عالم اسلام میں منافقین کا کردار
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
مشہور محاورہ ہے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ مسلمانوں میں یہی بھیدی منافق کہلاتے ہیں۔ کیوں کہ یہ لوگ بہ ظاہر مسلمان ہوتے ہیں مگر عملاً کافر۔ ابتدائے اسلام سے ہی یہ بھیدی یہود و نصاریٰ کے لیے بڑی اہمیت رکھتے رہے ہیں کیوں کہ یہی لوگ مسلمانوں کے اندرونی حالات اور سرگرمیوں سے اسلام کے کھلے دشمنوں کو آگاہ رکھنے میں پیش پیش رہے ہیں اور بسا اوقات شدید نقصان بھی پہنچایا ہے۔ چوں کہ یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں اس لیے وہ منافقین کے ذریعے ہمیشہ ہی اپنے مقاصد اور عزائم کی تکمیل کرتے رہے ہیں۔
اسلامی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں وہ منافقین کے کرتوت کی گواہی دیں گے کہ کب کب اور کن کن حالات اور موقعوں پر گھر کے بھیدی کا رول ادا کیا ہے۔ فرانس کی سرزمین پر اکتوبر 732ء میں ہونے والی تاریخ ساز جنگ لڑی گئی تھی، جب مقابل فوجوں کے مابین رن پڑا تو اس وقت بھی انہیں منافقین کی بدولت اسلامی انقلاب کی پیش قدمی رک گئی تھی جس کے نتیجے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ مسلمان اگر یہ جنگ جیت جاتے تو پیرس اور لندن میں گرجا گھروں کی جگہ مسجدیں نظر آتیں اور وہاں کی عظیم دانش گاہوں میں بائبل کی جگہ قرآن مجید کی تفسیر پڑھائی جارہی ہوتی۔ سید امیر علی لکھتے ہیں ’’طورس کے میدانوں پر عربوں نے اس وقت عالمی سلطنت گنوادی جبکہ یہ ان کی مٹھی میں تھی۔ حکم عدولی اور باہمی انتشار و خلفشار جو مسلم معاشرے کا ابدی ناسور اور لعنت رہے ہیں، اس تباہی کے سبب بنے۔‘‘ اور منافقین کی بن آئی۔
دولت کی ہوس اور باہمی انتشار نے کام دکھایا، ان کوتاہیوں اور غلطیوں نے کہاں کہاں ملت اسلامیہ کا راستہ نہیں روکا، کیا کیا زخم نہ کھائے۔ ہم نے جہاں بھی شکست کھائی مڑکے دیکھا تو کمین گاہوں میں کچھ اپنے ہی نظر آئے۔ حرص وہ بلا ہے جو انہیں یہ سوچنے کی مہلت تک نہیں دیتی کہ بے حد و بے حساب دولت کس کام آئے گی۔ خاص طور پر جس کے انبار غیر ملکی بینکوں میں کھولے گئے چوری چھپے کھاتوں میں دھرے ہیں باہمی خلفشار بھی کہاں کم ہوا، کس نے کس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا، اپنے پرائے جس کا جہاں داؤ لگا وہ موقع پاتے ہی اپنے کرم فرماؤں پر چڑھ دوڑا، اقتدار تو دولت سے بھی بری بلا ہے۔ ان تمام عوامل کے پیچھے کون لوگ ہیں یہ ہمیں بہرحال سوچنا چاہیے۔
جوں جوں ہماری مرکزی طاقت خواہ وہ خلافت کی شکل میں تھی یا بعض خطوں میں بادشاہت کے روپ میں براجمان تھی، کمزور پڑنے لگی تو ناچاقی اور انتشار نے سر اٹھایا اور ہر طرف یورشیں برپا ہونے لگیں، چھوٹے بڑے راجواڑے وجود میں آنے لگے، وسائل بکھرتے گئے اور مرکزی حکومت کا دائرہ اختیار سکڑتا گیا۔ آخری خلیفہ عباسی مستعصم ہوں یا آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر، دونوں ہی ہوا کا جھونکا آتے ہی تنکوں کی طرح بکھر گئے۔ ایک بے بسی کے عالم میں تاتاریوں کے گھوڑوں کے سموں تلے روندا گیا، دوسرا پابجولاں وطن سے سینکڑوں میل دور رنگون میں حوالہ زنداں ہوا۔ ظفر تو شاعر تھے، شکست و محرومی کا اظہار کرگئے، انہیں دفن کے لیے ’کوئے یار‘ میں دو گز زمین نہ ملنے کا نوحہ کہنے کی مہلت تو مل گئی۔ خلیفہ المستعصم بے چارگی میں دوقدم آگے ہی نکلا۔ کہتے ہیں اپنے مصاحبوں کے ہمراہ جب وہ اپنے آپ کو تاتاریوں کے حوالے کرچکا تو اسے ہلاکو خان کے حضور پیش کیا گیا۔ ہلاکو نے سونے کی کچھ ڈلیاں اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’انہیں کھاؤ‘ مجبور قیدی نے پریشان ہوتے ہوئے عرض کیا۔ ’سونا کھایا نہیں جاتا‘ جواب ملا ’پھر ڈھیروں جمع کیوں کر رکھا تھا۔ اگر ہمیں بھجوا دیا ہوتا تو آج عیش و آرام سے جی رہے ہوتے، ایسا نہیں کرنا تھا تو اپنے دفاع کے لیے خرچ کیا ہوتا۔‘ مذکورہ بالا واقعات و حالات میں سمجھنے کے لیے بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ مال و دولت اور اقتدار کی ہوس کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔ اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی اس کے امرا اور حکمرانوں میں عیش و عشرت اور اقتدار کی ہوس نے جگہ بنائی ہے خود بھی رسوا ہوئے ہیں اور ملت کو بھی رسوا کیا ہے۔ ایسے ہی حالات میں منافقین اور گھر کے بھیدیوں نے بھی نہ معلوم کتنی بار لنکائیں ڈھائی ہیں۔ آج بھی عالم اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پس پشت بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔
اہل سیاست میں آج کل ایک نئی سوچ ابھر رہی ہے کہ قارون کا خزانہ جب تک پاس نہ ہو تو اقتدار تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہ مفروضہ انتہائی خطرناک کھیل کو جنم دے رہا ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہوجاتی ہے جس میں حصول مقصد کے لیے سب کچھ روا ہے۔ بدعنوانی، رشوت، چور بازاری، رہزنی اور اسی قبیل کی دوسری بلائیں سیلاب کی صورت میں امڈ آتی ہیں جس سے ملک ہی نہیں پورا معاشرہ ہی غیر مستحکم ہوجاتا ہے۔ اقتدار میں آنے والے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کار خیر میں ایک دوسرے کو مات دینے کی فکر میں رہتے ہیں۔ نجی محفلوں میں کھلے بندوں یہ تذکرہ کہ فلاں بازی مارگیا اور فلاں پیچھے رہ گیا۔ یہاں تک کہ قلم دانوں اور وزارتوں کی بھی قیمت لگنے لگتی ہے، ظاہر ہے جب ایسی صورت بنے گی تو وہی ہوگا جو آج کل آپ کے سامنے ہے۔ کہیں کسی کو سکون نہیں، نہ عوام کو نہ حکمرانوں کو، سبھی اپنی اپنی جگہ بے چارے ہیں۔
سیاست ایک بہتا دریا ہے جس کا پانی کبھی اتنا صاف و شفاف تھا کہ اس کے کناروں پر کھڑے درخت جھک جھک کر اس میں اپنا عکس دیکھتے تھے۔ صاف ستھرے وضع دار لوگ جنہیں اپنی عزت کا پاس تھا، ملک و قوم کی خدمت کے لیے اس میدان میں اترتے تھے، شرافت و متانت، عوام کی خیر خواہی اور کار ثواب کی تمنا ان کے لیے زادراہ ہوتی تھی۔ اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے، دولت مند ہوں یا نہ ہوں دل کے غنی ہوتے تھے۔ ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی کہ وہ خدمت خلق کے عوض کوئی مالی فائدہ اٹھائیں۔ بڑے ہی غیور اور پاک طینت لوگ تھے۔ اللہ رحمت فرمائے ان عظیم ہستیوں پر جو ہمیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرگئے۔ حرص و ہوس کی زنجیروں کو اگر وہ نہ توڑتے تو منزل مراد تک نہ پہنچتے۔ بہت پہلے بک گئے ہوتے۔ خریداروں کی نہ آج کمی ہے نہ اس وقت تھی۔ مال بکاؤ ہو تو خریدار بہت۔ ڈرانے والے اس دور میں بھی بہت ہیں، اس وقت بھی بہت تھے۔
عالم عرب میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اصل سبب یہی ہے کہ وہاں کے حکمرانوں میں خوف خدا سے کہیں زیادہ خوف امریکہ ہے۔ اسی کے اشاروں اور حکموں پر اپنے اپنے ملکوں میں حکمرانی کرتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ ملک و قوم کا کیا اور کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ نے دنیا بھر میں اپنی مرضی چلانے کے لیے ایک ایسا عالمی نظام قائم کیا ہے جس کے ذریعے عالم اسلام پر جارحیت اور سفاکیت کا مظاہرہ کر رہا ہے جس سے افغانستان، عراق، لیبیا، شام و یمن وغیرہ تو بھگت ہی رہے ہیں اور بھی نہ معلوم کتنے اس کے نشانے پر ہیں۔ پھر بھی وہ اپنے رویے میں کوئی تبدیلی لانا نہیں چاہتے تو انہیں بھی ایک نہ ایک دن خلیفہ مستعصم اور بہادر شاہ ظفر جیسے حالات سے گزرنا ہی پڑے گا۔
منافقین اور گھر کے بھیدی سب کے سب اپنے اپنے فریضے انجام دے رہے ہیں لیکن اگر کوئی اپنا فریضہ انجام نہیں دے رہا ہے تو وہ ہے مسلمانوں کا حکمراں طبقہ۔ یا پھر خود امت مسلمہ۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ ہماری صفوں میں وہ منافقین بھی شامل ہیں جو اپنی آستینوں میں بُت چھپائے ہمارے ساتھ اس لیے سربسجدہ ہیں کہ ہم انہیں اپنا مسلم بھائی سمجھیں اور وہ اپنے بھائیوں میں پہنچ کر ہمارا مذاق اڑائیں، تو ایسے میں ہم پر کیا فرض نہیں کہ ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہم بھی رفع یدین شروع کردیں۔
0 comments: