Muslim Issues

امولیہ سے وارث پٹھان تک عجب عالم بدحواسی ہے




نہال صغیر

بنگلور میں ایک انیس سالہ لڑکی اس اسٹیج سے جہاں اسدالدین اویسی موجود تھے ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتی ہے ،اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی اس سے مائیک چھین لیا گیا اور ایک پولس افسر اسے گھسیٹ کر لے گیا لیکن وہ پھر کسی طرح چھوٹ کر واپس بنا مائیک کے ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگاتی ہے ۔ اسے چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے اور اسے ملک سے غداری کے مقدمہ میں جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کوئی بارود کا گولا ہے کہ اس کا نام لیتے ہیں وہ پھٹ پڑے گا اور اس سے پورا ملک تباہ ہوجائے گا کہ ایک عالم بدحواسی میں سب اکٹھا ہو جاتے ہیں اور بقول رویش کمار جو افسر کبھی اپنی ذمہ داری ڈھنگ سے نہیں نبھاتا وہ بھی ایسے موقعوں کو غنیمت جان کر محب وطن ہونے کا ثبوت دینے کیلئے فورا حرکت میں آجاتا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد اسی کرناٹک کے دوسرے شہر میں ایک اور جلسہ میں وارث پٹھان یہ بولتے بولتے یہ کہہ جاتے ہیں سو پر پندرہ بھاری ہے ۔ بس پھر کیا تھا ان کے خلاف بھی مذمت کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے اور شاید کئی پولس اسٹیشنوں میں مقدمہ بھی کردیاجاتا ہے ۔ یہ دونوں ہی معاملے میں ایک چیز واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور وہ ہے عالم بدحواسی ۔کسی کو مزید کچھ نہیں کہنے دینا ہے ،اس کو صفائی کا موقع بھی نہیں دینا ہے ۔ امولیہ آگے اور کیا کہنا چاہتی تھی اس کی بات سننے کو کوئی راضی نہیں بس اس نے پاکستان زندہ باد کیوں کہا ؟ یہی ایک مسئلہ ہے ۔ رویش کمار کے مطابق گویا ہندوستان کوئی پتہ ہے جس کا وجود پاکستان زندہ باد کہہ دینے سے ہی بکھر جائے گا ۔ امولیہ نے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کسی صورت جان چھڑا کر ہندوستان زندہ باد کے بھی نعرہ لگائے اور اس کے فیس بک اکائونٹ کے مطابق اس کے ذہن میں اپنے پڑوسی ممالک کے لئے بھی زندہ باد کا نعرہ ہے محض ہندوستان ہی زندہ باد نہیں ہے اور وہ وہاں اسٹیج پر ان سبھی ممالک کیلئے زندہ باد کہنا چاہتی تھی جس کا اسے اس کا موقع نہیں دیا گیا ۔ 
وارث پٹھان کا سو پر پندرہ بھاری والا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ سہی مگر اس کیخلاف اتنی شدت نہیں آنی چاہئے کہ ان کے پتلے جلائے جائیں اور ان کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگائے جائیں جبکہ ان کے سیاسی رفیق امتیاز جلیل کہا’وارث پٹھان کا یہ بیان سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کیخلاف برہمی کا اظہار ہے جو جبرا مسلمانوں پر تھوپ کر اس بیان کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے‘ میں سمجھتا ہوں امتیاز جلیل کی باتوں پر توجہ دی جانی چاہئے تھی لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ سے سوچنے کی قوت سے محروم ہوچکے ہیں ۔ آج ہم اپنی حب الوطنی کو ثابت کرنے اور دوسروں (سنگھی، لبرل اور دہریہ) کو خوش کرنے کیلئے مذمت اور احتجاج یا ہائے ہائے کا نعرہ لگارہے ہیں ۔ ۲۱ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو شام سات بجے سے ممبئی کے اسلام جمخانہ کے دیوان خاص ہال میں ’الائنس اگینسٹ سی اے اے ، این آر سی ، این پی آر‘ کی مہاراشٹر و ممبئی اکائی کی جانب سے رضاکاروں ، ارکان اور کارکنان کیلئے تہنیتی پروگرام رکھا گیا تھا ۔ جس میں کانگریس کے سابق ایم ایل اے اور اسلام جمخانہ کے موجودہ سربراہ یوسف ابراہانی نے وارث پٹھان کیخلاف ہائے ہائے کے نعرے لگوائے جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن مسئلہ کانگریس میں اپنی جگہ بنانے اور کچھ قوتوں کی چاپلوسی کا تھا اس لئے وہاں الائنس کے پلیٹ فارم سے ایک غیر ضروری کام کیا گیا ۔ ہم نے یوسف ابراہانی کا ایک ویڈیو پیغام بھی دیکھا جس میں وہ وارث پٹھان اور مجلس اتحادالمسلمین کیخلاف عوام کو ورغلاتے نظر آرہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وارث پٹھان ہوتے کون ہیں مسلمانوں کی جانب سے قیادت کا دعویٰ کرنے والے لیکن ابراہانی خود وارث پٹھان کے بیان کے تعلق سے معافی مانگتے ہوئے خود کو پندرہ کروڑ مسلمانوں کا لیڈر قرار دے رہے ہیں ۔جبکہ دونوں کی پوزیشن ایک ہی ہے ۔  دونوں عوام کے ٹھکرائے ہوئے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ عوام سے ٹھکرایا ہوا ایک کانگریسی عوامی طور پر مسترد کئے ہوئے دوسرے شخص کو قوم کا ٹھیکیدار تسلیم نہیں کرتا لیکن پندرہ کروڑ مسلمانوں کی جانب 
سے معافی مانگ کر خود کو مسلمانوں کے قیادت کی دعویداری کررہا ہے ۔

ایک بات واضح کردوں کہ میری نظر میں بھی وارث پٹھان کا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ ہے ۔ بس میرا کہنا یہ ہے
 کہ اس پر اتنی ہنگامہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے ۔ پٹھان نے کہا آپ نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی بس ۔ اس سے آگے کی تحریک یا کارروائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ کسی کے دبائو میں ضرورت سے زیادہ روادار اور محب وطن بننے کی کوشش کررہے ہیں ۔ حالات بتارہے ہیں کہ اگر آپ گرم لوہے کی سلاخ ہاتھوں میں لے کر اپنی وفاداری کا یقین دلائیں گے تو ہ طبقہ آپ کی وفاداری تسلیم نہیں کرے گا ۔ اس حقیقت کے باوجود آپ کا وطیرہ بن گیا ہے کہ اتحاد کی لالچ میں وہ کرتے چلے جارہے ہیں جس کی مخالفت قوم برسوں سے کرتی آرہی ہے ۔ یہاں دو مثالیں کافی ہیں جو میں الائنس اگینسٹ سی اے اے ، این آر سی اینڈ این پی آر کے ذریعہ آزاد میدان میں منعقد احتجاجی اجلاس عام میں اس کے ہی ایک شریک کنوینر کی جانب سے لگائے گئے نعروں اور اس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب مسلمانوں کا جواب دیکھا ۔ الائنس کے شریک کنوینر ایڈووکیٹ راکیش راٹھوڑ نے ۱۵ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو آزاد میدان کی احتجاجی ریلی میں بھارت ماتاکی ۔۔۔۔اور وندے ۔۔۔ کے نعرے لگائے اور مسلمانوں کی جانب سے اس کا جواب بھی دیا گیا ۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک مسلمان اس سے بچتا ہوا نظر آرہا تھا ۔ آزاد میدان کے اس نعرے اور جگہ بجگہ سیکولر لبرل طبقہ کی جانب سے مسلمانوں کی بھیڑ سے اپنی لیڈر شپ کاشت کرنے کی فکر نے مجھے بے چین کیا ہے ۔ اگر کسی کو بے چینی نہیں ہوتی میں کیا کرسکتا ہوں ۔ اوروں کی طرح میں بھی ہندو مسلم اتحاد کو پسند کرتا ہوں ۔ بلکہ اس سے دو قدم آگے جاکر مسلمانوں کے ساتھ تمام پسماندہ طبقات کے اتحاد کو زیادہ بہتر اور موثر سمجھتا ہوں ۔ مگر اپنی قومی اور مذہبی شناخت سے سمجھوتہ کئے بغیر ۔ہم نے شیواجی کی یوم پیدائش پر مذہبی شناخت کے ساتھ شیواجی کی قد آدم مورتی پر پھول اور ہار چڑھاتے مسلمانوں کی تصویر بھی دیکھی ہے ۔ سوچئے ہم اتحاد اور رواداری کی خواہش میں کہاں چلے جارہے ہیں ۔ ہم انہیں یہ بات کیوں نہیں بتا سکتے کہ ہم شیواجی یا امبیڈکر سمیت اس جیسے لیڈروں کی قدر کرتے ہیں لیکن تمہاری تہذیب کے مطابق ان کی عبادت نہیں کرسکتے ۔ 
غور کیجئے وارث پٹھان کے بیان کیخلاف بیان دیتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ تحریک میں ہم بڑی مشکل سے غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد بنا پائے ہیں جسے وارث پٹھان یا کل ہند مجلس اتحاد المسلمین تباہ کرنا چاہتی ہے ۔ یہ صرف خوش فہمیاں ہیں جو کچھ لوگوں کے ذریعہ ہمارے درمیان پھیلائی جارہی ہے ۔ مجھے اپنی اس شہری ترمیم قانون یا این پی آر اور این آر سی کیخلاف تحریک میں سوائے اسٹیج کے کہیں بھی کوئی غیر مسلم دکھادیں ، تو مان جائوں گا کہ آپ نے اتحاد بین المذاہب کو حاصل کرلیا۔ ہر جگہ اس بھیڑ میں انہیں تلاش کررہا ہوں مگر میری آنکھیں لوٹ آتی ہیں اور وہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں جبکہ ہمیں ہر وقت یہی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ غیر مسلم بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی اس تحریک سے جڑے ہوئے ہیں ۔ جڑے تو مگر صرف لیڈر اور اسٹیج کی حد تک جیسا اوپر ذکر کیا گیا ۔ حالانکہ مذکورہ قانون سے مسلمانوں سے زیادہ پسماندہ طبقات کو ہی نقصان ہونے والا ہے کیوں کہ وہ لوگ بے زمین تھے اور آج بھی ایک بڑی آبادی بے زمین ہے ۔ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اسی کی بنیاد پر برہمنوں کی پروردہ موجودہ مودی حکومت دستور میں دی گئی ریزرویشن کی سہولت کو ختم کردینا چاہتی ہے ۔ مگر انہیں مسلم دشمنی کی شراب اتنی پلائی گئی ہے کہ اس کا نشہ اترتا ہی نہیں ۔ مسلم دشمنی کی آڑ میں انہیں اپنی تباہی نہیں دِکھ رہی ہےکہ این آر سی کے بعد ان کا وہ دور واپس آجائے گا جب انہیں اپنے پیچھے جھاڑو باندھنا اور گلے میں مٹکہ لٹکانا ہوگا ۔ ان کے لیڈر انہیں یہ سمجھانے سے قاصر ہیں ۔بہتر ہے کہ یہ باتیں انہیں سمجھانے کی کوشش کریں اور اپنے درمیان کے کسی شخص سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی ہلکی پھلکی سرزنش کرکے تنہائی میں اسے سمجھائیں کہ اس نے کیا غلطی کی ہے اور اس کی یہ بات کیوں حکمت کیخلاف ہے ۔ مگر مرعوبیت اور مغلوبیت یا غلامانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے قوم کا مورال پست ہو ۔ آپ لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر منظر بھوپالی کا یہ شعر ٹھیک معلوم ہوتا ہے 
 ؎  کدھر کو جائیں گے اہلِ سفر نہیں معلوم/وہ بدحواسی ہے اپنا ہی گھر نہیں معلوم


0 comments:

Muslim Issues,

مسلمانوں کا مسئلہ اورامر بالمعروف کےفریضہ کی ادائیگی



ممتاز میر 
  
 دنیا کے کسی ملک میںاگر کوئی شخص فوج میں بھرتی ہونے کی تمنا کرے ،منتخب بھی ہوجائے،ڈرل نشانے کی مشق اور دیگر مشقیں بھی مکمل کرلے مگر جب جنگ کا موقع آئے تو انکار کردے تو کیا اسے فوجی کہا جائے گا؟کیا یہ سال دو سال کی مشقیں اسے ،بغیر جنگ لڑے فوجی بنے رہنے میں کام آسکیں گی؟کیا فوجی ڈسپلن کا ادارہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دے گا؟یقیناٍ ایسا نہیں ہوگا ،بلکہ اسے جزا نہیں سزا ملے گی۔مگر، مسلمانوں کا معاملہ دنیا سے الگ ہے ۔انھوں نے بھی اسلام کی چند ابتدائی چیزوں کو پکڑ کر مسلم حنیف ہونے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ان کے علماء ان کی کھوپڑیوں میں صدیوں سے یہ بات اتار رہے ہیںکہ نماز روزہ حج زکوٰۃ ہی بس دین ہے۔اور اس پر زیادہ سے زیادہ عمل جنت کی ضمانت ہے۔ باقی جو کچھ بھی ہے یہ دنیا داری کی باتیں ہیں۔جس کا ان جیسے ’’با عمل ‘‘مسلمانوں کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔اگر ہم مسلمان ہونے کے بعد ابتدائی مشقوں کو ہی دین تصور کرلیںتب بھی جنت نشین ہونے کی کوئی ضمانت کم از کم ہمیں ملتی نظر نہیں آتی۔کیونکہ نمازیں تو خوب ہو رہی ہیں مگر حال یہ کہ ’’رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی‘‘۔ جب موبائل نہیں تھا تب بھی مسلمانوں کی نمازوں میں خشوع و خضوع نظر نہ آتا تھا ۔آج یہ حال ہے کہ موبائل آن رکھ کر نمازیں پڑھی جا رہی ہیںتاکہ حالت نماز میں ہی پتہ چل جائے کہ کسی کا فون آیا تھا۔اوقات نماز میں اگر فون آجائے تو دیگر نمازیوں کا خیال اب کسی کو نہیں رہتا۔عام لوگوں کی بات کیابڑے بڑے مفتی اور علماء کو یہ حدیث یاد نہیںجس میں حضور ﷺ نے کہا تھا ہماری مسجد میں کوئی پیاز اور لہسن کھا کر نہ آئے۔جب کم و بیش سارے نمازی نو سو چوہے کھا کر مسجد کا در پکڑ رہے ہوں تو اتنی چھوٹی سی حدیث کون یاد رکھے گا۔کچھ لوگ فرض ہی نہیں نفل روزے بھی رکھتے ہیں۔بلکہ کچھ لوگ تو باقاعدہ ہر ماہ ایام بیض کے روزے رکھتے ہیںمگر اللہ نے انسانوں پر روزے کیوں فرض کئے یہ شعور ان کی زندگی میں کبھی کہیں ظاہر نہیں ہوتا۔زکوٰۃ کے تعلق سے کہا نہیں جا سکتا کہ کون دیتا ہے کون نہیں دیتا۔مگر یہ تو ہے کہ پہلے کے مقابلے اب زیادہ نکالی جا رہی ہے مگر اس میںبھی قربانی کی طرح نمائش کا پہلو غالب ہو گیا ہے۔اب یہ بھی دماغ میں چڑھ گیا ہے کہ ہم زکوٰۃ لینے والے پر احسان کر رہے ہیں۔دو دہائی پہلے تک حج کے لئے بھی خال خال لوگ ہی جاتے تھے ۔مگر حج تو چھوڑئیے عمرہ بھی اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے تو دوسری پکنک۔اب تو لوگ حج کا احرام باندھتے ہی واٹس ایپ پر سیلفیاں پوسٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اور واپس آکر جاہل ہوا تو حاجی اور تعلیم یافتہ ہوا تو خود کو الحاج کہلوانا شروع کر دیتا ہے ۔
  مذکورہ بالا تمام مشقوں کی وجہ سے مسلمانوںکے دل و دماغ سے یہ بات ہی نکل گئی ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجے گئے ہیں۔ان کا دنیا میں مقصد بعثت کیا ہے؟ہمارے نزدیک ان کا مقصد بعثت ابلیس سے مقابلہ کرنا اور اسے شکست دینا ہے ۔اور وہ صرف نماز روزہ حج زکوٰۃکی ابتدائی ٹریننگ سے ممکن نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو قرآن اتنا ضخیم نہ ہوتا۔صبر کا ذکر نہ ہوتا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین نہ ہوتی ۔جہادکی تیاری کا حکم نہ ہوتا ۔عورتوں کو پردے میں چھپانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ضرورت پڑ نے پر اصحاب کہف کی روش اختیار کرنے کو نہ کہا جاتا ۔قرآن میں ان باتوں کے علاوہ بھی بہت سارے احکامات ہیںمگر صرف قرآن میں ہی ہمارے لئے ہدایات نہیں ہیںبلکہ احادیث اورسنت رسول اللہ بھی ہمارے لئے سر چشمہء ہدایات ہیں۔وراثت کا حکم ہے ،مسلمانوں کے لئے وصیت کی گنجائش ہے تو مگر محدود ہے۔مگر ہمارے یہاں وراثت کے جھگڑے عام ہیںجبکہ وراثت کے احکامات کے ہوتے ہوئے وراثت کے جھگڑے ہونا ہی نہیں چاہئے۔خاص طور پر بہنوں کو وراثت میں حصہ دینے کا تصور تو ختم ہی ہو چکا ہے۔اور وہی احساس جرم ہمیں دھڑا دھڑ حج و عمرے کی ترغیب دیتا ہے ۔اسلام کہتا ہے وہ مومن نہیں جس کے ہاتھوں دوسرا مسلمان اور پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔سوچئے کا ہمارا رویہ ان ہدایات سے میل کھاتا ہے۔ہمارا حال یہ کہ ہم ایک دوسرے سے اس لئے رنجش رکھتے ہیںہمارا دوست یا پڑوسی ہم سے زیادہ بڑی قربانی کر رہا ہے یا اس کاگھر ہم سے زیادہ شاندار ہے۔ ایک حدیث کہتی ہے کہ مومن زانی ہو سکتا ہے ،قاتل ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے اس حدیث پر عمل تو دور اسکی اہمیت کا اندازہ اس پر عمل کے فوائدہماری عوام تو کجا ہمارے بڑے بڑے علماء کو بھی نہیں ہے ۔ اور ہم یہ بات یونہی ہوامیں نہیں کہہ رہے ہیں ۔ہمیں اس کا ذاتی تجربہ ہے۔اور دور کیوں جائیے ۔ابھی ابھی ایک بڑے مولانا نے پہلے شاہین باغ کے خلاف بولا پھر تھو تھو ہونے پر اپنے بیان سے مکر گئے جبکہ دنیا انھیں ویڈیو پر شاہین باغ کے خلاف بیان دیتے دیکھ اور سن رہی ہے۔اور یہ ان کا حال ہے جو قبروں میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیںکیا موت کا نہیں صرف نقصان کا خوف ،خوف خدا سے بڑھ نہیں گیا ہے ۔اس اقرار میں حرج کیا تھاکہ پولس میری چھاتی پر کھڑی تھی اس لئے ڈر کر میں نے شاہین باغ کے خلاف بیان دیا ۔اس اخلاقی جرأت سے عوام بھی سمجھ جاتی خدا کی سزا سے بھی بچ جاتے۔اسی لئے ہمارے علمائےکرام نے دین کو نماز روزے حج و زکوٰۃ میں قید کر کے رکھ دیا ہے ۔ایسا کیوں کیا گیا؟اسلئے کیا گیا کہ اگر لوگ نماز روزے اور حج و زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر عمل کرنے لگے تو پھر وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر بھی لازماً عمل کریں گے اور ہمارے رہنمایان کو عوام کے سامنے جوابدہAccountable ہونا پڑے گا ۔
  ہم بڑے شوق سے خوشی سے فخر سے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ ہمارے خلفائے راشدین نے خلیفہ بننے کے بعد جو پہلا خطبہ دیا تو کہا کہ لوگو ! میری اطاعت تم پر اس وقت تک فرض ہے جب تک  میں تمھیں معروف کا حکم دوں اور جب میں راہ راست سے بھٹک جاؤں تو،لوگوں نے یا صحابہ نے تلوار پر ہاتھ رک کر کہا ہم تمھیں اس سے سیدھا کر دیں گے ۔ ہم یہ کیوں نہیں کرتے ؟ ہم یہ بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اس دنیا میں حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر دورحکمرانی آج تک کسی کا نہیں ہوا ہے۔اور یہ مسلمان ہی نہیں صاحب مطالعہ غیر مسلم بھی مانتے ہیں ۔یہ وہ دور حکومت تھا جس میں ایک عورت بھی بر سر منبر خلیفہء وقت کی غلطی کی نشاندہی کر دیتی تھی اور خلیفہء وقت بر سر منبر بآواز بلند اپنی غلطی تسلیم بھی کر لیتا تھا ۔ عام آدمی بھی سر راہ خلیفہ کو روک کر اسے باتیں سنا سکتاتھااور اسے کوئی روکنے کی کوشش کرتا تھا تو خلیفہ کہتا تھا ۔ایسے ایک شخص کا وجود ہمارے تمام مفتوحہ علاقوں سے زیادہ مفید ہے۔اس لئے ہم دہائیوںسے لکھ رہےہیں کہ نماز روزہ حج زکوٰۃ سے بڑا فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔کوئی اس سے منہ موڑ کر نماز روزے حج و زکوٰۃ میں اگر پناہ ڈھونڈتا ہے تو کم سے کم ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسے روزہ نماز حج زکوٰۃ اس کے منہ پر مار دئے جائیں گے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں متعدد جگہ اس فریضے کے تعلق سے آگاہ فرماتے ہوئے کہتا ہے ۔سورہء آل عمران ۱۱۰ کا ترجمہ ہے ۔تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے برپا کی گئی ہے۔کیوں کہ تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو ۔برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو ۔کم وبیش اسی مفہوم کے احکامات ہمیں قرآن میں سورہء توبہ۷۱،۱۱۲۔سورہء اعراف ۱۵۷،سورہء الحج۴۱اور سورہء لقمان ۱۷ میں بھی ملے۔ممکن ہے اور مقامات پر بھی ہوں اور ہم تلاش نہ کر پائیں ہوں۔سورہء اعراف میں تو اسے نبی کی دعوت کا حصہ بتایا گیا ہے۔تمام مقامات کے احکامات پڑھنے کے بعد جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم امر بالمعروف کا فریضہ انجام دیں تو ہمارا معاشرہ بھی قریب قریب اسی طرح مثالی بن جائے گا جیسے کہ صحابہء کرام کا تھا ۔جبکہ آج ہمارا معاشرہ مثالی نہیں گالی ہے۔
  نماز کس لئے ضروری ہے۔نماز ایک مکمل ورزش ہے جسمانی بھی دماغی بھی اور روحانی بھی ۔مگر آج ۹۹ فی صد لوگ جو نماز پڑھتے ہیں وہ ریاکاری کے سوا کچھ نہیں۔اس لئے جو فوائد حاصل ہونے چاہئیں وہ نہیں ہوتے ۔اسی طرح روزہ بھی ہے۔آپ کے جسم کے تمام فاسد مادوں کو ختم کر دیتا ہے ۔جسم کو صحتمند رکھتا ہے ، آپ کو بتاتا ہے کہ بھوک کیا چیز ہے ۔پھر کچھ اوقات ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں آپ کو بھوک برداشت کرنے کی عادت ہونی چاہئے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔زکوٰۃ آپ کو مالی قربانی پر مائل کرتی ہے۔لالچ کو ختم کرتی ہے۔آپ کے اقربا و احباب میں محبت پیدا کرتی ہے۔حج اپنے مالک کے غلام بن کر مکمل سپردگی اختیار کرنے کا نام ہے۔اس کے لئے ہر قسم کی قربانی بخوشی دینے کا نام ہے ۔یہ چند فوائد جو ہم نے یہاں گنائے ہیں ان چاروں عبادتوں سے حاصل ہونے والے فوائد کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ۔ان عبادتوں کو ان کی روح کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ہی ہم اس دنیا میں ابلیس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔اب اس کسوٹی پر عوام ہی نہیں علما کو بھی اپنے آپ کو پرکھنا چاہئے کہ کیا ہم واقعی ان عبادتوں کو ان کے صحیح تناظر میں ادا کرنے کی یا برتنے کی خواہش رکھتے ہیں؟کیا ہم ان عبادتوں کے ذریعے انسانوں کے دشمن سے اللہ کے مغضوب سے لڑ سکیں گے؟ 
  ہم برسوں سے لکھ رہے ہیں کہ اب مشرق میں ایک دوہی چھوٹے ٹاپو بچے ہیں جہاںامت مسلمہ باقی بچی ہے۔ہمارے نزدیک اب امت مسلمہ مغرب میں تیار ہو رہی ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد چند ماہ اسلام کا مطالعہ کرکے ابلیس سے مقابلہ اور اللہ کی نصرت تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں۔
   7697376137       


0 comments:

ہم نے دیکھا ہے ان آنکھوں سے فرعون کے لشکر



عبدالمقیت عبدالقدیر

ہم نے دیکھا ہے ان آنکھوں سے فرعون کے لشکر (ہماری آنکھ مطلب مومن کی آنکھیں جو ہر وقت قرآن کو دیکھتی ہے۔ اس قرآنی آنکھوں کی متعلق کہہ رہا ہوں)

؎ ہم نے دیکھا ہے ان آنکھوں سے فرعون کے لشکر 
    ڈرا کر ظلم  سے تم ہمیں للکا ر نہ دو
بہ طور تاریخ کاطالب علم جب ہم جنگ آزادی اور دور آزادی کے بارے میں پڑھتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ کہ کیسے لوگ تھے کیسی قربانیاں تھیں ۔ 
سراج الدولہ اگر انگریزوں سے ہاتھ ملا لیتے تو حکومت ہاتھ سے نہیں جاتی۔ ٹیپو اگر انگریزوں سے دوستی کرلیتے توآج ان کی اولادیں رکشا نہیں چلا رہی ہوتی۔ (کہا جاتا ہے کہ ٹیپوں کے خاندان والوں کوانگریز قید کر کے بنگال لے گیے تھے۔ جہاں آج بھی وہ لوگ رکشا چلاکر محنت مزدوری کر کے زندگی بسر کرتے ہیں) وہ اسی سالہ بزرگ بہادرشاہ ظفر جو ایک معافی نامہ لکھ دیتے تو چین و سکون اور عیش و آرام کے ساتھ ہند کے تاجدار بنے رہتے ۔ مگر انہوں نے برما کے کالا پانی کو قبول کرلیا ۔ وطن سے دوری پر اپنی بدنصیبی کا گلہ کرتے رہے۔ مگر معافی نہیں مانگی ۔ تیس سالہ اشفاق ، بھگت سنگھ ، سکھ دیو ، راج گرو، رام پرساد بسمل یہ پچیس تیس سال کے نوجوان یہ سب ہستے ہنستے پھانسی کو چوم لیتے ہیں ۔ 
جنگ آزادی کے زمانے میں جب خلافت تحریک چلی تھی بچہ بچہ کہا کرتا تھا کہ بولی اماں محمد علی کی بیٹا جان خلافت پہ دے دو۔۔  سن 1919 میں انگریزوں نے رولٹ ایکٹ پاس کیا تھا ۔ جس میں پولیس کو بے انتہا اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے کسی کو بھی گرفتار کر سکتی ہے۔ جسے چاہے اسے جیل بھیج سکتی ہے ۔ بلا کسی ثبوت کے ایک ایک سال تک جیل میں رکھ سکتے تھے جس پر چاہے اس پر برطانوی حکومت کے خلاف دیش دروہ کا معاملے درج کر کے اس کی ملکیت بھی غصب کر سکتے تھے۔ اس قانون کے خلاف عوام نے مظاہرے کیے۔ ستیہ گرہ، ریلی یاترا سب کچھ نکالی گئی۔ لگ بھگ تین سال تک یہ آندولن جاری رہے تب کہیں جاکر 1922میں انگریزوں نے یہ قانوں واپس لیا۔
سو سال پہلے بچہ بچہ کرتا تھا بولی اماں محمد علی کی بیٹا جان خلافت پہ دے دو۔  فی الحال آج کا ماحول دیکھیں آج بھی حکومت کے کالے قوانین کے خلاف سارا دیش آندولن کر رہا ہے۔ آج بھی شاہین باغ کا بچہ بچہ کہہ رہا ہے ۔۔ اماں جان شاہین باغ کے نام کردو۔ اللہ ہمیں استقامت دے اور ہماری اس جدوجہد کو قبول کرے ۔ آمین ۔
ہم نے قرآن میں فرعون، شداد، نمرود جیسے جابروں کے ظلم کی داستانیں پڑھ رکھی ہیں ۔ ساتھ ہی اہل ایمان کی قربانیوں کو بھی پڑھا ہے۔ ظالم کتنے ہی ظلم کرلے ہم ایک انچ بھی نہیں ہٹیں گے۔ ہم یہ جنگ جیت چکے ہیں اس یقین کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب اگر تم جیتنا چاہتے ہو تو تم کو ہمیں راستے سے اْٹھانا نہیں مٹانا پڑے گاجس کی کوشش بھی ظالم حکومت کر رہی ہے ۔ روزانہ مظاہرین پر پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج، گولی بار سے لے کر اپنے پالے ہوے دہشت گرد غنڈوں سے گولیاں چلوانا  فسادات کروانا سب کچھ کیا جارہا ہے ۔ظالم شاید نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں جن ابوجہلوں کے سر جھکتے نہیں وہ ننھے معصوم معاذ اور معوذ کے ہاتھوں گرا دیے جاتے ہی۔ جو فرعون ظلم کی حدیں توڑ ڈالتا ہے وہ غرق جاتا ہے ۔ جو قارون ظالموں کو فنڈنگ کر تے ہیں وہ اپنے وسائل سمیت دفن ہوجاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں ۔ ہاں ہم جانتے ہیں۔ ہم نے تو روز اول سے ہی اپنے جان ، مال کے بدلے جنت کا سودا کرلیا ہے۔ تم ہمیں ڈرانے کی بے کار کوشش 
کر کے دیکھ لو اور ہم بھی دیکھتے ہیں ۔

ہاں ہم بھی دیکھیں گے
لازہے ہم بھی دیکھیں گے
جب ارض خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی
ہم دیکھیں گے۔
فیض احمد فیضؔ 
عبدالمقیت عبدالقدیر بھوکر
Mob. 9867368440


0 comments:

انہی تحریکوں سے نئی قیادت ابھرے گی



  عبدالمقیت عبدالقدیر شیخ 9867368440



کسی کو تمنا ہو کہ وہ جنگ آزادی کا دور دیکھے تو اک بار بھار ت ضرور آئے اور یہاں کے شاہین باغات پر حاضری 
لگائے ۔ شاہین باغ یہ تحریک شروع ہوئی اس ملک کے دل دلی سے مگر سارے ملک میں پھیل چکی ہے ۔ حکومت کے ظلم کے خلاف یہ تحریک کافی اثر رکھتی ہے ۔ آئے دن حکومت اور اس کے ہمنوائوں کی جانب سے مفت کی بریانی، پانچ سو روپے سے لے کر ہماری مائوں بہنوں کے کر دار پر بھی کیچڑ اچھالنے کی سازش تک کی جا رہی ہے ۔ گولیاں تک چلائی گئی۔ تاکہ مظاہرین ڈر کر احتجاج کرنا چھوڑ دے اور حکومت کے ظالمانہ فیصلے کو قبول کر لے۔ ملک کا سماج تین گروہوں میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ ایک گروہ رائٹ ونگ کہلا رہا ہے جو حکمران اور ان کے ہمنوا سنگھ کے نظریات کا اندھا مقلد ہے مسلمانوں سے نفرت اس کی خاصیت ہے ۔
دوسرا گروہ مظاہرین کا  ہے جس میں پیش پیش مسلمان ہیں جو سارے ملک میں اس انقلاب کی امامت کر رہے ہیں مگر ان کی صفوں میں موحد وں کے ساتھ کمیونسٹس بھی شامل ہیں۔ کچھ پیمانے پر کمزور اور پچھڑے ہوئے طبقات برادریاں بھی شامل ہیں ۔ تیسرا گروہ ان شاطر اور چالاک ناظرین کا ہے جو اونٹ کے بیٹھنے کا انتظار کر رہیں تاکہ جو حصہ محفوظ ہے ہم اس میں چھلانگ لگا لیں گے۔ یہ لوگ ان تمام جھمیلوں سے دور رہ کر اپنے دستاویزات بھی جمع کر رہے ہیں کہ جب این آرسی بنام این پی آر آجائے تو ہم لوگ حد محفوظ میں رہیں۔ اس گروہ میں ان مسلمانوں کا تناسب بھی خاصا موجود ہے جو دن میں سرکار ی دستاویزات بنانے میں دوڑ دھوپ کر رہے ہیں اور شام ہوتے ہی شاہین باغ کے مکین بن جاتے ہے۔مسلمانوں کا جوش، جنون اب بھی کافی تیز ہے جامعہ، جے این یو، اے ایم یو کے طلبہ ، کمیونسٹ ایکٹی وسٹ سارے ملک کے احتجاجات میں شرکت کررہے ہیں اور اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ 
مسلم عوام ان دھرنوں کو وہاں ہورہا ہے  یہاں بھی کرنا چاہیے کے طرز پر منعقد کر رہے ہیں۔  دو مہینے مکمل ہوچکے ہیں لیکن اب تک ان دھرنوں نے ملک گیر تنظیمی سیٹ اپ کا روپ نہیں لیا۔مسلم عوام کا بڑا حصہ اسے روایتی قیادت (علماء کہلانے والے طبقے )کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہیں عوام کا ایک حصہ نہیں چاہتا کہ یہ انقلاب روایتی گروہ کے حوالے کر دیا جائے  وہ چاہتے ہیں کہ یہ ملک گیر انقلاب کی شکل اختیا ر کرنا چاہیے اور بلا امتیاز مذہب و ملت ہر کوئی اس میں شامل ہو سکے صرف مسلمانوں کا دھرنا بن کر نہ رہے ۔ دیگر لوگ اس کی سرپرستی کرنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ مظاہرے مسلم شناخت رکھتے ہیں۔
ان حالات میں ایسے لوگ بھی ہر روز بیان بازی ، پریس کانفرنس ، سوشل میڈیا وغیرہ پر اپنی چمک دکھا کر اپنا رعب جھاڑنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ملک اور ملت کے مخلص قائد ہیں اور یہ سب ان کی رہنمائی سے ہی چل رہا ہے۔ خانقاہ والے اپنا جال پھینک کر جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے سر پر ہمارا ہاتھ مع دعائوں کے شامل ہے۔ جمعیت والے بھی اسے اپنے شیخ صاحب کی کرامت بنانے پر کمر بستہ ہیں۔ مدرسہ والے تو ان سب سے آگے بڑھ کر نہ صرف قیادت کا اعلان کرچکے ہیں بلکہ اب اس تحریک کی منسوخی کا حکم بھی دے چکے ہیںکہ حکومت نے بات سن لی ہے ہمارا کام سنانا تھا اب اس کے آگے کی حکمت عملی کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ اہل مدرسہ کا یہ اعلان مسلم عوام پر بجلی بن کر گرا جس کا کڑا رد عمل بھی سامنے آیا اور اس سے قبل کہ  اخبارات میں ان کی منسوخی کا اعلان آتا معافی نامہ آگیا کہ ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ۔
جماعت اسلامی ہند ان احتجاجات میں پیش پیش ہے مگر اسٹیج سے زیادہ پس پردہ رہ کر کام کرنے کو حکمت عملی قرار دے رہی ہے کہ اسے ہائی جیک کریں گے تو ان طلبہ کے ساتھ جو اس کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگا چکے ہیں، ان خواتین کے ساتھ جنھوں نے اپنے ساتھ اپنے دودھ پیتے بچوں کو قربان کردینے کی بھی استقامت دکھا دی ہے ، ان ایکٹی وسٹس کے ساتھ جو اس انقلاب کی تعمیر میں صعوبتیں جھیل رہے ہیں ان سب کے حق کے ساتھ خیانت ہوگی۔ان مظاہروں کے باوجود حکومت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔ ابھی آگے کی حکمت عملی کیا ہو گی یہ طے کرنا بھی ضروری ہوچکا ہے ۔
غیر مذہبی تحریک چلانے کا یہ نقصان یہ ضرور ہورہا ہے کہ ایسے نعرے ، نغمے اور تقریریں عام ہورہی ہیں جن کا راست ٹکرائو اسلامی نظریات سے ہوتا ہے ۔ ان باتوں کا سہارا لے کر امت کا ایک طبقہ ان دھرنوں کو بے دینی کے مظہر کہہ رہا ہے ۔ جب کہ انہی دھرنوں کا ایک منظر یہ بھی ہے کہ یہاں روزہ ، افطار وسحر نماز پنجگانہ کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے ۔ یہ لڑائی اسلام  کے نام پر نہیں متحدہ کاز کے لیے کی جارہی ہے ۔ ہم ہر کسی کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے اور نہ ہی دوسروں کا ان کے تشخص کے ساتھ ہمارے دھرنوں میں شامل ہونا ہمیں ہمارے دین سے علحدہ کر سکتا ہے ۔ اگر ایسی کو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہو تو اس کا ازالہ بیک وقت کردینا چاہیے ۔ 
شاہین باغ کو اس سیکھ سردار سے لنگر کھانے میں کچھ ممانعت نظر نہیں آتی جس نے ان کی خدمت کے لیے اپنا فلیٹ بیچ ڈالا ۔ لیکن ہمارے مفکرین کو جب سیکھ خواتین اسٹیج سے جے کارا پکارتی ہیں تو اس کے جواب میں انہیں ارتداد کی پہل نظر آجاتی ہے۔ان افراد کی خاصی تعداد اس طرح کے خدشات اور خطرات کا بہ طور داعی علاج کرنے کے ان سے کنارہ کش ہوجانے کا پہلو تلاش کررہی ہے نیز سوشل میڈیا پر بھی انھیں وائرل کرکے دوسروں کو باز رہنے کی تاکید کر رہے ہیں۔ قحط الرجال کا بھیانک منظرمسلمانان ہند ابھی جھیل رہے ہیں ۔ یہاں آگ ، آل نمرود اور آل ابراھیم سب موجود ہیں مگر براہمی قیادت ابھی آنکھوں سے اوجھل ہے ۔ اس کے آنے کا راستہ بھی تیار ہورہا ہے ۔ ایسی ہی تحریکات کے سبب مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ابولکلام آزاد جیسے افراد ابھر کر سامنے آئے انشاء اللہ انہی میدانوں سے نئے رہنما بھی نکل کر آئیں گے ۔


0 comments:

کیجریوال اور اندیشے




ممتاز میر

   ابھی دہلی کی جیت کا جشن جاری ہے ، کہیں ہو نہ ہو مسلمانوں میں تو ہے اور اس کی وجہ ہے ۔مسلمانوں کو خوشیاں کم ہی میسر آتی ہیں ۔مسلمانوں کا دشمن آسماں بھی ہے اور ان کے دوست بھی ۔اس لئے وہ بیگانی شادی میں عبداللہ بنے رہتے ہیں ۔جیت تو کیجریوال کی ہوئی جن کے تعلق سے فی الوقت قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا تعلق دائیں بازو سے ہے یا بائیں بازو سے، سنگھ سے ہے یا سنگھ کے مخالفین سے ۔کیجریوال کی پہلی جیت کے بعد ایک پاکستانی صحافی نے لکھا تھا کہ کیجریوال وویکانند فاؤنڈیشن کے ممبر ہیںاور اس فاؤنڈیشن کے سارے ممبر سنگھی ہیں ۔ اتل کمار انجان ،جو کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے نیشنل سیکریٹری ہیں ،اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے آر ایس ایس اور وویکانند فاؤندیشن کو ایک ہی سطح پر رکھا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹو پارٹی سسٹم میں پہلی پارٹی کانگریس کی جگہ خالی ہو رہی ہے اور وہ جگہ شاید عام آدمی پارٹی سے پر کی جائے گی ۔تو جیت تو کیجری وال کی ہوئی اور مسلمان اس طرح خوشیاں منا رہے ہیں جیسے ان کے لیڈروں نے کوئی معرکہ سر کیا ہو ۔ 
   شاید وطن عزیز میں یہ پہلی بار ہے کہ کسی سیاستداں نے اپنے کئے ہوئے کاموں کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگا ہو ۔ورنہ روایت تو یہ کہ ہے خواب دکھا کر ، سپنے سجا کر،جملے اڑا کر ووٹ مانگے جاتے ہیںاور سچ یہ ہے کہ اب ہماری عوام بھی ان نشوں کی عادی ہو چکی ہے۔اسے مذکورہ بالاروایتی خوابوں اور سپنوں کے بغیر الیکشن میں مزہ نہیں آتا۔اس لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیجریوال کے ہزار کاموں کے اور وہ بھی تمام کے تمام عوامی مفاد کے کاموں کے علی الرغم دلی میں بی جے پی کا ووٹ شیئر بڑھا ہے ۔ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ مودی حکومت کتنی کرپٹ ثابت ہوئی ہے ۔یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کوکس طرح سی بی آئی ، اے سی بی اور ای ڈی کے حوالے کر رہی ہے  ۔ یہی سب کچھ وہ کیجریوال اور ان کے وزراء کے ساتھ بھی کرنا چاہ رہی ہے مگر کامیاب نہیں ہو پارہی ہے ۔یعنی یا تو کیجریوال حکومت کرپٹ نہیں ہے یا اس کے سر پر بھی سنگھ کا ہاتھ ہے۔ دوسری طرف بی جے پی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوئی ہے نہ نوٹ بندی سے سو سوا سو موت کے باوجود وہ مقاصد حاصل ہوئے ہیں جس کا اعلان جناب مودی نے ووٹ بندی کرتے وقت کیا تھا۔نہ GST سے تجارت کو فائدہ پہونچا، بلکہ تجارتی سرگرمیاں کیا پوری معیشت ہی ڈبے میں بند ہوگئی ہے یہاں تک کہ حکومت کو پیٹ بھرنے کے لئے رزروبینک سے پونے دو لاکھ کروڑ روپئے چھیننے پڑے۔اس پر بھی بس نہیں کیا،ملکی اداروں کو اپنے سر پرستوں کو اونے پونے بیچ رہی ہے جس کی وجہ سے ہر ادارے میں کام کرنے والے ملازمین نے ملک سر پر اٹھا رکھا ہے ۔اس ساری قواعد کی دو وجہ ہو سکتی ہیں ۔اپنے سر پرستوں کو نوازنا ،ان کا احسان چکانا اور خالی خزانے کو بھرنا۔ مگر ملکی معیشت کے لئے مفید اداروں کو بیچ دینا دیش واسیوں کے لئے کیا مسائل کھڑا کرے گا اس کا احساس کسی کو نہیں ۔ اس پر طرہ یہ کہ ملک میں نصف صدی میں پہلی بار اس قدر بیروزگاری پھیلی ہے۔حکومت کی اسی طرح ہم حوصلہ افزائی کرتے رہے تو ممکن ہے نصف صدی کی بجائے پوری صدی میں اتنی بیروزگاری کہنا پڑے ۔
لاء اینڈ آرڈر کی جوصورتحال فی الوقت ملک میں ہے اس کا مقابلہ افریقی ممالک سے کیا جا سکتا ہے اور یوگی کا پردیش تو ان پر بھی بازی لے گیا ہے۔پچھلے دنوں یوگی جی کا ایک ویڈیو نظر سے گزرا جس میں وہ سومناتھ چٹرجی جو کہ اس وقت لوک سبھا کے اسپیکر تھے کے سامنے آواز اور آنسوئوں سے رو رہے ہیں اور سومناتھ چٹرجی انھیں دلاسہ دے رہے ہیں۔وہ ویڈیو دیکھ کر ہمیں سمجھ میں آیا کہ یوگی جی ایسے کیوں ہیں؟بزدل ہی ظالم ہوتا ہے۔حکومتی ارکان کی زبان شاید کہ دنیا کے پارلیمنٹیرینس  میں سب سے زیادہ خراب ہو ۔ وہ اس طرح Behave کرتے ہیں جیسے جنگل میں رہ رہے ہوں۔ان تمام نااہلیوں  کے باوجود دہلی میں بی جے پی کا ووٹ شیئر بڑھنا کیا ظاہر کرتا ہے؟کیا یہ کہ وطن عزیز کی 40% عوام فرقہ پرستی میں آخری حد تک لت پت نہیںہے؟اتنی کہ اس نے ملک کی تباہی و بربادی کی فکر چھوڑ کر ،خود اپنے مسائل کو طاق پر رکھ کر، اپنی اولاد کے مستقبل کو بھول کرصرف مسلمانوں کی بربادی کو اپنی پہلی پسند بنا لیا ہے ۔چاہے ملک اپنا وجود ہی کھودے مگر مسلمانوں کا وجود باقی نہ رہے یا کم از کم وہ تکلیف میں مبتلا رہیںاگرہم یہ تسلیم کرلیں کہ انتخابات کے نتائج بالکل صحیح اور ایماندارانہ ہیں تو کم سے کم ہمارا دماغ یہی نتائج نکالتا ہے۔ یا دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے سب منصوبہ بند ہے۔نتائج پہلے سے طے شدہ ہیں۔
اب دوسری ؍ پہلی جو قومی پارٹی تھی اس پر گائے اور بچھڑا قابض ہیں جو سنگھ کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔ سنگھ کے نزدیک ان کی شہریت بھی مشکوک ہے۔اور مذہبیت بھی ۔تو پھر،پھر یہ کہ ٹو پارٹی سسٹم میں جو جگہ خالی ہونے والی ہے اسے پر کرنا ہے ۔مسلمانوں نے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔اس کے باوجود کہ ان کے رسول ﷺکہہ گئے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا ۔ اب اس بات کا اعتراف کئے بھی زمانہ گزر گیا کہ ہم مومن نہیں۔بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتاہے۔اسلئے کیجریوال کتنے ہی قابل سہی ،کارکردگی میں لاجواب سہی۔مگر ان کا ماضی ہمیں ڈراتا ہے۔وہ انا ہزارے کے کندھوں پر چڑھ کر یہاں تک پہونچے ہیں اور انا اس عمر میں جبکہ وہ قبر میں پیر لٹکائےسوری!چتا پر چڑھے بیٹھے ہیں یہ کہہ چکے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کہ ملک میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے ۔یہ وہی انا ہزارے ہیں جنھیں وزرا ٔکے کرپشن کا پتہ ہوتا ہے ۔اس لا علمی کے اظہار کے وقت کیجریوال چپ رہے تھے۔ویسے بھی اب تک کیجریوال نے مسلمانوں کے مفاد میں کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ہے ۔ممکن ہے وہ اپنے ووٹرس سے ڈرتے ہوں۔مگر کیوں؟اگر وہ واقعی اس ملک کے مخلص سیاستداں ہیں تو اپنی اسکولوں کا نصاب اس طرح تیار کریں کہ قوموں میں نفرت نہ پیدا ہو ،محبت پیدا ہو۔وطن عزیز کی بہتری کے لئے جس قوم نے جتنا کام کیا ہے اسے نئی نسل تک پہونچائیں ۔ہم ذاتی طور پر کیجریوال کے مداح ہیں مگر اندیشوں کے ناگ سر اٹھاتے رہتے ہیں،اس لئے دوسرا رخ دیکھنا اور دکھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137    


0 comments:

Muslim Issues

شرجیل امام : میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں



نہال صغیر 

جنوری کی پانچ تاریخ کو جے این یو میں نقاب پوش بدمعاشوں کے ذریعہ تشدد اور دہلی پولس کی شرمناک خاموشی سے ناراض ممبئی اور مہاراشٹر کے نوجوانوں اور طلبہ نے اسی رات گیٹ وے پر جمع ہونے کی اپیل کی وہ جے این یو کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہتے تھے ۔ اسی احتجاج میں ایک لڑکی جس کا نام مہک پربھو تھا فری کشمیر کا پوسٹر اٹھائے ہوئے نظر آئی ۔ یہ کسی کو نظر آئے یا نہیں آئے مگر بی جے پی کیلئے یہ موقعہ غنیمت تھا چنانچہ سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے ؟ اس کے بعد ہنگامہ آرائی شروع ہوئی اس پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی اور تفتیش شروع ہوگئی مگر اس سے پہلے ہی اس لڑکی نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ اس کے پیچھے اس کا مقصد کشمیر میں عوام کو ہورہی دشواری پر احتجاج کرنا تھا جسے سب نے تسلیم کرلیا ۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے دوسرا رخ شرجیل امام پر ملک سے غداری کے مقدمہ کے بعد گرفتاری کا ہے ۔ واضح ہو کہ اس نوجوان نے علی گڑھ میں احتجاج کے دوران یہ کہا تھا کہ احتجاج کو موثر بنانے کیلئے ہمیں پورے ملک میں چکہ جام جیسی صورتحال پیدا کرنی ہوگی جس میں اس نے شمال مشرق کی ریاست کو باقی ہندوستان سے کاٹ دینے یعنی رابطہ ایک لمبے عرصہ تک منقطع کرنے کی بات کی تھی تاکہ حکومت مجبور ہو کر مسلمانوں کی بات سنے۔ اس تقریر میں جو کاٹ دینے کی بات تھی اس کو علیحدگی پسندی سے تعبیر دی گئی اور اس کی یا اس کے والدین کی جانب سے دی گئی وضاحت کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ وجہ بالکل صاف ہے کہ فری کشمیر کا پوسٹر اٹھانے والی ہندو لڑکی تھی اس لئے وہ قابل معافی ہے یا قابل گرفت نہیں ہے مگر شرجیل امام ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہے اس لئے اس کی جانب سے کسی وضاحت کو تسلیم نہیں کرنے کا رجحان ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی ہے ۔اس کے ثبوت کے طور پرکشمیر کے معاملہ میں جواہر لال نہرو کی حکومت میں ہی شیخ عبد اللہ کی گرفتاری کوپیش کیا جاسکتا ہے ۔ انتہا یہ ہے کہ شرجیل امام کی حمایت میں آزاد میدان میں نعرہ لگانے والوں پر ایف آئی آر ہوجاتی ہے اور اس میں شامل ایک طالبہ کی گرفتاری کیخلاف پولس کوشاں ہوجاتی ہے مگر وہ نظروں سے بچ کر ہائی کورٹ سے ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔ 
کچھ دن قبل شرجیل امام کی حمایت میں کچھ نوجوانوں کی جانب سے ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلایا گیا جس میں شرجیل سے اظہار یکجہتی اور اس کی رہائی کا مطالبہ شامل تھا۔ اس میں ایک ٹوئٹر پر شرجیل کی ایک تصویر نظر آئی جس میں وہ ایک پوسٹر اٹھائے ہوئے ہے جس پر ہاتھ سے انگریزی میں ایک تحریرہے جس کا اردوترجمہ ’’میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں‘‘ہے ۔ بہت مختصر جملہ لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے تناظر میں جامع ہے ۔ یہ آج کے ہر مسلم نوجوان کی آواز ہے ۔ خواہ کسی سازش کے تحت اسے کچھ بھی سمجھ لیا جائے ۔ شرجیل کا شمال مشرق کی ریاستوں کو بقیہ ہندوستان سے کاٹ دینے کا مطلب مہک پربھو کے فری کشمیر سے بالکل بھی مختلف نہیں ہے ۔ مگر اس کو کیا کیجئے کہ شرجیل امام ایک آمادہ زوال قوم کا نوجوان ہے جو قوم کے حالات سے رنجیدہ ہے ۔ وہ جسقدر ہندوانتہا پسندوں سے نالاں ہے اس سے کہیں زیادہ وہ نام نہاد سیکولر لبرل طبقہ سے بے اعتمادی کا اظہار کرتاہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس نے اسی تقریر میں یہ کہا کہ یہ لوگ اپنی مارکیٹنگ کریں گے اور چلے جائیں گے ۔ ہمیں اپنی لڑائی خود ہی لڑنی ہوگی ۔ اجیت ساہی بھی نام نہاد سیکولر لبرل اور کمیونسٹوں کے خدشات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس ملک میں مسلمان ، مسلمان بن کر ہی رہے گا یہی اس کی پہچان ہے‘۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ سیکولر لبرل اور کمیونسٹوں کا زور اس بات پر ہے کہ مسلمان اس ملک کی تہذیب و ثقافت میں اپنی پہچان ختم کرلیں ۔ اسی لئے ششی تھرور کو موجودہ احتجاج میں مسلم شناخت اور اسلامی نعرے شدت پسندی یا مذہبی بنیاد پرستی نظر آتے ہیں ۔
ہمیں شرجیل امام کے معاملہ میں سیکولر اور لبرل طبقہ سے شکایت ہے کہ اس نے شرجیل کو تنہا چھوڑ دیا ۔ مگر ہم نے کون سا اس کا ساتھ دیا ؟ ہم نے آخر کیوں اس کا ساتھ نہیں دیا ؟ اس کے پیچھے محض خوف کی نفسیات اور مجرم ضمیری کے سوا کیا ہے کہ اگر ہم نے اس کی حمایت میں کچھ بولا تو ملک کے غدار ٹھہرائے جائیں گے اور مقدموں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ آخر آپ کب تک خود کو مشکلات سے بچا پائیں گے ؟ جب تک آپ پورے طور سے یہاں کی تہذیب و ثقافت میں شامل ہو کر اپنی شناخت ختم نہ کرلیں ۔شرجیل امام کا مسئلہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا وہ بیدار مسلم نوجوان ہے جو اپنی شناخت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا اور چاہتا ہے کہ اس کی قوم بھی ایک غیور قوم کی طرح ہندوستان میں سر اٹھاکے رہے ۔ شرجیل کے سامنے اس کے قوم کی شاندار روایتیں ہیں جسے قوم اور قوم کے جبہ و دستار سے سجی قیادت بھلا چکی ہے ۔ شرجیل کے سامنے اسلام کی وہ اعلیٰ و ارفع تعلیمات ہیں جو حقوق انسانی کی پوری ضمانت دیتا ہے ۔ وہ اس اسلام کو مانتا ہے جس نے موجودہ دنیا کو حقوق انسانی اور انسانی قدریں کیا ہوتی ہیں اس سے روسناش کرایا جبکہ شرجیل امام پر تنقید کرنے والے افراد کا یہ نظریہ کمزور ہو چکاہے ۔
ہمیں سازشوں کی باتیں اتنی بتائی گئی ہیں کہ ہم زمینی حقائق اور فطری جذبہ کو بھی دشمن کی سازش قرار دینے لگے ہیں ۔ بعض افراد کا ماننا ہے کہ شرجیل امام کا موجودہ تحریک کے دوران اس قسم کی تقریر کرنا دراصل ایک سازش ہے اور اسے دشمن نے ہمارے درمیان پلانٹ کیا ہے ۔ یقین جانئے یہ صرف خوف کی انتہا ہے جس کا اظہار ہماری زبان سے اس انداز سے ہوتا ہے ۔ شرجیل کا یہ جملہ ’’میرے وجود کا احترام کریں یا میری مزاحمت کی توقع کریں‘‘وضاحت کیلئے کافی ہے ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا نہیں ہوا اور اس کے جواب میں مسلمانوں نے صبر کے سوا کیا کیا ۔اس کے صبر کی انتہا تو سپریم کورٹ کے ذریعہ اس کی مسجد کو مندر کے حوالہ کرنے کے فیصلہ پر اشتعال میں نہیں آنا ہے ۔مگر جب اس کی شہریت کو ختم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا تو وہ بے چین ہوگیا ۔دنیا میں کون ہے جو بے زمین ہونے کی کیفیت کا احساس کرکے بے چین نہیں ہوگا۔حکومت کے اس منصوبہ کیخلاف بھی مسلمانوں کو ہی میدان میں آنا پڑا اور پھر حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کے گھر کی زینت اور صنف نازک کو بھی باہر آکر موسم کی سختی اور متعصب دنیا کی بدزبانی کو سہنا پڑا ۔ اس سے ہمدردی اور بڑی بڑی باتیں تو بہت کی گئیں مگر میدان میں صرف مسلمانوں کو ہی نکلنا پڑا اور بیس سے زیادہ جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑا ۔ آج بھی حالات یہ ہے کہ میدان میں وہی نظر آرہا ہے ۔ ٹھیک ہی کہا تھا شرجیل نے کہ مسلمانوں کو ان کی جنگ خود ہی لڑنی ہوگی ۔شرجیل امام کے تعلق سے ابھی مزید کئی باتیں عرض کرنا باقی ہیں جو آئندہ کسی مضمون میں پیش کی جائے گی۔ یہاں سیکولر اور لبرل طبقہ کی ایک مثال دے کر اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔ بہار کے سید شہاب الدین برسوں سے جیل میں ہیں تقریبا دو سال قبل انہیں سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تو پرشانت بھوشن جو کہ ایک سیکولر شخص مانے جاتے ہیں نے سپریم کورٹ میں مداخلت کرکے سید شہاب الدین کی ضمانت منسوخ کرواکر انہیں دوبارہ جیل بھجوادیا ۔ مگر یہی پرشانت بھوشن اس وقت خاموش رہے جب دہشت گردی کے بدترین الزام کے باوجود سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو ضمانت مل جاتی ہےاور وہ رہا بھی ہوجاتی ہے ۔ہم نہیں کہتے کہ سیکولر یا روادار طبقہ کو ساتھ نہ لیا جائے یا ان کے ساتھ نہ جایا جائے ۔ صرف اتنا کیا جائے کہ ان پر پوری طرح سےتکیہ نہ کیا جائے ، ہمیں اپنی لڑائی خود لڑنی ہے اور اسی تناظر میں لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور پالیسی بنائی جائے ۔ایک صدی قبل خلافت تحریک کو گاندھی جی کے کاندھوں پر ڈال کر جو نقصان ہم کو ہو چکا ہے اس کا اعادہ نہ ہو۔

0 comments:

Muslim Issues

شرجیل کی گرفتاری کے بعد ۔۔۔۔:چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے



نہال صغیر 

ملک میں موجودہ حکومت نے افراتفری اور فساد جیسی صورتحال پیدا کررکھی ہے ۔ یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ یہ حالات جہالت کے سبب ہیں اس میں  تعصب اور ناکامی کی پردہ پوشی کی ذہنیت کا بھی دخل ہے ،یہ  تینوں وجوہات ذمہ دار ہیںان حالات کے، موجودہ حکومت کے ذمہ داران متعصب بھی ہیں اورجاہل بھینیز  ان دونوں حالتوں سے ملک کو جن حالات سے گزرنا پڑرہا ہے اس کی پردہ پوشی یا عوام کے ذہنوں کو منتشر کرنے کیلئے نفرت انگیز ماحول کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ وہ تعصب تنگ نظری اور اپنی جہالت کے سبب ناکامی کی پردہ پوشی کیلئے الٹے سیدھے قوانین اور پالیسیاں نافذ کررہے ہیں ۔ اسی میں ملک میں ہنگاموں کا سبب بننے والے سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی بھی ہے ۔ اس کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلم خواتین میدان میں ہیں اور کسی کی تسلی اور دلاسہ کو خاطر میں نہیں لارہی ہیں وہ ایک ٹھوس یقین دہانی چاہتی ہیں ۔ یہ یقین دہانی حکومت کے ذمہ داران ہی دے سکتے ہیں ۔ مگر مرکزی حکومت کے دلوں میں چور ہے یہ چورتعصب اور تنگ نظری کا ہے ۔ 
موجودہ حکومت نے پورے ملک کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے جسے ایک معمولی سی چنگاری بھی ایک بھیانک اور تباہ کن دھماکہ کا سبب بن سکتا ہے ۔ یہ حکومت بات تو حب الوطنی اور وطن کے وقار کو بلند کرنے کی کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ ان کے دل میں وطن کی محبت ذرہ برابر بھی نہیں ہے اور جب محبت ہی نہیں ہو تو پھر اس کے وقار کو بلند کرنے کی بات ایک افسانہ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ کسی ملک کی ترقی امن کی صورتحال کی برقراری اور اس کے سایہ میں تعلیم اور صحت پر دھیان دینے سے ہوتی ہے مگر یہاں تو وطن پرستی کے نام پر نفرت اور تشدد کو ہوا دی جارہی ہے جس سے ترقی کبھی ممکن ہی نہیں ہے اور اس کا زندہ ثبوت ملک کی موجودہ گرتی معیشت اور دانش گاہوں میں انتشار کا ماحول ہے ۔
اس حکومت نے مسلم دشمنی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ خود وزیر اعظم کی فرقہ پرستی اور تعصب کا عالم یہ ہے کہ وہ جمہوری طرز پر ناراضگی جتانے والوں کو کپڑوں سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی تعصب کے سلسلے کی اگلی کڑی شرجیل امام کے متنازعہ بیان پر وزیر داخلہ کا بیان ہے ۔ واضح ہو کہ شرجیل امام نام کے ایک نوجوان نے چالیس منٹ کا بیان دیا جس میں سے بی جے پی کے سمبت پاترا نے اپنے مطلب کا دومنٹ کا بیان نکال کر اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر شیئر کیا جس سے میڈیا ٹرائل شروع ہوا اور اسی میڈیا ٹرائل کی بنیاد پر پانچ ریاستوں میں شرجیل امام کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ قائم کردیا گیا اور جے این یو میں حملہ آور اے بی وی پی کے ملزمین اور نجیب کو ڈھونڈنے میں ناکام دہلی پولس نے شرجیل کو بہار سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا اور جج نے بغیر غور کئے اور چالیس منٹ کے ویڈیو دیکھے اسے پولس ریمانڈ میں بھیج دیا ۔ اب اس نوجوان کی زندگی کے پانچ دس سال ججوں کی لیٹ لطیفی اور اپنے وقار کیخلاف کام کرنے کے سبب برباد ہو جائیں گے ۔
شرجیل امام سے قبل بھی بہار کے ایک نوجوان علی سہراب کو دہلی کے نندی نگری علاقہ سے اشتعال انگیز پوسٹ کیخلاف گرفتار کرلیا گیا تھاجو اب ضمانت پر رہا ہے ۔ دو روز قبل ایس آئی او مہاراشٹر سائوتھ کے سربراہ اور نوجوان ایکٹیوسٹ سلمان احمد کو بھی مہاراشٹر پولس نے اشتعال انگیز بیان کے الزام میں گرفتار کرلیا جنہیں فوری طور سے ضمانت مل گئی اور انہیں جیل جانے کی نوبت نہیں آئی ۔مسلم نوجوان کے علاوہ حکومت کی ٹیڑھی نظر یںدلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے پرجوش اور قائدانہ صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں پر ہے جیسے چندر شیکھر راون اور جگنیش میوانی ۔لیکن چندر شیکھر راون اور جگنیش میوانی کی حمایت میں مسلم اور غیر مسلم کی جانب سے جتنی پرزور حمایت کی آواز بلند ہوتی ہے شرجیل یا سلمان کی حمایت میں وہ نہیں ہے ۔ سلمان احمد کیخلاف تو خیر اشتعال انگیز تقریر کا الزام ہی عائد کیا گیا تھا اس لئے انہیں ضمانت مل گئی ۔ غور کیجئے اگر سلمان کیخلاف بھی ملک سے غداری کے الزامات کے تحت میڈیا ٹرائل ہوتا تو آج جماعت اسلامی ہند اور اس کی طلبہ تنظیم کیخلاف الزامات کا ایک ہمالیہ پہاڑ کھڑا کردیا گیا ہوتا ۔ 
شرجیل نے چکا جام کی تحریک کی اپیل کی تھی جس میں آسام سمیت پوری شمال مشرق کی ریاستوں کو بقیہ ہندوستان سے کاٹنے کی بات تھی ۔اس میں محض ایک جگہ پر زبان کے پھسلنے کی وجہ سے اس نے کاٹ دینے کی بات کی تھی جس کو اس نے اپنی اگلی لائن میں درست بھی کرلیا تھا ۔مگر اسے ایک خطرناک ذہنیت کا حامل علیحدگی پسند اور ملک کا غدار قرار دے کر جیل میں ٹھونس دیا گیا ۔ ہمارا عدالتی نظام اگر درست ہوتا تو اس کیخلاف اتنے لمبے چوڑے میڈیا ٹرائل کے بعدطویل اور صبر آزما عدالتی کارروائی سے گزرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے جج صاحبان بھی ملزم کے تعلق سے شاید یہ خیال پختہ کئے بیٹھے ہیں کہ پولس جسے ان کے سامنے پیش کرتی ہے وہ مجرم ہی ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے محض پولس کے ذریعہ دفعات کے اطلاق کے ساتھ ہی اسے جیلوں میں ٹھونس دیا جائے اور جن معاملوں کو جج صاحبان محض آدھے گھنٹے یا چالیس منٹ میں سمجھ سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر ریمانڈ دینے یا نہیں دینے کی گنجائش نکل سکتی ہے وہ اسے نظر انداز کرکے ملزم کو پولس کے حوالہ کردیتے ہیں کہ وہ اس پر تھرڈ ڈگری کا استعمال کرکے اقبالیہ بیان لے کر سزا ضرور دلائے۔ ہم نہیں کہتے کہ کسی نے شکایت کی ہے تو اس پر مقدمہ نہ چلے مگر اسے فوری طور سے دیکھا جانا چاہئے کہ اس پر یہ شکایت درست بھی ہے یا تعصب اور مالی بدعنوانی کی بنیاد پر  ملزم بنادیا گیا ۔ ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر شرجیل کے معاملہ میں جج نے پورا ویڈیو دیکھا اور سن لیا ہوتا تو اسے جیل بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ مقدمہ میں خود کو بعد میںبے گناہ ثابت کرتارہتا ۔
شرجیل امام نے جو کچھ کہا وہ آج کا ہر وہ مسلم نوجوان کہے گا جو حالات سے مایوس ہے ۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ اس کی قوم کیخلاف اپنے ہی ملک میں زمین تنگ کی جارہی ہے اور سب تماشائی ہیں ۔ محض چند مذمتی بیانات کافی نہیں ہوتے ، اس مذمتی بیانات سے نہ تو انتظامیہ کا کچھ بگڑتا ہے اور نا ہی حکومت کی پیشانیوں پر شکنیں نمودار ہوتی ہیں ۔مظلوم، مظلوم ہی رہتا ہے اور ظالم اپنے ظلم اور جبر کیلئے آزاد ۔ جب ہمارے قائد یہ دیکھ رہے ہیں کہ ظلم برسر عام کیا جارہا ہے اور جابر کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں مگر ان پر کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے تو وہ خاموش کیوں ہیں ؟ ان کے پاس کیا ہندوستانی عدلیہ کی لیٹ لطیفی اور حکومت کی چاپلوسی والے رویہ کے برعکس اور کوئی راستہ نہیں ہے ؟ جب محمود مدنی حکومت کی واہ واہی لوٹنے کیلئے جنیوا جاکر حکومت کی قصیدہ خوانی کرسکتے ہیں تو کیا اسی جنیوا میں مسلمانوں یا دلتوں پر ظلم اور زیادتی کیخلاف کسی مسلم قائد کی جانب سے کوئی آواز نہیں اٹھائی جاسکتی ؟ کیا ایسا کرنے سے کوئی قانون انہیں روکتا ہے یا وہ خود کسی خوف میں مبتلا ہیں ؟ اگر وہ کسی خوف کا شکار ہیں تو انہیں قیادت سے دست بردار ہوجانا چاہئے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ کچھ غیر مسلم تو غیر ملکوں میں ملک کے موجودہ حالات پر انصاف پسندوں کو بتاتے ہیں مگر کسی مسلم قائد کو یہ توفیق نہیں ہوتی ۔ 
شکر ہے کہ موجودہ سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کیخلاف مسلم خواتین میدان میں آگئیں اور انہوں نے حکومت کو قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور کردیا ہے ۔ گرچہ کھلے طور سے حکومت نے اس کا اعتراف نہیں کیا ہے مگر اس کے آئے دن کے بیانات سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سخت دبائو میں ہے اور یہ دبائو انہیں بالآخر سیاہ قوانین واپس لینے پر مجبور کردے گا یا این پی آر سے قابل اعتراض نکات حذف کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی متبادل نہیں ہوگا ۔ اگر خواتین میدان میں نہیں آتیں تو آج کیسا ماحول ہوتا ۔ اس لئے ہمیں بے خوف ہوکر حکمت کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودگی کے تعلق سے لائحہ عمل بنانے کی سخت ضرورت ہے ۔اس کیلئے ہم جتنی جلدی کوشش شروع کردیں اتنا ہی اچھا ہوگا ۔ شرجیل امام کے تعلق سے مزید باتیں آئندہ کے مضمون میں ۔


0 comments: