجاپتی کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کا الزام ہے ۔یہ
گرفتاری تو ہوئی ہے پہلے بھی اب بھی اور شاید آگے بھی ہو،لیکن اس پر مقدموں
کی کیا صورت ہے وہ واضح نہیں ہے ۔
بہر حال معاملہ فی الحال حیدرآباد کے تازہ دھماکے کا ہے ۔سشما سوراج نے لوک سبھا کے اندر سشیل کمار کے بیان کے بعد سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ دھماکہ کہیں اکبر الدین اور اسدالدین کے مبینہ بھڑکاؤ بھاشن سے تو نہیں جڑا ہوا ہے ؟یا کیا یہ افضل گرو کی پھانسی پر دہشت گردوں کی انتقامی کارروئی تو نہیں ہے ؟اس پر حکومت کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں دیا جاسکا وجہ اس کی یہ تھی کہ سشیل کمار لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں بیان دینے چلے گئے ۔یہاں سشما سوراج کے بیان یا سوالات سے پہلے اس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ کل شام 21 ؍فروری کو سات بجے شام دھماکہ کے بعد بدنام زمانہ الیکٹرونک میڈیا کا کیا رویہ تھا ۔اس کا جائزہ لیتے ہوئے یہی محسوس ہوا کہ سارے ہی نیوز چینل اس دھماکے کو اسی پرانے اور گھسے پٹے انداز سے پیش کرکے عوام ،حکومت اور تفتیشی ایجنسی کو گمراہ کرکے ایک خاص فرقہ یعنی مسلمانوں کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف کار تھے ۔اس بات کو بار بار نیوز چینل پر دوہرایا گیا کہ شک کی سوئی انڈین مجاہدین یا حرکت الجہاد اسلامی کی طرف گھوم رہی ہے ۔اس کو افضل گرو کی پھانسی کے خلاف انتقامی کارروئی سے بھی جوڑنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ۔رہی سہی کسر سشما سوراج کے زہریلے سوالات نے بھی پوری کردی کہ کیا یہ اکبر الدین اور اسدلدین اویسی کے مبینہ نفرت انگیز تقاریر کا تو اثر نہیں ؟جس وقت سشما پارلیمنٹ میں بول رہی تھیں غالباً کوئی مسلمان ممبران پارلیمنٹ موجود نہیں تھا کہ وہ سشما کے اس سوال پر اعتراض کرتا ممکن ہے کہ سشما سوراج نے کئی اور بھی زہریلے سوالات کئے ہوں کیوں کہ جب وہ بیان دے رہی تھیں تو کئی بار محسوس ہوا کہ ان کے بیان کو ایڈٹ کیا جارہا ہے ۔
اگر ہم سشما سوراج کے مذکورہ بیان کو اسی عینک سے دیکھیں جس سے انہوں نے دیکھا اور ایک فرقہ کو ہی اپنی شعلہ بیانی کا نشانہ بنا ڈالا ۔اگر یہ دھماکہ اکبر الدین کی اس تقریر کا اثر ہو سکتا ہے تو کیا یہ توگڑیا کی تقریروں کا نہیں ہو سکتا ہے ؟اگر یہ انڈین مجاہدین کے نام نہاد دہشت گردوں کا ہو سکتا ہے تو کیا یہ بھونسلہ ملٹری ٹریننگ سینٹر سے تربیت یافتی پانچ سو لوگوں کا کیوں نہیں ہو سکتا جو کہ ہیمنت کرکرے کی تفتیش میں سامنے آنے کے بعد سے ہی غائب ہیں اور جس کے بارے میں مہاراشٹر حکومت اور مرکزی حکومت دونوں ہی سے متعد د بار سوالات کئے گئے لیکن خاموشی اور مکمل خاموشی ہے ۔آخر دھماکے کے بعد صرف حرکت الجہاد اسلامی اور نام نہاد انڈین مجاہدین ہی کا نام کیوں اچھا لا جاتا ہے ؟ سناتن سنستھا ،بجرنگ دل اور وشو ہندو جیسی ہندو تنظیموں کا نام کیوں نہیں اچھالا جاتا ؟یاسین بھٹکل اور وقار جیسے نام کو ہی کیوں اچھالا جاتا ہے پروین توگڑیا اور پرمود متالک کا نام کیوں نہیں گھسیٹا جاتا ؟ کیا یہ سشیل کمار کے بیان (جس پر انہوں نے معافی بھی مانگ لی ہے )کہ بی جے پی اور آ ر ایس ایس دہشت گردی کے اڈے ہیں پر بھگوا دہشت گردوں کی طرف سے انتقامی کارروائی بھی مانا جانا چاہیئے ۔ سشماجی کو اکبر الدین اور اسد الدین تو نظر آگئے لیکن انہیں توگڑیا کی زہر افشانی اورپرمود متالک کی بیہودہ بیان بازی کیوں یاد نہیں رہی کہ اس میں بھی وہ بم دھماکے کا سراغ ڈھونڈھنے کی کوشش کرتیں۔توگڑیا کا وہ بیان تو ابھی آن ریکارڈ ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’جب جب پولس ہٹی تو ہم نے آسام اور میرٹھ کے ملیانہ میں لاشوں کے انبار لگادئیے ‘‘ لیکن مہاراشٹر کی حکومت کو اس میں ابھی تک کوئی قابل اعتراض پہلو نہیں نظر آیا اسی لئے صرف ایف آئی آر سے آگے بات نہیں بڑھی ہے ۔ہمارا شک ہی نہیں یقین ہے کہ اس دھماکہ کا تعلق افضل گرو کی پبانسی سے ہو سکتا ہے لیکن وہ اس لئے کہ افضل گرو کی ہمدردی میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جس پامردی کا ثبوت دیا تھا اس عوام کے ذہنوں سے ہٹانے کیلئے انہیں دوسری طرف الجھانے کیلئے خود آئی بی نے ہی یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہو ا۔یا آئی بی کا دوسرا کور گروپ سناتن سنستھا اور اس جیسی دوسری تنظیموں نے سشیل کمار کو جو کہ ایک دلت ہیں اور وزارت داخلہ جیسے اہم عہدہ پر ہیں اس سے ہٹانے کیلئے یا انکو اس بیان پر سبق سکھانے کیلئے یہ دھماکہ کیا ہو۔جس میں انہوں نے فاشسٹ طاقتوں پر راست حملہ کیا تھاجس پر وہ قائم بھی نہ رہ سکے اور معافی مانگ لی ۔کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔اس طرف بھی غور کیا جانا چاہئے تب ہی انسانیت کے یہ دشمن بے نقاب ہو پائیں گے۔
حالات ہر دن مسلمانوں کیلئے نا قابل برداشت ہوتے جارہے ہیں ۔الیکٹرونک میڈیا کے بعد اگر آپ آج کے پرنٹ میڈیا اور نام نہاد مین اسٹریم میڈیا میں نظر ڈالیں انڈین ایکسپریس ،ٹائمس آف انڈیا اور نو بھارت ٹائمز کے علاوہ سبھی اخبارات نے صرف اس بم دھماکہ کو ہی اپنے پورے صفحہ پر جگہ دی ہے انڈین ایکسپریس اور ٹائمس گروپ کا ٹائمس آف انڈیا اور نو بھارت ٹائمس نے اس خبر کے ساتھ گجرات کے آئی پی ایس افسر کی گرفتاری کو بھی اہمیت دی ہے ۔کم و بیش اردو اخبارات کا بھی یہی تاثر ہے صرف ایک اردو کے اخبار نے گجرات کے آئی پی ایس افسر کی گرفتاری کو اہمیت نہ دیکر اندر کے صفحہ پر دیا ہے باقی کے اردو اخبارات نے اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے ۔سامنا نے تو حد ہی کردی کہ اس نے اپنے پورے صفحہ پر اسی خبر کو اس ہیڈنگ کے ساتھ ’’حید ر آباد پر اسلامی دہشت گردوں کا حملہ 30 ہلاک‘‘ جبکہ ابھی تک کی ہلاکت کی تصدیق بیس کی بھی نہیں ہے ۔مسلمانوں کو اس پر سامنا کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہئے ۔مسلم لیڈر شپ اگر کہیں ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اونچی عدالتوں میں اس کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ اس طرح کی شر انگیزی پر قابو پایا جاسکے ۔سامنا کی شرانگیزی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس نے نیچے ضمنی عنوان کے تحت سرخی لگائی ہے کہ ’’افضل اور اویسی کنکشن‘‘ اور تصویریں بھی افضل گرو اور اویسی کی لگائی ہیں ایسا ہی کچھ سشما سوراج نے بھی پارلیمنٹ میں کہا یعنی کہ اس طرح کے اخبارات ممبران پارلیمنٹ کو بھی گائڈ کرتے ہیں کہ انہیں پارلیمنٹ میں کس طرح کا بیان دینا ہے ۔کیا اب بھی ہمارے نام نہاد ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلم قائدین صرف وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کو میمورنڈم دینا اور کارروائی کا مطالبہ کرنے سے آگے نہیں بڑھیں گے ۔
نہال صغیر۔موبائل۔9987309013
بہر حال معاملہ فی الحال حیدرآباد کے تازہ دھماکے کا ہے ۔سشما سوراج نے لوک سبھا کے اندر سشیل کمار کے بیان کے بعد سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ دھماکہ کہیں اکبر الدین اور اسدالدین کے مبینہ بھڑکاؤ بھاشن سے تو نہیں جڑا ہوا ہے ؟یا کیا یہ افضل گرو کی پھانسی پر دہشت گردوں کی انتقامی کارروئی تو نہیں ہے ؟اس پر حکومت کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں دیا جاسکا وجہ اس کی یہ تھی کہ سشیل کمار لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں بیان دینے چلے گئے ۔یہاں سشما سوراج کے بیان یا سوالات سے پہلے اس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ کل شام 21 ؍فروری کو سات بجے شام دھماکہ کے بعد بدنام زمانہ الیکٹرونک میڈیا کا کیا رویہ تھا ۔اس کا جائزہ لیتے ہوئے یہی محسوس ہوا کہ سارے ہی نیوز چینل اس دھماکے کو اسی پرانے اور گھسے پٹے انداز سے پیش کرکے عوام ،حکومت اور تفتیشی ایجنسی کو گمراہ کرکے ایک خاص فرقہ یعنی مسلمانوں کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف کار تھے ۔اس بات کو بار بار نیوز چینل پر دوہرایا گیا کہ شک کی سوئی انڈین مجاہدین یا حرکت الجہاد اسلامی کی طرف گھوم رہی ہے ۔اس کو افضل گرو کی پھانسی کے خلاف انتقامی کارروئی سے بھی جوڑنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ۔رہی سہی کسر سشما سوراج کے زہریلے سوالات نے بھی پوری کردی کہ کیا یہ اکبر الدین اور اسدلدین اویسی کے مبینہ نفرت انگیز تقاریر کا تو اثر نہیں ؟جس وقت سشما پارلیمنٹ میں بول رہی تھیں غالباً کوئی مسلمان ممبران پارلیمنٹ موجود نہیں تھا کہ وہ سشما کے اس سوال پر اعتراض کرتا ممکن ہے کہ سشما سوراج نے کئی اور بھی زہریلے سوالات کئے ہوں کیوں کہ جب وہ بیان دے رہی تھیں تو کئی بار محسوس ہوا کہ ان کے بیان کو ایڈٹ کیا جارہا ہے ۔
اگر ہم سشما سوراج کے مذکورہ بیان کو اسی عینک سے دیکھیں جس سے انہوں نے دیکھا اور ایک فرقہ کو ہی اپنی شعلہ بیانی کا نشانہ بنا ڈالا ۔اگر یہ دھماکہ اکبر الدین کی اس تقریر کا اثر ہو سکتا ہے تو کیا یہ توگڑیا کی تقریروں کا نہیں ہو سکتا ہے ؟اگر یہ انڈین مجاہدین کے نام نہاد دہشت گردوں کا ہو سکتا ہے تو کیا یہ بھونسلہ ملٹری ٹریننگ سینٹر سے تربیت یافتی پانچ سو لوگوں کا کیوں نہیں ہو سکتا جو کہ ہیمنت کرکرے کی تفتیش میں سامنے آنے کے بعد سے ہی غائب ہیں اور جس کے بارے میں مہاراشٹر حکومت اور مرکزی حکومت دونوں ہی سے متعد د بار سوالات کئے گئے لیکن خاموشی اور مکمل خاموشی ہے ۔آخر دھماکے کے بعد صرف حرکت الجہاد اسلامی اور نام نہاد انڈین مجاہدین ہی کا نام کیوں اچھا لا جاتا ہے ؟ سناتن سنستھا ،بجرنگ دل اور وشو ہندو جیسی ہندو تنظیموں کا نام کیوں نہیں اچھالا جاتا ؟یاسین بھٹکل اور وقار جیسے نام کو ہی کیوں اچھالا جاتا ہے پروین توگڑیا اور پرمود متالک کا نام کیوں نہیں گھسیٹا جاتا ؟ کیا یہ سشیل کمار کے بیان (جس پر انہوں نے معافی بھی مانگ لی ہے )کہ بی جے پی اور آ ر ایس ایس دہشت گردی کے اڈے ہیں پر بھگوا دہشت گردوں کی طرف سے انتقامی کارروائی بھی مانا جانا چاہیئے ۔ سشماجی کو اکبر الدین اور اسد الدین تو نظر آگئے لیکن انہیں توگڑیا کی زہر افشانی اورپرمود متالک کی بیہودہ بیان بازی کیوں یاد نہیں رہی کہ اس میں بھی وہ بم دھماکے کا سراغ ڈھونڈھنے کی کوشش کرتیں۔توگڑیا کا وہ بیان تو ابھی آن ریکارڈ ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’جب جب پولس ہٹی تو ہم نے آسام اور میرٹھ کے ملیانہ میں لاشوں کے انبار لگادئیے ‘‘ لیکن مہاراشٹر کی حکومت کو اس میں ابھی تک کوئی قابل اعتراض پہلو نہیں نظر آیا اسی لئے صرف ایف آئی آر سے آگے بات نہیں بڑھی ہے ۔ہمارا شک ہی نہیں یقین ہے کہ اس دھماکہ کا تعلق افضل گرو کی پبانسی سے ہو سکتا ہے لیکن وہ اس لئے کہ افضل گرو کی ہمدردی میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جس پامردی کا ثبوت دیا تھا اس عوام کے ذہنوں سے ہٹانے کیلئے انہیں دوسری طرف الجھانے کیلئے خود آئی بی نے ہی یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہو ا۔یا آئی بی کا دوسرا کور گروپ سناتن سنستھا اور اس جیسی دوسری تنظیموں نے سشیل کمار کو جو کہ ایک دلت ہیں اور وزارت داخلہ جیسے اہم عہدہ پر ہیں اس سے ہٹانے کیلئے یا انکو اس بیان پر سبق سکھانے کیلئے یہ دھماکہ کیا ہو۔جس میں انہوں نے فاشسٹ طاقتوں پر راست حملہ کیا تھاجس پر وہ قائم بھی نہ رہ سکے اور معافی مانگ لی ۔کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔اس طرف بھی غور کیا جانا چاہئے تب ہی انسانیت کے یہ دشمن بے نقاب ہو پائیں گے۔
حالات ہر دن مسلمانوں کیلئے نا قابل برداشت ہوتے جارہے ہیں ۔الیکٹرونک میڈیا کے بعد اگر آپ آج کے پرنٹ میڈیا اور نام نہاد مین اسٹریم میڈیا میں نظر ڈالیں انڈین ایکسپریس ،ٹائمس آف انڈیا اور نو بھارت ٹائمز کے علاوہ سبھی اخبارات نے صرف اس بم دھماکہ کو ہی اپنے پورے صفحہ پر جگہ دی ہے انڈین ایکسپریس اور ٹائمس گروپ کا ٹائمس آف انڈیا اور نو بھارت ٹائمس نے اس خبر کے ساتھ گجرات کے آئی پی ایس افسر کی گرفتاری کو بھی اہمیت دی ہے ۔کم و بیش اردو اخبارات کا بھی یہی تاثر ہے صرف ایک اردو کے اخبار نے گجرات کے آئی پی ایس افسر کی گرفتاری کو اہمیت نہ دیکر اندر کے صفحہ پر دیا ہے باقی کے اردو اخبارات نے اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے ۔سامنا نے تو حد ہی کردی کہ اس نے اپنے پورے صفحہ پر اسی خبر کو اس ہیڈنگ کے ساتھ ’’حید ر آباد پر اسلامی دہشت گردوں کا حملہ 30 ہلاک‘‘ جبکہ ابھی تک کی ہلاکت کی تصدیق بیس کی بھی نہیں ہے ۔مسلمانوں کو اس پر سامنا کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہئے ۔مسلم لیڈر شپ اگر کہیں ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اونچی عدالتوں میں اس کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ اس طرح کی شر انگیزی پر قابو پایا جاسکے ۔سامنا کی شرانگیزی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس نے نیچے ضمنی عنوان کے تحت سرخی لگائی ہے کہ ’’افضل اور اویسی کنکشن‘‘ اور تصویریں بھی افضل گرو اور اویسی کی لگائی ہیں ایسا ہی کچھ سشما سوراج نے بھی پارلیمنٹ میں کہا یعنی کہ اس طرح کے اخبارات ممبران پارلیمنٹ کو بھی گائڈ کرتے ہیں کہ انہیں پارلیمنٹ میں کس طرح کا بیان دینا ہے ۔کیا اب بھی ہمارے نام نہاد ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلم قائدین صرف وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کو میمورنڈم دینا اور کارروائی کا مطالبہ کرنے سے آگے نہیں بڑھیں گے ۔
نہال صغیر۔موبائل۔9987309013
0 comments: