International,
یا صبا حاہ ! یا صبا حاہ !
عمر فراہی
وقت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا کی چوٹی سے مکہ کے لوگوں کو اسلام کی دعوت کیلئے پکارا تو یا صبا حاہ ! یا صبا حاہ !کا وہی نعرہ لگایا جو کسی بستی پر حملے کے وقت پکارنے والا پکارتا ہے ۔اس نعرے کے بعد جب مکہ کے لوگ آپﷺ کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے کہا کہ اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو کیا میرا یقین کرو گے ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قومیں پہلے بھی دوسری قوموں پر غالب آنے کیلئے سازشیں کیا کرتی تھیں اور ان میں لوگوں کو خبر کرنے والے بھی ہوتے تھے وہ آج بھی موجود ہیں ۔ہاں اس غالب آنے کی حکمت عملی میں جو فرق آیا ہے وہ یہ کہ پہلے ایک قبیلہ دوسرے قبیلے پر چھپ کر شب خون مارا کرتا تھا اور قتل عام کر کے دوسرے قبیلوں کے مویشی اور کھانے پینے کے سامان لوٹ لیا کرتا تھا۔ موجودہ مہذب جمہوری معاشرے میں یہی کام سلیقے سے نام نہاد قانون کے دائرے میں انجام دیاجاتا ہے۔ پکارنے والا آج بھی الفاظ و معنی کے تفاوت کے ساتھ اپنے پکارنے کا کام کر رہا ہے ۔فرق اتنا ہے کہ اب یا صبا حاہ ! کی یہ آواز عالمی اور قومی میڈیا کی طرف سے لگائی جاتی ہے اور لوگوں کو اسلامی دہشت گردی کے عنوان سے مسلمانوں کی اذان ،نماز ،قرآن اور حجاب سے ہوشیار کیا جاتا ہے ،جبکہ حقیقت میں یہ پکارنے والے ہی ایک مذہب کے لوگوں پر شب خون مارنے کی مسلسل تیاری میں رہتے ہیں اور کئی مسلم ملکوں کو باقاعدہ عالمی ادارے اقوام متحدہ کی حمایت سے تباہ و برباد بھی کر دیا گیا ہے ۔بیسویں صدی میں مذہب کو سیاست سے جدا کر کے گلوبلائزیشن کے عنوان سے اقوام متحدہ کا جو تصور سامنے آیا ہمارے بزرگوں نے بھی خوشی خوشی اس قومی یک جہتی کے فلسفے کو تسلیم کرتے ہوئے قوم رسول ہاشمی ﷺکے عالمی اسلامی تصور کو رد کردیا ۔دیگر قوموں نے یقیناًابلیس کے اس لادینی نظام کو پوری طرح قبول کر لیا ہے لیکن پاکستان سے لیکر افغانستان ،ایران، عراق ،مصر، ترکی ،یمن ،فلسطین ،صومالیہ، لیبیا اورچچنیا وغیرہ میں مسلمانوں کی مکمل آبادی ابھی بھی پوری طرح ایک سیکولر اسلام کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ جو اقوام متحدہ کے بانی اور حکمراں ہیں انہوں نے ان ممالک پر شب خون مار کر انہیں تباہ و برباد کرنے کی پوری کوشش کی ہے ۔باقی برما ، سری لنکا اورفرانس وغیرہ میں جہاں اللہ کا نام لینے والے اقلیت میں ہیں اور ان پر وہاں کے حکمراں اور سیاستداں جو ظلم کر رہے ہیں اقوام متحدہ خاموش ہے ؟
عافیہ صدیقی پس زنداں ہے اور آسیہ بی بی جیل کے باہر ۔مذہبی ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کا مطلب تو یہ ہے کہ آسیہ کی رہائی کیلئے تحریک چلانے والے عافیہ کی رہائی کیلئے بھی تحریک چلاتے ۔کبھی غور کرنا کہ دبئی کے حکمراں کی بیٹی شہزادی لطیفہ جو اپنے فرانس کے غیر مسلم بوائے فرینڈ سے شادی کرنے کیلئے اپنے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں تھی وہ ابھی اپنے باپ راشد المکتوم کے حکم پر نظر بند ہے اس کی رہائی کیلئے تو آزادی نسواں کی علمبردار تنظیمیں سرگرم نظر آتی ہیں اور ابھی حال میں انہوں نے امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن سے بھی لطیفہ کی رہائی کیلئے دبئی کے حکمراں پر دباؤ ڈالنے کیلئے کہا ہے لیکن اسی جوبائیڈن سے عافیہ صدیقی اور مصر کی جیلوں میں قید اخوانی بہنوں کی رہائی کی کوئی درخواست اور تحریک اٹھتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے تو اس لئے کہ عافیہ اور اخوانی بہنیں باعمل مسلمان ہیں جبکہ آسیہ عیسائی ہے اور لطیفہ ایک آزاد خیال عورت ہے اور اپنے دین سے بغاوت پر آمادہ ہے !
اس معاملے میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کا رویہ تو مایوس کن ہے ہی کچھ مذہبی جماعتیں اور ان کے علماء بھی کم قصوروار نہیں ہیں ۔موجودہ دور جمہوریت میں قوم رسول ہاشمی ﷺکے نمائندوں کو جو مواقع میسر ہیں وہ بھی یا صبا حاہ ! یا صبا حاہ ! کے نعرے کے ساتھ اپنی قوم کو جگانے کی جرأت تو کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے محدود وسائل اور کوہ صفا جیسی بلندی کے مقامات سے محروم ہونے کی وجہ سے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے مکمل طور پر باخبر نہیں ہیں ۔ہم اپنی اسی بے خبری اور ضعیفی کی وجہ سے ہر روز کسی نہ کسی سرخی میں رہتے ہیں ۔یہی تقدیر کے قاضی کا فتویٰ بھی ہے اور اسی جرم ضعیفی کی سزا ہلاکت اور تباہی بھی ہے !
کبھی کسی اخلاق اور تبریز کو جئے شری رام کے نعرے لگا کر گھسیٹ کر مار دیا جاتا ہے کبھی قرآن کے تعلق سے شیطان رشدی یا رضوی کا جن باہر آ جاتا ہے کبھی کسی آصفہ تو کبھی آصف کو اس کے آصف ہونے کی سزا ملتی ہے ۔کبھی کسی سرکاری نصاب میں اسلامی دہشت گردی کو موضوع بنا کر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کا واقعہ سامنے آتا ہے تو بے چاری صوفی سنتوں کی جماعت جس نے کبھی زمین کے اوپر کی بات ہی نہیں کی اسے بھی فساد فی الارض کی دفعہ کویڈ 19 کے جرم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔
سوشل میڈیا پر بحث ہو رہی تھی کہ ایم بی بی ایس کی کسی میڈیکل کی کتاب میں تبلیغی جماعت کے خلاف کوئی منفی تبصرہ کیا گیا ہے جسے خیر سے چند باخبر مخلص نوجوانوں کی مداخلت پرپبلشر نے حذف تو کر دیا ہے لیکن کیا اس کی خبر تبلیغی جماعت والوں کو بھی ہے۔ اس تعلق سے میں نے مسجد میں تبلیغی نصاب پڑھ کر اٹھ رہے چند نوجوانوں سے پوچھا کہ بھائی آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ کسی میڈیکل کی کتاب میں آپ کے خلاف کچھ لکھا گیا ہے ۔کچھ نے تو برجستہ جواب دیا کہ نہیں ہمیں نہیں معلوم ۔کچھ جو تھوڑا عمر دراز تھے یا سال چھ مہینے کے چلے سے فارغ نظر آرہے تھے انہوں نے بہت ہی اطمینان سے جواب دیا کہ بھائی اسلام کے خلاف تو ہر دور میں ایسی سازشیں ہوتی رہی ہیں ہم لوگ دین کا کام کر رہے ہیں اللہ ہماری حفاظت کرے گا اور کبھی کبھی اللہ اپنے دشمنوں سے بھی اپنے دین کا کام لے لیتا ہے ۔میں نے ان سے زیادہ بحث نہیں کی، لیکن دل میں سوچنے لگا کہ ایمان کی محنت کرنے والے ان بھائیوں کا ایمان کتنا پختہ ہے کہ وہ اپنا کام کر رہے ہیں اور ان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے خلاف لڑنے کیلئے اللہ نے سمیع اللہ خان اور ایس آئی او کے بچوں کو کھڑا کر دیا ۔
تبلیغی بھائی اکثر کہتے ہیں کہ کامیابی اگر حکومت میں ہوتی تو فرعون ناکام نہ ہوتا ۔کاش یہی بات افغانی ملاؤں ، مصر کے اخوانی جوانوں ،فلسطین اور کشمیر کے حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ طیب اردگان ،محمد بن سلمان ، السیسی اور عمران خان وغیرہ کو بھی سمجھ میں آجاتی اور وہ سب سیاست اور حکومت کے غلیظ کاروبار کو اپنے ملک کے بدمعاشوں کو سونپ کر دعوت دین کے کام میں لگ جاتے ۔ملت کے اس فکری تضاد پر میں اپنی بات حالی کی اس دعائیہ نظم پر ختم کرتا ہوں کہ ؎ ائے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے /امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے /جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسریٰ /خود آج وہ مہمان سرائے فقراء ہے / جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہبان /اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے
0 comments: