عراق کے مسئلہ میں ہماری بعض مسلم تنظیموں کا افسوسناک رویہ

بے شک اس وقت عالم اسلام ایک نازک دور سے گذر رہا ہے ۔سوائے چند ایک مسلم ملکوں کے کہیں بھی امن و امان نہیں ہے ۔پچھلی دو دہائیوں سے خاص طور پر مسلم ملکوں کو نشانہ بنانے کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔ یہ اس وقت سے ہے جب نیو ورلڈ آرڈر کی شروعات کی گئی تھی جو کہ اسرائیل نے امریکہ کے کاندھوں پر سوار ہو کر کیا تھا ۔کسی بھی معاملے میں ہماری صفوں سے امریکہ کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور یہ کچھ حد تک درست بھی ہے کیوں کہ افرتفری پیدا کرنے میں دوسرے ملکوں کو روندنے اسے نقصان پہنچانے میں صف اول میں جو نظر آتا ہے وہ امریکہ ہی ہے ۔اس سے قبل روس بھی ہوا کرتا تھا ۔اور روس نے جن مسلم جمہوریاؤں کو اپنے توسیعی عزائم کا نشانہ بنایا،تاریخ گواہ ہے کہ اس نے چنگیز اور ہلاکو کو بھی شرمسار کر دیا ۔روس نے مسلم جمہوریہ کے سارے ممالک پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں مسلمانوں کی شناخت تک کومٹادیا ۔کوئی مسلمان نہ تو داڑھی رکھ سکتا تھا اور نہیں اس کی پیشانی پر نماز پڑھنے کے نشان نظر آنے چاہئے تھے ۔قرآن کو دریا برد کردیا گیا یا جلا دیا گیا ۔لیکن اللہ تعالیٰ اپنے دین کو قیامت تک باقی رکھے گا سو وہاں پھر اسلام ابھر رہا ہے ۔بہر حال ہمیں فی الحال عراق اور اس کے مسائل پر بات کرنی ہے ۔عراق پچھلی دو دہائیوں سے زیادہ سے سرمایہ دارانہ جارحیت (جس کا پشت پناہ اور مربی اسرائیل ہے )کا شکار ہے اس کا بہانہ اس وقت تلاش کیا گیا تھا جب عراق اور کویت کے سرحدی تنازعہ میں عراق نے کویت پر قبضہ کرلیا تھا۔اس کے بعد نام نہاد ۱۱؍ستمبر کے واقعہ کے بعد اسے پھر سے نشانہ بنایا گیا اور اس بار عراق کو پوری طرح تباہ و برباد کرکے وہاں اسرائیلی امریکی جمہوریت نافذ کردیا گیا ۔اس جمہوری حکومت میں کیا ہوتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔نام تو اس کا جمہوریت ہے لیکن اس کی آڑ میں آمریت کو فروغ دیاجارہا ہے۔نوری المالکی اسی نام نہاد جمہوریت کی دین ہیں ۔اور ابھی حال میں مصر اور اس کے بعد شام میں بھی اسی جمہوری عمل کے طفیل عوام الناس کے قاتل السیسی اور بشار الاسد حکمراں منتخب ہو گئے ۔مصر میں السیسی نے ہزاروں اخوانیوں کا قتل عام کیا اورمساجد کو آگ کے حوالے کیا ۔جب دنیا سنت ابراہیمی ادا کررہی تھی تب مصر میں اخوان اپنے عزیزوں کی قربانی پیش کررہے تھے ۔اور یہ سب کچھ سعودی حکمرانوں کی شہ پر انجام دیا گیا ۔شام میں بشارالاسد پچھلے تین سالوں سے عوامی تحریک کو اپنی فوجی قوت اور ایران کے اشتراک سے کچل رہا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دولاکھ سے زائد نفوس کا قتل عام کیا جاچکا ہے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ شام میں ایران کی مداخلت اور حزب اللہ کے راست مداخلت کی وجہ سے وہاں عوامی تحریک کو وہ کامیابی نہیں ملی جس کے واضح اشارے تحریک کے شروع کے دور میں ملنے لگے تھے ۔حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ ایک دو روز یا چند ثانیوں میں بشار شام سے فرار ہی ہونے والا تھا کہ ایران اور حزب اللہ کی مداخلت سے پانسہ پلٹ گیا ۔واضح ہو کہ حز ب اللہ وہی ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ ٹکر لے کر مسلم امہ کے درمیان اپنا وقار بہت بلند کرلیا تھا ۔حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب تک میں اس کو چاہنے والوں کی بڑی تعداد ہو گئی تھی۔یہ وہی دور تھا جب احمدی نژاد بھی صرف عالم عرب ہی نہیں پورے عالم اسلام کے ہیرو کے طور پر ابھرے تھے ۔لیکن مسلم امہ کی بد نصیبی ہے کہ جس کوانہوں نے ان کے کارناموں کی وجہ سے اپنے دلوں میں جگہ دیا تھا ۔وہ بہت ہی کم نظر نکلے اور شام میں ایک ظالم ڈکٹیٹر کی حمایت کرکے مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرکے دکھ دیا ۔
دولت اسلامیہ عراق و شام نامی جس تنظیم کا نام ابھی عراق والے معاملے میں آرہا ہے اور جس کی پیش قدمی سے ہمارے درمیان کے ہی وہ بظاہر ہمارے خیر خواہ نظر آنے والے دوست اور بھائی زیادہ خوف زدہ ہیں ۔میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں سے یہ پتہ چلے کہ داعش نے عراق میں پہنچ کر شیعوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا ہے یا وہاں کے مقامات مقدسہ کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔لیکن مجھے کوئی ایسا پختہ ثبوت یا اشارہ بھی نہیں مل سکا ۔لیکن یہاں ہندوستان میں کچھ لوگوں نے اتنی بے چینی پھیلائی کہ آخر کار لکھنوء میں کچھ تناؤ پیدا ہو ہی گیا جس پر باشعور طبقہ نے قابو پالیا ۔پچھلے دوسالوں سے ہندوستان میں شام کے تعلق سے افواہ پھیلانے کا مشغلہ زوروں پر ہے اور یہ افواہ براستہ ایران ہی یہاں داخل ہوا ۔اس میں کئی بار ایسی باتیں سامنے آئیں کہ کسی صحابیؓ یاکسی بزرگ ؒ کے مزارات کھود دئے گئے اور ان کی نعشوں کے ساتھ بے حرمتی کی گئی ۔لیکن اس کی توثیق کسی معروف ذرائع سے آج تک نہیں ہو سکی ۔جبکہ جنگ زدہ علاقوں میں اور پھر جہاں سرکاری فوجوں اور عام گوریلوں سے جنگ جاری ہو وہاں کے بارے میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کیوں کہ جن سے جنگ جاری ہے وہ لوگ زیر زمین ہیں ۔ان کا کوئی دفتر کوئی پتہ وغیرہ تو ہوتا نہیں ہے۔اس کا فائدہ مخالف سرکاری عوامل اٹھایا کرتے ہیں اور اپنی کشتی گرداب میں پھنستی دیکھ کر اسی طرح کی اوچھی الزام تراشی پر اتر آتے ہیں ۔اس دور میں ویسے بھی تمام طرح کی جنگیں میڈیا کے ذریعے لڑی اور جیتی جارہی ہیں ۔اسی لئے ڈکٹیٹر جب عوامی مخالفت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں کر پاتے تو ان کے قائدوں کی تضحیک اور ان کی کردار کشی شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے ان سے نفرت کرنے لگیں کیوں کہ عوام الناس اپنے قائد کو بے داغ جری اور بہادر دیکھنا پسند کرتی ہے ۔یہی سبب ہے کہ ہمارے دلوں میں حضرات صحابہ کرام اور خلفاء راشدین سمیت دیگر بزرگان دین کی عظمت اور بزرگی راسخ ہے ۔
داعش کی پیش قدمی سے ایسا لگا جیسے ہندوستان میں بھونچال آگیا ہو ۔کچھ لوگ تو جان بوجھ کر ان کے خلاف صف آرا ہو گئے لیکن کچھ لوگ اور تنظیمیں بغیر جانے بوجھے کہ یہ داعش کیا ہے اور کیوں ہے؟اور کیوں اس نے عراق میں مورچہ کھول دیا ہے ۔اپنی غلط سلط بیان بازی سے اسی طرح مسلمانوں کو انتشار میں مبتلا کیا جس طرح الیکشن سے قبل مودی آجائے گا ،مودی آجائے گا، کا شور کرکے کانگریس کی حمایت کا شور بلند کیااور مسلم ووٹوں کو منتشر کرکے رکھ دیا ۔اس بہاؤ میں وہ لوگ بھی بہے چلے جارہے ہیں جن کے بارے میں آج بھی یہ بھرم قائم ہے کہ یہ دانشوروں کا طبقہ ہے اور مسلمانوں میں واحد ایسا گروہ ہے جس کے بارے میں عوامی رائے ہے کہ سنجیدہ لوگو ں کی تلاش یہیں آکر ختم ہوتی ہے ۔لیکن وہ بھی بھرم توڑتے ہوئے نظر آئے ۔اگر ہمیں معلوم نہیں کہ کس ملک میں کیاہو رہا ہے اور اس کی سیاسی صورتحال کیا ہے؟ تو کیا ہم خاموش نہیں رہ سکتے کیا ضروری ہے کہ چند لوگوں کو خوش کرنے کیلئے کچھ بھی الٹا سیدھا بیان دیا جائے ۔کیا اس سے ہمارا وقار مجروح نہیں ہو رہا ہے ۔ایک بھرم ہی تو ہے، کیا اب ہم اسے بھی توڑنے پر آمادہ ہو چکے ہیں ۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ چند گھسے پٹے اور مفروضوں کو چھوڑ کر حقائق کا ادراک کریں ۔دنیا میں بدلتے جغرافیائی اور سیاسی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے مطابق بولیں اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو خاموش رہیں۔کیوں کہ نبی ﷺ کا رشاد ہے کہ ’’جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا‘‘۔

نہال صغیر ۔ ایکتا نگر ۔ کاندیولی (مغرب) ممبئی 400067 موبائل : 9987309013

0 comments:

عراق کا موجودہ بحران


اوبامہ نے امریکہ کے منصب صدارت پر متمکن ہونے کیلئے اپنی انتخابی سرگرمیوں کے دوران جو سب سے اہم وعدے امریکی عوام سے کئے تھے وہ تھا امریکی فوجیوں کی واپسی کا ۔عہدہ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیا ۔اسی کے تحت عراق سے امریکی فوجیوں کی واپسی بھی ہوئی تھی ۔ اور افغانستان سے عنقریب امریکی فوجیں واپس ہو جائیں گی۔ان کا ایک وعدہ امریکی قید خانوں کو بند کروانا بھی تھا جو حقوق انسانی کے لئے سرگرم کارکنوں کی تنقید کی زد میں تھالیکن وہ اپنے اس وعدہ کو پورا نہیں کر پائے ۔دراصل امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ امریکہ صہیونیوں کے دباؤ میں اسلامی قوتوں کو کچلنے اور مسلم ممالک کی دفاعی ،جغرافیائی،معاشی پوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے نئے نئے حیلے اور بہانوں سے ایک کے بعد ایک مسلم ملکوں کو اپنی فوجی قوت کے زعم میں کچلتا چلا گیا جس سے اسکے دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا اور خلیج کے اپنے شاہی ایجنٹوں کے خزانوں کے منھ کھول دینے کے باوجود اپنی معاشی بربادی کو نہیں روک پایا حد تو یہ ہو گئی کہ ایک امریکی شہرڈیٹرائٹ اس حد تک دیوالیہ ہو گیا کہ اس کی آدھی سے زیادہ آبادی شہر کو خالی کرکے دوسرے شہروں میں جا بسی ۔وہاں کی شہری انتظامیہ کے پاس بجلی اور پانی جیسے بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لائق بھی رقم نہیں رہی۔مذکورہ شہر کی آبادی جو 1950 میں1850000 تھی وہ 2013 میں صرف 701000 رہ گئی تھی ۔
اوپر جن حقائق کو بیان کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عراق کی موجودہ صورت حال یعنی عراق کے اہم شہروں پر دولت اسلامیہ عراق و شام کے قبضہ کے بعد نو ری المالکی کی امریکی انتظامیہ سے مدد کی اپیل پر امریکہ ایک بار پھر عراق میں اپنی فوجیں اتار ے گا اور نو ری المالکی کی جنگ امریکہ لڑے گا یہ محض ایک خیال ہے۔اور اگر ایسا ہوگیا جس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں تب امریکہ شاید اپنے آخری انجام کو پہنچ جائے ۔یہ آخری انجام کیا ہوگا اس کو حالات کے بدلتے تناظر میں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔اتنا تو ہو سکتا ہے کہ امریکہ عراقی فوج کی کچھ ہتھیار اور زیر زمین تخریبی سرگرمیوں سے کچھ مدد کرد ے جو کہ امریکی سی آئی اے نے موساد کی مدد سے مسلم ملکوں سے اہم سائنسدانوں اور اہم فوجی افسروں کو خفیہ طور پر قتل کرکے ماضی میں بھی انجام دیا ہے اور موساد کے پاس تو آرماگیڈون تک کیلئے اس کا خاکہ موجود ہے ۔ہوا یہ کہ جب امریکہ نے عراق پر حملہ کرکے صدام حکومت کا خاتمہ کردیا اور عراقی فوجیوں کی بچی کھچی قوتوں کو کچل کر رکھ دیا لیکن امریکیوں سے مزاحمت کرنے والوں نے اپنا طرز عمل بدل دیا اور ایک حکمت عملی کے تحت انہوں نے امریکی قیادت میں عراقی فوجیوں میں شامل ہوکر ٹریننگ لی اور با لکل بھی ظاہر نہیں ہونے دیا کہ جس القاعدہ کو ختم کرنے کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے خواب دیکھا تھا انہوں نے نئے روپ میں دولت اسلامیہ عراق و شام کی شکل لے لی ۔جن سے لڑنا عراقی فوجیوں کے بس کی بات نہیں ہے ۔کیونکہ حالات سے پتہ چلتا ہے اس دس لاکھ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو داعش کے وفا دار ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہ خبر آرہی ہے کہ عراقی فوجی چوکی خالی کرتے جارہے ہیں داعش کے رضاکار شہر در شہر قبضہ کرکے اپنی حکومت کا اعلان کررہے ہیں ۔
مذکورہ بالا حالات اور داعش کی پیش قدمی سے سب سے زیادہ انقلاب اسلامی کاعلمبردار ایران خوف زدہ ہے۔اس کی وجہ وہی مسلکی منافرت ہے جس نے امت کو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے اور جس کی وجہ سے امت اپنا وقار کھوتی جارہی ہے ۔تین سال قبل تک تو کسی حد تک ایران سے متعلق لوگوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ ایران واقعی اسلامی انقلاب کا ہر اول دستہ ہے اور وہ امت کی سربراہی کے لائق اور قائدانہ صلاحیت رکھنے والا ملک ہے ۔لیکن یہ خوش فہمی اس وقت کافور ہو گئی جب ایران نے شام میں بشار الاسد کی ظالمانہ کارروائیوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کی مدد بھی کی اور شام کی عوامی تحریک کو کچلنے میں بشار رجیم کی مدد کی ۔اب ایک بار پھر ایران اسی جذبے کے ساتھ نو ری المالکی کی حکومت کو بچانے کیلئے امریکہ کی مدد کو تیار ہے جسے انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی نے شیطان بزرگ کہا تھا ۔اس سے قبل بھی امریکہ جب افغانستان میں شمالی اتحاد کی قیادت میں طالبان کی حکومت کے خاتمہ کیلئے داخل ہوا تھا جب بھی ایران شمالی اتحاد کے ساتھ تھا ۔یعنی امریکہ کی جب بھی ایران نے مدد کی تھی ۔ لیکن اب تک کچھ لوگ اور تنظیمیں ایسی ہیں جو ان حقائق سے آنکھیں بچاکر وہی پرانا راگ الاپتے رہتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی تناظر کو سمجھا جائے ۔محض کسی خوش کن نعروں سے متاثر ہو کر کسی کی ایمانداری اور اسلامی انقلاب کا نقیب نہ سمجھا جائے ۔ایسا ہی کچھ معاملہ سعادی عرب میں آل سعود کا بھی ہے کہ وہ بھی اپنی خاندانی حکومت کو بچانے کی فکر میں شام میں تو عوامی تحریک کی حمایت کرتے ہیں لیکن مصر میں اسی عوامی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی سازش میں شریک ہوتے ہیں۔امت کو ان دونوں جگہوں ہونے والی سیاسی تبدیلی اور ان کے مفادات کا بغور جائزہ لینا چاہئے۔
نہال صغیر  ممبئی 400067
موبائل : 9987309013

0 comments:

میر جعفر، میر صادق کا کردار اور سعودی کی السیسی کوحمایت


فوجی بغاوت کے سربراہ فیلڈ مارشل عبد الفتاح السیسی آخر کار مغربی جمہوریت کی نیلم پری کے طفیل مصر کے عہدہ صدارت پر متمکن ہو چکے ہیں ۔ان کی حلف برداری سے قبل ہی جبکہ ساڑھے ساتھ فیصد ووٹ میں ستانوے فیصد ووٹ حاصل کرکے وہ فاتح قرار پائے تھے ۔اسرائیل نے انہیں مبارکباد پیش کی تھی اسی کے ساتھ ہی سعودی سربراہ عبداللہ بن عبد العزیز نے بھی انہیں فتح کی نوید سننے کے بعد مبارکباد پیش کی تھی ۔تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے شاہ عبد اللہ نے اپنے خاص ایلچی شہزادہ سلمان بن عبد العزیز نے بنفس نفیس شامل ہوکر بڑے گرم جوشانہ انداز میں کہا کہ ’’ان کا ملک ،حکومت اور پوری قوم خادم الحرمین شریفین کی ہدایت کے مطابق مصری قوم کے ساتھ ہے‘‘اسی کے ساتھ انہوں نے آگے کہا کہ سعودی عرب مصر کو اپنا بھائی سمجھتا ہے اور مشکل وقت میں مصر کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔شہزادہ سلمان نے یہ بھی کہا کہ ’’آج کا دن مصر کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کیوں کہ مصری قوم اپنے مستقبل کا فیصلہ اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے لکھنے جارہی ہے ‘‘۔
ہمیں یا کسی کو بھی ایسی باتوں سے جسے عام طور پر سفارتی زبان بھی کہتے ہیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔لیکن اگر اس میں جھوٹ کی آمیزش ہو اندھیرے کو اجالا بنا کر باطل کو حق بنا کر پیش کیاجائے ۔ظالم کو مسیحا بتایا جائے ۔تب خاموش رہنا اور اس پر کوئی تبصرہ نہ کرنا بھی ظالم کی مدد اور باطل کے ساتھی ہونے کے برابر ہے ۔شہزادہ سلمان نے جس انتخاب میں السیسی کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور اس کو مصری قوم کا فیصلہ بتایا ہے ۔اس کی حقیقت دجالی میڈیا کے جھوٹ کے باوجود چھن چھن کر لوگوں تک پہنچ ہی گئی ۔ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ووٹنگ کیلئے دو روز کا وقفہ تھا اور اس میں مصر میں عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا تھا لیکن ان دو دنوں میں بھی ساڑھے سات فیصدی سے زیادہ لوگ ووٹ دینے گھر سے باہر نہیں نکلے تب تیسرے دن الیکشن کو جاری رکھا گیا ۔اور اس کے بعد نتائج کا جھٹ سے اعلان کیا گیا کہ 39% سے 42% ووٹروں نے حق رائے دہی میں حصہ لیا جس میں السیسی 97% ووت لیکر فاتح قرار پائے ۔اس الیکشن کا جس کو منصفانہ اور شفاف ماننے میں بین الاقوامی برادری کے انصاف پسندوں کو تامل تھا جس کا اظہار کئی لوگوں نے کیا بھی تھا ۔یہی سبب ہے کہ اخوان سمیت سبھی اہم سیاسی پارٹیوں نے اس کا بائیکاٹ کیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس انتخاب کو عام طور پر دو گھوڑوں کی ریس قرار دیا گیا ۔موجودہ السیسی کی انتخاب میں کامیابی صرف سات فیصد عوام کا ہی فیصلہ ہے یعنی اکثریت السیسی کو آج بھی باغی ظالم اور یہودی اور صہیونی ایجنٹ کے طور پر ہی دیکھتی ہے ۔جس اسرائیل کو فلسطین کی دو مختلف گروپوں حماس اور الفتح کا اتحاد بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا ہو وہ سعودی حمایت یافتہ السیسی کی جیت سے اتنا خوش کہ اس نے فتح کی مبارکباد دیتے ہوئے یہ امید بھی ظاہر کی تھی کہ اسرائیل اور مصر کے اتحاد سے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا نیز نئی حکومت اسرائیل کے ساتھ ماضی کے سمجھوتے پر عمل درآمد کرے گی ۔یہی اسرائیل ہے جس نے اخوان کی حکومت بننے پرنہ صرف یہ کہ سخت تسویش کا اظہار کیا تھا بلکہ وہ اخوان کے عروج سے سخت خائف تھا ۔ایساہونے کی وجہ بھی ہے کہ یہ اخوان وہی ہیں جو 1948 میں اسرائیل کے خلاف راست طور پر جنگ میں حصہ لے چکے ہیں اور اسے ان کی غیرت اور شجاعت کا ادراک ہے ۔عنقریب تھا کہ اسرائیل کا وجود اسی وقت ختم ہو جاتا لیکن عالمی قوتوں کی مبینہ سازشوں اور مسلمانوں میں پل رہے میر جعفروں اور میر صادقوں کی وجہ سے وہ جنگ ختم ہوئی اور اسرائیل مسلم دنیا میں ایک کینسر کی طرح برقرار ہے ۔اسرائیل امریکہ سے بھی نالاں ہے جس کا اظہار زبانی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر اوبامہ کے اسرائیل کے دورے کے دوران سرد مہری سے کیا ۔سروے رپورٹ بتارہے ہیں کہ یوروپ اور امریکہ میں اسرائیل کو ایک بوجھ سمجھنے والوں کی تعداد اب بہت تیزی سے بڑھتی جارہی ہے جس سے اسرائیل اور بھی خوف زدہ ہے ۔ایسے وقت میں خادمین حرمین شریفین !کی پشت پناہی اور اسرائیلی منصوبوں سے مرسی کی حکومت کا تختہ پلٹاجانا اور ایک اسرائیل نواز جنرل کو چور دروازے سے مصر کا اقتدار سونپ دینا کیا کہانی بتا رہا ہے ۔ امام ابن تیمیہ ؒ کا ایک قول یاد آرہا ہے کہ ’’اگر حق کو نہیں پہچان سکتے تو باطل کی تیروں پر نظر رکھو وہ جہاں لگ رہے ہوں حق وہیں ہے‘‘۔ایک باغی فوجی سربراہ جس نے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا کھلے عام مذاق اڑایا ہو ۔جس نے حقوق انسانی کی پامالی کی بد ترین مثال پیش کی ہو ۔جس کے حکم پر ہزاروں عورتوں مرد وں بچوں اور ضعیفوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہو ۔جس کے حکم پر مسجد میں آگ لگا دی گئی ہو اور ہزاروں مساجد میں تالے ڈال دئے گئے ہوں ۔اس کیلئے اسرائیل اور سعودی حکمراں دونوں کی طرف سے مبارکبار ،جوش اور فریفتگی سے کیا ظاہر ہوتا ہے ۔کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ باطل کا تیر کس کی طرف سے اور کس طرف ہے ۔کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مصر میں اخوان کی قانونی حکومت کا غیر قانونی اور غیر انسانی طریقے سے خاتمہ میں یہود اور سعود کی برابرشراکت ہے ۔اب یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ ان حقیقتوں کی روشنی میں آل سعود کو خادمین حرمین شریفین کہنا کہاں تک درست ہے جبکہ ان کے کارنامہ مسلم امہ کو نفاق میں مبتلا کرنے اور قاتل و جابراور غاصب اسرائیل کو قوت فراہم کرنے والا ہی ہے ۔کیا صرف حاجیوں کی مہمان نوازی ان کے پیسوں سے کرنا اور حج کے انتظامات کرنا ہی ساری خامیوں اور اسرائیل نوازی جیسی لعنت کو دھونے کیلئے کافی ہے ۔ مسلم امہ کو بیسویں صدی کے آخر میں شاہ فہد اور اکیسویں صدی کی ابتداء میں شاہ عبد اللہ نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان شاید ہی کسی سے پہنچا ہو ۔

1 comments:

دنیا میں امن و استحکام کے لئے صرف اسلامی نظام حکومت ہی واحد متبادل ہے


تقریباً دو صدی قبل دنیا میں جمہوریت اورسرمایہ دارانہ نظام کو انسانیت کی فلاح کے لئے ماڈل کے روپ میں پیش کیا گیا تھا۔اور اس ماڈل کے نتائج ہم موجودہ دنیا میں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔اس ماڈل نے انسانیت کی فلاح کا کام اس قدر کیا کہ امیر امیر ہوتا گیا اور بے چارہ غریب ،غریب ہوتا گیا ۔جس دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کے عذاب میں سازشی یہودی اور ان کے ہمنوا دنیا کو مبتلائے آلام کرنے کی فکر میں تھے ۔ٹھیک اسی وقت مغرب نے جمہوریت کی نیلم پری کو بھی دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔جمہوریت میں جو تھوڑی سی خوبیاں تھیں اسے خوب عیاں کرکے عام لوگوں کو بتایا گیا۔جمہوریت کو ایک خوبصورت پردے کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ۔اس خوبصورت حسینہ کو پیش کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ لوگ باگ اس کی دلفریبی میں سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کو بھول جائیں ۔تاکہ انہیں غریب عوم کو لوٹنے کا بھر پور موقع مل سکے۔یہ لو گ اپنے اس قبیح مقصد میں دو صدی سے زیادہ کامیاب رہے۔لیکن بہر حال عوام کا ایک طبقہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو کچھ حد تک سمجھ گیا ،جس کے رد عمل کے طور پر اشتراکی تحریک کا ظہور ہوا۔اس وقت سے سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیوں میں کشمکش شروع ہوئی کہ بالآ خرسقوط سوویت روس کی صورت میں اشتراکیت نے دم توڑا۔اس کے سارے قلعے ایک ایک کرکے زمین بوس ہوگئے ۔ وجہ تھی اس کا غیر فطری ہونا ۔ان تینوں نظاموں کی وقتی کامیابی کی واحد وجہ تھی کہ اس وقت بحیثیت مجموعی مسلم مملکتیں زوال پذیر تھیں ۔کوئی سی مسلم مملکت رہی ہو جو یہودیوں کی پروردہ نام نہادجمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام کی دست برد سے محفوظ رہی ہوں ۔مسلمانوں میں بھی مسلکی علاقائی اور لسانی عصبیت عروج پر تھیں ۔منافقین کے عروج کا زمانہ تھا لارنس آف عربیہ کی شکل میں ان میں کئی منافقین موجود تھے تو غداروں کی بھی ایک جماعت عالم اسلام کے مضبوط قلعوں میں سیندھ لگانے میں مصروف کار رہی،جن کے سر خیل میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ تھے۔چونکہ ان ساری ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اسلام کی طرف سے اس کا دفاع کمزور تھا ۔ نتیجتاًاس درمیان دنیا میں تین باطل تحریکوں کو پنپنے کا موقع مل گیا ۔ اشتراکیت تو خیر سے ستر پچھتر سالوں میں ہی اپنی موت آپ مر گئی۔مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام بھی بہت جلد تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہو جائیں گے۔ویسے بھی مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کا تحفظ حاصل ہے ۔
اب گاہے گاہے مغربی جمہوریت کی ناکامی پر آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔چنانچہ مشہور صحافی کلدیپ نیر اپنے ایک ہفتہ واری کالم کے شروع میں ہی لکھتے ہیں کہ ’’بد نصیبی سے پورے جنوبی ایشیا میں جمہوریت ناکام ہو چکی ہے‘‘۔لیکن انہوں نے صرف جنوبی ایشیا کا ہی تذکرہ کیا ہے جبکہ یہ عالمی تناظر میں ناکام طرز حکومت ہے ۔ جس نے عوام الناس کو غربت و جہالت میں دھکیلا ہے ۔محض چند لوگوں کو عیاشی فراہم کرایا ہے ۔ایک حالیہ سروے کے مطابق بھی دنیا کے پچاسی فیصد سے زیادہ وسائل پر صرف دس فیصدسے بھی کم امیر لوگوں کا قبضہ ہے۔لیکن چونکہ میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ پر وہ پوری طرح حاوی ہیں اس لئے وہ تصویریں ہمیں اب دکھائی نہیں جاتیں جس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔آج سے کوئی تیس پینتیس سال قبل تک اخبارات میں افریقہ اور دیگر ایشیائی ممالک میں بھکمری کی ایسی دردناک تصاویر شائع ہوا کرتی تھیں کہ پتھر دل انسان بھی رنجیدہ ہو جائے ۔لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیا ،جس سے کہ انسانیت کا اصل مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ۔اب ہر جگہ سے جنگ و جدل کی خبریں دہشت گردانہ حملوں کے خطرات کی جھوٹی خبریں ہی چھائی رہتی ہیں ۔لیکن افریقہ جس کو سرمایہ داروں نے اپنی لوٹ مار کا اڈہ بنا رکھا ہے وہاں سے بھوک سے مرتے لوگوں کی تصاویر اور نہ ہی خبریں اخبارات یا نیوز چینل کی زینت بنا کرتی ہیں ۔اب گلیمر یعنی جنس زدہ اور جانوروں کو شرمسار کرنے والے بیہودہ پروگرام اور سلیبریٹی کی نیم برہنہ تصاویر ان کے شب وروز اور ان کی مصروفیات ہی ان کی توجہ کا مرکز ہے ۔کہا ہی گیا ہے کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے ۔وہ جمہوریت جس کے بارے میں 1908 میں برطانیہ کے گورنرجنرل برائے مصر لارڈ کرومر نے اپنی کتاب ’’ماڈرن ایجپٹ ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے ’’جونہی دانشوروں اور سیاستدانوں کی ایک نسل انگریزی تعلیم کے ذریعے انگریزی کلچر کے آئیڈیل کی حامل پیدا ہو جائے گی انگلینڈ اپنی تمام کالونیوں کو سیاسی آزادی دے دیگا لیکن کسی بھی صورت میں برطانوی حکومت ایک لمحے کے لئے بھی خود مختاراسلامی ریاست برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ‘‘۔ یہ ہے یہود نواز مغرب کا اصلی چہرہ اسے وہ اسلام نہیں چاہئے جو زندگی کے سارے معاملات کی نگرانی اور اس میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے ۔اسے تو صرف مساجد کی حد تک اسلام چاہئے ۔اور یہ اس لئے ہے کہ اگر اسلام کا پورا نظام غالب آگیا تو سود طبقہ جو عالم انسانیت کا خون پی کر تندرست و توانا ہوا ہے اس کا کیا ہوگا۔
آج عالم اسلام میں ایک بیداری اور خاندانی اور موروثی اجارہ داری سے بیزاری بڑی تیز رفتار سے بڑھ رہا ہے۔اس کی شروعات تیونس سے ہوئی لیکن اپنے ذہن کو ہم ذرا وسعت دیں تو اس کی شروعات ایران کے اسلامی انقلاب سے ہو گئی تھی۔پراس بیچ زیادہ وقفہ کی وجہ نام نہادمغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے علبردار اپنی پوری قوت سے موجود تھے ،جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ اور دولت کی چمک دمک سے اسلامی انقلاب کی پیش قدمی روکنے کی کوشش کی چنانچہ عراق ایران جنگ ،جنگ خلیج اور نام نہاد ۹؍۱۱ کے بعد افغانستان پر چڑھائی جس میں انکی میڈیا کی اجارہ داری سے کسی حد تک کامیابی ملتی محسوس ہوئی تھی ۔دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ دنیا میں اسلام بس برائے نام ہی باقی رہے گا۔لیکن وہ تو احکم الحاکمین کی جانب سے دی گئی ڈھیل تھی چنانچہ وہی جنگ اور دہشت سرمایہ داروں کی موت کا پیغام ثابت ہورہا ہے ۔سرمایہ داروں کے امام اور اسرائیل کے سرپرست امریکہ کو عراق و افغانستان میں اپنی قوت گنوانے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ہاں اس کے لئے مسلمانوں نے بڑی قیمتیں چکائیں ہیں ۔لاتعداد عوام اور خواص نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی انقلاب بغیر خون بہائے رونما ہو ہی نہیں سکتا ۔لوگ کہتے ہیں کہ بھارت کی آزادی میں تو اہنسا نے ہی کام کیا اور بھارت آزاد ہوگیا۔جو لوگ یہ سوچتے ہیں وہ یا تو خود فریبی میں مبتلا ہیں یا پھر ان ہزاروں مجاہدین آزادی کی تحقیر کرنے کے مجرم ہیں ،جنہوں نے اپنے خون سے ایک زرین تاریخ کا روشن باب تحریر کیا۔میں یہاں پر مولانا مودودی ؒ کا اقتباس نقل کرنا چاہوں گاانہوں نے بہت ہی واضح الفاظ میں کہا کہ ’’انقلاب یا ارتقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے اور قوت ڈھل جانے کا نہیں ڈھال دینے کا نام ہے،مڑ جانے کو قوت نہیں کہتے موڑدینے کو کہتے ہیں۔دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا ،جو لوگ اپنا کوئی اصول ،کوئی مقصد حیات،کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں،جو بلند مقصد کے لئے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں،جن کو دنیا میں آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو ،جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں،ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کا کام ہے ،انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے،دنیا کے خیالات بدلے ہیں ،منہاج عمل انقلاب پیدا اور برپا کیا ہے۔زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کرچھوڑاہے‘‘۔
اردو ٹائمز ممبئی جمعہ 20 ؍جون کے ایک مضمون میں ڈاکٹر لعل خان ’’عراق :کالی آندھی کا اندھیرا‘‘کے عنوان سے فرماتے ہیں ’’بربادی ،سامراجی استحصال اور معاشی محرومیوں سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔پورے خطے کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں یکجا کرکے ہی فرقہ وارانہ،قومی،مذہبی اور نسلی تعصبات سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے ‘‘۔مضمون نگار پتہ نہیں کس سوشلسٹ انقلاب کی بات کررہے ہیں ۔روس کے سوشلسٹ انقلاب کی جو صرف 75 سالوں میں آنجہانی ہو گیا ۔اس انقلاب کی تاریخ روح فرسا ہے ۔ہمیں معلوم ہے کہ اس انقلاب نے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا خون بہایا ،مساجد پر تالے لگائے ،علماء کا قتل عام کیا گیا ،مذہبی کتابوں خصوصا قرآن کو دریا برد کیا گیا یا جلا دیا گیا ۔یا چین کے سوشلسٹ حکومت کی جسے شعار اسلام سے خدا واسطے کا بیر ہے کہ اس نے اپنے شہریوں پر روزہ رکھنے کی پابندی لگا رکھی ہے ۔یا اتا ترک کے سیکولر انقلاب کی جس نے اذان اور نماز پر پابندی لگائی شراب خانے کھلوائے اور جوئے اور قمار بازی کو ترک معاشرے میں عام کیا اور صرف اسلام دشمنی کے نام پر۔اگر انقلاب یہی ہے کہ کسی مذہب کے ماننے والوں کو قتل کردیا جائے انہیں بالجبر کسی عقیدہ کوماننے پر مجبور کیا جائے تو ایسے انقلاب سے جمود ہی بھلا۔بھلا وہ انقلاب کہاں اور کس طرح انسانیت کی فلاح کا کام انجام دے سکتا ہے جس کو دنیا کی ایک بڑی آبادی نے مسترد کردیا ہو ۔ ہمارا کہنا ہے کہ تم کسی کی بات نہ کرو تم ایک بار صرف پانچ سال کیلئے اسلام کے مکمل نظام کی حمایت کرنے والی اور اسے نافذ کرنے والی حکومت کی تائید نہیں تو کم از کم اس کے خلاف سازشیں نہ کرو اور اپنی قوت اسے رد کرنے کی بجائے انسانیت کی بھلائی میں صرف کرو تو یقین جانو کہ اسلام صرف پانچ سال کے مختصر عرصے میں ہی دنیا کو وہ سب کچھ دے گا جس کو مغربی جمہوریت ،سوشلسٹ اور کمیونسٹ انقلاب سو اور دو سو سال میں بھی نہیں دے سکے ۔لیکن تم باطل پرست ایساکبھی نہیں ہونے دو گے کیوں کہ اسلام کا شجر سایہ دار والی حکومت صرف پانچ سالوں میں ہی انسانوں کے دلوں کو تسخیر کرکے تمہیں ہمیشہ کیلئے مسترد کردے گی ۔اور تم انسانیت کی بھلائی چاہتے ہی نہیں ہو ۔تم آزادی نسواں کے بہانے تمہیں عورتوں تک پہنچنے کا راستہ چاہئے ۔تمہیں بے لگام آزادی چاہئے ۔جس سے کہ تمہیں آوارہ گردی اور بد کاری کے کھلے راستے دستیاب ہو جائیں جس کی زہریلی فصل دنیا ایڈز کینسر اور اس جیسے ان گنت بیماریوں کی صورت میں کاٹ رہی ہے۔
نہال صغیر۔ممبئی ۔موبائل: 9987309013

0 comments: