Muslim Issues

مضطرب نوجوانوں کو سنبھال لیجئے ورنہ....


قاسم سید  

تاریخ مسلسل جلتا الاؤ ہے جس میں ماضی کی راکھ چنگاریاں دبائے رہتی ہے جس کو کریدنے سے انگلیاں جل جاتی ہیں ،مگر سیاست کی ضرورتوں نے پورا منظر نامہ بدل دیا ہے ۔ایک ایسی تربیت یافتہ رضا کار فوج تیار کردی گئی ہے جو وقتا فوقتا مٹھیوں میں یہ چنگاریاں بھر کر فضا میں اچھالتی رہتی ہے اور ہر طرف شور وہنگامہ، چیخ وپکار سنائی دینے لگتی ہے، ایشوز نان ایشوز بن جاتے ہیں ،یہ جادوگر رسیوں کو سانپ بنانے میں ماہر ہیں، سردست کوئی موسی نظر نہیں آتا جو اپنے عصا کو اژدہا بنا کر ان سانپوں کو بے اثر کردے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جعلی راشٹرواد کی آندھی میں بڑے بڑے پیڑ جڑوں کو چھوڑ رہے ہیں ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کا معاملہ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔جب سرکار کی ناکامیاں سر چڑھ کر بول رہی ہیں ،اذان ،نماز ،طلاق سے لے کر جناح کے کردار پر فضا گرم کی جارہی ہےکہ ہر خاص و عام الجھ کر سوال کرنا چھوڑ دے ۔میڈیا کا ایک بڑا حصہ اس ’کار خیر‘ میں پوری قوت کے ساتھ اپنی ’خدمات‘ انجام دے رہا ہے اور اب تو اس میں کچھ ’باوضو‘ بھی شامل ہو گئے ہیں ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری پر حملہ کی کوشش کرنے والوں پر کارروائی کا مطالبہ اور ایف آئی آر درج کرنے پر اصرار کے جرم میں انتظامیہ کی شہ پر پولیس کی لاٹھیاں کھا رہے تھے ،تپتی دھوپ سے انگار ہ بنی سڑک پر ان کا گرم گرم لہو سروں سے ٹپک رہا تھا ،ہڈیاں توڑی جارہی تھیں تو گودی میڈیا کے توسط سے پورے معاملہ پر جناح کی تصویر کا تنازع چڑھا دیاگیا ۔کسی نے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ آخر جناح کے خلاف ہتھیاروں کے ساتھ یونیورسٹی کیمپس کے اندر باہری عناصر کو مظاہرہ کیااجازت کیوں دی گئی اور اس کے لئے وہ خاص دن کیوں منتخب کیا گیا جب طلبا یونین انہیں لائف ٹائم ممبر شب کااعزاز دینے جاری رہی تھی جبکہ جناح کا ایشو کئی دن پہلے اٹھادیا گیاتھا ۔ستر سال سے لگی تصویر اچانک ملک کا سب سے اہم ایشو بنا دی گئی ،ہر طرف ایسی رعونت ،تکبر اور گھمنڈ بھری آوازیں گونجنے لگیں جوہوائی مصنوعی ایشو کی تخلیق کے بعد سنائی دیتی ہیں ۔ہمارے کچھ کرم فرما بھی جو ش محبت میں یا ٹریپ میں آکر یا پھر جعلی راشٹرواد کے بے پناہ پروپیگنڈہ کے تار عنکبوت میں الجھ گئے اور دو قومی نظریہ کی یاد دلاکر جناح کی نفرت بھری شخصیت کے ’عشق‘سے دست بردار ہونے کا مشورہ دینے لگے۔ بعض حلقوں کی طرف سے رفع شر کی خاطر تقسیم ہند کے قصوروار کی تصویر کو تیاگ کرنے اور راشٹروادی ہونے کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ تواتر کے ساتھ دیا جانے لگا۔ اسے پسپائی یا شکست و سپراندازی نہیں، بلکہ صبر و تحمل، تدبر اور شدت کے ماحول میں حکمت کی پالیسی سے تعبیر کیا گیا۔ بدقسمتی سے یہ لوگ بھی پروپیگنڈہ کی آندھی میں خس و خاشاک کی طرح اڑگئے اور یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ حالات کے دبائو میں مصلحتیں کیسی کیسی منڈیروں پر گھونسلا بنانے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معاملہ واقعی اتنا سیدھا سادھا ہے اور صرف ستر سال سے لٹکی بے جان تصویر کی موجودگی کا ہے، جبکہ ملک میں متعدد مقامات پر جن میں سابرمتی آشرم سے لے کر نیشنل آرکائیوز شامل ہے، اس شخص کی تصویر موجود ہے۔ کبھی یہ ایشو نہیں اٹھایا گیا یا پھر جناح کے بہانے حامد انصاری، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مسلمانوں کی پوزیشن پر حملہ کرنے، انھیں گالیاں دینے، کٹہرے میں کھڑا کرنے، ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے، ہر مہذب غیرمہذب گالیوں سے نوازنے اور ہمارے نوخیز نوجوان طلبائے عزیز کو جن سےہمارے ملک اور ملت کا سنہرا مستقبل وابستہ ہے۔ ملک سے غداری اور پاکستان سے ہمدردی رکھنے کے نام کے پتھر اچھالنے کا ناپاک منصوبہ ہے کہ اقوال زرّیں کے ساتھ پند و نصائح کرنے والوں میں مقدس ہستیاں بھی شامل ہوگئیں اور طلبا کو ہی مورد الزام ٹھہرانے لگیں۔ ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم میں ڈبیٹ کے نام پر ہونے والی قوالیاں شروع ہوگئیں۔ حسب معمول دو غیر معروف مولوی، دو پنڈت، دو تجزیہ کار بٹھاکر طوفان بحث کے جھاگ پیدا کئے گئے۔ جناح کی تصویر کے شور میں پروٹوکول کی طویل ترین تاریخ رکھنے والے حامد انصاری پر ہندو واہنی کے حملہ کی کوشش، طلبا پر بے رحمانہ لاٹھی چارج اور قصورواروں کو سزا دینے کے مطالبہ کی آوازیں دب گئیں اور جناح کی تصویر کی تسبیح کے دانے تیزی کے ساتھ گھمائے جانے لگے۔ کچھ معزز لوگوں نے اس موقع پر دو قومی نظریہ کو اٹھاکر علی گڑھ اور جناح کی تاریخ یاد دلائی۔ ان کی نیت اور اخلاص پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
اگر دو قومی نظریہ کا گڑا مردہ اکھاڑا گیا تو بات بہت دور تک جائے گی، پھر کئی معزز علما بھی زد میں آئیں گے۔ علامہ اقبال کے ساتھ بھی دو ہاتھ کرنے پڑیں گے۔ ایسا بہت سا لٹریچر سوالیہ نشان بن جائے گا جو دو قومی نظریہ کے حاملین کے جادوئی قلم کا نتیجہ ہے اور بیش بہا خزانہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس معاملہ کو چھیڑکر جعلی راشٹرواد کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ کھڑے نظر نہ آئیں اور ایسی کوششوں سے خود کو الگ کرلیا جائے۔ علی گڑھ اور دیوبند ہماری دو آنکھیں ہیں، دونوں کی شاندار تاریخ ہے۔ ملک کے تئیں عظیم اور ناقابل فراموش خدمات ہیں، ان کے بغیر ملک اور ملت دونوں کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ ایسے بہت سے مسائل رہ رہ کر سامنے آتے ہیں کہ ان کے مطالبہ کی قبولیت اور اپنے موقف سے دست برداری سے کشیدگی ختم ہوسکتی ہے اور تنازعات ہمیشہ کے لئے مٹ سکتے ہیں۔ یہی تو وہ چاہتے ہیں کہ تشخص کے ہر پہلو سے دستبردار ہوجائیں۔ ہندوتو آئیڈیالوجی کو اس پر زیادہ اصرار نہیں کہ آپ خود کو ہندو کہنے کے بعد کون سی رسومات پر عمل کرتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے پہلے فسادات، پھر دہشت گردی کے نام سے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ، معاشی، تعلیمی اور سیاسی پسماندگی نے دلتوں سے بدتر حالت بنادی، لیکن عام مسلمان بھی شناخت پر مضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے، اسی کی خاطر ہر طرح کی بدنامیاں اور رسوائیاں مول لی ہیں تو پھر رفع شر کی خاطر کسی دست برداری کی ایک حد مقرر کیوں نہیں کردی جاتی؟ سارا جھگڑا فساد ہی ختم ہوجائے گا۔
افسوس یہ ہے کہ جب طلبہ کے زخموں پر مرہم رکھنے، ان کے غصہ، جوانی کے ابال کو کنٹرول کرنے اور جوش کو ہوش کے پرولینے کی اشد ضرورت نہیں، ان کی تحریک کو مناسب رخ پر رکھنے اور جذبات کے لاوے کو دائرے میں رکھنے کے لئے ان کی سرپرستی کرنی چاہئے تھی۔ ہمارے اکثر زعمائوں نے خاموش رہنا زیادہ بہتر سمجھا، سچ بولنے اور کہنے سے گریز کیا، کیونکہ جو غلط بول نہیں سکتے وہ لوگ جو موقع دیکھ کر وزیراعظم کی تعریف کرنا نہیں بھولتے، ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مین اسٹریم میڈیا کا سہارا لیا اور وہ بھی جو ملت پر آزمائش کی ہر گھڑی میں جرأت کے ساتھ آگے بڑھ کر سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ ٹوٹے حوصلوں کو توانائی بخشتے ہیں، مادی وسائل کھپاتے ہیں، جو دبائو اور مصلحت سے واقف نہیں ہیں، ہر اہم معاملہ میں موقف رکھتے ہیں، وہ لوگ بھی جو بیانات کی جنگ میں ایک دوسرے سے شرط لگاتے ہیں، خاموش رہنا زیادہ بہتر سمجھا۔ جب ان کی ضرورت ملک کو تھی، علی گڑھ کو تھی، کسی دوسرے ملک میں اقلیتوں کے بین الاقوامی مسائل پر سر جوڑکر بیٹھے تھے اور مسائل کا حل تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا جارہا تھا۔ طلبا اور نوجوان قیمتی سرمایہ ہیں، ان میں ہر جگہ ابال ہے، بے چینی و اضطراب ہے۔ سوال ہندو مسلم کا نہیں، معاملہ جے این یو سے لے کر بنارس ہندو یونیورسٹی، جادھوپور اور حیدرآباد سے لے کر علی گڑھ اور اب جامعہ تک پھیلا ہوا ہے۔ تعلیمی ادارے خاص طور سے نشانے پر ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام بیروزگاری، بھکمری، مہنگائی، طبی سہولتوں میں لگاتار کٹوتی، کسانوں کو واجب دام نہ ملنے، مہنگی ہوئی تعلیم، یونیورسٹی کے پرائیویٹائزیشن جیسے سوالات نہ اٹھائے جائیں۔ انھیں رام مندر، گنگا، گائے، گیتا، بابر، ٹیپو، ہمایوں، اورنگ زیب اور جناح جیسے بے معنی ایشو میں الجھاکر ہندو مسلم نفرت کی خلیج کو بڑھایا جائے۔ سوال جناح کی تصویر کا ہے ہی نہیں، نشانہ تو کہیں اور ہے۔ یہ نشانے بازوں کو بھی پتہ ہے۔ کچھ لوگوں کو راتوں رات تاریخ بدلنے کا بھوت سوار ہے۔ اکبر روڈ پر مہارانا پرتاپ کا پوسٹر چپکادینا اس جلدبازی کا اظہار ہے۔
جہاں تک میڈیا کا سوال ہے وہ خواجہ سرائوں کی طرح تالیاں بجانے کے رول میں آگیا ہے، وہ انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بن گیا ہے، کسی ایک ایشو پر نہیں ٹکتا، پدماوتی سے لے کر محمد شامی کی بیوی کے نخروں، گروگرام رحیم کی مستیوں سے لے کر ہنی پریت کی گپھائیں دکھانے اور آسارام کی معاشقہ کے قصوں میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ جب مہاراشٹر میں کسان کئی سو کلومیٹر کی پدیاترا پر تھے، الیکٹرانک میڈیا کو شامی کی بیوی حسین جہاں کی تکرار زیادہ گرم ایشو لگ رہا تھا۔ نیرو مودی کے بھاگ جانے کی خبر پی چدمبرم کے بیٹے کی ایئرپورٹ سے گرفتاری کی ہیڈلائن میں بدل گئی۔ فیشن کی طرح ایشو بدل رہے ہیں، ہر روز کھیلنے کے لئے نیا مدعا تھما دیا جاتا ہے۔ اس سہ رخی پیٹرن کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جیسے گنیش جی کی پلاسٹک سرجری، پشپک طیارے سے لے کر مہابھارت کے دور میں انٹرنیٹ ہونے کا دعویٰ ان بیانات کا مقصد ہندو سنسکرتی کے پراچین ہونے کا فخر پیدا کرنا، مسلمانوں کی بڑھتی آبادی پر روک، آئین سے سیکولر لفظ ہٹانے کا مطالبہ، بھارت کے سبھی مسلمانوں کو پاکستانی یا آتنک وادی بتانے والے بیانات، اس کا مقصد مسلمانوں کو ہمیشہ دبائو اور شک کے دائرے میں رکھنا ہے۔ تیسرا پیٹرن ہے جب سرکار کسی ایشو پر گھری ہو تو ایسے حالات پیدا کرنا جن سے توجہ کانگریس کی تاریخی غلطیوں پر جائے اور ہیڈلائن بدل دی جائے۔ گزشتہ چار سال سے اس طرز اور پالیسی پر کام ہورہا ہے۔ جناح کا ایشو اس کی تازہ ترین مثال ہے، ہماری قیادت کا ایک حصہ اس ٹریپ میں آگیا ہے۔
علی گڑھ کی حالیہ تحریک سے اندازہ ہوا کہ مسلم نوجوان اور طلبہ کی سوچ قومی مسائل کے تناظر میں ہم آہنگ ہورہی ہے۔ وہ اب شریعت بچائو، اردو بچائو کے ساتھ دیگر مسائل پر بھی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کا دائرہ وسیع ہوا ہے، نعرے بدل گئے ہیں۔ تحریک کے پرانے روایتی طور طریقے چھوڑکر ڈیجیٹل تقاضوں کو کامیابی سے اپنارہے ہیں۔ ضرورت کے حساب سے حکمت عملی بنانے کا سلیقہ آگیا ہے۔ وہ فرضی تہمتوں اور بدنامیوں کے دبائو میں پیش آنے والے آزمائشوں نے ان کے حوصلے پست نہیں کئے۔ حالات کے جبر نے بزدل اور مصلحت پسند نہیں بنایا، جوش کے ساتھ ہوش بھی ہے، جیسے انسانی زنجیر کلکٹریٹ تک لے جانے کے فیصلہ کو انتظامیہ کا خطرناک ارادہ دیکھ کر بدل دیا۔ یہ پسپائی نہیں، عارضی ضرورت کے مطابق رخ موڑ دینے کی حکمت تھی۔ انھیں ٹریپ نہیں کیا جاسکتا۔ علی گڑھ نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، یہ اطمینان کی بات ہے۔ ریلیو، جلسوں، جلوسوں کی سیاست کی اپنی اہمیت ہے، مگر وہ کل نہیں جزو ہے، جنھوں نے جزو کو ہی کل سمجھ لیا ہے وہ انہی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ضرورت ہے کوئی جامع حکمت عملی تیار کی جائے جو حساس متنازع ایشو پر رہنمائی کرے۔ مختلف بولیوں سے جگ ہنسائی ہوتی ہے اور انتشار کا اظہار بھی۔ ٹی وی پر جانے والے بے ہنگم لوگوں کو سمجھانے بجھانے کے ساتھ کچھ لوگوں کو منتخب کرکے ڈبیٹ کی تربیت دی جائے، تاکہ سلیقہ، سنجیدگی اور دلائل کے ساتھ بات رکھ سکیں نہ کہ گالی گلوج اور سننے والے نمائندگی کے نام پر مسلط ہوں۔ طلباء و نوجوانوں کی بے چینی کو نظرانداز مت کرئیے، ان سے دوریاں مت بڑھائیے، ان کو سننے کی بھی عادت ڈالیے۔ بیماری کے وقت ڈانٹ ڈپٹ نہیں شفقت درکار ہوتی ہے، کئی قیادت ابھارئیے، ابھرنے والی قیادت کو راستہ دیجئے، اس کی رہنمائی کرئیے، ملک تبدیلی کے سنگین عمل سے گزر رہا ہے، اس کی حساسیت اور سفاکیت کو نظرانداز مت کرئیے ۔  جماعتی مفادات کی بجائے اجتماعی مفادات کو فوقیت دیجئے، ورنہ وقت بڑا ظالم ہے، وہ کسی کو نہیں بخشے گا۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: