Latest

ذہنی دھند: دماغ کی بغاوت یا جدید زندگی کی المیاتی پیداوار؟ کیا ہم واقعی اسمارٹ ہو رہے ہیں یا ذہنی طور پر کمزور؟



اسماء جبین فلک

علی کو وہ لمحہ اپنی روح پر ایک نقش کی طرح یاد ہے۔ وہ اپنے کیریئر کی بلند ترین عمارت کے کانفرنس روم میں تھا، جہاں ہر نظر ایک عدسے کی طرح اس پر مرکوز تھی۔ اچانک، اس کے ذہن میں کچھ ٹوٹ گیا۔ جیسے کسی نے شعور کی ہارڈ ڈرائیو پر فارمیٹ کا بٹن دبا دیا ہو۔ وہ الفاظ جو اس کی زبان پر تھے، بھاپ بن کر اڑ گئے۔ وہ اعداد و شمار جن پر اس کی کامیابی کا انحصار تھا، ایک بے معنی گورکھ دھندے میں تبدیل ہو گئے۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے خیالات کا بہاؤ منجمد ہو گیا ہے اور وہ ایک خالی، گونجتی ہوئی خاموشی میں قید ہے۔ کمرے کی روشنیاں ناقابلِ برداشت حد تک تیز محسوس ہونے لگیں اور کانوں میں ایک ہلکی سی سنسناہٹ نے ہر دوسری آواز کو دبا دیا۔ یہ محض یادداشت کی ناکامی نہیں تھی؛ یہ اس کے وجود کا اپنے ہی دماغ سے رابطہ منقطع ہوجانے کا ایک دہشت ناک تجربہ تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب علی نے پہلی بار "برین فاگ" کو ایک طبی اصطلاح کے طور پر نہیں، بلکہ اپنی ذات کے انہدام کی ایک زندہ حقیقت کے طور پر محسوس کیا۔

علی کی یہ کہانی محض ایک فرد کی داستان نہیں، بلکہ یہ جدید دور کے انسان کا اجتماعی المیہ ہے۔ ہم ایک ایسی تہذیب میں جی رہے ہیں جو رفتار، پیداواریت اور ہر لمحہ "آن لائن" رہنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اس تناظر میں، ذہنی دھند یا برین فاگ (Brain Fog) کوئی خرابی یا بیماری نہیں، بلکہ یہ ہمارے حیاتیاتی وجود کی طرف سے ایک بغاوت ہے۔ یہ ہمارے جسم اور دماغ کا اس غیر فطری رفتار کے خلاف ایک انتباہی نظام ہے، ایک چیخ ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اپنی فطری حدود سے بہت تجاوز کر چکے ہیں۔

اس ذہنی بغاوت کی جڑیں ہمارے سونے کے کمروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کارپوریٹ کلچر اور مسابقت کی دوڑ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ نیند ایک عیاشی ہے، جسے کم کر کے پیداواریت بڑھائی جا سکتی ہے۔ علی کی کہانی اس کی ایک تلخ مثال ہے، جو اکثر رات گئے تک ای میلز اور پریزنٹیشنز میں الجھا رہتا، اور بچا کھچا وقت اسکرین پر گزار دیتا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ نیند دماغ کے لیے محض آرام نہیں، بلکہ ایک فعال صفائی کا عمل ہے۔ معروف نیوروسائنٹسٹ مائیکن نیڈرگارڈ (Maiken Nedergaard) نے 2012 میں "گلیمفیٹک سسٹم" (Glymphatic System) کو دریافت کر کے یہ ثابت کیا کہ گہری نیند کے دوران دماغی اسپائنل فلوئیڈ ہمارے دماغ کو دھو کر ان زہریلے پروٹینز (مثلاً بیٹا ایمیلوائڈ) کو صاف کرتا ہے جو دن بھر کے ذہنی کاموں کے نتیجے میں جمع ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنی نیند پوری نہیں کرتے تو یہ کچرا ہمارے نیورانز کے درمیان جمع ہوتا رہتا ہے، جو اگلے دن سوچنے کی رفتار کو سست کردیتا ہے، توجہ کو منتشر کرتا ہے اور یادداشت کو کمزور بناتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شہر کا صفائی کا نظام رات کو کام کرنا چھوڑ دے اور اگلی صبح ہر گلی کوڑے کے ڈھیر سے بھری ہو۔

اگر نیند کی کمی اس مسئلہ کا ایک پہلو ہے تو ڈیجیٹل دور کا معلومات کا سیلاب اس کا دوسرا، اور شاید زیادہ خطرناک، پہلو ہے۔ ہم ایک "توجہ کی معیشت" (Attention Economy) میں جی رہے ہیں، جہاں ہماری توجہ ایک قیمتی شے ہے جسے ہر قیمت پر خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے نیوروسائنٹسٹ ڈاکٹر اینڈریو ہیوبرمین (Andrew Huberman) وضاحت کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا، نوٹیفکیشنز اور لامتناہی اسکرولنگ ہمارے دماغ کے ڈوپامین سسٹم کو ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ ہر لائیک، کمنٹ یا نئی پوسٹ ڈوپامین کا ایک چھوٹا سا جھٹکا دیتی ہے، جو ہمیں بار بار اپنے فون کی طرف کھینچتا ہے۔ اس مسلسل خلفشار کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ طویل مدتی، گہری توجہ کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور چھوٹی چھوٹی، فوری تسکین کا عادی ہو جاتا ہے۔ علی کو یہ احساس نہیں تھا کہ رات کو بستر پر لیٹ کر "صرف پانچ منٹ" کے لیے فون دیکھنا دراصل اس کے دماغ کو اگلے دن کی ناکامی کے لیے تیار کر رہا تھا۔ یہ صرف نیلی روشنی کا مسئلہ نہیں، یہ دماغ کو ایک مستقل اضطراب اور بے چینی کی حالت میں مبتلا رکھنے کا عمل ہے جو ذہنی وضاحت کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ کیا یہ ترقی ہے یا ذہنی انحطاط، کہ تاریخ کی سب سے زیادہ معلومات تک رسائی رکھنے والی نسل اپنی توجہ کو چند سیکنڈز سے زیادہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت کھو رہی ہے؟

یہ ذہنی دھند صرف ہمارے سروں میں ہی نہیں، بلکہ ہمارے پورے وجود میں جڑیں رکھتی ہے، جس کا مرکز ہماری آنتیں ہیں۔ علی، اپنی طویل کام کی شفٹوں کے دوران، کافی، انرجی ڈرنکس اور پروسیسڈ اسنیکس کو اپنا ایندھن سمجھتا تھا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا یہ "ایندھن" دراصل اس کے جسم کے اندر ہی ایک آگ بھڑکا رہا تھا۔ حالیہ تحقیق نے "گٹ-برین ایکسس" (Gut-Brain Axis) کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ یہ غذائیں آنتوں میں جو سوزش پیدا کرتی ہیں، وہ اعصابی راستوں کے ذریعے براہِ راست دماغ تک پہنچ کر "نیورو-انفلیمیشن" (اعصابی سوزش) کا باعث بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لانگ کووِڈ-19 کے لاکھوں مریض، وائرس کے جسم سے نکل جانے کے مہینوں بعد بھی شدید برین فاگ کا شکار رہے۔ کووِڈ نے دراصل اس خاموش وبا کو عالمی منظرنامے پر نمایاں کردیا اور اس حقیقت کو تسلیم کروایا کہ جسمانی سوزش براہِ راست ہماری سوچنے کی صلاحیت پر حملہ آور ہو سکتی ہے۔ ہمارا جسم ایک پیچیدہ ماحولیاتی نظام ہے، اور جب ہم ناقص خوراک، ورزش کی کمی اور دائمی دباؤ کے ذریعے اس کا توازن بگاڑتے ہیں، تو دماغ اس کی قیمت ادا کرتا ہے۔

علی کے لیے وہ میٹنگ ایک المیہ نہیں، بلکہ ایک نعمت ثابت ہوئی۔ اس نے اسے رکنے اور سوچنے پر مجبور کیا۔ اس نے پہلی بار اپنے جسم کے بھیجے گئے انتباہی سگنلز کو سنجیدگی سے لیا۔ اس کا حل کسی جادوئی گولی میں نہیں تھا، بلکہ اپنی زندگی کے طرزِ عمل کو بدلنے میں تھا۔ اس نے صبح اٹھ کر فون چیک کرنے کی بجائے دس منٹ صرف اپنی سانسوں پر توجہ مرکوز کرنا شروع کی۔ اس نے ملٹی ٹاسکنگ کو خیرباد کہا اور ایک وقت میں ایک کام کرنے کے قدیم اصول کو دوبارہ اپنایا۔ اس نے رات کو سونے سے ایک گھنٹہ پہلے ٹیکنالوجی سے ناطہ توڑ کر کتاب پڑھنے کی عادت ڈالی۔ اس نے اپنی میز سے انرجی ڈرنکس ہٹا کر پانی کی بوتل اور پھل رکھ لیے۔ یہ تبدیلیاں معمولی تھیں، لیکن ان کے اثرات گہرے تھے۔ مہینوں کی مسلسل کوشش کے بعد، اس نے محسوس کیا کہ اس کے ذہن کا اندرونی موسم بدل رہا ہے۔ دھند چھٹ رہی تھی، اور سوچ کا نیلا آسمان دوبارہ نظر آنے لگا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ ذہنی وضاحت کوئی ایسی چیز نہیں جسے حاصل کیا جاتا ہے، بلکہ یہ ہماری فطری حالت ہے جسے ہم نے جدید زندگی کے شور میں کھو دیا ہے۔

آخر میں، برین فاگ کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ ہم سے ایک بنیادی سوال پوچھتا ہے: ہم کیسی دنیا تعمیر کر رہے ہیں؟ ایک ایسی دنیا جو انسانی ذہن کی حیاتیاتی حقیقت کا احترام کرتی ہے، یا ایک ایسی دنیا جو اسے ایک مشین سمجھ کر اس کی آخری حد تک نچوڑ لینا چاہتی ہے؟ اس دھند سے نکلنے کا راستہ مزید تیز رفتار ایپس یا بایوہیکنگ گیجٹس میں نہیں، بلکہ سست ہونے، قدرت سے جڑنے، حقیقی انسانی تعلقات استوار کرنے اور اپنے جسم کی دانائی کو سننے میں ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو اپنے آقا کے طور پر نہیں، بلکہ اپنے انسانی مقاصد کے حصول کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کریں۔ علی کی طرح، ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں اس لمحے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے جب ہمارا دماغ کام کرنا چھوڑ دے، بلکہ آج ہی سے ان خاموش سگنلز پر توجہ دینی ہوگی جو ہمیں ایک زیادہ متوازن اور حقیقی زندگی کی طرف بلا رہے ہیں۔ شاید تب ہی ہم بحیثیتِ مجموعی اس ذہنی دھند سے نکل کر ایک روشن اور واضح مستقبل کی طرف دیکھ پائیں گے۔

جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ: سرد جنگ کا خوف اکیسویں صدی میں واپس



  اسماء جبین فلک  

عالمی استحکام کی نازک عمارت، جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بڑی مشکلوں سے تعمیر کی گئی تھی، آج ایک بار پھر لرز رہی ہے، کیوں کہ دنیا جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی، پیچیدہ اور پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک دوڑ میں داخل ہو چکی ہے۔ اس بحران کے مرکز میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ دھماکا خیز اعلان ہے جس میں انہوں نے 33 سال کے طویل وقفے کے بعد امریکہ کے جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ فیصلہ محض ایک پالیسی کی تبدیلی نہیں، بلکہ یہ اس بات کا علامتی اعتراف ہے کہ ہتھیاروں پر قابو پانے کا وہ دور، جس نے کئی دہائیوں تک دنیا کو ایک خوف ناک تباہی سے بچائے رکھا، اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ یہ صورتِ حال کسی ایک ملک کے اقدام کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ عالمی سطح پر بداعتمادی، ٹوٹتے ہوئے معاہدوں اور ایک نئے کثیر قطبی عالمی نظام کی ابھرتی ہوئی حقیقتوں کا ایک سنگم ہے، جہاں طاقت کا توازن اب صرف واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان نہیں، بلکہ بیجنگ سمیت کئی نئے کھلاڑیوں کے گرد گھوم رہا ہے۔
اس نئی جوہری دوڑ کا تجزیہ ڈونلڈ ٹرمپ کی "امریکہ فرسٹ" کی حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کے گہرے فلسفے کو سمجھے بغیر نامکمل ہے۔ ان کا یہ اعلان کہ "وہ کر رہے ہیں، اس لیے ہم بھی کریں گے" دراصل ایک ایسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو بین الاقوامی معاہدوں اور سفارتی نزاکتوں پر ٹھوس، دکھائی دینے والی طاقت کو ترجیح دیتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اس اقدام کا جواز روس، چین، پاکستان اور شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی جوہری سرگرمیوں کو قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ ممالک خفیہ طور پر زیرِ زمین تجربات کر رہے ہیں، جن کے بارے میں دنیا کو لاعلم رکھا جا رہا ہے۔ یہ بیانیہ ایک ایسی دنیا کی تصویر کشی کرتا ہے جہاں امریکہ کے حریف خفیہ طور پر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں، اور ایسے میں امریکہ کے لیے یک طرفہ طور پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا قومی سلامتی سے غداری کے مترادف ہوگا۔ اس فیصلے کا فوری محرک روس کے جدید ترین ہتھیاروں، خاص طور پر "پوسائیڈن" سپر ٹارپیڈو اور "بوریوسٹنک" ایٹمی توانائی سے چلنے والے کروز میزائل کے کامیاب تجربات ہیں۔ یہ 'قیامت خیز' ہتھیار، جو روایتی میزائل دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں، انہوں نے مغربی دفاعی حکمتِ عملی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور واشنگٹن کے پالیسی سازوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کیا ان کے موجودہ جوہری ہتھیار اس نئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگرچہ امریکی وزیر توانائی نے وضاحت کی ہے کہ ان تجربات میں فی الحال جوہری دھماکے شامل نہیں ہوں گے، لیکن محض تجربات کی بحالی کا اعلان ہی ایک ایسا علامتی قدم ہے جو ہتھیاروں کی دوڑ کو ایک نئی مہمیز دینے کے لیے کافی ہے۔
تاہم، یہ بحران صرف امریکہ اور روس کے درمیان روایتی دشمنی کا تسلسل نہیں ہے۔ اس نئی دوڑ کی سب سے خطرناک اور غیر متوقع جہت چین کا ایک کلیدی جوہری کھلاڑی کے طور پر ابھرنا ہے۔ سرد جنگ کے دوران، چین نے ایک محدود جوہری مزاحمت کی پالیسی اپنائے رکھی، لیکن صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین اب ایک عالمی معیار کی فوجی طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہے، اور اس کے لیے ایک وسیع اور جدید جوہری ذخیرہ ناگزیر ہے۔ 2025 کے اعداد و شمار کے مطابق، چین اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 600 تک لے آیا ہے اور امریکی محکمہ دفاع کا اندازہ ہے کہ اس دہائی کے آخر تک یہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے، جو عالمی طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کر دے گی۔ چین کے نئے میزائل سائلوز کی تعمیر اور اس کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اسے وہ وسائل فراہم کر رہی ہے جو کبھی صرف امریکہ اور سوویت یونین کے پاس تھے۔ اس طرح، دنیا اب دو قطبی جوہری مقابلے سے نکل کر ایک انتہائی پیچیدہ 'سہ فریقی' مسئلے میں داخل ہو چکی ہے، جہاں تین بڑی طاقتوں کے درمیان غلط فہمی اور حساب کی غلطی کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ عالمی کشیدگی علاقائی سطح پر بھی سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں، بھارت اور پاکستان کے درمیان جوہری توازن ہمیشہ سے نازک رہا ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی ہتھیاروں کی دوڑ ان دونوں ممالک پر بھی اپنے ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لیے دباؤ ڈالے گی۔ بھارت (180 ہتھیار) اپنی 'پہل نہ کرنے' کی پالیسی پر قائم ہے، لیکن چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور پاکستان (170 ہتھیار) کے ساتھ روایتی دشمنی اسے اپنی صلاحیتوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ دوسری طرف، پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں کو بھارت کی بڑی روایتی فوج کے خلاف ایک توازن کے طور پر دیکھتا ہے، اور اس کی حکمت عملی علاقائی استحکام کے لیے ہمیشہ ایک سوالیہ نشان بنی رہتی ہے۔ اسی طرح، شمالی کوریا (50 ہتھیار) کا جوہری پروگرام مشرقی ایشیا میں ایک مستقل خطرہ ہے، جب کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی غیر اعلانیہ جوہری صلاحیت (90 ہتھیار) اس خطے کی پہلے سے پیچیدہ سیاست میں ایک اور غیر یقینی عنصر کا اضافہ کرتی ہے۔ یوکرین کی مثال نے دنیا بھر کے چھوٹے ممالک کو یہ تلخ سبق سکھایا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے بغیر ان کی خود مختاری ہر وقت خطرے میں رہتی ہے، جس سے مستقبل میں جوہری پھیلاؤ کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
اس بحران کی جڑیں ہتھیاروں پر قابو پانے کے اس عالمی ڈھانچے کے ٹوٹنے میں پیوست ہیں جسے کئی دہائیوں کی محنت سے بنایا گیا تھا۔ 'جامع جوہری تجربہ پر پابندی کے معاہدے' (
CTBT) جیسے معاہدے، جن پر 187 ممالک نے دست خط کیے، آج اپنی افادیت کھو رہے ہیں کیوں کہ امریکہ جیسی بڑی طاقتوں نے کبھی اس کی توثیق ہی نہیں کی۔ امریکہ کا آخری جوہری تجربہ 1992 میں ہوا تھا، جس کے بعد ایک غیر رسمی پابندی قائم رہی، لیکن ٹرمپ کے اعلان نے اس پابندی کو توڑ دیا ہے۔ اس سے نہ صرف امریکہ اور روس کے درمیان باقی ماندہ معاہدوں، جیسے کہ 'نیو سٹارٹ'، پر دباؤ بڑھے گا، بلکہ یہ چین اور روس کو بھی کھلی چھوٹ دے گا کہ وہ بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے تجربات دوبارہ شروع کریں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ جب شفافیت اور تصدیق کے بین الاقوامی طریقہ کار ختم ہو جاتے ہیں، تو ہر ملک بد ترین صورتِ حال فرض کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جس سے ایک ایسا شیطانی چکر شروع ہوتا ہے جہاں ہر اقدام جوابی اقدام کو جنم دیتا ہے۔
آج دنیا جس موڑ پر کھڑی ہے، وہ سرد جنگ کے مقابلے میں شاید زیادہ خطرناک ہے۔ اس وقت دشمن واضح تھا اور رابطے کے راستے موجود تھے۔ آج کی کثیر قطبی دنیا میں دشمنیاں زیادہ پیچیدہ ہیں اور غلط فہمیوں کا امکان کہیں زیادہ ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی، بشمول ہائپر سونک میزائل اور مصنوعی ذہانت، اس خطرے کو مزید بڑھا رہی ہے۔ جوہری تباہی کا وہ خوف، جسے بیسویں صدی کی تاریخ کا ایک باب سمجھ کر بھلا دیا گیا تھا، آج اکیسویں صدی کی ایک زندہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عالمی برادری صرف ہتھیاروں کی گنتی پر توجہ نہ دے، بلکہ اس اعتماد اور تعاون کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کرے جو اس خطرناک دوڑ کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔

اسسٹنٹ پروفیسر، یشونت رائو چوان آرٹس و سائنس مہاودیالیہ، منگرول پیر، ضلع واشم، مہاراشٹر


ذہنیت میں تبدیلی کے بغیر ذات پات کا خاتمہ ممکن نہیں : ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

 

 


            نئی دہلی، 4 نومبر: انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی (ISRD) نے ابوالفضل انکلیو، اوکھلا کے اسکالر اسکول ہال میں لیکچر سیریز کے تحت ”ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی تاریخی، ثقافتی اور موجودہ صورتحال: دلت کمیونٹی کے حوالے سے“ ایک پروگرام منعقد کیا، جس میں ماہرینِ سماجیات نے ہندوستانی سماج میں ذات پات کے نظام پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ قانون سازی اور تعلیم نے اس کے اثرات کسی حد تک کم کیے ہیں، تاہم ذات پات کی جڑیں آج بھی سماجی ذہنیت میں گہرائی سے پیوست ہیں۔

            جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے صدارتی خطاب میں زور دیا کہ جب تک ذہنیت (mindset) تبدیل نہیں ہوگی، ذات پات کا نظام ختم نہیں ہوگا۔ انھوں نے واضح کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں میں جو ذات پات کا تصور پایا جاتا ہے، وہ اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں بلکہ ہندوستانی سماج کے اثرات کا نتیجہ ہے۔" انھوں نے کہا کہ ہندومت میں ذات پات مذہبی بنیاد رکھتا ہے، لیکن اسلام میں اس کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں۔ مسلمانوں میں یہ تصور صرف سماجی اثرات کے ذریعے آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں تمام انسان برابر ہیں، اور رسول اللہ نے اعلان فرمادیا کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ برتری صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ انہوں نے حضرت بلال? کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب مکہ فتح ہوا تو ایک حبشی غلام کو خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دینے کا حکم دیا گیا۔ یہ اسلام کی حقیقی مساوات کا عملی مظہر تھا۔

            انھوں نے کہا کہ صرف قوانین بنانے یا بدلنے سے سماجی رویے نہیں بدلتے۔ جیسے کینسر کے مریض کو صرف درد کم کرنے کی دوا دی جائے، تو مرض ختم نہیں ہوتا۔ اسی طرح ذات پات کے مسئلے کا بھی سطحی علاج کافی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی بھی کافی نہیں جب تک دلوں سے تعصب نہ مٹے۔ بہت سے دلت لوگ اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے کے باوجود سماجی قبولیت اور عزت نہیں مل پاتی ، کیونکہ لوگوں کی ذہنیت وہی رہتی ہے۔

            مولانا ندوی نے قرآن کی آیات اور نبی کریم کے ارشادات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اللہ نے انسانوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ جب سب کا خالق ایک ہے تو کسی کو اشرف اور کسی کو ارزل نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام جہاں پہنچا، اس نے برابری اور عدل کا کرشمہ دکھایا۔ لاکھوں لوگ اسی تعلیم سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوئے۔ مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اپنی اصل تعلیمات سے دور ہو گئے ہیں۔

            انھوں نے ختلاف کیا کہ کاسٹ سسٹم انگریزوں کی پیداوار ہے۔انہوں نے وضاحت کی سچ بات یہ ہے کہ انگریزوں نے اس نظام کو قائم نہیں کیا بلکہ باقی رکھا۔ یہ ہزاروں سال پرانا ہندوستانی سماجی ڈھانچہ ہے جسے ختم کرنا آسان نہیں۔ انہوں نے مقرر پروفیسر ششی شیکھر کے اس قول سے اتفاق کیا کہ ذات پات ہندوستانی سماج ایک حقیقت ہے۔ ڈاکٹر رضی الاسلام نے مزید کہا شہری زندگی اور تعلیم کے باوجود ذات پات کا اثر کم نہیں ہوا۔ آج بھی تعلیم یافتہ اور شہری طبقے میں یہ تقسیم کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ ڈاکٹر ندوی نے اس خیال کی تردید کی کہ مختلف مذاہب کے درمیان شادیوں سے ذات پات کا نظام ختم ہو جائے گا۔ اسلام تو واضح طور پر دوسرے مذاہب میں شادی کو حرام قرار دیتا ہے۔

            تقریب کے افتتاحی کلمات میں جماعت اسلامی ہند، دہلی کے امیر سلیم اللہ خان نے کہا قرآن پڑھنے والا سب سے پہلے یہ مانتا ہے کہ انسان کا احترام اس لیے ہے کہ وہ انسان ہے.۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں باہمی احترام کے لیے دوطرفہ ذمہ داری ضروری ہے۔"اگر ہم اپنا احترام چاہتے ہیں تو دوسروں کا احترام کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کو جانیں، کیونکہ لا علمی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔"

ISRD کے سیکریٹری آصف اقبال نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ اس سیریز کا مقصد محض علمی بحث نہیں بلکہ "سماج کو سمجھنا اور سماج کے ساتھ جڑنا" ہے۔انہوں نے کہا "ہم چاہتے ہیں کہ دہلی جیسے متنوع شہر کے سماجی تانے بانے کو علمی بنیادوں پر سمجھا جائے تاکہ ہم ایک مثبت اور بامقصد کردار ادا کر سکیں۔"

            جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پردیپ کمار شندے نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ"کاسٹ اس ملک سے ختم ہونا بہت مشکل ہے۔ میں یہ پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ذات پات انگریزوں سے پہلے بھی ہمارے ملک میں موجود تھی۔ ہاں، انگریزوں کی مردم شماری نے اسے مستقل حیثیت ضرور دے دی۔"انہوں نے وضاحت کی کہ برطانوی دور میں مردم شماری کے ذریعے ہر شخص کی ذات کی درجہ بندی نے اس تصور کو ادارہ جاتی شکل دی، جس کے بعد یہ نظام مستقل صورت اختیار کر گیاا۔ ان کے مطابق:"انگریزوں سے پہلے ذات پات کا اثر مقامی سطح پر تھا، لیکن مردم شماری نے اس کو باقاعدہ شناخت دے دی۔ سماج میں کسی کی ذات پیدائش سے طے ہوتی ہے، اس کے بعد یہ طے ہوتا ہے کہ وہ کیا کھائے گا، کس سے شادی کرے گا، اور کس کے ساتھ میل جول رکھے گا۔"

ڈاکٹر شنڈے نے تاریخی حوالوں سے بتایا کہ ڈاکٹر بھیم راو  امبیڈکر نے 1930 کی دہائی میں اپنے لیکچر "Relations of Caste" میں یہ واضح کیا تھا کہ:"ذات پات کا نظام ہندو مذہبی صحیفوں سے آیا ہے۔ یہ مسئلہ اسلام یا عیسائیت میں نہیں پایا جاتا۔"

            انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ کچھ سماجی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ چھوت چھات اور امتیاز میں کمی آئی ہے، لیکن زمینی سطح پر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

"آج بھی ہم سنتے ہیں کہ کسی دلت کو مندر میں داخل ہونے نہیں دیا گیا، یا شادی میں گھوڑے پر بیٹھنے پر تشدد کیا گیا۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ذات پات کا اثر کم نہیں ہوا، بلکہ یہ نئے روپ میں ابھرا ہے۔"

            انہوں نے راجستھان، دہلی اور اتر پردیش کے حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور عدلیہ جیسے ادارے، جو بظاہر ذات سے ماورا ہیں، اکثر امتیازی رویہ اختیار کرتے ہیں۔"ہاتھرس (Hathras) کیس میں دلت طبقے کو صرف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ بیوروکریسی اور عدلیہ پر بھی ذات پات کا اثر قائم ہے۔"

ڈاکٹر شندے نے زور دیا کہ:"ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ ذات پات کے خاتمے کے لیے سیاسی طاقت ضروری ہے۔ مگر آج سیاست خود ذات پات کی بنیاد پر تقسیم ہے۔ ذات پات اب ہر ادارے اور طبقے میں سرایت کر چکی ہے۔"

انہوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ ذات پات کا مسئلہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہا بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے"برطانیہ میں دلتوں نے ’اینٹی کاسٹ بل‘ پیش کیا، اگرچہ وہ مسترد ہوگیا، لیکن اس سے واضح ہوا کہ ہندوستانی ذات پات کا مسئلہ اب عالمی سطح پر بحث کا موضوع ہے۔ امریکہ میں بھی ایک دلت انجینئر خاتون نے کاسٹ ڈسکریمنیشن کی شکایت درج کرائی۔"

انہوں نے مزید کہاکہ یہ کہنا کہ سب ہندو ہیں، اس لیے ذات پات کا مسئلہ ختم ہو جائے گا — ایک سیاسی فریب ہے۔ یہ سوچ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔

            پروفیسر ششی شیکھر، دہلی یونیورسٹی ، نے اپنے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ذات پات ہندوستانی معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان میں آپ اپنا مذہب بدل سکتے ہیں، لیکن ذات نہیں بدل سکتے، کیونکہ ذات پیدائش سے وابستہ ہے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی اعلیٰ ذات کا مرد نچلی ذات کی عورت سے شادی کر لیتا ہے، تو عورت کو اپنی ذات کے مطابق سرکاری کوٹا ملتا، مگر ان کے بچے کو یہ حق نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ قوانین اور اصلاحی اقدامات کے باوجود ذات پات پر مبنی امتیاز آج بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔

            پروفیسر شیکھر نے مزید کہا کہ ذات کے اندر بھی ذاتیں موجود ہیں۔ برہمنوں میں بھی اونچی اور نیچی ذاتیں دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے آر ایس ایس کے سربراہ ایک چت پون برہمن ہیں، جنہیں سب سے اعلیٰ برہمن مانا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ذات کا نظام اس لیے مضبوط ہے کیونکہ یہ انسان کے سوچنے اور سمجھنے کے طریقے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جب تک ذہنیت نہیں بدلے گی، ذات پات کا خاتمہ ممکن نہیں۔

            انہوں نے وضاحت کی کہ تعلیم اور شہری زندگی (Urbanisation) نے ذات پات کے نظام کو کمزور ضرور کیا ہے، مگر یہ آج بھی دیہاتوں میں بہت مضبوطی سے قائم ہے۔ شہروں میں اگرچہ اس کی شکل مختلف ہے، لیکن وہاں بھی ذات کی بنیاد پر شناخت اور سیاسی وابستگی برقرار ہے۔ پروفیسر نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھاتے وقت یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون کس ذات سے ہے — حالانکہ تدریس میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے۔ مگر جب الیکشن کا وقت آتا ہے، تو وہی ذات پات کی سیاست دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے۔

 

" بہار میں ذاتی تشدد اور سیاست کا المیہ" بہار اسمبلی انتخابات: ووٹوں کو منتشر کرنے کی قدیم سیاست!( آخری قسط)


 

نور محمد خان ۔ممبئی

بہار میں سیاسی سماجی معاشی تعلیمی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ آزادی کے بعد بہار میں جہاں ایک طرف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس تھی وہیں کانگریس کی پالیسیوں کے خلاف مختلف سياسی پارٹیوں کا وجود عمل میں آیا، ملک کی آزادی سے قبل ہو يا بعد میں منافرت کی سیاست نے عوام کو بہت کچھ سکھا اور بتا دیا،  بہار میں ہندو اور مُسلم کی سیاست سے الگ ایک ذات پات، امیری غریبی کی بنیاد پر زمیندرانہ نظام تھا بے زمین اور زمینداروں کے درمیان قتل و غارتگری بھی پیش آیا   ۔  ریاست بہار میں وزیر اعلٰی کی فہرست بھی معنی رکھتی ہے اور ان کا تعلق بھی کسی نہ کسی ذات برادری سے ہے ۔جیسا کہ پہلے قسط کے مضمون میں 1952 سے لیکر 2020 تک کانگریس سے لیکر مختلف سیاسی جماعتوں کے انتخابی نتائج کے بارے میں ذکر کیا گیا تھا تاکہ سمجھنے میں آسانی  ہو سکے اب دوسری قسط میں دلیت ، پچھڑی اونچی اور نیچی  ذات پات کی بنیاد پر تشدد نے ایک تاریخ رقم کی ہے جس میں اونچی اور نیچی ذاتوں کے درمیان زمیندرانہ نظام تنازعہ کا باعث بنا ہوا تھا اعلیٰ ذات کے زمینداروں  کے پاس زمینیں تھیں دوسری طرف نچلی ذاتیں، جو زیادہ تر غریب تھیں زمینداری کے خاتمے کیلئے کوشاں تھی ۔ بہار میں کمیونسٹ بغاوت نے اونچی اور نچلی ذاتوں کے درمیان رسہ کشی شروع کر دی۔ مارکسسٹوں اور زمینداروں کے درمیان تنازعہ ذات پات کی بنیاد پر تقسیم نہیں تھا، کیونکہ کچھ درمیانی کسان ذاتیں بھی زمیندار تھیں۔

1960 کی دہائی میں بہار کے بھوجپور خطے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) لبریشن کے بینر تلے جگدیش مہتو کی قیادت میں کمیونسٹ بغاوت دیکھی گئی، جب کہ 1990 کی دہائی میں ذات پات کی شیطانی جنگیں بھی منظر عام پر آئیں۔

دلت اور درمیانی کسان ذاتوں کے غریب کسان باغی بن گئے تھے، جو جمود کے حامیوں کے خلاف اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے، یعنی اونچی ذاتوں کے ساتھ ساتھ متوسط کسان ذاتوں کے متمول طبقات جیسے یادو، کرمی اور کوئری شامل تھے ۔ پہلا عوامی لیڈر جگدیش مہتو کا تعلق کوئری برادری سے تھا اور پیشے سے ٹیچر تھے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر سے متاثر تھے انہوں نے آرا قصبے سے ہریجانستان دلت بھومی کے نام سے ایک اخبار بھی شروع کیا تھا ۔ مذہبی جذبات بھی تلخ تنازعات کا باعث بنی بھاگلپور کا تشدد اس کی ایک مثال ہے۔

1970 میں بھوجپور بغاوت: بھوجپور بہار کا ایک تاریخی خطہ ہے، جو اُجینیا راجپوتوں کے ساتھ اپنی وابستگی کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ خطہ زمینداری نظام کی بدترین شکل کے لیے بھی جانا جاتا ہے،بھوجپور بغاوت ایک مقبول تحریک تھی جس کی قیادت نئے تعلیم یافتہ پسماندہ ذات کے نوجوانوں نے کی تھی، جن میں جگدیش مہتو، رامیشور آہیر، رام نریش رام، اور مہاراج مہتو شامل تھے۔ کمیونسٹوں کی طرف سے متحرک نوجوانوں نے زمیندار طبقے کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔

مصنف سنتوش سنگھ کے مطابق، 1971 سے 1976 کے درمیان بڑی تعداد میں بھومی ہاروں اور دیگر اونچی ذات کے زمینداروں کو مارا گیا۔ مہتو کی موت کے بعد، تحریک ختم ہوگئی، جس سے خطے میں ایک طویل عرصے تک امن قائم ہوا۔

27 مئی 1977 کو ایک واقعہ پیش آیا تھا جب کرمی ذاتی کے زمینداروں نے 11 لوگوں کو باندھ کر گولی مار کر قتل کر دیا تھا جن کا تعلق نچلی اور پچھڑی ذاتوں سے تھا تمام متوفیوں کو ایک ہی چیتا میں جلا دیا گیا معاملہ جب عدالت میں پیش کیا گیا جہاں گواہوں کے بیانات پر دو ملزمین کو موت کی سزا سنائی گئی اور 11 لوگوں کو عمر قید کی سزا دی گئی ۔ ذاتی تشدّد کی وجہ کرمی ذات کے زمیندار اور بے زمین پاسوان برادری کے کسانوں کے درمیان اونچ نیچ اور پچھڑی ذات کی بنیاد پر قتل عام تھا اس لیے ان کے راستے بھی الگ ہوگئے تھے ۔

پارس بیگھہ اور دوہیا، جو پٹنہ سے چند کلومیٹر جنوب میں واقع ہیں، 1950 میں زمینداری نظام کے خاتمے کے بعد سے تناؤ کا شکار تھے۔ سابقہ ٹیکری راج سے زیادہ سے زیادہ زمین چھیننے کی دوڑ نے یادووں اور بھومی ہاروں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا۔

یہاں کے یادووں نے ایک طویل اور تلخ جدوجہد میں دلتوں کی حمایت کی، جس کا اختتام 1979 میں پارس بیگھہ میں بھومی ہاروں کے حملے میں ہوا، جس میں ایک یادو سمیت 11 لوگ مارے گئے۔بھومی ہاروں نے یادووں کی قیادت میں دلت نکسلائٹس کی کارروائی کا بدلہ لینے کے لیے حملہ کیا، جنہوں نے چند دن پہلے ایک بدنام زمانہ بھومی ہار زمیندار کا سر قلم کر دیا تھا۔

پارس بیگھہ کے قتل کے دو دن بعد، یادو بھومی ہار کے مجرموں کی تلاش میں ڈوہیا گاؤں پر اترے جو پارس بیگھہ واقعہ کے فوراً بعد بھومی ہار گاؤں سے منتشر ہو گئے تھے۔

اطلاعات کے مطابق دوہیا واقعہ سے قبل متوسط طبقے کے کل 2000 لوگ جمع ہوئے تھے۔ وہ پارس بیگھہ کے واقعے کا بدلہ لینا چاہتے تھے، جہاں بھومی ہار مجرم تھے۔ اس کے بعد ہجوم ڈوہیا گاؤں میں داخل ہوا جہاں بہت سے بھومی ہار خاندان رہتے تھے۔انہوں نے کئی بھومی ہار خاندانوں میں لوٹ مار کے بعد خواتین کے ساتھ بدسلوکی چھیڑ چھاڑ اور اجتماعی عصمت دری کی ـ

پپرا ضلع جہان آباد کا ایک گاؤں ہے۔ یہاں کے زمیندار کرمی ہیں، جو ایک پسماندہ ذات سے تعلق رکھتے ہیں ماضی میں زمین کے مالک مسلم زمیندار تھے، جنہوں نے تقسیم کے وقت اپنے دلت کرمیوں کی مدد سے گاؤں چھوڑ دیا،بہت سے کرمیوں کی خواہشات کے خلاف، جنہوں نے مسلمانوں کے گھر جلانے کا منصوبہ بنایا۔ بعد میں زمینداروں نے اپنی زمین کرمی خریداروں کو بیچ دی، جو دلت مزدوروں سے پرانے زمینداروں جیسی عزت کی توقع کرنے لگے۔

وقت کے ساتھ ساتھ دلت نکسل تحریک کے ہمدرد بن گئے۔ 1978-79 میں خشک سالی کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوئے جس نے ان کی حالت انتہائی خراب کر دی۔ دسمبر 1979 میں نکسلیوں نے ایک کرمی زمیندار کو قتل کر دیا، جوابی کارروائی میں 25 فروری 1980 کو بھاری ہتھیاروں سے لیس افراد نے پپرا گاؤں میں دلتوں کے گھروں پر حملہ کیا۔ بہار کے مونگیر ضلع میں دریائے گنگا کے جنوبی کنارے پر ایک خونریز تصادم میں یادووں نے دھنوک ذات کے چار لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ اسی سال جوابی کارروائی میں دھنوکوں نے پپڑیا گاؤں سے یادووں کے چودہ بچوں کو اغوا کیا اور چارہ لینے کے لیے دریا کے پار لے گئے۔ تین کے علاوہ باقی تمام بچوں کو قتل کرکے لاشوں کے ٹکڑے کر دیے گئے تاکہ ان کی شناخت نہ ہو سکے۔

1985 میں، بہار کے مونگیر ضلع میں راجپوتوں اور یادووں کے درمیان حملوں اور جوابی کارروائیوں کے دوران تین قتل عام ہوئے۔ یادو اور راجپوت زمین کے تنازع میں ملوث تھے۔ راجپوت متنازعہ زمین پر کاشتکاری کے لیے بھنڈ نامی قبائلی برادری کو لائے تھے۔یادو گھوڑے اور پیدل گاؤں میں داخل ہوئے اور نو لوگوں کو مار ڈالا۔ انہوں نے راجپوت کے چار سو گھروں کو بھی لوٹ لیا۔ اس حملے میں ایک نومولود بچی بھی ماری گئی۔

1986 میں گاؤں چھوٹکی چھیچانی میں ایک الگ واقعے میں راجپوت حملہ آوروں نے سات یادووں کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کے بعد گاؤں کے یادووں نے اگلے سال بدلے میں 11 راجپوتوں کو قتل کر دیا۔1987 بہار کے اورنگ آباد ضلع کے بگورا گاؤں میں یادو اور راجپوت برادریوں کے درمیان سینکڑوں ایکڑ اراضی کا تنازعہ ایک قتل عام کا باعث بنا جس میں یادو اکثریتی ماؤسٹ کمیونسٹ سینٹر نے 50 سے زیادہ راجپوتوں کو ہلاک کر دیا۔

اس قتل عام کے نتیجے میں 40 راجپوت خاندانوں کو گاؤں سے بے دخل کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ بندیشوری دوبے نے متاثرہ خاندانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کی شکل میں راحت کا اعلان کیا۔ بعد ازاں کچھ مجرموں کو عدالت نے سزائے موت سنائی۔

بگوارا قتل عام کو لکشمن پور باٹھ کے ساتھ بہار کی تاریخ میں ذات پات پر مبنی سب سے بڑے قتل عام میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔بہار کے اورنگ آباد ضلع کے جڑواں دیہات میں پیش آنے والے اس خاص واقعے میں مصنفین اشوک کمار اور ایس کے گھوش کا ذکر ہے کہ مجرموں کی طرف سے راجپوت خواتین کی عصمت دری کے بعد مردوں اور عورتوں کا قتل عام ہوا۔

1988 میں جہان آباد ضلع سے متصل ایک کیلو میٹر کی دوری پر واقع نونہی گڑھ اور نگواں گاؤں میں نامعلوم افراد نے دلیت سماج کے 19 افراد کا قتل کر دیا تھا دونوں گاؤں کے اطراف میں یادو ذات کے زمیندار رہتے تھے اس واقعہ کے بعد یادوں نے بیان دیا کہ مذکورہ فائرنگ کی آوازیں ہم لوگوں نے نہیں سنی ہے اور اس کی اطلاع بھی گاؤں کے دليت پڑوسیوں نے دی ہے

اس وقت کے وزیر اعلیٰ بھاگوت جھا نے ان لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا جن کو سرکار نے بندوق کا لائنسنس فراہم کیا تھا کیوں کہ وہ ان لوگوں کمزور لوگوں کو بچانے میں ناکام ہوۓ تھے



بہار کے بھوجپور ضلع میں 1989 میں دنوار بیھٹہ کا قتل عام بھی تاریخ میں درج ہے کیوں کہ یہاں بھی اعلیٰ ذات کے راجپوت زمینداروں دلتوں کو اپنے پسندیدہ امیدواروں کو جبراً ووٹ دلوانے کیلئے پولنگ بوتھوں پر قبضہ کر لیتے تھے اس ظلم و زبر کے خلاف دلتوں نے من بنایا کہ اب ہم اپنے امیدواروں کو ووٹ دینگے اسی بات کو لےکر 1989 میں 23 دلتوں کو قتل کر دیا گیا  ۔ بہار کے کوسی علاقے میں 1990،91 کے درمیان آنند موہن سنگھ اور پپو یادو گروہ متحریک تھا جن کا مقصد اپنے برادریوں کی حفاظت کرنا تھا ۔1991 میں یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آنند موہن نے منڈل کمیشن کی سفارشات کے خلاف اور لالو پرساد یادو حکومت پر تنقید کی اور مظاہرہ کیا اس کے بعد یادو گروہ کے لوگ راجپوتوں کی فصلیں لوٹ کر لے گئے جس کی وجہ سے راجپوتوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔

بہار میں واقع بارا قتل عام میں 37 افراد ہلاک ہوئے تھے یہ واقعہ1992 میں بھومی ہار برادری کے 37 افراد کو مائووادی سینٹر نے قتل کر دیا تھا اور یہ قتل بھی ذات کی بنیاد پر مبنی تھا اس قتل عام کے ایک کلیدی ملزم رام چندر یادو کو 2023 میں ایک ٹرائل کورٹ میں مورودالزم ٹھہرایا گیا تھا ۔

1993میں بہار میں واقع بھوجپور ضلع کے اچری گاؤں میں انڈین پیپلز فرنٹ کے حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے اور کئی زخمی ہوئے جن کا تعلق راجپوتوں سے تھا مذکورہ معاملے میں پیپلز فرنٹ کے رکن بھگوان سنگھ کشواہا تھے 30 سال بعد 2023 میں کچھ ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے کشواہا کو بری کر دیا گیا  ۔جبکہ راجیندر شاہ ، بدھو شاہ ، پولس مهتو ،غوری مهتو، بہادر رام، ستیہ ناراین رام ، دلار چند یادو ،بھدوسا رام ،اور بالیشور رام کو 302 کے تحت عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

1996میں بہار کے بھوجپور ضلع میں واقع ناڑھیی قتل عام کا معاملہ پیش آیا تھا زمینداروں اور پچھڑی ذاتوں کے درمیان ذاتی تشدد کی وجہ سے 9 بھومی ہاروں كا قتل ہوا تھا۔اسی سال بھوجپور بتھانی ٹولہ گاؤں میں بھومی ہار ،راجپوت اور رنویر سینا کے لوگوں نے 21 دلتوں کا قتل کر دیا تھا جس میں مرد عورت اور معصوم بچے بھی شامل تھے آرا کی ایک عدالت نے 3 ملزمان کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی لیکن پٹنہ ہائی کورٹ نے  ناکافی ثبوت کی بنیاد پر تینوں ملزم کو بری کر دیا گیا ۔

1997 میں لکشمن پور باتھے قتل عام نے انسانیت کو شرمسار  کردینے والاواقعہ تھا جہاں لکشمن پور میں رنویر سینا نے56 دلتوں کا  قتل کردیا جس میں مرد عورت سبھی شامل تھے ۔قتل عام کے بعد درج مقدمہ سے سیاسی جماعتوں کا مضمر شمولیت کا امکان نظر آیا اور بتایا گیا کہ گاؤں والوں کی حفاظت کے لئے تعینات پولیس اہلکاروں نے سینا کی مدد کی تھی واقعہ کے بعد ہیومن رائٹس واچ کی ٹیم نے دورہ بھی کیا تھا اور متاثرین کا بیان بھی درج کیا تھا جس میں ایک 32 سالہ خاتون سورج منی دیوی نے بیان دیا تھا کہ سبھی متوفی لوگوں کے سینے میں گولی ماری گئی تھی اور ایک پندرہ سالہ بچی جو دو تیں دن بعد اپنے سسرال جانے والی تھی اس کے پستان کو کاٹ دیا اور سینے میں گولی مارکر ہلاک کردیا ایسی کل پانچ لڑکیاں تھیں ۔

1998میں ارول ضلع میں واقع رام پور چورم گاؤں میں ایک شخص کی تدفین کے بعد لوٹ رہے 9 لوگوں کا قتل کر دیا گیا تھا جن کا تعلق بھومی ہار  ذاتی سے تھا اس معاملے میں نچلی عدالت نے متاثرین کے حق میں فیصلہ سنایا تھا جس کو پٹنہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور ہائی کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر 14 ملزمان میں راما دھار یادو ، رام پرویش رام ،امیش شاہ ، بھگوان شاہ ،اور راجکمار موچی  کو بری کر دیا۔

1999میں بہار کے جہان آباد ضلع میں واقع اُسری بازار میں بائیں بازو کے انتہا پسند اور رنویر سینا کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں انتہا پسندوں نے بھومي          ہار ذاتی کے 7 لوگوں کا قتل کر دیا تھا۔وہیں جہان آباد کے بھیم پورا گاوں میں انتہا پسندوں نے بھومی ہار ذاتی کے 4 لوگوں کا قتل کر دیا تھا اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر شوشیل مودی نے راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر لالو پرساد یادو پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا تھا جس کے بعد قتل  عام کو انجام دیا گیا تھا ۔

1999میں سینری گاوں میں نکسلی تنظیم نے 34 بھومی ہار ذاتوں کا قتل کر دیا تھا اس نکسلائی یونٹ میں یادو اور پاسوانوں کا غلبہ تھا ملزمان میں بچّے سنگھ ،بدهن یادو ، بٹائی یادو ، ستیندر داس ،للن پاسی ،دوارکا پاسوان ، کریبن پاسوان ، گودائی پاسوان ،اوما پاسوان ،اور گوپال پاسوان شامل تھے ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا ۔1999میں شنکر بيگھا گاوں میں رنویر سینا نے مرد عورت سمیت 23 دلتوں کا قتل کر دیا تھا جہان آباد کی ایک عدالت نے زیادہ تر ملزمان کو بری کر دیا تھا ۔

2000 میں بہار کے نوادہ اور شیخ پورا علاقہ میں زمینداروں اور کرمی کوئری ذاتوں کے درمیان طویل عرصے سے ایک دوسرے کے حریف تھے جن میں اکھلیش سنگھ گروہ دوسرا اشوک مھتو گروہ تھا یہ دونوں گروہ اپنی اپنی ذات برادری کی قیادت کر رہے تھے  ۔ ان دونوں گروہوں کی خانہ جنگی میں قریب دو سو لوگوں کی جان گئی ۔اس واقعہ میں اکھلیش سنگھ کی بیوی  کے  قریب 12 رشتے داروں کا اشوک مہتو گروہ کے لوگوں نے قتل کر دیا تھا ۔ اسی واقعہ کے بعد لکھی سرائے میں 11 مزدوروں کا قتل ہوا ۔لکھی سرائے میں جناردن سنگھ اور ہرے رام یادو جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے اور ان کا تعلق ریت مافیا سے تھا یادو برادران نے اکھلیش سنگھ کے 11 مزدوروں کا قتل کر دیا تھا اور اتر پردیش فرار ہو گیا تھا 2014 میں اسپیشل ٹاسک فورس نے گرفتار کیا تھا ۔

بہار کے کھگڑیا ضلع میں اکتوبر 2009 میں چار بچوں سمیت 16 لوگوں کو جھونپڑیوں میں سے باہر نکال کر ہاتھ پیر باندھ کر گولیوں سے بھون دیا گیا ۔مارے گئے 16 لوگوں میں 14 کرمی اور 2 کشواہا ذات سے تعلق رکھتے تھے ۔اس قتل عام میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کوئری،کرمی اور مسہر ذاتی کے درمیان  ندی کی زمین کو لیکر تنازعہ تھا اور یہ بھی بتاتا گیا تھا کہ بچوں کے بیانات کے مطابق قاتلوں کا تعلق دلت برادری اور مسہر برادری سے تھا ۔2013 میں روہتاس ضلع کے بدی گاؤں میں روی داس مندر کے قیام معاملے میں راجپوتوں اور (روی داس) چمار

برادری میں تشدّد برپا ہوا تھا روی داس برادری کے لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ راجپوتوں کی بھیڑ نے گاؤں پر حملہ بول دیا تھا جس میں ایک افرادکی موت ہوگئی تھی  اور 54 افراد زخمی ہوئے تھے ۔مدھوبنی قتل عام 2021 میں پیش آیا ہولی کے تیوہار کے موقع پر مدھوبنی کے محمد پور گاؤں میں ذاتی رنجش کے معاملے میں ایک خاندان کے 5 لوگوں کا قتل کر دیا گیا اس قتل میں پروین جھا بھولا سنگھ چندن جھا کملیش سنگھ اور مکیش سافی کو گرفتار کیا گیا تھا ۔

2022میں بہار میں واقع اورنگ آباد ضلع میں سجیت مہتو کا قتل کر دیا گیا متوفی ضلع پریشد کی سابق رکن سمن دیوی کے شوہر تھے اس قتل کی وجہ بھی کشواہا (کوئری) برادری اور راجپوت ذات کے مابین  کشاکش  تھا ۔سمن دیوی نے راجپوت قبیلے سے تعلق رکھنے والے آکاش سنگھ پر قتل کا الزام لگایا اس کے بعد دونوں فریق کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کی گئی ۔

بہار میں واقع چھپرا کے مبارکپور میں فروری 2023 میں ہائی پروفائل ماب لینچنگ کا معاملہ منظر عام پر آیا تھا جو ذاتی واد پر مبنی تھا یہ معاملہ اس وقت پیش آیا جب راجپوت قبیلہ کے تین افراد وجئے یادو کے پولٹری فارم  میں جاکر گولی چلائی جوابی کاروائی میں یادوں نے بے رحمی سے پٹا جس کی وجہ سے امیتیش سنگھ کی موت ہو گئی اور 2 افراد بری طرح زخمی ہو گئے علاج کے دوران ان کی بھی موت ہوگئی تھی ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں کانگریس کی حکومت سے لےکر تاحال نتیش کمار کی حکومت تک ایسی کون سی خامیاں تھیں جس کی وجہ سے دلت برادری اور اونچی ذاتوں کے درمیان تشدّد جاری رہا اور حکومت ذاتی تشدد کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی؟

قابل غور ہے کہ بہار کی سیاست ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر سیاسی جماعتوں نے جہاں تشدد برپا کرنے والے گروہوں پر کرم عنایت فرمائی ہے تو دوسری طرف متاثرین کے زخموں پر عدل و انصاف کا مرہم لگا کر ووٹ بینک کو محفوظ کرنے میں مشغول رہے در اصل سیاسی جماعتیں  بالخصوص ذاتی تشدد ، فرقہ وارانہ فسادات ، اشتعال انگیزی جیسے جرائم پر قابو پانے میں کبھی فکرمند نہیں تھی جس طرح سے آج بھارتیہ جنتا پارٹی کا نظریہ ہے بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ذریعے دلتوں ، پچھڑی ذاتوں اور مسلمانوں کے خلاف منافرت کا رویہ اختیار کیا گیا جس کی وجہ سے ملک و ریاست کی عوام سیاست کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ، اگر متاثر عوام سیاست کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا چاہتی بھی ہے تو کہیں نہ کہیں سیاسی ماہرین وہی فارمولہ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ تحریر لکھنے کی ضرورت آن پڑی ! بہار کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ 1952 سے لیکر 2020 کے درمیان چھوٹی بڑی ذاتوں اور سیاسی جماعتوں کے درجنوں امیدوار  وزیر اعلی کے عہدے پر فائز رہے جس میں صرف ایک مسلم امیدوار جو کانگریس پارٹی کے ایم ایل سی تھے نے 2 جولائی 1973 سے لےکر 11 اپریل 1975 تک یعنی ایک سال 283 دن تک وزیر اعلی کی ذمہ داری سنبھالی لیکن عوام کو عدل و انصاف اور حقوق کی حصولیابی میں ناکام رہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کا وجود عمل میں آیا اور عوام اپنے حقوق کی حصولیابی کے لئے اپنے ووٹوں کو منتشر کرتے رہے تاکہ انہیں انصاف مل سکے!

بہار اسمبلی انتخابات: ووٹوں کو منتشر کرنے کی قدیم سیاست!



نور محمد خان ۔

15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوا اور 1950 میں آئین و قوانین نافذ ہونے کے بعد انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تاکہ عوام کی فلاح و بہبودی کے لئے اقدامات کیے جائیں اور اسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ریاست بہار میں 1952 کے مارچ مہینے میں اسمبلی انتخابات عمل میں آیا تھا، 276 نشستوں کیلئے مختلف نظریات کے 16 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تھا جس میں ایک فرقہ پرست جماعت بھی شامل تھیں جس کے نظریات و افکار ملک و عوام کی سلامتی کے لئے مضر تھے لیکن آئیں نے انہیں بھی انتخابی عمل میں شامل ہونے کا حق دیا تھا اسی لحاظ سے نظریات و افکار کی سیاسی جنگوں نے اقتدار کے خلاف ووٹوں کو منتشر کرنے، حصول اقتدار اور مفادات کو ترجیح دی چناچہ حکومت ، سیاسی جماعتیں، عوام اور نظریات کا جائزہ لینے کے لیے ماضی تا حال کے انتخابی نتائج پر  تجزیہ کرتے ہیں تاکہ موجودہ اسمبلی انتخابات میں لائحہ عمل مرتب کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکے ۔

اول ذکر یہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک کی سب سے بڑی سیکولر سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس تھی جس کا ذکر تحریک آزادی سے لیکر تادم تحریر تک روشن دلیل کی طرح عیاں ہے 1952 کے پہلے بہار اسمبلی انتخابات میں قومی سطح پر 11 ، ریاستی سطح پر 4 اور ایک غیر تسلیم شدہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں جن میں قومی پارٹیاں: انڈین نیشنل کانگریس، بھارتیہ جن سنگھ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ،فارورڈ بلاک (مارکسسٹ گروپ)، فارورڈ بلاک (روئیکر)،آکھیل بھارتیہ  ہندو مہاسبھا،کسان مزدور پرجا پارٹی،  اکھل بھارتیہ رام راجیہ پریشد ،ریوو لیوشنری سوشلسٹ پارٹی،شیڈول کاسٹ فیڈریشن، سوشلسٹ پارٹی۔

ریاستی سطح کی پارٹیاں:  چھوٹا ناگپور سنتھال پرگنہ جنتا پارٹی، جھارکھنڈ پارٹی ،لوک سیوک سنگھ ، آل انڈیا یونائیٹڈ کسان سبھا۔  غیر تسلیم شدہ پارٹیاں: آل انڈیا گن تنتر پریشد نے بہار اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

 آزادی کے بعد ملک کی تاریخ میں 30 جنوری 1948 کو ایک واقعہ پیش جب ناتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا اور یہ قتل سیکولرازم کے لئے چیلنج بن گیا! بلکہ

سیکولر ہندوستان میں راشٹریہ سیوک سنگھ کی کوکھ سے جنم لینے والی جن سنگھ نامی فاسسٹ تنظیم نے سیاست میں قدم رکھا، کٹّر ہندوتوا کو تقویت پہنچانے اور اقلیتوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ دیکھا جائے تو مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کی گئی تھی بلکہ ایمرجنسی اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی پابندی لگائی گئی تھی لیکن حکومت نے پابندی ہٹا دی تھی۔

چنانچہ 1952 میں بہار اسمبلی انتخابات کا دور شروع ہوا اور کانگریس نے 239 سیٹیں حاصل کی وہیں سوسلیشٹ پارٹی نے 23 ، جھار کھنڈ پارٹی 32 سیٹوں پر کامیابی کا پرچم لہرا دیا۔1957 میں کانگریس کو 210 سیٹیں حاصل ہوئی اور 19 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا  جبکہ پرجا سوسلیشٹ پارٹی 31 ، جھارکھنڈ پارٹی 31 ، چھوٹا ناگپور جنتا پارٹی نے 23 اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے 7 سیٹیں حاصل کی۔ اسی طرح 1962 میں کانگریس نے 185 سیٹیں حاصل کی اور 25  سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا، وہیں سوتنتر پارٹی نے 50 سیٹیں جیت کر دیگر پارٹیوں کا نقصان کیا پرجا سوسلیشٹ پارٹی کی سیٹ بھی گھٹ کر 29 ہوگئی جبکہ جن سنگھ نے 3 سیٹیں جیت کر ہندوتوا کا پرچم لہرا دیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس میں ایسی کون سی خامیاں پیدا ہو گئی تھی کہ کانگریس کو 1952 کے مقابلے میں اب تک کے انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑا ؟جبکہ 1967 کے انتخابات میں کانگریس کو 57  سیٹوں کا نقصان اٹھاتے ہوئے 128  سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا اور سمیوکت سوسلیشٹ پارٹی نے 68 سیٹیں حاصل  کی اور بھارتیہ جن سنگھ نے 26 سیٹیں جیتیں۔

1972 میں انڈین نیشنل کانگریس دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی اور انڈین نیشنل کانگریس(او) نے 33 اور انڈین نیشنل کانگریس نے 167 سیٹیں حاصل کی وہیں جن سنگھ نے 25 پر کامیابی حاصل کی ،1977 میں ایک نيا انقلاب آیا اور جنتا پارٹی نے 214 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اور کانگریس صرف 57 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی ۔1980 کے انتخابات میں جنتا پارٹی تبدیل ہو کر بھارتیہ جنتا پارٹی بن گئی اور اسے جن سنگھ کے مقابلے میں بی جے پی کے نام پر صرف 21 سیٹیں حاصل ہوئی اور کانگریس دوبارہ 169 پر کامیابی حاصل کی ۔

کانگریس کی بات کریں تو 1985 میں کانگریس کو پچھلے انتخابات کے مقابلے میں 196 سیٹیں حاصل ہوئی ،جنتا دل لالو پرساد یادو کو 46، اور بی جے پی کو 16 سیٹیں حاصل ہوئی۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس کو بہت زیادہ سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا کیوں کہ سیاست میں تبدیلی کے امکانات ظاہر ہونے لگے تھے نتیجتاً 1990 میں جنتا دل کو 122 ،کانگریس 71، بی جے پی 39 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی ۔1995 میں جنتا دل کو 167 ،بی جے پی کو 41 اور کانگریس کو 29 نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا ۔  2000میں راشٹریہ جنتا دل 124، بی جے پی 67، کانگریس 23، سمتا پارٹی 34 اور جنتا دل یونائیٹیڈ 21 سیٹیں حاصل کر سکیں ۔2005 میں راشٹریہ جنتا دل 75، بی جے پی 37 ، جنتا دل یونائیٹیڈ 55 ، لوک جن شکتی پارٹی 29، کانگریس کو صرف 10 سیٹیں میسر ہوئی ۔2010 میں جنتا دل یونائیٹیڈ 115، بی جے پی 91،راشٹریہ جنتا دل 22، کانگریس 4 اور لوک جن شکتی پارٹی کو 3 سیٹیں ملی ۔2015 کے انتخابات میں مہا گٹھ بندھن نے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے راشٹریہ جنتا دل 80  کانگریس 27جنتا دل یونائیٹیڈ 71جبکہ این ڈی اے میں بھارتیہ جنتا پارٹی 53 لوک جن شکتی پارٹی 2

راشٹریہ لوک سمتا پارٹی 2ہندوستانی عوامی مورچہ 1 سیٹ پرجیت حاصل کی بائیں بازو کی جماعتوں نے مایوس کیا۔ 2020 کے انتخابات میں راشٹریہ جنتا دل 75 ،کانگریس 19 ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم ایل)12،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسیسٹ 4،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا 6 اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے 5 سیٹیں حاصل کی ۔جبکہ این ڈی اے میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 74،جنتا دل یونائیٹیڈ 43، ہندوستانی عوامی مورچہ 4 اور   وکاس شیل انسان پارٹی نے 4 سیٹیں حاصل کیں۔

مذکورہ نتائج پر اگر غور کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ ملک کی آئین و قوانین نے جہاں تمام لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا ہے وہیں موجودہ حکومت و سیاسی جماعتوں کی عوام مخالف پالیسیاں و نظریات بھی اہم وجہ رہی ہیں جس کی وجہ سے مختلف سیاسی جماعتوں کا وجود عمل میں آیا 

 ساکی ناکہ ۔ممبئی    ۔ موبائل نمبر                             9029516236

وقف املاک کو یو ایم ای ای ڈی پورٹل پر آخری تاریخ سے پہلے رجسٹر کرلیں جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے امیر مولانا الیاس خان فلاحی کی مسلمانوں سے اپیل



 ممبئی: جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے امیر مولانا الیاس خان فلاحی نے مہاراشٹر کے تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر تمام وقف املاک بشمول
مساجد، مدارس، قبرستانوں، خانقاہوں، درگاہوں اور امام بارگاہوں کو یو ایم ای ای ڈی پورٹل (امید) پر 5 دسمبر 2025 کی آخری تاریخ سے پہلے رجسٹر کرنا اور ان کی تفصیلات اپ لوڈ کرنا شروع کریں۔

یہ کال آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کے نفاذ کے بارے میں قومی اپیل کے بعد کی گئی ہے۔ اس ایکٹ کے سیکشن 3 بی کے تحت اب یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ تمام رجسٹرڈ اوقاف (وقف ادارے) اپنی جائیداد کی مکمل معلومات آن لائن اپ لوڈ کریں۔ اے آئی ایم پی ایل بی نے ایکٹ کے کئی دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں پہلے ہی ایک درخواست دائر کر رکھی ہے۔ اگرچہ عدالت نے جزوی ریلیف فراہم کی ہے، لیکن جائیداد کی معلومات اپ لوڈ کرنے کی ذمہ داری ابھی بھی برقرار ہے۔

مولانا الیاس خان نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ مقررہ وقت کے اندر اپ لوڈ کرنے کا عمل مکمل کرنے میں ناکامی سے وقف املاک کی قانونی حیثیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہماری مساجد، مدارس اور قبرستانوں کا تحفظ ہماری فوری اور اجتماعی کارروائی پر منحصر ہے۔ اُمید پورٹل پر درست معلومات اپ لوڈ کرنا ایک قانونی ضرورت اور ایک مذہبی ذمہ داری دونوں ہے‘‘۔

انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ضلع، تحصیل اور بلاک سطح پر ہیلپ ڈیسک قائم کرنے کے اقدام کا خیرمقدم کیا اور مہاراشٹر میں بھی اسی طرح کے انتظامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر نے پہلے ہی اپنے وقف سیل کے ذریعے متولیوں (نگرانوں)، اماموں اور کمیونٹی رہنماؤں کی مدد کے لیے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ ہم ہر مسلم تنظیم، عالم اور رضا کار سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تکنیکی اور لاجسٹک مدد فراہم کریں تاکہ کوئی بھی ادارہ پیچھے نہ رہے۔

مولانا الیاس خان نے تکنیکی طور پر ہنر مند افراد کو ہیلپ ڈیسک پر تعینات کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ ڈیٹا کے اندراج میں غلطیوں سے بچا جا سکے اور تاکید کی کہ تعمیل کے ثبوت کے طور پر تمام اصل دستاویزات کو محفوظ طریقے سے محفوظ کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی قسم کے مسائل یا اختلافات کی صورت میں متعلقہ ریاستی وقف بورڈ کو فوری طور پر اطلاع دی جانی چاہیے تاکہ ان کی اصلاح کی جا سکے۔انہوں نے مزید اعلان کیا کہ جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر نے وقف ہیلپ ڈیسک شروع کیا ہے تاکہ متولیوں اور مقامی کمیٹیوں کو رجسٹریشن کے عمل کو مکمل کرنے میں بیک اینڈ سپورٹ اور ریئل ٹائم رہنمائی فراہم کی جا سکے۔ یہ اقدام جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی کی جانب سے جماعت اسلامی ہند کے ہیڈ کوارٹر نئی دہلی میں شروع کیے گئے مرکزی ہیلپ ڈیسک کے بعد کیا گیا ہے۔

مولانا الیاس خان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ کے ناجائز دفعات کے خلاف برادری کی قانونی جدوجہد تعمیل کی کوششوں کے ساتھ جاری رہے گی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اپنی وقف املاک کو رجسٹر کرنا ہمارے حقوق سے دستبردار ہونے کا مطلب نہیں ہے۔ یہ ہمارے آئینی اور قانونی جنگ کو جاری رکھتے ہوئے ان کی حفاظت اور تحفظ کے لیے ایک اسٹریٹجک قدم ہے۔

انہوں نے تمام وقف مینیجرز اور اداروں سے اپیل کی کہ وہ امید ویب پورٹل umeed.minorityaffairs.gov.in  پر جائیں، مطلوبہ دستاویزات کی چیک لسٹ کا جائزہ لیں، اور اپ لوڈ کرنے کا عمل آخری تاریخ سے پہلے مکمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ وقف املاک کی حفاظت ایک اجتماعی فریضہ ہے، ایک امانت ہے جسے فوری طور پر اتحاد اور خلوص کے ساتھ محفوظ کیا جانا چاہیے۔

صہیونیت کا زوال: ایک متشدد نظریے کا تاریخی احتساب : فلسطین: شبِ ظلمت سے طلوعِ سحر تک


 اسماء جبين

لوحِ جہاں پر رقم کی گئی ہر داستانِ عروج و زوال، اوراقِ عبرت کا ایک ایسا مجموعہ ہے جہاں عدل و جور اور حق و باطل کی کشمکش ہر سطر سے عیاں ہے۔ لیکن جب نگاہ بابِ فلسطین پر آ کر ٹھہرتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں شبِ ظلمت کچھ زیادہ ہی دراز ہے، اور انسانیت کا نوحہ کچھ زیادہ ہی جاں گداز۔ دیارِ فلسطین کا المیہ کوئی ناگہانی حادثہ نہیں، بلکہ یہ اُس منصوبہ بند سیاست کا منطقی انجام ہے جس کی بنیاد بیسویں صدی کے اوائل میں اعلانِ بالفور (1917ء) کی صورت میں رکھی گئی۔ یہ مغربی استعمار کا وہ پیمانِ جور تھا جس نے ایک ایسی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپا جس کی ملکیت میں نہ وہ زمین تھی، نہ اس کے باشندوں کی تقدیر پر کوئی اختیار۔

پھر برطانوی انتداب (Mandate) کے زیرِ سایہ، طاقت اور قانون کی ایسی شعبدہ بازی عمل میں لائی گئی جس کا واحد مقصود زمین کو بے روح نقشوں میں اور انسان کو بے وقعت اعداد و شمار میں بدل دینا تھا۔ تقسیمِ فلسطین (1947ء) کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، جس نے بے انصافی کو عالمی جواز کا فریب کار جامہ پہنایا۔ بالآخر 1948ء میں وہ قیامت برپا ہوئی جسے اہلِ فلسطین "النکبہ" یعنی "عظیم تباہی" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ سات لاکھ پچاس ہزار سے زائد نفوس کو اُن کے آبائی گھروں، لہلہاتے کھیتوں اور زیتون کے باغوں سے جبراً بے خانماں کر دیا گیا، اور پانچ سو سے زائد بستیاں صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دی گئیں۔

ان تمام مراحل کے پسِ پردہ جو نظریہ ایک مرکزی قوت کے طور پر کارفرما رہا، وہ صہیونیت ہے۔ یہ ایک ایسی جدید سیاسی فکر ہے جس نے استعمار کی منطق، نسلی برتری کے پندار اور عسکری طاقت کے زعم کو باہم آمیخت کر کے ایک نیا مرکب تیار کیا۔ اس نظریے نے طاقت کے بل پر حقیقتیں تراشنے کو اپنا بنیادی اصول بنا لیا اور یوں انسان اور زمین کے اس مقدس رشتے کو پامال کرنا ایک معمول ٹھہرا۔ اس تاریخی جبر کی قیمت فلسطینی عوام نے اپنی جان، اپنی زمین اور اپنی تہذیبی شناخت کی صورت میں ادا کی ہے، اور یہ قرض آج تک چکایا جا رہا ہے۔

اسی الم ناک داستان کا سب سے کربناک باب غزہ کی پٹی ہے، جو آج عالم کی سب سے بڑی محبس گاہ (Open-Air Prison) کا منظر پیش کرتی ہے۔ 1967ء سے قابض عسکری نظام نے اس خطے کو ایسی پیچیدہ انتظامی و فوجی بندشوں میں جکڑ رکھا ہے کہ یہاں سانسوں کی ڈور بھی قابض کی مرضی سے بندھی ہے۔ 2007ء سے مسلط کردہ زمینی، فضائی اور بحری محاصرے نے دو ملین سے زائد انسانوں کی زندگی کو قیدِ بے میعاد بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی انسانی قانون "اجتماعی سزا" کو قطعی طور پر ممنوع قرار دیتا ہے، لیکن اس اصول کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانی، بجلی، خوراک اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات کو بارہا سیاسی دباؤ کے ایک بے رحم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔

2008ء سے لے کر 2025ء کے اوائل تک غزہ پر مسلط کی جانے والی پے در پے جنگوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جب جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی کو ایک محصور اور کمزور آبادی کے خلاف بے دردی سے آزمایا جائے تو جنگی اخلاقیات اور انسانیت کے تمام دعوے ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور خود اسرائیلی تنظیم "بتسیلم" کی تازہ ترین رپورٹیں اس امر پر شاہد ہیں کہ مغربی کنارے سے لے کر غزہ تک ایک ایسا ادارہ جاتی امتیازی نظام قائم ہے جس میں غیر قانونی آبادکاری اور جبری الحاق ایک منظم ریاستی پالیسی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اکتوبر 2023ء سے جنوری 2025ء کے دوران چالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت، جن میں سترہ ہزار سے زائد معصوم بچے شامل تھے، اور نوے فیصد آبادی کی بے گھری، اس قیامت کی محض ایک جھلک ہے۔

تاہم، تاریخ کا پہیہ ہمیشہ ایک سمت نہیں گھومتا۔ 2024ء اور 2025ء وہ سال تھے جب قانون کے بے جان حروف نے گویا زبان پائی۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے اپنے مشورتی فیصلے میں اسرائیلی قبضے کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت نے نومبر 2024ء میں اسرائیلی وزیرِ اعظم اور سابق وزیرِ دفاع کے خلاف وارنٹِ گرفتاری جاری کر کے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی منصب قانون سے بالاتر نہیں۔ یہ تاریخی پیش رفت اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ اصل مسئلہ حملہ اور جوابی حملہ نہیں، بلکہ وہ منظم نظامِ جبر ہے جس کا احتساب اب ناگزیر ہو چکا ہے۔

اسی دوران، ضمیرِ عالم کی بیداری نے ایک نئی کروٹ لی۔ 2025ء تک اقوامِ متحدہ کے 157 ممالک فلسطین کو بطورِ ریاست تسلیم کر چکے تھے، جن میں فرانس، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے بڑے یورپی ممالک کی شمولیت نے عالمی سیاسی منظرنامے کو یکسر بدل دیا۔ دنیا بھر کی جامعات سے اٹھنے والی صدائیں اور شہر شہر میں ہونے والے لاکھوں کے عوامی مظاہرے اس بات کا ثبوت تھے کہ فلسطین کا مقدمہ اب محض ایک خطے کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے اجتماعی ضمیر کا مقدمہ بن چکا ہے۔

طاقت کے توازن میں فیصلہ کن تبدیلی جون 2025ء کی چودہ روزہ ایران-اسرائیل جنگ سے رونما ہوئی، جس نے صہیونیت کے عسکری تفوق کا طلسم توڑ دیا۔ اس جنگ نے نہ صرف خطے کی فوجی مساوات کو بدلا بلکہ اس سیاسی غرور کو بھی خاک میں ملا دیا جو دہائیوں سے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے داخلی سیاسی بحران نے خود اسرائیلی ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آج صہیونیت، جو کبھی ایک غالب استعماری نظریہ تھا، اپنے زوال کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ فلسطینیوں کی بے مثال مزاحمت، بین الاقوامی قانون کا بڑھتا ہوا دباؤ، عالمی رائے عامہ کی تبدیلی اور خطے کی بدلتی ہوئی حقیقتوں نے مل کر اس نظریے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں اہلِ غزہ کی استقامت اور شہداء کی قربانیاں ایک عظیم تاریخی معنویت اختیار کر لیتی ہیں۔ وہ مائیں جن کے ہاتھوں میں بچوں کے لیے دودھ کے خالی ڈبے تھے مگر قدم امید کی تلاش میں آگے بڑھتے رہے؛ وہ صحافی اور طبی عملے کے ارکان جو موت کے سائے میں بھی فرض اور حقیقت کا علم بلند رکھے ہوئے تھے؛ اور وہ شہداء جنہوں نے اپنے لہو سے غفلت کے پردے چاک کر دیے—یہ سب ہمارے عہد کے ماتھے پر ایک انمٹ سوال ہیں۔ طاقت کے بیانیے نے دہائیوں تک "سلامتی" کی آڑ میں ظلم کے ڈھانچے کو چھپائے رکھا، مگر غزہ کے معصوموں کے خون نے اس حقیقت کو آفتاب کی طرح روشن کر دیا ہے کہ جب ظلم ایک ادارہ بن جائے تو اسے روکنے کے لیے محض مذمت کے الفاظ کافی نہیں ہوتے، بلکہ قانون کی حکمرانی اور اخلاق کی شہادت لازم آتی ہے۔

یہاں یہ نکتہ پوری وضاحت سے ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہدفِ تنقید یہودیت بحیثیت دین یا یہودی عوام بحیثیت قوم ہرگز نہیں۔ ہمارا ہدف وہ سیاسی نظریہ ہے جسے "صہیونیت" کہا جاتا ہے، جس نے نوآبادیاتی فکر کے ساتھ نسلی تفاخر کو ملا کر ظلم کو ایک معمول بنا دیا ہے۔

پس، اس عقدے کا حل کیا ہے؟ راہِ نجات تین اصولوں پر مبنی ہے: اول، بیانیے کی تطہیر، تاکہ تنقید کا نشانہ صہیونیت بنے، نہ کہ کوئی مذہب یا قوم۔ دوم، قانون کا بے لاگ نفاذ، تاکہ جنگی جرائم کے مرتکب، خواہ کتنے ہی طاقتور ہوں، انصاف کے کٹہرے میں لائے جائیں۔ سوم، سیاسی حل کا احیاء، جس کی ابتدا غزہ کے محاصرے کے خاتمے سے ہو اور انتہا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر، جس کی قیادت خود فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہو۔

آخر میں یہ امر واضح رہے کہ ہمارے لہجے کی یہ تندی و تیزی، انصاف کی نرمی اور اخلاق کی حرمت کی پاسبانی کے لیے ہے۔ ہمارا اختلاف ہر اُس فکر سے ہے جو نفرت کا بیج بوتی ہے اور نسل و مذہب کی دیواریں کھڑی کر کے وحدتِ انسانی کو پارہ پارہ کرتی ہے۔ اہلِ غزہ نے اپنے خون سے تاریخ کی پیشانی پر یہ ناقابلِ تردید حقیقت رقم کر دی ہے کہ تخت و تاج کا جبر عارضی ہے، لیکن آزادی کی تڑپ اور انصاف کی طلب ابدی ہے۔ ظلم کی رات کا مقدر فنا ہے، چاہے وہ کتنی ہی پھیل کیوں نہ جائے، اور خدا کی اس زمین پر وہ صبح ضرور نمودار ہوگی جب ارضِ زیتون کی فضائیں امن کے نور سے منور ہوں گی۔


(اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اُردو، یشونت رائو چوان آرٹس و سائنس مہا ودیالیہ، منگرول پیر، ضلع واشم، مہاراشٹر)