English
If there are images in this attachment, they will not be displayed.
Download the original attachmentانسداد فرقہ وارانہ تشدد، ضبط اوربازآبادکاری ء متأثرین بل2005 پرامور داخلہ پر
پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی رپورٹ پر تقریظ(تنقیدی مضمون) سینیئر ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالہ نے تیار کیاہے۔
13دسمبر 2006 کوامور داخلہ پرمحکمہ جاتی پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی رپورٹ (122ویں رپورٹ) راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں پیش کی گئی۔ رپورٹ کوبہرصورت عوام کے سامنے پیش کی جانی چاہئے اور اسےمتمدن سماج کے اراکین کی‘ذاتی آزادی’ کومتأثر کرنے والےمختلف اہم کلیدی مسائل پرمباحثہ ومذاکرہ کا مکلف بنایاجاناچاہئے نیزمختلف مذہبی،لسانیاتی اور نسلی جماعتوں کے مابین سماجی ہم آہنگی ویکجہتی کی حفاظت اوراِن سب سے پرے فرقہ وارانہ تشدد کی روک تھام میں حکومت اور ساتھ ہی ساتھ غیر حکومتی عوامل کی ذمہ داری و جوابدہی پر بحث ہونی چاہئے اور ان معاملات میں جہاں قصوروار کو سزا دینے کے لئے احتیاطی اقدامات کے باوجود فرقہ وارانہ تشدد رونماہوتاہے حکومتی عوامل کی فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے میں ناکامی پر جوابدہی اور فرقہ وارانہ تشدد کو قابو میں کرنے یا روکنے میں ان کے کردارکی جانچ پر مفصل بحث ہونی چاہئے ۔
فرقہ وارانہ تشدد( انسداد،انضباط اور متأثرین کی بازآبادکاری) بل 2005 (اختصار کےساتھ ا سے سی وی پی بل 2005 کہا جاتا ہے) اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کرنے سے قبل اس کی شِقوں کو عوامی مباحثہ سے مشروط کیا گیا تھا۔ اس بل کا مقصد مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے اندر اعتمادجاگزیں کرنا اور ان کے خلاف تشد دکا خوف ہٹانا تھا۔عوامی مباحثہ کے دوران متعدد تنظیموں نے سی وی پی بل 2005 میں متنوع خامیوں کی طرف اشارہ کیا اور مندرجہ ذیل مختلف نکات پر اپنی شدید تشاویش کا اظہارکیا جنہیں یا تو نظراندازکیاگیا یا حکومت اور اسٹینڈنگ کمیٹی نے مناسب طور سے مخاطب نہیں کیا۔
ایکٹ کا نفاذ
دفعہ1 ذیلی دفعہ4
مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں اس ایکٹ کےنفاذ کا اختیارمرکزی حکومت کے پاس ہے او مرکزی حکومت سرکاری گزٹ میں نوٹیفیکیشن کے ذریعہ ایکٹ کے نفاذ کی تاریخ کا اعلان کرکے اسے کبھی بھی نافذ کرسکتی ہے لیکن جہاں تک ریاستوں کی بات ہے تو اسکے نفاذ کی اسکیم کچھ اس طرح ہے کہ صرف راحت اور بازآبادکاری سے متعلق شِقوں( فرقہ وارانہ تشدد کے انسداد اورامتناع کی شقوں کو خارج کردیاگیاہے)کو مرکزی حکوت سرکاری گزٹ میں نوٹیفیکیشن کے ذریعہ تواریخ کا علان کرکے اسے نافذ کرسکتی ہے اور مختلف دفعات کے نفاذکےلئے مختلف تاریخ مخصوص کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک فرقہ وارانہ تشدد کے انسداداورامتناع کی بات ہے تو یہ ریاستی حکومت کے ذمہ کردیاگیاہے کہ وہ جب چاہے سرکاری گزٹ میں نوٹیفیکیشن کے ذریعہ ان دفعات کے نفاذکی تاریخ متعین کرکے نافذکرسکتی ہے۔
لہٰذا پارلیمنٹ کے ذریعہ ایکٹ منظورہونے پر کوئی بھی دفعہ نافذ نہیں ہوگی کیونکہ اس کی تنفیذ کا اطلاق مرکزی حکومت / ریاستی حکومتوں کی شیریں خواہشات پر منحصرہوگا۔ عوام ایک موثر قانون کافوری نفاذ کےساتھ مطالبہ کر رہے ہیں نہ کہ قانون مسطور کوایک اور قانون سے مزین کیا جائے۔ کسی بھی ملک میں اس وقت تک اچھی حکمرانی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی کل آبادی کے تمام طبقات مامون ومحفوظ نہ محسوس کریں۔ لہٰذا چونکہ یوپی اے حکومت نے اچھی حکمرانی کا وعدہ کیاہے اس لئے یہ اس کا فرض ہے کہ وہ ایک موثر قانون وضع کرے اور اسے فوراً نافذ کرے جو فرقہ وارانہ تشدد کو روکے گا۔( ایکٹ کی شِقوں کی تنفیذ کی یہ پوری اسکیم سیاسی عزم کی کمی کی عکاسی کرتی ہے)۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے انسداد اور امتناع سے متعلق دفعات کی تنفیذ ریاستی حکومتوں کی مرضی پر کیوں چھوڑدیاگیاہے۔ یہ خیال کیاجاتاہے کہ مرکزی حکومت نے سی وی پی بل 2005 کی دفعات پر ریاستی حکومتوں سے جواب مانگاہوگا۔ عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کس ریاست نے ایکٹ کو فوراً نافذ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور کس ریاست نے مخالفانہ طرزعمل اختیار کیاتھا۔ لہٰذا مرکزی حکومت کے لئے عوام کو یہ مطلع کرنا ضروری ہے کہ کونسی ریاستیں مذکورہ ایکٹ کو فوری اثر کے ساتھ نافذ کرنا چاہتی ہیں اور کونسی ریاستیں نہیں چاہتی ہیں۔ سی وی پی بل 2005 اپنےصحیح نفاذ کے بغیر محض ایک پریشان کن فریب اور ایک غیر حقیقی وعدہ ہے۔ یہ بنا دانتوں والا شیر ہے جو دہاڑ بھی نہیں سکتا۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا ردعمل
اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ ظاہرکرتی ہے کہ اس نے اس بنیادی مسئلے پر غور تک بھی نہیں کیاہے۔ یہ انتہائی افسوسناک معاملہ ہے۔ یوپی اے حکومت کو سی وی پی بل 2005 میں اصلاح متعارف کرانا اور اسے فورا قابل نفاذ بنانا چاہئے۔
مجوزہ قانون کے طریق کار کا معائنہ کرنے پر پتہ چلتاہے کہ ایکٹ کی فرقہ وارانہ تشدد کے انسداداور امتناع سے متعلق دفعات اس وقت نافذالعمل ہوں گی اگر متعلقہ ریاست یا مرکزی حکومت کسی بھی ریاست میں مخصوص علاقے کو ‘‘شورش زدہ علاقہ’’ اعلان کرے۔ یہ پوری تجویز اور طریق کار مندرجہ ذیل خامیوں کا دروازہ کھول رہے ہیں جس پر اسٹینڈگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کچھ بھی خامہ فرسائی نہیں کی ہے۔
(الف) کسی بھی علاقے کو ‘شورش زدہ ’ قرار دینے کے لئے سی وی پی بل 2005 میں جو شرائط درج کی گئی ہیں اس سے توقع کے برعکس منفی نتائج برآمد ہوں گے لہٰذا وہ غیر ضروری ہیں۔اعتراض کی وضاحت کرتے ہوئے سی وی پی بل 2005 کا خاکہ یہ فراہم کرتا ہے کہ کسی علاقے میں شیڈول (جدول)میں صراحت کردہ جرائم( بل میں قتل شامل ہے لیکن رپورٹ میں دیگر سنگین جرائم مثلاً عصمت دری اورڈاکہ زنی کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے) پیش آتے ہیں تو اس وقت یہ اعلان کیا جا سکتا ہے کہ فلاں علاقہ شورش زدہ ہے۔ لیکن اس بات کی کوئی وضاحت نہیں پیش کی گئی ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کو اس حد تک کیوں خراب ہونے دیاجائے کہ جہاں شیڈول جرائم کا ارتکاب ہو اور اصول جوابدہی کیوں نہیں متعارف کرائے گئے جس کےمطابق اس پولس اسٹیشن کے انچارج افسر کو جس کے ماتحت آنے والے علاقے میں اس طرح کے مذکورہ جرائم کئے جاتے ہیں جوابدہ ہوناچاہئے ۔مشورہ یہ ہے کہ جب بھی کسی پولس اسٹیشن کے ماتحت آنے والے علاقے میں نظم و نسق منظم طور سے تباہ ہوتاہے تو متعلقہ پولس افسر کو کمان سنبھالنے کی ذمہ داری کے اصول کے تحت جوابدہ بنایاجانا چاہئے۔ بدقسمتی سے معاملے کے اِس کلیدی پہلوپر اسٹینڈنگ کمیٹی پر کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔
(ب) سی وی پی بل 2005 میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس کے تحت سرکاری عوامل کوبغض و بدنیتی سے یا کسی اور خارجی مقصد سےایک مخصوص علاقہ کو ‘‘شورش زدہ علاقہ’’ قرار دینے اور اس کے بعد سی وی پی بل 2005 کے باب سوم(دفعات 7تا 23) کی شقوں کو اس ‘‘ شورش زدہ علاقہ’’ کی آبادی کے خلاف آمرانہ،من موجی اور بے اصولی انداز میں استعمال کرنے پر جوابدہ بنا جا سکے۔
(ج) اس کے برعکس سی وی پی بل 2005 میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس کے تحت کسی علاقے کو‘‘شورش زدہ علاقہ ’’ قرار دینے کے لئے زمینی حقائق، اسباب، حالات موجود ہونے کے باوجود اس مخصوص علاقے کو شورش زدہ قرار نہ دینے پر سرکاری عوامل کو جوابدہ بنایاجاسکے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا رد عمل مندرجہ بالا قلم بند کی گئی تجاویز کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔
جہاں تک پولس، عسکری/نیم عسکری طاقتوں کے ذریعہ فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے یا قابو میں کرنے کے لئے طاقت کے استعمال کی بات ہے تو ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ حُکَّام نے ہمیشہ اس طرح کے اختیارات کا استعمال مذہبی اقلیتوں اور حاشیہ پر کھڑے سماج کے دیگر طبقات مثلاً دلتوں کے خلاف کیا۔ بل میں اس طرح کی کوئی معقول شِق نہیں ہے جس کے تحت پولس/فوج/نیم فوجی طاقتوں کو مذہبی اقلیتوں اور حاشیہ پر کھڑے سماج کے دیگر طبقات مثلاً دلتوں کے خلاف طاقت کابے ایمانی سے، حد سے زیادہ، جانبدارانہ اور متعصبانہ استعمال کرنے پر جوابدہ بنایاجاسکے۔ اس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو صریح اور مکمل طورپرنظراندازکیاگیا۔اگر اس طرح کے اختیارات معاندانہ طورپر اقلیتوں کی اکثریت والے علاقوں میں استعمال کئے گئے اور اُن علاقوں پر دہشت کی حکمرانی مسلط کردی گئی تو؟ اِس کے لئے بھی کوئی جوابدہی نہیں۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا رد عمل مندرجہ بالا قلم بند کی گئی تجاویز کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔
سی وی پی بل 2005کے باب سوم اور شِق نمبر5کے تحت ضلع مجسٹریٹ کو یہ اختیارات دیئے گئے ہیں کہ جب اسے نقض امن اور مختلف مذہبی گروہوں کے اراکین کے درمیان نزاع پیداہونے کا خطرہ ہو تو وہ احتیاطی اقدامات کرسکتاہے۔ اسے یہ اختیاردیاگیا ہے کہ وہ تحریری حکمنامہ کے ذریعہ کسی بھی ایسے عمل کو روک سکتاہے جو اس کے خیال میں دوسری کمیونٹی،جات یا گروہ کے ذہن میں تشویش کا باعث ہوسکتاہے یا کسی ایسے کام کو جس کا مقصدکمیونٹی،جات یا گروہ کو ڈرانا دھمکانا یاان کے خلاف بغض و عناد پھیلانا ہو وہ حفظ ماتقدم کے طورپر روک سکتاہے۔ ضلع مجسٹریٹ کو مندرجہ بالا شِق کے تحت جو اختیارات دیئے گئے ہیں اگر ان کا معقول استعمال کیاجاتاہے تو ممکن ہےکہ کسی علاقے میں فرقہ وارانہ تناؤ کو جوعموماً آگے چل کر فرقہ وارانہ فسادمیں تبدیل ہوجاتاہے ختم کرنے میں موثر ثابت ہوسکے۔ لیکن اس طرح کے فرمان کی پیروی نہ کرنے یا حکم عدولی کرنے کے نتائج کےلئےبِل میں کوئی شق نہیں ہے۔اس خامی کا ازالہ کیاجانا چاہئے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا ردعمل رپورٹ میں مندرجہ بالا خلا کو نظراندازکیاگیاہے۔
دفعہ 7 افسر مجاز کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ طور پر شورش زدہ علاقہ میں کسی بھی شخص،افراد کے گروہ یا تمام افراد کو فوراً اپنے تمام اسلحے،گولہ بارود،دھماکہ خیز اشیاء اورگلا دینے والے مادے قریبی پولس اسٹیشن میں جمع کرنے کا حکم دے سکے۔ تاہم اس دفعہ میں ایک فقرہ شرطیہ(شِق)کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت افسرمجاز کسی فرد یا افراد کے گروہ کو اس طرح کے حکم پر عمل کرنے سے مستثنیٰ کرسکتاہے۔ اِس شِق کا اثر، جو افسر مجاز کو بے قاعدہ اور بے لگام اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی ‘‘فرد’’ یا ‘‘ افرادکےگروہ’’ کواِس طرح کے حکم پر عمل کرنے سے مستثنیٰ کرسکتاہے، دفعہ کےکلیدی شِق کےاثر کو زائل کردے گا۔سی وی پی بل 2005 میں افسرمجاز کو کوئی رہنماخطوط مہیانہیں کئے گئے ہیں کہ کب اسے کسی فرد یا افراد کے گروہ کو حکم کی تعمیل سے مستثنیٰ قرار دینا چاہئے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا ردعمل رپورٹ کے پیرا5.6.2 کے مطابق داخلہ سکریٹری کا جواب اطمینان بخش نہیں ہے۔ طاقت استعمال کرنے سے متعلق راہنما ہدایات قانون مسطور میں ہونا چاہئے۔
سی وی پی بل 2005 کی دفعہ 10فرقہ وارانہ طور پر شورش زدہ علاقہ میں افسر مجاز کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ طور پر شورش زدہ علاقہ میں
افردا کے طرز عمل سے متعلق احکامات جاری کرسکے۔ اس شِق کو بھی منتخب طور سے مذہبی اقلیتوں اور حاشیہ پر لاکھڑ کردیئے گئے افراد مثلاً دلتوں کے مفاد کے خلاف استعمال کیا جاسکتاہے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا ردعمل رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ سی وی پی بل 2005 کی دفعہ 10 کواسٹینڈنگ کمیٹی نے نظراندازکیاہے۔
سی وی پی بل 2005 کی دفعہ11 فرقہ وارانہ طور پر شورش زدہ علاقہ کے اندر یا اس کے قُرب میں آوارہ گردی سے روکتی ہے۔ ایک پولس افسر یا وہ شخص جسے(اس میں کانسٹیبل بھی شامل ہوسکتاہے) افسر مجاز نے قانونی اختیار دیاہے کسی بھی آدمی کو علاقہ چھوڑنےکے لئے کہہ سکتاہے۔ جو بھی مذکورہ دفعہ کی اِ س شِق کی بغیر جائز اورموزوں سبب کے مخالفت کرتاہے وہ جرمانہ کے ساتھ ایک سال کی سزا یا دونوں کا سزاوارہوگا۔ فرقہ وارانہ طور پر شورش زدہ علاقہ میں کام کرنے والے حقیقی سماجی کارکنان کے خلاف اِن دفعات میں سے چندمنتخب شدہ شِقوں کااستعمال کیاجاسکتاہے۔ اس شِق کو مذہبی اقلیتوں اورحاشیہ پر کھڑے طبقات کے افراد مثلاً دلتوں کے خلاف بھی کیا جاسکتاہے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کاردعمل رپورٹ میں سی وی پی بل 2005 کی شق 11 کےتعلق سے پیش کی گئی تجاویز پر کوئی تأثر نہیں ظاہرکیاگیاہے۔
سی وی پی بل 2005 کی شق نمبر13 اور14 میں مجرم کی مدد کرنے والے کو سزادینے کی بات کہی گئی ہے۔فسادمتأثرین کو مالی مدد پہونچانے سے روکنے کے لئےمذہبی اقلیتوں اور حاشیہ پر کھڑا کردیئے گئے سماج کے دیگر طبقات کے افراد مثلاً دلتوں کے خلاف اس شِق کو استعمال کیاجاسکتاہے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا ردعمل مذہبی اقلیتوں اور حاشیہ پر لاکھڑاکردیئے گئے سماج کے دیگر طبقات کے اندیشوں پر اسٹینڈنگ کمیٹی نے کوئی رد عمل ظاہرنہیں کیاہے۔
سی وی پی بل 2005 کی شق نمبر17 بہت اہم ہے جس کے تحت سرکاری افسر جرمانہ کے ساتھ تین سال کی سزا یا دونوں ہوسکتی ہے جو قانون کے تحت عطاکئے گئے قانونی اختیار کا بدنیتی سے استعمال کرتاہے یا قصداً اپنے اس اختیارکاا ستعمال نہیں کرتا ہے اور بالآخر فرقہ وارانہ تشدد کو رونماہونے سے روکنے میں ناکام ہوجاتاہے ۔ تاہم کوئی بھی عدالت ریاستی حکومت سے پیشگی اجازت لئے بغیراس دفعہ کے تحت معاملہ کی سماعت نہیں کرسکتی۔ ریاستی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ حصول اجازت کے لئے ہر درخواست پردرخواست کی تاریخ سے لے کر اگلے30 دن کے اندرفیصلہ صادرکرے۔
ریاستی حکومت سے اجازت حاصل کرنے کا یہ عمل بالکل غیر ضروری ہے اورسچ بات تو یہ ہے کہ اس سے شق نمبر21 کی اصل ذیلی شق کا اثر باطل ہوجائے گا۔ تجربہ نے یہ دکھایا ہے کہ ریاست حکومتیں سرکاری افسران کے خلاف اس طرح کی قانونی چارہ جوئی کے لئے اجازت دینے میں کراہت سے کام لیتی ہیں۔ اگر ریاستی حکومت اجازت دینے سے انکارکردیتی ہے تو پھر غمزدہ افرادکے پاس فرض سے کوتاہی برتنے کے جرم میں سرکاری افسر کے خلاف قانونی کارروائی کرنےکا کوئی اور راستہ نہیں بچتاہے۔ لہٰذا قصداً اپنے فرض سے کوتاہی برتنے والے یااپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والےایک خاطی سرکاری افسرکاقانونی علاج ایک وہم ہے۔
مزید برآں اس حقیقت کے باوجود کہ ایک علاقہ کو فرقہ وارانہ طور پرشورش زدہ قرار دینے کے لئےمبنی بر حقیقت جواز موجودتھا لیکن اس کے باوجود ریاستی یا مرکزی حکومت نے اسے شورش زدہ قرارنہیں دیا ایسی صورت میں ریاستی یا مرکزی حکومت کے خلاف فسادمتأثرین کے لئے کیا علاج ہے؟ اس طرح کے معاملے میں ایکٹ کی اہم شِقیں غیر موثر ہوجائیں گی۔ اس لئے جب تک مرکزی حکومت یا ریاستی حکومتیں اپنی نااہلی کے لئے جوابدہ/ قابل باز پرس نہیں بنایاجائے گا بے دانت قانون کو نافذ کرنے کی ساری مشق عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہوگی۔ اس پوری کوشش کا مقصدمتعلقہ سیاسی جماعتوں کو یہ کھوکھلا دعویٰ کرنے کے لئےکہ انہوں نے اپنا انتخابی وعدہ پوراکردیا ہے بنیاد فراہم کرناہے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا ردعمل رپورٹ کے پیرا5.9.2 میں شامل حکومت کا ردعمل اعتراضات کے اہم نکات کاحل نہیں پیش کررہاہے۔
سی وی پی بل 2005 کی دفعہ18 میں فوجداری قانون کی دفعہ144 کے تحت احکام کی خلاف ورزی کرنے پر سزا دینے کے اختیار دیاگیاہے۔۔ اس دفعہ میں ایک بار پھر سی وی پی بل 2005 کی دفعہ 5 کا ذکر نہیں کیاگیاہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص سی وی پی بل2005 کی دفعہ 5 کے تحت حکم کی مخالفت کرتاہے تو اِس دفعہ کے تحت اُس کے خلاف مقدمہ نہیں چلایاجاسکتا۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ اس مسئلے پر بالکل خاموش ہے۔
سی وی پی بل 2005 کی دفعہ 22 میں ریاستی حکومت کے ذریعہ ریویو کمیٹی تشکیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے جس کی قیادت انسپکٹر جنرل آف پولس کی سطح کا افسر کرے گا۔ تاہم اس تعلق سے ایک ابہام ہے کہ ان لوگوں کی تعداد اور لیاقت کیا ہوگی جواس کمیٹی کی تشکیل کریں گے۔ ریویو کمیٹی کو کسی بھی ایسے معاملے میں تازہ تحقیقات کا حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے جس میں ایف آئی آر درج کرنےکی تاریخ سے لےکر اگلے تین ماہ کے اندر فرد جرم(چارج شیٹ) داخل نہیں کیاگیاہے۔اور یہ تحقیقات ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدےسے نیچے کا کوئی افسر نہیں کرے گا۔ ریویو کمیٹی کی قیادت ان افسران کو کرنی چاہئے جو قانونی تجربہ رکھتےہیں اوروہ پولس عملہ والا نہیں ہونا چاہئے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ اس مسئلے پر بھی خاموش ہے۔
سی وی پی بل 2005 کی دفعہ 23 میں ریاستی حکومت کے ذریعہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم(اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم)تشکیل کرنے اختیار دیاگیاہے۔ جب ریاستی حکومت اس بات سے مطمئن ہوجائے کہ فرقہ وارانہ طور پر شورش زدہ علاقے میں کئے گئے جرائم کی تحقیقات منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں نہیں کی گئی ہے تو وہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کرسکتی ہے۔ گجرات اور ممبئی کے فسادات سے یہ تجربہ ہواہے کہ بے شمار شواہد موجود ہونے کے باوجود کہ فساد سے متعلق معاملات کی تحقیقات نہ تو منصفانہ تھی اور نہ ہی غیرجانبدارانہ ریاستی حکومتوں نے آنکھیں موند لیں۔ برسراقتدار سیاسی جماعتیں اس طرح کے حالات میں اپنےسیاسی تأملات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرتی ہیں۔ وہ سیاسی شرمندگی سے بچنے کے لئے یااپنے سیاسی حامیوں اور بہی خواہوں یا اپنے افسران مع سپاہیوں کو ڈھال فراہم کرنے کے لئے فساد سے متعلقہ معاملات کی منصفانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کرانے سے حتیٰ الامکان گریز کرتی ہیں۔ غیرجانبدارانہ،منصفانہ اور معروضی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے لئے سی وی پی بل 2005 میں کوئی شِق نہیں ہے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا ردعمل اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں اس مسئلے پر گفتگو نہیں کی گئی ہے۔
سی وی پی بل 2005 کے باب(چپیٹر) IX میں 49ویں تا52 ویں دفعات راحت اور بازآبادکاری کے لئے فنڈ پر مشتمل ہیں۔ بل کی شقوں کے مطابق راحت اور بازآبادکاری کونسلوں(ریلیف اینڈ ری ہیبی لیٹیشن کونسلس) کی تشکیل تنقیدکی گئی ہے۔ اس طرح کی کونسلوں کی اثرپذیری مشکوک ہے کیونکہ کونسل ان راکین پر مشتمل ہوگی جوحکومت کے نامزدکردہ ہوں گے۔یہ اندیشہ ظاہر کیاجاتا ہے کہ حکومت کے اس طرح کے نامزدکردہ اراکین فسادمتأثرین کی راحت اور بازآبادکاری کے لئے موثر اقدامات نہیں کرتے۔ مزید برآں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فساد متأثرین کو مناسب راحت اور بازآبادکاری فراہم کرے۔ ملک دشمن اور سماج دشمن عناصر کو جو فرقہ وارانہ تشدد پھیلاتے ہیں بہر صورت یہ احساس کرانے کی ضرورت ہے کہ بازآبادکاری اور راحت رسانی کی قیمت سماج کو برداشت کرنی ہے۔ یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ راحت اور بازآبادکاری کے اس پورے معاملے کوایک الگ قانون میں شامل کیا جائے اور اِسے بالکل اُسی قانون کا حصہ نہیں بنایاجانا چاہئے۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا ردعمل اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں سی وی پی بل 2005 کی 49ویں تا52ویں دفعات میں اٹھائے گئے اعتراضات پر کوئی تأثر نہیں ظاہرکیاگیاہے۔
سی وی پی بل 2005 کے باب X فساد متأثرین کو معاوضہ دینے سے متعلق ہے۔ دفعہ53 فسادمتأثرین کو معاوضہ فراہم کرانے کے بارے میں ہے۔ یہ ان کے لئے ایک وہمی/خیالی راحت ہے۔ اِس دفعہ کے اندر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ معاوضہ وہ شخص اداکرے گا اِس ایکٹ کے تحت قابل تعزیز جرم کا مرتکب پایاجاتاہے۔
پہلی بات تو یہ کہ ماضی کے فرقہ وارانہ فسادات کے تجربات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ بہت ہی کم افراد کو فرقہ وارانہ فسادات کے دوران کئے گئے جرائم کی سزا ملتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس طرح کے جرائم میں معاشی درجہ بندی کے سب سے نچلے پائدان پر رہنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اوراگر ان کے خلاف جرم ثابت ہوجاتاہے تو ان کے پاس فسادمتأثرین کو معاوضہ دینے کے وسائل نہیں ہوتے۔ اس پورے ایکٹ میں اصل خامی یہ ہے کہ اس میں ان افراد یا تنظیم کے پیچھے نہیں پڑاگیا ہے جو واقعتاً فساد کی سازش اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ جسٹس سری کرشناکمیشن رپورٹ میں بال ٹھاکرے کو ملزم ٹھہرایاگیاتھا جس نے فسادکرانے میں ماہر جنرل کا کردار اداکیاتھا لیکن بال ٹھاکرے فرقہ وارانہ تشدد کے کسی بھی منظر میں موجودنہیں تھا اور فسادسے متعلق کسی بھی معاملے بشمول آتش زنی، جائداد واملاک کی تباہی،ڈاکہ زنی، جسمانی نقصان یا فساد متأثرین کی موت میں اسے ملزم نہیں ٹھہرایاگیا۔ جب تک ہم کوئی ایسا موثرقانون وضع نہیں کرتے جس کے تحت کسی بھی تنظیم کو،خواہ وہ سیاسی ہو،سماجی ہو یا کمیونٹی پر مبنی ہو یا بصورت دیگر، فرقہ وارانہ تشدد کے لئے قابل باز پرس اور جوابدہ نہیں بناتے اور انہیں فساد متأثرین کو معاوضہ دینے کے لئے قانونا ذمہ دار نہیں بنایاجاتا اور اس طرح فسادات کروانے کی اس ‘صنعت’ کو نقصان دہ صنعت میں تبدیل نہیں کیا جاتا فرقہ وارانہ فسادات کو دوبارہ رونماہونے سے روکنے کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ بل میں اس طرح کی شِقیں نہیں ہیں۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کا ردعمل اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں مذکورہ بالا اعتراضات پر کچھ بھی خامہ فرسائی نہیں کی گئی ہے۔
فرقہ ورانہ تشدد کو روکنے کے لئے قانون کو موثر بنانے کے لئےمذکورہ بالا اعتراضات کے علاوہ کچھ مثبت تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں لیکن ان تمام تجاویز کو نظراندازکردیاگیا اور ایساظاہرہوتا ہے کہ ان تجاویز کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے بھی نہیں پیش کیا گیاہے۔ یہ تجاویز مندرجہ ذیل ہیں۔
(الف) فرقہ وارانہ فسادات کو1948 کے جینوسائڈکنونشن کی شِقوں کے مطابق جسے ہندوستان نے 1949 میں تسلیم کیاراجینوسائڈ کے برابر قرار دیاجائے۔
(ب) اس ضمن میں آئرلینڈ،جرمنی وغیرہ کے ذریعہ جینوسائڈ(نسل کشی) کے موضوع پر جو مسودہ اور قانون تیار کیا ہےاس کامطالعہ مفید ہوگا۔ کچھ ممالک نے جو قوانین وضع کئے ہیں وہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔
(ج)یہ بالکل موزوں وقت ہے کہ کسی بھی پولس اسٹیشن کے ماتحت آنے والے علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد کا وقوع ہی اپنے آپ میں معقول سبب ہونا چاہئے کہ res gestae loquiter کا اصول لاگو کیا جائے اور اس طرح کے افسران کے ذریعہ فرض سے کوتاہی معاملے کو فوجداری جرم کا معاملہ قراردیاجانا چاہئے اور اس کے لئے اس علاقے کے تمام اعلیٰ پولس افسران کے خلاف فوجداری معاملہ درج کیا جانا چاہئے۔مزید برآں پولس مینوأل (Manuals) یا پولس سروس کی شرائط میں یہ ترمیم کی جائے کہ کسی بھی پولس یا انتظامی افسران کے علاقے میں جن کی ڈیوٹی عوامی شانتی برقرار رکھنا اور عوامی بد نظمی کو ٹالنا ہے اس طرح کاکوئی بھی واقعہ رونما ہونے پر اُس واقعے کواُن کے خلاف تادیبی کارروائی کے لئے ،فوری معطلی اور انجام کار سروس سے برخواستگی کے لئے وجہ بنایا جائے گا۔ یہاں تک کہ محکمہ جاتی تادیبی کارروائیوں کے لئے بھی خاطی سرکاری افسران کے خلاف Res ipsa loquiter کے اصول کو لاگو کیا جاسکتاہے۔
(د) بل میں ترمیم ہونی چاہئے اور نچلے یا ماتحت افسران کے ذریعہ طاقت کے غلط استعمال کے معاملے میں نیابتی فوجداری جوابدہی کی شِق متعارف کی جانی چاہئے نیز اعلیٰ سطح کے انتظامی یا پولس افسران بشمول ان کے سیاسی آقاؤں کو، جو عوامی نظم و نسق/ شانتی اور سرکاری و نجی جائدا د واملاک کے تحفظ سے متعلق قلمدان وزارت کے انچارج ہیں ، گھیرنے کے لئے Command responsibility کے تصور کو قانونی شکل دی جائے۔ قصہ مختصر یہ کہ عوامی تشدد کو شروع ہونے سے روکنے یا دبانے کے لئے اپنے دائرہ اختیارات میں تمام ضروری اور معقول اقدامات کرنے میں پولس افسران،بیوروکریٹس یا وزیر کی ناکامی متعلقہ فرد کے خلاف قانونی کارروائی اور مثالی سزاکے لئےمعقول وجہ ہونی چاہئے ۔
(ذ) یہ تعیین کرنی ضروری ہے کہ سرکاری افسر، حکومت یاسرکاری مشینری کی طرف سے فرض سے کوتاہی برتنا کیا ہے؟ فرض سے کوتاہی برتنے کا تصور بالکل واضح طور پر مجوزہ بل میں مذکور ہونا چاہئے۔
(س) فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے،قابو پانے کے معاملات میں سرکاری افسران یا سرکاری مشینری کی طرف سے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کے معاملات کی جانچ کے لئے ایک آزاد اور غیرجانبدار انکوائری کمیشن اوراسٹیٹ سکیورٹی مع ایڈمنسٹریشن کمیشن کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔ اور اس طرح کی انکوائری کمیشن کو یہ معقول طاقت حاصل ہونی چاہئے کہ وہ حکومت یا حکومتی مشینری/ سرکاری افسران کے خلاف فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی شکایات کی تحقیقات کرسکے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ اس طرح کی کمیشن کے لئے تحقیقاتی ایجنسیاں فراہم کرے۔
(ص) فساد متاثرین کو معاوضہ دینے کے لئےمجوزہ بل میں حکومت کی ذمہ داری کاتصور بھی مدغم کیاجانا چاہئے۔ یہ صرف قصورواروں کے اوپر نہیں چھوڑا جانا چاہئے کہ وہ فساد متأثرین کو معاوضہ دیں۔ کسی بھی فرقہ وارانہ تشدد کے شکار فساد متأثرین کو معاوضہ دینے کی ذمہ داریوں کو متعدد غیر ملکی عدالتوں مثلانیوزی لینڈمیں1964،برطانیہ میں 1964، اور بعد ازاں،کناڈا، شمالی آئرلینڈ، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور آسٹریلیا میں بھی تسلیم کیا گیا ہے اور اور فسادمتأثرین کو معاوضہ دینے کے لئے قوانین بنائے گئے ہیں۔ امریکن جورس پروڈنس(امریکی علم قانون) کے 11 ویں ایڈیشن،جلد نمبر54 سے مندرجہ ذیل اقتباس منقول ہے-:
‘‘ کئی عدالتی اختیارات میں قانون مسطور کے ذریعہ میونسپل کارپوریشنوں کو اُس نقصان کے لئے جو کسی شخص یا جائداد کوپرتشددہجوم کے فعل سے پہونچتاہےقانوناً ذمہ دار قرار دیا جاتا ۔ یہ قوانین اُس سرکاری ڈیوٹی کے اعتراف میں تشکیل کئے گئے ہیں جو حکومت نے امن اور نظم کو برقرار رکھنے اور جان واملاک کے تحفظ کے لئے میونسپلٹی کو اور دیگر ڈویژن کو تفویض کی ہے ’’۔
نیشنل پولس کمیشن کی چھٹویں رپورٹ(1981) میں بھی یہی مشاہدہ کیاگیاہے ‘‘ یہ انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ ان بدقسمت(فرقہ وارانہ فسادکےمتأثرین) افراد کے نقصانات کی تلافی کرے اور بازآبادکاری میں ان کی مدد کرے’’۔
(ض) قومی انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے حکومت کو پیش کی گئی اپنی مختلف رپورٹوں میں مذکور تجاویزوسفارشات کو نافذ کرنے کے لئے اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئے۔
0 comments: