featured

استناد کی جنگ !


عمر فراہی  ۔  ای میل
  :  umarfarrahi@gmail.com
دنیا میں اگر نبوی تحریک کا تصور نہ ہوتا اور لوگ اللہ اور اس کی وحدانیت سے آشنا نہ ہوتے تو طاقتور انسانوں کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ کا نتیجہ تباہی اور فساد کے سوا اور کیا ہوتا ؟ پچھلی صدی کے سائنسی اور مادی انقلاب کے سبب دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کی شکل میں جو فساد اور قتل عام ہو چکا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ استعماری طاقتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئےتنہا اس پوری دنیا کی مالک و مختار بن جانا چاہتی تھیں ۔ انسان کا رشتہ جب خدا سے کمزور پڑتا ہے تو اس کے اندر دولت شہرت اور نام ونمود کی لالچ پیدا ہوتی ہے اور وہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف و توصیف کریں اور اس کے احترام میں سر خم کردیں ۔ وقت کے فرعون ونمرود اور قارون وشداد کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں آچکا ہے جنھوں نےانبیاء کرام کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے جنت وجہنم اور موت وزندگی کے مالک و مختار ہونے کا دعویٰ کیا اور انہیں اپنے دربار میں اپنی رعایا سے اپنی حمد و ثناکروانے میں لطف آتا تھا ۔ اسلام کی سب سے افضل عبادت نماز میں سورہ فاتحہ کو لازم قرار دیا گیا ہے جس کی شروعات ہی الحمد اللہ رب العالمین سے ہوتی ہے ۔ جس کا مفہوم ہے کہ تعریف صرف اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا ما لک ہے۔ لیکن مخلوق میں شہرت نام ونمود تکبر اور تعریف وتکریم کے اس فلسفے کی ایجادابلیس کے ذہن کی اختراع ہے ۔ حالانکہ ابلیس کسی سلطنت اور حکومت کا مالک نہیں تھالیکن اللہ نے زمین وآسمان کی اس وقت کی مخلوقات میں اسے جو مقام عطا کیا تھا وہ ایک عظیم الشان سلطنت سے بھی افضل اور برتر تھا ۔ ایک مدت سے اپنی محنت مشقت اور ریاضت سے اللہ کی قربت اورفرشتوں کی جماعت میں اپنا استناد اور اعتماد حاصل کرنےکے بعد وہ اپنی شہرت ، تعریف ، پزیرائی اور نام ونمود کے نشے میں یہ بھول گیا کہ وہ ایک فرد اور مخلوق ہے اور اللہ قادر ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کے درجات میں کمی اور زیادتی کئے بغیر کسی اور مخلوق کو بھی بلند مقام عطا کردے ۔ بیشک یہی مشیت ایزدی ہے اور اللہ کا نیک بندہ وہی ہے جو اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ کا خطاب دیا تھاجب ان کے بارے میں لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ ان کی قیادت میں اسلامی فوجیں شکست نہیں کھا سکتیں اور تاریخ میں آتا ہے کہ وہ لڑائی سے اس قدر بے خوف ہوچکے تھے کہ ایک بار انہوں نے حضرت عمر ؓکے  سامنے رومی فوجوں سے تنہا مقابلہ آرائی کرتے ہوئے شہید ہوجانے کے اپنےعزم کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اس بہادر سپاہی کی شہرت کے عروج کے دوران ہی جب امیر المومنین حضرت عمر ؓنے انہیں معزول کرکے اسلامی فوج کی سپہ سالاری ایک دوسرے صحابی رسول ﷺ کو سونپ دی تو انہوں نے بغیر کسی تامل  کے امیر کے فیصلے کے آگے سر تسلیم کردیا ۔اسلامی تاریخ کے عروج کے دوران محمد بن قاسمؒ اور طارق ؒبن زیاد جیسے بہادر جانبازوں کی طاعت اور فرمانبرداری کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جسے مورخین نے سنہرے الفاظ میں لکھے ہیں اور یہی وہ سنہرا دور تھا جب اسلامی سلطنتیں سیلاب کی طرح وسیع ہوتی چلی گئیں ۔ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ابلیس کو جب اپنی شہرت اور نام ونمود کی بنیاد پر قائم استناد کی عمارت منہدم ہوتے ہوئے نظر آئی تو وہ اپنے مالک کی نافرمانی کر بیٹھا ۔ یعنی ابھی تک اللہ کی عبادت کے ذریعے اسے جو خلافت میسر تھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک دوسری مخلوق اس کا یہ استناد چھین لے اور اس نے آدم کو یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کردیا کہ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم مٹی سے ۔ اس کا کہنے کا مفہوم یہ تھا کہ آگ مٹی سے زیادہ طاقتور ہےاس لئے وہ آدم کو سجدہ کرکے اس کی خلافت کیسے قبول کرسکتا ہے؟ اس طویل بحث اورتمہید کو یہاں پیش کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ اپنی تحریک ، اپنی تحقیق ، اپنی جدوجہد اور دعوت میں مخلص ہیں تو کوئی آپ کی تحریک وتحریر اور تقریر کو چھین کر یاچرا کر آپ کے استناد اور اعتبار کو کبھی نہیں چھین سکتا ،اور آپ کا یہ استناد خالد بن ولید محمد بن قاسمؒ اور طارق بن زیادؒ کی طرح دنیا اور آخرت دونوں میں روشن رہے گا۔چونکہ اب عمر ، خالد اور قاسم کا کردار قلمی جہاد میں تبدیل ہوچکا ہے اور ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح بحث و مباحثہ کے عادی ہوچکے ہیں اس لئے اب بہت سے مصنفین کی تحریر و تصنیف اور تحقیق بھی فتنہ اختیار کر چکی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اسی تحریر و تصنیف اور تقریر و تحقیق سے کسی شخص یا تحریک کو استناد و اسناد حاصل ہو جائے جو اہل حق سے نہ ہوکر باطل کیلئے استعمال ہورہا ہو اور اسے لوگوں میں مربی اور استاد کی سند بھی حاصل ہوجائےتو ایسے لوگوں کا استناد امت کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے ۔ ماضی میں سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو کی شکست کی وجہ میر جعفر اور میر صادق کا استناد تھا جسے وقت کے یہ دونوں حکمراں سمجھ نہیں سکے ۔ عرب میں لارینس آف عربیہ کے مشتبہ کردار کو جو استناد حاصل ہوچکا تھا اس نے عربوں میں عجمی اور عربی کا انتشار پیدا کرکے سلطنت عثمانیہ کی طاقت کو پارہ پارہ کردیا ۔ میڈیا میں ایسے مشتبہ کردار آج بھی مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں جو ہمارے لئے مربی اور استاد کا درجہ رکھتے ہیں لیکن وہ اپنی تحریروں اور تقریروں سے کمال چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو ہمارے دل کو بھی چھو لیتی ہیں لیکن اس کے منفی اثرات کا اندازہ بھی وہی لوگ لگا پاتے ہیں جو بین السطور کو پڑھنے کے ماہر ہیں ۔بدقسمتی سے نہ ہم ایسے میر جعفروں کے استناد کو بے نقاب کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایسی تحریکوں پر انگلی اٹھانے کی جرات ہے جو انہیں استناد عطا کرنے کی مجرم ہیں ۔ کیونکہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو پھر وہی استناد کی جنگ کے چھڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ابھی حال ہی میں ایک بزرگ صحافی نے ایسی ہی ایک مشہورشخصیت کا نام لیکر اس کی معتبریت پر حملہ کیا تو انہیں فون سے دھمکی دی گئی کی زندہ رہنا چاہتے ہو یا نہیں ؟ سچ کہا جائے تو اس پرفتن دجالی دور میںجہاں اہل حق کو مٹانے کیلئے مسلح جدوجہد جاری ہے اکثر و  بیشتر پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ماضی اور حال کی مستند شخصیات اور قیادت کی معتبریت کو مسلسل مشتبہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تاکہ اہل حق کسی خاص جہاندیدہ قیادت اور نظریے کو اختیار کر کے متحد نہ ہو جائیں ۔بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر غیر سنجیدہ خود ساختہ دانشوروں کی بھیڑ نے ابلیس کا کام اور بھی آسان کردیا ہے جہاں کسی کے تعلق سے خواہ وہ مومن ہی کیوں نہ ہو پھیلائی گئی افواہ بھی بہت ہی تیزی کے ساتھ مشتہر کردی جاتی ہے ۔یا لوگوں کو ایسا کرنے میں مزہ آتا ہے ۔ شاید سرسید اور مدن موہن مالویہ کی تعلیمی تحریک نے ہمیں علم اور ٹکنالوجی کے اہم  مقام پر تو پہنچا دیا ہے ، لیکن بہت ہی تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہوتا ہوا ہمارامعاشرہ اب اس امر کا بھی متقاضی ہے کہ اللہ ہمیں کسی مستند متقی اور نبی صفت قیادت سے منضبط کردے ۔
  

0 comments:

featured

رفیعہ ناز کے بہانے یوگا کی باسی کڑھی میں پھر ابال



نہال صغیر

ملک کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کاروبار معطل ہیں ۔ شرح نمو کی رفتار دھیمی ہو گئی ہے ۔ مہنگائی نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے ۔جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ۔ چھوٹے تاجر پریشان ہیں ۔ مسٹر پردھان سیوک نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ صرف کارپوریٹ گروپ کے وزیر اعظم ہیں ۔ ساری پالیسیاں انہی کے مفاد کی نگرانی کیلئے ہیں ۔ تاجروں کے سخت احتجاج اور گجرات الیکشن کے مد نظر حکومت کی ساری اکڑ نکال دی ہے اور مجبوراً مرتا کیا نہ کرتا ایک سو ستہتر اشیاء پر جی ایس ٹی میں تخفیف کردی گئی ہے ۔موجودہ حکومت میں اول جلول فیصلوں اور پالیسیوں کے نفاذ کا خاص رجحان پایا جاتا ہے ۔ کرنسی منسوخی میں بھی انہوں نے ہر روز دو چار تبدیلیاں کیں اور اب جی ایس ٹی جو موجودہ حکومت کی گلے کی ہڈی بن چکی ہے میں بھی مسلسل تبدیلیاں اور قانونی سختی میں نرمی برت رہی ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اس پالیسی پر عمل پیرا ہوں جس کے تحت پہلے کسی کو بھوکوں ماردیا جائے اور پھر اسے وقفے وقفے سے تھوڑی تھوڑی غذا دی جائے تاکہ بھوکا انسان بھوک کا عادی بھی ہو جائے اور اس میں اس کی سختی کا احساس بھی کم ہو جائے ۔ اسی طرح انہوں نے پہلے جی ایس ٹی کو ایسا بنا کر پیش کیا کہ عوام بلبانے لگے اور پھر ہوا کا رخ دیکھ کر دھیرے دھیرے اس میں کچھ راحت رسانی کا کام کررہے ہیں تاکہ عوام کو یہ کہنے کے لائق رہیں کہ دیکھو ہم نے تمہاری تکلیف کو محسوس کیا اور اسے کم کرنے کی کوشش کی ۔لیکن یہ بہت معمولی نسخہ ہے ۔ اس سے بھی بڑا نسخہ ان کے پاس ہے عوام کے ذہنوں کو دوسرے بے فیض مسائل میں الجھانا ۔ اس میں ان کا ساتھی ملک کا غدار میڈیا بنا ہوا ہے ۔
حالیہ حکومت جس نے اپنی میقات کے ساڑھے تین قیمتی سال خواہ مخواہ گنوادیئے ہیں نے پہلے سال میں یوگا کا ہنگامہ کھڑا کیا ۔یوگا ڈے منایا گیا اور زبردستی اسے سب پر لاگو کرنے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن زبردست عوامی احتجاج کے بعد اس کو اختیاری تو کیا گیا پر شوشے چھوڑے جاتے رہے کہ یہ نماز کی طرح ہے ۔ یا اس میں سے سوریہ نمسکار والا حصہ نکال دیا جائے تو مسلمانوں کو اس سے کوئی اعتراض نہیں ۔ایسے اور نہ جانے کتنے نکات لائے جاتے رہے ۔ یہ سب کچھ نام نہاد مولویوں اور مسلمانوں کے درمیان بکاؤ دانشور کے ذریعہ پھیلایا گیا ۔جبکہ مسلمانوں کا دو ٹوک جواب تھا ہے اور رہے گا کہ ’یوگا ہندو کلچر کا حصہ ہے ، اس لئے مسلمان اسے کسی طور بھی نہیں کرے گا ‘۔ ادھر کافی عرصہ سے یوگا پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی تھی ایسا لگ رہا تھا لوگ یوگا کو بھول جائیں گے ۔ معاشی بدحالی نے ان کے روز مرہ کے اخراجات کو پورا کرنے میں مشکلات پیدا کردیا تھا تو کون یہ یوگا وغیرہ کے چکر میں پڑے ۔ سادہ لوح عوام کو یہاں بیوقوف بنانا بہت آسان ہے انہیں مذہب کے نام پر من گھڑنت قصے کہانیوں اور دیو مالائی قیاسات میں الجھا دیا جائے تو وہ سب بھول بھال کر اسی میں لگ جاتے ہیں ۔رام مندر کے چراغ کا سارا تیل جل چکا ہے ۔ گائے بھی کوئی خاص کرامات دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پارہی ہے ۔ ایک یوگا ہی ہے جسے صحت کے نام پر عوام کے ذہنوں پر تھوپا جاسکتا ہے ۔ اس میں مذہب کے ساتھ ہی صحت کا عنصر جان بوجھ کر شامل کیا گیا ہے ۔
رانچی کی رفیعہ ناز کو اس کام کیلئے منتخب کرلیا گیا ۔بقیہ کام تو الیکٹرانک میڈیا کرہی ڈالتا ہے ۔ آخر اسے بھی تو سنسنی پھیلانے کیلئے کوئی ایسی خبر ملنی چاہئے جس میں خواتین کی آزادی یا مسلمانوں کی جانب سے دیگر مذاہب کا احترام نہ کرنے جیسی کوئی بات ہو ۔سنا ہے کہ رفیعہ کسی یوگ کلاس میں یوگا سکھانے جاتی ہے ۔ ہم نے آج تک نہیں سنا تاوقتیکہ اس کے تعلق سے یہ خبر میڈیا کی زینت نہیں بنی کہ ’رفیعہ کے یوگا سے ڈر گئے مولانا ‘۔ سوچئے اس خبر کی سرخی میں کتنا گھٹیا پن ہے ۔ یہی گھٹیا پن اب ہندوستانی میڈیا کی پہچان ہے ۔ کسی کے یوگا کرنے سے کیوں کوئی مولانا ڈر جائیں گے اور اس سے مسلمانوں کو کیا لینا دینا ۔مسلمانوں نے اپنا موقف پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ وہ ہندو کلچر پر عمل نہیں کریں گے ۔ انہیں یہاں اسلامی تہذیب پر عمل پیرا رہنے کی دستوری آزادی حاصل ہے ۔ میڈیا نے رفیعہ کے بہانے پھر وہی کہانی دہرانے کی کوشش کی جو وہ ہمیشہ کرتا ہے ۔ رفیعہ کو آج تک کے نیوز روم میں روتے ہوئے بھی دکھا دیا گیا ۔ یہی نہیں یہ خبر بھی چلادی گئی کہ اس کے گھر کے باہر شدت پسند جمع ہیں اور انہوں نے اس کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا ہے ۔ اچھی بات یہ رہی کہ ادارہ شریعہ رانچی کے سربراہ نے اس کی تردید کی اور یہ کہا کہ کوئی بھی ذاتی طور پر کسی بھی قسم کا طریقہ کار اپنانے کیلئے آزاد ہے ۔ رفیعہ کو کوئی کیوں روکے گا ۔ ہاں نصیحت کے طور پر کسی نے کچھ کہا ہو تو اس میں کیا حرج ہے کہ ہم اپنی قوم کے کسی فرد کو بتائیں کہ اس کیلئے کسی غیر مذہب کے عقیدے اور تہذیب پر عمل کرنا کیسا ہے ۔ یہاں جب سب کو آزادی ہے کہ وہ جو عقیدہ چاہے اپنائے تو اسے یہ بھی آزادی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرے اور اپنی قوم کو اس تہذیب سے آشنا بھی کرے ۔ تعجب ہے کہ جب رفیعہ جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو فرد کی آزادی کا مخالف طبقہ بھی اسی آزادی کی دہائی دینے لگتا ہے جس کی مخالفت کرنا اس کے نظریہ میں شامل ہے ۔
رفیعہ جیسے کردار ہمارے دشمنوں کو ہمیشہ حاصل رہے ہیں ۔ ان سے گفتگو کرنے جو لوگ ٹی وی چینلوں کو جاتے ہیں انہیں ایسے لوگوں سے نمٹنے کا طریقہ کار معلوم نہیں ہوتا ۔ وہ ٹی وی چینلوں کے لائق نہیں ہوتے وہ اپنی بھی سبکی کرواتے ہیں اور اسلام کو غلط طریقہ سے پیش کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔ جیسے کہ ٹی وی چینل نے جب یہ پوچھا کہ کیا اسلام میں یوگا کرنا حرام ہے تو عالی جناب خاموش ہو گئے ۔ یہ خاموشی ان کی اس وجہ سے ہے کہ وہ خوف کی نفسیات میں مبتلا ہیں ۔ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ حرام اور حلال کو جانے دو یہ کہو کہ یہ جب ہندو کلچر کا حصہ ہے تو مسلمان اسے کیوں کریں ۔ تم اپنی صحت کا خیال رکھا مسلمانوں کی صحت کی فکر مت کرو ۔ اللہ نے مسلمانوں کو ایسا نظام دیا ہے جس کا مقابلہ قیامت تک کوئی دوسرا نظام نہیں کرسکتا ۔ یہاں پھر ایک بات کہنا چاہوں گا کہ مسلم تنظیمیں اور قائدین جو جیسے بھی ہیں وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس طرح کی افواہ طرازی کے جواب کیلئے کچھ منصوبہ بندی کریں ۔ آر ایس ایس جس کی بنیاد ہی فتنہ و فساد پر ہے اس نے الگ سے ایک قانونی چارہ جوئی شعبہ بنا یا ہے جس کے تحت وہ اپنے خلاف بولنے اور لکھنے والوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کررہے ہیں ۔ ہمارے یہاں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں اس کے باوجود ہم آپس کے سر پھٹول سے وقت ہی نہیں نکالتے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف افسانہ تراشنے والوں کو قانونی چارہ جوئی کرکے ان پر جھوٹ بولنا مشکل کردیں ۔

0 comments:

featured

تعلیم کے ساتھ اخلاقیات پر بھی دھیان دیں


نہال صغیر

ریان اسکول کے نو عمر طالبعلم پردیومن کے قتل کے الزام میں سی بی آئی نے اسی اسکول کے گیارہویں کے طالبعلم کو گرفتار کیا ہے ۔ مذکورہ ملزم طالبعلم اس دن چاقو لے کر اسکول آیا تھا یعنی اس نے قتل دانستہ کیا ۔ کسی فوری واقعہ کے ردعمل میں یہ قتل نہیں ہوا ۔ اسے کسی نہ کسی کو قتل کرنا ہی تھا ۔ سی بی آئی کی تفتیش میں اس نے قبول کیا کہ اس نے پردیومن کو قتل کیا ہے ۔ قتل کرنے کی وجہ امتحان کو ملتوی کرانا بتایا جاتا ہے ۔ خبروں میں چونکہ یہ بات آئی ہے کہ ملزم چاقو لے کر قتل کے ارادہ سے ہی آیا تھا ۔ اس کے اس رویہ کو دیکھتے ہوئے امریکی اسکولوں میں آئے دن بچوں کے ذریعہ ہی اپنے ہم جماعت کے قتل کی یاد آجاتی ہے ۔جو ہونا تھا وہ ہو گیا ۔اب پردیومن کبھی اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون نہیں بن پائے گا ۔لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ آخر ایسا ہوا کیوں اور آئندہ ایسا نہ ہو اس کیلئے کیا لائحہ عمل بنایا جائے ؟ لیکن اس پر کوئی بھی غور نہیں کرتا ۔ ایسی حرکتیں کیوں کر وقوع پذیر ہو تی ہیں اگر اس پر غور نہیں کیا گیا تو اس بات کیلئے تیار رہئے کہ آنے وقت میں ایسے مزید واقعات ہوں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بچوں کی تعلیم کے نام پر پیسہ کمانے والی مشین بنا رہے ہیں ۔ بچوں کو اخلاقیات کا سبق نہیں پڑھا رہے ہیں ۔ انہیں جو کچھ ہم سکھا رہے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ انہیں آگے جا کر یہ اور یہ جاب کرنا ہے اور بہت سارے روپئے کمانے ہیں اور ایک شاندار لگژری لائف کا لطف لینا ہے ۔ اب جب زندگی میں تعلیم کا مقصد ہی صرف یہ مادہ پرستانہ سوچ ہو تو اسکولوں اور کالجوں میں یہی سب کچھ ہونا ہے ۔ اگر ہماری حکومت ،انتظامیہ اور اہل علم حضرات اس واقعہ سے یا اور اس طرح کے دوسرے واقعات سے رنجیدہ ہیں تو انہیں چاہئے کہ احتساب کریں اور تعلیمی نصاب میں اخلاقیات کے اسباق کو بھی شامل کریں ۔اس کے لئے یک طرفہ عقیدہ تھوپنے کے بجائے ۔ جو جس عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے اس کو اسی مذہب سے اخلاقی تعلیم دی جائے ۔ اسکول کالجوں کی انتظامیہ کو بھی اس جانب انفرادی طور پر ہی سہی لیکن قدم اٹھانا پڑے گا ۔ گھروں میں والدین بھی اسمارٹ فون میں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں پر بھی دھیان دیں کہ وہ کیا سیکھ رہے ہیں ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ذرا ساس بہو اور سازش جیسی سیریل پر بھی غور کیا جائے کہ اس سے بچے ذہنی طور پر کس حد تک متاثر ہو رہے ہیں ۔ آجکل ٹی وی پر کرائم پیٹرول اور سنسنی جیسی حقیقی واقعات پر مبنی سیریل نے بھی بچوں اور نوخیز لڑکوں کو ذہنی طور پر بگاڑنے میں اہم کردار اپنایا ہے ۔ ان پر جب تک ہم غور نہیں کریں گے اور پھر اس پر قابو پانے کی ترکیب عمل میں نہیں لائیں گے ایسے واقعات کو نہیں روکا جاسکتا ۔
ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اس طرح کے واقعات مسلم ملکوں خصوصا عربوں میں کیوں نہیں ہوتے ؟ یا پاکستان جیسے انتہائی پسماندہ اور بقول میڈیا کے ناکام اور دہشت گرد ملکوں میں بھی اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ یقینی طور پر اس کے پیچھے اسلام کا وہ آفاقی پیغام ہے جس نے عرب کے بدؤوں کو ساری دنیا کا حکمراں بنادیا تھا ۔ پاکستان سمیت مسلم ملکوں میں اس طرح کے واقعات اس لئے نہیں ہوتے یا انتہائی کم ہوتے ہیں تو اس کے وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے کانوں میں کہیں نہ کہیں سے اخلاقی تعلیمات کا کوئی نہ کوئی سبق پہنچتا رہتا ہے اور یہ باتیں غیر محسوس طریقہ سے ہی انسانی ذہن میں سرایت کرجاتی ہیں ، خواہ ہم اس پر سنجیدہ ہوں یا نہ ہوں ۔ اگر مسلم معاشرے کا کوئی فرد کسی دینی اجلاس میں نہ بھی شامل ہو تو وہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد ضرور جاتا ہے اور اسے وہاں منبرو محراب سے دین کی جو باتیں بتائی جاتی ہیں اس کو مسلمانوں کا ذہن غیر محسوس طریقہ سے قبول کرتا جاتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس بری حالت میں بھی جسے دور فتنہ کہا جاتا ہے مسلم معاشرہ دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے اخلاقی طور پر زیادہ بہتر ہے ۔ کچھ ہفتہ قبل ہم نے مبارک کاپڑی سے تعلیم کے عنوان پر کچھ سوالات کئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ آزادی کے بعد سے جو حکومت رہی اس نے اپنے تعلیمی نصاب کی رہنمائی ماسکو سے لی تو موجودہ حکومت پانچ ہزار پرانی دیو مالائی کہانیوں کو اخلاقی تعلیم کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے ۔ میرے خیال میں یہ دونوں ہی طریقہ کار غلط ہے ۔ ہم چونکہ ایک کثیر تہذیبی ملک کے باشندے ہیں تو ہمیں تعلیمی نصاب میں اخلاقی اسباق کی شمولیت کے وقت اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ جو کچھ وضع کریں وہ سب کیلئے قابل قبول ہو یا پھر سب کے عقیدے کی مناسبت سے الگ الگ نصاب طے ہو ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ نئی نسل کو گمراہی اور مادہ پرستی کے اس طوفان سے نکالنے کیلئے انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ انسان ہیں اور انہیں انسانوں کی بستی میں انسانی قانون کے مطابق ہی زندگی گزارنی ہے ۔

0 comments:

featured

فرقہ بندی اور منافقت



بہترین انسان کیلئے یہ ایک عمدہ مثال بن سکتی ہے کہ وہ کسی کے احسانوں کا بدلہ احسان سے چکائے ۔ لیکن جو ذلیل اور ڈھونگی انسان ہوتا ہے وہ احسان کا بدلہ احسان فراموشی ، عصبیت اور منافقت سے دیتا ہے ۔ مسلمانوں کا ایک گروہ اپنی جہالت ، کذب بیانی ، عصبیت اور افترا پردازی میں دنیا کی بد ترین قوم یہودیوں سے بھی دو قدم آگے ہے ۔اس کی نظر میں صرف وہی مسلمان ہیں باقی سب کے سب کافر ، مرتد اور بد مذہب ہیں ۔ ان کے فتویٰ کے مطابق اس گروہ کے علاوہ مسلمانوں کے کسی دوسرے گروہ کو سلام کرنا ، اس سے معانقہ کرنا اس کی خبر گری کرنا ،اس کے جنازے میں شامل ہونا اور اس کے نکاح میں شامل ہونا سب حرام اور ناجائز ہیں ۔ ان کا یہ فتویٰ ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرتا رہا ۔لیکن جب سے تعلیم عام ہوئی اور مسلم نوجوانوں میں دین کے تئیں بیداری آئی اور انہوں نے کسی مولوی کے فتویٰ کی بجائے خود بھی تحقیق کرنے کی طرف قدم بڑھایا تو ایسے فتویٰ بازوں کی دوکان بند ہونا شروع ہو گئی ۔ ان کے ان فضول فتووں کی دوکانیں بند ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ عوام کا باشعور طبقہ خصوصی طور سے نوجوانوں نے ان کے دوہرے اور دوغلے معیار پر غور کرنا شروع کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہ لوگ عوام کو گمراہ کرتے ہوئے ہمیں آپس میں لڑاتے ہیں لیکن اپنے مفاد کی خاطر یہ لوگ ان لوگوں سے نہ صرف سلام و کلام کرتے ہیں بلکہ بغلگیر تک ہوتے اور طعام و قیام بھی کرتے ہیں ۔ ان کے اس دوہرے معیار نے خود انہی کے فتوے ان پر پلٹ دیئے اور نوجوانوں نے خود سے دین کی راہوں کا تعین کیا ۔ 

یہ چند لائنیں لکھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ابھی گذشتہ ماہ رضا اکیڈمی کے روح رواں الحاج سعید نوری کی دختر کی شادی کی تقریب مجگاؤں کے ایلی کدوری ہال میں تھی ۔ یہ ہال یہودیوں کی ہے ۔واضح ہو کہ دنیا میں مسلم امہ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے اور ان کی آزاری کے درپہ رہنے والی قوم یہود ہی ہے ۔سعید نوری کی دختر کے عقد مسنونہ کی تقریب کے دعوت نامے مہنگے دعوتی کارڈ کے طور پر شہر کی معزز ہستیوں کو دیئے گئے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے اس کارڈ پر دو رنگا اور دوہرا معیار اپناتے ہوئے کچھ کارڈس پر دائیں جانب کونے میں ایک اسٹیکر چپکایا ہوا تھا جس کی تحریر کچھ اس طرح تھی’’ان شاء اللہ تعالیٰ یہ تقریب سعید بد مذہبوں کی شرکت سے پاک و محفوظ ہوگی اسی لئے کسی وہابی ،دیوبندی،رافضی ،اہل حدیث ،قادیانی وغیرہ فرقہائے باطلہ کو دعوت نہیں دی گئی ہے ‘‘۔ یہ چند الفاظ جہاں شر انگیز اور منافقانہ ہیں وہیں یہ احمقانہ بھی ہیں ۔ احمقانہ ان باتوں میں کہ ان میں جن فرقوں کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ ان بد مذہبوں کو دعوت نہیں دی گئی ہے اس میں سوائے میری معلومات میں ابھی تک اہل حدیث کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے کہ ان میں سے کسی نے شرکت کی ہے کہ نہیں لیکن رافضی اور دیوبندیوں میں سے تو بہت سے لوگوں نے شرکت کی ہے ۔میرا سعید نوری سے سوال ہے کہ امین پٹیل اور خلیل زاہد کیا سنی بریلوی ہیں جو انہیں نہ صرف دعوت دی گئی بلکہ والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا گیا ۔خلیل زاہد کے دعوت نامہ پر تو وہ احمقانہ اور قابل اعتراض اسٹیکر نہیں لگا تھا ۔ لیکن اردو ٹائمز کے صحافی فاروق انصاری کے دعوت نامہ پر مذکورہ اسٹیکر چسپاں ہے ۔کیا فاروق انصاری بھی بریلوی سنی ہیں ؟
اب ہم آتے ہیں آزادمیدان کے چھ سال پہلے ہوئے اس سانحہ کی طرف جہاں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور جس میں دو مسلم نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا ۔ اس احتجاجی ریلی کے ذمہ داروں میں جو سب سے اوپر نام ہے وہ رضا اکیڈمی اور اس کے سربراہ سعید نوری ہی ہیں ۔بقیہ لوگ تو ضمنی حیثیت رکھنے والے ہیں ۔ اس فساد اور اور اس کے بعد کے پولس ایکشن پر آنجناب کدھر تھے پتہ ہی نہیں چلا ۔ میں خود ایک جماعت کے وفد کے ساتھ پولس اسٹیشن اور اسپتالوں کے چکر لگارہا تھا ۔زخمیوں کی عیادت جس میں اپنے نوجوانوں کے ساتھ پولس والے بھی شامل تھے ۔ وہاں میں نے کچھ لاپتہ نوجوانوں کے سرپرستوں کو در در بھٹکتے ہوئے دیکھا لیکن رضا اکیڈمی کے کسی کارندے کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں تھا ۔ دوسرے یا تیسرے دن انہی فرقہ ہائے باطلہ جس کا ذکر سعید نوری کے دعوت نامہ میں حقارت آمیز طریقہ سے لیا گیا ہے کی جماعت کے وکیلوں نے گرفتار مسلم نوجوانوں کی جانب سے عدالت میں خود کو پیش کیا ۔ وہ جماعت تھی جمعیتہ العلما جس کے وکلاء نے عدالت میں شروع دن مسلم نوجوانوں کی پیروی کی ۔ دوسرے دن اسپتالوں اور پولس اسٹیشنوں میں جس جماعت کے لوگ خبر گری میں مصروف تھے وہ جماعت تھی جماعت اسلامی ہند کی مہاراشٹر شاخ کے اراکین و کارکنان جن کے ساتھ راقم بھی تھا اور اس کے بعد دہلی وغیر سے وکلاء کو بلا کر اور سیاسی دباؤ ڈال کر جس نے گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کو آسان بنایا وہ بھی ایک دیوبندی صحافی خلیل زاہد ہیں ۔میں خود سنی بریلوی خاندان کا فرد ہوں لیکن مجھے کسی کے احسان کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنا آتا ہے نیز موجودہ دور میں ہندوستان کے سیاسی حالات جو کسی حد تک مسلمانوں کے خلاف ہیں اس میں ایسے فسادیوں اور شرارت پسندوں کو جو امت میں فساد کے بیج بوئے کو مسلمانوں کا دشمن تصور کرتا ہوں اور ایسے ڈھونگیوں سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے ۔لیکن یہ ان ملت فروشوں کو سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ۔ ان کی دوکان فساد اور تخریب سے ہی چلتی ہے ۔یہ اپنی دوکانیں چلاتے رہیں لیکن میں ملت کے جوانوں کو آواز دیتا ہوں کہ وہ غیر جانب دار ہو کر تجزیہ کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ کون ملت کا ہمدرد ہے ۔جماعتوں کے کام کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور ملت میں تخریب کے بیج بونے والوں اور ملت کے لئے حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والوں کو پہچانیں۔میں نہیں کہتا کہ مسلک کو چھوڑ دیں آپ اپنی تحقیق کے مطابق جس مسلک کو چاہیں اپنائیں لیکن خدارا آنکھیں کھولیں اور جو طوفان چلا آرہا ہے اس میں امت کی تباہی سے قبل ہوشیار ہو جائیں ۔ مسلک کو اپنے گھروں میں رکھیں اور باہر نکلیں تو صرف مسلمان بن کر نکلیں ۔ یہی نجات کی واحد راہ ہے ۔
سید بشارت حلیم رضوی

0 comments:

featured

دِین ، دِینا ، جناح اور پاکستان



عمر فراہی  ۔  ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

بانی پاکستان محمد علی جناح کی اکلوتی اولاد دینا ۲ ؍نومبر کو تقریباً سو سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں ۔ اردو میڈیا نے اس خبر کو اتنی اہمیت تو نہيں دی لیکن اس نام کے ساتھ بر صغیر کی ایک اہم تاریخ ساز شخصیت کا نام جڑا ہے جسے شاید ہندوستان اور پاکستان کا مسلمان اپنے وجود تک نہ بھلا پائے ۔ہند پاک بٹوارے کے تعلق سے محمد علی جناح کے بارےمیں مسلمانوں میں مختلف رائے پائی جاتی ہے ۔ محمد علی جناح کا شمار تحریک آزادی کی نمائندہ تنظیم کانگریس میں صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے ۔جناح کانگریس کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ میں کیوں شامل ہوئے اور وہ کیا حالات تھے جس کی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ کیا گیا ہند و پاک کے مورخ مسلسل اس پر بحث کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔دِینا نے اپنے والد محمد علی جناح کی دُنیا سے کیوں بغاوت کی دُنیا میں نفرت و محبت اور بغاوت و عزیمت کے اس طرح  کے بے شمار واقعات میں انسانوں کی عبرت کیلئے کئی سبق آموز کہانیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔ محمد علی جناح کی دوسری بیوی رتن بائی ایک دولت مند پارسی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جنہوں نے جناح سے شادی کرنے کیلئے اسلام قبول کرکے اپنا نام مریم رکھ لیا تھا ۔ بدقسمتی سے جذباتی طورپر کیا گیا دونوں کا یہ رشتہ اور فیصلہ زیادہ دن تک قائم نہیں رہ سکا اور انتیس سال کی عمر میں ۱۹۲۹میں رتن بائی کا انتقال ہو گیا ۔ اس وقت دِینا کی عمر دس سال کی تھی اور وہ لندن میں مقیم اپنی ماں رتن بائی کی سرپرستی میںزیر تربیت زیر تعلیم تھی ۔محمد علی جناح چونکہ تحریک آزادی کی سرگرم جدوجہد کی وجہ سے بہت مصروف تھے اس لیے انہوں نے دینا کو اپنی بہن فاطمہ کی سرپرستی میں دے دیا تاکہ وہ ان کی تعلیم و تربیت کی نگرانی کرسکیں ۔ لیکن خود دِینا جو اپنی ماں کی وجہ سے اپنے نانیھال سے زیادہ قریب ہو چکی تھیں ان کا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرتا ۔ رفتہ رفتہ دِینا بچپن کی دہلیز سے جوانی کی دنیا میں داخل ہوگئی لیکن محمد علی جناح جو آزادی کی تحریک میں اس قدر مصروف تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ ان کی بیٹی جوان ہو چکی ہے ۔ اس بات کا احساس انہیں اس وقت ہوا جب دِینا نے انہیں اطلاع دی کہ وہ اپنے نانیھال کے واڈیا خاندان کے نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔ حالانکہ یہ خاندان بھی دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک تھا اور خود محمد علی جناح کی اپنی پرورش بھی جس آزاد خیال مسلم معاشرے میں ہوئی تھی اور ان کی زندگی کا  بیشتر حصہ برطانیہ کے آزاد ماحول میں ہی گزرا تھا ، چاہتے تو اپنی اکلوتی اولاد کی خوشی کیلئے اس رشتے کو خاموشی کے ساتھ قبول کر لیتے لیکن یہاں پر جناح نے اپنی اسلامی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے بیٹی کو جواب دیا کہ کیا تمہیں پورے ہندوستان میں کوئی مسلم لڑکا نہیں ملا جو تم نے ایک غیرمسلم نوجوان سے شادی کا فیصلہ کرلیا ؟ محمد علی جناح کی اپنی بات بھی تو درست تھی دِینا جو کہ خود بھی خوبصورت تھی اور جناح کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے بھی دِینا سے شادی کرنے کیلئے سینکڑوں تعلیم یافتہ مسلم لڑکے تیار ہوجاتے لیکن خود جناح یہ نہیں سمجھ سکے کہ دین یا تو ایک معاشرے کی تشکیل سے عمل میں آتا ہے یا چند انسان اپنے علم اور مطالعے سے اس راہ پر چل پڑتے ہیں مگر اسے کسی بالغ انسان پر تھوپا نہیں جاسکتا ، خواہ وہ اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو ۔دِینا نے جس آزاد معاشرے میں پرورش پائی تھی وہاں مذہب کا کوئی تصور ہی نہیں تھا یا تھا بھی تو اس ماحول میں عقیدے کی اہمیت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ لوگ اپنی قومی شناخت کیلئے چند مذہبی رسم و رواج پر عمل کرتے رہیں ۔ دِینا کی دنیا بدل چکی تھی لیکن چونکہ تعلیم یافتہ تھی اور اس کی رگوں میں ایک کامیاب ماہر قانون اور سیاستداں کا خون دوڑ رہا تھا اس لیے اسے اپنے باپ کے ہی طرزپر اسی انداز میں ہی جواب دینا مناسب تھا ۔ اس نے کہا کہ آپ نے بھی تو وہی کیا تھا ۔ کیا آپ کو پورے ہندوستان میں کوئی مسلم لڑکی نہیں ملی جو آپ نے میری ماں سے شادی کی ۔ دِینا کا جواب بھی معقول تھا لیکن باپ کے دوبارہ جواب دینے پر وہ لاجواب ہوگئے ۔ جناح نے کہاکہ میں نے تمہاری ماں کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی شادی کی تھی تم بھی اس نوجوان سے کہو کہ وہ اسلام قبول کرلے مجھے تمہاری اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے ۔ دِینا نے اپنی ضد کے آگے باپ کی مرضی کو ٹھکرا کر اپنی ماں کی طرح سترہ سال کی عمر میں نول واڈیا کے ساتھ شادی کر لی ۔ یہ بھی ایک اتفاق کہہ لیں کہ جس طرح رتن بائی اور جناح کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوگئی ایک وقفے کے بعد دینا نے بھی اپنے شوہر سے طلاق لیکر نیویارک میں سکونت اختیار کر لیا ۔ خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ جناح نے دینا کی نول واڈیا سے شادی کے بعد اپنی بیٹی سے تقریباً رشتہ توڑ لیا لیکن دینا نے اس کے بعد بھی اپنے والد سے رابطہ نہیں توڑا مگر جناح کیلئے اب وہ دینا نہیں مسز واڈیا ہوچکی تھی ۔ وہ جب بھی ا پنے والد سے بات کرنے کی کوشس کرتی تو جناح اسے بیٹی نہ کہہ کر مسز واڈیا کہہ کر ہی پکارتے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جناح نے اس کے بعد اپنی بیٹی سے کبھی ملاقات کرنے کی دلچسپی نہیں ظاہر کی ۔ ملتے بھی کیسے انہیں پاکستان کی شکل میں ایک دوسرا بیٹا مل چکا تھا اور پاکستان کو ایک وفادار باپ ۔ شاید جناح کو اس بات کا شدید افسوس تھا کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر انہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا ان کی اکلوتی اولاد نے ہی اس فلسفے کو رد کردیا ۔ دنیا میں اکثر لوگ دولت  اور اولاد کیلئے اپنے ملک اور قوم سے بھی بغاوت کر جاتےہیں لیکن جناح نے اپنی قوم اور ملک کیلئے اپنی اکلوتی اولاد سے رشتہ توڑ لیا ۔ہند پاک کا بٹوارہ چاہے کتنا ہی غلط فیصلہ رہا ہو جناح اپنے نظریے میں مخلص تھے ۔ ہاں یہ الگ بات ہےکہ پاکستان کا بٹوارہ جس نظریے کی بنیاد پر ہوا تھا وہاں ایک طبقے کی قومی شناخت کوتو بنیاد بنایا گیا لیکن وہ قوم جو اسلام کی بنیاد پر مسلمان تھی اس کے جوش ولولے اور نعروں میں نظام سیاست کی تشکیل کیلئے اسلامی شریعت کا ذکر اور تصور بھی نہیں تھا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب پاکستانی آئین کو تشکیل دینے کیلئے مسلم لیگ نےمولانا مودودیؒ کو دعوت دی تو انہوں نے یہ کہہ کر اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا کہ جب محمد علی جناح اور مسلم لیگ کی طرف سے پاکستان کو ایک سیکولر ملک میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو باقی کے فیصلے بھی مسلم لیگ کو ہی کرلینا چاہیے ۔ مولانا مودودیؒ کا اپنا نظریہ بالکل درست تھا ۔ اقبال اگر زندہ ہوتے تو ان کاکیا کردار ہوتا کہا نہیں جاسکتا ۔لیکن محمد علی جناح کی پرورش جس آزاد خیال معاشرے میں ہوئی تھی وہ اپنی قومی شناخت کے تئیں تو جذباتی تھے لیکن قوموں اور خاندانوں کی تربیت کے ساتھ سیاست اور ریاست میں جو دین کا واضح تصور مودودیؒ اور اقبالؒ کے ذہن میں تھا شاید محمد علی جناح پاکستان کو جدید ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا اور سرسید کی نظر سے دیکھنا چاہتے تھے اور بعد میں ہوا بھی وہی ۔ پاکستان کے فوجی جنرل ترکی کی طرح پاکستانی آئین کے خودساختہ محافظ بن گئے ۔ بعد کے حالات میں ترکی کے اسلام پسند رہنما نجم الدین اربکان اور طیب اردگان کی سیاسی تحریک نے ثا بت بھی کیا کہ اگر پاکستانی سیاستدانوں نے پاکستان کے وجود کے بعد اقبالؒ اور مودودیؒ کی صالح فکر کی بنیاد پر ریاست کی تشکیل اور تربیت کی ہوتی تو آج ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان بدعنوانی سے جوجھ رہے ہندوستان کیلئے بھی مشعل راہ ہوتا ۔ افسوس مادہ پرست مغربی تعلیم اور نظام سیاست نے نہ صرف پاکستان کو تباہ کردیا ہندوستان بھی اسی دوراہے پر کھڑا ہے ۔ جب میں آج کے پاکستان اور جناح کے نظریات کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا کہ دینا ایک مسلمان باپ کی بیٹی ضرور تھی اور پاکستان بھی ایک مسلمان قوم کی جدوجہد کا نتیجہ تھا لیکن جس طرح محمد علی جناح ایک آزاد معاشرے میں پرورش پانے والی سترہ سال کی اپنی بیٹی کا نام صرف دین اور دینا رکھ کر اس کی دینی غیرت کا مظاہرہ چاہتے تھے اسی طرح کیا کسی مسلم ریاست کا نام پاکستان رکھ دینے سے ان کے لوگوں سے اسلامی غیرت و حمیت کے مظاہرے کی امید کی جاسکتی  ہے ؟

0 comments:

featured,

ورلڈ بینک کی رینکنگ میں بہتری سے عوام کو کیا ملے گا ؟



نہال صغیر

فی الحال نریندر مودی کیلئے راحت والی خبر نے انہیں واقعی پہلی بار کسی طرح کی خوشی سے ہمکنار کیا ہے لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس طرح کی خبروں سے عوام کو کیا ملنا ہے یا ساڑھے تین سال میں عوام جس اذیت سے گزرے ہیں اور جس کا سلسلہ ہنوز جاری اس کا مداوا کس طرح ہو سکتا ہے ۔ وزیر اعظم تو اس راحت اور خوشی میں حسب روایت کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شمار ہو گئے ہیں ۔ وہ خود خواہ کتنا ہی خوش فہمی کا شکار ہوں لیکن اگر وہ بحیثیت وزیر اعظم اس میں ملک کو بھی مبتلا کردیتے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ جیسا کہ انہوں نے ساڑھے تین سال میں کیا ہے ۔ ورلڈ بینک نے اپنی ’ایز آف ڈوئنگ بزنیس‘ میں بھارت کو تیس پوائنٹ کا فائدہ دیتے ہوئے اس کی حالت میں سدھار کا دعویٰ کیا ہے ۔ لیکن ورلڈ بینک وہ ادارہ ہے جس کی اپنی کچھ شرائط ہیں اور وہ شرائط بہر حال ترقی یافتہ ممالک کی مرضی اور ان کے مفاد کے عین مطابق ہوتا ہے ۔ خبروں کے مطابق بھارت کی موجودہ مودی حکومت نے ورلڈ بینک کے دس نکات میں سے آٹھ پر عمل کیا ہے جس کی بنیاد پر اس نے اس کی کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کو یہ حیثیت دی گئی ہے ۔ جوش اور سطحی سوچ کے معاملے میں نریندر مودی کا کوئی ہاتھ نہیں پکڑ سکتا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اسی سوچ کا ثبوت دیتے ہوئے ایک معمولی سی رینکنگ جس سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہونا ہے اس پر خوش فہمی کا شکار ہو کر کہا ’بھارت اس پوزیشن پر پہنچ گیا ہے ، جہاں سے وہ آگے ہی بڑھے گا ۔ اس کی کوششوں کو اب رفتار ملنی شروع ہو گئی ہے ‘۔ یہاں تک تو خوش فہمی کچھ حد تک اس قابل ہے کہ نظر انداز کردیا جائے لیکن اس سے آگے انہوں نے اپنے پیش رو منموہن سنگھ کا نام لئے بغیر ان پر تنقید کی اور ڈینگیں مارنی جیسی باتیں کی جو کسی بھی طرح وزیر اعظم جیسے کسی اہم عہدہ پر براجمان شخص کیلئے موزوں نہیں ہے ۔ جیسے انہوں نے کہا کہ ’ہم تیزی سے سدھار کر رہے ہیں ۔ ہم پر تنقید کرنے والے بھی ہماری تیزی سے ہو رہی سدھار کو پچا نہیں پا رہے ہیں ۔ جی ایس ٹی کی دقتوں کو دور کیا ہے ۔ جی ایس ٹی کی وجہ سے ہی ایز آف بزنیس کی سطح میں بہتری آئی ہے‘۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور اس کی وجہ سے رینکنگ میں بہتری کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر کسی پارٹی یا نظریاتی طور پر کسی کی بیجا تنقید کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی میں نے آج تک کسی کواس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ لیکن وزیر اعظم کا ایک معمولی سدھار سے بے قابو ہو کر جی ایس ٹی کی مدح سرائی کرنا کہ اسی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے جیسا دعویٰ کرناکس طرح کی شخصیت کی علامت ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ورلڈ بینک سے کسی غریب ملک کے عوام کو فائدہ نہیں ہے ۔ دیگر اداروں سے تو کچھ تحفظات کے ساتھ عوام اور خصوصی طور سے غریبوں کا کچھ بھلا ہو بھی سکتا ہے ۔ جیسے اقوام متحدہ کے کچھ امدادی کارنامے جیسے اس کے بچوں اور خواتین کی بہتری کیلئے پروگرام اور اس میں تعاون وغیرہ ۔ ’ایز آف ڈوئنگ بزنیس کو لے ہندوستان کی رینکنگ میں سدھار کے بعد بھی سونے کا من نہیں کرتا ہے ‘ انہوں نے ایسی ہی جذباتی باتیں کرکے ملک کے سادہ لوح اور جسٹس کاٹجو کے بقول مورکھ عوام کو خالی پیلی متاثر کرناشروع کردیا ہے وہ اس معاملہ میں ماہر ہیں ۔ اس پر میری رائے ہے کہ قوم کا مخلص قائد اس طرح کے سطحی دعوے نہیں کرتا ، وہ صرف کام کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا جس کے فوائد اس کے ہم وطن برسوں اور کبھی صدیوں حاصل کرتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے بے بنیاد دعووں میں کہا ’اور کیا کام ہے میرے پاس ، بس ایک ہی کام ہے کہ اس ملک کی خدمت ، سو کروڑ لوگ اور ان کی زندگی میں تبدیلی لانا ‘۔حالانکہ اب ملک کی آبادی سوا ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن وزیر اعظم صرف سو کروڑ کی تعداد بتاتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ان کے سب کا ساتھ سب کا وکاس میں ملک کے مسلمان اور عیسائی شامل نہ ہوں اس لئے انہوں نے دانستہ یا نا دانستہ ان کی تعداد کو الگ کرکے ملک کی آبادی بتائی ۔ ہمارے وزیر اعظم ہمیشہ اپنی تقریروں میں اپنی کم علمی اور کج فہمی کا ثبوت دیتے رہے ہیں ۔ جس کا وقت وقت پر لوگوں نے جواب بھی دیا ہے ۔ یہاں بھی انہوں نے اس کا ثبوت دیا جس کا تذکرہ کیا جاچکا ہے ۔ جس میں جی ایس ٹی کے سبب رینکنگ میں بہتری اور ملک کی آبادی کوکم بتانا شامل ہے اس کے باوجود وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’ہم بھارت کو نالج بیسڈ اکانومی بنانا چاہتے ہیں ‘ ۔ جب تک لوگ انا کے گھیرے میں رہتے ہیں تب تک وہ کچھ نہیں کرسکتے ہاں جھوٹ بول کر خواہ کوئی بھی دعویٰ کرلیں ۔ وزیر اعظم بھی اسی انا کی بیماری میں مبتلا ہیں اور اسی کے سہارے عوام کو گمراہ کررہے ہیں ۔
پچھلے دنوں جھاڑ کھنڈ سے جب یہ خبر ملی کہ بھوک کی وجہ سے ایک معصوم بچی مر گئی اور اس کے بعد کئی اور لوگوں کے مرنے کی خبریں آئیں تو مجھے ٹھیک سے نیند نہیں آئی ۔ ایسی کسی بھی خبر پر مجھے بیچینی ہوتی ہے ۔ پتہ نہیں ہمارے وزیر اعظم جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی خدمت لئے سب کچھ قربان کرچکے ہیں کو نیند آتی ہے یا نہیں ؟ ان کیلئے بھی ملک کے کسی بھی حصہ میں کسی فرد کا بھوک کے سبب مرنا بے چینی کا سبب بنتا ہے کہ نہیں اور اگر بنتا ہے تو معمولی واقعہ پر ٹوئٹ ٹھونکنے والے وزیر اعظم عوام کے سامنے اس بے چینی کا اظہار کیوں نہیں کرتے ؟ کس نے انہیں روکا ہے ؟ کیایہاں بھی انہیں ایک کمزور اور نحیف و نزار مخالفین کا ڈر ستاتا ہے ۔ بات یہ ہے کہ دل کی حقیقی کیفیت اور اداکاری میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ جب کسی کا دل صاف ہو اور وہ اپنی رعیت کیلئے مخلص ہو تو اسے کسی دعوے کی ضرورت نہیں ۔ اس کے دور میں بس یہ ہوتا کہ کسی غریب کو راشن کے لئے آدھار سمیت کسی بھی طرح کی پہچان کی کوئی ضرورت نہیں اس کی پہچان یہی کافی ہوتی ہے کہ وہ اس کا حقیقی مستحق ہے اور اسے سرکاری گو داموں سے اناج دستیاب کرایا جائے ۔ ورلڈ بینک کی رینکنگ پر خوشیاں منانے اور تالیاں پیٹنے والوں کو بھوکوں کی فہرست پر بھی نظر ڈالنی چاہئے جس کی حالت مسٹر پردھان سیوک یا چوکیدار کی آمد کے بعد مزید خراب ہوئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ بھارت نوجوانوں کا ملک ہے اور نوکری پیدا کرنا یہاں مواقع بھی ہیں اور چیلنج بھی ‘۔ لیکن وہ اپنے ساڑھے تین سال کا حساب دیں کہ انہوں نے کتنے نوجوان ہاتھوں کو کام دیئے ہیں اور اس چلینج کو کس طرح قبول کیا ہے ۔ ان کی نوٹ بندی یا اب جی ایس ٹی نے تو افرا تفری کا موحول پید اکرکے روزگار چھین لئے ہیں اور چھوٹے تاجروں کا مستقبل ہی تاریک کردیا ہے ۔ ایسی حالت میں وہ اس طرح کے دعوے کرتے ہیں تو زیادہ خوشی نہیں ہوتی ۔ ہم بھی ان کے بھکت نہیں کہ تکلیف کے باجود ان کی جئے جئے کریں گے اور نہ ہی جئے جئے کار کسی مسئلہ کا حل ہے اورنا ہی اس طرح کے فعل نے اب تک کی معلوم تاریخ میں کسی ملک نے کوئی بڑا انقلاب لانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ ملک کو تو حقیقی اور زمینی سطح پر کام کرنے اور اس کے چیلنجوں پر محض دعووں کی بجائے عملی طور پر قبول کرتے ہوئے کچھ کرنے سے ترقی حاصل ہو سکتی ہے ۔ گورکھپور اور احمد آباد کے سرکاری اسپتالوں میں مرنے والے شیر خوار بچوں کے والدین کو ورلڈ بینک کی رینکنگ سے کیا حاصل ہو سکتا ہے ۔ یہی باتیں ہم وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو سمجھانا چاہتے ہیں ۔ کیا وہ میری باتیں سمجھنے کی کوشش کریں گے ؟

0 comments:

featured

معاشی ناہمواری اور نا انصافی جرائم کا سبب



نہال صغیر

معاشی نا ہمواریاں اور نا انصافی بھی انسانی معاشرے میں مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ کا بنیادی اسباب میں سے ایک ہے ۔ اس کے سبب نا امیدی اور مایوسی بڑھتی ہے جو بالآخر انسان کو انتہائی قدم کی جانب لے جاتے ہیں ۔ انسانی معاشرہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے آس پاس جرائم نہ ہوں اور ہر طرف امن و امان ہو ۔ اس خواہش کی تکمیل اسی وقت ہو سکتی ہے جبکہ اس کیلئے خالق کائنات کی جانب سے تفویض قوانین پر عمل پیرا ہو ا جائے ۔ دنیا میں انسان کی آمد سے ابتک قیام امن کیلئے صرف ایک ہی اصول ہے اور وہ انصاف ۔ یہ انصاف ہر معاملے میں ۔ ہر مرحلے میں ہر طبقے کیلئے ہو ۔ انصاف بہت چھوٹا لفظ ، نفاذ میں بہت آسان اور سہل ہے اگر کسی طرح کا مفاد وابستہ نہ ہویا انصاف کے نفاذ میں کسی طرح کی اقربا پروری وغیرہ کی خواہش نہ ہو ۔ آج کی دنیا میں جرائم اور افراتفری کا اصل سبب صرف اور صرف نا انصافی اور عدم مساوات ہے ۔ لوگ جرائم اور فساد سے پریشان بھی ہیں ۔ اس کے خاتمہ کیلئے قانون بنانے اور اس کے سختی سے نفاذ کی باتیں بھی کرتے ہیں لیکن اس کے اصل سبب کی جانب بہت کم لوگوں کا ذہن جاتا ہے ۔ معاشرے میں فساد اور جرائم ہو یا کوئی وبائی امراض دونوں ہی جگہ ایک بات قدر مشترک ہے کہ اس کے اصل محرک کی جانب نظر ڈالی جائے اور اس کا سد باب کیاجائے تو آپ اس پر قابو پا سکتے ہیں ، بصورت دیگر اس کا خاتمہ دیوانے کا خواب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ عام طور پر وبائی امراض میں اس کے اصل محرک کی جانب حکومت معاشرہ اور غیر سرکاری تنظیمیں سب ہی متوجہ ہوتے ہیں اس لئے اس پر بہت ہی قلیل مدت میں قابوبھی پالیا جاتا ہے ۔ لیکن معاشرے میں اخلاقی بیماریوں کی جانب معاشرہ ، حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں میں سے کوئی بھی اصل محرک پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے ۔ جرائم میں آجکل چوری ، ڈاکہ زنی اور اغوا برائے تاوان جیسے معاملات میں عام طور پر معاشی ناہمواری ، محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملنا ، اس طرح کی وجوہات شامل ہیں ۔ مجبور ہو کر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجبور لوگ جرم کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں ۔
ممبئی سے شائع ہونے والے ایک معروف اردوروزنامہ میں ۳ ؍ نومبر کی اشاعت میں صفحہ دو پر ناگپور کی ایک خبر شائع ہوئی ہے جو کہ چوری سے متعلق ہے ۔ ایک خاتون ایک گھر میں چاقو لے کر داخل ہوئی اور اس نے اہل خانہ کو ڈرا دھمکا کر زیورات اور نقد روپئے کی مانگ کی لیکن بد قسمتی سے وہ پکڑی گئی ۔ اس کی جو کہانی سامنے آئی ہے وہ ملازمین کے استحصال کی داستان ہے ۔ مذکورہ  ملزمہ کسی دوکان میں کمپیوٹر آپریٹر کی ملازمت کرتی ہے جہاں سے اسے معاوضہ کے طور پر صرف ساڑھے تین ہزار روپئے ملتے ہیں وہ تنخواہ بھی اسے ایک ماہ سے نہیں ملی ، مجبورا ً اس نے چوری کرکے اپنی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کی ۔ ایسی بہت سی کہانیاں روز سامنے آتی ہیں پر ہماری بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ ہم اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے ۔ اسلام نے انسانی معاشرے پر جو بہت سارے احسانات کئے ہیں ان میں سے اس کا نظام عدل بھی ہے ۔ در اصل اسلام انسانی زندگی کو پرسکون دیکھنا چاہتا ہے ۔ اسی لئے اس نے عدل کا حکم دیا ہے ۔ عدل کے سبب اس معاشرے میں کوئی محروم طبقہ نہیں ہوتا ۔ جو غربا اور مساکین کا طبقہ ہوتا ہے اس کی ضرورتیں اس کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے پوری ہوتی ہیں ۔ اس کی برکت سے کسی فرد میں کسی کے خلاف کوئی مقابلہ آرائی یا حریفائی اور حسد جیسی کوئی منفی جذبات نہیں پلتے ۔ اشتراکیت نے مساویانہ حقوق کے نعرہ کی آڑ میں انسانوں کو باہم دست و گریباں کردیا ۔ امیر اور غریب طبقہ میں کش مکش کو عروج پر پہنچا دیا ۔ اس حریفائی نے بدامنی کو عروج بخشا ۔ اسلام نے ابتدا سے ہی اس جانب توجہ دی اور اپنے ماننے والوں کو اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے لئے زور ڈالا کہ وہ سبھی کے حقوق کا خیال رکھیں۔اپنے زیر دستوں کے ساتھ  شفقت اور مہربانی کا سلوک کریں ۔ نبی ﷺ کی کئی احادیث مبارکہ میں اپنے ماتحتوں کے تعلق سے اس بات کی تاکید ملتی ہے کہ ہے جو کچھ تم کھائو اسے بھی کھلائو اور جو خود پہنو وہی انہیں بھی پہنائو ۔ اوپر جس ملازمہ کا ذکر کیا گیا اس کو ملنے والے قلیل تنخواہ کے بارے میں غور کیجئے اور انصاف سے کہئے کہ آج کی مہنگائی کے دور میں اس کی ضرورتیں ساڑھے تین ہزار میں کس طرح پوری ہوں گی ۔ یہ عام مزاج بن گیا ہے کہ صنفی مساوات کی بات کرنے والے خواتین کو آزادی کا جھانسہ دے کر بازار میں لے آئے اسے رونق محفل تو بنادیا لیکن آج بھی اسے اس کی محنتوں کا ثمرہ نہیں ملتا ۔ ملازمت میں ہر جگہ صنفی تفریق اس کا مقدر ہے ۔ مردوں کے مقابلے خواتین کو اسی طرح اور ایسے ہی کام کے لئے کم معاوضہ ملتا ہے ۔ لیکن فیمنزم کے چمپیئن کبھی اس پر زبان نہیں کھولتے ۔ صرف اسلام ہے جو سب کے ساتھ انصاف اور عدل کی بات کرتا ہے ۔ وہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کے معاوضے کی ادائیگی کی بات کرتا ہے اور ایسا نہیں کرنے والے کو وعید سناتا ہے ۔ اسلامی مملکت جہاں اسلام کا مکمل قانون نافذ ہو وہاں کے حکام اس پر نگرانی رکھتے ہیں ۔ دنیا آج بھی خلافت راشدہ کی مثال دیتی ہے ۔ تاریخ میں ایسے بیشمار واقعات بھرے پڑے ہیں ۔ انہیں میں سے حضرت عمر ؓ کا وہ واقعہ بھی ہے جب انہوں نے ایک یہودی بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو بیت المال سے اس کی ضرورت کے مطابق رقم جاری کروائی اور کہا کہ اس کی جوانی میں ہم نے اس سے کام لیا تو اب ہم پر فرض ہے کہ ہم ضعیفی میں اس کی نگرانی کریں ۔ آج بھی جہاں جس قدر اسلامی نظام نافذ ہے وہ اسی قدر جرائم سے پاک ہے ۔ اسلام چوری کرنے والوں کو ہاتھ کاٹنے کی سزا سنا تا ہے تو اس سے پہلے وہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے حاکم وقت کو اس کا مکلف بھی بناتا ہے ۔

0 comments:

Politics

مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے نیک نیتی کی ضرورت



نہال صغیر

مسئلہ کشمیر پر ایک بار حکومت ہند نے اپنا خاص نمائندہ وادی میں بھیجا ہے تاکہ وہ مسائل کے حل کے نکات پر غور کرسکے اور حکومت کو اس سے آگاہ کرے ۔ ابھی غالبا پچھلے سال جبکہ برہان وانی کی موت کے بعد بھڑکی عوامی احتجاجی تحریک کو دبانے کیلئے حکومت نے طاقت کا بیجا استعمال کرتے ہوئے احتجاجیوں پر پیلیٹ گن کی برسات کرکے ہزاروں کو زخمی اور درجنوں افراد کو زندگی بھر کے لئے نابینا بنادیا تھا تب تین رکنی وفد وادی کے حالات کی جانکاری کے لئے وہاں گیا تھا ۔ ان لوگوں نے واپس آکر جو رپورٹ سونپی تھی جو کہ میڈیا میں بھی آئی تھی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ کشمیریوں کے اعتماد کا خون کیا گیاہے اب وہ ہم پر اعتماد نہیں کرتے ہماری باتوں بھروسہ نہیں کرتے ۔ جو بھی وفد جاتا ہے اس کا جو ایک نکاتی مشورہ ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ اعتماد کی بحالی پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ لیکن ہماری حکومت نے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی ۔ اس نے ہمیشہ کشمیر کے تعلق سے ایک ایسے گروہ کے دباؤ میں کام کیا جس کا کہنا ہے کہ اینٹ کا جواب گولی سے دیا جائے ۔ موجودہ حکومت نے بھی اس دباؤ کے تحت ہی اینٹ پتھروں کا جواب پیلیٹ گن سے دے کر ہزاروں لوگوں کو زخمی تو کردیا اور درجنوں بینائی سے محروم تو ہوگئے لیکن کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے ۔بلکہ مسئلہ پہلے سے زیادہ سنگین ہو گیا ۔ کسی بھی مسئلہ کا حل اس کی نوعیت اور سنگینی کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے ۔ لیکن ہماری حکومتوں کے ڈھنگ نرالے ہیں ۔اس کے سامنے جب کو ئی تحریک اور احتجاج کرنے والے کی صورت مسلمانوں جیسی ہوتی ہے یا اس کا تعلق مسلمانوں سے ہوتا ہے تو اس کے سوچنے سمجھنے اور برتاؤ کا طریقہ یکسر بدل جاتا ہے ۔ اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ اسی زعم میں موجودہ حکومت نے بھی عوامی احتجاج کو حریت کی جانب سے برپا کئے جانے والی تحریک سے جوڑ کر یہ پروپگنڈہ کیا کہ پتھر پھینکنے والوں کو پانچ سو روپیہ دے کر یہ کام کروایا جاتا ہے ۔ جبکہ جن لوگوں نے بھی کشمیر ی نوجوانوں کی پتھر پھینکتی ہوئی تصویر یا ویڈیو دیکھی ہوگی اس کو بخوبی اندازہ ہے کہ یہ عوامی غصہ تھا کسی تحریک یا تنظیم سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ لیکن حکومت جب کسی طرح کا الزام کسی پر عائد کردیتی ہے تو اسے ثابت کرنے کی احمقانہ ضد سے صورتحال کو اور بگاڑ دیتی ہے ۔ کشمیر کی صورتحال پرپیار محبت اور اعتماد سازی کے سبب قابو پایا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہ پہلے ہوا اور نہ اب ہو رہا ہے ۔
مودی حکومت نے آئی بی کے سابق ڈائریکٹر دنیشور شرما کو کشمیر مسئلہ کا خصوصی ایلچی بنا کر وادی میں بھیجا ہے ۔ دنیشور شرما نے بہت ہی محتاط اور پرجوش بیان میڈیا میں دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کشمیر میں تشدد کی وارداتوں سے بہت دکھی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مجھے ایسے حالات سے بہت دکھ پہنچتا ہے ۔ لیکن کیا محض دکھ کا اظہار کردینا ہے کشمیری نوجوانوں کی تکلیف کو دور کرنے کیلئے کافی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم میں اخلاص نہ ہو کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اور تشدد کا جواب تشدد اور ایک کے بدلے دس کی دلیل اور اینٹ کا جواب گولی سے تو بالکل بھی نہیں ہو سکتا ۔ وادی میں موجودہ تحریک علیحدگی کی تحریک ہے جسے حکومت کی غلط اور مخاصمانہ پالیسی نے عوامی تحریک میں بدل دیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ہماری طاقت کے بیجا استعمال نے عوام کی اکثریت کو علیحدگی کی تحریک میں شامل ہونے پر مجبور کردیا ہے ۔ دنیشور شرما نے آئی اے این ایس کو دیئے انٹرویو میں کہا کہ ’’ میں درد محسوس کرتا ہوں اور کئی بار جذباتی بھی ہو جاتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ سبھی طرف سے جتنی جلد ممکن ہو تشدد ختم کی جائے ‘‘ آگے انہوں نے کہا کہ خلافت قائم کرنے کی بات کرنے کے سبب کشمیر میں القاعدہ کے سربراہ ذاکر موسیٰ اور حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کو زیادہ توجہ ملی ہے ۔ حالانکہ دنیشور شرما کی ان باتوں میں اگر کچھ سچائی ہے بھی تو یہ آج کی بات ہے ۔ کشمیر پچھلے تین دہائیوں سے سلگ رہا ہے ۔ اس آگ میں پہلے جس نے پیٹرول ڈالنے کا کام کیا تھا وہ گورنر جگموہن تھے جنہوں نے سلامتی دستوں کو بڑے پیمانے پر گولیوں سے جواب دینے کی چھوٹ دی اس کا انجام یہ ہوا کہ اس وقت تک کشمیر کی تحریک جو صرف ہڑتال اور دھرنوں تک محدود تھی اس نے پر تشدد مزاحمت کی صورت اختیار کرلی ۔ گرچہ دنیشور شرما کی کاوشوں اور ان کی وادی میں آمد پر حریت لیڈروں کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ہے لیکن شرما کے بیان سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ صرف کشمیری عوامی مزاحمت کاروں کو ہی الزام دے رہے ہیں ۔ اب تک انہوں نے سلامتی دستوں کی طاقت کے غلط استعمال اور جنسی تشدد وغیرہ پر کوئی بیان نہیں دیا جس سے عوام میں کو ئی مثبت پیغام جائے کہ موجودہ حکومت اور ان کے نمائندے وادی میں امن کے خواہاں ہیں ۔ شرما کہتے ہیں کہ اگر یہی حال رہا تویمن ، شام و لیبیا جیسے حالات ہو جائیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کر سمجھ رہے ہیں ۔ہم تو یہ سمجھ رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں کہ وادی پر حکومت ہند کی پکڑ مضبوط ہے اور وہاں لاکھوں کی تعداد میں چپے چپے پر انڈین آرمی تعینات ہے پھر کیسے وہاں کے حالات یمن ، شام و لیبیا جیسے ہو جائیں گے ۔ دنیشور شرما کے اس خدشہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
دنیشور شرما کا یک رکنی مشن بھی ناکامی سے ہی ہمکنار ہونے والا ہے ۔ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ انہیں اگر کشمیر کے مسائل کے حل کیلئے بھیجا گیا تھا تو اسی پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے ۔ انہیں کشمیری نوجوانوں سے آزادانہ طور پر ملنا چاہیے تھا ۔ ان کی شکایت سننا ان کی ترجیحات میں سے ہونا چاہئے تھا ۔وہ وہاں کہ علیحدگی پسند لیڈروں سے ملتے ۔ان کے موقف جاننے کی کوشش کرتے اپنی باتیں رکھتے ۔محض میڈیا کی خبروں پر کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ٹھیک نہیں ۔لیکن وہ ایک جانب جہاں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں ان کے دکھوں پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری جانب بجائے مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے کے انہیں وادی میں خلافت ، اسلام ، القاعدہ اور حزب المجاہدین ہی نظر آرہے ہیں ۔ یہ وہی نظریہ ہے جس پر یہ حکومت آئی ہے اور اسی کے سہارے عوام میں انتشار کے بیج بو کر اپنی حکومت کو آئندہ الیکشن کے بعد بھی وسعت دینے کی کوشش میں ہے ۔دنیشور شرما کی باتوں سے یہ محسوس ہوتا ہے وہ کشمیریوں میں اعتماد سازی کے بجائے انہیں درپردہ دھمکانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ قومی سلامتی اور یکجہتی کسی ملک کی اہم ضرورت ہے لیکن یہ سب کچھ اس طرح انجام پانا چاہئے کہ اس کی زد عوام پر نہ پڑے لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔ قومی سلا متی کے نام پر مسلمانوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے ۔کشمیری بھی چونکہ مسلمان ہیں اس لئے یہ رٹ تو لگائی جاتی ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ حصہ ہے ( یہ اٹوٹ حصہ ہندوستان کے ساتھ آزادی کے ایک سال بعد شامل ہوا ) لیکن اس میں کشمیریوں کو شامل نہیں کیا جاتا ۔کشمیر مسئلہ کے حل کی پہلی سیڑھی اعتماد سازی اور خوف سے آزاد ماحول ہے ۔ جب تک اس جانب پیش قدمی نہیں کی جائے گی تب تک ساری کارروائی اور کاوشیں محض خانہ پری ہیں جو عوام کو اس بھرم میں مبتلا کرنے کیلئے ہے کہ حکومت خاموش تماشائی نہیں ہے ۔ اس لئے دنیشور شرما جی اگر مرکزی حکومت نے آپ کو کچھ اختیارات دیئے ہیں تو اس کا استعما کرتے ہوئے نوجوانوں کو ہمدردی ، ایثار ، خلوص اور محبت سے قریب کرنے کی کوشش کریں ۔ دھمکی ، خوف ، لالچ اور تحقیر اعتماد کی بحالی میں ہمیشہ رکاوٹ رہے ہیں اور آج بھی ہیں ۔

0 comments:

featured

مخالفت کی آواز کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے !



نہال صغیر

حکومت کوئی بھی ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں وہ کانگریس ہو یا بی جے پی یا عالمی پیمانے پر سعودی کی شاہی خاندانی حکومت ہو یا ایران کی اسلامی جمہوری حکومت یا امریکہ کی آزادجمہوری حکومت سب جگہ ایک بات یکساں ہوتی ہے کہ مخالف آواز کو دبائی جائے ۔کہیں ان آوازوں کو بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے تو کہیں اس پر جدید جمہوری طریقہ آزما کر سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے والی صورت اختیار کی جاتی ہے ۔ ویسے امریکہ میں صحافیوں کی آواز کو دبانا ذرا مشکل ہوتا ہے ۔حالیہ وقت میں ڈونالڈ ٹرمپ کی مثال لی جاسکتی ہے جنہوں نے پریس کی آزادی کو سلب کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہاں کے آزاد صحافیوں نے اپنا کام جاری رکھا ۔لیکن اتنا تو ماننا ہی پڑے گا کہ بہر حال انہیں دبانے کی کوشش حکومتی سطح پر ہوئی یہ اور بات ہے اس آزاد معاشرے نے اس دباؤ کو قبول نہیں کیا ۔امریکہ سب سے پرانی جمہوریت کا دعویدار ہے تو ہمارا ملک ہندوستان سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔جمہوریت کے یہ دعوے وہ بھی کرتے ہیں جو ہٹلر اور مسولینی جیسی آمر شخصیت کو اپنا آئڈیل تسلیم کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں صحافیوں کے ساتھ معاملہ بڑا عجیب ہے ۔عام تاثر تو یہ ہے کہ یہاں پریس مکمل آزاد ہے ۔اسے کچھ بھی لکھنے اور کہنے کی آزادی ہے ۔ لیکن تھوڑی سی آ نکھیں کھول کر اور دماغ کو آزاد چھوڑ کر دیکھیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ یہاں پریس کو وہ آزادی نہیں جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ۔ یہ معاملہ کانگریس کے دور میں بھی تھا اور اب بی جے پی کے دور میں تو جیسے مخالف آواز کا گلا گھونٹنے کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے ۔ بی بی سی کے سابق صحافی اور امر اجالا کے برقی مدیر رہ چکے ونود ورما کو جبری وصولی اور جان سے مارنے کی دھمکی دینے جیسے الزامات کے تحت چھتیس گڑھ پولس نے ان کے گھر غاذی آباد سے گرفتار کرلیا ہے ۔ چھتیس گڑھ کے بارے میں ایک سماجی کارکن بتاتے ہیں کہ وہاں بیباک اور بے لاگ صحافیوں کے خلاف ایک طرح کاکریک ڈاؤن چل رہا ہے ۔دہلی میں رہنے والے ایک اور صحافی سے میں گفتگو کی جو کہ چھتیس گڑھ میں ایسی ہی اسٹوری کے لئے پندرہ دن گزار کر آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ وہاں اب کوئی صحافی بچا ہی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب وہاں حکومت یا پولس انتظامیہ کے دلال کے طور پر ان کی شناخت ہے ۔انہیں سرکاری ٹینڈر ملتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سرکاری ٹینڈر کسی ایسے صحافی کو کیوں ملنے لگا جو حکومت کی غلط کاریوں کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ایک بات یہ بھی ہے کہ ایک بے لاگ اور بیباک صحافی کبھی بھی اس طرح حکومت کی عنایات حاصل کرنے کی فکر نہیں کرتا ، اسے پتہ ہے کہ اگر اس نے حکومت کی عنایات سے فائدہ اٹھایا تو وہ اپنے پیشہ یا مشن سے انصاف نہیں کرپائے گا ۔
بہر حال ونود ورما کو گرفتار کرنے کے لئے جو جواز تلاش کیا گیا ہے وہ انتہائی گھٹیا اور پہلی ہی نظر میں یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ان کو حکومت سے اختلاف کی سزا دی گئی ہے ۔چھتیس گڑھ کانگریس کے صدر اور ایم ایل اے بھوپیش بگھیل جو ونود ورما کے رشتہ دار ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’ونود ورما کی رپورٹس سے حکومت ناراض تھی اور یہ گرفتاری صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے ‘‘۔ونود ورما کی گرفتاری کے جواز کے طور پر پولس نے ایک شخص کے ذریعہ جبری وصولی اور جان سے مارنے کی دھمکی پر ایف آئی آر کو پیش کیا ہے اور اس نے ان کے گھر سے پانچ سو سی ڈی بھی ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ آج کے دور میں اطلاعاتی تکنیکی انقلاب نے جبکہ سی ڈی اور اس طرح کی دوسری ایسی چیزیں جس میں آپ اپنا ڈیٹا محفوظ رکھتے ہیں کو بے معنی بنادیا ہے ۔اب بہت سے راستے ہیں جہاں آپ اپنے تحقیقی کام کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور جب چاہیں آپ انہیں نکال کر استعمال کرسکتے ہیں ۔ایسے دور میں پولس کا پانچ سو سی ڈی ضبط کرنے کا دعویٰ کچھ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے ۔ایسی کئی کہانیاں ہم نے اکثر گرفتاریوں کے بعد دیکھی اور پڑھی ہیں ۔عدالتوں سے پولس اور حکومت کو اس کے لئے ڈانٹ پھٹکار بھی پڑتی ہے لیکن پولس کے خلاف کوئی مناسب کارروائی نہیں ہوتی اس لئے وہ پھر اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر دوسرے لوگوں کو شکار کرنے میں کوئی جھجھک یا شرم محسوس نہیں کرتی ۔حکومت اور اس کی پولس صحافیوں کی اس طرح کی گرفتاری پر خواہ کچھ بھی جواز پیش کرے لیکن ہم سیدھے طور سے یہ کہتے ہیں کہ یہ صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کا ہی حصہ ہے ۔حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہئے سچ بولنا اور سچ لکھنا یہ کسی کسی شخص کی تہذیب کا حصہ ہوتا ہے ۔ یہ کسی کے خون میں بھی شامل ہوتا ہے ۔وہ لوگ کٹنا تو جانتے ہیں لیکن جھکنا یا مُڑنا نہیں جانتے ۔اس لئے اس طرح کی ڈرانے دھمکانے والی کارروائی سے ایسے لوگوں کے کام کرنے کے حوصلے اور سچ بولنے کی جرات میں مزید اضافہ ہوتا ہے ۔انہیں کوئی دبا نہیں سکتا نہ روک سکتا ہے ۔ہاں اس طرح کی کارروائی سے دوسروں کو ڈرایا جاسکتا ہے ،عام لوگوں کو خوفزدہ کیا جاسکتا ہے کہ جب صحافی کو حکومت اس طرح پریشان کرسکتی ہے تو تمہاری کیا اوقات ہے ۔پر ایک سوال تو اپنی جگہ پر قائم ہے کہ اس طرح کی حرکت سے حکومت عوام کی آواز کوکب تک دبا پائے گی ۔ایک دن وہ ہار جائے گی ۔سچ لکھنے اور بولنے والے کبھی نہیں ہارے اور نا کبھی جھکے ہیں ۔یہ بات جتنی جلدی حکومت سمجھ لے اچھا ہے ۔

0 comments:

International

لاس ویگا س اور مین ہٹن کا فرق


قاسم سید
  
یہ کھلا راز ہے کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی منافع بخش انڈسٹری میں تبدیل ہوگئی ۔ امریکی آرڈی نینس فیکٹریاں سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد زنگ کھاررہی تھیں تالہ بندی کی نوبت آگئی تھی ان کے پہئے چلنے شروع ہو گئے ۔ اربوں ڈالر اسلحہ خریداری کے معاہدے نے انہیں نئی زندگی بخش دی عراق اور افغانستان جیسے چھوٹے ملکوں میں نئے ہتھیارو ںکو تجربہ کے طور پر استعمال کیا گیا ان دونوں ممالک پر چڑھائی کے لئے بھی دہشت گردی کی معاونت کے الزام اور کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری کے جرم کی آڑ لی گئی ۔ بعد میں پتہ چلا کی کہانی کچھ اور تھی اب تو معمولی عقل رکھنے والا بھی بخوبی سمجھنے لگا ہے کہ آخرتیل کی دولت سے مالا مال صرف مشرق وسطی ہی جہنم کیوں بنایا گیا ہے اگر ان علاقوں میں واقعی دہشت گردی کے عفریت نے قدم جما لئے ہیں تو دہشت گردوں کی سب سے بڑی تعداد بھی ان علاقوں سے ہی آتی مگر حقیقت کچھ اور ہے القاعدہ کا جنم کیوں ہوا ، اس کا جنم داتا کون ہے ان کی پرورش کس’ ہاؤس‘ میں ہوئی اور پھر اسے برآمد کردیاگیا جس طرح خطرناک وائرس خاص فضا میں چھوڑے جاتے ہیں جب القاعدہ کی افادیت اور ضرورت ختم ہوگئی تو آئی ایس کا بھوت سامنے آیا اس کا خالق کون ہے ۔ کیوں ہے اور کہاں اس سے کام لیا جا رہاہے ۔کون لوگ مارے جا رہے ہیں اگر یہ مان لیا جائے کہ مسلمان ہی دہشت گردہیں تو پھر یہ اپنے دینی ساتھیوں کو ہی کیوں مار رہے ہیں ۔ دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار کون ہے ۔حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ نے القاعدہ کا ذمہ دار کس کو قرار دیا تھا سب جانتے ہیں کون سے ’دہشت گرد‘ وائٹ ہاؤس میں مہمان خصوصی بنتے تھے ۔ ان کو مجاہدین کا لقب کس نے دیا پھر وہ اچانک دہشت گرد کیوں کہلائے جانے لگے یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں جتنی شدت آئی اسی شدت سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے ،کارپیٹ بمباری میں دہشت گردوں کے اڈے تباہ کردیے جاتے ہیں پھرکچھ نئے اڈے برآمد ہوتے ہیں ،ناٹوعام شہریوں کو القاعدہ یا آئی ایس کے لڑاکے سمجھ کر بمباری کرتا ہے اور ان کے بےقصور شہری ثابت ہونے پر معذرت ،یہی نہیں کبھی کسی نے سوچا کہ القاعدہ اور آئی ایس نے آج تک اسرائیل کو نشانہ نہیں بنایا جبکہ اسے عالم اسلام کا سب سے بدترین دشمن سمجھا جاتا ہے آخر یہ مجاہدین اسلام کبھی تل ابیب پر کیوں نہیں چڑھ دوڑے،کوئی ایک راکٹ اس طرف کیوں نہیں پھینکا اس بات سےواضح ہوتاہےکہ یہ کس کے ایجنٹ ہیں ،کون انہیں پالتا ہے اور ان کا ہدایت کار کون ہے ۔دہرا معیار انصاف سے دور لے جاتا ہے دہشت گردی کے معاملے میںدنیا کے ہر ملک میں دہرامعیار ہے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح قابل استعمال و قابل عمل ہے ۔لیکن عیسائی یا یہودی دہشت گردی کہا جاتا ہے ؟اسی طرح اسلامی بم ہے ۔لیکن عیسائی ایٹم بم یا ہندوستان کی ایٹمی صلاحیت کو ہندو ایٹم بم نہیںکہا جاتا کیا یہ نہیں بتاتا کہ دنیا کس ذہنیت اور خباثت فکری کے ساتھ دہشت گردی کی تشریح و تعبیر پریقین رکھتی ہے اور اس معاملے میں سب ایک ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی انسانیت کے لئے ناسور ہے ۔کہیں ایک بھی بے قصور مارا جائے وہ صریحا دہشت گردی ہے دہشت گردی کہیںبھی ہو کوئی بھی کرے قابل مذمت ہے۔
مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب فرقہ پرستی اور دہشت گردی کو مذہبی تعصبات کےچشمہ سے دیکھا جاتا ہے ۔’یوروپی ملک میں کوئی دیوانہ راہ چلتے لوگوں پر ٹرک چڑھا دے میٹرو ٹرین میں چاقو بازی کردے اس میں کچھ بے گناہ لوگ مارے جائیں اور پھر ذمہ داری ایسی کوئی تنظیم لے جس پر کوئی مذہبی رنگ چڑھا ہو تو پھر دنیا کی مستعدی دیکھتے بنتی ہے ہندوستان کے راشٹر بھکت سے لے کر دنیا کے ماہرین دہشت گردی اپنے خاص رنگ میں دکھائی دیتے ہیں ۔
دنیا بھر کے رہنما تعزیتی پیغامات کی ترسیل میں مسابقت کا مظاہر کرتے ہیں پھر اس بہانے خاص مذہب اور کمیونٹی پر نفرت کے تیر چھوڑے جاتے ہیں جو پہلے ہی کوئی دہشت گردانہ واقعہ رونما ہونےپر دفاع کےرول میں آجاتی ہے اور یہ تصور کر بیٹھتی ہے کہ اس کا ذمہ دار ہم میں سے ہی کوئی ہے مگر جب ایسا ہی کوئی واقعہ جس میں کرتا دھرتا کوئی اور کریکٹر ہوتو اسے سنکی ،دیوانہ ،مخبوط الحواس کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں گذشتہ دنوں لاس ویگاس میں ایک ایسے ہی دیوانے نے ایک رقص کی پارٹی میں اندھا دھند فائرنگ کرکے 60لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ،قیامت کا منظر تھا جسمیں 500افراد زخمی ہو گئے ایک مقامی شخص نے جس کا نام اسٹیون پیڈک تھا ۔اس کی عمر 55سال تھی وہ نہ فوجی تھا اور نہ ہی اس کا جرائم کاکوئی پس منظر تھا۔جس کمرے میں وہ شخص ٹھہرا تھا وہاں خطرناک ترین اسلحہ موجود تھا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ تنہاشخص اتنا اسلحہ ہوٹل کے22ویں فلور تک کیسے لے گیا جو ملک تورا بوراغاروں میں ہوا تک سونگھنے کی صلاحیت کا مالک ہے۔ اس کی خفیہ ایجنسیوں کی آنکھ سے کس طرح محفوظ رہ گیا۔جب آئی ایس نےاس واقعہ کی ذمہ داری لی تو امریکی تحقیقی اداروں نے اسکو فوراً ہی مسترد کردیا اس کے دعوے کی تردید کرنےمیں تھوڑا سا بھی وقت نہیں لیا شاید وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں کہ اسٹیون پیڈک نامی کوئی شخص آئی ایس سے جڑا ہو سکتا ہے۔60افراد کی جان لینے والے کو سنکی اور پاگل کہہ کر نظر انداز کردیا گیا ۔اگر اس سے ملتی جلتی واردات میں کوئی مقامی مسلمان نکل آئے تو وہ دہشت گرد اور اس کی کارروائی کو سیدھے دہشت گردی کہہ دیا جاتا ہے لیکن لاس ویگاس اور اس جیسی کارروائیاں کریکٹر دوسرا ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے زمرہ میں شمار نہیں کی جاتیں ۔
لاس ویگاس کا قتل عام سنکی اور خبط الحواس کی کارروائی اور مین ہیٹن پر ٹرک چڑھا کر 8لوگوں کو قتل کردینے کی واردات دہشت گردی کیونکہ لاس ویگاس کا مجرم اسٹیون پیڈک تھا اور مین ہٹن کا قصور وار سیف اللہ سائیووف ہے جبکہ اس کے تعلق سے بھی خبر آئی ہےکہ ملزم اوبیر کا سابق ڈرائیور تھا اور وہ ذہنی مسائل و نفسیاتی دباؤ سے گذر رہا تھا پولیس نے اس واقعہ کو دہشت گردانہ بتایا جبکہ لاس ویگاس قتل عام کو دہشت گردی کی واردات جاننے سے انکار کردیا تھا ۔ سوال یہ تھا کہ سیف اللہ کی واردات دہشت گردانہ کارروائی ہے اور پیڈک کا جدید ترین خطرناک سلحہ سے اندھا دھند فائرنگ کرکے 60لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا اس کے دیوانے پن کا نتیجہ تویہ فرق کیوں ہے کیا ناموں کے فرق سے اسباب بھی الگ ہو جاتے ہیں ۔
اس منافقانہ اور عیارانہ ذہنیت کی وجہ سے دہشت گردی آج بھی حساس ترین مسئلہ بنی ہے جب اسے ہندو مسلم اور مسلم عیسائی چشمہ سے دیکھا جائے گا اور مذہبی لبادہ اوڑھا کر سد باب کی کوشش ہوں گی اس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ۔ جب لاس ویگاس اور مین ہٹن کی وارداتوں کو الگ الگ معانی پہنائیں گے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی ،یک رخا نظریہ کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں کر سکتا دہشت گردی کو جو لوگ مشرف بہ اسلام کرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی قصوروار ہیں جتنے وارداتوں کو انجام دینے والے جن لوگوں نے اس عفریت کو جنم دیا وہی کھاد فراہم کرتے ہیں اسے انجام دینے والے تو معمولی کریکٹر بلکہ کٹھ پتلی ہیں ان کی ڈوریں ہلانے والے کوئی اور ہیں جب تک ان ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہیں ہوں گی ، دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ۔

0 comments: