عالم اسلام میں منافقین کا کردار

                                                                   جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

مشہور محاورہ ہے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ مسلمانوں میں یہی بھیدی منافق کہلاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ لوگ بہ ظاہر مسلمان ہوتے ہیں مگر عملاً کافر۔ ابتدائے اسلام سے ہی یہ بھیدی یہود و نصاریٰ کے لیے بڑی اہمیت رکھتے رہے ہیں کیوں کہ یہی لوگ مسلمانوں کے اندرونی حالات اور سرگرمیوں سے اسلام کے کھلے دشمنوں کو آگاہ رکھنے میں پیش پیش رہے ہیں اور بسا اوقات شدید نقصان بھی پہنچایا ہے۔ چوں کہ یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں اس لیے وہ منافقین کے ذریعے ہمیشہ ہی اپنے مقاصد اور عزائم کی تکمیل کرتے رہے ہیں۔ 
اسلامی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں وہ منافقین کے کرتوت کی گواہی دیں گے کہ کب کب اور کن کن حالات اور موقعوں پر گھر کے بھیدی کا رول ادا کیا ہے۔ فرانس کی سرزمین پر اکتوبر 732ء میں ہونے والی تاریخ ساز جنگ لڑی گئی تھی، جب مقابل فوجوں کے مابین رن پڑا تو اس وقت بھی انہیں منافقین کی بدولت اسلامی انقلاب کی پیش قدمی رک گئی تھی جس کے نتیجے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ 
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ مسلمان اگر یہ جنگ جیت جاتے تو پیرس اور لندن میں گرجا گھروں کی جگہ مسجدیں نظر آتیں اور وہاں کی عظیم دانش گاہوں میں بائبل کی جگہ قرآن مجید کی تفسیر پڑھائی جارہی ہوتی۔ سید امیر علی لکھتے ہیں ’’طورس کے میدانوں پر عربوں نے اس وقت عالمی سلطنت گنوادی جبکہ یہ ان کی مٹھی میں تھی۔ حکم عدولی اور باہمی انتشار و خلفشار جو مسلم معاشرے کا ابدی ناسور اور لعنت رہے ہیں، اس تباہی کے سبب بنے۔‘‘ اور منافقین کی بن آئی۔ 
دولت کی ہوس اور باہمی انتشار نے کام دکھایا، ان کوتاہیوں اور غلطیوں نے کہاں کہاں ملت اسلامیہ کا راستہ نہیں روکا، کیا کیا زخم نہ کھائے۔ ہم نے جہاں بھی شکست کھائی مڑکے دیکھا تو کمین گاہوں میں کچھ اپنے ہی نظر آئے۔ حرص وہ بلا ہے جو انہیں یہ سوچنے کی مہلت تک نہیں دیتی کہ بے حد و بے حساب دولت کس کام آئے گی۔ خاص طور پر جس کے انبار غیر ملکی بینکوں میں کھولے گئے چوری چھپے کھاتوں میں دھرے ہیں باہمی خلفشار بھی کہاں کم ہوا، کس نے کس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا، اپنے پرائے جس کا جہاں داؤ لگا وہ موقع پاتے ہی اپنے کرم فرماؤں پر چڑھ دوڑا، اقتدار تو دولت سے بھی بری بلا ہے۔ ان تمام عوامل کے پیچھے کون لوگ ہیں یہ ہمیں بہرحال سوچنا چاہیے۔ 
جوں جوں ہماری مرکزی طاقت خواہ وہ خلافت کی شکل میں تھی یا بعض خطوں میں بادشاہت کے روپ میں براجمان تھی، کمزور پڑنے لگی تو ناچاقی اور انتشار نے سر اٹھایا اور ہر طرف یورشیں برپا ہونے لگیں، چھوٹے بڑے راجواڑے وجود میں آنے لگے، وسائل بکھرتے گئے اور مرکزی حکومت کا دائرہ اختیار سکڑتا گیا۔ آخری خلیفہ عباسی مستعصم ہوں یا آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر، دونوں ہی ہوا کا جھونکا آتے ہی تنکوں کی طرح بکھر گئے۔ ایک بے بسی کے عالم میں تاتاریوں کے گھوڑوں کے سموں تلے روندا گیا، دوسرا پابجولاں وطن سے سینکڑوں میل دور رنگون میں حوالہ زنداں ہوا۔ ظفر تو شاعر تھے، شکست و محرومی کا اظہار کرگئے، انہیں دفن کے لیے ’کوئے یار‘ میں دو گز زمین نہ ملنے کا نوحہ کہنے کی مہلت تو مل گئی۔ خلیفہ المستعصم بے چارگی میں دوقدم آگے ہی نکلا۔ کہتے ہیں اپنے مصاحبوں کے ہمراہ جب وہ اپنے آپ کو تاتاریوں کے حوالے کرچکا تو اسے ہلاکو خان کے حضور پیش کیا گیا۔ ہلاکو نے سونے کی کچھ ڈلیاں اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’انہیں کھاؤ‘ مجبور قیدی نے پریشان ہوتے ہوئے عرض کیا۔ ’سونا کھایا نہیں جاتا‘ جواب ملا ’پھر ڈھیروں جمع کیوں کر رکھا تھا۔ اگر ہمیں بھجوا دیا ہوتا تو آج عیش و آرام سے جی رہے ہوتے، ایسا نہیں کرنا تھا تو اپنے دفاع کے لیے خرچ کیا ہوتا۔‘ مذکورہ بالا واقعات و حالات میں سمجھنے کے لیے بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ مال و دولت اور اقتدار کی ہوس کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔ اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی اس کے امرا اور حکمرانوں میں عیش و عشرت اور اقتدار کی ہوس نے جگہ بنائی ہے خود بھی رسوا ہوئے ہیں اور ملت کو بھی رسوا کیا ہے۔ ایسے ہی حالات میں منافقین اور گھر کے بھیدیوں نے بھی نہ معلوم کتنی بار لنکائیں ڈھائی ہیں۔ آج بھی عالم اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پس پشت بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔ 
اہل سیاست میں آج کل ایک نئی سوچ ابھر رہی ہے کہ قارون کا خزانہ جب تک پاس نہ ہو تو اقتدار تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہ مفروضہ انتہائی خطرناک کھیل کو جنم دے رہا ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہوجاتی ہے جس میں حصول مقصد کے لیے سب کچھ روا ہے۔ بدعنوانی، رشوت، چور بازاری، رہزنی اور اسی قبیل کی دوسری بلائیں سیلاب کی صورت میں امڈ آتی ہیں جس سے ملک ہی نہیں پورا معاشرہ ہی غیر مستحکم ہوجاتا ہے۔ اقتدار میں آنے والے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کار خیر میں ایک دوسرے کو مات دینے کی فکر میں رہتے ہیں۔ نجی محفلوں میں کھلے بندوں یہ تذکرہ کہ فلاں بازی مارگیا اور فلاں پیچھے رہ گیا۔ یہاں تک کہ قلم دانوں اور وزارتوں کی بھی قیمت لگنے لگتی ہے، ظاہر ہے جب ایسی صورت بنے گی تو وہی ہوگا جو آج کل آپ کے سامنے ہے۔ کہیں کسی کو سکون نہیں، نہ عوام کو نہ حکمرانوں کو، سبھی اپنی اپنی جگہ بے چارے ہیں۔ 
سیاست ایک بہتا دریا ہے جس کا پانی کبھی اتنا صاف و شفاف تھا کہ اس کے کناروں پر کھڑے درخت جھک جھک کر اس میں اپنا عکس دیکھتے تھے۔ صاف ستھرے وضع دار لوگ جنہیں اپنی عزت کا پاس تھا، ملک و قوم کی خدمت کے لیے اس میدان میں اترتے تھے، شرافت و متانت، عوام کی خیر خواہی اور کار ثواب کی تمنا ان کے لیے زادراہ ہوتی تھی۔ اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے، دولت مند ہوں یا نہ ہوں دل کے غنی ہوتے تھے۔ ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی کہ وہ خدمت خلق کے عوض کوئی مالی فائدہ اٹھائیں۔ بڑے ہی غیور اور پاک طینت لوگ تھے۔ اللہ رحمت فرمائے ان عظیم ہستیوں پر جو ہمیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرگئے۔ حرص و ہوس کی زنجیروں کو اگر وہ نہ توڑتے تو منزل مراد تک نہ پہنچتے۔ بہت پہلے بک گئے ہوتے۔ خریداروں کی نہ آج کمی ہے نہ اس وقت تھی۔ مال بکاؤ ہو تو خریدار بہت۔ ڈرانے والے اس دور میں بھی بہت ہیں، اس وقت بھی بہت تھے۔ 
عالم عرب میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اصل سبب یہی ہے کہ وہاں کے حکمرانوں میں خوف خدا سے کہیں زیادہ خوف امریکہ ہے۔ اسی کے اشاروں اور حکموں پر اپنے اپنے ملکوں میں حکمرانی کرتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ ملک و قوم کا کیا اور کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ نے دنیا بھر میں اپنی مرضی چلانے کے لیے ایک ایسا عالمی نظام قائم کیا ہے جس کے ذریعے عالم اسلام پر جارحیت اور سفاکیت کا مظاہرہ کر رہا ہے جس سے افغانستان، عراق، لیبیا، شام و یمن وغیرہ تو بھگت ہی رہے ہیں اور بھی نہ معلوم کتنے اس کے نشانے پر ہیں۔ پھر بھی وہ اپنے رویے میں کوئی تبدیلی لانا نہیں چاہتے تو انہیں بھی ایک نہ ایک دن خلیفہ مستعصم اور بہادر شاہ ظفر جیسے حالات سے گزرنا ہی پڑے گا۔ 
منافقین اور گھر کے بھیدی سب کے سب اپنے اپنے فریضے انجام دے رہے ہیں لیکن اگر کوئی اپنا فریضہ انجام نہیں دے رہا ہے تو وہ ہے مسلمانوں کا حکمراں طبقہ۔ یا پھر خود امت مسلمہ۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ ہماری صفوں میں وہ منافقین بھی شامل ہیں جو اپنی آستینوں میں بُت چھپائے ہمارے ساتھ اس لیے سربسجدہ ہیں کہ ہم انہیں اپنا مسلم بھائی سمجھیں اور وہ اپنے بھائیوں میں پہنچ کر ہمارا مذاق اڑائیں، تو ایسے میں ہم پر کیا فرض نہیں کہ ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہم بھی رفع یدین شروع کردیں۔ 

0 comments:

ہیں رقص میں بلائیں مضافات و شہر میں (۲)


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

مسلمانوں کی تاریخ پر جب بھی نظر جاتی ہے تو پوری تاریخ کرب و بلا نظر آتی ہے اور ہر طرف اپنوں کی سادگی اور غیروں کی عیاری کی داستان بساط عالم پر پڑی عبرتناک صورت حال بیان کر رہی ہوتی ہے۔ ماضی قریب میں بوسنیا کی درد بھری کہانی لوگ ابھی بھولے نہیں ہیں، جہاں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے ہی مٹادینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی اور وہاں کے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے امریکہ اور یوروپی ممالک نے یہ کہا تھا کہ ہم تو مسلمانوں کی مدد کر رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ یوروپی دنیا تقریباً ۴ برس تک بوسنیا کی آگ پر اپنے ہاتھ تاپتی رہی اور جب اسے یہ یقین ہوگیا کہ بوسنیا کے مسلمان اب ادھ مرے ہوچکے ہیں اور نسل کشی سے ان کی مزاحمتی صلاحیت زائل ہوچکی ہے تو اس نے بوسنیا کے معاملات میں ’مداخلت‘ بھی ضروری سمجھی، اس کی وجہ بھی بہت واضح تھی کہ سرب عیسائی تھے اور وہ روس کے زیر اثر تھے۔ عظیم تر سربیا وجود میں آجاتا تو پوری وادئ بلقان پر روس کے اثرات گہرے ہوجاتے۔ 
بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کیسی تھی اس کا اندازہ کرنا نہ اس وقت ممکن تھا نہ اب۔ یوں کہیے کہ بوسنیا ایک بہت بڑے مذبح میں تبدیل ہوگیا تھا جس کی پوری اسلامی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سرب جہاں اجتماعی قتل عام کرسکتے تھے وہاں انہوں نے کیا، جہاں وہ گولہ باری کرسکتے تھے کی، جس جگہ پانی بند کرسکتے تھے، بند کردیا۔ جہاں غذا کی قلت پیدا کی جاسکتی تھی کی، وہاں مسلمانوں کو بھوکا مارا گیا، جہاں جہاں وہ کیمپوں میں مسلمانوں کو سڑاکر مار سکتے تھے وہاں وہاں وہ مسلمانوں کے چلتے پھرتے ڈھانچے تخلیق کیے۔ ان کی پالیسی تھی کہ نوجوان مسلمانوں اور بچوں کو چن چن کر ماردو۔ برسوں کے شدید بحران کے دوران ہزاروں مسلم خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں اور پھر یہ نعرہ بھی لگایا گیا کہ ہم مسلمانوں کے یہاں سرب بچے پیدا کریں گے۔ اس صورت حال کا سب سے ہولناک پہلو یہ تھا کہ قتل عام اور عصمت دری کے 80 فیصد واقعات میں وہ لوگ ملوث تھے جو چالیس پچاس سال سے مسلمانوں کے ’پڑوسی‘ تھے۔ 
بوسنیا مارشل ٹیٹو کے یوگو سلاویہ کا حصہ تھا جس نے مسلمانوں کی مذہبیت کو گہرا دفن کردیا تھا۔ بوسنیا مسلمانوں کی عظیم اکثریت نام کی تھی مسلمان نہیں تھی انہوں نے اپنے نام بھی مقامی انداز میں رکھ لیے تھے لیکن ان مسلمانوں کو بھی یہ کہہ کر مارا گیا کہ تم نہیں تو تمہارے آبا و اجداد تو مسلمان تھے، تمہارے جسموں میں انہیں کا خون ہے۔ آج عالم اسلام خصوصاً عالم عرب میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے قضیہ فلسطین اور یہودی مقاصد کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ صبح کے نام پر شام ہی شام بلکہ گھپ اندھیرا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کی حقیقی صبح کب نمودار ہوگی؟ 
بوسنیا، چیچنیا، الجزائر، قبرص، سوڈان، صومالیہ گو کہ جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی کچھ مسلمیت کی جھلک نظر آتی ہے انہیں زندہ درگور کرنے کی سازشوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ دیگر مسلم ملکوں کی طرح ہی صومالیہ میں بھی انتشار پیدا کیا گیا اور برسوں سازشوں کے جال میں پھانس کر ادھ مرا بنادیا گیا۔ اس بدقسمت ملک کی محرومیوں کا جائزہ لینے کی اگر کوشش کی جائے تو چاند کے بہانے چھت پر پہنچنے کی کوشش ہی کہی جائے گی یعنی 1976-77 میں صومالیہ کے چند فوجی اتفاقاً ایتھوپیا کے علاقے میں داخل ہوگئے تھے جہاں صومالی مسلمان بھی مقیم تھے، یہی وہ واقعہ ہے جو صومالی مسلمانوں کے لیے ناسور بن گیا اور مسلمانوں کے دشمنوں کے لیے صومالیہ مداخلت کا جواز بھی بن گیا۔ جس کے نتیجے میں امریکہ بہادر کو آگ برسانے کا موقع مل گیا، ہزاروں کی جانیں گئیں اور لاکھوں کی املاک جل کر خاک ہوگئیں۔ 
ایتھوپیا جہاں عیسائی اکثریت ہے اس کے اسرائیل کے ساتھ بہت ہی قریبی روابط ہیں اسے اسلامی دنیا کے دل میں خنجر گھونپنے کے لیے تیار کیا گیا۔ 1990 کی دہائی میں صومالیہ امریکہ کی ہزیمت کی علامت بن کر ابھرا تھا اور امریکہ اس تجربہ کو بھولا نہیں تھا مگر اس نے اپنی شاطرانہ ذہنیت کے مطابق صومالیہ میں خود آنے کے بجائے صومالیہ اور ایتھوپیا میں کرائے کے فوجی تلاش کرلیے اور انہیں اسلحے اور کروڑوں ڈالر بھی فراہم کیے تاکہ اس طرح صومالیہ مستقل طور پر میدان جنگ بنا رہے۔ اسی طرح جیسے اسلامی ممالک اس وقت دست و گریباں ہیں۔ مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے اسلامی ملکوں کے سربراہان و حکمراں سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی بھیگی بلّی بنے ہوئے ہیں۔ 
بہرحال دنیا کی سب سے سپرپاور سے تصادم مول لینا آج کے بے حس مسلم حکمرانوں اور بے سر و سامان کمزور مسلمانوں کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی مٹھی بھر اسلامی فکر رکھنے والے ہی دشمنوں کے میزائلوں، ٹینکوں اور جنگ جو طیاروں کا مقابلہ اینٹ و پتھر سے کرسکتے ہیں۔ یہ جنگ اپنی طاقت کے نشے میں بدمست استعمار کے منصوبہ سازوں نے عالم اسلام پر مسلط کر رکھی ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہر طرح کے حربی ساز و سامان سے لیس ہوجائیں۔ مادی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کسی طور بھی برابر کا جوڑ نہیں ہے لیکن واقعات و حالات پر نظر رکھنے والے یہ منظر بھی دیکھ چکے ہیں چند نفوس پر مشتمل سرفروشوں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت روس کو افغانستان میں دھول چاٹنے پر بھی مجبور کردیا ہے اور امریکہ بہادر کو بھی نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن جیسے حالات سے گزرنا پڑا ہے۔ 
9/11 کے بعد سے پوری دنیا میں مسلمانوں کے تعلق سے جو حالات رونما ہو رہے ہیں یا کیے جارہے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ ہرگزرتا لمحہ مسلم اُمہ کو دعوت فکر دے رہا ہے۔ خاص طور سے ان مسلم حکمرانوں کے لیے جو اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ انہیں مغربی ملکوں کی سوائے کاسہ گدائی کے قبلہ اول کی بازیابی اور اس کی حفاظت کا خیال بھی جاتا رہا اور آئے دن دین و ملت اور ناموس رسولؐ پر ہتک آمیز حملوں کا بھی کوئی اثر باقی نہیں رہا۔ ایسے حالات میں اب جبکہ اسلام کی روح غیر محسوس طریقہ سے عالم اسلام کی رگ و پے میں سرایت کر رہی ہے اور مسلمان اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے تو دوسری طرف امریکی استعمار اور ان کے صلیبی و صہیونی اتحادی اپنی تمام تر قہر سامانیوں کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کے شہروں اور بستیوں کو تاراج کرنے کے لیے پابہ رکاب ہیں۔ حال اور مستقبل کی جنگ کا نقشہ بالکل واضح ہے۔ ایسے میں ہمارے مسلم حکمراں کس جانب کھڑے ہیں تاریخ کا راوی خاموش مشاہدہ کر رہا ہے۔ 
معتبر تجزیہ کاروں، مبصروں اور دانشوروں کے خیال میں یہ بات بڑی حد تک سچ ثابت ہونے والی ہے کہ مسلم اُمہ کے خلاف مغربی طاقتوں کی جنگ اب بہت ہی خطرناک مرحلہ میں داخل ہونے والی ہے اور عنقریب ہی انتہائی خطرناک حالات پیدا ہوسکتے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑے ہی خوفناک صورت حال سے گزرنا پڑسکتا ہے۔ داعش جیسی تنظیموں کا جنم اور ان کی سرگرمیوں سے مستقبل کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کتنی سچی کہاوت ہے کہ بارود کی بو سے بھرے ماحول میں پرندوں کے چہچہے سنائی نہیں دیتے، امن کی فاختائیں ایسے حالات میں نہیں اترتیں۔ واضح رہے کہ دشمنوں کے ہاتھ اب ہمارے گریباں تک آپہنچے ہیں۔ افغانستان، عراق وغیرہ کا حشر آپ کے سامنے ہے اور اب کس کس کا حشر ان جیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟ یاد رکھیے دریوزہ گری، کاسہ لیسی موت ہے۔ اقتدار کے حصول اور اس کے دوام کے لیے خوشنودیوں کے طلب گار بن کر دین و ملت کا جنازہ اپنے ہی کندھوں پر ہر روز نئے قبرستانوں تک کب تک پہنچاتے رہیں گے۔ کاش کہ کوئی عالم عرب کے ان عالی جاہوں کو دور خلافت کے آخری خلیفہ سلطان عبدالمجید کا ہی بیان پڑھ کر سنادیتا تو ان کے اندر کی سوئی ہوئی غیرت بیدار ہوجاتی۔ بصورت دیگر حالات کے تیور تاریخِ اندلس دہرانے کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں جو تاریخ اسلامی کا بڑا ہی ہولناک اور عبرت ناک باب ہے۔ 

0 comments:

ہیں رقص میں بلائیں مضافات و شہر میں (قسط اول)


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

اسلام کے نزول سے ہی یہود و نصاریٰ اس کے ازلی دشمن رہے ہیں، دن رات وہ اسی ادھیڑ بن میں رہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو کس طرح اپنے جال میں پھانس کر ان کی زندگیاں اجیرن کردیں۔ جو لوگ حالات و واقعات پر نظر رکھتے ہیں وہ یقیناًاس بات کی گواہی دیں گے۔ گزشتہ چند دہائیوں قبل یوروپی ممالک کے وزرائے خارجہ اور ارباب فکر و دانش نے ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے اختتام پر شرکاء نے یہ قرار داد پاس کی تھی کہ ’’ایک ایسی ریاست جو عرب اور مسلمانوں کے حوالے سے ازلی دشمن ہو، جو مغرب کی صحیح معنوں میں وفادار بھی ہو اور پروردہ بھی، اسے نہرسوئز کے مشرق میں قائم کیا جاناچاہیے تاکہ عربوں کو ہمیشہ کے لیے متفرق و پراگندہ رکھا جاسکے۔‘‘ لیکن اس وقت اس قرارداد پر عمل درآمد کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ کا باعث بنا وہ مسلمانوں کا نظام خلافت تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے اسے زمین بوس کرنے کی کوشش کی گئی۔ 1922 میں جب سلطان عبدالمجید خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو قصر خلافت مخدوش ہوچکا تھا اور خلافت کے دشمنوں کی ریشہ دوانیاں عروج پر تھیں۔ اس دور میں جب سلطان عبدالمجید کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آئی تو خلیفہ کولارڈ ہرڈرل نے یہ پیشکش کی کہ وہ کچھ مال و دولت کے عوض فلسطین کو فروخت کردیں، اس پر سلطان نے کہا کہ ’’فلسطین میری ذاتی ملکیت نہیں کہ میں اسے فروخت کرتا پھروں، میری لاش کے ٹکڑے ہونا اس سے بہتر ہوگا کہ میں اسلامی ریاست کے ٹکڑے ہوتے دیکھوں، ہاں خلافت ختم ہوگئی تو فلسطین تمہیں مفت ہی مل جائے گا۔‘‘ 
تاریخ گواہ ہے کہ 1924 میں خلافت کے خاتمہ کے چند برس بعد ہی اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آگیا جس کا اولین مقصد مشرق وسطیٰ کے وسائل پر قبضہ کرنا تھا جو دنیا کے 60 فیصد وسائل کی مالک مسلم ریاستیں ہیں۔ اس ناجائز قبضہ کے باعث ہی عرب اسرائیل میں کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ لگانے اور اس کے نزدیک کھدائی کرانے جیسے مذموم اور شرمناک واقعات نے پوری مسلم دنیا کو سوچنے پر مجبور کردیا، جس کے باعث ہی مسلم ممالک کو مشترکہ پلیٹ فارم دینے کے لیے اسلامی کانفرنس تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ اور جس کے مقاصد و نصب العین میں یہ بات واضح طور پر درج کی گئی کہ فلسطین اپنے حقوق اور خطہ کی آزادی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، ان کی کوششوں میں بھرپور مدد و معاونت کی جائے گی۔ لیکن افسوس کہ فلسطینیوں کی صورت حال میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ یہ کہا جائے کہ پہلے کے بہ نسبت کہیں زیادہ ابتر و بدتر ہوگئی ہے تو یقیناًغلط نہ ہوگی۔ یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ فلسطین کی وہ تنظیمیں بھی جو اس کے کاز اور جدوجہد آزادی کے لیے معرض وجود میں آئیں وہ بھی ناکام ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی جنگ کرنے والی دو اہم تنظیمیں ہیں جن کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ الفتح کے سربراہ یاسر عرفات اور حماس کے روح رواں شیخ یٰسینؒ کی قربانیوں کو کون اور کیسے نظر انداز کرسکتا ہے۔ ان عظیم روحوں کے رخصت ہوجانے کے بعد یہ تنظیمیں کمزور پڑنے لگیں بلکہ انہیں بے اثر بنانے کے لیے ایک دوسرے کو ٹکرا دیا گیا، اس طرح کی مذموم سازشیں اور منصوبہ بند حکمت عملیاں انہیں سازشوں کا حصہ ہیں جو یہود و نصاریٰ نے اول وقت میں تیار کی تھیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہودی لابی دن بہ دن اپنے مقصد کے حصول میں آگے بڑھ رہی ہے اور فلسطینی عوام اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرپا رہے ہیں اور صورت حال سنگین سے سنگین رُخ اختیار کرتی جارہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال مسلم دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے؟ اور پھر مسلم دنیا کا ہی کیا اس معاملے میں عالمی دنیا کا طرز عمل بھی تو کچھ مختلف نہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان نے اپنے دور اقتدار کے آخری دنوں میں یہ ’جرأت مندانہ بیان‘ دے کر واضح کیا کہ جب تک فلسطین کا فیصلہ نہیں ہوگا، مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ یقیناًیہ ایک دہکتی اور چشم کشا حقیقت ہے لیکن اس سارے منظرنامہ میں اقوام متحدہ جیسے ادارے سے کسی بھی طور کی کوئی مثبت توقع فضول ہے۔ کیونکہ یہ ادارہ بھی دیگر اداروں کی طرح مسلمانوں کے تعلق سے بے فیض ہے اور یہ بات بھی کتنی دلچسپ ہے کہ ایسے اداروں اور سپرطاقتوں کے سربراہوں کے اقتدار کے دن جب پورے ہو رہے ہوتے ہیں تو انہیں اس وقت ہی سچائی نظر آتی ہے۔ بہرحال ان سے ہی کیا خود جب اپنے ہی اپنے نہیں تو دوسروں سے کیا شکایت؟ OIC جسے قائم ہی مسلم دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا گیا تھا آخر اسے کیا ہوگیا ہے جو اسے کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟ 
OIC اس وقت تقریباً 103 ملین مسلمانوں کے حقوق کی ترجمان ہے۔ اس کے ممبروں میں مشرق وسطیٰ، شمالی، مغربی افریقہ، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر کے ممالک شامل ہیں۔ اس کے قیام کو لگ بھگ چالیس پینتالیس سال کا عرصہ گزرگیا ہے اور ہر کانفرنس میں فلسطین پر مظالم کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کی جاتی رہی ہیں لیکن یہ قراردادیں معصوم و مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام کو نہ روک سکیں اور نہ ہی ان کے جمہوری حقوق انہیں دلواسکیں۔ کیا محض قراردادیں ہی امت مسلمہ کے سلگتے مسائل کا حل ہیں؟ آج پورا عالم اسلام یہود و نصاریٰ کے گھناؤنے عزائم اور منصوبوں کے جال میں پھنس کر تڑپ رہا ہے اور مسلم حکمراں عیش و عشرت کے محلوں میں تو محوِ خواب ہیں یا پھر اپنے اقتدار کے دوام کے لیے ان طاقتوں کے فریب میں ہیں جو عالم اسلام کے ازلی دشمن ہیں۔ ظاہر ہے جب ایسے حالات ہوں گے تو ایک نہ ایک دن ان محل نشینوں کو بھی انہی حالات سے گزرنا پڑے گا جن سے آج عالم اسلام کا بچہ بچہ دوچار ہے۔ 

مسلم دنیا میں یہ تلخ حقیقت وقت گزرنے کے ساتھ عیاں ہوتی گئی ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ غیر ملکی طاقتیں نہیں بلکہ مسلمانوں پر مسلط وہ حکمراں ہیں جو غیر ملکی طاقتوں کے آلۂ کار کے طو رپر کام کر رہے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو اسلامی کانفرنس تنظیم اب تک عالم اسلام کا نقشہ ہی بدل چکی ہوتی۔ لیکن وہ کچھ اور کیا کرتی اپنے گھسے پٹے اعلامیوں پر بھی عمل نہیں کرسکی۔ آج سے چالیس پینتالیس برس قبل اسلامی چوٹی کانفرنس کے اعلان مکہ میں جن عزائم کا اظہار کیا گیا اس کا عملی اظہار آج تک کسی بھی مسلم ملک میں نظر نہیں آیا۔ جہاں بھی اور جس ملک میں بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا گیا، یا توڑا جارہا ہے، وہاں وہاں کے نہتے معصوم عوام خود ظالموں سے نبرد آزما ہیں۔ مسلم حکمراں اگر حقیقی کردار ادا کرتے تو عام مسلمانوں کو کسی جدوجہد کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کتنی حیرت و شرم کی بات ہے کہ سارے عرب ملکوں کی فوجیں مل کر بھی فلسطین کو آزاد نہ کراسکیں اور ہر روز فلسطینی مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے جسے مسلم حکمراں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہے ہیں۔ بوسنیا، ہرزیگونیا میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا اور بالآخر بوسنیا کے حصے بخرے بھی ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ ان مسلم حکمرانوں نے کیا کیا جو عالمی کانفرنسوں میں بہت کچھ کرنے کے عزائم اور اعلامیے جاری کرتے رہتے ہیں۔ 

0 comments: